اللہ تعالی گستاخوں کے محلات کااہل ایمان کو مالک بنادیتاہے
{وَ قَالَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لِرُسُلِہِمْ لَنُخْرِجَنَّکُمْ مِّنْ اَرْضِنَآ اَوْ لَتَعُوْدُنَّ فِیْ مِلَّتِنَا فَاَوْحٰٓی اِلَیْہِمْ رَبُّہُمْ لَنُہْلِکَنَّ الظّٰلِمِیْنَ }(۱۳){وَلَنُسْکِنَنَّـکُمُ الْاَرْضَ مِنْ بَعْدِہِمْ ذٰلِکَ لِمَنْ خَافَ مَقَامِیْ وَخَافَ وَعِیْدِ }(۱۴){وَاسْتَفْتَحُوْا وَخَابَ کُلُّ جَبَّارٍ عَنِیْدٍ }(۱۵){مِّنْ وَّرَآئِہٖ جَہَنَّمُ وَیُسْقٰی مِنْ مَّآء ٍ صَدِیْدٍ }(۱۶){یَّتَجَرَّعُہ وَ لَا یَکَادُ یُسِیْغُہ وَیَاْتِیْہِ الْمَوْتُ مِنْ کُلِّ مَکَانٍ وَّمَا ہُوَ بِمَیِّتٍ وَمِنْ وَّرَآئِہٖ عَذَابٌ غَلِیْظٌ }(۱۷)
ترجمہ کنزالایمان:اور کافروں نے اپنے رسولوں سے کہا ہم ضرور تمہیں اپنی زمین سے نکال دیں گے یا تم ہمارے دین پر ہوجاؤ تو انہیں ان کے رب نے وحی بھیجی کہ ہم ضرور ان ظالموں کو ہلاک کریں گے۔ اور ضرور ہم تم کو ان کے بعد زمین میں بسائیں گے یہ اس لیے ہے جو میرے حضو ر کھڑے ہونے سے ڈرے اور میں نے جو عذاب کا حکم سنایا ہے اس سے خوف کرے۔اور انہوں نے فیصلہ مانگا اور ہر سرکش ہٹ دھرم نا مُراد ہوا۔ جہنم اس کے پیچھے لگی اور اسے پیپ کا پانی پلایا جائے گا۔ بمشکل اس کا تھوڑا تھوڑا گھونٹ لے گا اور گلے سے نیچے اتارنے کی امید نہ ہوگی اور اسے ہر طرف سے موت آئے گی اور مرے گا نہیں اور اس کے پیچھے ایک گاڑھا عذاب۔
ترجمہ ضیاء الایمان: اور کافروں نے اپنے رسولوں سے کہا:ہم ضرور تمہیں اپنی سرزمین سے نکال دیں گے یا تم ہمارے دین میں آجاؤ تو ان رسولوں کی طرف ان کے رب تعالی نے وحی بھیجی کہ ہم ضرور ظالموں کو ہلاک کردیں گے۔ اور ضرور ہم ان کے بعد تمہیں زمین میں اِقتدار دیں گے ۔یہ اس کیلئے ہے جو میرے حضو ر کھڑے ہونے سے ڈرے اور میری وعید سے خوفزدہ رہے۔اور انہوں نے فیصلہ طلب کیا اور ہر سرکش ہٹ دھرم نا کام ہوگیا۔ جہنم اس کے پیچھے ہے اور اسے پیپ کا پانی پلایا جائے گا۔ بڑی مشکل سے اس کے تھوڑے تھوڑے گھونٹ لے گا اور ایسا لگے گا نہیں کہ اسے گلے سے اتار لے اور اسے ہر طرف سے موت آئے گی اور وہ مرے گا نہیں اور اس کے پیچھے ایک اور سخت ترین عذاب ہوگا۔
ایک سوال اوراس کاجواب
فان الرسل لم یکونوا فی ملتہم قط الا انہم لما لم یظہروا المخالفۃ لہم قبل الاصطفاء اعتقدوا انہم علی ملتہم فقالوا ما قالوا علی سبیل التوہم ،او بمعنی رجع والظرف صلۃ والخطاب لکل رسول ومن آمن بہ فغلبوا فی الخطاب الجماعۃ علی الواحد ای لتدخلن فی دیننا وترجعن الی ملتنا وہذا کلہ تعزیۃ للنبی علیہ السلام لیصبر علی أذی المشرکین کما صبر من قبلہ من الرسل۔
