حضورتاجدارختم نبوتﷺکے گستاخوں سے اللہ تعالی کاانتقام لینا
{فَاصْدَعْ بِمَا تُؤْمَرُ وَاَعْرِضْ عَنِ الْمُشْرِکِیْنَ }(۹۴){اِنَّا کَفَیْنٰکَ الْمُسْتَہْزِء ِیْنَ }(۹۵){ الَّذِیْنَ یَجْعَلُوْنَ مَعَ اللہِ اِلٰہًا اٰخَرَ فَسَوْفَ یَعْلَمُوْنَ }(۹۶)
ترجمہ کنزالایمان:تو علانیہ کہہ دو جس بات کا تمہیں حکم ہے اور مشرکوں سے منہ پھیر لو ۔ بیشک ان ہنسنے والوں پر ہم تمہیں کفا یت کرتے ہیں۔ جو اللہ کے ساتھ دوسرا معبود ٹھہراتے ہیں تو اب جان جائیں گے۔
ترجمہ ضیاء الایمان:ـ پس اے حبیب کریمﷺ! وہ بات اعلانیہ فرمادیں جس کاآپﷺ کو حکم دیا جارہاہے اور مشرکوں سے منہ پھیر لیں ۔بیشک ان ہنسنے والوں کے مقابلے میںہم آپﷺکو کافی ہوں گے۔ جو اللہ تعالی کے ساتھ دوسرا معبود ٹھہراتے ہیں تو عنقریب جان جائیں گے۔
شان نزول
وقال ابْنُ إِسْحَاقَ:لَمَّا تَمَادَوْا فِی الشَّرِّ وَأَکْثَرُوا بِرَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الِاسْتِہْزَاء َ أَنْزَلَ اللَّہُ تَعَالَی فَاصْدَعْ بِما تُؤْمَرُ وَأَعْرِضْ عَنِ الْمُشْرِکِینَ إِنَّا کَفَیْناکَ الْمُسْتَہْزِئِینَ الَّذِینَ یَجْعَلُونَ مَعَ اللَّہِ إِلہاً آخَرَ فَسَوْفَ یَعْلَمُونَ۔
ترجمہ :امام محمدبن اسحاق رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ جب مکہ مکرمہ کے رہنے والے گستاخ حضورتاجدارختم نبوتﷺکوتکلیف دینے میں اورآپﷺکامذاق اڑانے میں حدسے گزرگئے تواللہ تعالی نے یہ آیات کریمہ {فَاصْدَعْ بِما تُؤْمَرُ وَأَعْرِضْ عَنِ الْمُشْرِکِینَ إِنَّا کَفَیْناکَ الْمُسْتَہْزِئِینَ الَّذِینَ یَجْعَلُونَ مَعَ اللَّہِ إِلہاً آخَرَ فَسَوْفَ یَعْلَمُونَ}نازل فرمائیں۔
(تفسیر القرطبی:أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن أبی بکر شمس الدین القرطبی (۱۰:۶۲)
آیت کریمہ کامعنی
وَالْمَعْنَی:اصْدَعْ بِمَا تُؤْمَرْ وَلَا تَخَفْ غَیْرَ اللَّہِ، فَإِنَّ اللَّہَ کَافِیکَ مِنْ أَذَاکَ کَمَا کَفَاکَ الْمُسْتَہْزِئِینَ۔
ترجمہ :امام ابوعبداللہ محمدبن احمدالقرطبی المتوفی : ۶۷۱ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ آیت کریمہ کامعنی یہ ہے کہ اے حبیب کریم ﷺ!آپ اعلان فرمادیں جس کاآپ ﷺکوحکم دیاگیاہے اوراللہ تعالی کے سواکسی سے نہ ڈریں کیونکہ اللہ تعالی آپﷺکواس کے لئے کافی ہے جس نے بھی آپ ﷺکوتکلیف پہنچائی جیساکہ وہ آپﷺکوآپ کی گستاخی کرنے والوں سے بچانے کے لئے کافی ہے۔
(تفسیر القرطبی:أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن أبی بکر شمس الدین القرطبی (۱۰:۶۲)
اب گستاخوں کو معافی نہیں ہے
وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ:ہُوَ مَنْسُوخٌ بِقَوْلِہِ فَاقْتُلُوا الْمُشْرِکِینَ۔
