تفسیرسورۃھودآیت ۲۷۔ فَقَالَ الْمَلَاُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْ قَوْمِہٖ مَا نَرٰیکَ اِلَّا بَشَرًا مِّثْلَنَا

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اوراہل دین کے گستاخوں کے گھٹیااورذلیل ہونے کابیان

{فَقَالَ الْمَلَاُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْ قَوْمِہٖ مَا نَرٰیکَ اِلَّا بَشَرًا مِّثْلَنَا وَمَا نَرٰیکَ اتَّبَعَکَ اِلَّا الَّذِیْنَ ہُمْ اَرَاذِلُنَا بَادِیَ الرَّاْیِ وَ مَا نَرٰی لَکُمْ عَلَیْنَا مِنْ فَضْلٍ بَلْ نَظُنُّکُمْ کٰذِبِیْنَ }(۲۷)

ترجمہ کنزالایمان:تو اس کی قوم کے سردار جو کافر ہوئے تھے بولے ہم تو تمہیں اپنے ہی جیسا آدمی دیکھتے ہیں اور ہم نہیں دیکھتے کہ تمہاری پیروی کسی نے کی ہو مگر ہمارے کمینوں نے سرسری نظر سے اور ہم تم میں اپنے اوپر کوئی بڑائی نہیں پاتے بلکہ ہم تمہیں جھوٹا خیال کرتے ہیں۔

ترجمہ ضیاء الایمان: تو ان کی قوم کے کافر سردار کہنے لگے :ہم تو تمہیں اپنے ہی جیسا آدمی سمجھتے ہیں اور ہم دیکھ رہے ہیں کہ تمہاری پیروی صرف ہمارے سب سے کمینے لوگوں نے سرسری نظر دیکھ کر غوروفکرکئے بغیرکرلی ہے اور ہم تمہارے لئے اپنے اوپر کوئی فضیلت نہیں پاتے بلکہ ہم تمہیں جھوٹا خیال کرتے ہیں۔
گستاخوں کو مولاناروم رحمہ اللہ تعالی کامنہ توڑجواب
ہمسری با انبیا بر داشتند

أولیا را ہمچوخود پنداشتند
گفت اینک ما بشر ایشان بشر

ما وایشان بستہ خوابیم وخور
این ندانستند ایشان از عمی

ہست فرقی در میان بی منتہی
ہر دو کون زنبور خوردند از محل

لیک شد زان نیش وز این دیگر عسل
ہر دو کون آہو کیا خوردند وآب

ز این یکی سر کین شد وزان مشکناب
ہر دو نی خوردند از یک آبخور

این یکی خالی وآن پر از شکر

ترجمہ :کافروں اورگستاخوں نے انبیاء کرام علیہم السلام سے برابری کادم مارااوراولیاء کرام کوبھی اپنے جیساسمجھااورکہاکہ یہ بھی بشرہیں اورہم بھی ، اس لئے کہ دونوں کھاتے پیتے اورسوتے ہیں۔ لیکن ان اندھوں کو یہ نہیں معلوم کہ ان میں اورہم میں بے انتہاء فرق ہے ، دیکھیں دوبھڑہیں ، ایک خوراک کھاتے ہیں لیکن ایک میں زہرہے (بھڑمیں) اوردوسرے میں شہدبھراہوہے (یعنی شہدکی مکھی) ان دونوں ہرنوں کو دیکھ لیجئے کہ وہ دونوں ایک ہی خوراک کھاتے ہیں لیکن ایک سے گوبراوردوسرے سے خالص مشک (کستوری) حاصل ہوتی ہے ۔ ان ددنوں نیشکروں کو دیکھ لوکہ ایک ہی کنویں کاپانی پیتے ہیں لیکن ایک خشک لکڑی ہے جبکہ دوسرامیٹھی شکرسے پرہے ۔
(روح البیان:إسماعیل حقی بن مصطفی الإستانبولی الحنفی الخلوتی المولی أبو الفداء (۴:۱۱۷)

