دشمنان ختم نبوت کے خلاف فیض آباد پہلامعرکہ نہ تھا
{یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَنْ یَّرْتَدَّ مِنْکُمْ عَنْ دِیْنِہٖ فَسَوْفَ یَاْتِی اللہُ بِقَوْمٍ یُّحِبُّہُمْ وَیُحِبُّوْنَہٓ اَذِلَّۃٍ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ اَعِزَّۃٍ عَلَی الْکٰفِرِیْنَ یُجٰہِدُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللہِ وَلَا یَخَافُوْنَ لَوْمَۃَ لَآئِمٍ ذٰلِکَ فَضْلُ اللہِ یُؤْتِیْہِ مَنْ یَّشَآء ُ وَاللہُ وٰسِعٌ عَلِیْمٌ }(۵۴)
ترجمہ کنزالایمان: اے ایمان والو تم میں جو کوئی اپنے دین سے پھرے گا تو عنقریب اللہ ایسے لوگ لائے گا کہ وہ اللہ کے پیارے اور اللہ ان کا پیارا مسلمانوں پر نرم اور کافروں پر سخت اللہ کی راہ میں لڑیں گے اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کا اندیشہ نہ کریں گے یہ اللہ کا فضل ہے جسے چاہے دے، اور اللہ وسعت والا علم والا ہے۔
ترجمہ ضیاء الایمان:اے اہل ایمان :تم میں سے جو شخص اپنے دین سے پھرے گا تو عنقریب اللہ تعالی ایسی قوم لے آئے گا جن سے اللہ تعالی محبت کرتاہے اور وہ اللہ تعالی سے محبت کرتے ہیں مسلمانوں پر نرم اور کافروں پر سخت ہیں ، اللہ تعالی کی راہ میں جہاد کرتے ہیں اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہیں ڈرتے ۔ یہ االلہ تعالی کا فضل ہے جسے چاہتا ہے عطا فرمادیتا ہے اوراللہ وسعت والا، علم والا ہے۔
مدعی نبوت اسودعنسی کاانجام
وہو اسود العنسی کان کاہنا تنبأ بالیمن واستولی علی بلادہ حتی اخرج عمال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مثل معاذ بن جبل وسادات الیمن فکتب علیہ السلام الی معاذ بن جبل ومن معہ من المسلمین وأمرہم ان یحثوا الناس علی التمسک بدینہم وعلی النہوض الی حرب الأسود فقتلہ فیروز الدیلمی علی فراشہ قال ابن عمر فأتی الخبر النبی علیہ السلام من السماء اللیلۃ التی قتل فیہا فقال علیہ الصلاۃ والسلام (قتل الأسود البارحۃ قتلہ رجل مبارک)قیل ومن ہو قال (فیروز)فبشر علیہ السلام أصحابہ بہلاک الأسود وقبض علیہ السلام من الغد واتی خبر مقتل العنسی المدینۃ فی آخر شہر ربیع الاول وکان ذلک أول فتح جاء أبا بکر رضی اللہ عنہ ۔
ترجمہ :اسودعنسی نامی کاہن ، ا س نے یمن میں نبوت کادعوی کردیااوراپنے علاقوں پرچڑھ دوڑایہاں تک کہ حضورتاجدارختم نبوتﷺکے مقررکردہ حکام کوجیسے حضرت سیدنامعاذ بن جبل رضی اللہ عنہ اوران کے علاوہ بڑے بڑے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو یمن سے نکال دیااورحضورتاجدارختم نبوتﷺنے حضرت سیدنامعاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو خط لکھااوراس میں حکم شریف تھاکہ تم اپنے دین پرمضبوطی کے ساتھ قائم رہواوراس کے ساتھ جنگ کرنے کے لئے تیارہوجائو۔ چنانچہ حضرت سیدنافیروز الدیلمی رضی اللہ عنہ نے رات کے وقت اس خنزیرکواس کے بسترپرہی قتل کردیا۔ حضرت سیدناعبداللہ بن عمررضی اللہ عنہمافرماتے ہیں کہ رات کے وقت اللہ تعالی نے حضورتاجدارختم نبوتﷺکو اس کے قتل کے متعلق خبردے دی ۔ توحضورتاجدارختم نبوتﷺنے صبح کو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو فرمایاکہ اسودعنسی کذاب قتل کردیاگیاہے اوروہ بھی ایک مبارک بندے کے ہاتھوں ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کی : یارسول اللہ ﷺ!وہ مبارک شخص کون ہے ؟ توحضورتاجدارختم نبوتﷺنے فرمایا: وہ فیروز الدیلمی رضی اللہ تعالی عنہ ہیں۔ جس دن حضورتاجدارختم نبوتﷺنے اسودعنسی کے قتل کی خبردی اسی دن ہی حضورتاجدارختم نبوتﷺ کاوصال شریف ہوگیاچنانچہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو ربیع الاول شریف کی آخری تاریخوں میں اسود عنسی کے قتل کی خبرموصول ہوئی ۔ حضرت سیدناابوبکرالصدیق رضی اللہ عنہ کی یہ پہلی فتح تھی ۔
(روح البیان:إسماعیل حقی بن مصطفی الإستانبولی الحنفی الخلوتی (۲:۴۰۴)
مسیلمہ دجال کاانجام بد
والفرقۃ الثانیۃ من المرتدین بنوا حنیفۃ بالیمامۃ ورئیسہم مسیلمۃ الکذاب وکان قد تنبأ فی حیاۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فی آخر سنۃ عشر من الہجرۃ زعم انہ أشرک مع رسول اللہ فی النبوۃ وکتب الی النبی علیہ السلام من مسلمۃ رسول اللہ الی محمد رسول اللہ اما بعد فان الأرض نصفہا لی ونصفہا لک وبعث بذلک الکتاب رجلین من أصحابہ فقال لہما رسول اللہ علیہ السلام (لولا ان الرسل لا تقتل لضربت أعناقکما) ثم أجاب (من محمد رسول اللہ الی مسیلمۃ الکذاب اما بعد فان الأرض للہ یورثہا من یشاء من عبادہ والعاقبۃ للمتقین)فمرض علیہ السلام وتوفی فبعث ابو بکر خالد بن الولید الی مسیلمۃ الکذاب فی جیش کثیر حتی أہلکہ اللہ علی یدی وحشی غلام مطعم بن عدی قاتل حمزۃ بن عبد المطلب بعد حرب شدید وکان وحشی یقول قتلت خیر الناس فی الجاہلیۃ وشر الناس فی الإسلام یرید فی جاہلیتی وإسلامی.
ترجمہ :حضورتاجدارختم نبوتﷺکے زمانہ اقدس کادوسراگروہ جو مرتدہوگیاتھاوہ یمامہ کابنوحنیفہ قبیلہ تھا، ان کاسردارمسیلمہ کذاب اوردجال تھاجس نے حضورتاجدارختم نبوتﷺکے زمانہ اقدس میں نبوت کادعوی کردیاتھا، اوریہ سنہ (۱۰ھجری) کے آخرمیں رونماہوا، اس دجال کایہ گمان تھاکہ وہ حضورتاجدارختم نبوتﷺکے ساتھ نبوت میںبرابرکاشریک ہے ۔چنانچہ اس نے حضورتاجدارختم نبوتﷺکوخط لکھاجس کامضمون یہ تھاکہ
یہ مسیلمہ (جھوٹے مدعی نبوت) کی طرف سے حضورتاجدارختم نبوتﷺ(جواللہ تعالی کے سچے رسول ہیں)کی طرف ۔امابعد !جان لوکہ آدھی زمین میری اورآدھی آپ ﷺکی ۔
اس نے یہ خط اپنے دوساتھیوں کے حوالے کرکے حضورتاجدارختم نبوتﷺکی طرف روانہ کردیاحضورتاجدارختم نبوتﷺکے حضورمیں جب اس کے قاصدپہنچے توآپ ﷺنے فرمایاکہ اگرقاصدوں کو قتل کرنے کی ممانعت نہ ہوتی تومیں تم کو قتل کروادیتا۔
حضورتاجدارختم نبوتﷺنے اس کے جواب میں یہ خط روانہ فرمایا:یہ خط محمدمصطفی ﷺکی طرف سے مسیلمہ کذاب دجال کی طرف ، امابعد!زمین اللہ تعالی کی ہے وہ جسے چاہے عطافرمائے ،وہ جسے چاہے اس کامالک بنادیتاہے اورنیک انجام صرف متقین کے لئے ہے ۔