ترجمہ :امام اسماعیل حقی الحنفی المتوفی : ۱۱۲۷ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ یہاں ایک سوال پیداہوتاہے کہ انبیاء کرام علیہم السلام اعلان نبوت سے پہلے ان کافروں کے دین پر نہ تھے توپھرکافروں نے انہیں اپنے دین میں لوٹنے کاکیوں کہا؟۔
تواس کاجواب یہ ہے چونکہ اعلان نبوت سے پہلے انبیاء کرام علیہم السلام نے کفارکوان کے حال پرچھوڑے رکھاتھا، کسی بھی قسم کی روک ٹوک نہ فرمائی ، اسی لئے کفارکاگمان تھاکہ شایدوہ انبیاء کرام علیہم السلام بھی ان کے دین پرہیںپھرجب انہوںنے نبوت کے اعلان کے بعد کافروں کوکفرسے روکاتووہی کہاجومذکورہ ہوا۔
اس سوال کادوسراجواب یہ ہے کہ عاد بمعنی رجع ہے ، اس سے انبیاء کرام علیہم السلام اورجملہ اہل ایمان مراد ہیں اورچونکہ متعدداہل ایمان ان کے دین پرتھے ، اسی لئے یہ خطاب عوام کوہوگااورانبیاء کرام علیہم السلام تغلیباًشامل کردیے گئے۔
خلاصہ یہ ہے کہ کفارنے انبیاء کرام علیہم السلام اوران کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے کہاکہ تم ہمارے دین میں داخل ہوجائوورنہ ہم تم کو اپنے شہرسے نکالنے پرمجبورہوجائیں گے ، اس میں حضورتاجدارختم نبوتﷺکوبطورتسلی کے کہاگیاہے تاکہ آپﷺکفارمکہ کی گستاخیوں اورتکالیف پرصبرکریں جیساکہ سابقہ رسل کرام علیہم السلام نے اپنے اپنے زمانے میں کفارکی گستاخیوں اوران کی طرف سے پہنچنے والی مصیبتوں پرصبرکیا۔
(روح البیان:إسماعیل حقی بن مصطفی الإستانبولی الحنفی الخلوتی المولی أبو الفداء (۴:۴۰۵)
دین کے دشمن کو کبھی بھی نجات نصیب نہیں ہوگی
وقال الکاشفی نومید ماند وبی بہرہ کشت از خلاص ہر کردنکشی کہ ستیزندہ شود با حق یا معرض از طاعت او۔
ترجمہ :الشیخ الکاشفی رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ ہروہ شخص جو اللہ تعالی کے دین متین سے جنگ کرے یاحق تعالی کی اطاعت سے روگردانی کرے وہ سرکش ہے ، ایسے شخص کو ہرگزنجات نصیب نہیں ہوگی ۔
(روح البیان:إسماعیل حقی بن مصطفی الإستانبولی الحنفی الخلوتی المولی أبو الفداء (۴:۴۰۵)
جبارعنیدکامعنی
قُلْتُ:وَالْجَبَّارُ وَالْعَنِیدُ فِی الْآیَۃِ بِمَعْنًی وَاحِدٍ، وَإِنْ کَانَ اللَّفْظُ مُخْتَلِفًا،وَکُلُّ مُتَبَاعِدٍ عَنِ الْحَقِّ جَبَّارٌ وَعَنِیدٌ أَیْ مُتَکَبِّرٌوَقِیلَ:إِنَّ الْمُرَادَ بِہِ فِی الْآیَۃِ أَبُو جَہْلٍ۔
ترجمہ :ابوعبداللہ محمدبن احمدالقرطبی المتوفی: ۶۷۱ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ میں نے کہاکہ جباراورعنیدکامعنی ایک ہی ہے اگرچہ لفظ مختلف ہیں اوراس سے مراد ہروہ شخص ہے جو حق سے دورہووہی شخص جباربھی ہے اورعنیدبھی ، یعنی متکبرہے اورایک قول یہ بھی ہے کہ اس سے مراد ابوجہل ملعون ہے۔