ترجمہ :حضرت سیدناعبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہمافرماتے ہیں کہ یہ آیت کریمہ اللہ تعالی کے اس فرمان شریف سے منسوخ ہے ۔
(أحکام القرآن:علی بن محمد بن علی، أبو الحسن الطبری الکیا الہراسی الشافعی (۲:۸۳)
دنیاپرست لبرل ہی گستاخ کیوں ہوتے ہیں؟
وَاعْلَمْ أَنَّ الْمُفَسِّرِینَ قَدِ اخْتَلَفُوا فِی عَدَدِ ہَؤُلَاء ِ الْمُسْتَہْزِئِینَ وَفِی أَسْمَائِہِمْ وَفِی کَیْفِیَّۃِ طَرِیقِ اسْتِہْزَائِہِمْ، وَلَا حَاجَۃَ إِلَی شَیْء ٍ مِنْہَا،وَالْقَدْرُ الْمَعْلُومُ أنہم طبقۃ لہم قوۃ وشوکۃ ورئاسۃ لِأَنَّ أَمْثَالَہُمْ ہُمُ الَّذِینَ یَقْدِرُونَ عَلَی إِظْہَارِ مِثْلِ ہَذِہِ السَّفَاہَۃِ مَعَ مِثْلِ رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی عُلُوِّ قَدْرِہِ وَعِظَمِ مَنْصِبِہِ، وَدَلَّ الْقُرْآنُ عَلَی أَنَّ اللَّہَ تَعَالَی أَفْنَاہُمْ وَأَبَادَہُمْ وَأَزَالَ کَیْدَہُمْ، وَاللَّہُ أَعْلَمُ.
ترجمہ :امام فخرالدین الرازی المتوفی : ۶۰۶ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں یادرہے کہ مفسرین کاان گستاخوں کی تعداد، ان کے ناموں اوران کے گستاخی کے طریقے میں اختلاف ہے ، لیکن ایسی کسی چیز کی ضرورت نہیں ہے اتناہی یقین ہے کہ یہ ایک طبقہ تھا، جنہیں ظاہری قوت ، شوکت اورریاست حاصل تھی ، کیونکہ ایسے لو گ اللہ تعالی کے حبیب کریمﷺکے بلنداورعظیم مرتبہ پرایسی احمقانہ حرکات کے اظہارپرقادرہوتے ہیں ۔ قرآن کریم ان کی نشاندہی کرتاہے کہ اللہ تعالی نے انہیں فناوہلاک کردیااوران کامکروفریب زائل کردیا۔
(التفسیر الکبیر:أبو عبد اللہ محمد بن عمر بن الحسن بن الحسین التیمی الرازی(۱۹:۱۶۵)
حضوتاجدارختم نبوتﷺکاگستاخوں کے خلاف دعائے جلال کرناحلم وعفوکے منافی نہیں ہے
کما روی انہ مر بالحکم ابن العاص فجعل الحکم یغمز بہ علیہ السلام فرآہ فقال (اللہم اجعل بہ وزغا) فرجف وارتعش مکانہ والوزغ الارتعاش وہذا لا ینافی ما ہو علیہ من الحلم والإغضاء علی ما یکرہ قلت ظہر لہ فی ذلک اذن من اللہ تعالی ففعل ما فعل وہکذا جمیع أفعالہ وأقوالہ فان الوارث الکامل لا یصدر منہ الا ما فیہ اذن اللہ تعالی فما ظنک بأکمل الخلق علما وعملا وحالا ۔
ترجمہ :مروی ہے کہ حضورتاجدارختم نبوتﷺحکم بن العاص کے قریب سے گزرے تووہ حضورتاجدارختم نبوت ﷺکی نقلیں اتارنے لگا، حضورتاجدارختم نبوتﷺنے مڑکردیکھ کراللہ تعالی کی بارگاہ میں اس کے خلاف دعائے جلا ل کی: اے اللہ !اسے گرگٹ کی طرح بنادے !حضورتاجدارختم نبوتﷺکی دعاپروہ کانپااوروہیں پرہی تھرتھرانے لگا۔
حضورتاجدارختم نبوتﷺکاحکم بن العاص کے خلاف دعائے جلال کرناآپ ﷺکے عفووحلم کے منافی نہیں ہے ، اس لئے کہ اس وقت آپﷺکواللہ تعالی کی طرف سے حکم بن العاص کے خلاف دعائے جلال کرنے کی اجازت ملی تھی بلکہ ہمارے نزدیک توحضورتاجدارختم نبوتﷺکاہرہرفرمان شریف اورہرہرعمل اللہ تعالی کے اذن پرمبنی ہے ، جب ہم اولیاء اللہ کے لئے اس طرح کانظریہ رکھتے ہیں تووہ توامام الانبیاء علیہم السلام ہیں ۔