اس کے بعدحضورتاجدارختم نبوتﷺکاوصال شریف ہوگیا، آپ ﷺکے وصال شریف کے بعد حضرت سیدناابوبکرالصدیق رضی اللہ عنہ نے حضرت سیدناخالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو بہت بڑالشکردے کرروانہ فرمایااورانہوںنے جاکرمسیلمہ دجال کے ساتھ جنگ کی یہاں تک کہ مسیلمہ دجال کو مطعم بن عدی کے غلام حضرت وحشی بن حرب رضی اللہ عنہ نے قتل کردیا، یہ وہی وحشی ہیں جنہوںنے حضرت سیدناسیدالشہداء امیرحمزہ رضی اللہ عنہ کو شہیدکیاتھا۔ حضرت سیدناوحشی رضی اللہ عنہ فرمایاکرتے تھے کہ میں نے خیرالناس کو شہیدکیااوراسلام میں بدترین انسان مسیلمہ دجال وکذاب کو بھی میں نے ہی قتل کیا۔
(روح البیان:إسماعیل حقی بن مصطفی الإستانبولی الحنفی الخلوتی (۲:۴۰۴)
طلیحہ اسدی کادعوی نبوت کرنااورپھراس کاتوبہ کرنا
بنوا اسد ورئیسہم طلیحۃ بن خویلد وکان طلیحۃ آخر من ارتد وادعی النبوۃ فی حیاۃ رسول اللہ علیہ السلام وأول من قوتل بعد وفاتہ علیہ السلام من اہل الردۃ فبعث ابو بکر خالد بن الولید فہزمہم خالد بعد قتال شدید وأفلت طلیحۃ فمر علی وجہہ ہاربا نحو الشام ثم انہ اسلم بعد ذلک وحسن إسلامہ
ترجمہ :تیسراگروہ جو مرتدہوگیاتھاوہ بنواسداوران کارئیس طلیحہ بن خویلدتھایہ وہ آخری شخص تھاجس نے حضورتاجدارختم نبوتﷺکے زمانہ مبارک میں نبوت کادعو ی کردیاتھا، مرتدین میں یہی وہ پہلاگروہ تھاجن کے ساتھ حضورتاجدارختم نبوتﷺکے وصال شریف کے بعد قتال کیاگیا، اس کے مقابلے کے لئے حضرت سیدناابوبکرالصدیق رضی اللہ عنہ نے حضرت سیدناخالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو روانہ کیااس پربہت بڑی جنگ لڑی گئی بالآخرطلیحہ وہاں سے بھاگ نکلااوربعد میںمسلمان ہوگیااورحالت اسلام میں اس نے وفات پائی ۔
(روح البیان:إسماعیل حقی بن مصطفی الإستانبولی الحنفی الخلوتی (۲:۴۰۴)
منکرین زکوۃ کے ساتھ جہاد
عَنْ قَتَادَۃَ قَالَ:أنزل اللہ ہذہ الآیۃ یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا مَنْ یَرْتَدَّ مِنْکُمْ وَقَدْ عَلِمَ أَنَّہُ سَیَرْتَدُّ مُرْتَدُّونَ مِنَ النَّاسِ، فَلَمَّا قَبَضَ اللَّہُ نَبِیَّہُ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ارْتَدَّ عَامَّۃُ الْعَرَبِ عَنِ الْإِسْلَامِ إِلَّا ثَلَاثَۃَ مَسَاجِدَ:أَہْلُ الْمَدِینَۃِ، وَأَہْلُ مَکَّۃَ، وَأَہْلُ الجؤاثا مِنْ عَبْدِ الْقَیْسِ وَقَالَ الَّذِینَ ارْتَدُّوا:نُصْلِی الصَّلَاۃَ وَلَا نُزَکِّی وَاللَّہِ لَا تُغْصَبُ أَمْوَالُنَا، فَکُلِّمَ أَبَا بَکْرٍ فِی ذَلِکَ لِیَتَجَاوَزَ عَنْہُمْ، وَقِیلَ لَہُ:إِنَّہُمْ لَوْ قَدْ فَقِہُوا أَدُّوا الزَّکَاۃَ، فَقَالَ:وَاللَّہِ لَا أُفَرِّقُ بَیْنَ شَیْء ٍ جَمَعَہُ اللَّہُ وَلَوْ مَنَعُونِی عِقَالًا مِمَّا فَرَضَ اللَّہُ وَرَسُولُہُ لَقَاتَلْتُہُمْ عَلَیْہِ، فَبَعَثَ اللَّہُ عَصَائِبَ مَعَ أَبِی بَکْرٍ فَقَاتَلُوا حَتَّی أَقَرُّوا بِالْمَاعُونِ وَہُوَ الزَّکَاۃُ.قَالَ قَتَادَۃُ:فَکُنَّا نَتَحَدَّثُ أَنَّ ہَذِہِ الْآیَۃَ نَزَلَتْ فِی أَبِی بَکْرٍ وَأَصْحَابِہِ۔
