تفسیر سورہ مائدہ ۱۲۔۱۳۔ وَلَقَدْ اَخَذَ اللہُ مِیْثٰقَ بَنِیْٓ اِسْرٰٓء ِیْلَ وَبَعَثْنَا مِنْہُمُ اثْنَیْ عَشَرَ نَقِیْبًا

ناموس رسالت پر پہرہ دینااورانبیاء کرام علیہم السلام کی عزت وناموس کادفاع کرناہرمسلمان پر لازم ہے اورہردورکے یہودیوں کاانبیاء کرام علیہم السلام کی گستاخیاں کرناوطیرہ رہاہے

{وَلَقَدْ اَخَذَ اللہُ مِیْثٰقَ بَنِیْٓ اِسْرٰٓء ِیْلَ وَبَعَثْنَا مِنْہُمُ اثْنَیْ عَشَرَ نَقِیْبًا وَقَالَ اللہُ اِنِّیْ مَعَکُمْ لَئِنْ اَقَمْتُمُ الصَّلٰوۃَ وَاٰتَیْتُمُ الزَّکٰوۃَ وَاٰمَنْتُمْ بِرُسُلِیْ وَعَزَّرْتُمُوْہُمْ وَ اَقْرَضْتُمُ اللہَ قَرْضًا حَسَنًا لَّاُکَفِّرَنَّ عَنْکُمْ سَیِّاٰتِکُمْ وَلَاُدْخِلَنَّکُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِہَا الْاَنْہٰرُ فَمَنْ کَفَرَ بَعْدَ ذٰلِکَ مِنْکُمْ فَقَدْ ضَلَّ سَوَآء َ السَّبِیْلِ }(۱۲){فَبِمَا نَقْضِہِمْ مِّیْثٰقَہُمْ لَعَنّٰہُمْ وَجَعَلْنَا قُلُوْبَہُمْ قٰسِیَۃً یُحَرِّفُوْنَ الْکَلِمَ عَنْ مَّوَاضِعِہٖ وَنَسُوْا حَظًّا مِّمَّا ذُکِّرُوْا بِہٖ وَلَا تَزَالُ تَطَّلِعُ عَلٰی خَآئِنَۃٍ مِّنْہُمْ اِلَّا قَلِیْلًا مِّنْہُمْ فَاعْفُ عَنْہُمْ وَاصْفَحْ اِنَّ اللہَ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ }(۱۳)
ترجمہ کنزالایمان:اور بیشک اللہ نے بنی اسرائیل سے عہد لیا اور ہم نے ان میں بارہ سردار قائم کیے اور اللہ نے فرمایا بیشک میں تمہارے ساتھ ہوں ضرور اگر تم نماز قائم رکھو اور زکوٰۃ دو اور میرے رسولوں پر ایمان لاؤ اور ان کی تعظیم کرو اور اللہ کو قرض حسن دو توبیشک میں تمہارے گناہ اتار دوں گا اور ضرور تمہیں باغوں میں لے جاؤں گا جن کے نیچے نہریں رواں ، پھر اس کے بعد جو تم میں سے کفر کرے وہ ضرور سیدھی راہ سے بہکا ۔تو ان کی کیسی بد عہدیوں پر ہم نے انہیں لعنت کی اور ان کے دل سخت کردیئے اللہ کی باتوں کو ان کے ٹھکانوں سے بدلتے ہیں اور بُھلا بیٹھے بڑا حصہ ان نصیحتوں کا جو انہیں دی گئیں اور تم ہمیشہ ان کی ایک نہ ایک دغا پر مطلع ہوتے رہو گے سوا تھوڑوں کے تو انہیں معاف کردو اور ان سے درگزر کر وبیشک احسان والے اللہ کو محبوب ہیں۔
ترجمہ ضیاء الایمان:اور بیشک اللہ تعالی نے بنی اسرائیل سے عہد لیا اور ہم نے ان میں بارہ سردار مقرر کیے اور اللہ تعالی نے فرمایا:بیشک میں تمہارے ساتھ ہوں۔ اگر تم نماز قائم رکھو اور زکوٰۃ دیتے رہو اور میرے رسولوں پر ایمان لاؤ اور ان کی تعظیم کرو اور اللہ تعالی کو قرض حسن دو توبیشک میں تمہارے گناہ بخش دوں گا اور ضرور تمہیں ان باغوں میں داخل کروں گا جن کے نیچے نہریں جاری ہیں تو اس عہدکے بعد تم میں سے جس نے کفر کیا تو وہ ضرور سیدھی راہ سے بھٹک گیا۔ تو ان کے عہد توڑنے کی وجہ سے ہم نے ان پر لعنت کی اور ان کے دل سخت کردئیے ۔ وہ اللہ تعالی کے کلام میں تحریف کردیتے ہیں اورجو انہیں نصیحتیںکی گئی تھیں انہوں نے ان کا بڑا حصہ بھلا دیا اور تم ان میں سے چند ایک کے علاوہ سب کی کسی نہ کسی خیانت پر مطلع ہوتے رہو گے تو انہیں معاف کردو اور ان سے درگزکرو بیشک احسان کرنے والے اللہ تعالی کے پیارے ہیں۔
شان نزول
وَقَدْ ذَکَرْنَا فِی بَعْضِ الروایات أن ہَذِہِ الْآیَۃَ نَزَلَتْ فِی الْیَہُودِ، وَأَنَّہُمْ أَرَادُوا إِیقَاعَ الشَّرِّ بِرَسُولِ اللَّہ صَلَّی اللَّہ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا ذَکَرَ اللَّہ تَعَالَی ذَلِکَ أَتْبَعَہُ بِذِکْرِ فَضَائِحِہِمْ وَبَیَانِ أَنَّہُمْ أَبَدًا کَانُوا مُوَاظِبِینَ عَلَی نَقْضِ الْعُہُودِ وَالْمَوَاثِیقِ۔
ترجمہ: امام فخرالدین الرازی المتوفی : ۶۰۶ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ اورہم نے ذکرکیاکہ بعض روایات کے مطابق یہ آیت کریمہ یہودیوں کے بارے میں نازل ہوئی اوروہ حضورتاجدارختم نبوتﷺکوہروقت ایذا پہنچانے کے لئے کوشاں رہتے تھے ۔ جب اللہ تعالی نے ا س آیت کریمہ میں ان کے کرتوت بیان کئے اوریہ بیان کیایہ ہمیشہ وعدہ کرکے توڑ دیاکرتے تھے ۔
(التفسیر الکبیر:أبو عبد اللہ محمد بن عمر بن الحسن بن الحسین التیمی الرازی(۱۱:۳۲۲)

