جو اللہ تعالی اورحضورتاجدارختم نبوتﷺکے ساتھ جنگ کرے اس کی سزاکابیان
{اِنَّمَا جَزٰٓؤُا الَّذِیْنَ یُحَارِبُوْنَ اللہَ وَرَسُوْلَہ وَیَسْعَوْنَ فِی الْاَرْضِ فَسَادًا اَنْ یُّقَتَّلُوْٓا اَوْ یُصَلَّبُوْٓا اَوْ تُقَطَّعَ اَیْدِیْہِمْ وَ اَرْجُلُہُمْ مِّنْ خِلٰفٍ اَوْ یُنْفَوْا مِنَ الْاَرْضِ ذٰلِکَ لَہُمْ خِزْیٌ فِی الدُّنْیَا وَلَہُمْ فِی الْاٰخِرَۃِ عَذَابٌ عَظِیْمٌ }(۳۳)
ترجمہ کنزالایمان:وہ کہ اللہ اور اس کے رسول سے لڑتے اور ملک میں فساد کرتے پھرتے ہیں ان کا بدلہ یہی ہے کہ گن گن کر قتل کیے جائیں یا سولی دیے جائیں یا ان کے ایک طرف کے ہاتھ اور دوسری طرف کے پاؤں کاٹے جائیں یا زمین سے دور کردیے جائیں یہ دنیا میں ان کی رسوائی ہے اور آخرت میں ان کے لیے بڑا عذاب۔
ترجمہ ضیاء الایمان:یقینا جو لوگ اللہ تعالی اور اس کے رسول کریم ﷺسے لڑتے ہیں اور زمین میں فساد پھیلانے کی کوشش کرتے ہیں ان کی سزا یہی ہے کہ ان کوخوب قتل کیا جائے یا ان کوسولی دیدی جائے یا ان کے ایک طرف کے ہاتھ اور دوسری طرف کے پاؤں کاٹ دئیے جائیں یا وطن کی سرزمین سے دور کردئیے جائیں۔ یہ ان کے لئے دنیا کی رسوائی ہے اور آخرت میں ان کے لیے بڑا عذاب تیارکیاگیاہے ۔
شان نزول
عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ،أَنَّ قَوْمًا مِنْ عُکْلٍ أَوْ قَالَ:مِنْ عُرَیْنَۃَ قَدِمُوا عَلَی رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَاجْتَوَوْا الْمَدِینَۃَ، فَأَمَرَ لَہُمْ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِلِقَاحٍ، وَأَمَرَہُمْ أَنْ یَشْرَبُوا مِنْ أَبْوَالِہَا وَأَلْبَانِہَا، فَانْطَلَقُوا،فَلَمَّا صَحُّوا، قَتَلُوا رَاعِیَ رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَاسْتَاقُوا النَّعَمَ، فَبَلَغَ النَّبِیَّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ خَبَرُہُمْ مِنْ أَوَّلِ النَّہَارِ،فَأَرْسَلَ النَّبِیُّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی آثَارِہِمْ، فَمَا ارْتَفَعَ النَّہَارُ حَتَّی جِیء َ بِہِمْ، فَأَمَرَ بِہِمْ، فَقُطِعَتْ أَیْدِیہِمْ، وَأَرْجُلُہُمْ، وَسُمِرَ أَعْیُنُہُمْ، وَأُلْقُوا فِی الْحَرَّۃِ یَسْتَسْقُونَ، فَلَا یُسْقَوْنَ ” قَالَ أَبُو قِلَابَۃَ:فَہَؤُلَاء ِ قَوْمٌ سَرَقُوا،وَقَتَلُوا،وَکَفَرُوا بَعْدَ إِیمَانِہِمْ،وَحَارَبُوا اللَّہَ وَرَسُولَہُ۔