ترجمہ :حضرت سیدناقتادہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالی نے یہ آیت کریمہ نازل فرمائی جبکہ اللہ تعالی کو علم تھاکہ لوگوں میں کچھ لوگ مرتدہوجائیں گے ، جب اللہ تعالی نے حضورتاجدارختم نبوتﷺ کواس جہان فانی سے اپنی طرف بلایاتوتمام عرب قبائل مرتدہوگئے سوائے تین مساجد والے ۔ اہل مدینہ منورہ ، اوربنوعبدالقیس میں سے اہل جواثی، جولوگ مرتدہوگئے انہوں نے کہاہم نماز پڑھیں گے ، مگرزکوۃ نہیں دیں گے ، اللہ تعالی کی قسم !وہ ہمارے مال غصب کرناچاہتاہے ، اس معاملے میں حضرت سیدناابوبکرالصدیق رضی اللہ عنہ سے گفتگوکی گئی تاکہ آپ ایسے لوگوں سے درگزرفرمائیں اورآپ رضی اللہ عنہ سے یہ بھی کہاگیاکہ یہ لوگ زکوۃ کی حکمت سمجھ جائیں گے توحضرت سیدناابوبکرالصدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اللہ تعالی کی قسم !میں دوایسی چیزوں میں فرق نہیں کروں گاجن کو اللہ تعالی نے اکٹھے ذکرفرمایاہے ۔ اللہ تعالی کی قسم !اگرانہوںنے بکری کی رسی کی زکوۃ دینے سے بھی منع کیاتومیں ان کے ساتھ جہا دکروں گا۔ اللہ تعالی نے حضرت سیدناابوبکرالصدیق رضی اللہ عنہ کے ساتھ جماعتیں بھیج دیں ، انہوں نے جہاد کیایہاں تک کہ انہوںنے زکوۃ دینے کاوعدہ کیا۔
حضرت سیدناقتادہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم یہ کہاکرتے تھے کہ یہ آیت کریمہ حضر ت سیدناابوبکرالصدیق رضی اللہ عنہ اورآپ کے ساتھیوں کے حق میں نازل ہوئی ۔
(السنن الکبری:أحمد بن الحسین بن علی بن موسی أبو بکر البیہقی (۸:۳۰۸)
منکرین زکوۃ کے خلاف اگرجہادنہ کیاجاتاتو۔۔
وقال الحسن لولا ما فعل ابو بکر لا لحد الناس فی الزکاۃ الی یوم القیامۃ.
ترجمہ:حضرت سیدناامام حسن بصری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اگرحضرت سیدناابوبکرالصدیق رضی اللہ عنہ منکرین زکوۃ کے ساتھ جہاد نہ کرتے توقیامت تک یونہی زکوۃ سے انکارہی رہتا۔
(روح البیان:إسماعیل حقی بن مصطفی الإستانبولی الحنفی الخلوتی (۲:۴۰۶)
مومن کافرپرسخت ہوتاہے اورمومن پرنرم
عَنْ عَلِیٍّ فِی قَوْلِہِ: (أَذِلَّۃٍ عَلَی الْمُؤْمِنِینَ)(المائدۃ:۵۴)أَہْلُ رِقَّۃٍ عَلَی أَہْلِ دِینِہِمْ (أَعِزَّۃٍ عَلَی الْکَافِرِینَ) (المائدۃ: ۵۴)أَہْلُ غِلْظَۃً عَلَی مِنْ خَالَفَہُمْ فِی دِینِہِمْ ۔
ترجمہ :حضرت سیدنامولاعلی رضی اللہ عنہ اس آیت کریمہ{اَذِلَّۃٍ عَلَی الْمُؤْمِنِینَ}کے تحت فرماتے ہیں کہ اہل ایمان کی شان ہے کہ وہ اپنے ہم مذہب لوگوں کے لئے بڑے نرم دل ہوتے ہیں اور{أَعِزَّۃٍ عَلَی الْکَافِرِین}وہ لوگ جوکافرہوتے ہیں یعنی ان کے دین کے مخالف ہوتے ہیں ان پربڑے سخت ہوتے ہیں۔
(زاد المسیر فی علم التفسیر:جمال الدین أبو الفرج عبد الرحمن بن علی بن محمد الجوزی (ا:۵۶۰)
مومن تومجاہدہوتاہے
عَنْ مُجَاہِدٍ قَوْلَہُ: یُجَاہِدُونَ فِی سَبِیلِ اللَّہِ وَلا یَخَافُونَ لَوْمَۃَ لائِمٍ قَالَ: یُسَارِعُونَ فِی الْحَرْبِ.
