علماء کرام کی گستاخی انسان کو ملحدوبے دین بنادیتی ہے
{اِنَّا جَعَلْنَا مَا عَلَی الْاَرْضِ زِیْنَۃً لَّہَا لِنَبْلُوَہُمْ اَیُّہُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا }(۸)
ترجمہ کنزالایمان:بیشک ہم نے زمین کا سنگار کیا جو کچھ اس پر ہے کہ انہیں آزمائیں ان میں کس کے کام بہتر ہیں۔
ترجمہ ضیاء الایمان: بیشک ہم نے زمین پرپائی جانے والی چیزوں کوزمین کیلئے زینت بنایا تاکہ ہم انہیں آزمائیں کہ ان میں عمل کے اعتبار سے کون اچھا ہے۔
علماء زینت ہیں زمین کی
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ فی قول تَعَالَی:إِنَّا جَعَلْنا مَا عَلَی الْأَرْضِ زِینَۃً لَہاقَالَ:الْعُلَمَاء ُ زِینَۃُ الْأَرْضِ۔
ترجمہ :حضرت سیدناعبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہمااس آیت کریمہ {إِنَّا جَعَلْنا مَا عَلَی الْأَرْضِ زِینَۃً لَہا}کے تحت فرماتے ہیں کہ زمین کی زینت علماء کرام ہیں ۔
(تفسیر القرطبی:أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن أبی بکر شمس الدین القرطبی (۱۰:۳۵۳)
انبیاء کرام علیہم السلام ، اولیاء وحفاظ ِ قرآن کریم زمین کی زینت ہیں
قال الکاشفی (محققان برانند کی ماای فی ما علی الأرض بمعنی من است ومراد انبیا یا علما یا حفظہ قرآن کہ زینت زمین ایشانند وجمعی کویند آرایش زمین برجال اللہ است از آن روی کہ قیام عالم بوجود شریف ایشان باز بستہ است۔
روی زمین بطلعت ایشان منور است … چون آسمان بزہرہ وخورشید ومشتری
ترجمہ :علامہ الکاشفی رحمہ اللہ تعالی لکھتے ہیں کہ ماعلی الارض میں مابمعنی من ہے ، اس سے انبیاء کرام علیہم السلام یااولیاء کرام علیہم الرحمہ یاقرآن کریم کے حفاظ مراد ہیں ، اسی لئے یہی حضرات زمین کی زینت ہیں ۔
بعض مشائخ کرام فرماتے ہیں کہ زمین کی زینت اولیاء کرام ہیں ، اس لئے کہ عام دنیاکاقیام انہیں کے وجود شریف سے وابستہ ہے ۔
روی زمین بطلعت ایشان منور است … چون آسمان بزہرہ وخورشید ومشتری
زمین اولیاء کرام کی شکل نورانی سے منورہے جیسے آسمان زہرہ ، خورشیداورمشتری سے تاباں ہے ۔
(روح البیان:إسماعیل حقی بن مصطفی الإستانبولی الحنفی الخلوتی المولی أبو الفداء (۵:۲۱۷)
صاحب تقوی لوگ زمین کی زینت ہیں
عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ تَلا أَیُّکُمْ أَحْسَنُ عَمَلا ثُمَّ قَالَ:أَیُّکُمْ أَحْسَنُ عَقْلا وَأْورَعُ، عَنْ مَحَارِمِ اللَّہِ وَأَسْرَعُکُمْ فِی طَاعَۃِ اللَّہُ.
ترجمہ :حضرت سیدناعبداللہ بن عمررضی اللہ عنہمافرماتے ہیں کہ حضورتاجدارختم نبوتﷺنے یہ آیت کریمہ { أَیُّکُمْ أَحْسَنُ عَمَلا }تلاوت فرمائی تومیں نے عرض کیا : یارسول اللہ ﷺ!اس کاکیامعنی ہے ؟ آپﷺنے فرمایا تاکہ وہ آزمالے کہ تم میں سے کون از روئے عمل بہترہے اوراللہ تعالی کی حرام کردہ چیزوں سے کون زیادہ بچنے والاہے اوراللہ تعالی کے احکامات پرعمل کرنے میں کون زیادہ تیزی دکھانے والاہے ۔
(تفسیر القرآن العظیم لابن أبی حاتم:أبو محمد عبد الرحمن بن محمد بن إدریس الرازی ابن أبی حاتم (۶:۲۰۰۶)
علماء کرام پرحضورتاجدارختم نبوتﷺکی ہمہ وقت نگاہ فیض رہتی ہے
وسألت بنت علیّ البلخی إیاہا عن القیء إذا خرج الی الحلق فقال یجب إعادۃ الوضوء فرأی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فقال لا یا علی حتی یکون ملیء الفم فقال علمت ان الفتوی تعرض علی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فآلیت علی نفسی ان لا افتی ابدا ۔
ترجمہ :امام علی البلخی رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ ان کی بیٹی نے ان سے ایک بارمسئلہ دریافت کیاکہ اگرکسی کو قئے منہ بھرنہ آئے تواس کاوضوٹوٹ جائے گایانہیں ؟ امام علی البلخی رحمہ اللہ تعالی نے فرمایاکہ اس کاوضوٹوٹ جائے گااسے وضوکااعادہ کرناضروری ہے ، اس کے بعد حضرت سیدناامام علی بلخی رحمہ اللہ تعالی خواب میں حضورتاجدارختم نبوتﷺکی زیارت سے مشرف ہوئے توآپﷺنے فرمایا: اے علی !تم نے مسئلہ غلط بتایا، جب تک قئے منہ بھرکرنہ آئے اس وقت تک وضونہیں ٹوٹتا۔ حضرت علی بلخی رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ اس وقت مجھے یقین ہوگیاکہ ہرمسئلہ حضورتاجدارختم نبوتﷺکی بارگاہ ختم نبوت میں پیش ہوتاہے ۔ میں نے اس کے بعد تہیہ کرلیااورقسم کھائی کے آئندہ کوئی فتوی نہیںد وں گا۔
(روح البیان:إسماعیل حقی بن مصطفی الإستانبولی الحنفی الخلوتی المولی أبو الفداء (۳:۹۱)
تیمورلنگ کاعلماء پرظلم وتشدد
وحکی الشیخ العلامۃ ابن الشحنۃ ان تیمور لنک ذکروا عنہ کان یتعنت علی العلماء فی الاسئلۃ ویجعل ذلک سببا لقتلہم وتعذیبہم مثل الحجاج فلما دخل حلب فتحہا عنوۃ وقتل واسر کثیرا من المسلمین وصعد نواب المملکۃ وسائر الخواص الی القلعۃ وطلب علماء ہا وقضاتہا فحضرنا الیہ وأوقفنا ساعۃ بین یدیہ ثم أمرنا بالجلوس فقال لمقدم اہل العلم عندہ وہو المولی عبد الجبار ابن العلامۃ نعمان الدین الحنفی قل لہم انی سائلہم عن مسألۃ سألت عنہا علماء سمرقند وبخاری وہراۃ وسائر البلاد التی افتتحتہا ولم یفصحوا عن الجواب فلا تکونوا مثلہم ولا یجاوبنی الا أعلمکم وأفضلکم ولیعرف ما یتکلم بہ فقال لی عبد الجبار سلطاننا یقول بالأمس قتل منا ومنکم فمن الشہید قتیلنا أم قتیلکم ففتح اللہ علیّ بجواب حسن بدیع فقلت جاء أعرابی الی النبی علیہ السلام فقال الرجل یقاتل للمغنم والرجل یقاتل للذکر والرجل یقاتل لیری مکانہ فی سبیل اللہ ومن قتل منا ومنکم لاعلاء کلمۃ اللہ فہو الشہید فقال تیمور لنک خوب خوب وقال عبد الجبار ما احسن ما قلت وانفتح باب المؤانسۃ۔
