فدایان ِ ختم نبوت کی قربانیوں کامختصرتذکرہ
{تَبَارَکَ الَّذِیْ نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلٰی عَبْدِہٖ لِیَکُوْنَ لِلْعٰلَمِیْنَ نَذِیْرَا}(۱)
ترجمہ کنزالایمان:بڑی برکت والا ہے وہ کہ جس نے اُتارا قرآن اپنے بندہ پر جو سارے جہان کو ڈر سُنانے والا ہو۔
ترجمہ ضیاء الایمان :اللہ تعالی بڑی برکت والا ہے جس نے اپنے بندے پرقرآن کریم نازل فرمایا تا کہ وہ تمام جہان والوں کو ڈر سُنانے والا ہو۔
حضورتاجدارختم نبوتﷺکی ختم نبوت کابیان
المرارُوَالْمُرَادُ بِ’’الْعَالَمِینَ‘‘ ہُنَا الْإِنْسُ وَالْجِنُّ، لِأَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَدْ کَانَ رَسُولًا إِلَیْہِمَا، وَنَذِیرًا لَہُمَا، وَأَنَّہُ خَاتَمُ الْأَنْبِیَاء۔
ترجمہ :امام ابوعبداللہ محمدبن احمدالقرطبی المتوفی : ۶۷۱ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ العالمین سے مراد یہاں انسان اورجن ہیں اس لئے کہ حضورتاجدارختم نبوتﷺتمام کی طرف رسول بناکربھیجے گئے ہیں ۔اورآپ ﷺسب کو ڈرسنانے والے ہیں اورآپ ﷺخاتم الانبیاء ہیں۔
(تفسیر القرطبی:أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن أبی بکر شمس الدین القرطبی (۱۳:۴)
معارف ومسائل
(۱)آج جب میں کسی مسلمان کو قادیانی سے ہاتھ ملاتے دیکھتا ہوں۔ تو مجھے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے کٹے ہوئے ہاتھ یاد آجاتے ہیں۔ جب میں کسی مسلمان کو قادیانی سے بغلگیر ہوتے اور قادیانی کے گلے میں بازو حمائل کیے دیکھتا ہوں تو مجھے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے کٹے ہوئے بازو تڑپانے لگتے ہیں۔ جب میں کسی مسلمان کو پائوں گھسیٹتے ہوئے کسی قادیانی کے گھر میں داخل ہوتے ہوئے دیکھتا ہوں تو مجھے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے کٹے ہوئے پائوں رلانے لگتے ہیں۔ جب میں کسی مسلمان کو قادیانی سے ٹھنڈی میٹھی باتیں کرتا سنتا ہوں تو میرے کانوں میں میدان یمامہ میں مرتدین کے خلاف لڑتے ہوئے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی زبان سے تکبیر کی ولولہ انگیز صداگونجنے لگتی ہیں۔ جب میں کسی مسلمان کو قادیانیوں کی شادیوں میں ہنس ہنس کر شامل ہوتے دیکھتا ہوں تو مجھے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے یتیم بچے یاد آجاتے ہیں۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی کلمہ طیبہ پڑھتے تھے۔ یہ مسلمان بھی کلمہ طیبہ پڑھتے ہیں۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی حضورتاجدارختم نبوتﷺکے امتی تھے۔ یہ مسلمان بھی حضورتاجدارختم نبوتﷺ کے امتی ہونے کا اقرار کرتے ہیں۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی عقیدہ ختم نبوت پر پکا یقین رکھتے تھے۔ یہ مسلمان بھی عقیدہ ختم نبوت پر ایمان رکھنے کے پرزور دعوے دار ہیں۔ لیکن صحابہ رضی اللہ عنہم کی ختم نبوت کے ڈاکوئوں سے جنگ۔ مگر اس مسلمان کی ختم نبوت کے ڈاکوئوں سے دوستی۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا عقیدہ ختم نبوت پر سب کچھ قربان۔ مگر اس مسلمان کا ختم نبوت کے باغیوں سے کاروبار۔ انہوںنے حضورتاجدارختم نبوتﷺ کی عزت وناموس پر اپنا لہو قربان کردیا۔ اور یہ قادیانیوں کا سوشل بائیکاٹ کرنے کو بھی تیار نہیں۔ یہ تفاوت کیوں؟قول وفعل میں اتنا خوفناک تضاد کیوں؟
٭…کہیں ایسا تو نہیں کہ اس نے کلمہ طیبہ صرف حلق سے اوپر اوپر پڑھا ہے؟
٭…کیا حضورتاجدارختم نبوتﷺکے امتی ہونے کا اعلان صرف نوک زبان تک ہے؟
٭…کیا عقیدہ ختم نبوت پر ایمان ہونے کااعلان صرف فضا میں الفاظ بازی تو نہیں؟
٭…حضورتاجدارختم نبوتﷺکے عشق کا دعویٰ محض سخن طرازی تو نہیں؟کیونکہ اس مسلمان کا کردار ان کے دعویٰ کی نفی کررہا ہے۔
٭…مسلمانو!جس جسم کے رگ و ریشہ میںحضورتاجدارختم نبوتﷺکی محبت ہوتی ہے۔
٭…وہ جسم قادیانیوں سے ہاتھ نہیں ملایا کرتے۔
٭…وہ جسم قادیانیوں سے بغل گیریاں نہیں کرتا۔
٭…وہ جسم قادیانی کی تقریب میں شامل نہیں ہوسکتا۔
آئیے!اپنے اپنے جسم میں محبت حضورتاجدارختم نبوتﷺ کو دیکھتے ہیں۔ کیونکہ اللہ تعالی سب کچھ دیکھ رہا ہے۔ اور موت کا فرشتہ بیٹھا اللہ تعالی کے حکم کا انتظار کررہا ہے۔