ترجمہ :حضرت سیدناامام مجاہد رضی اللہ عنہ اس آیت کریمہ { یُجَاہِدُونَ فِی سَبِیلِ اللَّہِ وَلا یَخَافُونَ لَوْمَۃَ لائِمٍ}کے تحت فرماتے ہیں کہ اس سے مرادیہ ہے کہ اہل ایمان وہ ہیں جو دشمن کے خلاف جہاد کرنے میں جلدی کرتے ہیں۔
(تفسیر القرآن العظیم لابن أبی حاتم:أبو محمد عبد الرحمن بن محمد بن إدریس الرازی ابن أبی حاتم (۴:۱۱۶۱)
حضورتاجدارختم نبوتﷺکی عظیم صفت
مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّہِ وَالَّذِینَ مَعَہُ أَشِدَّاء ُ عَلَی الْکُفَّارِ رُحَماء ُ بَیْنَہُمْ وفی صِفَۃِ رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہُ الضَّحُوکُ الْقَتَّالُ، فَہُوَ ضَحُوکٌ لِأَوْلِیَائِہِ قَتَّالٌ لأعدائہ۔
ترجمہ :امام أبو الفداء إسماعیل بن عمر بن کثیر القرشی البصری ثم الدمشقی المتوفی: ۷۷۴ھ) رحمہ اللہ تعالی لکھتے ہیں کہ حضورتاجدارختم نبوتﷺکی صفات میں سے ہے کہ آپﷺخوب ہنس مکھ اوربہت زیادہ جہاد فرمانے والے تھے یعنی حضورتاجدارختم نبوتﷺاپنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے لئے ضحوک ( ہنس مکھ اورمسکرانے والے ) اوراپنے دشمنوں کے لئے قتال ( خوب جہا دکرنے والے تھے)۔
(تفسیرابن کثیر:أبو الفداء إسماعیل بن عمر بن کثیر القرشی البصری ثم الدمشقی (۲:۱۲۴)
مومن مومن کے لئے کیسے مہربان ہوتاہے ؟
قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ:ہُمْ لِلْمُؤْمِنِینَ کَالْوَالِدِ لِلْوَلَدِ وَالسَّیِّدِ لِلْعَبْدِ، وَہُمْ فِی الْغِلْظَۃِ عَلَی الْکُفَّارِ کَالسَّبُعِ عَلَی فَرِیسَتِہِ، قَالَ اللَّہُ تَعَالَی: أَشِدَّاء ُ عَلَی الْکُفَّارِ رُحَماء ُ بَیْنَہُمْ۔
ترجمہ :حضرت سیدناعبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہمافرماتے ہیں کہ وہ مومنین کے لئے ایسے ہیں جس طرح باپ بیٹے کے لئے ہوتاہے اورسرداراپنے غلام کے لئے ہوتاہے ، وہ کفارپرایسے سخت ہیں جیسے شیراپنے شکارکے لئے ہوتاہے ۔ جیساکہ اللہ تعالی نے اس آیت کریمہ {أَشِدَّاء ُ عَلَی الْکُفَّارِ رُحَماء ُ بَیْنَہُم}میں فرمایاہے ۔
(تفسیر القرطبی:أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن أبی بکر شمس الدین القرطبی (۶:۲۱۹)
ولی توجہادکرنے والاہوتاہے نہ کہ منکرجہاد
قولہ تعالی:(یُجاہِدُونَ فِی سَبِیلِ اللَّہِ)فِی مَوْضِعِ الصِّفَۃِ أَیْضًا(وَلا یَخافُونَ لَوْمَۃَ لائِمٍ)بِخِلَافِ الْمُنَافِقِینَ یَخَافُونَ الدَّوَائِرَ، فَدَلَّ بِہَذَا عَلَی تَثْبِیتِ إِمَامَۃِ أَبِی بَکْرٍ وَعُمَرَ وَعُثْمَانَ وَعَلِیٍّ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمْ، لِأَنَّہُمْ جَاہَدُوا فِی اللَّہِ عَزَّ وَجَلَّ فِی حَیَاۃِ رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَقَاتَلُوا الْمُرْتَدِّینَ بَعْدَہُ، وَمَعْلُومٌ أَنَّ مَنْ کانت فیہ ہذہ الصفات فہو ولی لِلَّہِ تَعَالَی۔