حضرت سیدناموسی علیہ السلام کے نقباء کاراز افشاکرنا

أَنَّ بَنِی إِسْرَائِیلَ کَانُوا اثْنَیْ عَشَرَ سِبْطًافَاخْتَارَ اللَّہ تَعَالَی مِنْ کُلِّ سِبْطٍ رَجُلًا یَکُونُ نَقِیبًا لَہُمْ وَحَاکِمًا فِیہِمْ. وَقَالَ مُجَاہِدٌ وَالْکَلْبِیُّ وَالسُّدِّیُّ:أَنَّ النُّقَبَاء َ بُعِثُوا إِلَی مَدِینَۃِ الْجَبَّارِینَ الَّذِینَ أُمِرَ مُوسَی عَلَیْہِ السَّلَامُ بِالْقِتَالِ مَعَہُمْ لِیَقِفُوا عَلَی أَحْوَالِہِمْ وَیَرْجِعُوا بِذَلِکَ إِلَی نَبِیِّہِمْ مُوسَی عَلَیْہِ السَّلَامُ، فَلَمَّا ذَہَبُوا إِلَیْہِمْ رَأَوْا أَجْرَامًا عَظِیمَۃً وَقُوَّۃً وَشَوْکَۃً فَہَابُوا وَرَجَعُوا فحدثوا قَوْمُہُمْ، وَقَدْ نَہَاہُمْ مُوسَی عَلَیْہِ السَّلَامُ أَنْ یُحَدِّثُوہُمْ، فَنَکَثُوا الْمِیثَاقَ إِلَّا کَالِبَ بْنَ یُوفِنَا مَنْ سِبْطِ یَہُوذَا، وَیُوشَعَ بْنَ نُونٍ مِنْ سِبْطِ إِفْرَاثِیمَ بْنِ یُوسُفَ، وَہُمَا اللَّذَانِ قَالَ اللَّہ تَعَالَی فِیہِمَا قالَ رَجُلانِ مِنَ الَّذِینَ یَخافُونَ (المائدۃ: ۲۳)الآیۃ.
ترجمہ : امام فخرالدین الرازی المتوفی : ۶۰۶ھ) رحمہ اللہ تعالیبنی اسرائیل کے بارہ قبائل تھے ، اللہ تعالی نے ہرایک قبیلہ سے ایک آدمی کو بطورنقیب وحاکم منتخب فرمایا، حضرت سیدناامام مجاہدرضی اللہ عنہ، کلبی ، اورالسدی رحمہ اللہ تعالی بیان کرتے ہیں کہ ان نقباء کو ان جابرلوگوں کے شہروں کی طرف بھیجاجن کے ساتھ حضرت سیدناموسی علیہ السلام کو جہادکرنے کاحکم دیاگیاتھا، کہ وہ ان کے احوال کی خبراپنے نبی حضرت سیدناموسی علیہ السلام کو بتائیں ، انہوں نے جاکران کے عظیم جرائم ، قوت وشوکت دیکھی تووہ خوف زدہ ہوگئے اورلوٹ کر اپنی قوم کو سب کچھ بیان کردیاحالانکہ حضرت سیدناموسی علیہ السلام نے ان کو قوم کے سامنے بیان کرنے سے روکاتھا، انہوں نے عہدتوڑامگریہوذاکے خاندان سے کالب بن یوفنااورافراثیم بن یوسف کے قبیلہ سے یوشع بن نون نے عہدپوراکیاانہی کے لئے اللہ تعالی نے فرمایا: {قالَ رَجُلانِ مِنَ الَّذِینَ یَخافُونَ}دومردکہ اللہ تعالی سے ڈرنے والوں میں سے تھے۔
(التفسیر الکبیر:أبو عبد اللہ محمد بن عمر بن الحسن بن الحسین التیمی الرازی(۱۱:۳۲۲)
ہربرادری کاعلیحدہ علیحدہ سردارمقررکرنے کاایک فائدہ یہ ہے کہ جب برادری دیکھے گی کہ ہم میں بھی ایک سردارہے تووہ دین میں استقامت واستقلال سے کام کریں گے ۔

