غیرضروری مسائل میں الجھ کرحق کے غلبہ کے لئے کام نہ کرنااہل حق کاشیوہ نہیں ہے
{سَیَقُوْلُوْنَ ثَلٰثَۃٌ رَّابِعُہُمْ کَلْبُہُمْ وَ یَقُوْلُوْنَ خَمْسَۃٌ سَادِسُہُمْ کَلْبُہُمْ رَجْمًا بِالْغَیْبِ وَ یَقُوْلُوْنَ سَبْعَۃٌ وَّ ثَامِنُہُمْ کَلْبُہُمْ قُل رَّبِّیْٓ اَعْلَمُ بِعِدَّتِہِمْ مَّا یَعْلَمُہُمْ اِلَّا قَلِیْلٌ فَلَا تُمَارِ فِیْہِمْ اِلَّا مِرَآء ً ظَاہِرًا وَّلَا تَسْتَفْتِ فِیْہِمْ مِّنْہُمْ اَحَدًا }(۲۲)
ترجمہ کنزالایمان:اب کہیں گے کہ وہ تین ہیں چوتھا ان کا کتا اور کچھ کہیں گے پانچ ہیں چھٹا ان کا کتا بے دیکھے الاؤتکا بات اور کچھ کہیں گے سات ہیں اور آٹھواں ان کا کتا تم فرماؤ میرا رب ان کی گنتی خوب جانتا ہے انہیں نہیں جانتے مگر تھوڑے تو ان کے بارے میں بحث نہ کرو مگر اتنی ہی بحث جو ظاہر ہوچکی اور ان کے بارے میں کسی کتابی سے کچھ نہ پوچھو۔
ترجمہ ضیاء الایمان :اب لوگ کہیں گے کہ وہ تین ہیں جبکہ چوتھا ان کا کتا ہے اور کچھ کہیں گے :وہ پانچ ہیں اورچھٹا ان کا کتا ہے یہ سب بغیر دیکھے اندازے ہیں اور کچھ کہیں گے:وہ سات ہیں اور آٹھواں ان کا کتا ہے ۔اے حبیب کریمﷺ!آپ فرمادیں کہ میرا رب عزوجل ان کی تعداد خوب جانتا ہے۔ انہیں بہت تھوڑے لوگ جانتے ہیں۔ تو ان کے بارے میں بحث نہ کرو مگر اتنی ہی جتنی ظاہر ہوچکی ہے اور ان کے بارے میں ان میں سے کسی سے کچھ نہ پوچھو۔
اہل نجران کاحضورتاجدارختم نبوتﷺکے پاس اصحاب کہف کی تعداد کے بارے میں نزاع کرنا
رُوِیَ أَنَّ السَّیِّدَ وَالْعَاقِبَ وَأَصْحَابَہُمَا مِنْ أَہْلِ نَجْرَانَ کَانُوا عِنْدَ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَجَرَی ذِکْرُ أَصْحَابِ الْکَہْفِ فَقَالَ السَّیِّدُ وَکَانَ یَعْقُوبِیًّا کَانُوا ثَلَاثَۃً رَابِعُہُمْ کَلْبُہُمْ، وَقَالَ الْعَاقِبُ وَکَانَ نُسْطُورِیًّا کَانُوا خَمْسَۃً سَادِسُہُمْ کَلْبُہُمْ، وَقَالَ الْمُسْلِمُونَ کَانُوا سَبْعَۃً وَثَامِنُہُمْ کَلْبُہُمْ۔
ترجمہ :منقول ہے کہ اہل نجران میں سے سیداورعاقب اوران کے ساتھی حضورتاجدارختم نبوتﷺکے پاس تھے تواصحاب کہف کاذکرشروع ہواتوسیدنے کہا جویعقوبی تھاکہ یہ تین تھے اورچوتھاان کاکتاتھااورعاقب نے کہاجونسطوری تھاکہ وہ پانچ تھے اورچھٹاان کاکتاتھا، اہل اسلام نے کہاکہ وہ سات تھے اورآٹھواں ان کاکتاتھا۔
(الوجیز فی تفسیر الکتاب العزیز:أبو الحسن علی بن أحمد بن محمد بن علی الواحدی(۱:۳۴۵)
کوئی بھی مسئلہ یہودونصاری سے پوچھنامنع ہے
وَلا تَسْتَفْتِ فِیہِمْ مِنْہُمْ أَحَداً، وَذَلِکَ لِأَنَّہُ لَمَّا ثَبَتَ أَنَّہُ لَیْسَ عِنْدَہُمْ عِلْمٌ فِی ہَذَا الْبَابِ وَجَبَ الْمَنْعُ مِنَ اسْتِفْتَائِہِمْ۔