ترجمہ :امام ابوعبداللہ محمدبن احمدالقرطبی المتوفی : ۶۷۱ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ {یُجاہِدُونَ فِی سَبِیلِ اللَّہِ}مقام مدح میں ہے {وَلا یَخافُونَ لَوْمَۃَ لائِمٍ}یعنی اہل ایمان منافقین کے برعکس ہیں جوگردش زمانہ سے ڈرتے ہیں ۔ اس سے حضرت سیدناابوبکرالصدیق رضی اللہ عنہ ، حضرت سیدناعمررضی اللہ عنہ ، حضرت سیدناعثمان غنی رضی اللہ عنہ اورحضرت سیدنامولاعلی رضی اللہ عنہ مراد ہیں کیونکہ انہوں نے حضورتاجدارختم نبوتﷺکے زمانہ اقدس میں بھی جہاد کیااورآپﷺکے وصال شریف کے بعد بھی مرتدین کے ساتھ جہاد کیا، پس معلوم ہواکہ جن میں یہ صفات ہوں وہ اللہ تعالی کاولی ہیں ۔
(تفسیر القرطبی:أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن أبی بکر شمس الدین القرطبی (۶:۲۱۹)
قادیانیت کا حکم اعتقادی
مفتی عبید الرحمن شاہجہانپوری حفظہ اللہ تعالی لکھتے ہیں کہ احقر کو بھی عقیدہ کے طالب علم ہونے کی حیثیت سے یہ سعادت حاصل رہی کہ قادیانیوں کے مرتد ہونے کے اس عنوان پر راقم نے ابتدائی دنوں میں واضح کیا کہ یہ اصلا زندیق ہیں ورنہ کچھ عرصہ پہلے تک علمی حلقوں میں مرتد ہونے کی تصریح زیادہ مشہور تھی ، اس حوالے سے کئی علماء ملت کی بارگاہ علم و فضل میں حاضری بھی رہی ، الحمدللہ۔
اب قدرے وضاحت یہ ہے کہ قادیانی استعماری زندیق حربی کافر ہیں۔ کافر ہونا تو واضح ہی ہے ، باقی وجوہ حسب ذیل؛
زندیق کافر:جو فرقہ اپنے کفر کو لبادہ اسلام میں پیش کرے اور یوں اپنے کفر ہی کو اسلام قرار دیتا ہو۔
مسند الہند شاہ ولی اللہ محدث دہلوی زندیق کی تعریف کو واضح فرماتے ہوئے رقمطراز ہیں :
ان المخالف للدین الحق ان لم یعترف بہ ولم یذعن لہ لا ظاھرًا ولا باطنًا فھو کافر وان اعترف بلسانہ وقلبہ علی الکفر فھو المنافق، وان اعترف بہ ظاہرًا لٰکنہ یفسر بعض ما ثبت من الدین ضرورۃ بخلاف ما فسرہ الصحابۃ والتابعون واجتمعت علیہ الأمۃ فھو الزندیق۔
ترجمہ :جو شخص دین کا مخالف ہے، مگر وہ دینِ اسلام کا اقرار نہ کرتا ہو اور دینِ اسلام کو نہ مانتا ہو، نہ ظاہری طور پر اور نہ ہی باطنی طور پر تو ایسا شخص کافر کہلاتا ہے اور اگر زبان سے دین کا اقرار کرتا ہو لیکن دین کے بعض قطعیات کی ایسی خود ساختہ تأویل کرتا ہو جو صحابہ رضی اللہ عنہم، تابعین اور اجماعِ اُمت کے خلاف ہو تو ایسا شخص زندیق کہلاتا ہے۔
( مسوّیٰ شرح موطا لامام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی :۱۳۰)