(۲)دین اسلام میں عقیدہ توحیدکے بعد دوسرا اہم اور بنیادی عقیدہ ختم نبوت کاہے، پہلی امتوں کے لیے اس بات پر ایمان لانا لازم تھا کہ ان کے انبیاء ورسل علیہم الصلوٰۃ والسلام کے بعد اور نبی ورسول آئیں گے اور اس امت کے لیے اس بات پر ایمان لانا ضروری ہے کہ آپﷺ کے بعد قیامت تک کوئی اور نبی یا رسول نہیں آئے گا، حضورتاجدارختم نبوتﷺ کے بعد جو بھی پیدا ہوگا وہ امتی کہلائے گا لیکن نبی نہیں بن سکتا، حضرت سیدنا عیسیٰ علی نبینا وعلیہ الصلوٰۃ والسلام ضرور قرب قیامت میں تشریف لائیں گے لیکن ان کی آمد کامقصد بھی حضورتاجدارختم نبوتﷺ کی نبوت کا پرچار ہوگا اور وہ آپ ﷺسے پہلے بھی تشریف لاچکے ہیں اور اپنے دور نبوت میں وہ بنی اسرائیل کو آپ ﷺ کی آمد کی خوشخبری بھی سنا چکے ہیں جوکہ سورۃ الصف میں موجود ہے کہ میرے بعد ایک رسول کریم ﷺتشریف لائیں گے جن کا نام نامی اسم گرامی احمدﷺ ہوگا۔
خود آپﷺنے بھی اپنے متعلق ارشاد فرمایا جو کتب احادیث میں موجود ہے کہ میں حضر ت سیدنا ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام کی دعائوں کا ثمر اور حضرت سیدنا عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بشارت بن کر آیا ہوں۔ ہمارا ایمان ہے کہ یہ دین اللہ تعالیٰ کا آخری دین ہے اور اس کا اعلان پروردگار کریم نے حجۃ الوداع کے موقع پر خود زبان نبوت سے کروادیا ہے کہ آج میں نے تمہارے لیے دین کو کامل کردیا ہے اور تم پر اپنا احسان پورا کردیا ہے اور تمہارے لیے دین اسلام کو پسند کیا ہے (سورۃ المائدہ)اور ساتھ یہ بھی ایمان ہے کہ آپ ﷺ اللہ تعالیٰ کے آخری نبی ہیں اور اس کا ذکر بھی قرآن مجید میں سورۃ احزاب میں واضح طورپر موجود ہے کہ حضورتاجدارختم نبوتﷺتمہارے مردوں میں کسی کے باپ نہیںہیں البتہ اللہ تعالیٰ کے رسول کریمﷺاور آخری نبی ہیں۔
در حقیقت حضورتاجدارختم نبوتﷺ کی ختم نبوت اس امت پر پروردگار کریم کا احسان عظیم ہے کہ اس عقیدے نے اس امت کو وحدت کی لڑی میں پرو دیا ہے، پوری دنیا میں آج مسلمان عقائد وعبادات، احکامات اور ارکان دین کے لحاظ سے جو متفق ہیں وہ صرف اسی عقیدہ کی برکت ہے،مثلاً حضورتاجدارختم نبوتﷺکے زمانے میں جس طرح پانچ نمازیں فرض تھیں آج بھی وہی ہیں، رمضان المبارک کے روزے، نصاب زکوٰۃ، حج وعمرہ کے ارکان، صدقہ فطر وعشر کانصاب، قربانی کا طریقہ، ایام عیدین سب اسی طرح ہے جس طرح حضرت محمد ﷺکے دور میں تھا، یہ سب عقیدہ ختم نبوت کی وجہ سے ہے ورنہ اسلامی عقائد وارکان سلامت نہ رہتے، اسلامی عقائد وارکان کی سلامتی کا سب سے بڑا سبب عقیدہ ختم نبوت ہے چونکہ یہ عقیدہ اسلام کی عالمگیریت اور حفاظت کا ذریعہ ہے اس لیے دنیا ئے کفر شروع سے ہی اس عقیدہ میں دراڑیں ڈالنے میں مصروف ہے تاکہ دین اسلام کی عالمگیریت اور مقبولیت میں رکاوٹ کھڑی کی جاسکے اور کسی طرح اس کے ماننے والوں کے ایمان کو متزلزل کیا جاسکے، ان سازشوں کا سلسلہ دور نبوت میں مسلیمہ کذاب سے شروع ہوا اور فتنہ قادیانیت تک آن پہنچا لیکن ہر دور میں قدرت نے ان سازشوں کو ناکام کیا ہے اور ان شاء اللہ العزیز قیامت تک یہ سازشیں ناکام ہوتی رہیں گی اور دین اسلام اور ختم نبوت کا پرچم سدا بلند رہے گا۔
ختم نبوت کے مجاہد اول حضرت سیدناابوبکررضی اللہ عنہ
اللہ تعالی نے اشرف الخلائق حضرت انسان کی ہدایت کے لیے کم وبیش ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کرام علیہم السلام کو مبعوث فرمایا، سنۃ اللہ کے مطابق اس سلسلۃ الذہب کو حضورتاجدارختم نبوتﷺپر ختم کیاکیوںکہ دنیا میں اللہ تعالی کا دستور ابتدائے آفرینش سے چلا آیا ہے کہ ہر چیز کا مبدا بھی لازم ہے اور منتہاء بھی ، چاہے وہ مادی ہو یا روحانی لہٰذا نبوت کے اس وہبی دستور کے مطابق حضرت سیدناآدم علیہ الصلاۃ والسلام سے سلسلہ نبوت کا آغاز ہوا، اور حضورتاجدارختم نبوتﷺپر یہ سلسلہ نبوت ختم ہواگویا یہ ایک قدرتی قانون کے تحت ہوا۔
حضورتاجدارختم نبوتﷺکی بعثت ایک انقلاب آفریں بعثت ہے، آپﷺکی بعثت سے دنیا میں تمام ظلمتیں چھٹ گئیں، دنیا جو ظلمت کدہ بنی ہوئی تھی پُرنور اور روشن ہوگئی،جس کی برکتوں کے اثرات آج چودہ صدیوں کے بعد بھی محسوس کیے جارہے ہیں اور قبیل قیامت تک محسوس کیے جاتے رہیں گے اور پھر حشر ونشر میں بھی اور میزان وحساب میں بھی آپ کی برکتیں جلوہ گر ہوںگی۔ انشاء اللہ!
