حضورتاجدارختم نبوتﷺکے گستاخوں کو سخت کلمات کہناکیسا؟
{وَکَذٰلِکَ جَعَلْنَا لِکُلِّ نَبِیٍّ عَدُوًّا شَیٰطِیْنَ الْاِنْسِ وَ الْجِنِّ یُوْحِیْ بَعْضُہُمْ اِلٰی بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُوْرًا وَلَوْ شَآء َ رَبُّکَ مَا فَعَلُوْہُ فَذَرْہُمْ وَمَا یَفْتَرُوْنَ }(۱۱۳)
ترجمہ کنزالایمان:اور اسی طرح ہم نے ہر نبی کے دشمن کئے ہیں آدمیوں اور جنوں میں کے شیطان کہ ان میں ایک دوسرے پر خفیہ ڈالتا ہے بناوٹ کی بات دھوکے کو اور تمہارا رب چاہتا تو وہ ایسا نہ کرتے تو انہیں ان کی بناوٹوں پر چھوڑ دو۔
ترجمہ ضیاء الایمان:اور ہم نے اسی طرح ہر نبی کا دشمن بنایا انسانوں اور جنوں کے شیطانوں کو ان میں ایک دوسرے کو دھوکہ دینے کے لئے بناوٹی باتوں کے وسوسے ڈالتا ہے اور اگر تمہارا رب تعالی چاہتا تو وہ ایسا نہ کرتے توآپﷺ انہیں اور ان کی بناوٹی باتوں کو چھوڑ دیں۔
کفارِ مکہ کی مخالفت اور ایذا رسانیوں کی وجہ سے سرکارِ دو عالمﷺبہت رنجیدہ تھے، اس پر اللہ تعالیٰ اپنے حبیبﷺ َکو تسلی دیتے ہوئے فرما رہا ہے کہ اے حبیبﷺ!، جس طرح یہ کفار آپ کی مخالفت اور دشمنی میں سرگرم ہیں اسی طرح آپﷺ سے پہلے جتنے ا نبیاء اور رُسُل عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام گزرے ہیں سب کی قوم کے کافر چاہے انسان ہوں یا جن ان کے دشمن تھے ۔ کفار کی انبیاء ورسل عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے عداوت اور مخالفت ہماری طرف سے ایک آزمائش ہے تاکہ انبیاء و مرسَلین عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اس پر صبر کر کے اجرِ عظیم حاصل کریں لہٰذا آپ ﷺاپنی قوم کی مخالفت اور عداوت سے رنجیدہ خاطرنہ ہوں ، یہ ایک دوسرے کو دھوکے میں رکھنے کیلئے نت نئی باتیں گھڑتے ہیں ، چالیں چلتے ہیں ، فریب کاریاں کرتے ہیں اور وسوسے ڈالتے ہیں تاکہ دوسروں کو گمراہ کریں اور جو گمراہ ہیں وہ گمراہی سے نکل نہ سکیں۔ نیز یہاں بھی ملحوظِ خاطر رہے کہ اگر اللہ عَزَّوَجَلَّ چاہتا تو وہ ایسانہ کرتے لیکن اللہ تعالیٰ اپنی حکمت سے نظامِ کائنات چلارہا ہے اور کفر وایمان، خیر و شر دونوں کے مدِّمقابل رہنے میں اس کی حکمتیں ہیں لہٰذا آپ ﷺانہیں اور ان کی دھوکے اور فریب کی خوشنما باتوں کو چھوڑ دیں اور صبر کریں ، اللہ عَزَّوَجَلَّ انہیں بدلہ دے گا، رسوا کرے گا اور آپﷺکی مدد فرمائے گا۔ آیتِ مبارکہ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ تمام نبیوں کے دشمن ضرور ہوئے ہیں ایسے ہی علماء اور اولیاء کے دشمن بھی ضرور ہی ہوتے ہیں۔ تفسیرصراط الجنان ( ۲:۱۷۸)
ہرہرنبی کے گستاخ تھے
