تفسیرسورۃھود آیت ۱۱۳۔ وَلَا تَرْکَنُوْٓا اِلَی الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا فَتَمَسَّکُمُ النَّارُ وَمَا لَکُمْ مِّنْ دُوْنِ اللہِ مِنْ اَوْلِیَآء

ظالم حکمرانوں سے قلبی میلان رکھنااوران سے تعلق جوڑنااوران کی حمایت کرناسخت حرام ہے

{وَلَا تَرْکَنُوْٓا اِلَی الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا فَتَمَسَّکُمُ النَّارُ وَمَا لَکُمْ مِّنْ دُوْنِ اللہِ مِنْ اَوْلِیَآء َ ثُمَّ لَا تُنْصَرُوْنَ}(۱۱۳)

ترجمہ کنزالایمان:اور ظالموں کی طرف نہ جھکو کہ تمہیں آگ چھوئے گی اور اللہ کے سوا تمہارا کوئی حما یتی نہیں پھر مدد نہ پاؤ گے۔

ترجمہ ضیاء الایمان:اور ظالموں کی طرف نہ جھکوورنہ تمہیں بھی جہنم پکڑلے گی اور اللہ تعالی کے سوا تمہارا کوئی حما یتی نہیںپھر تمہاری مدد نہیں کی جائے گی۔

دین دشمنوں کی طرف قلبی میلان رکھنابھی حرام ہے

امام احمدرضاحنفی الماتریدی رحمہ اللہ تعالی کے فرمان شریف کا خلاصہ ہے کہ مگر طبعی میلان جیسے ماں باپ، اولاد یا خوبصورت بیوی کی طرف ہوتا ہے، اس کی جو صورت غیر اختیاری ہو وہ اس حکم کے تحت داخل نہیں ، پھر بھی اس تصور سے کہ یہ اللہ تعالی اور رسول کریمﷺ کے دشمن ہیں ان سے دوستی حرام ہے اور اپنی قدرت کے مطابق اُسے دبانا یہاں تک کہ بن پڑے تو فنا کردینا لازم ہے ۔ (میلان کا)آنا بے اختیار تھا اور (اس کا)جانا یعنی اسے زائل کرنا قدرت میں ہے تو (اس میلان کو)رکھنا اختیار موالات ہوا اور یہ حرام قطعی ہے ، اسی وجہ سے جس غیر اختیاری (میلان)کے مبادی (یعنی ابتدائی افعال)اس نے بااختیار پیدا کئے تو اس میں معذورنہ ہوگا، جیسے شراب کہ اس سے عقل زائل ہوجانا اس کا اختیاری نہیں مگر جبکہ اختیار سے پی تو عقل کا زائل ہو جانا اور اس پر جو کچھ مرتب ہو سب اسی کے اختیار سے ہوا۔
(فتاوی رضویہ لامام احمدرضاحنفی ( ۱۴:۴۶۵)
ایک ظالم حکمران کاکنویںمیں گرنا
کرازی بچاہ اندر افتادہ بود

کہ از ہول او شیر نر ماندہ بود
بد اندیش مردم بجز بد ندید

بیفتاد وعاجز تر از خود ندید
ہمہ شب ز فریاد وزاری نخفت

یکی بر سرش کوفت سنگی وگفت
تو ہرگز رسیدی بفریاد کس

کہ میخواہی امروز فریادرس
کہ بر ریش جانت نہد مرہمی

کہ دلہا ز دردت بنالدہمی
تو ما را ہمی چاہ کندی براہ

بسر لا جرم در فتادی بچاہ
اگر بد کنی چشم نیکی مدار

کہ ہرگز نیارد کژ انگور بار

ترجمہ :حضرت سیدناشیخ سعدی رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ ایک ظالم حکمران کنویں میں گرپڑا، وہ ایساظالم تھاکہ شیربھی اس سے کانپتاتھا، ظالم کاانجام بہت براہے ، جب کنویں میں گراتواپنے سے عاجزترکسی کو نہ دیکھا، ساری رات روتارہااوراسے نیندتک نہیں آئی ، کسی نے اس کے سرپرپتھردے مارا، اورکہاکہ تم نے کبھی کسی کی مددنہیں کی ، آج کس سے فریادکررہاہے ؟ تاکہ کوئی تیرے زخموں کی مرہم پٹی کرے توتیرے سے ہزاروں دل دکھی ہیں اوررورہے ہیں۔ توہمارے لئے کنواں کھودتاتھابالآخرتوہی اس میں جاگرا، برائی کرکے نیکی کی امیدمت رکھوکیونکہ کیکرکے درخت سے انگورکاپھل نہیں ملتا۔
(بوستان سعدی ازسیدناشیخ سعدی شیرازی :۳۲)

خلق خداپرظلم کرنے والاموذی ہے

وعلی اللہ حیث یخرب بنیان اللہ ویغیرہ ویفسدہ ولانہ إذا ظلم غیرہ وآذاہ فقد ظلم علی اللہ ورسولہ وآذاہ. والدلیل علیہ قولہ علیہ السلام (انا من اللہ والمؤمنون منی فمن آذی مؤمنا فقد آذانی ومن آذانی فقد آذی اللہ تعالی۔

ترجمہ:امام اسماعیل حقی الحنفی المتوفی : ۱۱۲۷ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ جوشخص اللہ تعالی کے تعمیرکردہ بنیادکوبربادکرتاہے اللہ تعالی اسے جڑسے کاٹ دیتاہے ، اس لئے کہ جو شخص اس کے بندوں پرظلم کرتاہے وہ درحقیقت اللہ تعالی اوراس کے حبیب کریمﷺکو ایذپہنچاتاہے جیساکہ حدیث شریف میں ہے کہ حضورتاجدارختم نبوتﷺنے فرمایا: میں اللہ تعالی سے ہوں اورمومنین میرے سے ہیں ، جو مومن کو ایذادیتاہے وہ مجھے ایذاپہنچاتاہے اورجومجھے ایذاپہنچاتاہے وہ اللہ تعالی کوایذاپہنچاتاہے۔
(روح البیان:إسماعیل حقی بن مصطفی الإستانبولی الحنفی الخلوتی المولی أبو الفداء (۴:۱۹۶)

ظالم کی طرف دیکھنا،اس کی حمایت کرنابھی ظلم ہے

ودخل فی الرکون الی الظالمین المداہنۃ والرضی بأقوالہم وأعمالہم ومحبۃ مصاحبتہم ومعاشرتہم ومد العین الی زہرتہم الفانیۃ وغبطتہم فیما أوتوا من القطوف الدانیۃ والدعاء لہم بالبقاء وتعظیم ذکرہم وإصلاح دواتہم وقلمہم ودفع القلم او الکاغذ الی أیدیہم والمشی خلفہم والتزیی بزیہم والتشبہ بہم وخیاطۃ ثیابہم وحلق رؤسہم وقد امتنع بعض السلف عن رد جواب الظلمۃ فی السلام وقد سئل سفیان عن ظالم اشرف علی الہلاک فی بریۃ ہل یسقی شربۃ ماء فقال لا فقیل لہ یموت فقال دعہ فانہ اعانۃ للظالم وقال غیرہ یسقی الی ان یثوب الی نفسہ ثم یعرض عنہ۔