آپﷺ کے وصال شریف کے بعدعظیم فتنوں نے سراٹھایا، مگر حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی غیرت ایمانی، حمیت اسلامی، بلند حوصلگی اور حکمت عملی نے تمام فتنوں کو ایک سال سے بھی کم عرصے میں کافور کرکے رکھ دیا۔ اللہ تعالیٰ آپ رضی اللہ عنہ کو پوری امت کی طرف سے بہترین بدلہ عطا فرمائے۔
یہ بات تعجب خیز ہے کہ یہود ونصاریٰ نے سب سے پہلے اسلام کے خلاف جو سازش رچائی وہ تھی عقیدہ ختم نبوتﷺپر کاری ضرب تھی اسی لیے کہ آپﷺکے وصال شریف کے بعد جو پانچ افراد نے دعوی نبوت کیا۔
الاستاذ جمیل عبداللہ محمدالمصری کی تحقیق کے مطابق ان سب کے اہل کتاب یہود ونصاریٰ کے ساتھ گہرے مراسم تھے۔ تاریخ کے مستند حوالوں سے اپنی تحقیقی کتاب ’’اثر اھل الکتاب فی الحروب والفتن الداخلیۃ فی القرن الاول‘‘میں ثابت کیا ہے۔ دوسری جانب حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بھی اس کو گویا بھانپ لیا، خاص طور پر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اور آپ نے {ا ینقص الدین وانا حی }کا تاریخی جملہ کہہ کر صحابہ کرام کو اس بات پر آمادہ کیا کہ وہ عقیدہ ختم نبوتﷺکی اہمیت خوب اچھی طرح سمجھیں اور تاریخ کے رُخ پھیردینے والے اس فتنے کی سرکوبی کے لیے کمربستہ ہوجائیں۔ الحمدللہ!حضرت سیدنا ابوبکررضی اللہ عنہ کی کوششوں اور اللہ تعالی کے فضل سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اس بات پر اجماع کرلیا کہ عقیدئہ ختم نبوت کو تحفظ فراہم کیا جائے، نبوت کے دعویداروں کو کافر قرار دیا جائے اور ان کے خلاف جہاد فرض گردانا جائے، اس طرح یہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا سب سے پہلا اجماع منعقد ہوگیا کہ ختم نبوت کا تحفظ ایک اہم ترین فریضہ ہے اور دعویِ نبوت کرنے والا کافر ہے، اس سے جہاد فرض ہے۔
بس پھر کیا تھا، اس عقیدے کے تحفظ کی خاطر مدینہ منورہ سے گیارہ لشکر ان مدعیان نبوت کی سرکوبی کے لیے حضرت سیدناابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے حکم پر میدان کارزار میں کودپڑتے ہیں اور دیکھتے ہی دیکھتے ایک سال سے بھی کم عرصہ میں یا تو مدعیان نبوت اپنے انجام کو پہنچ جاتے ہیں، یا توبہ وانابت کرکے دوبارہ اسلام میں داخل ہوجاتے ہیں۔
ان لشکروں کے قائدین کے اسماء گرامی
(۱)…حضرت سیدناخالد بن سعید بن عاص رضی اللہ عنہ کومشاف بلاد شام کی طرف روانہ کیاگیا۔
(۲)…حضرت سیدناعمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کو دومۃ الجندل کی جانب روانہ کیاگیا۔
(۳)…حضرت سیدناخالد بن ولید رضی اللہ عنہ کوبُزاخہ، البطاح، یمامہ کی جانب روانہ کیاگیا۔
(۴)…حضرت سیدناعکرمہ بن ابی جہل رضی اللہ عنہ کویمامہ، عمان ومہرہ، حضرت موت، یمن کی جانب روانہ کیاگیا۔
(۵)…حضرت سیدناشرحبیل بن حسنہ رضی اللہ عنہ کویمامہ، حضرت موت کی طرف روانہ کیاگیا۔
(۶)…حضرت سیدناعلاء ابن الحضرمی رضی اللہ عنہ کو بحرین، دارین کی طرف روانہ کیاگیا۔
(۷) حضرت سیدناحذیفہ بن محض الغلفانی رضی اللہ عنہ کو عمان کی جانب روانہ کیاگیا۔
(۸)…حضرت سیدناعرفجہ ابن ہرثمہ البارقی رضی اللہ عنہ عمان، مہرہ، حضرت موت، یمن کی طرف روانہ کیاگیا۔
(۹)…حضرت سیدناطریفہ بن حاجزرضی اللہ عنہ کو شرق حجاز، بنو سلیم کی طرف روانہ کیاگیا۔
(۱۰)…حضرت سیدنامہاجر بن ابی امیہ رضی اللہ عنہ کویمن، کندہ، حضرت موت کی طرف روانہ کیاگیا۔
(۱۱)… حضرت سیدناسویدا بن مقرن الذنی رضی اللہ عنہ کو تہامۃ الیمن کی طرف روانہ کیاگیا۔
اگرحضرت سیدناابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ خلیفہ نہ بنتے تو۔۔۔
عن أبی ہریرۃ قال: واللہِ الذی لاَ الٰہَ الّا ھو لَولاَ انَّ ابا بکرٍ استَخْلَفَ مَا عُبِدَ اللہ۔
ترجمہ
حضرت سیدناابوھریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اس ذات کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں، اگرحضرت سیدنا ابوبکررضی اللہ عنہ حضورتاجدارختم نبوتﷺکے بعد خلیفہ نہ بنائے جاتے تو اللہ تعالی کی عبادت نہ کی جاتی۔
(کنز العمال:علاء الدین علی بن حسام الدین ابن قاضی خان القادری(۵:۶۰۳)
اگراللہ تعالی حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ کے ذریعے ہم پراحسان نہ فرماتاتو!
