کافروں اورگستاخوں کی خوشنودی کے لئے قرآن کریم کے کسی حصے کو چھوڑانہیں جاسکتا
{فَلَعَلَّکَ تَارِکٌ بَعْضَ مَا یُوْحٰٓی اِلَیْکَ وَضَآئِقٌ بِہٖ صَدْرُکَ اَنْ یَّقُوْلُوْا لَوْلَآ اُنْزِلَ عَلَیْہِ کَنْزٌ اَوْ جَآء َ مَعَہ مَلَکٌ اِنَّمَآ اَنْتَ نَذِیْرٌ وَ اللہُ عَلٰی کُلِّ شَیْء ٍ وَّکِیْلٌ}(۱۲)
ترجمہ کنزالایمان:تو کیا جو وحی تمہاری طرف ہوتی ہے اس میں سے کچھ تم چھوڑ دو گے اور اس پر دل تنگ ہوگے اس بنا پر کہ وہ کہتے ہیں ان کے ساتھ کوئی خزانہ کیوں نہ اترا یاان کے ساتھ کوئی فرشتہ آتا تم تو ڈر سنانے والے ہو اور اللہ ہر چیز پر محافظ ہے۔
ترجمہ ضیاء الایمان:اے حبیب کریمﷺ!توکیاجوآپﷺ کی طرف وحی بھیجی جاتی ہے آپﷺ اس میں چھوڑدیں گے اوراس پرآپ ﷺکادل تنگ ہوجائے گاکہ وہ کہتے ہیں :ان کے ساتھ کوئی خزانہ کیوں نہیں اترایا ان کے ساتھ کوئی فرشتہ کیوں نہیں آتا؟
شان نزول
رُوِیَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللَّہ عَنْہُمَا أَنَّ رُؤَسَاء َ مَکَّۃَ قَالُوا:یَا مُحَمَّدُ اجْعَلْ لَنَا جِبَالَ مَکَّۃَ ذَہَبًا إِنْ کُنْتَ رَسُولًا، وَقَالَ آخَرُونَ: ائْتِنَا بِالْمَلَائِکَۃِ یَشْہَدُونَ بِنُبُوَّتِکَ فَقَالَ:لَا أَقْدِرُ عَلَی ذَلِکَ فَنَزَلَتْ ہَذِہِ الْآیَۃ۔
ترجمہ:حضرت سیدناعبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہمافرماتے ہیں کہ مکہ کے رئوساء نے حضورتاجدارختم نبوتﷺسے کہا تھا کہ اگر آپﷺ سچے رسول ہیں اور آپ ﷺکا خدا ہر چیز پر قادر ہے تو اُس نے آپﷺ پر خزانہ کیوں نہیں اُتارا یا آپﷺ کے ساتھ کوئی فرشتہ کیوں نہیں بھیجا جو آپ کی رسالت ﷺکی گواہی دیتا، اس پر یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی۔
(التفسیر الکبیر:أبو عبد اللہ محمد بن عمر بن الحسن بن الحسین التیمی الرازی (۱۷:۳۲۳)
ایک اہم شرعی مسئلہ کی وضاحت
أَجْمَعَ الْمُسْلِمُونَ عَلَی أَنَّہُ لَا یَجُوزُ عَلَی الرَّسُولِ عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَامُ أَنْ یَخُونَ فِی الْوَحْیِ وَالتَّنْزِیلِ وَأَنْ یَتْرُکَ بَعْضَ مَا یُوحَی إِلَیْہِ، لِأَنَّ تَجْوِیزَہُ یُؤَدِّی إِلَی الشَّکِّ فِی کُلِّ الشَّرَائِعِ وَالتَّکَالِیفِ وَذَلِکَ یَقْدَحُ فِی النُّبُوَّۃِ وَأَیْضًا فَالْمَقْصُودُ مِنَ الرِّسَالَۃِ تَبْلِیغُ تَکَالِیفِ اللَّہ تَعَالَی وَأَحْکَامِہِ فَإِذَا لَمْ تَحْصُلْ ہَذِہِ الْفَائِدَۃُ فَقَدْ خَرَجَتِ الرِّسَالَۃُ عَنْ أَنْ تُفِیدَ فَائِدَتَہَا الْمَطْلُوبَۃَ مِنْہَا، وَإِذَا ثبت ہذا وجب أن یکون المراد من قَوْلِہِ: فَلَعَلَّکَ تارِکٌ بَعْضَ مَا یُوحی إِلَیْکَ شَیْئًا آخَرَ سِوَی أَنَّہُ عَلَیْہِ السَّلَامُ فَعَلَ ذَلِکَ وَلِلنَّاسِ فِیہِ وُجُوہٌ: الْأَوَّلُ: لَا یَمْتَنِعُ أَنْ یَکُونَ فِی مَعْلُومِ اللَّہ تَعَالَی أَنَّہُ إنما ترک التَّقْصِیرَ فِی أَدَاء ِ الْوَحْیِ وَالتَّنْزِیلِ لِسَبَبٍ یَرِدُ علیہ من اللَّہ تعالی أمثال ہذہ التہدیدات الْبَلِیغَۃِ الثَّانِی:أَنَّہُمْ کَانُوا لَا یَعْتَقِدُونَ بِالْقُرْآنِ وَیَتَہَاوَنُونَ بِہِ، فَکَانَ یَضِیقُ صَدْرُ الرَّسُولِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنْ یُلْقِیَ إِلَیْہِمْ مَا لَا یَقْبَلُونَہُ وَیَضْحَکُونَ مِنْہُ، فَہَیَّجَہُ اللَّہ تَعَالَی لِأَدَاء ِ الرِّسَالَۃِ وَطَرْحِ الْمُبَالَاۃِ بِکَلِمَاتِہِمُ الْفَاسِدَۃِ وَتَرْکِ الِالْتِفَاتِ إِلَی اسْتِہْزَائِہِمْ، وَالْغَرَضُ مِنْہُ التَّنْبِیہُ عَلَی أَنَّہُ إِنْ أَدَّی ذَلِکَ الْوَحْیَ وَقَعَ فِی سُخْرِیَّتِہِمْ وَسَفَاہَتِہِمْ وَإِنْ لَمْ یُؤَدِّ ذَلِکَ ۔
ترجمہ :امام فخرالدین الرازی المتوفی : ۶۰۶ھ)رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں تمام مسلمانوں کا اس پر اِجماع اور اتفاق ہے کہ حضورتاجدارختم نبوتﷺ کاوحی اور تنزیل میں خیانت کرنا اور وحی کی بعض چیزوں کو ترک کر دینا ممکن نہیں ، کیونکہ ایسی چیز کاجواز تمام تعلیمات وتکالیف شریعت میں شک پیداکرتاہے اوریہ نبوت کے بارے میں بہت بڑاطعن ہوگااوردوسری بات یہ ہے کہ رسالت سے مقصود اللہ تعالی کے احکامات وتکالیف کاپہنچاناہے ، جب یہ فائدہ حاصل نہیں تورسالت اپنے مطلوب وفائدہ سے نکل جائے گی، جب یہ ثابت ہے توضروری ہے کہ ارشادربانی {فَلَعَلَّکَ تارِکٌ بَعْضَ مَا یُوحی إِلَیْک}(اے حبیب کریمﷺ!توکیاجوآپ ﷺکی طرف وحی بھیجی جاتی ہے آپﷺ اس میںسے چھوڑدیں گے اوراس پرآپ ﷺکادل تنگ ہوجائے گا)سے مراد اس کے سواکوئی اورچیز ہے جس سے آپﷺنے کیا، اس بارے میں یہ اقوال ہیں :
پہلاقول: یہ محال نہیں ہے کہ اللہ تعالی کو معلوم ہوکہ حضورتاجدارختم نبوتﷺوحی اورتنزیل کی ادائیگی میں کوتاہی کو اس سبب سے ترک کردیں گے کہ اللہ تعالی کی طرف سے اس پرایسی کامل وعیدیں واردہیں۔
دوسراقول: وہ کفارقرآن کریم پراعتقاد نہیں رکھتے اوراس کے ساتھ مذاق کرتے توحضورتاجدارختم نبوتﷺکاسینہ اقدس اس سے تنگ ہوتاکہ آپﷺانہیں ایسی چیز سناتے ہیں جسے وہ قبول نہیں کرتے اوراس پرہنستے ہیں تواللہ تعالی نے آپﷺپروحی کی ادائیگی پرتنبیہ کی اوران کی غلط باتوں کی عدم پرواہ اوران کی گستاخیوں کی طرف التفات کے ترک کرنے کاحکم دیا، اس سے غرض اس پرتنبیہ ہے کہ اگروہ یہ وحی پہنچاتے ہیں تویہ ان کو تمسخراورپاگل پن میں ڈالناہوگااوریہ وحی ان کی طرف نہیں پہنچاتے توآپﷺوحی کوترک کرنے والے بنیں گے تواب دونقصانات میں سے ایک کابرداشت کرناضروری ہے توان کی بے وقوفیوں کو برداشت کرلینااللہ تعالی کے دین میں خیانت کرنے سے بہت آسان ہے ۔