ترجمہ :امام اسماعیل حقی الحنفی المتوفی : ۱۱۲۷ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ ظالموں کے اقوال افعال اوراعمال سے راضی ہونااوران سے چشم پوشی کرنابھی اسی آیت کریمہ کے حکم میں داخل ہے بلکہ ان کے ساتھ دوستی اورتعلق کی خواہش رکھنااوران کی معاشرت کو بہترسمجھنابلکہ ان کے ٹھاٹھ باٹھ پررشک کرکے ان کی طرف رضاورغبت سے آنکھ اٹھاکردیکھنااورسمجھناکہ یہ توبڑے مزے کررہے ہیں اورنہایت عیش وعشرت کی زندگی بسرکررہے ہیں بلکہ ان کے عہدے کی ترقی کے لئے دعائیں کرنااورتعظیم وتکریم سے انہیں یادکرنااوران کے معاملات میں ان کے ساتھ تعاون کرنایہاں تک کہ ان کے لئے کاغذ وقلم اوردیگراشیاء ضروریہ تیارکرکے ان کو دینااوران کے عہدوں سے خطرہ کے سبب ان کے پیچھے چلنااوران کے طرزطریق کو لباس وخوراک اورمعاشرت وغیرہ کو اپنانااوران کی مشابہت اورمشاکلت اختیارکرنااوران کے لئے لباس تیارکرنااوران کی خدمات بجالانایہاں تک کہ ان کی حجامت بنانااورغسل کرنے کے لئے پانی دیناتمام اس آیت کریمہ کے حکم میں ہیں۔ہمارے بعض اکابرنے ایسے ظالموں کے سلام کے جواب دینے کو بھی ناجائز لکھاہے ۔حضرت سیدناسفیان ثوری رضی اللہ عنہ سے سوال کیاگیا: اگرکوئی ظالم حاکم جنگل میں پیاس سے مررہاہوتوکیااس کی جان بچانے کی غرض سے اس کو پانی کاایک گھونٹ دیناجائز ہے ؟آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ایسے موذی کو مرنے دو،اگراسے پانی کاایک گھونٹ دوگے تویہ اس کے ظلم کی مددکرنے کی مترادف ہے ۔ اورایک بزرگ رحمہ اللہ تعالی نے فرمایا: ایسے ظالم کوذلیل وخوارکرکے مارومثلاًپانی اس کے قریب لے جائویہاں تک کہ وہ پانی کے لئے منہ کھولے توپانی کابرتن پیچھے ہٹالو۔
(روح البیان:إسماعیل حقی بن مصطفی الإستانبولی الحنفی الخلوتی المولی أبو الفداء (۴:۱۹۶)

حکمرانوں کے دروازوں پرجانے والے علماء سے دوررہو

جوشخص ظالم کے لئے دعاکرے وہ نافرمان ہے
یُونُسَ بْنَ عُبَیْدٍ یَقُولُ:سَمِعْتُ الْحَسَنَ یَقُولُ:مَنْ دَعَا لِظَالِمٍ بِالْبَقَاء ِ فَقَدْ أَحَبَّ أَنْ یُعْصَی اللہ عَزَّ وَجَلَّ ۔
ترجمہ :حضرت سیدنایونس بن عبیدرحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ حضرت سیدناامام حسن بصری رضی اللہ عنہ نے فرمایا:جو شخص کسی ظالم کے باقی رہنے کی دعا کرتا ہے وہ اس بات کو پسند کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی جائے۔
(شعب الإیمان:أحمد بن الحسین بن علی بن موسی أبو بکر البیہقی (۱۲:۴۱)
اللہ تعالی کاناپسندیدہ ترین عالم کون؟
وعن الأوزاعی ما من شیء أبغض إلی اللہ من عالم یزور عاملا ۔
ترجمہ:حضرت سیدناامام الاوزاعی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ کے ہاں اس عالم سے زیادہ ناپسندیدہ شخص کوئی نہیں جو کسی عامل (یعنی ظالم گورنر)کے پاس جاتا ہے۔
(تفسیر النسفی:أبو البرکات عبد اللہ بن أحمد بن محمود حافظ الدین النسفی (۲:۸۸)
حکومتی علماء کے لئے جہنم کی ایک وادی خاص کردی گئی ہے
وقال سفیان فی جہنم وادٍ لا یسکنہ إلا القراء الزائرون للملوک۔
ترجمہ :حضرت سیدناامام سفیان الثوری رضی اللہ تعالی فرماتے ہیںکہ جہنم میں ایک وادی ہے جس میں صرف وہی علماء ڈالے جائیں گے جوحکمرانوں کی زیارتیں کرنے جاتے ہیں۔
(تفسیر النسفی:أبو البرکات عبد اللہ بن أحمد بن محمود حافظ الدین النسفی (۲:۸۸)
یہاں ایک اور بات یاد رکھیں کہ بعض حضرات کا یہ نظریہ ہے کہ ہم اپنی دنیوی ضروریات کی وجہ سے ظالموں کے اعمال پر راضی ہوتے، ان کی خوشامد و چاپلوسی کرتے اور ان کی ہاں میں ہاں ملاتے ہیں ، اگر ہم ایسا نہ کریں تو ہمارے لئے اپنی دنیوی ضروریات کو پورا کرنا دشوار ہو جائے، انہیں چاہئے کہ وہ علامہ احمدصاوی رحمہ اللہ تعالی کے ا س کلام پر غور کر لیں ، چنانچہ آپ رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں ظالموں کے اَعمال سے راضی ہونے میں دنیوی ضروریات کو دلیل بنانا قابلِ قبول نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ ہی بڑا رزق دینے والا، قوت والا اور قدرت والا ہے۔ اور جب حقیقی رازق، قوی اور قادر اللہ تعالیٰ ہے تو خود کو ظالموں کا دست نگر سمجھنا کہاں کی عقلمندی ہے۔تفسیرصراط الجنان( ۴:۵۰۹)

حکومتی ملاوٓں سے دوررہو

حَدِیثُ أَنَسٍ الْمَشْہُورُ:الْعُلَمَاء ُ أُمَنَاء ُ الرُّسُلِ عَلَی عِبَادِ اللہِ مَا لَمْ یُخَالِطُوا السُّلْطَانَ، فَإِذَا فَعَلُوا ذَلِکَ فَقَدْ خَانُوا الرُّسُلَ فَاحْذَرُوہُمْ وَاعْتَزِلُوہُمْ۔
ترجمہ :حضرت سیدناانس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضورتاجدارختم نبوتﷺنے فرمایا: علماء اللہ تعالی کے بندوںکے لئے رسل کرام علیہم السلام کے امین ہیں ، جب تک حکمرانوں اوربادشاہوں ، امراء ورئوساء دنیاداروں کی مجالس میں آمدورفت نہ رکھیں ۔بادشاہوں کی مجالس میں جانے والے علماسے بچواوران سے کوسوں دوربھاگو۔
(کنز العمال:علاء الدین علی بن حسام الدین ابن قاضی خان القادری(۱۰:۱۸۳)

حکومتی علماء کی طرف دیکھنے سے بھی پرہیزکرو

فاذا علمت ہذا فاعلم ان الواجب علیک ان تعتزل عنہم بحیث لا تراہم ولا یرونک إذ لا سلامۃ الا فیہ وان لا تفتش عن أمورہم ولا تتقرب الی من ہو من حاشیتہم ومتصل بہم من امامہم ومؤذنہم فضلا عن غیرہم من عمالہم وخدمہم۔
ترجمہ :اس حدیث شریف کے تحت امام حقی رحمہ اللہ تعالی لکھتے ہیںکہ جب تجھے حضورتاجدارختم نبوتﷺکی حدیث شریف معلوم ہوئی توتم پرواجب ہے کہ تم ایسے علماء سے اتناپرہیزکروکہ نہ تم ان کو دیکھواورنہ ہی وہ تم کودیکھیں کیونکہ سلامتی اسی میں ہے اوریہ بھی ضروری ہے کہ تمھیں ان کے حالات سے آگاہی کی بھی ضرورت نہیں ، وہ غلط کریں یاصحیح کریں ، تم کواس سے کوئی سروکارنہیں ہوناچاہئیے کیونکہ ممکن ہے کہ وہ عالم دین اپنے نفس پرقابوپاکرظالمین کو راہ راست پرلاسکے لیکن یہ بہت مشکل ہے ، ہمیں ان کے گلے شکوے سے بچنالازم ہے بلکہ ایسے علماء کے حاشیہ برداروں اوران کے متعلقین احباب اوردوست یہاں تک کہ ایسے علماء کی مساجد کے ائمہ اورموذنین سے دوربھاگناضروری ہے ۔
برادران اسلام !سوچئے جب ظالموں کے علماء کے تعلق والوں کی صحبت سے شریعت روکتی ہے توپھرظالموں کی خدمت اوران سے وابستگی سے کتنی سخت ممانعت ہوگی ۔
(روح البیان:إسماعیل حقی بن مصطفی الإستانبولی الحنفی الخلوتی المولی أبو الفداء (۴:۱۹۶)