قَالَ عَبْدُ اللَّہِ بْنُ مَسْعُودٍ:لَقَدْ قُمْنَا بَعْدَ رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَقَامًا کِدْنَا نَہْلِکُ فِیہِ، لَوْلَا أَنَّ اللَّہَ مَنَّ عَلَیْنَا بِأَبِی بَکْرٍ، أَجْمَعْنَا عَلَی أَنْ لَا نُقَاتِلَ عَلَی ابْنَۃِ مَخَاضٍ وَابْنَۃِ لَبُونٍ، وَأَنْ نَأْکُلَ قُرًی عَرَبِیَّۃً، وَنَعْبُدَ اللَّہَ حَتَّی یَأْتِیَنَا الْیَقِینُ، فَعَزَمَ اللَّہُ لِأَبِی بَکْرٍ عَلَی قِتَالِہِمْ۔
ترجمہ :حضرت سیدنا عبداللہ ابن مسعودرضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:حضورتاجدارختم نبوتﷺکے وصال شریف کے بعد ہم ہلاکت خیز حالات سے دوچار ہوگئے تھے مگر اللہ تعالی نے حضرت سیدناابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ (جیسی بصیرت افروز)شخصیت کے ذریعہ ہم پر احسان عظیم کیا، ہم لوگ (یعنی جماعت صحابہ کرام رضی اللہ عنہم)یہ طے کرچکے تھے کہ مانعین زکوٰۃ کے ساتھ قتال نہیں کریں گے اور جو کچھ تھوڑا بہت رزق میسر آئے گا اس پر اکتفا کریں گے اور اس طرح موت تک اللہ تعالی کی عبادت کرتے رہیں گے مگر اللہ رب العزت نے حضرت سیدناابوبکررضی اللہ عنہ کو مانعین کے ساتھ قتال کا پختہ حوصلہ دیا۔
(الکامل فی التاریخ:أبو الحسن علی بن أبی الکرم محمد الجزری، عز الدین ابن الأثیر (۲:۲۰۱)
آج پھربیسویں صدی میں مسلمانوں کی گمراہیوں اورلبر ل وسیکولر کی فکری یلغار کو دیکھ کر دل برداشتہ ہوتاہے اور{رِدَّۃٌ ولا ابا بکرٍ لھا }کہ ارتداد نے ایک بار پھر زوردار سراٹھایا ہے مگر افسوس اس کا مقابلہ کرنے کے لیے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ جیسا حوصلہ نہیں، ان جیسی حمیت وغیرت نہیں، واقعتا بات بالکل درست ہے جیسی فکری یلغار حضرت سیدناابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دور میں تھی آج بھی ویسی ہی کیفیت ہے، تب حضرت سیدناابوبکررضی اللہ عنہ تھے مگر آج کوئی ابوبکر تو کیا ان کا عشر عشیر بھی نہیں، اللہ تعالی ہی مدد اور حفاظت فرمائے، آمین۔
مجاہدختم نبوت حضرت سیدناابومسلم الخولانی رضی اللہ عنہ
عَنْ شُرَحْبِیلَ الْخَوْلَانِیِّ، قَالَ:بَیْنَا الْأَسْوَدُ بْنُ قَیْسِ بْنِ ذِی الْحِمَارِالْعَنْسِیُّ بِالْیَمَنِ فَأَرْسَلَ إِلَی أَبِی مُسْلِمٍ فَقَالَ لَہُ: أَتَشْہَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ رَسُولُ اللہِ؟ قَالَ:نَعَمْ قَالَ: فَتَشْہَدُ أَنِّی رَسُولُ اللہِ؟ قَالَ: مَا أَسْمَعُ قَالَ: فَأَمَرَ بِنَارٍ عَظِیمَۃٍ فَأُجِّجَتْ وَطُرِحَ فِیہَا أَبُو مُسْلِمٍ فَلَمْ تَضُرَّہُ فَقَالَ لَہُ أَہْلُ مَمْلَکَتِہِ:إِنْ تَرَکْتَ ہَذَا فِی بَلَدِکَ أَفْسَدَہَا عَلَیْکَ فَأَمَرَہُ بِالرَّحِیلِ فَقَدِمَ الْمَدِینَۃَ وَقَدْ قُبِضَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَاسْتُخْلِفَ أَبُو بَکْرٍ فَعَقَلَ رَاحِلَتَہُ عَلَی بَابِ الْمَسْجِدِ وَقَامَ إِلَی سَارِیَۃٍ مِنْ سَوَارِی الْمَسْجِدِ یُصَلِّی إِلَیْہَا فَبَصُرَ بِہِ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللہُ تَعَالَی عَنْہُ فَأَتَاہُ فَقَالَ:مِنْ أَیْنَ الرَّجُلُ؟ قَالَ:مِنَ الْیَمَنِ قَالَ:فَمَا فَعَلَ عَدُوُّ اللہِ بِصَاحِبِنَا الَّذِی حَرَّقَہُ بِالنَّارِ فَلَمْ تَضُرَّہُ؟ قَالَ:ذَاکَ عَبْدُ اللہِ بْنُ ثَوْبٍ قَالَ:نَشَدْتُکَ بِاللہِ أَنْتَ ہُوَ؟ قَالَ:اللہُمَّ نَعَمْ قَالَ:فَقَبَّلَ مَا بَیْنَ عَیْنَیْہِ ثُمَّ جَاء َ بِہِ حَتَّی أَجْلَسَہُ بَیْنَہُ وَبَیْنَ أَبِی بَکْرٍ وَقَالَ:الْحَمْدُ لِلَّہِ الَّذِی لَمْ یُمِتْنِی مِنَ الدُّنْیَا حَتَّی أَرَانِی فِی أُمَّۃِ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَنْ فُعِلَ بِہِ کَمَا فُعِلَ بِإِبْرَاہِیمَ خَلِیلِ الرَّحْمَنِ عَلَیْہِ السَّلَامُ ۔