ترجمہ :امام فخرالدین الرازی المتوفی : ۶۰۶ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ اللہ تعالی نے فرمایا{وَلا تَسْتَفْتِ فِیہِمْ مِنْہُمْ أَحَداً}(اوراصحاب کہف کے بارے میں یہودونصاری سے کچھ نہ پوچھو) یہ اس لئے کہ جب یہ ثابت ہے کہ انہیں اس بارے میں علم نہیں ہے توان سے سوال کرنالازمی طورپرمنع ہے ۔
(التفسیر الکبیر:أبو عبد اللہ محمد بن عمر بن الحسن بن الحسین التیمی الرازی (۲۱:۴۴۶)
جتنامسئلہ بیان ہوچکااس سے زائد میں بحث منع ہے
فَقَوْلُہُ:فَلا تُمارِ فِیہِمْ إِلَّا مِراء ً ظاہِراً وَالْمُرَادُ مِنَ الْمِرَاء ِ الظَّاہِرِ أَنْ لَا یُکَذِّبَہُمْ فِی تَعْیِینِ ذَلِکَ الْعَدَدِ، بَلْ یَقُولُ:ہَذَا التَّعْیِینُ لَا دَلِیلَ عَلَیْہِ، فَوَجَبَ التَّوَقُّفُ وَتَرْکُ الْقَطْعِ.
ترجمہ :امام فخرالدین الرازی المتوفی : ۶۰۶ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ اللہ تعالی نے فرمایا{فَلا تُمارِ فِیہِمْ إِلَّا مِراء ً ظاہِراً }( توان کے بارے میں بحث نہ کرو!مگراتنی ہی جتنی ظاہرہوچکی ہے ) ظاہرسے مرادیہی ہے کہ وہ اس عددکے تعین میں تکذیب نہ کریں بلکہ یہ کہیں کہ اس تعین پرکوئی دلیل نہیں ہے اورتوقف اورترک قطعیت ضروری ہے ۔
(التفسیر الکبیر:أبو عبد اللہ محمد بن عمر بن الحسن بن الحسین التیمی الرازی (۲۱:۴۴۶)
جن لوگوں نے حضورتاجدارختم نبوتﷺکی بارگاہ مقدسہ میں یہ سوال کیاتھاوہ اس لئے کیاتھاکہ اگرحضورتاجدارختم نبوتﷺہمیں درست جواب دے دیں توہم بھی کلمہ پڑھ لیں گے مگرجیسے ہی ان کو جواب دیاگیاانہوںنے بحث شروع کردی کہ اصحاب کہف کتنے تھے ، ان کی تعداد کیاتھی ۔ حالانکہ ہوناتویہ چاہئے تھاکہ وہ کلمہ پڑھ کرمسلمان ہوجاتے مگراس فضول بحث وتکرارنے ان کو کفرمیں ہی بھٹکنے دیااوران کو ایمان کے قریب نہ آنے دیا۔ بعینہ یہی حالت آج ہماری ہے کہ جب ضرورت ہے دین متین کے دفاع کی توہم بھی فروعی مسائل میں الجھ رہے ہیں اورمسائل بھی وہ کہ جن پرصدیوں سے اختلاف چلاآرہاہے اوروہ ہمیشہ سے نزاعی ہی رہے ہیں ، انہیں کو لے کراپناساراوقت اوراپنی ساری قوت صرف کی جارہی ہے اوراقامت دین اورغلبہ اسلام کے لئے کسی کی کوئی کاوش ہوتی نظرنہیںآتی ۔
یہ ذہن میں رہے کہ شیطان اوردشمن دین اہل اسلام کو انہیں مسائل میں الجھاکران کو حق کے غلبہ کے لئے کام کرنے سے روکتے ہیں اور ہمارے لوگ بھی نادان ہیں جوان کی باتوں میں آکراپنے مقصود اصلی کو چھوڑکرفروعی مسائل میں الجھ جاتے ہیں ۔
غیرضروری مسائل میں الجھے رہنااوراس میں مناظرے کرنابھی لوگوں کو دین حق سے ہٹاناہے