حکومتی علماء کے کروفراوران کی تنخواہوں کی طرف بھی نظرنہ کرو

ولا تتأسف علی ما یفوت بسبب مفارقتہم وترک مصاحبتہم واذکر کثیرا قول رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (عَن معَاذإِذا قَرَأ الرَّجُلُ القُرآنَ وَتَفَقَّہَ فِی الدِّینِ ثُمَّ أَتَی بابَ السُّلْطانِ تَمَلُّقاً إِلَیْہِ وطَمَعاً لِما فِی یَدِہِ خاضَ بِقَدْرِ خُطاہُ فِی نارِ جَہَنَّم)والحدیث کأنہ مأخوذ من الآیۃ فہما متطابقان معنی کما لا یخفی۔
ترجمہ :امام اسماعیل حقی الحنفی المتوفی:۱۱۲۷ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ اے میرے دینی بھائی !اگرتجھے روکھی سوکھی روٹی ملتی ہے تواسی کورب تعالی کی رحمت سمجھ ، لیکن سرکاری مولویوں کی تنخواہوں ، مشاہروں ، کروفراوردیگرمراعات پررشک نہ کراورنہ ہی کف افسوس ملناکہ کاش میں بھی ان کے قریب ہوتاتومجھے سہولتیں اورآرام نصیب ہوتا، ان سے دوربھاگ جتناتجھ سے ہوسکے ، ان سرکاری درباری مولویوں سے۔حضورتاجدارختم نبوتﷺکے فرمان شریف کو یادکریںجوآپ ﷺاپنی امت کو بارباربطورتنبیہ فرماتے ہیں کہ{ عَن معَاذإِذا قَرَأ الرَّجُلُ القُرآنَ وَتَفَقَّہَ فِی الدِّینِ ثُمَّ أَتَی بابَ السُّلْطانِ تَمَلُّقاً إِلَیْہِ وطَمَعاً لِما فِی یَدِہِ خاضَ بِقَدْرِ خُطاہُ فِی نارِ جَہَنَّم}ترجمہ:حضورتاجدارختم نبوتﷺنے فرمایا: میری امت کاکوئی شخص قرآن کریم کی تعلیم حاصل کرکے اسلامی مسائل فقہ پرمکمل طورپرعبورحاصل کر اگربادشاہ ، حاکم اورامیر، رئیس لیڈروغیرہ کے دروازے پرکسی لالچ اورطمع کے ساتھ جائے گاتوجتنے قدم چل کرجائے گااتنے قدم جہنم کی آگ میں جائے گا۔
(الفتح الکبیر:عبد الرحمن بن أبی بکر، جلال الدین السیوطی (۱:۱۳۲)

اس سے معلوم ہواکہ جب حکمرانوں کی مساجد میں مقررامام اورعالم کے منہ کودیکھنامنع ہے توان کے پیچھے نمازکیسے جائز ہوگی؟ لہذتمام اہل اسلام اپنی نمازوں کو بچائیں اورجتنے بھی حکمرانوں کے غلام علماء ہیں ان سے خود بھی دوررہیں اوردوسروں کو بھی بچائیں۔

حکمرانوں کے ظلم کی سزاقیامت کے دن علماء کوبھگتنی پڑے گی

وبہذا تبین ان بغض الظلمۃ والغضب علیہم للہ واجب وانما ظہر الفساد فی الرعایا وجمیع أقطار الأرض برا وبحرا بفساد الملوک وذلک بفساد العلماء اولا إذ لولا القضاۃ السوء والعلماء السوء لقل فساد الملوک بل لو اتفق العلماء فی کل عصر علی الحق ومنع الظلم مجتہدین فی ذلک مستفرغین مجہودہم لما اجترأ الملوک علی الفساد ولا ضمحل الظلم من بینہم رأسا وبالکلیۃ ۔
ترجمہ :امام اسماعیل حقی الحنفی المتوفی : ۱۱۲۷ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ اس سے معلوم ہوگیاکہ ظالمین سے بغض اورناراضگی ضروری ہے لیکن فی زمانہ اس عمل کو بھی نہایت مذموم جاناجاتاہے۔

خلق خدامیں بلکہ روئے زمین پراسی لئے فساد برپاہے کہ ملک کے حکمرانوں میں ظلم کی عادت ہے اوران کے ظلم کی سزانام نہادحکومتی علماء ہی بھگتیں گے ، اس لئے کہ برے مفتی اورقاضی جج علماء نہ ہوتے توبادشاہوں سے فساد اورظلم سرزدنہ ہوتابلکہ ہمارادعوی ہے کہ اگرہرزمانے میں تمام علماء حق کے لئے کھڑے ہوجاتے اورڈٹ کرظالموں کو برائیوں سے روکیں بلکہ اس کے لئے جدوجہدکریںاوراپنازورلگائیں توظالموں کو ظلم کرنے کی جرات ہی نہ ہوبلکہ ظلم دنیاسے ہی مٹ جائے ۔
(روح البیان:إسماعیل حقی بن مصطفی الإستانبولی الحنفی الخلوتی المولی أبو الفداء (۴:۱۹۶)

یہی رویہ شروع دن سے رہاہے جب بھی کسی عالم ربانی نے حکمرانوں کے جبروتشددکے خلاف آواز بلندکی ہے توطمع پرست علماء حکومت کے ساتھ کھڑے ہوجاتے ہیں اوران علماء کرام سے لاتعلقی کرلیتے ہیں ۔ (۲۰۱۸ء)کی بات ہے جب حضورامیرالمجاہدین شیخ الحدیث مولاناحافظ خادم حسین رضوی حفظہ اللہ نے مسئلہ ناموس رسالت ﷺپرپہرہ دیتے ہوئے حکمرانوں کو للکاراتوحکمرانوں نے اپنی منافقانہ چال کے ذریعے ان سے معاہدہ کیااورپھراس کے بعد معاہدہ کوتوڑکرعلماء کرام کے خلاف کریک ڈون شروع کردیااوربڑے بڑے اجلہ علماء کرام کو بڑی بے دردی کے ساتھ گھسیٹاگیااوران کو جیلوں میں قیدکردیاگیا، اب پیچھے جتنے علماء تھے اورمختلف درباروں پربیٹھے ہوئے گدی نشین جونذرانے بٹورنے کے لئے پیداہوئے ہیں سب نے ان سے لاتعلقی کااعلان کردیا۔ اب ان درباری علماء اوردرباروں پربیٹھے ہوئے پیروں سے ہماراسوال ہے کہ حضورامیرالمجاہدین حفظہ اللہ تعالی توناموس رسالت ﷺکی بات کررہے تھے اورحکمران ناموس رسالتﷺ پرڈاکہ ڈال رہے تھے توجب تم نے حضرت اقدس سے اظہارلاتعلقی کیاتوحمایت کس کی کی؟

کیاتم نے ناموس رسالت کے پہرے دارسے اعلان لاتعلقی کرکے دین دشمن ، غدارناموس رسالت کی حمایت نہیں کی؟

بس یہی وجہ ہے کہ جب قیامت کادن ہوگااورحکمرانوں کو مسئلہ ناموس رسالت ﷺسے غداری کرنے کی سزاملے گی توان سے بھی پہلے یہ علماء اورپیرسزابھگتیں گے ۔

بہتر اور اچھے حکمرانوں کی علامات

عَنْ عَوْفِ بْنِ مَالِکٍ، عَنْ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: خِیَارُ أَئِمَّتِکُمُ الَّذِینَ تُحِبُّونَہُمْ وَیُحِبُّونَکُمْ، وَیُصَلُّونَ عَلَیْکُمْ وَتُصَلُّونَ عَلَیْہِمْ، وَشِرَارُ أَئِمَّتِکُمُ الَّذِینَ تُبْغِضُونَہُمْ وَیُبْغِضُونَکُمْ، وَتَلْعَنُونَہُمْ وَیَلْعَنُونَکُمْ۔
ترجمہ :حضرت سیدنا عوف بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضورتاجدارختم نبوتﷺنے فرمایا:تمہارے بہترین سیاسی پیشوا وہ ہیں جن سے آپ محبت کریں اور وہ آپ کو دل سے چاہیں آپ ان کو دعائیں دیں وہ آپ کو دعائیں دیں۔تمہارے بُرے سیاسی حکمران وہ ہیں جن کو آپ پسند نہ کرتے ہوں نہ وہ تمہیں پسند کرتے ہوں، آپ ان پرلعنتیں کرتے ہوں او روہ آپ پر۔
(صحیح مسلم : مسلم بن الحجاج أبو الحسن القشیری النیسابوری (۳:۱۴۸۱)
اس سے معلوم ہواکہ سیاسی حکمران کو قول کی آنکھوں کا تارا او رمحبوب ہونا چاہیے کہ ان کے حق میں آپ کے دل سے دعائیں نکلتی ہوں او روہ آپ کی فوز و فلاح اور عافیتوں کے لیے راتوں کو اُٹھ اُٹھ کر دعائیں کرتے ہوں۔ اگر معاملہ اس کے برعکس ہو تو پھر سمجھ لیجئے! کہ وہ بُرے ہیں اور ان سے خیر اور بھلائی کی توقع عبث ہے، وہ قوم کو الّو تو بنا سکیں گے لیکن ان کو ہوش بھی دیں؟
ایں خیا لست و محالست و جنوں
یہ بات اصلی او رسچے مسلمانوں کی ہے کہ ان کا مزاج ان حکمرانوں کو برداشت کرے اور ان کے لیے ان کے دل سے بے ساختہ دعائیں نکلتی ہوں، باقی رہے وہ مسلمان جو ذوق مسلمانی اور غیرت ایمان سے محروم ہیں، او رقرب سلطان کو قرب الہٰی سے مقدم رکھتے ہیں تو ان کی پسند ناپسند کوئی زبانی ترازو نہیں ہے۔جیسا کہ ہم سب دیکھ رہے ہیں کہ انہیں مسلمانوں کے ہاتھوں یہ لوگ اوپر آتے ہیں اور انہی مسلمانوں کے ہوتے ہوئے دین فروش ملک و ملت پر قابض ہوچکے ہیں۔
اتفاق اور اتحاد کی مثال:
عَنْ أَبِی مُوسَی، قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:الْمُؤْمِنُ لِلْمُؤْمِنِ کَالْبُنْیَانِ یَشُدُّ بَعْضُہُ بَعْضًا۔
ترجمہ :حضرت سیدناابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضورتاجدارختم نبوتﷺکا ارشاد ہے کہ مومن دوسرے مومن کے لیے ایک دیوار کی مانند ہے۔ اس کی ہراینٹ ایک دوسرے کو استحکام او رسہارا بخشتی ہے۔
(صحیح مسلم : مسلم بن الحجاج أبو الحسن القشیری النیسابوری (۳:۱۹۹۹)