ترجمہ :حضرت سیدناانس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ عکل قبیلہ یاعرینہ قبیلہ کے لوگ حضورتاجدارختم نبوت ﷺکے پاس آئے توان کو مدینہ منورہ کی ہواراس نہ آئی ۔ حضورتاجدارختم نبوت ﷺنے ان کو اونٹوں کے پاس جانے کاحکم دیااوران کوحکم دیاکہ وہ ان کے پیشاب اوران کے دودھ پئیں تووہ چلے گئے ،جب وہ ٹھیک ہوگئے توانہوںنے حضورتاجدارختم نبوت ﷺکے چرواہے کو قتل کردیااوراونٹوں کو ہانگ کرلے گئے ۔ حضورتاجدارختم نبوت ﷺکو ان کی خبردن کے آغاز میں پہنچی توآپ ﷺنے ان کے پیچھے آدمی بھیجے ، دن چڑھتے ہی ان کو پکڑلیاگیا، توآپﷺنے ان کے متعلق حکم دیاتوان کے ہاتھ اورپائوں کاٹ دیئے گئے اوران کی آنکھوں میں لوہے کی سلاخیں ڈالی گئیں اورپتھریلے ٹیلے پر ڈال دیئے گئے اوروہ پانی طلب کرتے رہے لیکن ان کو پانی نہ دیاگیا۔ حضرت سیدناابوقلابہ رضی اللہ عنہ نے بیان فرمایاکہ یہ وہ لوگ تھے جنہوںنے چوری کی اورقتل کیااورایمان لانے کے بعد کفرکیااوراللہ تعالی اوراس کے حبیب کریم ﷺکے ساتھ جنگ کی ۔
(سنن أبی داود:أبو داود سلیمان بن الأشعث بن إسحاق بن بشیر السَِّجِسْتانی (۴:۱۳۰)
شان نزول کے متعلق دوسراقول
حَدَّثَنِی سَعِیدُ بْنُ جُبَیْرٍ عَنِ الْمُحَارِبِینَ فَقَالَ: کَانَ نَاسٌ أَتَوُا النَّبِیَّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالُوا:نُبَایِعُکَ عَلَی الْإِسْلَامِ فبَایَعُوہُ وَہُمْ کَذْبَۃٌ وَلَیْسَ الْإِسْلَامَ یُرِیدُونَ ثُمَّ قَالُوا:إِنَّا نَجْتَوِی الْمَدِینَۃَ فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: ہَذِہِ اللِّقَاحُ تَغْدُو عَلَیْکُمْ وَتَرُوحُ فَاشْرَبُوا مِنْ أَبْوَالِہَا وَأَلْبَانِہَا قَالَ:فَبَیْنَا ہُمْ کَذَلِکَ إِذْ جَاء َ الصَّرِیخُ فَصَرَخَ إِلَی رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ:قَتَلُوا الرَّاعِی وَسَاقُوا النَّعَمَ فَأَمَرَ نَبِیُّ اللَّہِ فَنُودِیَ فِی النَّاسِ أَنْ:یَا خَیْلَ اللَّہِ ارْکَبِی قَالَ:فَرَکِبُوا لَا یَنْتَظِرُ فَارِسٌ فَارِسًاقَالَ:فَرَکِبَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلَی أَثَرِہِمْ فَلَمْ یَزَالُوا یَطْلُبُونَہُمْ حَتَّی أَدْخَلُوہُمْ مَأْمَنَہُمْ فَرَجَعَ صَحَابَۃُ رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَقَدْ أَسَرُوا مِنْہُمْ فَأَتَوْا بِہِمُ النَّبِیَّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَأَنْزَلَ اللَّہُ:(إِنَّمَا جَزَاء ُ الَّذِینَ یُحَارِبُونَ اللَّہَ وَرَسُولَہُ) (المائدۃ: ۳۳)الْآیَۃَ ,قَالَ: فَکَانَ نَفْیُہُمْ أَنْ نَفَوْہُمْ ,حَتَّی أَدْخَلُوہُمْ مَأْمَنَہُمْ وَأَرْضَہُمْ وَنَفَوْہُمْ مِنْ أَرْضِ الْمُسْلِمِینَ وَقَتَلَ نَبِیُّ اللَّہِ مِنْہُمْ وَصَلَّبَ وَقَطَّعَ وَسَمَلَ الْأَعْیُنَ قَالَ:فَمَا مَثَّلَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَبْلُ وَلَا بَعْدُقَالَ:نَہَی عَنِ الْمُثْلَۃِ وَقَالَ:وَلَا تُمَثِّلُوا بِشَیْء ٍ ملخصاً۔
ترجمہ:حضرت سیدناسعید بن جبیررضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ بنوسلمہ کے لوگ حضورتاجدارختم نبوتﷺکی خدمت اقدس میں حاضرہوئے اوراسلام پر بیعت کی جبکہ وہ بیعت کرنے میں جھوٹے تھے ، پھرانہوںنے کہاکہ ہم کو مدینہ منورہ کی آب وہواموافق نہیںآئی، حضورتاجدارختم نبوتﷺنے فرمایاکہ یہ اونٹنیاں تمھارے پاس صبح وشام آتی ہیں ان کے پیشاب پیاکرو،کہ وہ اسی طرح تھے کہ ایک خبردینے والے نے حضورتاجدارختم نبوتﷺکی بارگاہ اقدس میں خبردی کہ ان لوگوں نے چرواہے کو قتل کردیاہے اورجانوربھگاکرلے گئے ہیں ، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ان کی تلاش میں نکلے ، جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم واپس آئے توان کو گرفتارکیاہواتھا، ان کو حضورتاجدارختم نبوتﷺکی خدمت اقدس میں پیش کیاگیاتواللہ تعالی نے یہ آیت کریمہ نازل فرمائی ۔ حضورتاجدارختم نبوتﷺنے ان کو قتل کیا، سولی پرلٹکایااورہاتھ پائوں کاٹ دیئے اورآنکھوں میں سلائی پھیردی ۔حضورتاجدارختم نبوتﷺنے اس سے پہلے اوربعد میں کسی کابھی مثلہ نہیں فرمایابلکہ مثلہ کرنے سے منع فرمایااوریہ بھی فرمایاکہ کسی بھی چیز کامثلہ نہ کرو۔
(تفسیر الطبری :محمد بن جریر بن یزید بن کثیر بن غالب الآملی، أبو جعفر الطبری (۸:۳۶۲)
جو حدوداللہ کاباغی ہوجائے قتل کردیاجائے
عَنْ عَائِشَۃَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ:لَا یَحِلُّ دَمُ امْرِئٍ مُسْلِمٍ إِلَّا بِإِحْدَی ثَلَاثِ خِصَالٍ: زَانٍ مُحْصَنٌ یُرْجَمُ، أَوْ رَجُلٌ قَتَلَ رَجُلًا مُتَعَمِّدًا فَیُقْتَلُ، أَوْ رَجُلٌ یَخْرُجُ مِنَ الْإِسْلَامِ یُحَارِبُ اللَّہَ عَزَّ وَجَلَّ وَرَسُولَہُ فَیُقْتَلُ أَوْ یُصْلَبُ أَوْ یُنْفَی مِنَ الْأَرْضِ۔
ترجمہ :حضرت ام المومنین عائشہ الصدیقہ رضی اللہ عنہاسے مروی ہے کہ حضورتاجدارختم نبوتﷺنے فرمایا: تین چیزوں کے علاوہ کسی بھی مسلمان کاخون بہاناحلال نہیں ہے ، شادی شدہ بدکارجس پر رجم کی سزاکافیصلہ ہونے والاتھا، وہ آدمی جوجان بوجھ کرمومن کو قتل کردے اس کو بھی قتل کردیاجائے گا۔ تیسراوہ شخص جو اسلام کی حدودسے باغی ہوگیا، اس نے ڈاکہ ڈالااسے بھی قتل کیاجائے ، اس کو سولی پرلٹکایاجائے یااس مجرم کو جلاوطن کردیاجائے ۔