گستاخوں کے پاگل پن کی وضاحت

وَکَانَ ہَذَا جَہْلًا مِنْہُمْ، لِأَنَّہُمْ عَابُوا نَبِیَّ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِمَا لَا عَیْبَ فِیہِ، لِأَنَّ الْأَنْبِیَاء َ صَلَوَاتُ اللَّہِ وَسَلَامُہُ عَلَیْہِمْ، إِنَّمَا عَلَیْہِمْ أَنْ یَأْتُوا بِالْبَرَاہِینِ وَالْآیَاتِ، وَلَیْسَ عَلَیْہِمْ تَغْیِیرُ الصُّوَرِ وَالْہَیْئَاتِ، وَہُمْ یُرْسَلُونَ إِلَی النَّاسِ جَمِیعًا،فَإِذَا أَسْلَمَ مِنْہُمُ الدَّنِیء ُ لَمْ یَلْحَقْہُمْ مِنْ ذَلِکَ نُقْصَانُ، لِأَنَّ عَلَیْہِمْ أَنْ یَقْبَلُوا إِسْلَامَ کُلِّ مَنْ أَسْلَمَ مِنْہُمْ قُلْتُ:الْأَرَاذِلُ ہُنَا ہُمُ الْفُقَرَاء ُ وَالضُّعَفَاء ُ۔

ترجمہ :امام ابوعبداللہ محمدبن احمدالقرطبی المتوفی : ۶۷۱ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ یہ ان کی طرف سے جہالت تھی کیونکہ انہوںنے حضرت سیدنانوح علیہ السلام پرایساعیب لگایاجوان میں نہیں تھا، کیونکہ انبیاء کرام علیہم السلام پرتودلائل وبراہین اورآیات کولانالازم ہوتاہے ، ان پرصورتیںتبدیل کرناتولازم نہیں ہوتااورانہیں تمام لوگوں کی طرف بھیجاجاتاہے اوراگران میں سے کوئی گھٹیاآدمی ایمان لے آئے تواس کی وجہ سے انہیں کوئی نقص لاحق نہیں ہوتاکیونکہ ان پرہراسلام قبول کرنے والے کے اسلام کو قبول کرنالازم ہوتاہے ۔ میں کہتاہوں کہ {الْأَرَاذِل}سے مراد فقراء اورضعفاء ہیں۔
(تفسیر القرطبی:أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن أبی بکر شمس الدین القرطبی (۹:۲۲)

گھٹیاپن سے مراد کیاہے؟

فَذَکَرَ ابْنُ الْمُبَارَکِ عَنْ سُفْیَانَ أَنَّ السَّفِلَۃَ ہُمُ الَّذِینَ یَتَقَلَّسُونَ ،وَیَأْتُونَ أَبْوَابَ الْقُضَاۃِ والسلاطین یطلبون الشہادات وَقَالَ ثَعْلَبٌ عَنِ ابْنِ الْأَعْرَابِیِّ:السَّفِلَۃُ الَّذِینَ یَأْکُلُونَ الدُّنْیَا بِدِینِہِمْ ،قِیلَ لَہُ:فَمَنْ سَفِلَۃُ السَّفِلَۃِ؟ قَالَ:الَّذِی یُصْلِحُ دُنْیَا غَیْرِہِ بِفَسَادِ دینہ وسیل عَلِیٌّ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ عَنِ السَّفِلَۃِ فَقَالَ:الَّذِینَ إِذَا اجْتَمَعُوا غَلَبُوا، وَإِذَا تَفَرَّقُوا لَمْ یُعْرَفُواوَقِیلَ لِمَالِکِ بْنِ أَنَسٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ:مَنِ السَّفِلَۃُ؟ قَالَ:الَّذِی یَسُبُّ الصَّحَابَۃَ۔

