بے دین امراء کی بجائے اہل دین غرباء کے ساتھ رہناحضورتاجدارختم نبوتﷺکا طریقہ مبارکہ ہے
{وَاصْبِرْ نَفْسَکَ مَعَ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ رَبَّہُمْ بِالْغَدٰوۃِ وَالْعَشِیِّ یُرِیْدُوْنَ وَجْہَہ وَ لَا تَعْدُ عَیْنٰکَ عَنْہُمْ تُرِیْدُ زِیْنَۃَ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَ لَا تُطِعْ مَنْ اَغْفَلْنَا قَلْبَہ عَنْ ذِکْرِنَا وَاتَّبَعَ ہَوٰیہُ وَکَانَ اَمْرُہ فُرُطًا }(۲۸)
ترجمہ کنزالایمان:اور اپنی جان ان سے مانوس رکھو جو صبح و شام اپنے رب کو پکارتے ہیں اس کی رضا چاہتے اور تمہاری آنکھیں انہیں چھوڑ کر اور پر نہ پڑیں کیا تم دنیا کی زندگی کا سنگار چاہو گے اور اس کا کہا نہ مانو جس کا دل ہم نے اپنی یاد سے غافل کردیا اور وہ اپنی خواہش کے پیچھے چلا اور اس کا کام حد سے گزر گیا۔
ترجمہ ضیاء الایمان:اے حبیب کریمﷺ! اپنی جان کو ان لوگوں کے ساتھ مانوس رکھیں جو صبح و شام اپنے رب تعالی کو پکارتے ہیں اس کی رضا چاہتے ہیں اور آپﷺکی آنکھیں دنیوی زندگی کی زینت چاہتے ہوئے انہیں چھوڑ کر اوروں پر نہ پڑیں اور اس کی بات نہ مانیں جس کا دل ہم نے اپنی یاد سے غافل کردیا اور وہ اپنی خواہش کے پیچھے چلا اور اس کا کام حد سے گزر گیا۔
شان نزول کے متعلق پہلاقول
اعْلَمْ أَنَّ أَکَابِرَ قُرَیْشٍ اجْتَمَعُوا وَقَالُوا لِرَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: إِنْ أَرَدْتَ أَنْ نُؤْمِنَ بِکَ فَاطْرُدْ ہَؤُلَاء ِ الْفُقَرَاء َ مِنْ عِنْدِکَ، فَإِذَا حَضَرْنَا لَمْ یَحْضُرُوا، وَتُعَیِّنُ لَہُمْ وَقْتًا یَجْتَمِعُونَ فِیہِ عِنْدَکَ فَأَنْزَلَ اللَّہُ تَعَالَی:وَلا تَطْرُدِ الَّذِینَ یَدْعُونَ رَبَّہُمْ (الْأَنْعَامِ: ۵۲) الْآیَۃَ فَبَیَّنَ فِیہَا أَنَّہُ لَا یَجُوزُ طَرْدُہُمْ بَلْ تُجَالِسُہُمْ وَتُوَافِقُہُمْ وَتُعَظِّمُ شَأْنَہُمْ وَلَا تَلْتَفِتُ إِلَی أَقْوَالِ أُولَئِکَ الْکُفَّارِ وَلَا تُقِیمُ لَہُمْ فِی نَظَرِکَ وَزْنًا سَوَاء ٌ غَابُوا أَوْ حَضَرُوا۔
ترجمہ :توجان لے کہ قریش کے وڈیروں نے جمع ہوکرحضورتاجدارختم نبوتﷺسے کہاکہ اگرآپ چاہتے ہیں کہ ہم آپﷺپرایمان لائیں توان فقراء کو اپنی بارگاہ سے دورکردیں ، جب ہم موجودہوں تویہ نہ آیاکریں اوران کے لئے وقت مقررکردیں جس میں آپ ﷺکے پاس آیاکریں تواللہ تعالی نے یہ آیت کریمہ نازل فرمائی {وَلا تَطْرُدِ الَّذِینَ یَدْعُونَ رَبَّہُ}( اے حبیب کریمﷺ!آپ ان کو دورنہ کریں جواپنے رب تعالی کو صبح وشام پکارتے ہیں )جس نے یہ واضح کردیاکہ ان کو اٹھاناجائز نہیں ہے بلکہ آپﷺان کے ساتھ بیٹھیں اوران کے ساتھ محبت کریں اوران کو عظمت دیں اوران کفارکی باتوں کی طرف متوجہ نہ ہوں اورانہیں کوئی وزن نہ دیں کہ وہ آئیں یانہ آئیں۔