جاسوس بنانا

وَفِیہَا أَیْضًا دَلِیلٌ عَلَی اتِّخَاذِ الْجَاسُوسِ وَالتَّجَسُّسُ:التَّبَحُّثُ وَقَدْ بَعَثَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَسْبَسَۃَ عَیْنًا ۔
ترجمہ :امام ابوعبداللہ محمدبن احمدالقرطبی المتوفی : ۶۷۱ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ اس آیت کریمہ میں جاسوس بنانے کی دلیل موجود ہے ، التجسس کامعنی ہے تلاش وبحث کرنا ، حضورتاجدارختم نبوتﷺنے بسبسہ کوجاسوس بناکربھیجاتھا۔
(تفسیر القرطبی:أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن أبی بکر شمس الدین القرطبی (۶:۱۱۲)
یہ ذہن میں رہے کہ جس طرح آجکل لوگ جاسوسیاں کرتے ہیں یہ سراسراسلام دشمنی پرمبنی ہیں ۔ جاسوسی صرف وہی جائز ہے اورباعث اجروثواب ہے جس میں دین اسلام کی سربلندی کے لئے کام کیاجائے ۔

جب تک ایمان نہ ہونماز وروزے کاکوئی نفع نہیں

السُّؤَالُ الْأَوَّلُ: لِمَ أَخَّرَ الْإِیمَانَ بِالرُّسُلِ عَنْ إِقَامَۃِ الصَّلَاۃِ وَإِیتَاء ِ الزَّکَاۃِ مَعَ أَنَّہُ مُقَدَّمٌ عَلَیْہَا؟وَالْجَوَابُ: أَنَّ الْیَہُودَ کَانُوا مُقِرِّینَ بِأَنَّہُ لَا بُدَّ فِی حُصُولِ النَّجَاۃِ مِنْ إِقَامَۃِ الصَّلَاۃِ وَإِیتَاء ِ الزَّکَاۃِ إِلَّا أَنَّہُمْ کَانُوا مُصِرِّینَ عَلَی تَکْذِیبِ بَعْضِ الرُّسُلِ، فَذَکَرَ بَعْدَ إِقَامَۃِ الصَّلَاۃِ وَإِیتَاء ِ الزَّکَاۃِ أَنَّہُ لَا بُدَّ مِنَ الْإِیمَانِ بِجَمِیعِ الرُّسُلِ حَتَّی یَحْصُلَ الْمَقْصُودُ، وَإِلَّا لَمْ یَکُنْ لِإِقَامَۃِ الصَّلَاۃِ وَإِیتَاء ِ الزَّکَاۃِ تَأْثِیرٌ فِی حُصُولِ النَّجَاۃِ بِدُونِ الْإِیمَانِ بِجَمِیعِ الرُّسُلِ.
ترجمہ :امام فخرالدین الرازی المتوفی :۶۰۶ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ انبیا ء کرام علیہم السلام پرایمان کو نماز وروزہ کی ادائیگی پرمقدم کیوں کیاگیا؟اس کاجواب یہ ہے کہ یہودی کہتے تھے کہ نجات کے لئے نماز اورروزہ کی ادائیگی ضروری ہے مگروہ بعض انبیا ء کرام علیہم السلام کی تکذیب کرتے تھے ، تواقامت نماز ،حکم زکوۃ کے بعدبیان کیاکہ تمام انبیاء کرام علیہم السلام پر ایمان ضروری ہے تاکہ مقصود حاصل ہو، ورنہ نماز اورزکوۃ کواداکرنے سے نجات بغیرتمام انبیاء کرام علیہم السلام پرایمان کے حصول میں کوئی اثرنہیں ہوگا۔
(التفسیر الکبیر:أبو عبد اللہ محمد بن عمر بن الحسن بن الحسین التیمی الرازی(۱۱:۳۲۲)