قرآن کریم نے اپنے حکیمانہ اصول اوراصلوب خاص کے تحت سارے قرآن کریم میں ایک قصہ حضرت سیدنایوسف علیہ السلام کے سواکسی بھی قصہ اورواقعہ کو پوری تفصیل اورترتیب کے ساتھ بیان نہیں کیا، جوعام تاریخی کتابوں کاطریقہ کارہے بلکہ ہرقصہ کے وہ ضروری اجزاء موقع بہ موقع بیان فرمائے جن سے انسانی ہدایات درس عبرت ، قدرت خداوندی کے عظیم کمالات اورتعلیمات کاتعلق ہواورحق کی پہچان ہوجیساکہ آئندہ قصہ ذوالقرنین ، یاجوج وماجوج کے واقعات بھی اسی طرز بیان کے ساتھ اسی سورت میں آنے والے ہیں،قصہ اصحابہ کہف میں بھی یہی طریقہ اختیارکیاگیاہے کہ قرآن کریم میں اس کے صرف وہ اجزاء بیان کیے گئے جومقصود اصلی کے متعلق تھے ، اس قصہ کے باقی اجزاء جوخالص تاریخی یاجغرافیائی تھے ان کاکوئی ذکرنہیں فرمایا۔ پھراس بارے میں حضورتاجدارختم نبوتﷺنے بھی ان متروکہ اورغیرمذکورہ حقائق سے کوئی پردہ نہیں اٹھایا، جس کانتیجہ یہ ہواکہ وہ سارے حقائق بدستورپردہ خفامیں رہے ، مثلاًاصحاب کہف کے نام ، ان کی تعداد ، ان کی جگہ کاتعین وغیرہ ، ان کے سونے کے زمانے کی مدت کے سوالات کاذکرتوفرمایااورجواب کی طرف اشارہ بھی فرمایامگرساتھ یہ ہدایت بھی فرمائی کہ ایسی باتوں میں زیادہ غوروفکراوربحث وتکرارمناسب نہیں ہے ، ان کو اللہ تعالی کے حوالے کرکے بحث ومباحثہ چھوڑدواگریہ ضروری اورلازمی ہوتیں توحضورتاجدارختم نبوتﷺان کو ضروربیان فرماتے ۔
وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا أَبْہِمُوا مَا أَبْہَمَہُ اللَّہُ تَعَالَی۔
ترجمہ :حضرت سیدناعبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیںکہ جس غیرضروری چیز کو اللہ تعالی نے مبہم رکھاتم بھی اسے مبہم رہنے دواوراس میں بحث وتمحیص نہ کرے ۔
(المبسوط:محمد بن أحمد بن أبی سہل شمس الأئمۃ السرخسی (۳۰:۹۲)
چنانچہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اورتابعین کرام رضی اللہ عنہم نے ان غیرضروری اجزاء کو نظراندازکرکے ان میں بحث ومباحثہ سے اجتناب کیاسوائے چندباتوں کے ، لیکن علماء کرام اورمورخین اورمحققین ، اصحاب تفسیران مسائل میں خوب الجھے اورعمدہ تحقیق کی ، جس کانتیجہ سوائے اختلافی مسائل کے کچھ نہ نکلااوریہ سارے اختلافات تاریخی ، جغرافیائی اوربہت سے اسرائیلی ظنی اورتخیمنی مسائل کے نظرہوگئے اورصحیح اورواقعی حقائق کاانکشاف نہ ہوسکااورہرمحقق نے دوسرے کے خلاف حقائق کاتذکرہ کیا، آپ اگران طویل وعریض مقالات کاجومختلف مفسرین نے بیان کئے مطالعہ کریں گے توکبھی کسی صحیح نتیجہ تک رسائی نہیں پائیں گے ۔
اصحاب کہف اوران کی تعداد اوران کے اسماء کے جاننے پر دینِ اسلام کا کوئی عقیدہ یا شریعت کا کوئی مسئلہ موقوف نہیں ہے، تاریخی روایات میں مختلف باتیں اس کے متعلق مذکور ہیں، کسی مسلمان کو یہ زیب نہیں دیتا کہ ایسی چیزوں میں بحث مباحثہ کرکے اپنا وقت ضائع کرے، اصل یہ ہے کہ اس کے قصہ سے عبرت حاصل کرکے اللہ تعالی کو راضی کرنے والے کاموں میں اپنا وقت صرف کرے۔ جس چیز کو قرآن وحدیث نے مبہم رکھا ہے اس کی کھود کرید کی ضرورت نہیں،{أَبْہِمُوا مَا أَبْہَمَہُ اللَّہُ تَعَالَی}۔