قَوْلُہُ تَعَالَی:(وَکَذلِکَ جَعَلْنا لِکُلِّ نَبِیٍّ)یُعَزِّی نَبِیَّہُ وَیُسَلِّیہِ، أَیْ کَمَا ابْتَلَیْنَاکَ بِہَؤُلَاء ِ الْقَوْمِ فَکَذَلِکَ جَعَلْنَا لِکُلِّ نَبِیٍّ قَبْلَکَ (عَدُوًّا)أی أعداء .۔
ترجمہ :امام ابوعبداللہ محمدبن احمدالقرطبی المتوفی : ۶۷۱ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ اللہ تعالی نے اس فرمان شریف {وَکَذلِکَ جَعَلْنا لِکُلِّ نَبِیٍّ}میں حضورتاجدارختم نبوت ﷺکو حوصلہ اورتسلی د ی ہے یعنی جس طرح ہم نے آپﷺکو اس قوم کے گستاخوں کی وجہ سے آزمائش میں ڈالاہے اسی طرح ہم نے آپﷺسے پہلے بھی ہر ہرنبی کے دشمن بنائے تھے۔
(تفسیر القرطبی:أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن أبی بکر شمس الدین القرطبی (۷:۶۷)
انسانی شیطان بڑالعتنی ہے
عَنِ ابْنِ عَائِذٍ،عَنْ أَبِی ذَرٍّ، أَنَّہُ قَالَ:أَتَیْتُ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی مَجْلِسٍ قَدْ أَطَالَ فِیہِ الْجُلُوسَ، قَالَ:فَقَالَ:یَا أَبَا ذَرٍّ، ہَلْ صَلَّیْتَ؟ قَالَ:قُلْتُ:لَا، یَا رَسُولَ اللَّہِ قَالَ:قُمْ فَارْکَعْ رَکْعَتَیْنِ ،قَالَ:ثُمَّ جِئْتُ فَجَلَسْتُ إِلَیْہِ، فَقَالَ:یَا أَبَا ذَرٍّ، ہَلْ تَعَوَّذْتَ بِاللَّہِ مِنْ شَرِّ شَیَاطِینِ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ؟ قَالَ:قُلْتُ:یَا رَسُولَ اللَّہِ، وَہَلْ لِلْإِنْسِ مِنْ شَیَاطِینَ؟ قَالَ:نَعَمْ، شَرٌّ مِنْ شَیَاطِینِ الْجِنِّ۔
ترجمہ :حضرت سیدناابن عائذ رضی اللہ عنہ حضرت سیدناابوذرالغفاری رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ میں حضورتاجدارختم نبوت ﷺکی بارگاہ اقدس میں حاضرہواتوآپﷺنے فرمایا: اے ابوذر!کیاتم نے نما زپڑھ لی ہے ؟ میں نے عرض کیاکہ نہیں ۔ توحضورتاجدارختم نبوت ﷺنے فرمایاکہ اٹھواوردورکعت نماز اداکرو!میں اٹھااورمیںنے نماز اداکی توپھرحضورتاجدارختم نبوت ﷺکی بارگاہ اقدس میں حاضرہوا۔ توحضورتاجدارختم نبوت ﷺنے فرمایا: کیاتم نے جنات اورانسانوں کے شیاطین کے شرسے پناہ مانگ لی ہے ؟ میں نے عرض کی: یارسول اللہ ﷺ!کیاانسانوں کے بھی شیاطین ہوتے ہیں ؟ توآپ ﷺنے فرمایا: ہاں وہ جنوں کے شیاطین سے بھی زیادہ شریرہوتے ہیں ۔
(تفسیر الطبری :محمد بن جریر بن یزید بن کثیر بن غالب الآملی، أبو جعفر الطبری (۹:۵۰۰)
حضرت سیدنامالک بن دیناررضی اللہ عنہ کاقول
وَقَالَ مَالِکُ بْنُ دِینَارٍ:إِنَّ شَیْطَانَ الْإِنْسِ أَشَدُّ عَلَیَّ مِنْ شَیْطَانِ الْجِنِّ، وَذَلِکَ أَنِّی إِذَا تَعَوَّذْتُ بِاللَّہِ ذَہَبَ عَنِّی شَیْطَانُ الْجِنِّ، وَشَیْطَانُ الْإِنْسِ یَجِیئُنِی فَیَجُرُّنِی إِلَی الْمَعَاصِی عِیَانًا۔