دنیامیں سارے لوگ ایک جگہ نہیں رہتے، کوئی یہاں ہوتا ہے او رکوئی وہاں، لیکن یہ مسافت او ربعد، ان کے اندرونی اتحاد اور اتفاق پر اثر انداز نہیں ہوتا، کیونکہ ان کاذہن ، مقاصد،اصولی مسائل، دین، رُخ اوردل ایک ہوتے ہیں، ان کے سارے کام باہمی مشورے سے طے پاتے ہیں۔مشکل میں بڑھ چڑھ کر ایک دوسرے سے بھرپور تعاون کرتے ہیں، وہ کہیں ہوں، کوئی ہوں وہ ایک دوسرے کے استحکام کا موجب ہوتے ہیں او رایک دوسرے سے گہری دلچسپی لیتے ہیں۔
اگر مسلمان ممالک اپنے آپ کو ایک دوسرے میں مدغم کرکے مملکت کو ایک ’’عظیم او رناقابل تسخیر ریاست‘‘میں ضم نہیں کرسکتے تو کم از کم ایک دوسرے کے مسائل کو اپنے مسائل تصور کریں اور ایک دوسرے کی خوشی اور غمی میں برابر کے شریک رہیں۔
ظلم، ظلمات بن جائے گا:
عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:إِنَّ الظُّلْمَ ظُلُمَاتٌ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ۔
ترجمہ :حضرت سیدناعبداللہ ابن عمررضی اللہ عنہمافرماتے ہیں کہ حضورتاجدارختم نبوتﷺکا ارشاد ہے کہ قیامت میں ظلم کئی اندھیرے بن جائے گا۔
(صحیح مسلم : مسلم بن الحجاج أبو الحسن القشیری النیسابوری (۳:۱۹۹۶)
ظلم بے انصافی کو کہتے ہیں او روہ کسی بھی صورت میں ہوسکتی ہے۔کہتے ہیں تلوار کا کھیت کبھی ہرا نہیں ہوا۔ یہی کچھ قیامت میں ہوگا او ریہ ظلم، ظلمات بن جائے گا کہ ان کی تاریکیوں او راندھیروں میں ظالم کو کچھ نہیں سجھائی دے گا اورکہیں سے بھی اُمید کی کرن نہیں پھوٹے گی۔ اخروی مستقبل پورے کا پورا تاریک ہوجائے گا۔ پھر وہی کچھ ہوگا جو سرتاپا حوصلہ شکن ہوگا۔
اس ظلم کے دائرے مختلف ہوں گے۔ سب سے بڑا ظلم شرک ہوگا اور اس کے اندھیرے سب سے بڑے مہیب اور آزاردہ ہوں گے اس کے بعد بندوں کی باہمی بے انصافیوں کا سلسلہ ہوگا،جو انسان کے لیے کم فتنہ نہیں ہوگا، او رکچھ رعایا او رحکمرانوں کی بے انصافیوں کادائرہ ہوگا، جو تاجداروں کے لیے سب سے بڑھ کر رسوا کن اور آزاردہ ہوگا۔ اس لیے بہتر ہے کہ ہر ایک شخص پہلے ہی اس کا مداوا کرلے۔ سوچ لے او راپنی زندگی کو ان سے ابھی سے پاک رکھنے کی کوشش کرے۔
شرک سے زیادہ گناہوں کی وجہ سے عذاب آتے ہیں
وَدَلَّ ہَذَا عَلَی أَنَّ الْمَعَاصِیَ أَقْرَبُ إِلَی عَذَابِ الِاسْتِئْصَالِ فِی الدُّنْیَا مِنَ الشِّرْکِ، وَإِنْ کَانَ عَذَابُ الشِّرْکِ فِی الْآخِرَۃِ أَصْعَبَ.
ترجمہ :امام ابوعبداللہ محمدبن احمدالقرطبی المتوفی :۶۷۱ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیںکہ دنیامیں شرک کی نسبت نافرمانی اورگناہ ہلاکت اوربربادی کے عذاب تک پہنچانے میں زیادہ کرداراداکرتے ہیں اگرچہ آخرت میں شرک کاعذاب زیادہ مشکل ہوگا۔
(تفسیر القرطبی:أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن أبی بکر شمس الدین القرطبی (۹:۱۱۴)
کنونت کہ دست است خارے بکن دگر کے برآری تو دست از کفن
قرآن اور تلوار
عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّہِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا قَالَ:أَمَرَنَا رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنْ نَضْرِبَ بِہَذَا یَعْنِی السَّیْفَ مَنْ عَدَلَ عَنْ ہَذَا یَعْنِی الْمُصْحَفَ۔
ترجمہ :حضرت سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی جاتی ہے کہ :حضورتاجدارختم نبوتﷺنے قرآن کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ہمیںحکم دیا کہ جو شخص اس سے منہ موڑے ہم اس کی پٹائی اس تلوارسے کیا کریںگے۔
(مجموع الفتاوی:تقی الدین أبو العباس أحمد بن عبد الحلیم بن تیمیۃ الحرانی (۲۸:۶۴)
تلوار اقتدار کی جان ہے، گویا کہ اسلامی اقتدار کی غرض و غایت قرآن او رقرآنیات کا تحفظ ہے۔اگر مملکت کے دائرے میں قرآن کریم کو مان کر اس کے خلاف چلنے کی کوشش کی جائے تو تلوار کے ذریعے اس کے بل نکالنے کی کوشش کی جائے گی بہر حال تلوار بے مصحف (قرآن)چنگیزی ہے اور مصحف بے تلوار روبا ہی۔ اسلام میں ان دونوں کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔
جب کوئی بااثر شخص جرم کرتا :
عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہَاإِنَّمَا أَہْلَکَ الَّذِینَ قَبْلَکُمْ، أَنَّہُمْ کَانُوا إِذَا سَرَقَ فِیہِمُ الشَّرِیفُ تَرَکُوہُ، وَإِذَا سَرَقَ فِیہِمُ الضَّعِیفُ أَقَامُوا عَلَیْہِ الحَدَّ، وَایْمُ اللَّہِ لَوْ أَنَّ فَاطِمَۃَ بِنْتَ مُحَمَّدٍ سَرَقَتْ لَقَطَعْتُ یَدَہَا۔
ترجمہ :حضرت سیدتنا عائشہ رضی اللہ عنہماسے روایت ہے کہ حضور تاجدارختم نبوتﷺنے فرمایا:بنو اسرائیل (یہودی اور عیسائی)بس صرف اس لیے تباہ ہوئے کہ جب کوئی بااثر شخص چوری کرتا (تو)اسے چھوڑ دیتے اور جب کوئی کمزور آدمی چوری کرتا (تو)اس پر حد جاری کرڈالتے، بخدا!اگر میری بیٹی فاطمہ رضی اللہ عنہماسے بھی (خدانخواستہ)ایساکام ہوجاتا (تو )یقین کیجئے!اس کابھی ہاتھ کاٹ ڈالتا۔
(صحیح البخاری:محمد بن إسماعیل أبو عبداللہ البخاری الجعفی(۴:۱۷۵)