ترجمہ :گھٹیاپن کے متعلق علماء کے مختلف اقوال ہیں :
٭…حضرت سیدناامام عبداللہ بن مبارک رضی اللہ عنہ نے حضر ت سیدناسفیان رضی اللہ عنہ سے نقل کیاہے کہ گھٹیالوگ وہ ہیں جوبادشاہوں کے آنے کے وقت لہوولعب کی اصناف کے ذریعے ان کا استقبال کرتے ہیںاورججوں اوربادشاہوں کے دروازوں پرحاضری کے لئے آتے ہیں ۔
٭…امام الثعلب نے امام الاعرابی رحمہ اللہ تعالی سے نقل کرتے ہوئے فرمایا: گھٹیالوگوں سے مراد وہ آدمی ہے جو اپنے دین کے ذریعے دنیاحاصل کرتاہے ۔ اورانہیں کہاگیاکہ گھٹیاترین کون ہے؟ توانہوں نے فرمایا: وہ آدمی جو اپنے دین کی بربادی کے ذریعے کسی کی دنیاکی اصلاح کرتاہے ۔
٭…حضرت سیدنامولاعلی رضی اللہ عنہ سے گھٹیاپن کے متعلق سوال کیاگیاتوآپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ان سے مراد ایسے لوگ ہیں جواگرجمع ہوجائیں توغالب آجائیں اوراگرجداجداہوں توپہچانے بھی نہ جائیں ۔
٭…حضرت سیدنامالک بن انس رضی اللہ عنہ سے گھٹیالوگوںکے متعلق سوال کیاگیاکہ گھٹیالوگ کون ہیں؟ توآپ رضی اللہ عنہ نے فرمایاکہ وہ لوگ ہیں جو حضورتاجدارختم نبوتﷺکے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو گالیاں دیتے ہیں ۔
(تفسیر القرطبی:أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن أبی بکر شمس الدین القرطبی (۹:۲۲)

گستاخوں کے گھٹیاپن کاجواب

وَما نَراکَ اتَّبَعَکَ إِلَّا الَّذِینَ ہُمْ أَراذِلُنا بادِیَ الرَّأْیِ وَالْمُرَادُ منہ قلۃ ما لہم وقلۃ جاہہم ودناء ۃ حرفہم وصناعتہم ہذا أَیْضًا جَہْلٌ، لِأَنَّ الرِّفْعَۃَ فِی الدِّینِ لَا تَکُونُ بِالْحَسَبِ وَالْمَالِ وَالْمَنَاصِبِ الْعَالِیَۃِ، بَلِ الْفَقْرُ أَہْوَنُ عَلَی الدِّینِ مِنَ الْغِنَی، بَلْ نَقُولُ:الْأَنْبِیَاء ُ مَا بُعِثُوا إِلَّا لِتَرْکِ الدُّنْیَا وَالْإِقْبَالِ عَلَی الْآخِرَۃِ فَکَیْفَ تُجْعَلُ قِلَّۃُ الْمَالِ فِی الدُّنْیَا طَعْنًا فِی النُّبُوَّۃِ وَالرِّسَالَۃِ.

ترجمہ :امام فخرالدین الرازی المتوفی: ۶۰۶ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ اس سے مراد حضرت سیدنانوح علیہ السلام کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اموال کی قلت ، ان کی مناصب کی قلت اوران کی صنعت وحرفت کاگھٹیاپن ہے لیکن یہ بھی حالت ہے کیونکہ دین میں رفعت خاندانوں اوراموال اوربلندمناصب سے نہیں ہوتی بلکہ فقردین میں غناسے اعلی ہوتاہے بلکہ ہم کہتے ہیں کہ حضرات انبیاء کرام علیہم السلام کو صرف اس لئے بھیجاگیاکہ وہ دنیاکوترک اورآخرت کی جانب متوجہ کریں تودنیامیں قلت مال کونبوت ورسالت پرطعن کیسے کیاجاسکتاہے ؟
( التفسیر الکبیر:أبو عبد اللہ محمد بن عمر بن الحسن بن الحسین التیمی الرازی(۱۷:۳۳۷)

اہل دین کامذاق اڑانے والے لبرل وسیکولر ذلیل ہوجائیں گے

وفی الآیۃ اشارۃ الی ان اہل النفس وتابعی ہواہا یستہزئون بمن یستعمل ارکان الشریعۃ الظاہرۃ ویضحکون منہم فی اتعابہم بہا نفوسہم إذ ہم بمعزل عن اسرارہا وأنوارہا فان سخروا منہم بجہلہم لفائدۃ ہذہ السفینۃ فسوف یسخر بہم من رکبہا إذ نجوا وہلکوا۔