(السنن للنسائی: أبو عبد الرحمن أحمد بن شعیب بن علی الخراسانی، النسائی (۷:۱۰۱)
اس آیت کریمہ میں گستاخوں کی سزاکابیان ہے
الْمَسْأَلَۃُ الْأُولَی:فِی أَوَّلِ الْآیَۃِ سُؤَالٌ، وَہُوَ أَنَّ الْمُحَارَبَۃَ مَعَ اللَّہ تَعَالَی غَیْرُ مُمْکِنَۃٍ فَیَجِبُ حَمْلُہُ عَلَی الْمُحَارَبَۃِ مَعَ أَوْلِیَاء ِ اللَّہ، وَالْمُحَارَبَۃُ مَعَ الرُّسُلِ مُمْکِنَۃٌ فَلَفْظَۃُ الْمُحَارَبَۃِ إِذَا نُسِبَتْ إِلَی اللَّہ تَعَالَی کَانَ مَجَازًا، لِأَنَّ الْمُرَادَ مِنْہُ الْمُحَارَبَۃُ مَعَ أَوْلِیَاء ِ اللَّہ، وَإِذَا نُسِبَتْ إِلَی الرَّسُولِ کَانَتْ حَقِیقَۃً، فَلَفْظُ یُحَارِبُونَ فِی قَوْلِہِ إِنَّما جَزاء ُ الَّذِینَ یُحارِبُونَ اللَّہَ وَرَسُولَہُ یَلْزَمُ أَنْ یَکُونَ مَحْمُولًا عَلَی الْمَجَازِ وَالْحَقِیقَۃِ مَعًا، وَذَلِکَ مُمْتَنِعٌ، فَہَذَا تَقْرِیرُ السُّؤَالِ.وَجَوَابُہُ مِنْ وَجْہَیْنِ: الْأَوَّلُ: أَنَّا نَحْمِلُ الْمُحَارَبَۃَ عَلَی مُخَالَفَۃِ الْأَمْرِ وَالتَّکْلِیفِ، وَالتَّقْدِیرُ:إِنَّمَا جَزَاء ُ الَّذِینَ یُخَالِفُونَ أَحْکَامَ اللَّہ وَأَحْکَامَ رَسُولِہِ وَیَسْعَوْنَ فِی الْأَرْضِ فَسَادًا کَذَا وَکَذَا، وَالثَّانِی:تَقْدِیرُ الْکَلَامِ إِنَّمَا جَزَاء ُ الَّذِینَ یُحَارِبُونَ أَوْلِیَاء َ اللَّہ تَعَالَی وَأَوْلِیَاء َ رَسُولِہِ کَذَا وَکَذَا.وَفِی الْخَبَرِ أَنَّ اللَّہ تَعَالَی قَالَ: مَنْ أَہَانَ لِی وَلِیًّا فَقَدْ بَارَزَنِی بِالْمُحَارَبَۃِ ۔
ترجمہ :امام فخرالدین الرازی المتوفی : ۶۰۶ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ آیت کریمہ کے ابتدائی حصہ میں ایک سوال ہے کہ اللہ تعالی سے جنگ ممکن ہی نہیں تواللہ تعالی کے دوستوں اوراس کے حبیب کریم ﷺکے ساتھ جنگ پر محمول کرناممکن ہے ، تومحاربہ کی نسبت اللہ تعالی کی طرف بطورمجاز ہے ، یہ اللہ تعالی کے دوستوں کے ساتھ محاربہ ہے ، البتہ حضورتاجدارختم نبوتﷺکی طرف محاربہ بطورحقیقت ہے توارشادمبارک {ِ إِنَّما جَزاء ُ الَّذِینَ یُحارِبُونَ اللَّہَ وَرَسُولَہُ}وہ کہ جو اللہ تعالی اوراس کے رسول کریم ﷺسے لڑیں ۔ میں { یُحارِبُونَ }لازمی طورپربیک وقت مجاز وحقیقت پر محمول ہے اوریہ محال ہے ؟
یہ سوال کی تفصیل بیان ہوئی اس کاجواب دووجوہات کے ساتھ ہے :