ترجمہ:حضرت سیدنامالک بن دیناررضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ بے شک انسانوں کا شیطان مجھ پر جنوں کے شیطان سے بھی زیادہ سخت ہے اورزیادہ تکلیف دینے والاہے ۔ اوراس لئے کہ جب میں اللہ تعالی کی پناہ طلب کرتاہوں توجنوں کاشیطان مجھ سے دورہوجاتاہے اورانسانوں کاشیطان میرے پاس آجاتاہے اورمجھے واضح طورپرمعاصی اورگناہوں کی طرف کھینچتاہے ۔
تفسیرالخازن:علاء الدین علی بن محمد المعروف بالخازن (۲:۱۴۸)دار الکتب العلمیۃ – بیروت
انبیاء کرام علیہم السلام کو سب سے زیادہ تکلیف گستاخی سے ہوتی ہے
وفی الآیۃ اشارۃ الی ان البلایا للسائرین الی اللہ ہی المطایا وان أشد البلاء شماتۃ الأعداء فلما کانت رتبۃ الأنبیاء أعلی کانت عداوۃ الکفار لہم اوفی وفی ذلک ترقیات لہم وتجلیات۔
ترجمہ :امام اسماعیل حقی الحنفی المتوفی : ۱۱۲۷ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ اس آیت کریمہ میں اشارہ ہے کہ اللہ تعالی کے نیک بندوں کے لئے مصیبتیں بمنزلہ سواریوں کے ہیں اورسب سے بڑی مصیبت شماتت اعداء یعنی گستاخوں کاگستاخیاں کرنااوران کو ایذادیناہے اورچونکہ انبیاء کرام علیہم السلام مراتب عالیہ کے مالک ہوتے ہیں ، اس لئے ان کے گستاخ بہت زیادہ ہوتے ہیں اورگستاخوں کی کثرت سے یہ ترقی پاتے ہیں اورتجلیات ربانی کوحاصل کرتے ہیں ۔
(روح البیان:إسماعیل حقی بن مصطفی الإستانبولی الحنفی الخلوتی المولی أبو الفداء (۳:۸۸)
دشمن کیسے بنے؟
أَبُو بَکْرٍ الْأَصَمُّ عَنْہُ بِأَنَّہُ تَعَالَی لَمَّا أَرْسَلَ مُحَمَّدًا صَلَّی اللہ علیہ وآلہ وَسَلَّمَ إِلَی الْعَالَمِینَ وَخَصَّہُ بِتِلْکَ الْمُعْجِزَۃِ حَسَدُوہُ وَصَارَ ذَلِکَ الْحَسَدُ سَبَبًا لِلْعَدَاوَۃِ الْقَوِیَّۃِ فَلِہَذَا التَّأْوِیلِ قَالَ إِنَّہُ تَعَالَی جَعَلَہُمْ أَعْدَاء ً لَہُ ۔
ترجمہ :امام ابوبکراصم رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ جب اللہ تعالی نے حضورتاجدارختم نبوت ﷺکوتمام جہانوں کی طرف رسول بناکربھیجااوراس معجزے کے ساتھ مخصوص کیاتویہود ونصاری اورمشرکین حسدکاشکارہوگئے اوریہ حسدقوی عداوت کاسبب بن گیاتواس معنی کی وجہ سے اللہ تعالی نے فرمایااس نے انہیں دشمن بنادیا۔
(التفسیر الکبیر:أبو عبد اللہ محمد بن عمر بن الحسن بن الحسین التیمی الرازی (۱۳:۱۱۹)
امام الکعبی رحمہ اللہ تعالی کاقول
وَأَجَابَ الْکَعْبِیُّ عَنْہُ بِأَنَّہُ تَعَالَی أَمَرَ الأنبیاء بعداوتہم وَأَعْلَمَہُمْ کَوْنَہُمْ أَعْدَاء ً لَہُمْ وَذَلِکَ یَقْتَضِی صَیْرُورَتَہُمْ أَعْدَاء ً لِلْأَنْبِیَاء ِ لِأَنَّ الْعَدَاوَۃَ لَا تَحْصُلُ إِلَّا مِنَ الْجَانِبَیْنِ فَلِہَذَا الْوَجْہِ جَازَ أَنْ یُقَالَ إِنَّہُ تَعَالَی جَعَلَہُمْ أَعْدَاء ً لِلْأَنْبِیَاء ِ عَلَیْہِمُ السَّلَامُ.