یہاں تعزیرکامعنی ناموس رسالت کادفاع کرناہے

وَالسُّؤَالُ الثَّانِی:مَا مَعْنَی التَّعْزِیرِ؟ الْجَوَابُ:قَالَ الزَّجَّاجُ:الْعَزْرُ فِی اللُّغَۃِ الرَّدُّ، وَتَأْوِیلُ عَزَّرْتُ فُلَانًا، أَیْ فَعَلْتُ بِہِ مَا یَرُدُّہُ عَنِ الْقَبِیحِ وَیَزْجُرُہُ عَنْہُ، وَلِہَذَا قَالَ الْأَکْثَرُونَ:مَعْنَی قَوْلِہِ وَعَزَّرْتُمُوہُمْ أَیْ نَصَرْتُمُوہُمْ، وَذَلِکَ لِأَنَّ مَنْ نَصَرَ إِنْسَانًا فَقَدْ رَدَّ عَنْہُ أَعْدَاء َہُ قَالَ:وَلَوْ کَانَ التَّعْزِیرُ ہُوَ التَّوْقِیرُ لَکَانَ قَوْلُہُ وَتُعَزِّرُوہُ وَتُوَقِّرُوہُ (الْفَتْحِ: ۹) تَکْرَارًا.
ترجمہ :امام فخرالدین الرازی المتوفی :۶۰۶ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ شیخ الزجاج کہتے ہیں کہ لغت میں ’’عزر‘‘ کامعنی ردکرناہے ’’عزرت فلانا‘‘کامفہوم یہ ہے کہ میں نے اس کے ساتھ عمل کیاجواسے برے کام سے روکے اوراس عمل پر زجربنے اس لئے اکثریت نے کہاکہ ارشاد {ِ وَعَزَّرْتُمُوہُم}کامعنی ہے کہ تم انبیاء کرام علیہم السلام کی مددکرواس لئے کہ کسی انسان کی مددکرنے والے اس کے دشمنوں کواس سے روکتے ہیں اورکہاکہ اگرتعزیرکامعنی ( ناموس رسالت کادفاع نہ ہواوراس کامعنی صرف تعظیم کرناہوتو یہ الفاظ { وَتُعَزِّرُوہُ وَتُوَقِّرُوہُ}رسول ﷺکی تعظیم کرواورتوقیرکرو۔میںتکرارلازم آئے گا۔
(التفسیر الکبیر:أبو عبد اللہ محمد بن عمر بن الحسن بن الحسین التیمی الرازی(۱۱:۳۲۲)