ترجمہ :الشیخ ابن الشحنہ رحمہ اللہ تعالی لکھتے ہیں کہ تیمورلنگ کے بارے میں مشہورہے کہ وہ علماء کرام پرظلم کیاکرتاتھااوراس کی عادت تھی کہ پہلے وہ چندسوالات کرتا، اگرجوابات اس کی طبیعت کے ناموافق دیئے جاتے توجواب دینے والے علماء کرام کوشہیدکروادیتا، یاظلم کانشانہ بناتا، گویایہ حجاج ثانی تھا،جب تیمورنے حلب کو فتح کیااوراس نے بہت سے لوگوںکوقتل کیااوربہت سے لوگوںکوقیدکروایااورپھرقلعہ حلب میں ایک مسند سجائی ، جس میں شہرکے امراء اوررئیسوں اورعلماء کرام کودعوت دی اورالشیخ ابن الشحنہ نے کہا: جب ہم سب علماء حاضرہوئے ، کچھ دیرتواس نے ہمیں اپنے سامنے کھڑاکئے رکھا، بعد ازاں بیٹھنے کاحکم دیا، ہم سب بیٹھ گئے ، مولاناعبدالجباربن العلامہ نعمان الدین الحنفی رحمہ اللہ تعالی اس کے ہاں اکابرعلماء میں شمارہوتے تھے ، اس نے انہیں فرمایاکہ ان آئے ہوئے علماء کرام سے فرمایئے کہ مجھے ایک مسئلہ میں اشکال ہے اورمیں نے سمرقند، بخارا، ہرات اوردیگربڑے بڑے شہروں کے سرکردہ علماء سے سوال کیامگرحل نہ ہوا، تم ان کی طرح نہ کرنااوراس کاجواب بھی وہ بیان کرے جوتم میں علم وفضل میںاعلم وافضل ہواوروہ میرے ساتھ کلام کرنے کاسلیقہ بھی جانتاہو۔ شیخ ابن الشحنہ رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ کل مجھے بادشاہ نے فرمایاتھا:{ قتل منا ومنکم فمن الشہید قتیلنا أم قتیلکم}الشیخ ابن الشحنہ رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ اس کاجواب فوراًذہن میں آگیااوربڑاعجیب وغریب ثابت ہوا، میں نے کہا: حضورتا جدارختم نبوتﷺکی بارگاہ میں ایک اعرابی حاضرہوااوراس نے عرض کی : یارسول اللہ ﷺ!ایک شخص جنگ کرتاہے حصول غنیمت کے لئے اوردوسراجہاد کرتاہے اپنی شہرت کے لئے اورتیسراجنگ کرتاہے اللہ تعالی کوراضی کرنے کے لئے اورمرنے کے بعد اس کی جگہ جنت میں ہے ، اس پراس نے کہاتھاکہ {ومن قتل منا ومنکم لاعلاء کلمۃ اللہ فہو الشہید}جوہمارایاتمھاراجنگ میں اس لئے ماراجائے کہ اللہ تعالی کاکلمہ بلندہوتوشہیدہے ۔
جب تیمورلنگ نے میری یہ تقریرسنی توکہا: خوب خوب۔مولاناعبدالجبارالحنفی رحمہ اللہ تعالی نے فرمایا: آپ نے بہترین تقریرفرمائی،ا س طریقے سے ہمارے اوربادشاہ کے درمیان گفتگوکرنے کی سہولت پیداہوگئی ، ہم اس سے مانوس ہوگئے اوروہ ہم سے مانوس ہوگیا۔ملخصاً۔
(روح البیان:إسماعیل حقی بن مصطفی الإستانبولی الحنفی الخلوتی المولی أبو الفداء (۴:۲۷۸)
امام جلال الدین السیوطی رحمہ اللہ تعالی کے گستاخوں کاانجام بد
امام جلال الدین السیوطی رحمہ اللہ تعالی جس دوران خانقاہ بیرسیہ میں شیخ الصوفیہ کے منصب پر فائز تھے تو وہاں لوگوں کو مال وقف میں غیر شرعی امور کا مرتکب پایا لہذا آپ نے انکو منع فرمایا تو انہوں نے یکبارگی آپ پر حملہ کردیا آپکو زدو کوب کیا اور کپڑوں سمیت وضو کی جگہ پھینک دیا بوقت وصال شیخ امین الدین رحمۃ اللہ علیہ نے لوگوں کی معافی کے بارے درخواست کی تو آپ رحمہ اللہ تعالی نے فرمایا:گواہ ہوجاؤ میں نے سب کو معاف کردیا ہے لیکن میں انکو زجرا ًمعاف نہیں کرتا جنہوں نے علماء کی عزت پر ہاتھ ڈالا۔