یاد رہے مرتد کو توبہ کا موقع دیا جائے گا لیکن زندیق گرفت میں آنے کے بعد معاف نہ کیا جائے گا اور اسے توبہ کا موقع نہ دیا جائے گا۔استعماری تاریخ میں فرقے دو اقسام پر منقسم رہے ہیں اول تاریخ سے متعلق (تشیع ، رفض ، اعتزال وغیرہ) دوسری قسم فرقہ کی ’’استعماری‘‘ہے یعنی وہ فرقہ جو انگریزی استعمار کے پیدا کردہ ہیں اور ان کا استعماری ہونا ایک ایسا معلوم مسلمہ ہے جس پر اجماع امت ہے۔ اس عنوان سے زیادہ لوگ واقف نہیں لہذا قدرے تفصیل اور مع امثال پیش خدمت ہے مثلا انکار حدیث مع جدیدیت کا فتنہ استعماری ہے۔
شیخ الحدیث علامہ خلیل بن ابراھیم ملا خاطر الأشعری الشافعی (مقیم مدینہ منورہ)اپنی مشہور زمانہ کتاب’’بدعۃ الدعوی الاعتماد علی الکتاب دون السنۃ‘‘میں انکار حدیث کے فتنہ کی بابت تصریح فرماتے ہیں:
ولا یخفی علی المسلم الغیور علی دینہ أن اول من فتح ہذا الباب فی عصرنا الحاضر إنما ہم المستشرقون۔
ترجمہ :اور یہ بات غیور مسلمانوں پر مخفی نہیں ہے کہ ہمارے اس دور میں جس طبقہ نے اس (انکار حدیث)باب کو سب سے کھولا ہے وہ مستشرقین ہیں۔
(بدعۃ الدعوی لعلامہ خلیل بن ابراھیم ملا خاطر الأشعری الشافعی: ۲۷)
فتنہ نیچریت کا استعماری ہونا ایک معلوم حقیقت واقعہ ہے۔
الدکتور علامہ عبد النصیر احمد الملیباری الأشعری الشافعی اپنی کتاب’’نشاۃ المذھب الاشعری و تطورہ فی الھند‘‘میں فتنہ نیچریت کے تاریخی پس منظر کے بارے میں تصریح فرماتے ہیں:
دعاۃ الاصلاح و التنویر ، مع بدایۃ القرن الرابع عشر الہجری ظہرت فی العالم الإسلامی کمصر و الہند مدرسۃ جدیدۃ تدعو إلی اصلاح أحوال المسلمین السیاسیۃ والاجتماعیۃ والتعلیمیۃ…. ان الغربیین لم یأتوا إلی ہذہ البلاد زائرین عابرین ، وإنما جاؤوا مستعمرین مقیمین…وقد وجدت بریطانیا یومہا ضالتہا المنشودۃ فی مدرسۃ الإصلاح الدینیی القائمۃ فی مصر و الہند فعملت علی احتضانہا و حمایتہا و وتمکینہا من تولی زمام القیادۃ الفکریۃ للأزہر….ومن ابرز من دعا الی ہذا الإصلاح فی الہند سید احمد خان..وأسس جامعۃ علیکرۃ الشہیرۃ Alighar University ، علی نمط جامعتی اکسفورد و کمبردج۔
ترجمہ ـ:عالم اسلام یعنی مصر و ہند میں دعوت اصلاح و تنویر کا آغاز چودھویں صدی ہجری میں ہوا ، یہ جدید مکتبہ فکر مسلمانوں میں اجتماعی ، سیاسی اور تعلیمی متجددانہ اصلاح کا خواہاں تھا۔ ملت افرنگ ان ممالک میں محض زائر بن کر نہیں آئی تھی ، وہ تو یہاں استعماری حیثیت سے سکونت اختیار کرنے آئی تھی۔ پس اس روز برطانیہ کو مدرسہ و مکتب اصلاح کی صورت میں اپنی مبنی بر ضلالت گمشدہ میراث ملی جس کو تحفظ و حمایت فراہم کی گئی یوں برطانیہ نے جامعہ ازہر کی فکری قیادت کو اپنی ولایت میں لینے کا قصد کیا۔ بلاد ہند میں اس دعوت اصلاح کے نمایاں ترین داعی سید احمد خان تھے۔ جنھوں نے آکسفورڈ و کیمبرج یونیورسٹی کے طرز پر جامعہ علی گڑھ قائم کی جو علی گڑھ یونیورسٹی کے نام سے مشہور ہے۔
(نشاۃ المذہب الاشعری لدکتور علامہ عبد النصیر احمد الملیباری الأشعری الشافعی:۲۱۶)
اسی طرح فتنہ قادیانیت کا استعماری ہونا بھی ایک معلوم تاریخی حقیقت ہے۔