وارث کامل ولی کاہرقول وفعل اللہ تعالی کے اذن سے ہوتاہے ، ایسا حضورتاجدارختم نبوتﷺکے لئے عقیدہ ہو ،کیونکہ آپﷺعلم ، عمل اورحال کے اعتبارسے تمام مخلوق سے افضل واعلی ہیں۔
(روح البیان:إسماعیل حقی بن مصطفی الإستانبولی الحنفی الخلوتی المولی أبو الفداء (۴:۴۹۱)
پانچ گستاخوں کاعبرت ناک انجام
إِنَّا کَفَیْناکَ الْمُسْتَہْزِئِینَ ۹۵)بقمعہم وإہلاکہم قال البغوی یقول اللہ تعالی لنبیہ صلی اللہ علیہ وسلم فاصدع بامر اللہ ولا تخف أحدا غیر اللہ فان اللہ تعالی کافیک ممن عاداک کما کفاک المستہزئین وہم خمسۃ نفر من رؤساء قریش الولید بن المغیرۃ المخزومی وکان رأسہم والعاص بن وائل السہمی والأسود ابن المطلب بن الحارث بن اسد بن عبد العزی ابو زمعۃ (وکان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قد دعا علیہ فقال اللہم أعمہ بصرہ واثکلہ بولدہ)والأسود بن عبد یغوث ابن وہب بن عبد مناف بن زہرۃ والحارث بن قیس بن الطلالۃفاتی جبرئیل محمّدا صلی اللہ علیہ وسلم والمستہزء ون یطوفون بالبیت فقام جبرئیل وقام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم الی جنبہ فمر بہ الولید بن المغیرۃ فقال جبرئیل یا محمّد کیف تجد ہذا قال بئس عبد اللہ قال قد کفیت وأومأ الی ساق الولید فمر برجل من خزاعۃ ینال بریش نبالہ وعلیہ بردیمان وہو یجر إزارہ فتعلقت شظیۃ من نبل بإزارہ فمنعہ الکبر ان یبطامن فینزعہا وجعلت تضرب ساقہ فخدشتہ فمرض فمات ۔ومر بہ العاص بن وائل فقال جبرئیل کیف تجد ہذا یا محمّد قال بئس عبد اللہ فاشار جبرئیل الی اخمص رجلیہ وقال قد کفیت فخرج علی راحلتہ ومعہ ابنان لہ یتنزہ فنزل شعبا من تلک الشعاب فوطی علی شبرقۃ فدخلت منہا شوکۃ فی اخمص رجلہ فقال لدغت لدغت فطلبوا فلم یجدوا شیئا وانتفخت رجلہ حتّی صارت مثل عنق بعیر فمات مکانہ ومر بہ الأسود بن المطلب فقال جبرئیل علیہ السلام کیف تجد ہذا قال عبد سوء فاشار بیدہ الی عینیہ وقال قد کفیت فعمی قال ابن عباس رضی اللہ عنہما رماہ جبرئیل بورقۃ خضراء فذہب بصرہ ووجعت عیناہ فضرب برأسہ الجدار حتّی ہلک وفی روایۃ الکلبی أتاہ جبرئیل وہو فی اصل شجرۃ ومعہ غلام لہ فجعل ینطح رأسہ بالشجرۃ ویضرب وجہہ بالشوک فاستغاث بغلامہ فقال غلامہ لا اری أحدا یصنع بک شیئا غیر نفسک حتّی مات وہو یقول قتلنی رب محمّدومر بہ الأسود بن عبد یغوث فقال جبرئیل کیف تجد ہذا قال بئس عبد اللہ علی انہ ابن خالی فقال قد کفیت وأشار الی بطنہ فاستسقی بطنہ فمات جنبا وفی روایۃ الکلبی انہ خرج من اہلہ فاصابہ السموم فاسود حتّی صار حبشیا فاتی اہلہ فلم یعرفوہ وأغلقوا دونہ الباب حتّی مات وہو یقول قتلنی رب محمّدومر بہ الحارث ابن قیس فقال جبرئیل کیف تجد ہذا قال عبد سوء فاوما الی رأسہ وقال قد کفیت فامتخط قبحا فقتلہ وقال ابن عباس انہ أکل حوتا مالحا فاصابہ العطش فلم یزل یشرب علیہ من الماء حتّی انفذ بطنہ فمات۔