حضرت سیدناامام عبدالوہاب الشعرانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں
آپکو تکلیف دینے والے قابل نفرت بن گئے لوگ ان سے بدظن ہوگئے انہیں اپنے علم سے نفع نہ ہوا ،بعض حرام کھانے میں مبتلا ہوئے ،بعض علماء و اولیاء کہ گستاخ بن گئے، میں نے ان میں سے ایک شخص کو دیکھا جس نے اپنے شیخ کے منہ پر چپل ماری تھی ان میں سے بعض مرے تو انکے جنازے پر کوئی نہ گیا۔
(الامام جلال الدین السیوطی جھودہ فی الحدیث و علومہ:۱۶۸)
اللہ اللہ! آج جب کوئی درد اہلسنت رکھنے والا کسی غیر شرعی امور کے مرتکب شخص کو تنبیہ کرتا ہے تو انکے چاہنے والے یہ بھول کر کہ اصلاح کرنے والا عالم ہے اسکے عزت کے در پے ہوجاتے ہیں اور جو دل میں آتا ہے منہ سے نکالنا شروع ہوجاتے ہیں ایسے لوگ چاہے کسی استاد کے شاگرد ہوں یا کسی پیر کہ مرید وہ یہ مت بھولیں کسی عالم دین کی ہتک آمیزی انکے حال کو بھی ایسے ہی کرے گی جیسے امام جلال الدین السیوطی رحمۃ اللہ علیہ کے بے ادبوں کا حال ہوا تھا ابھی وقت ہے آج تک کسی سنی صحیح العقیدہ عالم کی تذلیل کی ہے تو ہاتھ جوڑ کر معافی مانگ لیجیے ان شاء اللہ دونوں جہاں میں راحت ہوگی ورنہ ذلت سے تمھارا پیر استاد نہیں بچا پائے گا۔
معارف ومسائل
علماء کرام کی توہین کے بولے جانے والے دس جملے اورا ن کے متعلق شرعی حکم
امیراہل سنت حضرت ابوبلال محمدالیاس قادری حفظہ اللہ تعالی لکھتے ہیں:
(۱)…جتنے مولوی ہیںسب بدمَعاش ہیں کہنا کفر ہے جبکہ بَسبَب علمِ دین، علمائے کرام کی تحقیر کی نیّت سے کہا ہو ۔
(۲)…یہ کہنا :عالم لوگوں نے دیس خراب کر دیا ۔ کلِمہ کُفر ہے ۔
(۳)…یہ کہنا کُفر ہے کہ مولویوںنے دین کے ٹکڑے ٹکڑے کر دئیے ۔
(۴)…جو کہے :عِلْم دین ، کوکیا کروں گا !جیب میں روپے ہونے چاہئیں ۔ کہنے والے پر حُکمِ کفر ہے۔
(۵)…کسی نے عالِم سے کہا :جا اور علْمِ دین کو کسی برتن میں سنبھال کر رکھ ۔ یہ کُفْر ہے ۔
(۶)…جس نے کہا: عُلَماء جو بتاتے ہیں اسے کون کرسکتا ہے !یہ قَول کفر ہے ۔ کیونکہ اِس کلام سے لازِم آتا ہے کہ شَریعت میں ایسے اَحکام ہیںجو طاقت سے باہَر ہیں یاعُلَماء نے انبِیائے کرام علیہم السلام پر جھوٹ باندھا ہے ۔
(۷)…یہ کہنا : ثَرِید کا پِیالہ عِلمِ دین سے بہتر ہے ۔ کلِمہ کفر ہے ۔
(۸)…عالمِ دین سے اِس کے علم ِ دین کی وجہ سے بُغض رکھنا کفر ہے یعنی اس وجہ سے کہ وہ عالمِ دین ہے ۔
(۹)…جو کہے :فسادکرنا عالم بننے سے بہتر ہے ایسے شخص پر حکمِ کفر ہے ۔
(۱۰)…یاد رہے !صِرْف عُلَمائے اہلسنّت ہی کی تعظیم کی جائے گی ۔ رہے عُلماء سوء ، تو ان کے سائے سے بھی بھاگے کہ ان کی تعظیم حرام ، اُن کابیان سننا ان کی کُتُب کامُطالَعہ کرنا اور ان کی صُحبت اختیار کرنا حرام اور ایمان کیلئے زہرِہَلاہِل ہے ۔
(کفریہ کلمات کے بارے میں سوال وجواب از مولانامحمدالیاس قادری : ۸۰)
علما ء کے گستاخ کامنہ قبلہ سے پھیردیاجاتاہے
صوفیاء فرماتے ہیں کہ جو علماء ربانین کی حقارت کرتا ہے اس کی قبر کو کھود کر دیکھو اس کا منہ قبلہ سے پھیر دیا جاتا ہے۔