حضرت سیدناعبداللہ بن عبا س رضی اللہ عنہماکافرمان شریف
قال ابن عباس:ہذہ الفتنۃ،فسئل عنہا، فقال:أبہموا ما أبہم اللہ۔
ترجمہ :حضرت سیدناعبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہماسے اس آیت کریمہ {وَاتَّقُوا فِتْنَۃً لَا تُصِیبَنَّ الَّذِینَ ظَلَمُوا مِنْکُمْ خَاصَّۃً}میں مذکور فتنہ کے متعلق سوال ہواتوآپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: جس چیز کواللہ تعالی نے مبہم رکھاہے تم بھی اسے مبہم ہی رہنے دو۔
(غرائب التفسیر وعجائب التأویل:محمود بن حمزۃ بن نصر، أبو القاسم برہان الدین الکرمانی (ا:۴۳۸)
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کاعمل اورامام حقی کی وضاحت
قال ابن عباس رضی اللہ عنہما أبہموا ما أبہم اللہ وبینوا ما بین اللہ یعنی إذا اقتضی المقام الإبہام کما إذا طلب بیان المبہم علی ما ہو علیہ فی نفسہ وعقل الطالب قاصر عن درکہ فلا جرم انہ حرام لما فیہ من ہلاکہ واما إذا طلب بیان المبہم لا علی ما ہو علیہ فی نفسہ بل علی وجہ یدرکہ عقلہ یضرب تأویل یستحسنہ الشرع ففیہ رخصۃ شرعیۃ اعتبرہا المتأخرون دفعا لانقلاب قلب الطالب وترسیخا علی عقیدتہ حتی تندفع عن صدرہ الوساوس والہواجس۔
ترجمہ :حضرت سیدناعبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہمافرماتے ہیں کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اسے مبہم رکھاجسے اللہ تعالی نے مبہم رکھااورجسے اللہ تعالی نے بیان کیااسے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بیان کیا۔ یعنی جب مقام کاتقاضاابہام کاہے اورمطالبہ کیاجائے کہ اسے بیان کیاجائے حالانکہ عقل اس کے ادراک سے عاجز وقاصرہے تواس کاابہام ضروری اورلازم ہے کیونکہ اس کے بیان سے طالب کی ہلاکت وتباہی کاخطرہ ہے ، ہاں اگرایسے ابہام کے اظہارکامطالبہ ہوجس سے عقل کو کسی قسم کاخطرہ نہ ہوکیونکہ وہ اس کے ادراک کی قوت وبرداشت رکھتاہے ۔ مثلاًاس کی ایسی تاویل کرسکتاہے کہ جسے شرع شریف مستحسن جانتی ہے تواس کے اظہارکی شرعاًاجازت ہے ، اسے متاخرین نے جائز رکھاہے تاکہ طالب کادل کہیں دوسرے تصورات میں مبتلاء نہ ہوجائے ، اس کے عقیدہ کوراسخ کرنے کے لئے ایسے ابہام مذکورہ کااظہارجائز ہے تاکہ طالب کے دل سے وساوس وہواجس دورہوجائیں ۔
(روح البیان:إسماعیل حقی بن مصطفی الإستانبولی الحنفی الخلوتی المولی أبو الفداء (۹:۳۵۲)
امام اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ کانظریہ
وقیل مذہب ابی حنیفۃ فیہ التوقف لقولہ علیہ السلام أبہموا ما أبہم اللہ وقد ذکر اللہ تعالی عذاب الکفار منہم ولم یذکر ثواب المطیعین منہم الا المقر والجوار من النار۔