ترجمہ :حضرت سیدناشرحبیل رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ مسیلمہ نے اپنی قوم کو اپنے جھنڈے تلے جمع کرنے کیلئے اور اپنی نبوت کا گرویدہ بنانے کیلئے انہیں کئی پابندیوں سے آزاد کردیا تاکہ وہ اسلام کو چھوڑ کر اس کے حامی بن جائیں۔ اس سے نماز کی فرضیت ساقط کردی۔ شراب اور زنا کو حلال کردیا۔ اسود عنسی نے اپنی نبوت کا دعویٰ یمن کے شہر صنعاء سے کیا۔ اس نے جب نبوت کا دعویٰ کیا تو ابو مسلم خولانی ایک صحابی رضی اللہ عنہ کو اپنے پاس طلب کیا۔ ان سے کہا کہ تم اس بات کی گواہی دو کہ میں خدا کا رسول ہوں۔ انہوں نے ٹالتے ہوئے کہا کہ میں سنتا نہیں ہوں۔ دوسرا سوال اس نے ابو مسلم خولانی رضی اللہ عنہ سے یہ کیا۔ کیا تم یہ گواہی دیتے ہو کہ محمدﷺ خدا کے رسول ہیں۔ انہوں نے فوراً کہا ہاں میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد مصطفیﷺ اللہ کے رسول ہیں۔ اس نے یکے بعد دیگرے تین بار یہ دونوں سوال دہرائے۔ آپ نے ہر بار اس کو وہی پہلا جواب دیا۔ اس نے اپنے عقیدت مندوں کو ایندھن جمع کرکے آگ بھڑکانے کا حکم دیا۔ جب آگ کے شعلے آسمان سے باتیں کرنے لگے تو اس نے حکم دیا کہ حضرت سیدنا ابو مسلم خولانی رضی اللہ عنہ کو رسی میں باندھ کر اس بھڑکتی ہوئی آگ میں پھینک دیا جائے۔ اس کے حکم کی تعمیل کی گئی۔ لیکن لوگ یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ ان لپکتے ہوئے شعلوں نے ان کا بال بھی بیگا نہ کیا۔ جو لباس انہوں نے پہنا ہوا تھا، وہ بھی صحیح سلامت تھا۔ اس کا رنگ بھی تبدیل نہ ہوا۔ اسود عنسی کے مشیروں نے اسے حضرت سیدناابو مسلم خولانی رضی اللہ عنہ کو فوراً نکال دینے کا مشورہ دیا۔ چنانچہ ان کو وہاں سے نکال دیا گیا۔ جب یہ واقعہ رونما ہوا حضورتاجدارختم نبوتﷺ کا وصال شریف ہو چکا تھا اور حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ خلیفہ بن چکے تھے۔ حضرت سیدناابو مسلم خولانی رضی اللہ عنہ مدینہ تشریف لائے۔ مسجد نبویﷺ کے دروازے پر اپنے اونٹ کو بٹھایا اور اندر جاکر نماز کی نیت باندھ لی۔ حضرت سیدناعمر فاروق رضی اللہ عنہ نے انہیں دیکھا۔ جب حضرت سیدناابو مسلم رضی اللہ عنہ نماز ادا کر چکے تو حضرت سیدناعمررضی اللہ عنہ نے پوچھا آپ کون ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ میں اہل یمن سے ہوں۔حضرت سیدنا عمررضی اللہ عنہ نے ان سے دریافت کیا۔ ہمارے اس بھائی کا کیا حال ہے جس کو اس جھوٹے نبی نے آگ کے الائو میں پھینکا تھا۔ انہوں نے جواب دیا:میں وہی ہوں۔ حضرت سیدنا عمررضی اللہ عنہ نے دریافت کیا ،کیا واقعی تم وہی شخص ہو۔ انہوں نے جواب دیا بخدا میں وہی ہوں حضرت سیدناعمررضی اللہ عنہ نے انہیں سینے سے لگا لیا۔ آپ رضی اللہ عنہ کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ انہیں اپنے ہمراہ لے کر حضرت سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس بٹھا دیا، پھر کہا خدا تعالی کا شکر ہے، جس نے مجھے مرنے سے پہلے اس شخص کی زیارت کا شرف بخشا ہے، جس کو حضرت سیدناابراہیم علیہ السلام کی طرح آگ میں ڈالا گیا، لیکن آگ نے اس کا بال بھی بیکا نہ کیا۔
(حلیۃ الأولیاء وطبقات الأصفیاء :أبو نعیم أحمد بن عبد اللہ بن أحمد بن إسحاق بن موسی بن مہران الأصبہانی (۲:۱۲۹)
مختصرتذکرہ جنگ یمامہ
مسیلمہ کذاب کاحقیقی نام مسیلمہ بن حبیب تھا، عرب میںحضورتاجدارختم نبوتﷺکی ظاہری زندگی میں ہی نبوت کے مدعی کے طور پر سامنے آیا۔آپﷺ کی زندگی میں یہ معاملہ جیسے تیسے چلتا رہا، مسیلمہ نے آپﷺ کو مکتوب بھی لکھا اور اپنی نبوت میں شریک کرنے کو کہا جسے آپ ﷺنے یکسر مسترد کیا اور اس کا علمی رد کر کے اسے کذاب ثابت کیا۔ آپ ﷺکے وصال شریف کے بعد خلیفہ اول حضرت سیدناابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دور میں جب مسلمان دیگر مرتدین کے خاتمے میں مصروف تھے اس دوران مسیلمہ اپنا دعویٰ نبوت عام کرنے میں مصروف رہا اور اس نے اتنی طاقت حاصل کر لی کہ اس کا چالیس ہزار کا لشکر یمامہ کی وادیوں میں پھیل گیا۔ اس نے باقاعدہ خلافت کی عملداری کو چیلنج کیا اور بغاوت پر اتر آیا اور اپنی نبوت نہ ماننے والوں کو قتل کرنا شروع کر دیا۔ چنانچہ اس کی سرکوبی ناگزیر ہو گئی تھی۔