ترجمہ :یہ لوگ جو آپ ْﷺکی گستاخی کرتے ہیں ان سے نمٹنے کے لئے ہم کافی ہیں ۔ یعنی ان کی جڑاکھاڑ دیں گے اوران کو برباد کردیں گے ۔
امام بغوی رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے لکھاہے کہ اللہ تعالی نے اپنے نبی ﷺکو حکم دیاکہ آپ ﷺ اللہ تعالی کاحکم پکارکرسنائو، اللہ تعالی کے سواکسی سے مت ڈرو ، تمھارے لئے اللہ تعالی کافی ہے ، مذاق اڑانے والوں اورتمھاری گستاخی کرنے والوں کے مقابلے میں اللہ تعالی نے تمھاری مددکی ، رسول اللہ ﷺکی گستاخی کرنے والے اورآپ ﷺکامذاق اڑانے والے قریش کے پانچ سردارتھے ۔(۱ ) ولید بن مغیرہ مخزومی یہ سب کاسرکردہ تھا، (۲) عاص بن وائل ۔ (۳) اسود بن مطلب بن حارث بن اسد بن عبدالعزی ۔رسول اللہ ﷺنے اس کے خلاف دعاکی تھی اوریہ عرض کی تھی : اے اللہ ! اس کو اندھاکردے اوراس کو لاولدکردے ۔(۴) اسود بن عبدیغوث بن وہب بن مناف بن زہرہ ۔(۵) حارث بن قیس بن الطلالہ ۔
رسول اللہ ﷺکی گستاخیاں کرنے والے کعبہ مشرفہ کاطواف کررہے تھے ، ولید بن مغیرہ آپ ﷺکے پاس سے گزرااتنے میں حضرت سیدناجبریل امین علیہ السلام آگئے اوررسول اللہ ﷺکے پہلومیں کھڑے ہوگئے اورکہاکہ یارسول اللہ ﷺ! یہ کیساشخص ہے ؟ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: یہ بہت براآدمی ہے ۔ حضرت جبریل امین علیہ السلام نے عرض کیا: آپﷺ کاکام اللہ تعالی کی طرف سے پوراکردیاگیاہے ۔ پھرجبریل امین علیہ السلام نے ولید بن مغیرہ کی پنڈلی کی طرف اشارہ کیاچنانچہ ایک دن ولید ایک خزاعی آدمی کی طرف سے ہوکر نکلاوہ شخص اپنے تیروں کے پر درست کررہاتھا، ولید اس وقت یمنی چادراوڑھے غرورسے چل رہاتھا، خزاعی شخص کے تیرکی بوری ولید بن مغیرہ کے تہبندسے الجھ گئی ، انتہائی غرورکی وجہ سے نیچے جھک کر بوری کو تہبندسے نکالناگوارانہ کیااورزورسے اپنی پنڈلی کو دے پٹکااوربور ی سے پنڈلی میں خراش لگ گئی اوراسی خراش کی وجہ سے یہ مرگیا۔
عاص بن وائل بھی رسول اللہ ﷺکے پاس سے گزرااورجبریل امین علیہ السلام نے دریافت کیاکہ یہ کیساشخص ہے ؟ رسول اللہ ﷺنے فرمایاکہ یہ بہت براآدمی ہے ۔حضرت جبریل امین علیہ السلام نے عاص بن وائل کے قدموں کی طرف اشارہ کیا اورعرض کیاکہ آپﷺ کاکام ہوگیاہے اب آپﷺ کو اس کے مقابلے میں کچھ کرنانہیں پڑے گا ،چنانچہ ایک دن عاص بن وائل تفریح کرنے کے لئے اونٹنی پر سوارہوکر اوراپنے دونوں لڑکوں کو ساتھ لیکر مکہ سے باہر نکلااورکسی گھاٹی میں جاکر اترا،وہاں کپڑے کاکوئی ٹکڑاتھا،عاص نے اس پر قدم رکھا،کپڑے میں کوئی کانٹاتھاوہ اس کے تلوے میں چبھ گیا، عاص فوراً چلایامجھے کسی کیڑے نے ڈس لیاہے ۔لوگوں نے اس کے تلوے کو دیکھالیکن تلاش بسیارکے باوجود کوئی بھی چیز نظرنہ آئی ۔ٹانگ سوج کراونٹ کی گردن کی طرح ہوگئی ۔آخراسی وقت وہیں مرگیا۔