(التفسیر الوسیط للقرآن الکریم:محمد سید طنطاوی(۸:۵۰۶)
شان نزول کے متعلق دوسراقول
قَوْلُہُ عَزَّ وَجَلَّ:(وَاصْبِرْ نَفْسَکَ)الْآیَۃَ نَزَلَتْ فِی عُیَیْنَۃَ بْنِ حِصْنٍ الْفَزَارِیِّ أَتَی النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَبْلَ أَنْ یُسْلِمَ وَعِنْدَہُ جَمَاعَۃٌ مِنَ الْفُقَرَاء ِ فِیہِمْ سَلْمَانُ وَعَلَیْہِ شَمْلَۃٌ قَدْ عَرِقَ فِیہَا وَبِیَدِہِ خُوصَۃٌ یَشُقُّہَا ثُمَّ یَنْسِجُہَا فَقَالَ عُیَیْنَۃُ لِلنَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: أَمَا یُؤْذِیکَ رِیحُ ہَؤُلَاء ِ وَنَحْنُ سَادَاتُ مُضَرَ وَأَشْرَافُہَا فَإِنْ أَسْلَمْنَا أَسْلَمَ النَّاسُ وَمَا یَمْنَعُنَا مِنَ اتِّبَاعِکَ إِلَّا ہَؤُلَاء ِ فَنَحِّہِمْ عَنْکَ حَتَّی نَتْبَعَکَ أَوِ اجْعَلْ لَنَا مَجْلِسًا وَلَہُمْ مَجْلِسًا فَأَنْزَلَ اللَّہُ عَزَّ وَجَلَّ:(وَاصْبِرْ نَفْسَکَ)أَیِ:احْبِسْ یَا مُحَمَّدُ نَفْسَکَ (مَعَ الَّذِینَ یَدْعُونَ رَبَّہُمْ بِالْغَدَاۃِ وَالْعَشِیِّ) طَرَفَیِ النَّہَارِ (یُرِیدُونَ وَجْہَہُ)أَیْ: یُرِیدُونَ اللَّہَ لَا یُرِیدُونَ بِہِ عَرَضًا مِنَ الدُّنْیَا.
ترجمہ :امام محیی السنۃ، أبو محمد الحسین بن مسعود البغوی المتوفی : ۵۱۰ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ یہ آیت کریمہ عیینہ بن حصین فزاری کے بارے میں نازل ہوئی ، مسلمان ہونے سے پہلے عیینہ حضورتاجدارختم نبوتﷺکی خدمت اقدس میں حاضرہوئے اوراس وقت کچھ ناداراہل اسلام حضورتاجدارختم نبوتﷺکی بارگاہ شریفہ میں بیٹھے ہوئے تھے ، جن میںحضرت سیدناسلمان فارسی رضی اللہ عنہ بھی تھے ، حضرت سیدناسلمان فارسی رضی اللہ عنہ ایک چھوٹی سی چادراوڑھے ہوئے تھے اورآپ رضی اللہ عنہ کو پسینہ بھی آرہاتھا، عینیہ بولاکہ اے محمدﷺ!کیاآپ کو ان لوگوں کی بدبوسے دکھ نہیں ہوتا؟ ہم قبائل مضرکے سرداراوربڑے لوگ ہیں اگرہم مسلمان ہوگئے توسب لوگ مسلمان ہوجائیں گے لیکن ہم کو آپﷺکی اتباع کرنے سے ایسے لوگوں کی آپﷺکے پاس موجودگی روکتی ہے ، ان کوآپﷺہٹادیں توہم بھی آپ ﷺکاکلمہ پڑھ لیں گے یاہمارے لئے ان سے کوئی الگ بیٹھنے کی جگہ مقررکردیں اوران کی مجلس ہم سے الگ کردیں ،اس پریہ آیت کریمہ نازل ہوئی ۔
(تفسیر البغوی:محیی السنۃ، أبو محمد الحسین بن مسعود البغوی (۵:۵۶۱)
اصحاب صفہ کون ؟
قَالَ قَتَادَۃُ: نَزَلَتْ فِی أَصْحَابِ الصُّفَۃِ وَکَانُوا سَبْعَمِائَۃِ رَجُلٍ فُقَرَاء َ فِی مَسْجِدِ رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، لَا یَرْجِعُونَ إِلَی تِجَارَۃٍ وَلَا إلی زرع ولا ضرع ویصلون صَلَاۃً وَیَنْتَظِرُونَ أُخْرَی، فَلَمَّا نَزَلَتْ ہَذِہِ الْآیَۃُ قَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: الْحَمْدُ لِلَّہِ الَّذِی جَعَلَ فِی أُمَّتِی مَنْ أُمِرْتُ أَنْ أَصْبِرَ نَفْسِی مَعَہُمْ۔