حضرت سیدناابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے مسیلمہ کے مقابلے کے لیے حضرت سیدناعکرمہ بن ابی جہل رضی اللہ عنہ کو یمامہ کی طرف روانہ کیا اور حضرت سیدناعکرمہ رضی اللہ عنہ کی مدد کے لیے حضرت سیدنا شرحبیل رضی اللہ عنہ کو بھی روانہ کیا۔ حضرت سیدناشرحبیل رضی اللہ عنہ کے پہنچنے سے قبل ہی حضرت سیدناعکرمہ رضی اللہ عنہ نے لڑائی کا آغاز کر دیا لیکن انہیں شکست ہوئی۔ اس عرصے میں حضرت سیدناشرحبیل رضی اللہ عنہ بھی مدد کو آ پہنچے لیکن دشمن کی قوت بہت بڑھ چکی تھی۔ مسیلمہ کی نبوت کی تائید بنی حنیفہ نے بھی کی اس وقت ان کا بہت زور تھا۔ حضرت سیدناشرحبیل رضی اللہ عنہ نے بھی پہنچتے ہی دشمن سے مقابلہ شروع کر دیا لیکن کامیابی نہ ہوئی۔ اس عرصے میں حضرت سیدناخالد بن ولیدرضی اللہ عنہ دیگر مرتدین سے نمٹ چکے تھے۔ حضرت سیدناابو بکررضی اللہ عنہ نے انہیں حضرت سیدناعکرمہ رضی اللہ عنہ اور حضرت سیدناشرحبیل رضی اللہ عنہ کی مدد کے لیے یمامہ کی طرف رخ کرنے کا حکم دیا۔حضرت سیدناخالد بن ولیدرضی اللہ عنہ اپنا لشکر لے کر یمامہ کی طرف روانہ ہوئے۔ مسیلمہ بھی حضرت سیدناخالدرضی اللہ عنہ کی روانگی کی اطلاع سن کر مقابلے کی تیاریوں میں مصروف ہوا اور یمامہ سے باہر صف آرائی کی۔ مسلمانوں کے لشکر کی تعداد تیرہ ہزار تھی۔ فریقین میں نہایت سخت مقابلہ ہوا۔ پہلا مقابلہ بنو حنیفہ سے ہوا۔ اسلامی لشکر نے اس دلیری سے مقابلہ کیا کہ بنو حنیفہ بد حواس ہو کر بھاگ نکلے اور مسیلمہ کے باقی آدمی ایک ایک کر کے حضرت سیدناخالد رضی اللہ عنہ کی فوجوں کا نشانہ بنتے رہے۔ جب مسیلمہ نے لڑائی کی یہ صورت حال دیکھی تو وہ اپنے فوجیوں کے ساتھ جان بچا کر بھاگ نکلا اور میدان جنگ سے کچھ دور ایک باغ میں پناہ لی لیکن مسلمانوں کو تو اس فتنے کو جڑ سے اکھاڑنا تھا اس لیے حضرت سیدناخالد بن ولیدرضی اللہ عنہ نے باغ کا محاصرہ کر لیا۔ باغ کی دیوار اتنی اونچی تھی کہ اس کو کوئی بھی پار نہیں کر سکتا تھا۔ اس وقت ایک صحابی حضرت سیدنا زید بن قیس رضی اللہ عنہ نے حضرت سیدنا خالد بن ولیدرضی اللہ عنہ کو فرمایا میں یہ دیوار پار کر کے تمہارے لیے دروازے کو کھول دوں گاا گر تم میرے لیے ایک اونچی سیڑھی بنا دو حضرت سیدناخالد بن ولید رضی اللہ عنہ راضی ہو گئے۔ اگلے دن حضرت سیدنازید بن قیس رضی اللہ عنہ سیڑھی کے ساتھ باغ میں اتر گئے۔ تب مسیلمہ کذاب نے اپنے فوجیوں کو حکم دیا کہ اس کو قتل کر دو۔ تب اس کے فوجیوں نے حضرت سیدنازید بن قیس رضی اللہ عنہ کے ساتھ لڑائی شروع کردی۔ لڑائی میں حضرت سیدنا زید بن قیس رضی اللہ عنہ کا کندھا کٹ گیا۔ پھر بھی انہوں نے دروازے کو کھول دیا۔ ادھر مسلمان صف بندی کرچکے تھے۔ مسلمان یا محمدﷺکا نعرہ لگاتے ہوئے اندر داخل ہونا شروع ہو گئے اور ایک دفعہ پھر گھمسان کی جنگ شروع ہو گئی۔ اچانک حضرت سیدنا خالد بن ولیدرضی اللہ عنہ نیزہ لے کر مسیلمہ کو پکارنے لگے،یا عدو اللہ!اور مسیلمہ پر پھینک دیا، مگر اس کے محافظوں نے ڈھال بن کر اس کو بچالیا۔ اس وقت اس کے محافظ غیر حتمی طور پر اسے چھوڑ کے چلے گئے۔ پھر اسے حضرت سیدناحمزہ رضی اللہ عنہ کوشہیدکرنے والے حضرت سیدنا وحشی بن حرب رضی اللہ عنہ(جو مسلمان ہوچکے تھے)نے ایسا نیزہ مارا کہ مسیلمہ وہیں ڈھیر ہو گیا۔ اس طرح انہوںنے حضرت سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ کو شہید کرنے کا کفارہ ادا کیا۔اس کے لشکر کے نصف آدمی مارے گئے۔ تقریباً یمامہ کے ہر گھر میں صف ماتم بچھ گئی۔ جنگ کے خاتمے کے بعدحضرت سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے اہل یمامہ سے صلح کرلی۔ یہ جنگ جنگ یمامہ کے نام سے جانی جاتی ہے۔
مسیلمہ کذاب اور دیگر جھوٹے مدعیان نبوت کے خاتمے سے اسلامی سلطنت کے لیے ایک بہت بڑے خطرے کا خاتمہ ہو گیا جس میں اہم کردار حضرت سیدنا ابوبکررضی اللہ عنہ کی دینی و سیاسی بصیرت کا تھا۔ اسلام کو انتشار سے بچانے کے لیے یہ آپ کا نہایت اہم کارنامہ ہے۔
یہ حضرت سیدناصدیق اکبررضی اللہ عنہ کا عہد خلافت ہے۔ یمامہ کے میدان میں بارہ سو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی لاشیں بکھری پڑی ہیں۔ کسی کا سرتن سے جدا ہے۔ کسی کا سینہ چرا ہوا ہے۔ کسی کا پیٹ چاک ہے۔ کسی کی آنکھیں نکلی ہوئی ہیں۔ کسی کی ٹانگ نہیں ہے۔ کسی کا ہاتھ نہیں ہے۔ کسی کا بازو کندھوں سے جدا ہے۔ کسی کی ٹانگ جسم سے الگ پڑی ہے اور کسی کا جسد ٹکڑوں میں تقسیم ہوگیا ہے۔ یہ بارہ سو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اپنے خون میں نہا کر یمامہ کے میدان میں اس شان سے چمک رہے ہیںکہ چرخ نیلوفری پہ چمکنے والے ستارے انہیں دیکھ کر رشک کررہے ہیں۔ یوں محسوس ہورہا ہے کہ آسمانی ہدایت سے ایک کہکشاں زمین پر اتر آئی ہے۔یہ کون لوگ ہیں؟