ترجمہ :مومن جنات کے ثواب کی صورت کیاہوگی اس کے متعلق امام اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ نے توقف کیاہے اور اس میں کچھ صراحت نہیں کی۔ کیونکہ حضورتاجدارختم نبوتﷺکافرمان شریف ہے کہ جس بات کو اللہ تعالی نے مبہم رکھاہے تم بھی اسے مبہم رکھو، اللہ تعالی نے کافرجنات کے عذاب کاتوذکرکیاہے مگرنیک جنات کے ثواب کاکچھ تذکرہ نہیں فرمایا، صرف اتنافرمایاکہ ان کو دوزخ سے محفوظ رکھاجائے گا۔
(التفسیر المظہری:المظہری، محمد ثناء اللہ(۱۰:۸۹)
آج لوگ اپنی اپنی مسندوں پربیٹھ کرایسے سطحی مسائل کو چھیڑدیتے ہیں کہ جن کااسلام کے ساتھ تعلق ہی نہیں ہوتااوروہ بھی ان حالات میں جب دین اسلام پرہرچہارطرف سے حملے ہورہے ہوں اورکافراسلام کو مٹانے پرہوں اورلبرل وسیکولر نت نئے اعتراضات لئے کھڑے ہوں اورملحدین اسلام کی جڑیں کھوکھلی کررہے ہوںعین اسی وقت ہمارے علماء یہ مسائل چھیڑکربیٹھے ہوں کہ باغ فدک کس کاحق تھا؟ حالانکہ ہمارے مشائخ کرام رحمہم اللہ تعالی اس مسئلہ پربہت کچھ لکھ چکے ہیں اوریہ بھی تصریح کرچکے ہیں کہ اب تم نے اس مسئلہ میں الجھنانہیں ہے۔
وَقَدْ وَقَعَتْ الْفِتْنَۃُ بَیْنَ النَّاسِ بِسَبَبِ ذَلِکَ فَتَرْکُ الِاشْتِغَالِ بِہِ أَسْلَمُ۔
ترجمہ : امام محمد بن أحمد بن أبی سہل شمس الأئمۃ السرخسی الحنفی المتوفی : ۴۸۳ھ) رحمہ اللہ تعالی باغ فدک کی روایت نقل کرنے کے بعد اپنی رائے پیش کرتے ہیں کہ فدک کی وجہ سے اہل اسلام کے درمیان فتنے نے جنم لیاہے لھذااس بارے میں بحث ومباحثہ ترک کرنے میں ہی زیادہ سلامتی ہے ۔
(المبسوط:محمد بن أحمد بن أبی سہل شمس الأئمۃ السرخسی (۱۲:۳۰)
حضرت سیدنامجددالف ثانی رضی اللہ عنہ کادین کی اصولی باتوں سے احتراز کرکے فضولیات میں مشغول ہونے والوں کاردبلیغ
بہ محمدتقی صدوریافتہ درجواب ِ کتاب اودربیان آنکہ از فضولیات دین عنان معطوف ساختہ بضروریات دین بایدپرداخت ومایناسب ذلک الحمدللہ والسلام علی عبادہ الذی اصطفی بمطالعہ صحیفہ شریفہ مشرف گشت دلائل کہ بآں مھتدگشتہ اند واندراج یافتہ درباب حقیت خلافت حضرت صدیق رضی اللہ عنہ باجماع اہل حل وعقدصدراول کہ خیرالقرون است درباب افضلیت خلفاء راشدین رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین کہ بترتیب خلافت ایشان مترتبت است ودرباب سکوت ورزیدن از منازعات ومشاجرات اصحاب خیرالبشرعلیہ وعلیہم الصلوات والتسلیمات فرحت فراوان رسانیدن این اعتقاددربحث امامت کافی است وموافق اہل سنت وجماعت است شکراللہ تعالی سعیہم مخدوماشفقت آثاربحث امامت از فروع دین است نہ اصول شرعیت ضروریات دین دیگراست کہ باعتقادوعمل تعلق داردکہ علم کلام وعلم فقہ متکفل آن است ضروریات راگذاشتہ بفضولیات پرداختن عمرخودراصرف ِ مالایعنی لردن است درخبرآمدہ است علامۃ اعراضہ تعالی عن البعداشتغالہ بمالایعنیہ ، اگربحث امامت ضروریات دین واز اصول شریعت می