ترجمہ :حضرت سیدناقتادہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ یہ آیت کریمہ اصحاب صفہ رضی اللہ عنہم کے بارے میں نازل ہوئی اوران کی تعداد سات سوتھی ، یہ سب نادارلوگ تھے اورحضورتاجدارختم نبوتﷺکی مسجد شریف میں رہائش رکھتے تھے اورنہ کسی کی کوئی کھیتی تھی اورنہ ہی دودھ کے جانوراورنہ کوئی تجارت ۔ نمازیں پڑھتے رہتے تھے ، ایک وقت کی نماز اداکرکے دوسری نماز کے انتظارمیں رہتے تھے ، جب یہ آیت کریمہ نازل ہوئی توحضورتاجدارختم نبوتﷺنے فرمایا: تمام تعریفیں اس اللہ تعالی کے لئے ہیں جس نے میری امت میں ایسے لوگ پیداکردئیے ہیں جن کی معیت میں مجھے جمے رہنے کاحکم دیا۔
(اللباب فی علوم الکتاب:أبو حفص سراج الدین عمر بن علی بن عادل الحنبلی الدمشقی النعمانی (۱۲:۴۶۸)
حضورتاجدارختم نبوتﷺکواہل دین کی طرف توجہ فرمانے کاحکم
فَفِی تِلْکَ الْآیَۃِ نَہَی الرَّسُولَ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنْ طَرْدِہِمْ وَفِی ہَذِہِ الْآیَۃِ أَمَرَہُ بِمُجَالَسَتِہِمْ وَالْمُصَابَرَۃِ مَعَہُمْ۔
ترجمہ:امام فخرالدین الرازی المتوفی : ۶۰۶ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ اس آیت کریمہ میں حضورتاجدارختم نبوتﷺکواہل دین کودورکرنے سے منع کیاگیااوراس آیت کریمہ میں ان کے ساتھ بیٹھنے اوران میں ہی رک جانے کاحکم دیاگیا۔
(التفسیر الکبیر:أبو عبد اللہ محمد بن عمر بن الحسن بن الحسین التیمی الرازی (۲۱:۴۵۵)
حضورتاجدارختم نبوتﷺ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو اپنی بارگاہ سے دورکرنے کابالکل ارادہ نہیں فرمایاتھا
(تُرِیدُ زِینَۃَ الْحَیاۃِ الدُّنْیا)أی تزیین بِمُجَالَسَۃِ ہَؤُلَاء ِ الرُّؤَسَاء ِ الَّذِینَ اقْتَرَحُوا إِبْعَادَ الْفُقَرَاء ِ مِنْ مَجْلِسِکَ، وَلَمْ یُرِدِ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنْ یَفْعَلَ ذَلِکَ، وَلَکِنَّ اللَّہَ نَہَاہُ عَنْ أَنْ یَفْعَلَہُ، وَلَیْسَ ہَذَا بِأَکْثَرَ مِنْ قَوْلِہِ:لَئِنْ أَشْرَکْتَ لَیَحْبَطَنَّ عَمَلُکَ وَإِنْ کان اللہ أعاذہ من الشرک ۔
ترجمہ:امام ابوعبداللہ محمدبن احمدالقرطبی المتوفی: ۶۷۱ھ) رحمہ اللہ تعالی لکھتے ہیں کہ اللہ تعالی نے فرمایا: کیاآپﷺان سرداروں کے پاس بیٹھنے کوزینت بخشیں گے جنہوںنے آپﷺکواپنی مجلس سے فقراء کو دورہٹانے کی تجویزدی ہے حالانکہ حضورتاجدارختم نبوتﷺنے ایساکرنے کابالکل ارادہ نہیں فرمایاتھا، لیکن اللہ تعالی نے آپﷺکواس طرح کرنے سے منع فرمادیاتواس قول سے زیادہ نہیں ہے {لَئِنْ أَشْرَکْتَ لَیَحْبَطَنَّ عَمَلُک}( کہ اگربالفرض محال آپ نے بھی شرک کیاتوضائع ہوجائیں گے آپ کے اعمال ) اگرچہ اللہ تعالی نے آپﷺکوشرک سے محفوظ اوربچاکررکھا۔