قانون اور اقتدار کی یہ یک چشمی جس قدر مہلک ہے، اسی قدر عام بھی ہے۔ بڑے لوگوں کو کوئی نہیں پوچھتا، اگر کوئی بے زور، نادار اور غریب آدمی کوئی کوتاہی کربیٹھے تو قانون اور اقتدار کا غیظ و غضب دیدنی ہوتا ہے۔
حضورتاجدارختم نبوتﷺجو دین لائے ہیں ، اس میں کسی کے لیے کوئی استثناء نہیں ۔ حضورتاجدارختم نبوتﷺنے جو معصوم عن الخطا بھی ہیں اپنے آپ کو قانون سے بالاتر نہیں رکھا۔

دوسرے کسی کا کیا ذکر؟

اگر قانون اور اقتدار میں حوصلہ ہو اورعدل و انصاف کی کچھ شرم بھی تو یقین کیجئے!وہ شاہان وقت پر بھی ہاتھ ڈالنے سے نہیں ہچکچاتے۔مگر آہ! اس جدید اور روشن دور میں جس قدر قانون اور اقتدار ’’یک چشم‘‘ ہوکر رسوا ہورہے ہیں، وہ کسی سے بھی پوشیدہ نہیں ہے اس لیے ملک میں ظلم ارزاں اور انصاف گراں۔ کمزور بے بس او رطاقتور اور شیر بیشہ۔ إنا للہ وإنا إلیہ راجعون۔

معصیت میں اطاعت جائز نہیں:

عَنْ عَلِیٍّ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ: أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ :لاَ طَاعَۃَ فِی مَعْصِیَۃٍ، إِنَّمَا الطَّاعَۃُ فِی المَعْرُوفِ۔
ترجمہ :حضرت سیدنامولا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیںکہ حضورتاجدارختم نبوتﷺکافرمان عالی شان ہے کہ اللہ تعالی کی نافرمانی میں کسی کی اطاعت (جائز نہیں، تعمیل صرف ’’معروف‘‘میں کی جاتی ہے۔
(صحیح البخاری:محمد بن إسماعیل أبو عبداللہ البخاری الجعفی(۹:۸۸)
ماں باپ، استاد، حکمران، برادری، چوہدری، اولاد، دوست کی غلط باتوں میں جس طرح تعمیل کی جاتی ہے کسی سے مخفی نہیں ہے۔ بہرحال یہ سرتاپا معصیت ہے۔ قرآن کریم کا ارشاد ہے ، شرک کے معاملہ میں والدین کی اطاعت نہ کیجئے!ہاں خدمت میں کسر نہ چھوڑیئے۔

اُمت میں بدترین لوگ:

عَنْ أَبِی أُمَامَۃَ قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: سَتَکُونُ رِجَالٌ مِنْ أُمَّتِی یَأْکُلُونَ أَلْوَانَ الطَّعَامِ وَیَشْرَبُونَ أَلْوَانَ الشَّرَابِ وَیلْبِسُونَ أَلْوَانَ الثِّیَابِ وَیَتَشَدَّقُونَ فِی الْکَلَامِ أُولَئِکَ شِرَارُ أُمَّتِی۔
ترجمہ :حضرت سیدنامولاعلی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضوتاجدارختم نبوتﷺکافرمان عالی شان ہے:میری امت میں کچھ ایسے لوگ بھی ہوں گے جو رنگ برنگے کھانے کھائیں گے، انواع و اقسام کے مشروب پئیں گے اوررنگ برنگے لباس (فاخرہ) پہنیں گے اوربڑے طمطراق سے باچھیں پھلا کرباتیں کریں گے ۔ میر ی اُمت میں وہ لوگ سب سے بُرے ہوں گے۔
(حلیۃ الأولیاء :أبو نعیم أحمد بن عبد اللہ بن أحمد بن إسحاق (۶:۱۹۰)

جو لوگ مندرجہ بالا امور میں منہمک رہتے ہیں وہ تن و توش کے غلام ہوتے ہیں، ان میں انسانیت کم بہیمیت زیادہ ہوتی ہے۔ قلب و نگاہ کی معصومیت داغدار ہوجاتی ہے مگر نفسانی خواہشات حکمران بن جاتی ہیں، اس لئے امتی ہونا تو بڑی بات ہے ، وہ ایک بھلے آدمی بھی نہیں رہتے۔یہ انسان نما لوگ، اصل میں حیوان ہوتے ہیں، جن کو انسانیت سے زیادہ نفسانیت سے دلچسپی رہتی ہے ۔ بس ایسے لوگوں کو پہچانئے او ران سے بچئے۔

شراب نوشی:

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ،أَنَّہُ قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:مُدْمِنُ الْخَمْرِ إِنْ مَاتَ، لَقِیَ اللہَ کَعَابِدِ وَثَنٍ ۔
ترجمہ :حضرت سیدناعبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہمافرماتے ہیں کہ حضورتاجدارختم نبوت ﷺکا ارشاد ہے کہ:جو سدا شراب پیتا ہے ، اگر وہ (اسی حالت میں )مرگیا توایک بت کے پجاری کی حیثیت سے اللہ سے ملے گا۔
(مسند الإمام أحمد بن حنبل:أبو عبد اللہ أحمد بن محمد بن حنبل بن ہلال بن أسد الشیبانی (۴:۲۶۵)
ایمان ہوش میں آنے کا نام ہے، شراب ایک ایسی کیفیت کی خلاف ہے جو ہوش کی دشمن اور دشمن جان و ایمان سے بے خبر رکھتی ہے۔ شراب دراصل نفس بہیمی کا سب سے بڑا داعیہ ہے، نفس کے لیے شراب سے بڑھ کر اور کوئی عیاشی نہیں ہے، اس لیے جو لوگ نفس کے اس مطالبہ کی تکمیل کے لیے سدا مستغرق رہتے ہیں گویا کہ نفس جیسے بت کے سامنے وہ سجدہ ریز رہتے ہیں۔چنانچہ دنیا میں جو واقعہ تھا مگر زبان اس کے اعتراف سے قاصر تھی، وہی کیفیت اب آخرت میں اس کے انگ انگ سے پھوٹ پھوٹ کرنکلے گا۔ او رسربستہ راز سامنے آجائے گا کہ یہ شخص گو بظاہر باہر کے وثن اور بت کے سامنے سجدہ ریز نہیں تھا تاہم اپنے سینہ میں پوشیدہ نفس جیسے صنم کے حضور وہ سجدہ ریز ضرور رہا اس لیے اس کیساتھ معاملہ بھی ایک ’’وثنی‘‘جیسا کیاجائے گا۔
اسلامی جہاد:
عَنْ أَبِی مُوسَی الْأَشْعَرِیِّ، أَنَّ رَجُلًا سَأَلَ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، عَنِ الْقِتَالِ فِی سَبِیلِ اللہِ عَزَّ وَجَلَّ، فَقَالَ الرَّجُلُ:یُقَاتِلُ غَضَبًا، وَیُقَاتِلُ حَمِیَّۃً، قَالَ:فَرَفَعَ رَأْسَہُ إِلَیْہِ، وَمَا رَفَعَ رَأْسَہُ إِلَیْہِ إِلَّا أَنَّہُ کَانَ قَائِمًا، فَقَالَ: مَنْ قَاتَلَ لِتَکُونَ کَلِمَۃُ اللہِ ہِیَ الْعُلْیَا، فَہُوَ فِی سَبِیلِ اللہِ۔
ترجمہ:حضرت سیدناابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضورتاجدارختم نبوتﷺکی خدمت میں ایک دیہاتی آئے اورعرض کی: یارسول اللہ ﷺ!ایک شخص مال غنیمت کیلیے لڑتا ہے، کوئی اس لیے لڑتا ہے کہ اس کی دھوم ہو، کوئی لڑتا ہے کہ دنیاکو اس کے مرتبے کا پتہ چلے کہ بڑا بہادر ہے تو ان میں سے فی سبیل اللہ کون ہے؟حضورتاجدارختم نبوتﷺ نے فرمایا: جو صرف اس لیے قتال کرتا ہے کہ اللہ تعالی کا دین غالب ہو ، بس وہی’’فی سبیل اللہ‘‘ہے۔
(صحیح مسلم : مسلم بن الحجاج أبو الحسن القشیری النیسابوری (۳:۱۹۹۶)
اعلائے کلمۃ اللہ کے لیے لڑنا اور اس سے مقصود اس کی خوشنودی کا حصول ہو تو وہ جہاد فی سبیل اللہ ہے، ان دو میں سے ایک بھی کم ہوجائے تو وہ اور جو کچھ سبھی ممکن ہے لیکن وہ بہرحال جہاد فی سبیل اللہ اور وہ مجاہد فی سبیل اللہ نہیں ہے۔
حدود اللہ کا نفاذ
عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ:إِقَامَۃُ حَدٍّ مِنْ حُدُودِ اللَّہِ، خَیْرٌ مِنْ مَطَرِ أَرْبَعِینَ لَیْلَۃً فِی بِلَادِ اللَّہِ عَزَّ وَجَلَّ۔
ترجمہ : حضرت سیدناعبداللہ ابن عمررضی اللہ عنہماسے روایت ہے کہ حضورتاجدارختم نبوتﷺکا ارشاد ہے کہ :حدود اللہ میں سے کسی ایک حد کو قائم او رنافذ کرنا خدا کی زمین پر چالیس رات کی (مسلسل)بارش سے کہیں بہتر ہے۔
(سنن ابن ماجہ:ابن ماجۃ أبو عبد اللہ محمد بن یزید القزوینی (۲:۸۴۸)
معصیت بہت بڑی نحوست ہے ، برکت چھن جاتی ہے، مصائب و آلام کانزول طوفانی شکل اختیار کرلیتا ہے، بندوں کا استحصال، خود غرضی اور نفسا نفسی کا دور دورہ شرو ع ہوجاتا ہے۔ قانون کا احترام دل سے اُٹھ جاتا ہے ۔ حکمران مداہن اور ابن الوقت حکمران بن جاتے ہیں، گاہک ڈاکو اور دکاندار جیب کترے ثابت ہوتے ہیں۔اولاد نافرمان اور شاگرد باغی ہوجاتے ہیں، کھیت روٹھ جاتے ہیں، آسمان ناراض دکھائی دینے لگتے ہیں، بارش کی ہر بوند دشمن کی گولی اور ہوا کا ہر جھونکا نار جہنم کادھواں بن جاتا ہے۔ انسان کی ترقی کا ہر قدم ابن آدم کے لیے قدوم میمنت ثابت نہیں ہوتا بلکہ ایک ایسا رولر بن جاتا ہے جو انسانی عافتوں او رمستقبل کو کچلتے ہوئے آگے بڑھتا ہے۔
حدود اللہ کے نفاذ کے معنی ہیں کہ مملکت بے لاگ اسلامی قوانین کے جاری کرنے میں مخلص ہو او راگر دنیا میں قانون ، خاص کر اسلامی قانون کی حکمرانی قائم ہوجائے تو ان جرائم او رمعصیت کا سد باب ہوجائے جس کی وجہ سے دنیا میں بگاڑ او ربے اطمینانی راہ پاتی ہے۔ اور خلق خدا ظلم و عدوان اور انواع و اقسام کے فتنوں کی آماجگاہ بن سکتی ہے۔ کاش!جس اسلامی نظام عدل و سیاست کی ضرورت او رافادیت کا احساس غیروں کو بھی ہونے لگا ہے مسلمان ممالک کو بھی اس کا احساس ہوجائے۔
حکمرانوں کے وزراء :
عَنْ عَائِشَۃَ، قَالَتْ:قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: إِذَا أَرَادَ اللَّہُ بِالْأَمِیرِ خَیْرًا جَعَلَ لَہُ وَزِیرَ صِدْقٍ، إِنْ نَسِیَ ذَکَّرَہُ، وَإِنْ ذَکَرَ أَعَانَہُ، وَإِذَا أَرَادَ اللَّہُ بِہِ غَیْرَ ذَلِکَ جَعَلَ لَہُ وَزِیرَ سُوء ٍ، إِنْ نَسِیَ لَمْ یُذَکِّرْہُ، وَإِنْ ذَکَرَ لَمْ یُعِنْہُ۔
ترجمہ : حضرت سیدتنا عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حضورتاجدارختم نبوتﷺکافرمان عالی شان ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کوکسی حکمران کی بھلائی منظور ہوتی ہے تو اس کے لیے مخلص وزیر کا بندوبست کردیتا ہے اگر اس سے بھول ہوجائے تو وہ اسے یاد کرا دیتا ہے،اگر اسے یاد ہو تو اس کی اعانت کرتا ہے ۔ اگر اس کے بجائے اس کے لیے کچھ او رمنظور ہوتا ہے تو اس کے لیے ایک ایسے بُرے وزیر کا سامان کردیتا ہے کہ اگر وہ بھول جائے تو اللہ تعالی یاد نہ کرائے اگر اسے یاد ہوتو اس کی کوئی مدد نہ کرے۔
(سنن أبی داود:أبو داود سلیمان بن الأشعث بن إسحاق بن بشیر بن شداد(۳:۱۳۱)
دنیا میں کوئی بھی حکمران مشیروں، صلاح کاروں اور وزیروں سے بے نیاز نہیں ہوتا، لیکن یہ بات کہ ان کو کیسے صلاح کا ر اور وزیرملنے چاہیئیں؟ وہ اس بات پر منحصر ہے کہ وہ خود کیسا ہے اگر وہ خود بھلے انسان ہوتے ہیں تو حق تعالیٰ صلاح کاروں کے انتخاب میں بھی ان کی مدد فرماتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ بہتر لوگوں کو ان کا وزیر بنا دیتا ہے جو ہر لغزش پر انہیں تھام لیتے ہیں او رہربھلے اقدام پر ان کی اعانت کرتے ہیں، اگر وہ خود غیر محتاط لوگ ہوتے ہیں تو اللہ تعالیٰ بھی ان کے ساتھ ویسا معاملہ کرتا ہے ۔ بُرے مشیر، شاطر وزیر اور جی حضوری صلاح کار ان کومہیا فرما دیتا ہے ، اگر وہ ٹھوکر کھاتے ہیں توان کواحساس بھی نہیں ہوتا، اگرکبھی ان کو بھلائی کا احساس ہوجائے تو:تُوجان اور تیرا کام، کہہ کر الگ ہورہتے ہیں۔ گویا کہ وزراء اور صلاح کار خود حکمرانوں کے اپنے اعمال ذہنیت او راہلیت کا عکس اور نتیجہ ہوتے ہیں۔ بس جیسے کو تیسااور یہ وہ حقیقت کبریٰ ہے جو ہر فرد نے اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کی ہے مگر عبرت ؟ سو وہ اچھی قسمت والے ہی پکڑتے ہیں۔