بودچنانچہ شیعہ گمان بردہ اندبایستے کہ حضرت ِ حق سبحانہ وتعالی درکتاب مجیدخودتعین استخلاف میفرمودتشخیص خلیفہ می نمود وحضرت پیغمبرنیزعلیہ وعلی آلہ الصلوۃ والسلام امربہ خلافت یکے میکردبہ تنضیص وتصریح یکے راخلیفہ میساخت ودرکتاب وسنت چون اہتمام این امرمفہوم نہ شدمعلوم شدکہ بحث امامت از فضول دین است نہ ازاصول دین ، فضولی بایدکہ بہ فضول اشتغال نمایدآن قدرضروریات دین درپیش است کہ نوبت بہ فضول نمیرسداول از تصحیح اعتقادچارہ نہ بود بذات وصفات افعال واحی جل سلطانہ تعلق داردواعتقادبایدنمود کہ آنچہ پیغمبرعلیہ وآلہ الصلوۃ والسلام از نزدحق جل وعلاآوردہ است وبضرورت وتواتراز دین معلوم گشتہ است از حشرونشروعذاب وثواب اخروی دائمی وسائرسمعیات ہمہ حق است واحتمال تخلف نہ دارداگراین اعتقادنبودنجات نبود ثانیاًاز اتیان احکام فقیہ ہم چاہ رہ نبودواز ادائے فرائض وواجبات بلکہ از ادائے سنن ومستحبات نیزگزرنہ رعایت حل وحرمت شعیہ نیک بایدنمود درحودشریعت احتیاط بایدکردتافلاح رستگاری از عذاب آخرت متصورنہ شودوچون اعتقادوعمل رادست کندنوبت بطریق صوفیہ رسدوامدداردکمالات ِ ولایت گردبحث امامت نسبت بضروریات دین کالمطروح فی الطریق است غایۃ مافی الباب چون مخالفان دین باب غلونمودہ اند وطعن دراصحاب خیرالبشرعلیہ وعلیہم الصلوۃ والتسلیمات کردہ بضرورت درردایشان مقدمات طویل الذیل راایرادنمودہ می آیدکہ لزوم فساد ازدین متین رفع نمود از ضروریات دین است والسلام۔
ترجمہ :یہ مکتوب شریف اس بیان میں ہے کہ فضولیات سے منہ پھیرکرضروریات دین میں مشغول ہوناچاہئے ۔
حضرت سیدنامجددالف ثانی رحمہ اللہ تعالی نے حضرت محمدتقی رحمہ اللہ تعالی کے خط کے جواب میں لکھا:
الحمدللہ والسلام علی عبادہ الذی اصطفی
اللہ تعالی کے لئے حمدہے اوراس کے برگزیدہ بندوں پرسلام ہو
آپ کی کتاب شریف کے مطالعہ سے مشرف ہوا،حضرت سیدناصدیق اکبررضی اللہ عنہ کی خلافت کی حقیقت میں دوصدراول یعنی خیرالقرون کے معتبراجماع سے ثابت ہے اورخلفاء راشدین رضی اللہ عنہم کی افضلیت کے بارے میں جوان کی خلافت کی ترتیب پرمترتب ہے اورحضورتاجدارختم نبوتﷺکے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے باہمی مشاجرات کے معاملے میں خاموشی اختیارکرنے کے باب میں جوجودلائل آپ نے نقل کئے ہیں ان کو پڑھ کربہت ہی خوشی ہوئی ، بحث امامت میں یہی اعتقادکافی ہے اوراہل سنت وجماعت شکراللہ سعیہم کے موافق ہے ۔
اے شفقت کے شان والے مخدوم !امامت کی بحث دین کے فروع میں سے ہے نہ شریعت کے اصول سے، ضروریات دینیہ اورہیں جواعتقاد وعمل کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں جن کامتکفل علم کلام اورعلم فقہ ہے ، ضروریات کو ترک کرکے فضولیات میں مشغول ہونااپنی عمرکوبے ہودہ باتوں میں خرچ کرناہے اوراعراض کی علامت میں آیاہے کہ