پہلی وجہ: ہم محاربہ کو حکم وتکلیف کی مخالفت پر محمول کرتے ہیں ، اصل یوں ہے کہ جو لوگ اللہ تعالی اورحضورتاجدارختم نبوتﷺکے احکامات کی مخالفت کرتے ہوئے زمین میں فساد پھیلاتے ہیں اوریہ یہ کرتے ہیں ۔
دوسری وجہ : پوراکلام یوں ہے کہ ان لوگوں کی سزاجو اللہ تعالی کے دوستوں اورحضورتاجدارختم نبوتﷺکے دوستوں (صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ، علماء کرام ) کے ساتھ محاربہ کرتے ہیں ۔ حدیث شریف میں اللہ تعالی کافرمان عالی شان ہے ۔
(مَنْ أَہَانَ لِی وَلِیًّا فَقَدْ بَارَزَنِی بِالْمُحَارَبَۃِ)جس نے بھی میرے دوست کی توہین کی میں اس کے ساتھ اعلان جنگ کرتاہوں۔
(التفسیر الکبیر:أبو عبد اللہ محمد بن عمر بن الحسن بن الحسین التیمی الرازی(۱۱:۳۴۵)
گستاخوں کو بھی معافی نہیں
والاشارۃ فی الآیۃ ان محاربۃ اللہ ورسولہ معاداۃ اولیاء اللہ فان فی الخبر الصحیح حکایۃ عن اللہ تعالی عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنْ جِبْرِیلَ عَنِ اللَّہِ عَزَّ وَجَلَّ قَالَ:یَقُولُ اللَّہُ عَزَّ وَجَلَّ مَنْ أَہَانَ لِی وَلِیًّا فَقَدْ بَارَزَنِی بِالْمُحَارَبَۃِ، وَإِنِّی لَأَغْضَبُ لِأَوْلِیَائِی کَمَا یَغْضَبُ اللَّیْثُ الْحَرْدُ۔
ترجمہ:امام اسماعیل حقی الحنفی المتوفی :۱۱۲۷ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ اس آیت کریمہ میںاللہ تعالی اورحضورتاجدارختم نبوتﷺکے ساتھ جنگ نہ کرنے میں اولیاء اللہ کے ساتھ دشمنی سے ممانعت فرمائی گئی ہے ، اس لئے کہ حدیث قدسی میں ہے کہ حضورتاجدارختم نبوتﷺنے اللہ تعالی سے روایت کی ہے کہ اللہ تعالی نے فرمایا جو شخص میرے کسی ولی کے ساتھ دشمنی کرتاہے وہ میرے ساتھ جنگ کرتاہے اورمیں اپنے دوستوں کے لئے ناراض ہوتاہوں جیسے شیراپنے بچے کے لئے ۔
(روح البیان:إسماعیل حقی بن مصطفی الإستانبولی الحنفی الخلوتی المولی أبو الفداء (۲:۲۸۷)
حضرت سیدناموسی علیہ السلام کاگستاخ کتابنادیاجائے گا
ألا یری ان بلعم بن باعوراء فی زمن موسی علیہ السلام کان بحیث إذا نظر رأی العرش فلما مال الی الدنیا وأہلہا میلۃ واحدۃ ولم یترک لولی من أولیائہ حرمۃ واحدۃ سلب اللہ معرفتہ وجعلہ بمنزلۃ الکلب المطرود۔
ترجمہ :امام اسماعیل حقی الحنفی المتوفی :۱۱۲۷ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ بلعم بن باعوراء حضرت سیدناموسی علیہ السلام کے زمانہ کاایک بہت برگزیدہ بندہ تھا، یہاں تک کہ وہ زمین سے عرش کو دیکھ لیتاتھا، لیکن جب وہ دنیاکی طرف جھکااوردنیاداروں سے گٹھ جوڑ کیاتو اللہ تعالی کے دوستوں کی مخالفت کرنے لگا، اللہ تعالی نے اس سے معرفت چھین لی اوراسے ذلیل ترین کتے کی طرح بنادیا۔