(تفسیر القرطبی:أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن أبی بکر شمس الدین القرطبی (۱۰:۳۹۰)
ایک اعتراض کازبردست جواب
فان قیل یرجح الأہم علی المہم وطرد الفقراء یسقط حرمتہم وہو ضرر قلیل وعدم طردہم یوجب بقاء الکفار علی کفرہم وہو ضرر عظیم قلنا من ترک الایمان حذرا من مجالسۃ الفقراء لم یکن إیمانہ ایمانا بل یکون نفاقا قبیحا یجب ان لا یلتفت الیہ کذا فی تفسیر الامام یقول الفقیر شان النبوۃ عظیم فلو طردہم لاجل امر غیر مقطوع کان ذنبا عظیما بالنسبۃ الی منصبہ الجلیل مع ان الطرد المذکور من دیدن الملوک والا کابر من اہل الظواہر وعظماء الدین یتحاشون عن مثل ذلک الوضع نظرا الی البواطن والسرائر ۔
ترجمہ :امام اسماعیل حقی الحنفی المتوفی : ۱۱۲۷ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ اگرکوئی کہے کہ ایک اہم کام کوچھوڑ کرایک معمولی امرکوکیوں ترجیح دی، اس لئے کہ فقراء کو اپنی بارگاہ سے ہٹادینے سے زیادہ سے زیادہ وہ غمگین ہوجاتے توکیاہوا، اس سے بہت بڑے کافرمسلمان ہوجاتے اوران کامسلمان نہ ہونااسلام کاایک عظیم نقصان ہے ؟
اس کاجواب یہ ہے کہ غریب اہل اسلام کوہٹاکرکافروں کو حضورتاجدارختم نبوتﷺکی مجلس شریف میں بٹھاناکوئی فائدہ نہیں تھا، اس لئے کہ ان کافروں کاایمان خالص نہیں تھابلکہ وہ منافقت سے اسلام میں داخل ہوتے اورمنافقت کی قباحت اسلام کے لئے ضررعظیم تھا، اسی لئے ان کے اسلام کو کوئی وقعت نہیں دی گئی ۔ مزیدفرماتے ہیں کہ فقراء اہل اسلام کاایمان یقینی اورکفارکاایمان موہومی تھا، ایک ظنی امرکویقینی معاملے پرترجیح دیناحضورتاجدارختم نبوتﷺکی شان نبوت کے خلاف تھا، اسیلئے کہ اس میں گناہ کابھی شائبہ تھااورنبوت ایسے شائبوں سے بھی منزہ اورپاک ہے اوراس کے علاوہ فقراء کو ہٹاکرامیروں کو ترجیح دینابادشاہوں کاشیوہ ہے اوریہ ظاہری ٹھاٹھ باٹھ رکھنے والے لوگوں کاکام ہے اوربزرگوں کایہ شیوہ نہیں ہے بلکہ وہ ایسے طریقوں سے بھی پناہ مانگتے ہیں ، اس لئے کہ ان کی نگاہ باطن اوراسرارقلبی پرہوتی ہے ۔
(روح البیان:إسماعیل حقی بن مصطفی الإستانبولی الحنفی الخلوتی المولی أبو الفداء (۵:۲۳۸)
معارف ومسائل
(۱)… حضورتاجدارختم نبوتﷺکی تربیت خود اللہ تعالی فرماتا ہے جیسے یہاں ہوا کہ ایک معاملہ در پیش ہوا تو اللہ تعالی نے اپنے حبیب کریم ﷺکی خود تربیت فرمائی اور آپﷺ کی کمال کی طرف رہنمائی فرمائی۔
(۲)…یہ بھی معلوم ہوا کہ اچھوں کے ساتھ رہنا اچھا ہے اگرچہ وہ فُقراء ہوں اور بروں کے ساتھ رہنا برا ہے اگرچہ وہ مالدار ہوں۔
(۳)… یہ بھی معلوم ہوا کہ صبح و شام خصوصیت سے اللہ تعالی کا ذکرکرنا بہت افضل ہے۔ قرآنِ پاک میں بطورِ خاص صبح و شام کے ذکر کو بکثرت بیان فرمایا ہے ،جیسے اِس آیت کریمہ میں بھی ہے اور اس کے علاوہ بھی بہت سی آیتوں میں ہے۔