اسود بن مطلب بھی حضرت سیدناجبریل امین علیہ السلام کی موجود گی میں رسول اللہ ﷺکی طرف سے گزرااورجبریل امین علیہ السلام کے سوال وجواب میں رسول اللہ ﷺنے فرمایا: یہ براآدمی ہے اورجبریل امین علیہ السلام نے حسب سا بق کہاکہ آپ ﷺ کاکام کردیاگیاہے اوراس کی آنکھوں کی طرف اشارہ کیاچنانچہ اسود اندھاہوگیا۔ حضرت سیدناعبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہمافرماتے ہیں کہ حضرت سیدناجبریل امین علیہ السلام نے ایک سبز پتااسود پر ماراجس سے اس کی نگاہ جاتی رہی اورآنکھوں میں اتنادردہواکہ دیوارسے سرمارنے لگاآخرکاردیوار میں سرمارمارکرجہنم واصل ہوگیا۔
کلبی کی روایت میں آیاہے کہ اسود اپنے غلام کے ساتھ کسی درخت کی جڑ کے پاس بیٹھاہواتھاکہ حضرت سیدناجبریل امین علیہ السلام وہاں پہنچ گئے اوراسکاسرپکڑ کر درخت میں ٹکرانے اوراس کے منہ پر کانٹے مارنے لگے اسود نے واویلامچادیااورغلام سے مددکاخواستگارہوا، غلام نے کہاکہ مجھے توکوئی اورنظرنہیں آرہا،آپ خود ہی یہ حرکت کررہے ہیں ،کہنے لگاکہ مجھے محمد ﷺ کے رب نے قتل کردیاہے ،یہی الفاظ کہتے کہتے وہ مرگیا۔
اسود بن عبدیغوث بھی گزراتھااورجبریل امین علیہ السلام کے سوال کے جواب میں رسول اللہ ﷺنے فرمایاکہ یہ بھی براآدمی ہے ،باوجودیکہ یہ میرے ماموں کابیٹاہے ۔حضرت سیدناجبریل امین علیہ السلام نے عرض کیا: اب آپﷺ کو اس کے دفاع کی کوئی ضرورت نہیں ہے ،یہ کہتے ہوئے اسود کے پیٹ کی طرف اشارہ کیاجس سے اس کو استسقاء کی بیماری لگ گئی جس کی وجہ سے یہ بھی مرگیا۔
کلبی کی روایت میں آیاہے کہ اسود ایک دن گھرسے نکلاباہرلولگ گئی ، لولگنے کی وجہ سے اس کارنگ انتہائی کالاہوگیاجب گھرآیاتواس کے گھروالوں نے اس کو پہچاننے سے انکارکردیااورگھرسے باہر نکال کردروازہ بندکردیا،اسی حالت میں وہ مرگیااورمرتے مرتے کہتارہاکہ مجھے محمدﷺکے رب تعالی نے قتل کیاہے ۔حارث بن قیس کے متعلق بھی رسول اللہ ْﷺنے جبریل امین علیہ السلام سے فرمایاتھاکہ یہ برابندہ ہے ،حضرت جبریل امین علیہ السلام نے حارث کے سرکی جانب اشارہ کرکے عرض کیاکہ آپﷺ کاکام کردیاگیاہے اب آپ ﷺکو ضرورت نہیں ۔چنانچہ اس کی ناک سے پیپ بہنے لگی اسی سے وہ جہنم واصل ہوا۔
حضرت سیدناعبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہمافرماتے ہیں کہ حارث بن قیس نے نمکین مچھلی کھائی تھی جس سے پیاس کی شدت ہوگئی اوربرابرپانی پیتارہاآخرکاراس کاپیٹ پھٹ گیااوروہ مرگیا۔
(التفسیر المظہری:المظہری، محمد ثناء اللہ(۵:۳۱۸)
(دلائل النبوۃ لأبی نعیم الأصبہانی:أبو نعیم أحمد بن عبد اللہ بن أحمد بن إسحاق بن موسی بن مہران الأصبہانی:۲۶۸)
بحمداللہ تعالی ۸ ذوالجہ ۱۴۴۱ھ /۳۰ جولائی ۲۰۲۰ء) وقت ۶بج کر۱۰منٹ )