علامۃ اعراضہ تعالی عن العبداشتغالہ بمالایعنیہ ۔
ترجمہ :کسی بھی انسان کابے ہودہ باتوں میں مشغول ہونااس کی طرف سے اللہ تعالی کے منہ پھیرنے کی علامت ہے ۔
اگرامامت کی بحث دین کی ضروریات اورشریعت کے اصول سے ہوتی ہے جیساکہ شیعہ نے گمان کیاہے توچاہئے تھاکہ اللہ تعالی اپنے کلام مجید میں استخلاف کاتعین فرماکرخلیفہ کی تشخیص فرماتااورحضورتاجدارختم نبوتﷺبھی کسی ایک کی خلافت کاحکم دے کرجاتے اورتنصیص وتصریح کے طورپرایک کوخلیفہ بناتے ، جب کتاب وسنت میں اس امرکااہتمام مفہوم نہیں ہوتاتومعلوم ہواکہ امامت کی بحث دین کے فضول سے ہے نہ کہ دین کے اصول سے ، وہ شخص فضول ہی ہوگاجواس قسم کی فضول باتوں میں مشغول ہوگا۔ دین کی ضروریات اس قدردرپیش ہیں کہ فضول تک نوبت ہی نہیں پہنچتی ۔ اول اس اعتقادکادرست کرناضروری ہے جوحق تعالی کی ذات وصفات وافعال سے تعلق رکھتاہے اورپھراعتقاد کرناچاہئے کہ جوکچھ حضورتاجدارختم نبوتﷺحق تعالی کی طرف سے لائے ہیں اورضرورت وتواترکے طورپردین سے معلوم ہواہے یعنی حشرونشراورآخرت کادائمی عذاب وثواب اورسب سنی سنائی باتیں حق ہیں ، ان میں خلاف کااحتمال نہیں ہے ، اگریہ اعتقادنہ ہوگاتونجات بھی نہ ہوگی ۔
دوسرے احکام فقہیہ یعنی فرض وواجب ، سنت موکدہ وغیرہ بجالاناضروری ہے شرعی حل وحرمت کواچھی طرح مدنظررکھناچاہئے اورحدودشرعی میں بڑی احتیاط کرنی چاہئیے تاکہ آخرت کے عذاب سے نجات وفلاح حاصل ہوسکے ، جب یہ اعتقادوعمل درست ہوجائیں پھرطریق صوفیاء کی نوبت آتی ہے اورکمالات ولایت کے امیدوارہوجاتے ہیں ، امامت کی بحث ضروریات دین کے مقابلے میں کالمطروح فی الطریق یعنی راستے میں پھینکے ہوئے کوڑے کرکٹ کی طرح ہے چونکہ مخالفین نے اس بارے میں بڑاغلو ومبالغہ کیاہے اورحضورتاجدارختم نبوتﷺکے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پرزبان طعن دراز کی ہے ، اس لئے ان کے رد میں طول وطویل مقدمات لکھے جاتے ہیں کیونکہ دین متین سے فسادکودفع کرنابھی دین کی ضروریات سے ہے ۔ والسلام ۔
(مکتوبات امام ربانی از حضرت مجددالف ثانی ( جلد دوم دفتردوم حصہ سات : ۳۳)
حضرت سیدناشیخ محمدتقی رحمہ اللہ تعالی نے جن مسائل پرکتاب لکھی ہے وہ اہم نزاعی مسائل تھے :
(۱)…مسئلہ خلافت یعنی امامت کبری
(۲)…مسئلہ افضلیت یعنی خلفاء راشدین رضی اللہ عنہم کی افضلیت
(۳)…صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے باہمی مشاجرات جو رونماہوئے ( اس پرانہوں دلائل بیان کئے کہ امت پرواجب ہے کہ وہ اس معاملہ میں سکوت کرے اورلب کشائی نہ کرے )
(۴)…حضرت سیدناابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کاخلیفہ برحق ہونا( کیونکہ اس مسئلہ میں روافض بہت زیادہ اختلاف کرتے ہیں)