اہل دنیا!یہ وہ لوگ ہیں ۔ جنہیں حضورتاجدارختم نبوتﷺنے اپنی آغوش نبوت میںلے کر پروان چڑھایا۔ جو مکتب نبوت محمدیہﷺ کے فارغ التحصیل تھے۔ جن کے سینوں میں ایمان اور قرآن خودحضورتاجدارختم نبوتﷺنے اتارا تھا۔ جنہیں اس دنیامیں ہی رب العزت نے جنت کی سند جاری کردی تھی۔ جو اس مرتبے کے مالک ہیں کہ آج کی پوری امت مل کر بھی ان میں سے کسی ایک کے برابر نہیں ہوسکتی ۔
یہ شہداء جو شہادت کی سرخ قبا پہنے استراحت فرما رہے ہیں۔ ان میں سے سات سو حفاظ قرآن ہیں۔ ستر بدری صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہیں جو کفرواسلام کے پہلے معرکہ غزوئہ بدر میں اپنی جانیں ہتھیلیوں پر لے کر حضورتاجدارختم نبوتﷺکے پرچم تلے میدان بدر میں اترے تھے۔ اہل دنیا!یہ حضورتاجدارختم نبوتﷺکے دامن کے پھول تھے جو یمامہ کے میدان میں شہید ہوگئے یہ حضورتاجدارختم نبوتﷺ کی جھولی کے موتی تھے جو یمامہ کے میدان میں شہیدہوگئے۔ یہ حضورتاجدارختم نبوتﷺ کی پچھلی راتوں کے آنسو تھے جو خاک یمامہ میں جذب ہوگئے۔
اے افراد ملت اسلامیہ!ان عظیم ہستیوںنے کس مسئلہ کے لیے پردیس میں جا کر اپنی جانیں نچھاور کیں؟
کس مسئلہ کے لئے انہوں نے اپنی شمشیروں کو بے نیام کیا اور گھوڑوں پر بیٹھ کر بجلی کی سرعت سے یمامہ کی طرف لپک گئے؟
ہائے افسوس! صد افسوس۔ وہ مسئلہ جسے آج ہم نے منبر و محراب سے نکال دیا ہے۔ جو ہمارے دینی مدارس کے نصاب میں شامل نہیں ہے۔ جو ہمارے اداروں اورنجی محافل میں بیان نہیں کیاجاتایعنی مسئلہ ختم نبوت۔
حضورتاجدارختم نبوتﷺکے اعلان ِنبوت سے لے کرحضورتاجدارختم نبوتﷺکے وصال شریف تک تیس سال کے لگ بھگ جو عرصہ بنتا ہے، اس میں جتنے غزوات ہوئے۔ جتنی جنگیں ہوئیں۔ جتنے تبلیغی وفود دھوکہ سے شہید کیے گئے۔ اور کفار کے مظالم سے جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم شہید ہوتے رہے ان کی کل تعداد۲۵۹ہے یعنی حضورتاجدارختم نبوتﷺکے مبارک زمانے میں اسلام کے لیے جو کل صحابہ کرام رضی اللہ عنہم شہید ہوئے ان کی تعداد۲۵۹اور صرف مسئلہ ختم نبوت کے لیے جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم شہید ہوئے ان کی تعداد بارہ سو ہے۔ جن میں سے سات سو حفاظ قرآن ہیں۔
جھوٹے مدعی نبوت مسیلمہ کذاب کے پاس چالیس ہزار جنگجوئوں کا لشکر تھا۔ مال و دولت کے بھی ڈھیر تھے۔ ادھر مسلمان حضورتاجدارختم نبوتﷺکے وصال شریف کے سبب غم سے نڈھال تھے۔ طرح طرح کے فتنے کھڑے ہوگئے تھے۔ حالات انتہائی نامساعد تھے۔ مدینہ منورہ کی نوزائیدہ ریاست کو ہر طرف سے خطرہ تھا۔ لیکن سیدنا صدیق اکبررضی اللہ عنہ نے حضورتاجدارختم نبوتﷺکی ختم نبوت پر ڈاکہ زنی کو برداشت نہ کیا کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ حضرت سیدناصدیق اکبررضی اللہ عنہ تو زندہ ہو ںاور ان کے حبیب کریمﷺ کی مسند نبوت پر کوئی بدطینت بیٹھنے کی ناپاک جسارت کرے۔
مجاہدختم نبوت حضرت سیدنافیروز الدیلمی رضی اللہ عنہ
مجاہدختم نبوت کاذکربارگاہ ختم نبوت میں
عن ابن عمر:أتی الخبر إِلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنَ السَّمَاء ِ اللَّیْلَۃَ الَّتِی قُتِلَ فِیہَا الْعَنْسِیُّ لِیُبَشِّرَنَا، فَقَالَ:قُتِلَ الْعَنْسِیُّ الْبَارِحَۃَ قَتَلَہُ رَجُلٌ مُبَارَکٌ مِنْ أَہْلِ بَیْتٍ مُبَارَکِینَ، قِیلَ: وَمَنْ؟ قَالَ: فَیْرُوزُ فَیْرُوزُ۔
ترجمہ :حضرت سیدناعبداللہ بن عمررضی اللہ عنہمابیان کرتے ہیں کہ جس رات اسودعنسی قتل ہوااسی رات کو ہمیں خوشخبری دینے کے لئے آسمان سے حضورتاجدارختم نبوتﷺکوخبرملی توآپﷺنے فرمایاکہ گزشتہ شب عنسی کذاب قتل ہوگیاہے اوراسے بابرکت آدمی نے قتل کیاہے جوبابرکت اہل بیت سے ہے ، عرض کی گئی یارسول اللہ ﷺ!وہ کون شخص ہے ؟ آپ ﷺنے فرمایا: فیروزرضی اللہ عنہ ۔
(تاریخ الخمیس فی أحوال أنفس النفیس:حسن بن محمد بن الحسن الدِّیار بَکْری (۲:۱۵۶)
اذان ختم نبوت
فَاتَّفَقُوا عَلَی أَنَّہُ إِذَا کَانَ الصَّبَاحُ یُنَادُونَ بِشِعَارِہِمُ الَّذِی بَیْنَہُمْ وَبَیْنَ الْمُسْلِمِینَ، فَلَمَّا کَانَ الصَّبَاحُ قَامَ أَحَدُہُمْ، وَہُوَ قَیْسٌ عَلَی سُورِ الْحِصْنِ فَنَادَی بِشِعَارِہِمْ، فَاجْتَمَعَ الْمُسْلِمُونَ وَالْکَافِرُونَ حَوْلَ الْحِصْنِ، فَنَادَی قَیْسٌ وَیُقَالُ:وَبَرُ بْنُ یحنش، الأذان:أَشْہَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولَ اللَّہِ، وَأَنَّ عَبْہَلَۃَ کَذَّابٌ، وَأَلْقَی إِلَیْہِمْ رَأْسَہُ فَانْہَزَمَ أَصْحَابُہُ وَتَبِعَہُمُ النَّاسُ یَأْخُذُونَہُمْ وَیَرْصُدُونَہُمْ فِی کُلِّ طَرِیقٍ یَأْسِرُونَہُمْ، وَظَہَرَ الْإِسْلَامُ وَأَہْلُہُ۔