افتراق کے سامان
عَنْ زِیَادِ بْنِ عِلَاقَۃَ، قَالَ:سَمِعْتُ عَرْفَجَۃَ، قَالَ:سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، یَقُولُ:إِنَّہُ سَتَکُونُ ہَنَاتٌ وَہَنَاتٌ،فَمَنْ أَرَادَ أَنْ یُفَرِّقَ أَمْرَ ہَذِہِ الْأُمَّۃِ وَہِیَ جَمِیعٌ، فَاضْرِبُوہُ بِالسَّیْفِ کَائِنًا مَنْ کَانَ۔
ترجمہ:حضرت سیدنا عرفجہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے کانوں سے حضور تاجدارختم نبوتﷺکویہ فرماتے سنا ہے کہ:عنقریب شروفساد برپا ہوں گے تو جو شخص ملت اسلامیہ کی وحدت کو پارہ پارہ کرنیکا کوئی اقدام کرے، اور وہ کوئی بھی ہوتو چاہیے کہ اس کی گردن اڑا دی جائے۔
(صحیح مسلم : مسلم بن الحجاج أبو الحسن القشیری النیسابوری (۳:۱۴۷۹)
جب ملک میں بے اطمینانی کی کوئی لہر اٹھتی ہے تو شاطر او ربدنیت لوگ اس کو مزید ہوا دے کر افتراق و انتشار کو ہوا دیتے ہیں او رچاہتے ہیں کہ مرکز کمزور ہو او ران کے ہاتھ کچھ آجائے۔ اسلام کی نگاہ میں ایسے لوگ حوصلہ افزائی کے مستحق نہیں ہیں بلکہ مستحقِ گردن زدنی ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ ان تخریب کاروں کا احتساب کرے۔ لیکن جب ارباب حکومت ہی ملک میں بدگمانیوں کے جال پھیلانے پرمصر ہوں ، پھوٹ ڈالو اور حکومت کرو، جن کا اصول بن گیا ہو اور ملت اسلامیہ میں باہمی منافرت کی سرپرستی بھی وہ کرتے ہوں تو پھر کیاہو؟
پھر ہم بُرے حکمران مسلّط کردیں گے
مِنْ حَدِیثِ ابْنِ عُمَرَ بِرَفْعِہِ:وَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِہِ، لَا تَقُومُ السَّاعَۃُ حَتَّی یَبْعَثَ اللَّہُ أُمَرَاء َ کَذَبَۃً، وَوُزَرَاء َ فَجَرَۃً، وَأَعْوَانًا خَوَنَۃً، وَعُرَفَاء َ ظَلَمَۃً، وَقُرَّاء َ فَسَقَۃً، سِیمَاہُمْ سِیمَاء ُ الرُّہْبَانِ، وَقُلُوبُہُمْ أَنْتَنُ مِنَ الْجِیَفِ، أَہْوَاؤُہُمْ مُخْتَلِفَۃٌ، فَیَفْتَحُ اللَّہُ لَہُمْ فِتْنَۃً غَبْرَاء َ مُظْلِمَۃً فَیَتَہَالَکُونَ فِیہَا، وَالَّذِی نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِیَدِہِ لَیُنْقَضَنَّ الْإِسْلَامُ عُرْوَۃً عُرْوَۃً،حَتَّی لَا یُقَالَ:اللَّہُ اللَّہُ، لَتَأْمُرُنَّ بِالْمَعْرُوفِ، وَلَتَنْہَوُنَّ عَنِ الْمُنْکَرِ، أَوْ لِیُسَلِّطَنَّ اللَّہُ عَلَیْکُمْ أَشْرَارَکُمْ، فَیَسُومُونَکُمْ سُوء َ الْعَذَابِ، ثُمَّ یَدْعُو خِیَارُکُمْ فَلَا یُسْتَجَابُ لَہُمْ، لَتَأْمُرُنَّ بِالْمَعْرُوفِ، وَلَتَنْہَوُنَّ عَنِ الْمُنْکَرِ،أَوْ لَیَبْعَثَنَّ اللَّہُ عَلَیْکُمْ مَنْ لَا یَرْحَمُ صَغِیرَکُمْ، وَلَا یُوَقِّرُ کَبِیرَکُم۔
ترجمہ:حضرت سیدناعبداللہ ابن عمررضی اللہ عنہماسے روایت ہے کہ حضورتاجدارختم نبوتﷺکافرمان عالی شان ہے کہ مجھے اس ذات پاک کی قسم ہے جس کے قبضہ میں میری جان ہے:قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی، یہاں تک کہ جھوٹے حکمران، فاسق فاجر وزراء ، خائن معاونین، ظالم چودھری او رایسے فاسق علماء جن کی پیشانیاں صوفیوں جیسی ہوں گی مگر ان کے دل مردار سے زیادہ مردار اور متعفن ہوں گے۔ان سب کی خواہشات او رمقاصد ایک دوسرے سے مختلف ہوں گے تو ان پر اللہ تعالیٰ ایک ایسا کالا کلوٹا فتنہ مسلط کردے گا جن میں وہ گرتے ہی جائیں گے۔
قسم ہے اس ذات پاک کی جس کے قبضے میں محمد کریمﷺکی جان ہے اسلام کی ایک ایک کڑی ٹکڑے ہوجائے گی یہاں تک کہ کسی طرف سے ’’اللہ اللہ‘‘کی آواز نہیں آئے گی، تم امربالمعروف او رنہی عن المنکر کا فریضہ ادا کرو گے ورنہ اللہ تعالیٰ تم پراشرار (بدترین) لوگوں کو مسلط کردے گا۔پھر وہ تم کو بُرے سے بُرے عذاب کا مزہ چکھائیں گے ۔ پھر تمہارے اخیار (بیداغ صلحاء )دعائیں کریں گے مگر ان کی ایک نہیں سنی جائے گی۔ (پھر سن لیجئے)تم امر بالمعروف او رنہی عن المنکر کا فریضہ انجام دوگے ورنہ اللہ تعالیٰ تم پر ایسے لوگوں کو مسلط کردے گا جو تمہارے کم سن اورچھوٹے بچوں پر ترس نہیں کریں گے اور تمہارے بزرگوں کا احترام نہیں کریں گے۔
(رواہ ابن ابی الدینار۔ الجواب الکافی لمن سئال من الدواء الشافی لابن القیم:۳۱)
یہ حدیث اپنے مضمون میں بالکل واضح اور دو ٹوک ہے، یعنی دین سے انحراف اور بدعملی، ملک و ملت کے لیے آزاردہ فتنوں کا پیش خیمہ ہوتی ہے اور خلق خدا عذاب کی ایسی چکی میں پسنا شروع ہوجاتی ہے جو گھن اور گیہوں میں کوئی امتیاز نہیں کرتی۔ اب یہ فیصلہ کرنا آپ کے ہاتھ میں ہے کہ آپ خود کن حالات سے گزر رہے ہیں؟
ہر حکمران کے ہاتھ بندھے ہوں گے
عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَعَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، قَالَ:مَا مِنْ أَمِیرِ عَشَرَۃٍ إِلَّا یُؤْتَی بِہِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ مَغْلُولًا، لَا یَفُکُّہُ إِلَّا الْعَدْلُ، أَوْ یُوبِقُہُ الْجَوْرُ ۔
ترجمہ:حضرت سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور تاجدارختم نبوتﷺ کا ارشاد ہے کہ چھوٹے سے چھوٹا حکمران بھی قیامت میں آئے گا تو اس کے ہاتھ بندھے ہوں گے ، اب عدل و انصاف اسے نجات دلائے گا یا ظلم و جور کے ہاتھوں تباہ ہوگا۔
(مسند الإمام أحمد بن حنبل:أبو عبد اللہ أحمد بن محمد بن حنبل بن ہلال بن أسد الشیبانی (۱۵:۳۵۲)
چوہدری دوزخ کاایندھن ہیں
حَدَّثَنَا غَالِبٌ الْقَطَّانُ، عَنْ رَجُلٍ،عَنْ أَبِیہِ، عَنْ جَدِّہِ: فَقَالَ رسول ا للہ ﷺ:إِنَّ الْعِرَافَۃَ حَقٌّ، وَلَا بُدَّ لِلنَّاسِ مِنَ العُرَفَاء ِ، وَلَکِنَّ الْعُرَفَاء َ فِی النَّارِ۔
ترجمہ :حضرت سیدناغالب القطان ایک شخص سے وہ اپنے باپ سے وہ اپنے داداسے نقل کرتے ہیں کہ حضورتاجدارختم نبوتﷺنے فرمایاکہ چودھراہٹ کے بغیر چارہ تو نہیں ہے لیکن چودھری ہیں دوزخ کا ایندھن۔
(سنن أبی داود:أبو داود سلیمان بن الأشعث بن إسحاق بن بشیر بن شداد(۳:۱۳۱)