ترجمہ :امام اسماعیل حقی الحنفی المتوفی : ۱۱۲۷ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ اس آیت کریمہ میں اشارہ ہے نفس اورخواہشات کے پجاری شریعت پرعمل کرنے والے اہل دین کامذاق اڑاتے ہیں اورکہتے ہیں کہ یہ لوگ خواہ مخواہ اپنے آپ کو دکھ اورتکلیف میں ڈال رہے ہیں ، اہل دین کامذاق اڑانے والوں کو اہل دین کے اسرارورموزکی کیاخبراوران کے انوار کاان کو کیاعلم ؟ اگریہ لوگ اپنی جہالت سے شریعت کی کشتی پرسوارہونے کی وجہ سے ہنستے ہیں توایک مدت کے بعد یہی اہل دین ان مذاق اڑانے والوں پرہنسیں گے جوبوجہ جہالت اہل دین کامذاق اڑایاکرتے تھے ، وہ تباہ وبربادہوجائیں گے اورآج جن کامذاق اڑایاجاتاہے وہ فلاح پاجائیں گے ۔ ان شاء اللہ تعالی ۔
(روح البیان:إسماعیل حقی بن مصطفی الإستانبولی الحنفی الخلوتی المولی أبو الفداء (۴:۱۲۳)

حق کوسب سے پہلے غریب لوگوں نے تسلیم کیاہے

ہَذَا اعْتِرَاضُ الْکَافِرِینَ عَلَی نُوحٍ عَلَیْہِ السلام وأتباعہ وہو دَلِیلٌ عَلَی جَہْلِہِمْ وَقِلَّۃِ عِلْمِہِمْ وَعَقْلِہِمْ فَإِنَّہُ لَیْسَ بِعَارٍ عَلَی الْحَقِّ رَذَالَۃُ مَنِ اتَّبَعَہُ، فإن الحق فی نفسہ صحیح سواء اتَّبَعَہُ الْأَشْرَافُ أَوِ الْأَرَاذِلُ بَلِ الْحَقُّ الَّذِی لَا شَکَّ فِیہِ أَنَّ أَتْبَاعَ الْحَقِّ ہُمُ الْأَشْرَافُ وَلَوْ کَانُوا فَقُرَّاء َ وَالَّذِینَ یَأْبَوْنَہُ ہُمُ الْأَرَاذِلُ وَلَوْ کَانُوا أَغْنِیَاء َ ثُمَّ الْوَاقِعُ غَالِبًا أَنَّ مَا یَتَّبِعُ الْحَقَّ ضُعَفَاء ُ النَّاسِ، وَالْغَالِبُ عَلَی الْأَشْرَافِ وَالْکُبَرَاء ِ مُخَالَفَتُہُ ۔
ترجمہ :حافظ ابن کثیرالمتوفی: ۷۷۴ھ)رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ ان گستاخوں کے پاگل پن کودیکھیںکہ اگرحق کو قبول کرنے والے نچلے طبقہ کے لوگ ہیں توکیااس سے حق کی شان کم ہوگئی ہے ؟ حق توحق ہی ہے خواہ اس کے ماننے والے بڑے لوگ ہوں خواہ چھوٹے لوگ ہوں۔ بلکہ حق یہ ہے کہ حق کو قبول کرنے والے شریف اورعزت دارلوگ ہوتے ہیں اورحق سے انکاری کمینے اورگھٹیالوگ ہوتے ہیں چاہے وہ امیرکبیرہی کیوں نہ ہوں۔ اورحق سے روگردانی کرنے والے ذلیل ہوتے ہیں گوکہ امیرامراء ہوں ۔ ہاں یہ امر واقع ہے کہ جب حق اس دنیامیں ظاہرہواتواس کے قبول کرنے میں سب سے پہلے غریب ہی آگے بڑھے ہیں اورامیرکبیرلوگ ناک بھوں چڑھانے لگتے ہیں۔
(تفسیر ابن کثیر:أبو الفداء إسماعیل بن عمر بن کثیر القرشی البصری ثم الدمشقی (۴:۲۷۴)

امیرزادے یہ حدیث شریف باربارپڑھیں

عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ،قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:لَا تَحَاسَدُوا، وَلَا تَنَاجَشُوا، وَلَا تَبَاغَضُوا، وَلَا تَدَابَرُوا، وَلَا یَبِعْ بَعْضُکُمْ عَلَی بَیْعِ بَعْضٍ، وَکُونُوا عِبَادَ اللہِ إِخْوَانًا الْمُسْلِمُ أَخُو الْمُسْلِمِ، لَا یَظْلِمُہُ وَلَا یَخْذُلُہُ، وَلَا یَحْقِرُہُ التَّقْوَی ہَاہُنَا وَیُشِیرُ إِلَی صَدْرِہِ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ بِحَسْبِ امْرِئٍ مِنَ الشَّرِّ أَنْ یَحْقِرَ أَخَاہُ الْمُسْلِمَ، کُلُّ الْمُسْلِمِ عَلَی الْمُسْلِمِ حَرَامٌ، دَمُہُ، وَمَالُہُ، وَعِرْضُہُ۔