(روح البیان:إسماعیل حقی بن مصطفی الإستانبولی الحنفی الخلوتی المولی أبو الفداء (۲:۲۸۷)
اللہ تعالی جب اولیاء کرام کے گستاخوں کو نہیں چھوڑتاتو۔۔۔۔
فإن إہانۃ الأعداء تعظیم للأولیاء ، واللہ ینتقم لأولیائہ من أعدائہم، فإنہ یغضب لأولیائہ کما یغضب اللیث الجریء لجروہ۔
ترجمہ :الشیخ العلامۃ محمد الأمین بن عبد اللہ الأرمی العلوی الہرری الشافعی رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ یقیناگستاخوں کی توہین کرنے میں ہی اللہ تعالی کے اولیاء کرام کی تعظیم ہے اوراللہ تعالی خود اپنے اولیاء کرام کے دشمنوں سے بدلہ لیتاہے اوربے شک اللہ تعالی اپنے اولیاء کرام کے لئے ایسے ناراض ہوتاہے جیسے شیراپنے بچے کے لئے ۔
(تفسیر حدائق الروح والریحان:الشیخ العلامۃ محمد الأمین العلوی الہرری الشافعی(۳۱:۳۳۹)
اسلامی سزاوٓں کی حکمت
اسلا م نے ہر جرم کی سزا اس کی نوعیت کے اعتبار سے مختلف رکھی ہے، چھوٹے جرم کی سزا ہلکی اور بڑے کی اس کی حیثیت کے مطابق سخت سزا نافذ کی ہے تاکہ زمین میں امن قائم ہو اور لوگ بے خوف ہوکر سکون اور چین کی زندگی بسر کرسکیں۔ ا س کے علاوہ اور بھی بے شمار حکمتیں ہیں۔ ایک اس ڈاکہ زنی کی سزا ہی کو لے لیجئے کہ جب تک اس پر عمل رہا تو تجارتی قافلے اپنے قیمتی سازو سامان کے ساتھ بے خوف و خطر سفر کرتے تھے جس کی وجہ سے تجارت کو بے حد فروغ ملا اور لوگ معاشی اعتبار سے بہت مضبوط ہو گئے اور جب سے اس سزا پر عمل نہیں ہو رہا تب سے تجارتی سر گرمیاں سب کے سامنے ہیں ، جس ملک میں تجارتی ساز و سامان کی نَقل و حَمل کی حفاظت کا خاطر خواہ انتظام نہیں وہاں کی بَرآمدات اور دَرآمدات انتہائی کم ہیں جس کی وجہ سے ان کی معیشت پر بہت برا اثر پڑتا ہے۔ اب تو حالات اتنے نازک ہو چکے ہیں کہ بینک سے کوئی پیسے لے کر نکلا تو راستے میں لٹ جاتا ہے، کوئی پیدل جا رہا ہے تو اس کی نقدی اور موبائل چھن جاتا ہے، کوئی بس کا مسافر ہے تو وہاں بھی محفوظ نہیں ،کوئی اپنی سواری پر ہے تو وہ خود کو زیادہ خطرے میں محسوس کرتا ہے، سرکاری اور غیر سرکاری اَملاک ڈاکوئوں کی دست بُرد سے محفوظ نہیں۔ اگر ڈاکہ زنی کی بیان کردہ سزا پر صحیح طریقے سے عمل ہو تو ان سب کا دماغ چند دنوں میں ٹھکانے پر آ جائے گا اور ہر انسان پر امن ماحول میں زندگی بسر کرنا شروع کر دے گا۔ (تفسیرصراط الجنان ( ۲: ۴۲۳)