اس کتاب کوپڑھ کر امام ربانی مجددالف ثانی رضی اللہ عنہ نے کیالکھاہے وہ آپ پڑھ چکے ہیں کہ آپ نے ان مسائل کے متعلق جوحکم شرعی بیان کیاہے وہ ہرایک کے سامنے ہے ۔حالانکہ وہ مسائل انتہائی اہم تھے اورہیں اوراس کی وجہ یہی ہے کہ اس وقت اکبربادشاہ دین متین پرحملہ آورہوچکاتھااوراس نے دین متین کی جڑیں کھوکھلی کردی تھیں توآپ رضی اللہ عنہ نے فرمایاکہ ایسے حالات میں ان مسائل پرکتابیں لکھناسمجھ سے بالاترہے جب دین متین کے احکامات پرہی پابندی لگادی جائے ۔
توآج ہم ذراغورکریں کہ دین کے لئے مشکلات اس وقت زیادہ تھیں یاآج ؟ آج کفربواح نافذ ہوچکاہے اورگستاخوں ، کافروں کو گستاخیاں کرنے کی کھلی چھٹی ہے ، بڑے بڑے اداروں میں بیٹھ کرملحدین کی جماعتیں تیارکی جارہی ہیں توایسے ماحول میں ہمارے علماء کاان موضوعات پرلکھنابھی سمجھ سے بالاترہے جیسے :
٭کونڈوں کی شرعی حیثیت ٭بابارتن ہندی کون ؟شب برات کاحلوہ کھانے کاثبوت ٭قل خوانی وغیرہ ۔
ایسے موضوعات پرپے درپے کتابیں لکھی جارہی ہیں اوروہ بھی ایسے حالات میں جب لبرل وسیکولر اورملحدین مل کردین پرحملہ آورہوچکے ہیں ۔
اب اسی طرح ایک اورمسئلہ بھی ہے وہ یہ ہے کہ ہرسال کے منبرپربیان ہونے والے موضوعات بھی منتخب ہیں اوربہت عرصہ سے وہی بیان کرتے جارہے ہیں جیسے ربیع الاول شریف میں میلاد مناناجائز ہے یانہیں ؟ محرم شریف میں ماتم وغیرہ اوراس کے متعلقات ، ذوالحج شریف میں بھینس کی قربانی کرناکیسا؟ شعبان المعظم میں شب برات مناناکیسا؟ رمضان المبارک میں تراویح آٹھ رکعت یابیس ؟ رجب المرجب میں شب معراج مناناکیسا؟ اورمعراج کی رات حضورتاجدارختم نبوتﷺنے اللہ تعالی کادیدارکیایانہیں ؟
یہی وہ موضوعات ہیں جن کو بارباربیان کرتے چلے جارہے ہیں ، ان سے کوئی بھی پوچھنے والانہیں ہے کہ خداکے بندوں!غلبہ دین کے لئے کب بولوگے ؟اوراعلائے کلمۃ اللہ تعالی کے واسطے کب آواز بلندکروگے ؟
جب چاراہم مسائل پرکتاب لکھنے والے کوامام ربانی رضی اللہ عنہ نے یہ فرمایاکہ یہ مسائل دین کی اصول میںسے ہیں اورنہ ہی فروع میں سے تواب خود غورکریں جومسائل ہمارے دورکے علماء لے کربیٹھے ان کو اگرامام ربانی رضی اللہ عنہ دیکھتے توکیافرماتے؟
یہ یادرہے کہ علماء جب لا یعنی موضوعات اور بے نتیجہ ابحاث میں اپنی فکری و تحقیقی قوت صرف کر رہے ہوں تو سمجھ جاؤ دین کے دشمنوں کے لیے میدان خالی ہے ،دشمن جہاں سے چاہے وار کرے،ہمیشہ دین کے دشمنوں نے مسلمانوں کو آپس میں لڑا کر کامیابی حاصل کی ہے کیوں کہ وہ اتحادِ بین المسلمین کی قوت سے آگاہ ہیں مگر آج کا دین دار طبقہ اتحاد بین المسلمین تو کجا اتحاد بین العلماء ،بین المشائخ،بین الخطباء کی فضا بھی قائم نہ کر سکا ۔
آج علماء کے مابین ویڈیوز کے کلپ کا میچ جاری ہے عوام میچ دیکھنے میں مصروف ہے مگر دین کا دشمن اپنا کام کر رہا ہے۔