ترجمہ :حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضورتاجدارختم نبوتﷺنے فرمایا: ہر مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے۔ اس پر کوئی ظلم وزیادتی نہ کرے او راس کو بے مدد کے نہ چھوڑے او راس کو حقیر نہ جانے او رنہ اس کے ساتھ حقارت کا برتاؤ کرے (کیا خبر کہ اس کے دل میں تقویٰ ہو جس کی وجہ سے وہ اللہ کے نزدیک مقرب ومکرم ہو )۔ پھر آپ ﷺنے تین بار اپنے سینے کی طرف اشارہ فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ تقویٰ یہاں ہوتا ہے (ہو سکتا ہے کہ تم کسی کو ظاہری حال سے معمولی آدمی سمجھتے ہو اور اپنے دل کے تقویٰ کی وجہ سے وہ اللہ تعالی کے نزدیک محترم ہو، اس لیے کبھی مسلمان کو حقیر نہ سمجھو)آدمی کے بُرا ہونے کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو حقیر سمجھے اوراس کے ساتھ حقارت سے پیش آئے۔ مسلمان کی ہر چیز دوسرے مسلمان کے لیے قابلِ احترام ہے ۔ اس کا خون، اس کا مال او راس کی آبرو (اس لیے ناحق اس کا خون گرانا، اس کا مال لینا او راس کی آبروریزی کرنا یہ)سب حرام ہیں۔
(صحیح مسلم: مسلم بن الحجاج أبو الحسن القشیری النیسابوری (۴:۱۹۸۶)

اسلام کی غربت کادور

عَنْ مُجَاہِدٍ، قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:إِنَّ الْإِسْلَامَ بَدَأَ غَرِیبًا وَسَیَعُودُ غَرِیبًا، فَطُوبَی لِلْغُرَبَاء ِ بَیْنَ یَدَیِ السَّاعَۃِ۔
ترجمہ :حضرت سیدنامجاہدارضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضورتاجدارختم نبوتﷺنے فرمایا: اسلام اپنے آغاز میں اجنبی تھا اور عنقریب وہ اجنبی ہو جائے گاجیسا کہ آغاز میں تھاتو مبارک باد اور تہنیت ہے ان کے لیے جو خود غریب ہو جائیںیعنی جب اسلام غریب ہو جائے تو آپ اس کے دامن کے ساتھ چمٹے رہیں۔
کتاب الفتن:أبو عبد اللہ نعیم بن حماد بن معاویۃ بن الحارث الخزاعی المروزی (ا:۱۸۹)مکتبۃ التوحید القاہرۃ
بہت بڑی حقیقت ہے جس کی طرف حضورتاجدارختم نبوتﷺنے اشارہ کیا ہے.یہ کب ہوگا اس بارے میں سمجھ لیجیے حرف{سَ} عربی میں مستقبل قریب کے لیے آتا ہے اور مستقل بعید کے لیے{ سَوْفَ }آتا ہے.جیسے قرآن مجیدمیں کئی مقامات پر آیا ہے: {سَوْفَ تَعْلَمُوْنَ }کہ ابھی تو تمہاری آنکھوں پر پردے پڑے ہوئے ہیںلیکن ایک وقت آئے گا کہ تمہاری آنکھوں سے پردے اُٹھ جائیں گے اور حقیقت تمہارے سامنے منکشف ہو جائے گی اُس وقت کے آنے میں ابھی کچھ وقت باقی ہے اور تمہارے پاس کچھ مہلت موجودہے لیکن سین (سَ)مستقبل قریب کے لیے آتا ہے اور آپﷺنے فرمایا:{وَسَیَعُوْدُ کَمَا بَدَاَ }کہ عنقریب اسلام دوبارہ اجنبی ہو جائے گا ایسے ہی جیسے کہ پہلے تھا،یہ بڑی عظیم تاریخی حقیقت ہے ۔پھرآہستہ آہستہ اسلام زوال پذیر ہوا اور آج تک زوال پذیر ہے ۔