( تفسیر القرطبی:أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن أبی بکرشمس الدین القرطبی (۹:۳۵۰)
قرآن کریم کے دشمن کاانجام بد
أَنَّ الْوَلِیدَ بْنَ یَزِیدَ بْنِ عَبْدِ الْمَلِکِ تَفَاء َلَ یَوْمًا فِی الْمُصْحَفِ فَخَرَجَ لَہُ قَوْلُہُ عَزَّ وَجَلَّ:وَاسْتَفْتَحُوا وَخابَ کُلُّ جَبَّارٍ عَنِیدٍ فَمَزَّقَ الْمُصْحَفَ وَأَنْشَأَ یَقُولُ:
أَتُوعِدُ کُلَّ جَبَّارٍ عَنِید
فَہَا أَنَا ذَاکَ جَبَّارٌ عَنِیدُ
إِذَا مَا جِئْتَ رَبَّکَ یَوْمَ حَشْر
فَقُلْ یَا رَبِّ مَزَّقَنِی الْوَلِیدُ
فَلَمْ یَلْبَثْ (إِلَّا) أَیَّامًا حَتَّی قُتِلَ شَرَّ قِتْلَۃٍ، وَصُلِبَ رَأْسُہُ عَلَی قَصْرِہِ، ثُمَّ عَلَی سُورِ بَلَدِہِ
ترجمہ :ولیدبن یزیدبن عبدالملک نے ایک دن قرآن کریم کھولاتوا س میں اسی آیت کریمہ{وَاسْتَفْتَحُوا وَخابَ کُلُّ جَبَّارٍ عَنِید} پرنظرپڑی تواس نے قرآن کریم کوپھاڑ ڈالااوریہ اشعارکہے :
أَتُوعِدُ کُلَّ جَبَّارٍ عَنِید
فَہَا أَنَا ذَاکَ جَبَّارٌ عَنِیدُ
إِذَا مَا جِئْتَ رَبَّکَ یَوْمَ حَشْر
فَقُلْ یَا رَبِّ مَزَّقَنِی الْوَلِیدُ
ترجمہ:کیاتوہرجبارعنیدکودھمکی دیتاہے ، تولومیں ہوں وہ جبارعنید، جب تواپنے رب تعالی کے پاس حشروالے دن آئے گاتوکہہ دیناکہ اے میرے رب !مجھے ولیدنے پھاڑڈالاتھا۔
پھرکچھ ہی دن گزرے تھے کہ اسے بری طرح قتل کردیاگیااوراس کے سرکواسی کے محل پرلٹکادیاگیا، پھراسے شہرکی چاردیواری پرلٹکایاگیا۔
(الکامل فی التاریخ:أبو الحسن علی بن أبی الکرم محمد بن محمد الجزری، عز الدین ابن الأثیر (۴:۳۰۷)
ایسے لوگوں کی آجکل توبہت بہتات ہے ، جوخود کو چوہدری اورمیاں کہلواتے ہیں وہ تودین حق سنناہی نہیں چاہتے ، اگرکہیں لوگ دین متین کادرس سننابھی چاہتے ہیں تووہاں بھی ایسے لوگ بہت ہوتے ہیں جوکہتے ہیں کہ ہم کو قرآنی وعیدات نہ سنائی جائیں بلکہ صرف اورصرف مبشرات سنائی جائیں ۔
پاکستان کے شہرکراچی میں ایک امام صاحب نے مسجد شریف میں یہ حدیث شریف لکھ دی کہ جس میں یہ چارعیب ہوں وہ منافق ہے تووہاں کے سیٹھ صاحب امام صاحب سے ناراض ہوگئے کہ انہوں نے میرے لئے لکھی ہے ۔
وہ حدیث شریف یہ ہے
عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عَمْرٍو أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ:أَرْبَعٌ مَنْ کُنَّ فِیہِ کَانَ مُنَافِقًا خَالِصًا، وَمَنْ کَانَتْ فِیہِ خَصْلَۃٌ مِنْہُنَّ کَانَتْ فِیہِ خَصْلَۃٌ مِنَ النِّفَاقِ حَتَّی یَدَعَہَا:إِذَا اؤْتُمِنَ خَانَ، وَإِذَا حَدَّثَ کَذَبَ، وَإِذَا عَاہَدَ غَدَرَ، وَإِذَا خَاصَمَ فَجَرَ۔