دنیا میں ہر شخص چاہتا ہے کہ اقتداراس کے ہاتھ آجائے، چودھری بن جائے، افسرکہلائے او رکچھ لوگ ان کے ماتحت ہوں او روہ ان پر حکومت کرے۔ اگران کو اقتدار او رچودھراہٹ کا یہ انجام نظر آجائے جو اوپر کی حدیث میں آیا ہے تو یقین کیجئے ! اقتدار کی کرسی ہمیشہ ہی خالی رہے۔ بہرحال اقتدار اور امارت پھولوں کی نہیں کانٹوں کی سیج ہے۔خمار اس کا کیف آور ہے۔ مگر انجام اس کا حوصلہ شکن ترش۔یہی چوہدری اوروڈیرے لوگ غلبہ دین کی راہ میں رکاوٹ ہیں اورمساجدمیں اورعلمی محافل میں غلبہ دین کی بات کرنے سے یہی لوگ مانع ہیں ۔(ہرہرمسجد شریف میں ایک پاگل اورسرپھراچوہدری ہوتاہے جوبطورخاص عالم دین پرمسلط ہوتاہے اورہی شیطان حق گوئی سے مانع ہوتاہے )
قرب سلطان کافتنہ:
عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِمَعْنَی مُسَدَّدٍ، قَالَ:وَمَنْ لَزِمَ السُّلْطَانَ افْتُتِنَ زَادَ: وَمَا ازْدَادَ عَبْدٌ مِنَ السُّلْطَانِ دُنُوًّا إِلَّا ازْدَادَ مِنَ اللَّہِ بُعْدًا۔
ترجمہ:حضرت سیدناابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضورتاجدارختم نبوتﷺنے فرمایا:جس شخص نے بادشاہ کی صحبت اختیار کی وہ فتنہ میں پڑ گیا۔ جو بندہ جتنا شاہ وقت کے قریب ہوتا ہے اتنا وہ رب سے دو رہوجاتا ہے۔
(سنن أبی داود:أبو داود سلیمان بن الأشعث بن إسحاق بن بشیر بن شداد(۳:۱۱۱)
قرب سلطان کی خواہش ہر دل میں چٹکیاں لیتی ہے اورمذہب و روحانیت کے بڑے بڑے جفا دری نے اس کے صید زبوں دیکھے ہیں۔ لوگوں کی کیا بات کریں۔ وہ جماعت صوفیاء جس نے غیر اللہ کے ہر رشتے توڑ ڈالے تھے، اب ان میں بھی بعض دنیاداروں کو سیاسی داشتاؤں کے ذریعے شاہوں کا درباری بننے کا خبط لا حق ہوگیا ہے۔حکومت کے درباریوں میں جن کو ’’جنس بازار‘‘تصور کیا جاتا ہے، جماعت صوفیاء کے بعض کم فہم لوگ انہی کو شاہی درباروں میں باریاب ہونے کے لیے ’’وسیلہ‘‘بنا کر چل رہے ہیں۔ إنا للہ وإنا إلیہ راجعون۔
تنخواہ کے علاوہ استحصال
عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ بُرَیْدَۃَ، عَنْ أَبِیہِ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ:مَنِ اسْتَعْمَلْنَاہُ عَلَی عَمَلٍ فَرَزَقْنَاہُ رِزْقًا، فَمَا أَخَذَ بَعْدَ ذَلِکَ فَہُوَ غُلُولٌ۔
ترجمہ:حضرت سیدناعبداللہ بن بریدہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضورتاجدارختم نبوتﷺنے فرمایا:جس شخص کو ہم نے کسی عہدہ اور منصب پر فائز کیا اور اس کا روزینہ (بھی)مقرر کیا (تو)اس کے بعد وہ اور جو کچھ لے گا وہ خیانت ہوگی۔
(سنن أبی داود:أبو داود سلیمان بن الأشعث بن إسحاق بن بشیر بن شداد(۳:۱۳۴)
الغرض!تنخواہ کے علاوہ محض اپنے عہدہ او رمنصب کی وجہ سے جو کچھ بھی وہ وصول کرے گا، وہ ملک و ملت کے مال میں خیانت ہوگی اور جو خائن ہوتا ہے وہ سرکاری عہدہ کے لحاظ سے نااہل قرار پاتا ہے اور یہ ایک واقعہ ہے کہ آج کل رشوت کا جو سلسلہ جاری ہے اس نے سرکاری ملازمین کی ساری روزی کوتقریباً تقریباً مشتبہ بنا دیا ہے۔ غور طلب یہ بات ہے ایسے لوگوں کے حج ، روزہ، نماز او رزکوٰۃ یا دوسری خیرات او راعمال کا کیا بنے گا؟ کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ کیا ہوگا؟ بہرحال ابھی وقت ہے کہ دوست اس صورت حال اور اس کے سنگین نتائج پر ٹھنڈے دل سے غور فرمالیں۔
کفر اور شرک کے خلاف جہاد
عَنْ أَنَسٍ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ:جَاہِدُوا الْمُشْرِکِینَ بِأَمْوَالِکُمْ وَأَنْفُسِکُمْ وَأَلْسِنَتِکُمْ۔
ترجمہ:حضرت سیدناانس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضورتاجدارختم نبوتﷺنے فرمایا:مشرکوں کے خلاف جہاد کرو، اپنے مالوں سے، جانوں سے اور زبانوں سے۔
(سنن أبی داود:أبو داود سلیمان بن الأشعث بن إسحاق بن بشیر بن شداد(۳:۱۰)
جہادبالسیف، یہ حکومت کا فریضہ ہے۔ جب وہ اس کا اعلان کرے تو اپنے آپ کو اس کے لیے پیش کرنا ہر ایک کا دینی فریضہ بن جاتاہے۔ اگر حکومت غفلت شعار ہو تو اس کو اس کی ضرورت کی طرف متوجہ کرنا چاہیے۔ الغرض کفر و شرک کو مٹانے کے لیے جتنا اور جیسا کچھ جہاد ممکن ہو کرگزریں۔ یہ جہاد صرف کفار کے خلاف نہیں بلکہ کفر نواز مسلمانوں کے خلاف بھی ممکن ہوتا ہے لیکن خانہ جنگی کی اجازت نہیں ہوتی، ہاں ان پر دباؤ تیز تر کردینا جائز بلکہ فرض ہوجاتا ہے۔جہادمسلمانوں کے استحکام اور ترقی کا ضامن ہے جب سے مسلمانوں نے اس کو نظرانداز کیا ہے خدا نے بھی ان کونظر انداز کردیا ہے۔
قرآن وحدیث کوترک کرکے فرنگی کی اتبا ع کرنا
عَن جَابِرٍ فَقَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:وَالَّذِی نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِیَدِہِ لَوْ بَدَا لَکُمْ مُوسَی فَاتَّبَعْتُمُوہُ وَتَرَکْتُمُونِی لَضَلَلْتُمْ عَنْ سَوَاء ِ السَّبِیلِ وَلَوْ کَانَ حَیًّا وَأَدْرَکَ نُبُوَّتِی لَاتَّبَعَنِی۔
ترجمہ :حضرت سیدناجابررضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضورتاجدارختم نبوتﷺنے فرمایا: اس ذات پاک کی قسم جس کے قبضہ میں محمد (ﷺ)کی جان ہے اگر (آج حضرت )موسیٰ علیہ السلام (بھی)نمودار ہوں اور تم مجھے چھوڑ کر ان کے پیچھے ہو تو تم سیدھی راہ سے بھٹک جاؤ گے، اگر حضرت موسیٰ علیہ السلام(ظاہری طورپر) زندہ ہوتے او رمیری نبوت کازمانہ پاتے تو میری ہی پیروی کرتے۔
(مشکاۃ المصابیح:محمد بن عبد اللہ الخطیب العمری، أبو عبد اللہ التبریزی (ا:۶۸)
جج
عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ أَبِی أَوْفَی قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:إِنَّ اللَّہَ مَعَ القَاضِی مَا لَمْ یَجُرْ، فَإِذَا جَارَ تَخَلَّی عَنْہُ وَلَزِمَہُ الشَّیْطَانُ.
ترجمہ :حضرت سیدناعبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضورتاجدارختم نبوتﷺنے فرمایا:جب تک جج بے انصافی نہیں کرتا اللہ تعالیٰ اس کے ساتھ رہتا ہے ، جب وہ ظلم کرتاہے تو اس سے الگ ہوجاتا ہے او رشیطان اس کے ساتھ ہولیتا ہے۔
(سنن الترمذی:محمد بن عیسی بن سَوْرۃ بن موسی بن الضحاک، الترمذی، أبو عیسی (۳:۱۱)
ملکی قوانین اور دساتیر کے نفاذ اور ترجمانی کی ذمہ دار عدلیہ ہوتی ہے اگر وہ حق کے مطابق فیصلے کرتی ہے تو اللہ تعالیٰ کی حمایت بھی اس کو حاصل ہوجاتی ہے ورنہ شیطان ہی اس کا رفیق بن جاتا ہے۔ پھر ملکی قوانین کا احترام دل سے اُٹھ جاتا ہے، قانون اب ایک کاروبار کانام رہ جاتا ہے۔مستحق اس کے فیضان سے محروم اور غیر مستحق جھولی بھر بھر کر اپنا اُلّو سیدھا کرتے ہیں۔ بہرحال عدلیہ ملکی حکمرانوں کی سیئات اورحسنات کا ہی پر تو ہوتی ہے۔اس لیے دعا کیجئے، کہ حکمران مسلمان نصیب ہوں تاکہ دنیا عدلیہ کے فیضان سے متمتع ہوسکے۔
بحمداللہ تعالی سورۃ ہود کااختتام ۲۶ذوالقعدہ ۱۴۴۱ھ)/۱۸جولائی ۲۰۲۰ء)بروزہفتہ ۱۲بج کر۴۰ منٹ پر۔

Leave a Reply