{فَطُوْبَی لِلْغُرَبَاء ِ }اس حدیث کے آخر میںحضورتاجدارختم نبوتﷺنے دین کی اجنبیت کے دور میں دین سے چمٹے رہنے والوں کو مبارک باد بھی دی ہے:{فَطُوْبَی لِلْغُرَبَائِ }تو مبارک باد اور تہنیت ہے ان کے لیے جو خود غریب ہو جائیںیعنی جب اسلام غریب ہو جائے تو آپ اس کے دامن کے ساتھ چمٹے رہیںچاہے دنیا کہے کہ اگلے وقتوں کے ہیں یہ لوگ انہیں کچھ نہ کہو! ان کی کوئی حیثیت نہیں۔یہ اس دور میں پردے کی بات کرتے ہیں ان کا دماغ خراب ہوگیاہے،یہ اس دورمیں جہاد کی بات کرتے ہیں،یہ اس دورمیں قرآن کریم کے احکامات کونافذ کرنے کی بات کرتے ہیں، یہ اس دورمیں اسلامی نظام خلافت کے نفاذ کی بات کرتے ہیں۔اس اعتبار سے اگر لوگ آپ سے نفرت بھی رکھیں تو اس کی پروا نہ کریں،ایسی صورتِ حال میں آپ بالکل اجنبی ہو جائیں اس لیے کہ ہمیں اجنبی رہنے کے اندر ہی عافیت نظر آتی ہے اور ہم کسی صورت زمانے کا ساتھ نہیں دیں گے۔اب ایسی صورتِ حال میں کسی بھی معاشرے کے اندر زندگی گزارنے کے دو انداز ہیں،ایک یہ کہ’’ زمانہ با تونسازد توبازمانہ بساز‘‘ یعنی اگر زمانہ تمہارے ساتھ ہم آہنگی اختیار نہیں کرتا تو تم زمانے کے رنگ میں رنگے جائوگویا چلو تم اُدھر کو ہوا ہو جدھر کی! اور دوسرا راستہ یہ ہے کہ زمانہ باتونسازدتو بازمانہ ستیز! کہ اگرزمانہ تمہارے ساتھ ہم آہنگی نہیں کر رہا تو تم زمانے کے ساتھ لڑوزمانے کے خلاف جنگ کرو!

اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ اسلام شروع میں ایک اجنبی کی حیثیت رکھتا تھا جب حضورتاجدارختم نبوتﷺنے لوگوں کو اس کی طرف دعوت دی تو اس کو کوئی شخص قبول نہیںکرتا تھا اس وقت یہ اجنبی تھا کیونکہ اس کے ماننے والے اجنبی بن کے رہ گئے تھے۔ ان کی تعداد بھی کم تھی اور قوت بھی جب کہ مخالفین تعداد میںزیادہ قوت میں برتر اور مسلمانوں پرمسلط تھے حتیٰ کہ بعض حضرات نے اپنے دین کو فتنوں سے بچانے اور خود ظلم واستبداد اور تکلیف وتشدد سے بچنے کیلئے حبشہ کی طرف ہجرت کر لی۔ خود حضورتاجدارختم نبوتﷺنے بہت تکلیفیں برداشت کیں اور آخر کار اللہ تعالی کے حکم سے مدینہ کی طرف ہجرت فرماگئے۔ حضورتاجدارختم نبوتﷺنے اس امید پر وطن چھوڑا تھا کہ اللہ تعالیٰ دعوت کے کام میں آپﷺکی تائید کرنے والے اور اسلام کی نصرت کے لئے آپ ﷺکا ساتھ دینے والے افراد مہیا فرمائے گا۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کی تمنا پوری کی آپﷺ کی مدد فرمائی اور آپ ﷺکے لشکر کو قوت بخشی اس طرح اسلام کی سلطنت قائم ہوگئی۔ اللہ تعالیٰ نے کفر کی بات پست اور اپنے دین کی بات بلند فرمادی اور اللہ تعالیٰ غالب ہے حکمت والا ہے اور غلبہ وعزت وشوکت اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے۔ اس کے رسول کریمﷺ اور مومن ہی اس کے مستحق ہیں۔ یہ معاملہ ایک عرصہ تک اسی انداز میں قائم رہا حتیٰ کہ مسلمانوں میں اختلاف اور ضعف پیدا ہونے لگا ہوتے ہوتے نوبت یہاں تک پہنچی کہ اسلام دوبارہ اجنبی بن کر رہ گیا جس طرح شروع میں اجنبی تھا۔ لیکن اس دفعہ اس کی وجہ ان کی تعداد کی کمی نہیں تھی۔ تعداد کے لحاظ سے وہ بہت زیادہ تھے لیکن اس کی وجہ یہ بنی کہ وہ اپنے دین پر مضبوطی سے قائم نہ رہے اپنے رب کی کتاب سے ان کا تعلق کمزور ہوگیا اور وہ حضورتاجدارختم نبوتﷺکے اسوئہ حسنہ پر عمل پیرا نہ رہے۔ إلّا ماشاء اللہ۔ وہ اپنی اپنی ذات کی طرف متوجہ ہوگئے اور ان کا مطمح نظر صرف دنیا بن گئی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ وہ بھی سابقہ امتو ںکی طرح دنیا پرستی کی دوڑ میں مشغول ہوگئے ظاہری دولت اور مناصب کی وجہ سے ایک دوسرے کی جان کے دشمن بن گئے۔ چنانچہ اسلام کے دشمنوں کو دخل اندازی کا موقع مل گیا انہوں نے مسلمانوں کے علاقوں پر قبضہ کیا اور انہیں اپنا غلام بنا لیا۔ انہیں ذلیل کیا اور ہر طرح کی اذیتیں دیں۔ یہ اسلام کی وہ اجنبیت ہے جو دوبارہ پیش آگئی ہے جس طرح ابتدائی دور میں تھی۔

بعض علماء کی رائے ہے کہ اس حدیث میں اسلام کی دوسری اجنبیت کے بعد پھر اسلام کی فتوحات کی بشارت موجود ہے کیونکہ اس حدیث میں یہ تشبیہ ہے کہ وہ اجنبی ہوجائے گا جس طرح ابتداء میں تھا۔ یعنی جس طرح پہلی غربت (اجنبیت)کے بعد مسلمانوں کو عزت اور اسلام کو وسعت حاصل ہوئی تھی دوسری غربت کے بعد بھی اسی طرح مسلمانوں کو عزت اور اسلام کو وسعت حاصل ہوگی۔اوراس فتح اورغلبہ کے لئے اب اہل اسلام کوکام کرنے کی ضرورت ہے ۔