شیخ علامہ متکلم سعید عبد الطیف فودہ عقیدہ طحاویہ شریف کی شرح میں رقمطراز ہیں:
ظھر غلام احمد القادیانی الذی ادعی النبوۃ فی الہند فی اثناء الاستعمار البریطانی لہا۔
ترجمہ :فرماتے ہیں کہ مرزاغلام قادیانی دجال برطانوی استعمارکے دوران ہی ہندوستان میں ظاہرہوااوراس نے نبوت کادعوی کردیا۔
( الشرح الکبیر علی العقیدۃ الطحاویۃ لشیخ علامہ متکلم سعید عبد الطیف فودہ عقیدہ طحاویہ شریف(۱:۴۲۲)
شیخ عبداللہ بن صدیق الغماری اپنی کتاب ’’اتقان الصنعۃ فی تحقیق معنی البدعۃ‘‘ میں فتنہ قادیانیت کے استعماری فتنہ ہونے کی تصریح کچھ ان الفاظ میں کرتے ہیں:
بدعۃ القادیانیۃ :وکان یحض اتباعہ علی الولاء للإنجلیز و یحمد اللہ علی انہ ولد فی بلد ترفرف علیہ الرایۃ الإنجلیزیۃوکان دسیسۃ استعماریۃ جندہ المستعمرون لتفریق کلمۃ المسلمین فی الہند ، و تشکیکہم فی عقیدتہم۔
(اتقان الصنعۃ لشیخ عبداللہ بن صدیق الغماری:۴۶)
حربی کافر: استعماری فرقے اصلا حربی کافر ہوتے ہیں۔ نیز عملا قادیانیت کا ماضی و حال ، پاکستان مخالفت ، اسلام مخالفت ، امت مخالفت یہاں تک کہ خود مسلمانوں کو کافر اور ان کے خون کو صیہونی فکر کی طرح مباح جاننا ، یہ سب وجوہ حربی کافر ہونے کی ہیں۔
خلاصہ: اس لئے قادیانی صرف زندیق ہونے کی وجہ سے مباح الدم ہی نہیں بلکہ استعماری و حربی ہونے کی وجہ سے بھی مباح الدم ہیں۔ اگر خلافت اسلامیہ ہو تو خلیفہ اس سزا کا نفاذ کرے گا۔ امید ہے علمی حلقوں میں جیسے قادیانیوں کا زندیق ہونا مشہور ہوا ویسے ہی ان کا استعماری زندیق حربی کافر ہونا بھی جلد مشہور ہوگا ، ان شاء اللہ تعالی۔
معارف ومسائل
(۱)اس سے معلوم ہواکہ مال کی محبت انسان کواحکامات شرع کامنکربنادیتی ہے اوریہی محبت انسان کوکفراورارتدادکی گھٹاٹوپ وادیوں میں گرادیتی ہے ۔(۲) اس سے یہ بھی معلوم ہواکہ اہل ایمان مومنین پرنرم دل ہوتے ہیں اورکفارپرسخت جبکہ ہمارے ملک میں حکمران اوران کے متبعین سب کے سب اہل ایمان پرسخت اورکفارپرنرم ہیں ، جب بھی کسی کافرنے کہاکہ فلاں مسلمان پر حملہ کردوتوفوراًکردیتے ہیں ، فلاں عالم دین کو اٹھاکرجیل میں قیدکردوتواسی وقت کردیتے ہیں ۔ تم افغانستان کے مسلمانو ں پر حملہ کردوتوکردیتے ہیں اورکافروں کی مددبھی کرتے ہیں ۔ یادرہے کہ یہ صفات منافقین اورکفاروالی ہیں جو ان ارزل الناس لبرل وسیکولرلوگوں میں موجودہیں اللہ تعالی اہل اسلام کی خیرفرمائے۔
اہل ایمان کی صفات کاخلاصہ٭…وہ اللہ تعالیٰ کے محبوب ہیں۔٭…وہ اللہ عَزَّوَجَلَّ سے محبت کرتے ہیں۔ ٭…مسلمانوں کے ساتھ نرمی و شفقت کا سلوک کرنے والے ہیں۔٭…کافروں سے سختی سے پیش آنے والے ہیں۔٭…راہِ خدا کے مجاہد ہیں۔٭…حق بیان کرنے میں کسی کی ملامت کی پرواہ نہیں کرتے بلکہ حق گو اور حق گوئی میں بیباک ہیں۔(تفسیرصراط الجنان(۲: ۴۵۲)