ترجمہ :حضرت سیدناعبداللہ بن عمرورضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضورتاجدارختم نبوتﷺنے فرمایا: چار چیزیں ہیں :جس شخص میں ہوں وہ خالص منافق ہوتا ہے اور جس شخص میں ان خصلتوں میں سے کوئی ایک ہو اس میں نفاق کی ایک خصلت ہو گی یہاں تک کہ اسے چھوڑ دے۔جب اسے امانتدار سمجھا جائے تو خیانت کرے،جب بات کرے تو جھوٹ کہے، جب عہد کرے تو اسے توڑ ڈالے اور جب جھگڑے تو بد زبانی کرے۔
(السنۃ:أبو بکر أحمد بن محمد بن ہارون بن یزید الخَلَّال البغدادی الحنبلی (۵:۷۱)
متکبرکوحکم دینی بیان کرنامنع ہے
عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ قَالَ:مَرَّ النَّبِیُّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی طَرِیقٍ، وَمَرَّتِ امْرَأَۃٌ سَوْدَاء ُ،فَقَالَ لَہَا رَجُلٌ:الطَّرِیقَ، فَقَالَتْ:الطَّرِیقُ ثَمَّ، فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:دَعُوہَا، فَإِنَّہَا جَبَّارَۃٌ۔
ترجمہ :حضرت سیدناانس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضورتاجدارختم نبوتﷺایک راستے میں سے گزرہے تھے توایک کالے رنگ کی عورت گزرنے لگی تواسے ایک آدمی نے کہاکہ راستے سے ہٹ جائوتواس نے کہاکہ راستہ بہت وسیع ہے ، حضورتاجدارختم نبوتﷺنے فرمایا: اسے چھوڑدویہ متکبرہ ہے ۔
(عمل الیوم واللیلۃ:أبو عبد الرحمن أحمد بن شعیب بن علی الخراسانی، النسائی:۳۷۴)
گستاخوں کے خلاف دعائے جلال کرنے کااللہ تعالی نے حکم دیا
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللہُ عنہما فی الآیۃ قَالَ:کَانَتِ الرُّسِل والمؤمنون یستضعفہم قومہم ویقہرونہم ویکذبونہم ویدعونہم إِلَی إِنَّ یعودوا فی ملتہم، فأبی اللہ لرسلہ والمؤمنین إِنَّ یعودوا فی مِلَّۃ الکُفْرِ، وأمرہم إِنَّ یتوکلوا عَلَی اللہ وأمرہم إِنَّ یستفتحوا علی الجبابرۃ، ووعدہم إِنَّ یسکنہم الأَرْض مِنْ بعدہم، فأنجز اللہ لَہُمْ وعدہم واستفتحوا کما أمرہم اللہ أن یستفتحوا ۔
ترجمہ :حضرت سیدناعبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رسل کرام علیہم السلام اوران کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کوان کی قوم کے کفارنے ضعیف وناتواں جان کربہت زیادہ ظلم وستم کیااوران انبیاء کرام علیہم السلام کو جھوٹاکہا۔نیزانہیں اپنی ملت کفرکی طرف لوٹنے پرمجبورکرتے تھے ، اللہ تعالی نے اپنے رسل کرام علیہم السلام اوران کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو ملت کفرکی طرف لوٹنے سے منع کیااورانہیں حکم دیاکہ وہ اللہ تعالی کی ذات پرتوکل کریں اورجابروظالم لوگوں کے خلاف فتح ونصرت کی دعاکرنے کاحکم دیااوراللہ تعالی نے اپنے رسل کرام علیہم السلام اوراہل ایمان سے وعدہ فرمایاکہ ان کونیست ونابودکرنے کے بعدوہ انہیں ان کے ملک میں ٹھہرائے گا، پس اللہ تعالی نے اپنے رسل کرام علیہم السلام سے کئے گئے وعدے کوپورافرمایااوررسل کرام علیہم السلام اوراہل ایمان نے فتح ونصرت کی دعامانگی جس طرح اللہ تعالی نے انہیں حکم دیاتھا۔