ترجمہ :امام کعبی رحمہ اللہ تعالی نے اس سوال کاجواب یہ دیاہے کہ اللہ تعالی نے انبیاء کرام علیہم السلام کو دین دشمنوں کے ساتھ عداوت رکھنے کاحکم دیاہے اورانہیں بتایاہے کہ یہ لوگ ان کے دشمن ہیں اوریہ تقاضاکرتاہے کہ یہ لوگ انبیاء کرام علیہم السلام کے دشمن بنیں کیونکہ عداوت دونوں جانبوں سے ہوتی ہے تواس بناپریہ کہنادرست ہے کہ اللہ تعالی نے انبیاء کرام علیہم السلام کادشمن بنایا۔
(التفسیر الکبیر:أبو عبد اللہ محمد بن عمر بن الحسن بن الحسین التیمی الرازی (۱۳:۱۱۹)
اللہ تعالی تسلی دے رہاہے
قَالَ الْقَاضِیَ ہَذَا الْقَوْلُ یَتَضَمَّنُ التَّحْذِیرَ الشَّدِیدَ مِنَ الْکُفْرِ وَالتَّرْغِیبَ الْکَامِلَ فِی الْإِیمَانِ وَیَقْتَضِی زَوَالَ الْغَمِّ عَنْ قَلْبِ الرَّسُولِ مِنْ حَیْثُ یَتَصَوَّرُ مَا أَعَدَّ اللَّہُ لِلْقَوْمِ عَلَی کُفْرِہِمْ مِنْ أَنْوَاعِ الْعَذَابِ وَمَا أَعَدَّ لَہُ مِنْ مَنَازِلِ الثَّوَابِ بِسَبَبِ صَبْرِہِ علی سفاہتہم ولطفہ بہم.
ترجمہ :قاضی بیضاوی رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ یہ قول کفرپرشدیدتحذیراورایمان میں کامل ترغیب پرمشتمل ہے اوریہ حضورتاجدارختم نبوتﷺکے قلب اطہرسے زوال غم کایوں تقاضاکررہاہے کہ کفارکے لئے ان کے کفرکی وجہ سے اللہ تعالی نے جوعذاب کی انواع تیارکی ہیں اورآپ ﷺکے ان کی بیوقوفیوں پرصبراوران کے ساتھ نرمی کی وجہ سے اللہ تعالی نے جو منازل ِ ثواب تیارکی ہیں آپ ﷺان کو تصورمیں لائیں۔
(التفسیر الکبیر:أبو عبد اللہ محمد بن عمر بن الحسن بن الحسین التیمی الرازی (۱۳:۱۱۹)
مسلمانوں کو چاہئے کہ انسانی شیطانوں سے بچیں ـ
اس آیتِ مبارکہ سے معلوم ہوا کہ جو گمراہ کن شخص کسی کو شریعت کے خلاف کام کی ترغیب دے وہ انسانی شیطان ہے اگرچہ وہ اپنے عزیزوں میں سے ہو یا عالم کے لباس میں ہو، نیز اس میں وہ تمام لوگ داخل ہیں جو آزاد خیالی یا روشن خیالی کے نام پر شرعی کاموں کے خلاف منصوبے بناتے اور اس کیلئے تنظیمیں بناتے ہیں۔ سب مسلمانوں پر لاز م ہے کہ وہ ایسے انسانی شیطانوں سے خود بھی بچیں اور دوسروں کو بھی بچائیں۔ یہاں ایک نہایت اہم چیز کے بارے میں عرض کرنی ہے کہ ہمارے دور میں یہ وبا عام ہوتی جارہی ہے کہ بھائی ہر ایک کی سنو اور تحقیق کرو خواہ کہنے والا قرآن کے خلاف کہے یا حدیث کے یا اسلام کے۔ گویا معاذاللہ، تحقیق، مطالعہ کے نام پر ہر گمراہی سننے ، پڑھنے کی ترغیب دی جا رہی ہے اور اس چیز کو باہمی رواداری، ایک دوسرے کو سمجھنے کی کوشش، ایک دوسرے کے نکتہ نظر پر مطلع ہونا، اپنے اپنے خیالات دوسروں سے شیئر کرنا وغیرہ وغیرہ کے بڑے دلچسپ نام دئیے جاتے ہیں لیکن کیا قرآن، حدیث، دین، ایمان، اسلام میں بھی اس چیز کی گنجائش ہے یا نہیں ، اس کی طرف کوئی نہیں دیکھتا۔ لہٰذا یہاں پر ہم قرآن و حدیث کی روشنی میں ایسی باطل تحقیق و مطالعہ کا حکمِ شرعی بیان کرتے ہیں اور ہمیں اُن جاہلوں کی کوئی پرواہ نہیں جو قرآن و حدیث کے ان احکام کو اپنی جہالت و کوتاہ نظر سے تنگ نظری اور نجانے کیا کیا نام دیں گے۔ چنانچہ کفار و اسلام دشمن لوگوں کے لیکچرز سننے کے حوالے سے اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ سے سوال ہوا تو آپ نے بڑے احسن انداز میں جواب ارشاد فرمایا جس کا خلاصہ یہ ہے کہ آج کل ہماری عوام کی سخت جہالت یہ ہے کہ کسی آریہ نے اشتہار دیا کہ اسلام کے فلاں مضمون کے رَد میں فلاں وقت لیکچر دیا جائے گا، یہ سننے کیلئے دوڑ ے جاتے ہیں۔ کسی پادری نے اعلان کیا کہ نصرانیت کے فلاں مضمون کے ثبوت میں فلاں وقت ندا ہوگی، یہ سننے کیلئے دوڑے جاتے ہیں۔ بھائیو! تم اپنے نفع نقصان کو زیادہ جانتے ہو یا تمہارا رب عَزَّوَجَلَّ اور تمہارے نبی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ، اُن کا حکم تو یہ ہے کہ شیطان تمہارے پاس وسوسہ ڈالنے آئے تو سیدھا جواب یہ دے دو کہ تو جھوٹا ہے نہ یہ کہ تم دوڑ دوڑ کے اُن کے پاس جاؤ اور اپنے رب عَزَّوَجَلَّ، اپنے قرآن اور اپنے نبیﷺ کی شان میں ملعون کلمات سنو۔ تم قرآنِ مجید کی اسی آیت کا آخری حصہ اور ا س کے مُتَّصل کی آیاتِ کریمہ تلاوت کرتے جاؤ اور دیکھو کہ قرآنِ عظیم تمہاری اس حرکت کی کیسی کیسی شناعتیں بتاتا اور اُن ناپاک لیکچروں اور نداؤں کی نسبت تمہیں کیا کیا ہدایت فرماتا ہے، چنانچہ اس آیت کے آخر میں ارشاد ہوتا ہے:
{ وَلَوْ شَآء َ رَبُّکَ مَا فَعَلُوْہُ فَذَرْہُمْ وَمَا یَفْتَرُوْنَ }
اور تیرا رب چاہتا تو وہ یہ دھوکے بناوٹ کی باتیں نہ بناتے پھرتے تو تو انہیں اور اُن کے بہتانوں کو یک لخت چھوڑ دے۔
دیکھو! اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اُنہیں اور اُن کی باتوں کو چھوڑنے کا حکم فرمایا یا اُن کے پاس سننے کے لئے دوڑنے کا۔ اور سنئے، اس کے بعد کی آیت میں فرماتا ہے:
{وَلِتَصْغٰٓی اِلَیْہِ اَفْـِدَۃُ الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَۃِ وَ لِیَرْضَوْہُ وَ لِیَقْتَرِفُوْا مَا ہُمْ مُّقْتَرِفُوْنَ }
اور اس لئے کہ ایسے لوگوں کے دل اس کی طرف کان لگائیں جنہیں آخرت پر ایمان نہیں اور اُسے پسند کریں اور جو کچھ ناپاکیاں وہ کر رہے ہیں یہ بھی کرنے لگیں۔
دیکھو اُن (کفار و نافرمان لوگوں )کی باتوں کی طرف کان لگانا اُن (لوگوں )کا کام بتایا جو آخرت پر ایمان نہیں رکھتے اور اس کا نتیجہ یہ فرمایا کہ وہ ملعون باتیں ان پر اثر کر جائیں اور یہ بھی اُن جیسے ہوجائیں۔ لوگ اپنی جہالت سے گمان کرتے ہیں کہ ہم اپنے دل سے مسلمان ہیں ہم پر اُن کا کیا اثر ہوگا حالانکہ رسولُ اللہﷺ فرماتے ہیں جو دجال کی خبر سنے اُس پر واجب ہے کہ اُس سے دور بھاگے کہ خدا کی قسم آدمی اس کے پاس جائے گا اور یہ خیال کرے گا کہ میں تومسلمان ہوں یعنی مجھے اس سے کیا نقصان پہنچے گا وہاں اس کے دھوکوں میں پڑکر اس کا پیرو ہو جائے گا۔