(۴)…یہ بھی معلوم ہوا کہ حضورتاجدارختم نبوتﷺکو اہل دین سے بطورِ خاص محبت ہے کہ آپﷺکو اس کا حکم دیا گیا ہے۔
(۵)…صالحین کی دو علامتیں بھی اس آیت میں بیان فرمائیں اول یہ کہ وہ صبح و شام اللہ تعالی کا ذکر کرتے ہیں اور دوسری یہ کہ ہر عمل سے اللہ تعالی کی رضا اور خوشنودی کے طلبگار ہوتے ہیں۔
(۶)…مزید اِس آیت میں دنیا داروں کی طرف نظر رکھنے اور ان کی پیروی سے ممانعت کے بارے میں حکم ہے۔اس حکم میں قیامت تک کے مسلمانوں کو ہدایت ہے کہ غافلوں ، متکبروں، ریاکاروں، مالداروں کی نہ مانا کریں اور ان کے مال ودولت پر نظریں نہ جمائیں بلکہ مخلص، صالح، غُرباء و مَساکین کے ساتھ تعلق رکھیں اور ان ہی کی اطاعت کیا کریں ۔ دنیا کی محبت میں گرفتار مالداروں کی بات ماننا دین کوبرباد کر دیتا ہے ۔ قرآن و حدیث کی روشنی میں جو بات سمجھ آتی ہے وہ یہ ہے کہ مال اور مالدار فی نَفْسِہٖ نہ برے ہیں اور نہ اچھے بلکہ مال کا غلط استعمال اور ایسے مالدار برے ہیں اور چونکہ مالدار عموماً نفس پرستی میں پڑ جاتے ہیں اسی لئے ان کی مذمت زیادہ بیان کی جاتی ہے۔ (تفسیرصراط الجنان ( ۵: ۵۵۹) بتصرف یسیر)
(۷)جب اللہ تعالی نے اپنے حبیب کریمﷺکویہ حکم دیاکہ ان اغنیاء کی طرف توجہ نہ کریں جنہوںنے یہ کہاکہ اگرآپﷺنے ان فقراء کواپنی مجلس شریفہ سے اٹھادیںتوہم آپﷺپرایمان لے آئیں گے تواس کے بعد فرمایاکہ دین حق یہی ہے کہ جو اللہ تعالی کی طرف سے تمھارے پاس آیا، اگرتم نے اس کو قبول کرلیاتوتم کو اس کانفع ہوگااوراگرتم نے اس دین کوقبول نہیں کیاتواس کانقصان بھی تم کو ہوگااوردین کے حق ہونے میں فقراورغناء ، حسن اورقبح ،گمنامی اورشہرت کاکوئی اعتبارنہیں ہے ، اگریہ اعتراض کیاجائے کہ اگرحضورتاجدارختم نبوتﷺفقرائے مسلمین کو اپنی مجلس سے اٹھادیتے تواس سے ان مسلمانوں کی عزت ووقارمیں کمی آتی اوراس کاضررکم ہے اوران کو نہ اٹھانے کی وجہ سے وہ اغنیاء اپنے کفرپرقائم رہے اورایمان نہیں لائے اوران کے ایمان نہ لانے کاضررزیادہ ہے ، جب کم ضرراورزیادہ ضررمیں تعارض ہوتوکم ضررکواختیارکیاجاتاہے ، جبکہ یہاں زیادہ ضررکواختیارکیاگیا، اس کاجواب یہ ہے کہ اگران کے کہنے پرحضورتاجدارختم نبوتﷺفقراء مسلمین کو اپنی مجلس شریف سے اٹھادیتے تواس فعل میں صرف فقراء مسلمین کی دل آزاری نہیں تھی بلکہ ان اغنیاء نے تکبرکوبھی قائم رکھناتھااورمسلمانوں کی تحقیرکوبرقراررکھناتھااورتکبرحرام ہے اورحضورتاجدارختم نبوتﷺکی یہ شان نہیں ہے کہ وہ کسی حرام کام کوبرقراررکھیں یااس کی حوصلہ افزائی کریں ، اگروہ بالفرض اس طریقہ سے مسلمان ہوبھی جاتے تواس سے یہ غلط تاثرپھیلتاکہ اسلام میں فقراء اورمساکین کو حقیرجانناجائز ہے گویاکہ تکبرکرناجائز ہے ۔