بے دین ہونے کی وجوہات میں سے ایک وجہ علماء کی گستاخی بھی ہے
بے دین ہونے کی وجوہات میں سے ایک علماء کی توہین کرنا ہے ،یہ ایک ایسا معاملہ ہے جو ایک انسان کو رلا دیتا ہے-
یہ ذہن میں رہے کہ یہ عمل بذات خود گمراہ کن ہے اور یہی عمل گمراہی کا سبب بھی بنتا ہے ،گمراہی اور اسکی وجوہات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ نوجوان نسل حضورتاجدارختم نبوتﷺکی سنت اورشریعت کے علماء کرام کی بے عزتی کرتی ہے؛ اور یہ نوجوان نسل ان علماء کی تضحیک کرتی ہے جنہوں نے اپنی ساری زندگی قرآن و سنت سیکھنے اور سکھانے میں لگا دی ،یہ وہ لوگ ہیں جنکی امانت داری اور سچائی کی گواہی تقوی دار لوگوں کے زبان زد عام ہے اور انہی کے ذمہ علم کی تدریس اور فتوے دینا ہے،لیکن ان سب کے باوجود یہ نوجوان نسل انہی علماء کو حقارت کی نظر سے دیکھتی ہے اور انکو گالیاں دیتی ہیں،انکا یہی عمل انکو انسانی شیطانوں کے لئے ایک آسان شکار بنا دیتا ہے اور جسکا نتیجہ گالی گلوچ، شکوک و شبہات اور اپنی رائے و خواہشات کی پیروی کی شکل میں ابھر آتا ہے۔
اے اللہ کے بندو !آپکو افسوس ہو گا، جب آپ ایک ایسے نوجوان کو دیکھتے ہو جو اللہ رب العزت کی فرمانبرداری کے حوالے سے بالکل غفلت میں ہے؛ وہ فرائض کو ترک کرتا ہے اور ممنوعہ اعمال کا مرتکب ہوتا ہے ،لیکن پھر بھی اسکے منہ سے علماء کے لئے گالی نکلتی ہے و ہ کہتا ہے:ہمیں ان علماء کی ضرورت نہیں،انکے پاس فلاں فلاں ہے ،یہ وہ فلاں فلاں کام کرتے ہیں،ہم ان علماء کو سننا چاہتے ہیں جو ہمیں یہ نہ کہیں کہ’’یہ چیز حرام ہے‘‘، وہ ہمیں یہ نہ کہیں کہ ’’یہ چیز فرائض میں سے ہے‘‘وہ کہتے ہیں جن اکابر علماء کی آپ بات کر رہے ہو ہمیں ان سے کوئی سروکار نہیں اور نہ ہی انکو سننا چاہتے ہیں۔انکے بیانات میں تو صرف نصیحت،غصہ اور ڈرانا ہی ہوتا ہے جو کہ ہماری نسل کو ذمہ دار بنانے کے لئے کافی نہیں۔
جب آپ ایک ایسے نوجوان کو دیکھتے ہیں جس میں آپکو اچھائی نظر آئیگی، اس میں آپکو سنت کی جھلک نظر آئیگی، اسکے عمل میں نیکی نظر آئیگی، لیکن ان سب کے باوجود آپکا دل خفا ہوگا اور روئے گا ،جب آپ اس نوجوان کو ان مجمعوں میں دیکھیں گے جہاں علماء کی بے عزتی ہوتی ہے انکو گالیاں دی جاتی ہیں، انکو حقیر سمجھا جاتا اور انکا مذاق اڑایا جاتا ہے۔
یہ گمراہ عمل گمراہی کے اسباب میں سے ایک سبب ہے،اسکا حل یہ ہے کہ نوجوان نسل میں علماء کی عزت، انکے حقوق، انکے مرتبے، انکے علم وغیرہ کی اہمیت اجاگر کی جائے اور ان مجمعوں سے انکو درس و تدریس اور آگاہی کے ذریعے سے بچایا جائے جہاں علماء کی تضحیک ہوتی ہے ۔
آج کل عام طور پر یہ وبا اور رَوِش چل نکلی ہے کہ جس کے جی میں جو آتا ہے اُگل دیتا ہے، چاہے کوئی بڑا ہو یا چھوٹا، عالم ہو یا جاہل، بزرگ ہو یا شیخ، استاذ ہو یا پیر، اس کی کوئی ایسی بات، قول، فعل اور عمل جو سمجھ میں نہ آئے، اس پر اعتراض و تنقید کے نشتر چلا دیئے جاتے ہیں۔ یہ نہیں دیکھا جاتا کہ اگر کوئی مقرب بارگاہ الٰہی ایسا کررہا ہے تو یقینا اس کے پاس کوئی دلیل یا جواز ہوگا، جو ہماری سمجھ میں نہیں آرہا؟ یا وہ ہمارے علم میں نہیں، کیونکہ ہمارا علم ناقص ہے، مختصر یہ کہ بجائے اس کے کہ نہایت ادب اور سلیقہ سے ہم اس مقبول بارگاہ الٰہی سے اس کے قول، فعل یا عمل کی وجہ، علت اور حکمت پوچھتے، اپنی ہانکنے میں مصروف ہوجاتے ہیں، بلاشبہ یہ رَوِش بہت ہی خطرناک ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ دین دشمنوں نے ہماری نئی نسل کے کان میں یہ افسوں پھونک دیا ہے کہ تم کسی سے کم نہیں ہو، لہٰذا جو بات تمہاری عقل و فہم میں نہ آئے وہ غلط ہے، بلکہ صحیح وہ ہے جو تمہیں صحیح اور سچ نظر آئے، غالباً اسی وجہ سے ہماری نوجوان نسل، ہر بڑے، چھوٹے اور عالم و جاہل پر تنقید کرنا اپنا حق سمجھتی ہے، بالفرض اگر کوئی بندہء خدا ان کو اس سے باز رہنے کی تلقین کرے تو اس کی دل سوزی پر مبنی اس نصیحت کو بھی اندھی تقلید کی تلقین کے نام سے جھٹک دیا جاتا ہے۔ صرف اسی پر اکتفا نہیں بلکہ اپنے اس غیر معقول فعل اور عمل کے جواز کے لئے طرح طرح کے دلائل و براہین تراشے جاتے ہیں، بلاشبہ اس مرض میں لکھے، پڑھے اور جاہل، عوام اور خواص سب ہی مبتلا ہیں، غالباً ان کو اس اندھی تنقید و تنقیص کے انجام بد کا علم نہیں، اگر انہیں اس کے خطرناک انجام کا علم ہوجائے تو شاید وہ اس کی جرأت نہ کریں۔
بے ادب سے بے ادب ہی پیداہوں گے
عَنْ أَبِی سَعِیدٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ، قَالَ:بَعَثَ عَلِیٌّ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ، إِلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِذُہَیْبَۃٍ فَقَسَمَہَا بَیْنَ الأَرْبَعَۃِ الأَقْرَعِ بْنِ حَابِسٍ الحَنْظَلِیِّ، ثُمَّ المُجَاشِعِیِّ، وَعُیَیْنَۃَ بْنِ بَدْرٍ الفَزَارِیِّ، وَزَیْدٍ الطَّائِیِّ، ثُمَّ أَحَدِ بَنِی نَبْہَانَ، وَعَلْقَمَۃَ بْنِ عُلاَثَۃَ العَامِرِیِّ، ثُمَّ أَحَدِ بَنِی کِلاَبٍ، فَغَضِبَتْ قُرَیْشٌ، وَالأَنْصَارُ، قَالُوا: یُعْطِی صَنَادِیدَ أَہْلِ نَجْدٍ وَیَدَعُنَا، قَالَ:إِنَّمَا أَتَأَلَّفُہُمْ فَأَقْبَلَ رَجُلٌ غَائِرُ العَیْنَیْنِ، مُشْرِفُ الوَجْنَتَیْنِ، نَاتِئُ الجَبِینِ، کَثُّ اللِّحْیَۃِ مَحْلُوقٌ،فَقَالَ:اتَّقِ اللَّہَ یَا مُحَمَّدُ، فَقَالَ: مَنْ یُطِعِ اللَّہَ إِذَا عَصَیْتُ؟ أَیَأْمَنُنِی اللَّہُ عَلَی أَہْلِ الأَرْضِ فَلاَ تَأْمَنُونِی فَسَأَلَہُ رَجُلٌ قَتْلَہُ، أَحْسِبُہُ خَالِدَ بْنَ الوَلِیدِ فَمَنَعَہُ، فَلَمَّا وَلَّی قَالَ:إِنَّ مِنْ ضِئْضِئِ ہَذَا، أَوْ:فِی عَقِبِ ہَذَا قَوْمًا یَقْرَء ُونَ القُرْآنَ لاَ یُجَاوِزُ حَنَاجِرَہُمْ، یَمْرُقُونَ مِنَ الدِّینِ مُرُوقَ السَّہْمِ مِنَ الرَّمِیَّۃِ، یَقْتُلُونَ أَہْلَ الإِسْلاَمِ وَیَدَعُونَ أَہْلَ الأَوْثَانِ، لَئِنْ أَنَا أَدْرَکْتُہُمْ لَأَقْتُلَنَّہُمْ قَتْلَ عَادٍ۔