کیا دجال ایک اُسی اخبث دجال کو سمجھتے ہو جو آنے والا ہے، ایسا ہر گز نہیں ہے بلکہ تمام گمراہوں کے داعی منادی سب دجال ہیں اور سب سے دُور بھاگنے ہی کا حکم فرمایا اور اُس میں یہی اندیشہ بتایا ہے۔ رسولُ اللہﷺفرماتے ہیں کہ آخر زمانے میں دجال کذاب لوگ ہوں گے کہ وہ باتیں تمہارے پاس لائیں گے جو نہ تم نے سنیں نہ تمہارے باپ دادا نے، توان سے دور رہو اور انہیں اپنے سے دور رکھو کہیں وہ تمہیں گمراہ نہ کردیں کہیں تمہیں فتنہ میں نہ ڈال دیں۔ اور سنئے، اس کے بعد کی آیات میں فرماتا ہے:
اَفَغَیْرَ اللہِ اَبْتَغِیْ حَکَمًا وَّہُوَ الَّذِیْٓ اَنْزَلَ اِلَیْکُمُ الْکِتٰبَ مُفَصَّلًا وَالَّذِیْنَ اٰتَیْنٰہُمُ الْکِتٰبَ یَعْلَمُوْنَ اَنَّہ مُنَزَّلٌ مِّنْ رَّبِّکَ بِالْحَقِّ فَلَا تَکُوْنَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِیْنَ }{وَتَمَّتْ کَلِمَتُ رَبِّکَ صِدْقًا وَّعَدْلًا لَا مُبَدِّلَ لِکَلِمٰتِہٖ وَ ہُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ }{وَ اِنْ تُطِعْ اَکْثَرَ مَنْ فِی الْاَرْضِ یُضِلُّوْکَ عَنْ سَبِیْلِ اللہِ اِنْ یَّتَّبِعُوْنَ اِلَّا الظَّنَّ وَ اِنْ ہُمْ اِلَّا یَخْرُصُوْنَ } {اِنَّ رَبَّکَ ہُوَ اَعْلَمُ مَنْ یَّضِلُّ عَنْ سَبِیْلِہٖ وَ ہُوَ اَعْلَمُ بِالْمُہْتَدِیْنَ }
تو کیا اللہ کے سوا کوئی اور فیصلہ کرنے والا ڈھونڈوں گے حالانکہ اُس نے مفصل کتاب تمہاری طرف اُتاری اور اہلِ کتاب خوب جانتے ہیں کہ وہ تیرے رب کے پاس سے حق کے ساتھ اُتری تو خبردار تو شک نہ کرنا اور تیرے رب کی بات سچ اور انصاف میں کامل ہے کوئی اُس کی باتوں کا بدلنے والا نہیں اور وہ شنوا و دانا ہے اور زمین والوں میں زیادہ وہ ہیں کہ تو ان کی پیروی کرے تو وہ تجھے خدا کی راہ سے بہکا دیں وہ تو گمان کے پیرو ہیں اور نری اٹکلیں دوڑاتے ہیں بیشک تیرا رب خوب جانتا ہے کہ کون اس کی راہ سے بہکے گا اور وہ خوب جانتا ہے ہدایت پانے والوں کو۔
یہ تمام آیاتِ کریمہ انہیں مطالب کے سلسلہ بیان میں ہیں گویا ارشاد ہوتا ہے کہ تم جو اُن شیطان آدمیوں کی باتیں سننے جاؤ کیا تمہیں یہ تلاش ہے کہ دیکھیں اس مذہبی اختلاف میں یہ لکچرار یا یہ منادی کیا فیصلہ کرتا ہے، ارے خدا سے بہتر فیصلہ کس کا! اُس نے مفصل کتاب قرآنِ عظیم تمہیں عطا فرما دی اُس کے بعد تم کو کسی لیکچر، ندا کی کیا حاجت ہے لیکچر والے جو کسی دینی کتاب کا نام نہیں لیتے کس گنتی شمار میں ہیں !یہ کتاب والے دل میں خوب جانتے ہیں کہ قرآن حق ہے (مگر)تَعَصُّب کی پٹی (ان کی)آنکھوں پر بندھی ہے کہ ہٹ دھرمی سے مکرے جاتے ہیں تو تجھے کیوں شک پیدا ہو کہ اُن کی سننا چاہے، تیرے رب کا کلام صدق وعدل میں بھرپور ہے کل تک جو اُس پر تجھے کامل یقین تھا آج کیا اُس میں فرق آیا کہ اُس پر اعتراض سننا چاہتا ہے کیا خدا کی باتیں کوئی بدل سکتا ہے، یہ نہ سمجھنا کہ میرا کوئی مقال (یعنی قول)، کوئی خیال خدا سے چھپ رہے گا، وہ سنتا ،جانتا ہے، دیکھ اگر تونے اُن کی سنی تو وہ تجھے خدا کی راہ سے بہکا دیں گے، (اے نادان!