(التفسیر الکبیر:أبو عبد اللہ محمد بن عمر بن الحسن بن الحسین التیمی الرازی (۱۷:۳۲۳)
امام اسماعیل حقی رحمہ اللہ تعالی کابہترین جواب
ولا یلزم من توقع الشیء وجود ما یدعو الیہ ووقوعہ لجواز ان یکون ما یصرف عنہ وہو عصمۃ الرسل عن الخیانۃ فی الوحی والثقۃ فی التبلیغ ہاہنا واما الثانی فالمعنی اشفق علی نفسک ان تترک تبلیغ ما یوحی إلیک وہو ما یخالف رأی المشرکین مخافۃ ردہم لہ واستہزائہم وہو أوجہ من الاول۔
ترجمہ :امام اسماعیل حقی الحنفی المتوفی : ۱۱۲۷ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ اس سے کوئی یہ وہم نہ کرے واقعی حضورتاجدارختم نبوتﷺکفارکی باتوں سے اثرپذیرہوسکتے ہیں ، ایساوہم غلط اورسراسرغلط ہے ، اس لئے کہ ایسے وہ امورجوآپﷺکی عصمت کے خلاف ہوں انہیں حضورتاجدارختم نبوتﷺکی ذات اقدس سے دوررکھاجاتاہے ،تاکہ عصمت نبوت پردھبہ نہ آئے ، اگراس طرح کاامکان مان لیاجائے تونبوت سے تبلیغ کی امان اٹھ جائے گی۔اورلعل کااشفاق کامعنی ہوتواب مطلب یہ ہواکہ اے حبیب کریم ﷺ!آپ اپنے نفس سے خطرہ کیجئے کہ کفارکی باتوں سے کہیں آپ ﷺسے بعض احکامات خداوندی کی تبلیغ نہ چھوٹ جائے یعنی پہلے معنی سے اولی ہے ۔
(روح البیان:إسماعیل حقی بن مصطفی الإستانبولی الحنفی الخلوتی المولی أبو الفداء (۴:۱۰۴)
امام بیضاوی رحمہ اللہ تعالی کی طرف سے شبہ کاجواب
قال البیضاوی ولا یلزم من توقع الشیء لوجود ما یدعو الیہ وقوعہ لجواز ان یکون ما یصرف عنہ وہو عصمۃ الرسول عن الخیانۃ فی الوحی والتقیۃ فی التبلیغ ہاہناقلت وبہذا یندفع ما قیل ان لعل من اللہ واجبۃ الوقوع ۔
ترجمہ :امام البیضاوی رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ چونکہ آیت کریمہ میں لفظ لعل آیاہے جس کامعنی شایدتوقع ہے اورحضورتاجدارختم نبوتﷺکی شان کے خلاف تھاکہ کافروں کی رعایت سے وہ آیت کریمہ بیان کرنے سے رک جاتے جس میں ان کے جھوٹے معبودوں کوبراکہاگیاہے ، پھرشایداورتوقع ہے کہنے کاکیامقام تھااس لئے امام بیضاوی رحمہ اللہ تعالی نے اس شبہ کو دورکرنے کے لئے لکھاہے کہ کسی چیز کاسبب داعی اگرموجودہوتب بھی اس چیز کاوقوع ضروری نہیں ، ممکن ہے کہ داعی موجود ہونے کے باوجود بھی کوئی مانع موجودہوجس سے اس چیز کاوقوع نہ ہوسکے ، اس جگہ بھی یہی صورت ہے گوترک تبلیغ کی توقع کاسبب موجود ہے لیکن حضورتاجدارختم نبوتﷺخیانت سے پاک ہیںاورآپ ﷺسے وحی میں خیانت ممکن ہی نہیں ہے اورتبلیغ میں تقیہ حضورتاجدارختم نبوتﷺکی ذات شریفہ سے ناممکن ہے ، اس لئے ترک تبلیغ کی توقع کاوقوع نہیںہوسکتا۔ قاضی ثناء اللہ پانی پتی حنفی رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ امام بیضاوی رحمہ اللہ تعالی کی اس تقریرسے یہ شبہ دفع ہوگیاکہ اللہ تعالی کی طرف سے کسی چیز کی توقع کااظہارہوتواس چیز کاوقوع لازم ہے کیونکہ اللہ تعالی کے لئے کسی حالت کاانتظارناممکن اوردلیل عجز ہے ، اس کے لئے ہرمنشاء کاوقوع بالفعل ضروری ہے ۔
(التفسیر المظہری:المظہری، محمد ثناء اللہ(۵:۷۲)
یہ عبارت تھوڑی وضاحت سے بیان کی گئی ہے ۔
کفارکی گستاخیوں کی وجہ سے ترک تبلیغ جائز نہیں ہے
وَضائِقٌ بِہِ صَدْرُکَ الضمیر فی بہ مبہم تفسیرہ أَنْ یَقُولُوا لَوْلا ہلا أُنْزِلَ عَلَیْہِ علی محمّد کَنْزٌ ینفقہ فی الاستتباع کالملوک أَوْ جاء َ مَعَہُ مَلَکٌ یصدقہ قالہ عبد اللہ بن امیۃ المخزومی یعنی یضیق صدرک وتغتم بقولہم ہذاوجاز ان یکون المعنی لعلّک تارک بعض ما یوحی إلیک ای تترک تبلیغہ إیاہم لتہاونہم بہ وضائق بہ ای یضیق بذلک الترک صدرک فان ترک ما امر اللہ بہ یوجب ضیق الصدر کما ان إتیان ما امر اللہ بہ یوجب انشراح الصدران یقولوا ای تترک التبلیغ مخافۃ ردہم واستہزائہم بان یقولوا وضائق صدرک لاجل أَنْ یَقُولُوا لَوْلا أُنْزِلَ عَلَیْہِ کَنْزٌ أَوْ جاء َ مَعَہُ مَلَکٌ ان کان رسولا فقال اللہ تعالی إِنَّما أَنْتَ نَذِیرٌ یعنی لیس علیک الا الانذار بما یوحی إلیک ولا علیک شیء ان ردوا او اقترحوا او قالوا ایت بقرآن غیر ہذافما بالک تترک بقولہم او بمخافۃ ردہم او یضیق صدرک بقولہم وَاللَّہُ عَلی کُلِّ شَیْء ٍ وَکِیلٌ یحفظ ما یقولون فیجازیہم علیہ-
ترجمہ :{وَضائِقٌ بِہِ صَدْرُک}یعنی آپﷺکومکہ کے کافروں کی اس بات سے دلی تنگی ہوتی ہے کہ محمدﷺپرکوئی خزانہ کیوں نہیں نازل ہوا؟ کہ بادشاہوں کی طرح لوگوں کواپناتابع اورفرمانبرداربنانے میں خرچ کرتایااس کے ساتھ کوئی مخصوص فرشتہ کیوں نہیں آیا؟ جو اس کی تصدیق کرتا، حاصل یہ ہے کہ ان کے اس قول سے آپﷺکبیدہ خاطراورملول ہوتے ہیں ۔ عبداللہ بن امیہ مخزومی نے یہ بات کی تھی ۔ آپﷺ کایہ مطلب بھی ہوسکتاہے کہ چونکہ مشرک اللہ تعالی کی وحی کی کوئی قدرنہیں کرتے اس لئے آپﷺشایدوحی کے بعض حصوں کی تبلیغ ترک کردیں مگراللہ تعالی کے حکم کو ترک کرنے سے آپﷺکادل تنگ ہوتاہے ، ترک امرالہی موجب ہے دل کے تنگ ہونے کااوراللہ تعالی کے حکم شریف کو پوراکرناانشراح صدرکاموجب ہے ۔ اورترک تبلیغ کاباعث یہ ہوکہ یہ لوگ آپﷺکے فرمان شریف کی ہنسی اڑاتے ہیں ، آپ ﷺکواندیشہ ہے کہ یہ اللہ تعالی کی آیات کریمہ کامذاق اڑائیں گے اوراللہ تعالی کی بھیجی ہوئی وحی کوردکردیں گے اوران کی اس بات سے آپﷺکوکبیدگی خاطرہوتی ہے کہ وہ کہتے ہیں (ان پرکوئی خزانہ کیوں نہیں اتاراجاتااورتصدیق کرنے والافرشتہ ان کے ساتھ کیوں نہیں ہوتا۔{ إِنَّما أَنْتَ نَذِیرٌ }آپﷺتوصرف ڈرانے والے ہیں ، آیات عذاب پیش کرنے والے ہیں، وہ ردکردیں ، نامانیں یاسوائے اس قرآن کریم کے کسی دوسرے قرآن کے طلب گارہوںآپﷺپرکوئی حرج نہیں ہے ، پھرکوئی وجہ نہیں ہے کہ آپﷺان کی گستاخیوں اورردکر دینے کے خوف سے تبلیغ وحی ترک کردیں،یاان کے اس قول سے کبیدہ خاطرہوں۔
(التفسیر المظہری:المظہری، محمد ثناء اللہ(۵:۷۲)
معارف ومسائل
(۱)کیونکہ اگر یہ بات ممکن مانیں تو اس طرح ساری شریعت ہی مشکوک ہو جائے گی اور نبوت میں طعن لازم آئے گا، نیز رسالت سے اصل مقصود ہی یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے تمام احکام بندوں تک پہنچا دیئے جائیں اور جب ایسا نہ ہو تو رسالت سے جو فائدہ مطلوب تھا وہ حاصل ہی نہ ہو گا، اس لئے اس آیت کا ظاہری معنی مراد نہیں ہے بلکہ اس آیت سے مقصود یہ بتانا ہے کہ اگر آپﷺساری وحی کی تبلیغ کریں گے تو کفار کی طرف سے طعن و تشنیع اور مذاق اڑانے کا خدشہ ہے اور اگر آپﷺبتوں کی مذمت والی آیات نہ بیان کریں گے تو کفار آپﷺکا مذاق تو نہ اُڑائیں گے لیکن اس طرح وحی میں خیانت لازم آئے گی اور جب دو خرابیوں میں سے ایک خرابی لازم ہو تو اس وقت بڑی خرابی کو ترک کر کے چھوٹی خرابی کو برداشت کر لینا چاہئے اور چونکہ وحی میں خیانت کرنے کے مقابلے میں کفار کے طعن و تشنیع کو برداشت کرلینا زیادہ آسان ہے اس لئے آپﷺوحی میں خیانت کی خرابی سے دور رہتے ہوئے کفار کے طعن و تشنیع کی خرابی کو برداشت کرلیں۔
(۲)اللہ تعالی نے اس آیت کریمہ میں اپنے حبیب کریم ﷺکو فرمایاکہ آپﷺلوگوںکے طعن وتشنیع سے کبیدہ خاطرنہ ہوںاورنہ ہی اپنے سینہ اقدس پرکوئی بوجھ محسوس کریں ، آپﷺکاکام انذرہے ، آپﷺاپنے کام میں ہرلمحہ مشغول رہیں اورفرض منصبی میں سستی نہ کریں، یہ کبھی کہتے ہیں کہ یہ بشرکیوں ہیں؟ اگریہ رسول ہیں توپھرکھانے پینے کے محتاج کیوں ہیں؟ بازاروں میں کیوں آتے جاتے ہیں؟ ان کی تائیدکے لئے کیوں فرشتے نہیں اترتے ؟ ان کو خزانے کیوںنہیں ملے؟ ان کے کھانے کے لئے کسی خاص باغ کاانتظام کیوں نہیں ہے ؟ آپﷺکوساحر، مسحور، مجنون وغیرہ سب کچھ کہاگیاجتنے منہ اتنی باتیں۔ اللہ تعالی نے اس آیت کریمہ میں اپنے حبیب کریم ﷺکوتسلی دی کہ آپﷺبے فکرہی رہیں ، آپﷺپریشان نہ ہوں۔ آزردہ دل نہ ہوں ، اپنے کام میں مشغول رہیں ، آپﷺاپنے رب کریم عزوجل کی حفاظت میں ہیں اوراس کی تائیدمیں ہیں، آپﷺکادین کرہ ارض پرپھیل کرچمکے گا، فتح ونصرت آپﷺکے قدمین شریفین کی زیارت اورقدم بوسی کے لئے منتظرہے۔{اِنَّ شَانِئَکَ ہُوَ الْاَبْتَر }آپﷺکے دشمنوں اورگستاخوں کے مقدرمیں سوائے ذلت ورسوائی کے کچھ بھی نہیں ہے ۔ آپﷺ{وَ رَفَعْنَا لَکَ ذِکْرَکَ }کے علمدارتوہیں۔ {فَاصْبِرْ کَمَا صَبَرَ اُولُوا الْعَزْمِ مِنَ الرُّسُلِ }آپﷺاپنے پہلے رسل کرام علیہم السلام کودیکھیں سب کو جھوٹاکہاگیااوران پرظلم کیاگیا، طرح طرح کی پریشانیوں میں مبتلاء ہوئے مگرصابررہے ، ثابت قدم رہے ، آپﷺان سب کے سالاراورامام ہیں ۔ توفرمایاکہ {فَلَعَلَّکَ تارِکٌ بَعْضَ مَا یُوحی إِلَیْک}(اے حبیب کریمﷺ!توکیاجوآپ ﷺکی طرف وحی بھیجی جاتی ہے آپﷺ اس میںسے چھوڑدیں گے اوراس پرآپ ﷺکادل تنگ ہوجائے گا)آپﷺتنگدلی کی وجہ سے بعض ان چیزوں کو چھوڑتونہ بیٹھیں گے جوآپﷺکی طرف وحی کی گئی ہیں اوروہ کافروں کوناگوارہیں ، اورچونکہ آپﷺان کافروں کو شتربے مہارکی طرح چھوڑ کرکبھی ایسانہیں کرسکتے ، لھذاتنگ دل ہونے کی ضرورت نہیں ، کیونکہ { إِنَّما أَنْتَ نَذِیرٌ }آپﷺتوصرف ڈرانے والے ہیں۔ اگریہ لوگ ایمان نہ لائیں توآپﷺکی کوئی ذمہ داری نہیں ، آپﷺنے اللہ تعالی کاحکم پہنچادیا، آپﷺکی ذمہ داری پوری ہوگئی ۔
(۳)آج مسلمانوں پرزوردیاجارہاہے کہ قرآن کریم سے جہاد کی آیات کریمہ کو نکال دیں ، مگرایساکرناناجائز ہے اورنہ ہی ممکن ہے ، یہ بھی معلوم ہواکہ قرآن کریم کے کسی حصے کو اپنی طرف سے منسوخ قراردینے والاشخص دائرہ اسلام سے خارج ہے ۔جب حضورتاجدارختم نبوتﷺاللہ تعالی کے حکم کے بغیرقرآن کریم کے کسی حصے کو ترک نہیں کرسکتے توآپﷺکے بعد کسی شخص کو ایسی جرات کیسے ہوسکتی ہے مگرمرزادجال لعنتی نے یہ جرات کی اورکہاکہ اس کے آنے سے جہا دکی تمام آیات منسوخ ہوگئی ہیں ، مجھے مسیح موعود ماننے والے کوروز اول سے یہ عقیدہ رکھناپڑتاہے کہ اب جہاد قطعاًحرام ہے کیونکہ مسیح آچکاہے۔
(۴)اسی طرح آجکل کے پاکستان حکمرانوں میں مرزے دجال کے کئی روحانی فرزندپیداہوچکے ہیں جوآئے دن دین متین پرحملے اورختم نبوت پرحملے کررہے ہیں اوران کی بھی یہی خواہش ہے کہ قرآن کریم کے احکامات میں تبدیلی ہواوراس میں تنسیخ ہونی چاہئے کیونکہ جس طرح مرزادجال انگریز کاخودکاشتہ پوداتھااسی طرح یہ حکمران اورلبرل وسیکولرانگریزی فیکٹری کے تیارکردہ پرزے ہیں اس لئے جو فکراس کی تھی وہی فکران کی ہے ۔