ناموس رسالت پرپہرہ دیناتم پرلازم ہے

والتَّعْزِیرُ: التَّعْظِیمُ وَالتَّوْقِیرُ، وَأَنْشَدَ أَبُو عُبَیْدَۃَ:
وَکَمْ مِنْ مَاجِدٍ لَہُمُ کَرِیمٌ … وَمِنْ لَیْثٍ یُعَزَّرُ فِی النَّدِیِّ
أَیْ یُعَظَّمُ وَیُوَقَّرُوَالتَّعْزِیرُ:الضَّرْبُ دُونَ الْحَدِّ، وَالرَّدُّ، تَقُولُ:عَزَّرْتُ فُلَانًا إِذَا أَدَّبْتُہُ وَرَدَدْتُہُ عَنِ الْقَبِیحِ.فَقَوْلُہُ: عَزَّرْتُمُوہُمْ أَیْ رَدَدْتُمْ عَنْہُمْ أَعْدَاء َہُمْ۔
ترجمہ :امام ابوعبداللہ محمدبن احمدالقرطبی المتوفی : ۶۷۱ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ التعزیرکامعنی تعظیم وتوقیرکرناہے ۔ ابوعبیدہ نے کہا:
وَکَمْ مِنْ مَاجِدٍ لَہُمُ کَرِیمٌ … وَمِنْ لَیْثٍ یُعَزَّرُ فِی النَّدِیِّ
یعنی وہ تعظیم وتوقیرکرتاہے ۔ الضرب وہ سزاہے جو حدسے کم ہوتی ہے توکہتاہے ’’عزرت فلانا‘‘جب تونے اسے ادب سکھایااوربرائی سے اسے روکا۔ پس {عَزَّرْتُمُوہُمْ}کامطلب ہے تم نے ان کے دشمنوں کوروکا۔
(تفسیر القرطبی:أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن أبی بکر شمس الدین القرطبی (۶:۱۱۲)

یہودیوں کاحضورتاجدارختم نبوت ﷺکی گستاخیاں کرنا

قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ:عَلی خائِنَۃٍأَیْ مَعْصِیَۃٍوَقِیلَ:کَذِبٌ وَفُجُورٌوَکَانَتْ خِیَانَتُہُمْ نَقْضَہُمُ الْعَہْدَ بَیْنَہُمْ وَبَیْنَ رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَمُظَاہَرَتَہُمُ الْمُشْرِکِینَ عَلَی حَرْبِ)رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ( کَیَوْمِ الْأَحْزَابِ وَغَیْرِ ذَلِکَ مِنْ ہَمِّہِمْ بِقَتْلِہِ وَسَبِّہِ.
ترجمہ :حضرت سیدناعبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہمافرماتے ہیں کہ {عَلی خائِنَۃ}کامطلب ہے کہ معصیت پر(آپ ﷺمطلع ہوتے رہیںگے ) اوربعض نے یہ بیان کیاکہ اس سے مراد جھوٹ اورفجورہے ، ان یہودیوں کی خیانت یہ تھی کہ انہوں نے اس عہدکوتوڑاجو ان کے اورحضورتاجدارختم نبوت ﷺکے درمیان تھااوریہودیوں کامشرکین کی مددکرناتھاجب حضورتاجدارختم نبوت ﷺنے ان کے خلاف جنگ کی تھی جیسے غزوہ خندق وغیرہ اوراس کے علاوہ یہودیوں کاحضورتاجدارختم نبوت ﷺکو شہیدکرنے کاارادہ تھااوران کی طرف سے یہ بھی خیانت تھی کہ یہودی حضورتاجدارختم نبوت ﷺکی گستاخیاں کرتے تھے۔
(تفسیر القرطبی:أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن أبی بکر شمس الدین القرطبی (۶:۱۱۲)

ہردورمیں یہودی انبیاء کرام علیہم السلام کے گستاخ رہے ہیں

معناہ خائن والہاء للمبالغۃ مِنْہُمْ الضمیر عائد الی بنی إسرائیل أجمعین الموجودین فی زمن النبی صلی اللہ علیہ وسلم وأسلافہم والاطلاع أعم منہ بالمشاہدۃ او بالأخبار یعنی ان الخیانۃ والغدر من عادتہم وعادۃ أسلافہم لا تزال تری ذلک منہم کان أسلافہم یخولون الرسل الماضین وہؤلاء یخونونک وکانت خیانۃ ہؤلاء نقض ما عہدوا مع النبی صلی اللہ علیہ وسلم ومظاہرتہم المشرکین علی حرب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہمہم بقتلہ وسمّہ ونحو ذلک۔
ترجمہ :امام قاضی ثناء اللہ حنفی پانی پتی رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ منھم کی ضمیرتمام بنی اسرائیل کی طرف راجع ہے خواہ وہ حضورتاجدارختم نبوتﷺکے زمانے میں موجودہوں یاپہلے گزرگئے ہوں اوراطلا ع کالفظ جس طرح معائنہ کو شامل ہے اسی طرح خبرکو بھی شامل ہے یعنی خیانت اورغداری ان کی عادت میں داخل ہے ، ان کے بزرگ بھی اپنے زمانے کے انبیاء کرام علیہم السلام کے ساتھ غداریاں کرتے رہے ہیں اوریہ بھی حضورتاجدارختم نبوتﷺکے ساتھ غداری کرتے رہتے ہیں ، ان یہودیوں کی خیانت سے مراد ہے معاہدہ کی خلاف ورزی اورحضورتاجدارختم نبوتﷺکے خلاف مشرکین کی مددکرنااورحضورتاجدارختم نبوتﷺکو شہیدکرنے کاارادہ کرنااورزہردیناوغیرہ ۔
(التفسیر المظہری: المظہری، محمد ثناء اللہ(۳:۶۵)