تو) کیا یہ خیال کرتا ہے کہ ان (گمراہ لوگوں )کا علم دیکھوں (کہ)کہاں تک ہے، یہ کیا کہتے ہیں ارے اُن کے پاس علم کہاں وہ تو اپنے اوہام کے پیچھے لگے ہوئے اور نری اٹکلیں دوڑاتے ہیں جن کا تھل نہ بیڑا ،جب اللہ واحد قہار کی گواہی ہے کہ اُن کے پاس نری مہمل اٹکلوں کے سوا کچھ نہیں تو اُن کو سننے کے کیا معنی؟ سننے سے پہلے وہی کہہ دے جو تیرے نبیﷺنے تعلیم فرمایا کہ شیطان تو جھوٹا ہے اور اس گھمنڈ میں نہ رہنا کہ مجھ کو کیا گمراہ کریں گے میں تو راہ پر ہوں تیرا رب خوب جانتا ہے کہ کون اُس کی راہ سے بہکے گا اور کون راہ پر ہے، (اگر)تُو پورا راہ پرہوتا تو بے راہوں کی سننے ہی کیوں جاتا حالانکہ تیرا رب فرما چکا چھوڑ دے اُنہیں اور اُن کے بہتانوں کو۔ تیرے نبیﷺ فرما چکے اُن سے دُور رہو اور ان کو اپنے سے دور کرو کہیں وہ تم کو بہکانہ دیں کہیں وہ تم کو فتنے میں نہ ڈال دیں۔
بھائیو!ایک سہل بات ہے اس پر غور فرمالو۔ تم اپنے رب عَزَّوَجَلَّ، اپنے قرآن اور اپنے نبیﷺپر سچا ایمان رکھتے ہو یا مَعَاذَاللہ اس میں کچھ شک ہے!اور جسے شک ہوا سے اسلام سے کیا علاقہ(یعنی تعلق)وہ ناحق اپنے آپ کو مسلمان کہہ کر مسلمانوں کو کیوں بدنام کرے اور اگر سچا ایمان ہے تو اب یہ فرمائیے کہ ان کے لیکچروںاور نداؤں میں آپ کے رب عَزَّوَجَلَّ، قرآن، نبیﷺاور ایمان کی تعریف ہوگی یا مذمت۔ ظاہر ہے کہ دوسری ہی صورت ہوگی اور اسی لئے تم کو بلاتے ہیں کہ تمہارے منہ پر تمہارے خدا، نبی، قرآن اور دین کی توہین وتکذیب کریں۔ اب ذرا غور کرلیجئے کہ ایک شریر نے زید کے نام اشتہار دیا کہ فلاں وقت فلاں مقام پر میں بیان کروں گا کہ تیرا باپ حرامی بچہ اور تیری ماں زانیہ تھی، خدا کے لئے انصاف، کیا کوئی غیرت والا، حمیت والا اور انسانیت والا جبکہ اُسے اس بیان سے روک دینے، باز رکھنے پر قادر نہ ہو اسے سننے جائے گا۔ خدا کی قسم !ہر گز نہیں ، کسی بھنگی چمار سے بھی یہ نہ ہوسکے گا پھر ایمان کے دل پر ہاتھ رکھ کر دیکھو کہ اللہ ،رسول اور قرآنِ عظیم کی توہین، تکذیب اور مذمت سخت تر ہے یا ماں باپ کی گالی۔ ایمان رکھتے ہو تو اُسے اِس سے کچھ نسبت نہ جانو گے۔ پھر کون سے کلیجے سے اُن جگر شگاف ، ناپاک، ملعون بہتانوں ، افتراؤں ، شیطانی اٹکلوں اور ڈھکوسلوں کو سننے جاتے ہو، بلکہ حقیقت اورـــ انصاف کی بات تو یہ ہے کہ وہ جو کچھ بکتے اور اللہ، رسول اور قرآنِ عظیم کی تحقیر کرتے ہیں ان سب کاباعث یہ سننے والے ہیں ، اگر مسلمان اپنا ایمان سنبھالیں ، اپنے رب، قرآن اور رسولﷺ کی عزت عظمت پیشِ نظر رکھیں اور ایکا کرلیں کہ وہ خبیث لکچر ،گندی ندائیں سننے کوئی نہ جائے گا جو وہاں موجود ہو وہ بھی فوراً وہی مبارک ارشاد کا کلمہ کہہ کر کہ تو جھوٹا ہے چلا جائے گا تو کیا وہ دیواروں پتھروں سے اپنا سر پھوڑیں گے؟ تو تم سن سن کر کہلواتے ہو ،نہ تم سنو نہ وہ کہیں ، پھر انصاف کیجئے کہ اُس کہنے کا وبال کس پر ہوا۔علماء فرماتے ہیں ہٹے کٹے جوان تندرست جو بھیک مانگنے کے عادی ہوتے اور اسی کو اپنا پیشہ بنالیتے ہیں اُنہیں دینا ناجائز ہے کہ اس میں گناہ پر شَہ دینی ہے، لوگ نہ دیں تو جھک ماریں اور محنت مزدوری کریں۔ بھائیو!جب اِس میں گناہ کی امداد ہے تو اُس میں تو کفر کی مدد ہے۔ قرآنِ عظیم کی نصِ قطعی نے ایسی جگہ سے فوراً ہٹ جانا فرض کردیا اور وہاں ٹھہرنا فقط حرام ہی نہ فرمایا بلکہ سنو تو کیا:
{ اِنَّکُمْ اِذًا مِّثْلُہُمْ اِنَّ اللہَ جَامِعُ الْمُنٰفِقِیْنَ وَالْکٰفِرِیْنَ فِیْ جَہنَّمَ جَمِیْعَا }یعنی بے شک اللہ تم پر قرآن میں حکم اتار چکا کہ جب تم سنو خدا کی آیتو ں سے انکار ہوتا اور اُن کی ہنسی کی جاتی ہے تو ان لوگوں کے پاس نہ بیٹھو جب تک وہ اور باتوں میں مشغول نہ ہوں اور تم نے نہ مانا اور جس وقت وہ اللہ کی آیات پر اعتراض کر رہے ہیں وہاں بیٹھے تو تم بھی انہیں جیسے ہو، بیشک اللہ تعالیٰ منافقوں اور کافروں سب کو جہنم میں اکٹھا کرے گا۔
دیکھو قرآن فرماتا ہے ،ہاں تمہارا رب رحمن فرماتا ہے جو ایسے جلسوں میں جائے ایسی جگہ کھڑا ہو وہ بھی انہیں کافروں آریوں پادریوں کی مثل ہے۔آہ آہ حرام تو ہر گناہ ہے یہاں تو اللہ واحد قہار یہ فرما رہا ہے کہ وہاں ٹھہرے تو تم بھی انہیں جیسے ہو۔ مسلمانو! کیا قرآنِ عظیم کی یہ آیات تم نے منسوخ کردیں یا اللہ عَزَّوَجَلَّ کی اس سخت وعید کو سچا نہ سمجھے یا کافروں جیسا ہونا قبول کرلیا۔ اور جب کچھ نہیں تو اُن جمگھٹوں کے کیا معنی ہیں جو آریوں پادریوں کے لکچروں نداؤں پر ہوتے ہیں اُن جلسوں میں شرکت کیوں ہے جو خدا، رسول اور قرآن پر اعتراضوں کیلئے کئے جاتے ہیں۔ بھائیو! میں نہیں کہتا قرآن فرماتا ہے کہ{ اِنَّکُمْ اِذًا مِّثْلُہُمْ }تم بھی ان ہی جیسے ہو۔ اُن لیکچروں پر جمگھٹ والے اُن جلسوں میں شرکت والے سب اُنہیں کافروں کے مثل ہیں ، وہ علانیہ بک کر کافر ہوئے یہ زبان سے کلمہ پڑھیں اور دل میں خدا، رسول اورقرآن کی اتنی عزت نہیں کہ جہاں اُن کی توہین ہوتی ہو وہاں سے بچیں تو یہ منافق ہوئے جب تو فرمایا کہ اللہ اُنہیں اور اِنہیں سب کو جہنم میں اکٹھا کرے گا کہ یہاں تم لیکچر دو اور تم سنو۔
مسلمان اگر قرآنِ عظیم کی اس نصیحت پر عمل کریں تو ابھی ابھی دیکھیں کہ اللہ تعالیٰ کے دشمنوں کے سب بازار ٹھنڈے ہوئے جاتے ہیں ، ملک میں ان کے شور وشر کا نشان نہ رہے گا ،جہنم کے کندے شیطان کے بندے آپس ہی میں ٹکرا ٹکرا کر سر پھوڑیں گے، اللہ، رسول اور قرآنِ عظیم کی توہینوں سے مسلمانوں کا کلیجا پکانا چھوڑیں گے، اور اپنے گھر بیٹھ کر بکے بھی تو مسلمانوں کے کان تو ٹھنڈے رہیں گے۔
(فتاوی رضوی لامام احمدرضاحنفی الماتریدی( (۱:۷۸۱،۷۸۵)