معارف ومسائل

(۱) حضرت سیدنانوح علیہ السلام کی قوم کے امیرزادوں نے کہاکہ اے نوح !جن لوگوں نے آپ کی پیروی کی ہے وہ ہم میں سب سے بڑھ کرذلیل ہیں، پھروہ لوگ جوآپ کے ساتھ جڑگئے ہیں وہ بھی کوئی سوچ سمجھ کرساتھ نہیں لگے بلکہ یونہی بے سوچے سمجھے ساتھ ہوگئے ہیں ، دراصل یہ مسلمان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم غریب لوگ تھے ، ان کے پاس دنیاوی مال وجاہ کچھ بھی نہ تھا، اس لئے وڈیروں نے ان کو گھٹیاکہا، یہ بات ہرزمانے کے دین دشمن کافراورگستاخ لوگ کہاکرتے ہیں ، صرف نوح علیہ السلام کی قوم کی شرارت نہیں بلکہ مکہ مکرمہ کے مشرکین کابھی یہی اعتراض تھااورآج بھی بلکہ قیامت تک یہ سلسلہ چلتارہے گاکہ دیندارمخلص طبقہ مالداروں اورسرداروں کی نظرمیں ہلکے اورخفیف شمارہوتے ہیںمگراصل میں یہی لوگ اللہ تعالی اورحضورتاجدارختم نبوتﷺکے نزدیک مقرب اورحقیقی مسلمان کہلائیں گے۔
(۲) اس سے یہ معلوم ہوگیاکہ اہل دین پرطعن وتشنیع کرناکافروں کاپراناوطیرہ ہے ۔
(۳) ا س سے یہ بھی معلوم ہواکہ حضورتاجدارختم نبوتﷺکے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے خلاف بھونکنے والاخبیث وذلیل اورارزل ہوتاہے اورکوئی بھی خاندانی اورشریف شخص یہ غلیظ حرکت نہیں کرسکتا۔
(۴) اس سے یہ بھی معلوم ہواکہ دین کے مخلص لوگ ہمیشہ غریب ہی ہوتے ہیں کیونکہ امیرزادوں کو تودین اوراہل دین پرطعن کرنے سے فرصت نہیں ہوتی ۔
(۵)کافروں نے کہاکہ حضرت سیدنانوح علیہ السلام ہماری طرح بشر ہیں۔ اس گمراہی میں بہت سی اُمتیں مبتلا ہو کر اسلام سے محروم رہیں ، قرآنِ پاک میں جا بجا ان کے تذکرے ہیں ، اس اُمت میں بھی بہت سے بدنصیب حضورتاجدارختم نبوتﷺ کوبے ادبی سے بشر کہتے اور ہمسری کا فاسد خیال رکھتے ہیں ، اللہ تعالیٰ انہیں گمراہی سے بچائے۔
(۶) کافروں نے کہاکہ حضرت سیدنانوح علیہ السلام کی پیروی سب سے کمینے لوگوں نے غور وفکر کے بغیر کر لی ۔ کمینوں سے مراد اُن کے وہ لوگ تھے جو اُن کی نظر میں گھٹیا پیشے رکھتے تھے اور حقیقت یہ ہے کہ اُن کا یہ قول خالصتاً جہالت پر مبنی تھا کیونکہ انسان کا حقیقی مرتبہ دین کی پیروی اور رسول کی فرمانبرداری سے ہے جبکہ مال و منصب اور پیشے کو اس میں دخل نہیں ، دیندار، نیک سیرت، پیشہ ور کو حقارت کی نظر سے دیکھنا اور حقیر جاننا جاہلانہ فعل ہے۔
(۷) ہم تمہارے لئے اپنے اوپر مال اور ریاست میں کوئی فضیلت نہیں پاتے بلکہ ہم تمہیں نبوت کے دعویٰ میں اور تمہاری پیروی کرنے والوں کو اس کی تصدیق میں جھوٹا خیال کرتے ہیں۔ان کا یہ قول بھی جہالت پر مبنی تھا کیونکہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے نزدیک بندے کے لئے ایمان و طاعت فضیلت کا سبب ہے نہ کہ مال و ریاست۔
حیرت کی بات ہے کہ یہی سابقہ جاہلیت ہمارے زمانے میں بھی پائی جاتی ہے کہ گمراہ یا فاسق لوگ عموماً مالدار ہوتے ہیں جبکہ دیندار لوگ غریب اور پھر یہی فاسق و گمراہ لوگ غریبوں کا مذاق اڑاتے ہیں۔ (تفسیرصراط الجنان( ۴:۴۲۶)
(۸)اس سے پیر صاحبان، علماء و خطباء کو بھی درس حاصل کرنا چاہیے کہ مالداروں کو اپنے قرب میں جگہ دینا، ان کی فرمائش پر فوراً ان کے گھر حاضر ہوجانا جبکہ غریبوں کو خود سے کچھ فاصلے پر رکھنا اور ان کی بار بار کی فریادوں کے باوجود بھی ان پر شفقت نہ کرنا درست نہیں اور نہ ہی ان حضرات کے شایانِ شان ہے۔ نیز مالداروں کیلئے بھی اس آیت میں عبرت ہے کہ دیندار غریبوں کو حقیر سمجھنا کفار کا طریقہ ہے جیسے غریب علماء ِ کرام، طُلبائِ دین، مُبلِّغین وغیرہ کو مالدار، سیٹھ صاحبان دو کوڑی کی عزت دینے کو تیار نہیں ہوتے ، چندہ بھی دینا ہو تو دس چکر لگوا کر دیں گے اور ماتھے پر تیوری چڑھا کر دیں گے اور دینے کے بعد انہیں اپنا نوکر سمجھیں گے۔ (تفسیرصراط الجنان( ۴:۴۲۸)

Leave a Reply