بے ادبوں اورگستاخوں سے نورعلم چھین لیاجاتاہے

روی عن ابن مسعود رضی اللہ عنہ قال قد ینسی المرء بعض العلم بالمعصیۃ وتلا ہذہ الآیۃروی ان اللہ تعالی غیر العلم علی امیۃ بن ابی الصلت وکان من بلغاء الشعراء کان نائما فاتاہ طائر وادخل منقارہ فی فیہ فلما استیقظ نسی جمیع علومہ۔
ترجمہ :حضرت سیدناعبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ گناہ کی نحوست کی وجہ سے انسان کو بہت سی نیک باتیں بھول جاتی ہیں ، اس کی دلیل میں آپ رضی اللہ عنہ نے یہی آیت کریمہ تلاوت فرمائی۔
اللہ تعالی نے امیہ بن ابی صلت سے علم چھین لیاحالانکہ وہ بہت بڑافصیح وبلیغ شاعرتھا، مروی ہے کہ ایک وقت وہ سورہاتھاکہ ایک پرندے نے آکرچونچ اس کے منہ میں داخل کردی اوراڑگیاجب یہ بیدارہواتووہ تمام علوم وفنون بھول گیاتھا۔
(روح البیان:إسماعیل حقی بن مصطفی الإستانبولی الحنفی الخلوتی(۲:۳۶۲)

سخت دل بندہ اللہ تعالی سے بہت دورہوتاہے

عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: لاَ تُکْثِرُوا الکَلاَمَ بِغَیْرِ ذِکْرِ اللہِ فَإِنَّ کَثْرَۃَ الکَلاَمِ بِغَیْرِ ذِکْرِ اللہِ قَسْوَۃٌ لِلْقَلْبِ، وَإِنَّ أَبْعَدَ النَّاسِ مِنَ اللہِ القَلْبُ القَاسِی۔
ترجمہ :حضرت سیدناعبداللہ بن عمررضی اللہ عنہماسے مروی ہے کہ حضورتاجدارختم نبوتﷺنے فرمایا: اللہ تعالی کے ذکرکے علاوہ زیادہ کلام نہ کیاکروکیونکہ بہت زیادہ بولنادل کی سختی کاباعث ہے اوربے شک لوگوں میں اللہ تعالی سے سب سے زیادہ دوروہی شخص ہے جس کادل سخت ہو۔
(سنن الترمذی:محمد بن عیسی بن سَوْرۃ بن موسی بن الضحاک، الترمذی، أبو عیسی (۴:۱۸۶)

دل کی سختی کی وجہ ؟

نا أَبُو بَکْرٍ السِّمْسَاطِیُّ، سَمِعْتُ یَحْیَی بْنَ مُعَاذٍ، یَقُولُ:مَا جَفَّتِ الدُّمُوعُ إِلَّا لِقَسَاوَۃِ الْقُلُوبِ، وَمَا قَسَتِ الْقُلُوبُ إِلَّا لِکَثْرَۃِ الذُّنُوبِ، وَمَا کَثُرَتِ الذُّنُوبُ إِلَّا مِنْ کَثْرَۃِ الْعُیوبِ۔
ترجمہ :حضرت سیدنایحیی بن معاذ الرازی رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ دل کی سختی کی وجہ سے آنسوبھی خشک ہوجاتے ہیں اوردل گناہوں کی کثرت کی وجہ سے سخت ہوتے ہیں۔ اورگناہوں کی کثرت عیوب کی کثرت کی وجہ سے ہوتی ہے ۔
(شعب الإیمان:أحمد بن الحسین بن علی بن موسی الخُسْرَوْجِردی الخراسانی، أبو بکر البیہقی (۹:۳۷۳)

Leave a Reply