(تفسیر القرآن :أبو محمد عبد الرحمن بن محمد الرازی ابن أبی حاتم (۷:۲۳۳۷)
اللہ تعالی نے گستاخوں کے مکانات اہل ایمان کے قبضہ میں دینے کاوعدہ فرمایا
عَنْ قَتَادَۃ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ فِی قَوْلِہِ:وَلَنُسْکِنَنَّکُمُ الأَرْض مِنْ بَعْدِہِمْ قَالَ:وعدہم النصر فی الدُّنْیَا، والجنۃ فی الآخرۃ فبین اللہ تَعَالَی مِنْ یسکنہا مِنْ عبادہ، فقال:وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہِ جَنَّتَانِ وإن للہ مقامًا ہُوَ قائمہ، وإن أَہْل الإِیمَان خافوا ذَلِکَ المقام فنصبوا، ودأبوا اللیل والنہار۔
ترجمہ :حضرت سیدناقتادہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالی نے دنیا میںاہل ایمان سے نصرت کااورآخرت میں جنت کاوعدہ فرمایا، اللہ تعالی نے واضح فرمادیاکہ وہ ان کافروں اورگستاخوں کے ملک میں اپنے رسل کرام علیہم السلام اوران کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو ٹھہرائے گا،اوریہ بھی فرمایاکہ اللہ تعالی کی بارگاہ میں کھڑے ہوناہے اوراہل ایمان اس مقام سے ڈرتے ہیں ، اس وجہ سے وہ رات دن اس کی بارگاہ میں کھڑے ہونے کی مشق کرتے ہیں۔
(تفسیر الطبری :محمد بن جریر بن یزید بن کثیر بن غالب الآملی، أبو جعفر الطبری (۱۳:۶۱۳)
ایک دین دشمن چوہدری کاتباہ ہونا
وعن النبی صلی اللہ علیہ وسلم من آذی جارہ ورثہ اللہ دارہ ولقد عاینت ہذا فی مدۃ قریبۃ:کان لی خال یظلمہ عظیم القریۃ التی أنا منہا ویؤذینی فیہ، فمات ذلک العظیم وملکنی اللہ ضیعتہ، فنظرت یوما إلی أبناء خالی یتردّدون فیہا ویدخلون فی دورہا ویخرجون ویأمرون وینہون فذکرت قول رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، وحدّثتہم بہ،وسجدنا شکراً للہ ذلِکَ إشارۃ إلی ما قضی بہ اللہ من إہلاک الظالمین إسکان المؤمنین دیارہم۔
ترجمہ :حضورتاجدارختم نبوتﷺنے فرمایا: جو شخص اپنے ہمسائے کو ایذادیتاہے اللہ تعالی مظلوم کوظالم کے گھرکامالک بنادیتاہے ۔
أبو القاسم محمود بن عمرو بن أحمد، الزمخشری جار اللہ المتوفی : ۵۳۸ھ)نے لکھاہے کہ حدیث مذکورکانتیجہ میں نے اپنی آنکھوںسے دیکھا، وہ اس طرح کہ میرے گائوں میں ہی میراماموں رہتاتھا، اسے گائوں کاچوہدری ستایاکرتاتھااورمیں بھی ہروقت اس کے ظلم وستم کانشانہ بنارہتاتھا، تھوڑے ہی عرصے کے اندروہ چوہدری مرگیا، اللہ تعالی نے اس کی تمام زمین کامجھے مالک بنادیا، ایک دن