ترجمہ :حضرت سیدنا ابو سعید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت سیدناعلی رضی اللہ عنہ نے (یمن سے)حضورتاجدارختم نبوتﷺکی خدمت میں کچھ سونا بھیجا، آپ ﷺنے اس کو چار افراد:اقرع بن حابس حنظلی، مجاشعی، عیینہ بن بدر فزاری، زید طائی رضی اللہ عنہم جو بعد میں بنو نبہان میں شامل ہوگئے تھے، اور علقمہ بن علاثہ عامری رضی اللہ عنہم ، جو بعد میں بنو کلاب میں شامل ہوگئے تھے، کے درمیان تقسیم فرمایا، تو اس پر قریش اور انصار نے ناگواری محسوس کی اور کہنے لگے کہ ہمیں چھوڑ کر اہلِ نجد کے سرداروں کو دیا گیا ہے، آپ ﷺنے فرمایا:میں نے صرف ان کی تالیف قلب کی غرض سے ان کو دیا ہے، اتنے میں ایک شخص جو گہری آنکھوں، بھدے انداز میں ابھری رخساروں، باہر نکلی ہوئی پیشانی، گھنی داڑھی اور محلوق الرأس سر کے منڈے بالوں والاتھا، کہنے لگا:اے محمدﷺ!اللہ سے ڈریئے!حضورتاجدارختم نبوتﷺنے فرمایا:اگر میں ہی اللہ تعالی کی نافرمانی کرنے لگوں گا تو پھر اس کی اطاعت کون کرے گا؟ اللہ تعالیٰ نے مجھے روئے زمین پر امین بناکر بھیجا ہے، لیکن کیا تم مجھے امین نہیں سمجھتے؟ اس شخص کی اس گستاخی پر ایک صحابی رضی اللہ عنہ نے اس کے قتل کی اجازت چاہی، میرا خیال ہے کہ یہ حضرت سیدناخالد بن ولید رضی اللہ عنہ تھے، لیکن آپﷺ نے انہیں اس سے روک دیا اور اس فعل کی اجازت نہ دی، پھر جب وہ شخص اٹھ کر جانے لگا تو آپ ﷺنے فرمایا کہ اس کی نسل سے یا آپ ﷺنے فرمایا کہ اس کے بعد اس کی قوم سے ایک ایسی جماعت پیدا ہوگی جو قرآن کی تلاوت تو کرے گی، لیکن قرآن ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا، دین سے وہ اس طرح نکل چکے ہوں گے جیسے تیر کمان سے نکل جاتا ہے، یہ اہل ِ اسلام کو قتل کریں گے اور بت پرستوں کو چھوڑدیں گے، یعنی ان کو کچھ نہ کہیں گے، اگر میں ان کو پالیتا یعنی ان کے نکلنے کے وقت میں زندہ ہوتا تو میں ان کو قتل کرکے ان کا ایسا صفایا کرتا، جیسے قوم عاد کا عذاب الٰہی سے صفایا کیا گیا۔
(صحیح البخاری:محمد بن إسماعیل أبو عبداللہ البخاری الجعفی(۴:۱۳۷)
ابوالخویصرہ نے حضورتاجدارختم نبوتﷺکی بارگاہ اقدس میں گستاخی کرتے ہوئے کہاکہ:اے محمد!(ﷺ)اللہ سے ڈریئے! اس پر آپﷺ نے فرمایا کہ اس کی نسل سے ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو دین سے نکل جائیں گے۔ اس لئے حضرات علماء کرام فرماتے ہیں کہ ان احادیث مبارکہ سے چند باتوں کی نشاندہی ہوتی ہے:
(۱)… یہ رَوِش آج کی نہیں زمانہ قدیم سے چلی آرہی ہے۔
(۲)… یہ رَوِش مسلمانوں کی نہیں، بلکہ ان لوگوں کی ہے جوحضورتاجدارختم نبوتﷺ پر بظاہر ایمان کا دعویٰ کرتے تھے مگر دل و جان سے آپ ﷺکے احکام ،اوامر، قضاا ور فیصلوں پر راضی نہ تھے۔
(۳)… ایسے ناقدین نے حضورتاجدارختم نبوتﷺ کی ذات عالی کو بھی نعوذبااللہ!اپنی تنقید سے بالاتر نہیں سمجھا۔
(۴)… ایسے لوگوں کوحضورتاجدارختم نبوتﷺنے فرمایا کہ:اگر خدانخواستہ میں عدل و انصاف نہیں کرتا اور میں بھی اللہ تعالی کی نافرمانی کرتا ہوں تو بتلاؤ!اللہ تعالی کی زمین پر میرے علاوہ دوسرا کون ہے جو عدل و انصاف کرتا ہے یا اللہ تعالی کی اطاعت کرتا ہے؟
(۵)… ایسے لوگوں کو حضورتاجدارختم نبوتﷺ کے جاں نثار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم زندہ رہنے کے قابل نہیں سمجھتے تھے، جب ہی تو حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے اس شخص کے قتل کی اجازت مانگی تھی۔