میں نے اپنے ماموں کے بیٹوں کو دیکھاکہ اس ظالم چوہدری کے خاص مکان میں آجارہے ہیں اوربے دھڑک وہاں بیٹھ کرعوام کو دین متین کے مسائل بیان کررہے ہیںلیکن ان کو روک ٹوک کرنے والاکوئی نہیں ، میں نے انہیں حضورتاجدارختم نبوتﷺکی یہ حدیث شریف بیان کی ، وہ سن کر سجدہ میں گرگئے اوراللہ تعالی کاشکربجالائے کہ وہ وقت یادتھاکہ اسی گھرمیں ہمارے اوپرظلم کیاجاتاتھااورآج ہم ہی اس گھرکے مالک ہیں ۔
(الکشاف:أبو القاسم محمود بن عمرو بن أحمد، الزمخشری جار اللہ (۲:۵۴۵)
حضرت سیدناشیخ سعدی رحمہ اللہ تعالی نے کیاخوب کہا:
تحمل کن ای ناتوان از قوی
کہ روزی تواناتر از وی شوی
لب خشک مظلوم را کو بخند
کہ دندان ظالم بخواہند کند
ترجمہ :اے عاجز توطاقتورظالم کے ظلم پرحوصلہ کر، اس لئے کہ کبھی تواس سے بھی طاقتورہوگا، مظلوم کے خشک لب کوخوشخبری دوکہ تواب ہنس، اس لئے کہ عنقریب ظالم کے دانت اکھیڑ لئے جائیں گے ۔
(بوستان سعدی لشیخ مصلح الدین سعدی :۲۳)
امام الرازی رحمہ اللہ تعالی اس حدیث شریف کے تحت فرماتے ہیں
وَعَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:مَنْ آذَی جَارَہُ أَوْرَثَہُ اللَّہُ دَارَہُ وَاعْلَمْ أَنَّ ہَذِہِ الْآیَۃَ تَدُلُّ عَلَی أَنَّ مَنْ تَوَکَّلَ عَلَی رَبِّہِ فِی دَفْعِ عَدُوِّہِ کَفَاہُ اللَّہُ أَمْرَ عَدُوِّہِ.
ترجمہ :حضورتاجدارختم نبوتﷺنے فرمایا: جو شخص اپنے ہمسائے کو ایذادیتاہے اللہ تعالی مظلوم کوظالم کے گھرکامالک بنادیتاہے ۔
فرماتے ہیں کہ یہ آیت کریمہ بھی اس بات پردلالت کرتی ہے کہ جولوگ دشمن کے دفاع میں اللہ تعالی کی ذات پربھروسہ کرتے ہیں اللہ تعالی ان کے دشمنوں کے لئے کافی ہوتاہے ۔
(التفسیر الکبیر:أبو عبد اللہ محمد بن عمر بن الحسن بن الحسین التیمی الرازی (۱۹:۷۶)
جیسے فرعونیوں نے حضرت سیدناموسی علیہ السلام اورآپ کے ماننے والوں پرظلم وستم کیااللہ تعالی نے ان کے مکانات ان اہل ایمان کودے دیئے ، اسی طرح حضرت سیدنانوح علیہ السلام کی گستاخ قوم کو رب تعالی نے ہلاک کیاتوان کی جائدادوں کاان کو مالک بنادیا، حضرت سیدناصالح علیہ السلام کے گستاخوں کوہلاک کیاتوان کی جائدادوں کامالک اہل ایمان کو بنادیاگیا، پھراہل مکہ نے حضورتاجدارختم نبوتﷺاورآپ ﷺکے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پرظلم کئے تواللہ تعالی نے انہیں اہل ایمان کوپھرمکہ مکرمہ میں بسادیا۔
بنوقریظہ کے یہودیوں نے حضورتاجدارختم نبوتﷺکی گستاخی کی اورآپﷺکے ساتھ غداری کی تواللہ تعالی نے ان کی جائدادوں کامالک بھی اہل ایمان کو بنادیا، اسی طرح بنونضیروبنوقینقاع کے محلات کابھی مالک اہل ایمان کو بنادیاگیا۔
حضورتاجدارختم نبوتﷺکی گستاخوں کے خلاف دعائے جلا ل
وَرُوِیَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ وَقِیلَ قَالَ الرسول:إِنَّ قَوْمِی کَذَّبُونِ فَافْتَحْ بَیْنِی وَبَیْنَہُمْ فَتْحاًوَقَالَتِ الْأُمَمُ:إِنْ کَانَ ہَؤُلَاء ِ صَادِقِینَ فَعَذِّبْنَا۔
ترجمہ :حضرت سیدناعبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہمافرماتے ہیں کہ حضورتاجدارختم نبوتﷺنے اللہ تعالی کی بارگاہ میں عرض کی : یااللہ !ان گستاخوںنے مجھے جھوٹاکہاہے ، پس میرے اوران کے درمیان فیصلہ فرما۔ اورمختلف امتوں نے اپنے اپنے انبیاء کرام علیہم السلام کے بارے میں کہاکہ اگریہ سچے ہیں تواللہ تعالی ہمیں عذاب میں مبتلاء کردے ۔
(تفسیر یحیی بن سلام:یحیی بن سلام بن أبی ثعلبۃ، التیمی القیروانی (۳:۵۱۳)
عذاب کی وجہ سے گستاخوں کی سرین جل جائے گی
حَدَّثَنَا سُوَیْدُ بْنُ نَصْرٍ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّہِ أَخْبَرَنَا صَفْوَانُ بْنُ عَمْرٍو عَنْ عُبَیْدِ اللَّہِ بْنِ بُسْرٍ عَنْ أَبِی أُمَامَۃَ عَنْ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی قَوْلِہِ وَیُسْقَی مِنْ مَاء ٍ صَدِیدٍ یَتَجَرَّعُہُ قَالَ یُقَرَّبُ إِلَی فِیہِ فَیَکْرَہُہُ فَإِذَا أُدْنِیَ مِنْہُ شَوَی وَجْہَہُ وَوَقَعَتْ فَرْوَۃُ رَأْسِہِ فَإِذَا شَرِبَہُ قَطَّعَ أَمْعَاء َہُ حَتَّی تَخْرُجَ مِنْ دُبُرِہِ یَقُولُ اللَّہُ وَسُقُوا مَاء ً حَمِیمًا فَقَطَّعَ أَمْعَاء َہُمْ وَیَقُولُ وَإِنْ یَسْتَغِیثُوا یُغَاثُوا بِمَاء ٍ کَالْمُہْلِ یَشْوِی الْوُجُوہَ بِئْسَ الشَّرَابُ۔
ترجمہ:حضرت سیدناابوامامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضورتاجدارختم نبوتﷺنے اللہ تعالیٰ کے اس قول{وَیُسْقَی مِنْ مَائٍ صَدِیدٍ یَتَجَرَّعُہُ}کے بارے میں فرمایا: صدید(پیپ)اس کے منہ کے قریب کی جائے گی تو اسے ناپسند کرے گا جب اسے اور قریب کیا جائے گا تو اس کا چہرہ بھن جائے گا اور اس کے سر کی کھال گر جائے گی اور جب اسے پیئے گا تو اس کی آنت کٹ جائے گی یہاں تک کہ اس کے سرین سے نکل جائے گی۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے {وَسُقُوا مَائً حَمِیمًا فَقَطَّعَ أَمْعَائَہُمْ}وہ ماء حمیم(گرم پانی)پلائے جائیں گے تو وہ ان کی آنتوں کو کاٹ دے گا)اورا للہ تعالیٰ فرماتاہے{وَإِنْ یَسْتَغِیثُوا یُغَاثُوا بِمَائٍ کَالْمُہْلِ یَشْوِی الْوُجُوہَ بِئْسَ الشَّرَابُ}(اور اگر وہ فریاد کریں گے تو ان کی فریاد رسی ایسے پانی سے کی جائے گی جو تلچھٹ کی طرح ہوگا چہرے کو بھون دے گا اور وہ نہایت برامشروب ہے)
(سنن الترمذی:محمد بن عیسی بن سَوْرۃ بن موسی بن الضحاک، الترمذی، أبو عیسی (۴:۱۹۶)