(۶)… ایسے لوگ اپنے اس قبیح طرز عمل اور روش بد کی بنا پر حضرات اہلِ حق کی جماعت سے خارج تھے۔
(۷)… ایسے لوگوں کی اس بدعملی کی بنا پرحضورتاجدارختم نبوتﷺنے فرمایا کہ ان کی نسلوں سے دین و دیانت ایسے نکل جائے گی، جیسے تیر اپنے کمان سے نکل جاتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں بے شک وہ کلمہ اور قرآن پڑھتے ہوں گے، مگر ان کو اس کا فائدہ نہیں ہوگا بلکہ جیسے تیر اپنے نشانہ سے پار نکلتے ہوئے اپنے ساتھ کچھ نہیں لے جاتا، ٹھیک اسی طرح یہ لوگ بھی قرآن کی تلاوت سے کچھ فائدہ حاصل نہیں کرسکیں گے۔
(۸)… ایسے لوگ بے شک قرآن پڑھیں گے مگر قرآن ان کے دل میں نہیں ہوگا، بلکہ قرآن صرف ان کے حلق اور گلے تک رہے گا۔
(۹)… ایسے لوگوں کی نسل ایسی بے دین ہوگی کہ وہ کافروں کو چھوڑ کر مسلمانوں کا قتل عام کرے گی۔
(۱۰)…ایسے لوگوں کے بارے میں حضورتاجدارختم نبوتﷺ نے فرمایا کہ اگر میں ایسے لوگوں کو پالوں تو ان کو قتل کرکے ان کا ایسا صفایا کردوں، جیسے قوم عاد کا اللہ تعالیٰ نے عذاب کے ذریعے صفایا کردیا تھا۔
الغرض اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جو لوگ اپنے بڑوں اور بزرگوں کی جائز باتوں اور مبنی برحکمت اقوال و افعال پر تنقید برائے تنقید کرتے ہیں، ان کو دنیا میں نقد یہ سزا دی جائے گی کہ ان کی اولاد بے دین اور ملحد پیدا ہوگی۔
لہٰذا اگر کوئی شخص چاہے کہ اس کی اولاد مسلمان رہے اور بے دین و ملحد نہ ہو، تو اسے چاہئے کہ وہ اپنے اکابر و بزرگان دین کے کسی قول و فعل پر بے جا اعتراض و تنقید نہ کرے اور ان کی بے ادبی و گستاخی نہ کرے، ہاں اگر کسی بات کی کوئی حکمت یا دلیل سمجھ میں نہ آئے تو دانشمندی، سلیقہ اور ادب و آداب کے ساتھ اس کے بارے میں سوال کرسکتا ہے۔
اسی طرح یہ غلط فہمی بھی نہیں ہونی چاہئے کہ بہت سے اصاغر نے اپنے اکابر سے اختلاف کیا ہے تو ہم کیوں اختلاف نہیں کرسکتے؟ اس لئے کہ ایک ہے ادب وآداب اور دلائل و براہین سے کسی بڑے کے مؤقف سے اختلاف کرنا ،اور ایک ہے اس پر اعتراض و تنقید کرنا، ان دونوں میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ جہاں تک دلائل و براہین کے ساتھ اور ادب و آداب کا لحاظ رکھتے ہوئے کسی بڑے کے موقف سے اختلاف کرنے کی بات ہے تو نہ صرف اس کی اجازت ہے، بلکہ ایسا اختلاف رحمت ہے، لیکن اس کے برعکس اگر کسی نے بڑوں کے موقف کو سمجھے بغیر اس پر بے جا تنقید کی یا توہین و تنقیص کا رویہ اپنایا تو یہ گستاخی کہلائے گی اور اس گستاخی پر یہ وعید سنائی گئی ہے کہ جو لوگ ایسا کریں گے ان کی اولاد بے دین و ملحد پیدا ہوگی۔
حضرات علماء اور محققین نے فرمایا ہے کہ جس طرح حضرات انبیاء کرام علیہم السلام کی توہین و تنقیص یا ان پر بے جا تنقید پر یہ وعید ہے، ٹھیک اسی طرح وہ لوگ جو حضرات انبیاء کرام علیہم السلام کے سچے وارث اور صحیح جانشین ہیں، ان کی توہین و تنقیص یا ان کی گستاخی اور بے ادبی کا بھی یہی حکم ہے۔