ترجمہ :حافظ ابن کثیرالمتوفی : ۷۷۴ھ)رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ اسود عنسی کوقتل کرنے کے بعد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اس بات پراتفاق کیاکہ جب صبح ہوگی تواس نشان امتیاز کے ساتھ آواز دیں گے جوان کے اورمسلمانوں کے درمیان مقررہے اورجب صبح ہوئی توحضرت سیدناقیس رضی اللہ عنہ نے اسودعنسی کے قلعے کی دیوارپرکھڑے ہوکرآواز دی تواہل اسلام اورمنکرین ختم نبوت سب کے سب جمع ہوگئے اورحضرت سیدناقیس رضی اللہ عنہ نے یاحضرت سیدناوبررضی اللہ عنہ نے اذان دی جب {أَشْہَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولَ اللَّہ}پڑھایعنی میں گواہی دیتاہوں کہ محمدﷺاللہ تعالی کے سچے رسول ہیں توساتھ ہی یہ پڑھا{وَأَنَّ عَبْہَلَۃَ کَذَّاب}اوریہ بھی گواہی دیتاہوں کہ اسود عنسی کذاب، جھوٹاہے، ملعون ہے ۔یہ کہہ کراس کذاب کاسراس کے ماننے والوں کے اوپرپھینک دیاتواس کے اصحاب کوشکست ہوئی اوراہل اسلام نے ان کوپکڑنے کے لئے ان کاتعاقب کیااورہرراستے میں ان کی گھات لگائی اورانہیں قیدی بنالیااوراسلام اوراہل اسلام غالب آگئے ۔
(البدایۃ والنہایۃ:أبو الفداء إسماعیل بن عمر بن کثیر القرشی البصری ثم الدمشقی (۶:۳۱۱)
ختم نبوت کے دفاع کے لئے حضورتاجدارختم نبوتﷺکاخطوط لکھنا
وَجَاء َ إِلَیْہِمْ وَإِلَی مَنْ بِالْیَمَنِ مِنَ الْمُسْلِمِینَ کُتُبُ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَأْمُرُہُمْ بِقِتَالِ الْأَسْوَدِ، فَقَامَ مُعَاذٌ فِی ذَلِکَ، وَقَوِیَتْ نُفُوسُ الْمُسْلِمِینَ، وَکَانَ الَّذِی قَدِمَ بِکِتَابِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَبَرُبْنُ یُحَنَّسَ الْأَزْدِیُّ، قَالَ جِشْنَسُ الدَّیْلَمِیُّ:فَجَاء َتْنَا کُتُبُ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَأْمُرُنَا بِقِتَالِہِ، إِمَّا مُصَادَمَۃً أَوْ غِیلَۃً یَعْنِی إِلَیْہِ، وَإِلَی فَیْرُوزَ وَدَاذَوَیْہِ وَأَنْ نُکَاتِبَ مَنْ عِنْدَہُ دِینٌفَعَمِلْنَا فِی ذَلِکَ، فَرَأَیْنَا أَمْرًا کَثِیفًا۔
ترجمہ :امام عز الدین ابن الأثیرالمتوفی : ۶۳۰ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ جب اسودعنسی ملعون نے نبوت کادعوی کیاتواسی دوران ہی حضورتاجدارختم نبوتﷺنے حضرت موت اوریمن کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی طرف خط روانہ فرمائے ، جس میں ان کو اسود عنسی کے خلاف جنگ کرنے کاحکم دیاگیاتھا، لہذااس مقصدکوپوراکرنے کے لئے حضرت سیدنامعاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اوراس سے اہل اسلام کے دل مضبوط ہوگئے ، حضورتاجدارختم نبوت ﷺکاخط مبارک حضرت سیدناوبربن یحنس ازدی رضی اللہ عنہ لے کرآئے تھے حضرت سیدنادیلمی رضی اللہ عنہ نے بیان کیاکہ ہمارے پاس حضورتاجدارختم نبوتﷺکے کئی خطوط آئے ، جن میں یہ حکم شریف تھاکہ ہم اہل اسلام سے خط وکتابت کریں۔ ہم نے حضورتاجدارختم نبوتﷺکی دی ہوئی ہدایات پرعمل کیا۔
(الکامل فی التاریخ:أبو الحسن علی بن أبی الکرم الجزری، عز الدین ابن الأثیر (۲:۱۹۹)
حضرت سیدنافیروز الدیلمی رضی اللہ عنہ سے مروی ایک حدیث شریف
حَدَّثَنَا ہَیْثَمُ بْنُ خَارِجَۃَ أَخْبَرَنَا ضَمْرَۃُ عَنْ یَحْیَی بْنِ أَبِی عَمْرٍو عَنِ ابْنِ فَیْرُوزَ الدَّیْلَمِیِّ عَنْ أَبِیہِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَیُنْقَضَنَّ الْإِسْلَامُ عُرْوَۃً عُرْوَۃً کَمَا یُنْقَضُ الْحَبْلُ قُوَّۃً قُوَّۃً۔
ترجمہ :حضرت فیروز دیلمی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضورتاجدارختم نبوتﷺنے ارشاد فرمایا: ایک وقت ایسا بھی ضرور آئے گا جب اسلام کی رسی کا ایک ایک دھاگہ نکال نکال کر توڑ دیا جائے گا جیسے عام رسی کو ریزہ ریزہ کردیا جاتا ہے۔
(مسند الإمام أحمد بن حنبل:أبو عبد اللہ أحمد بن محمد بن حنبل بن ہلال بن أسد الشیبانی (۲۹:۵۷۳)
مجاہدختم نبوت حضرت سیدناعبداللہ بن زبیررضی اللہ عنہ
وفی أیام ابن الزبیر کان خروج المختار الکذاب الذی ادعی النبوۃ، فجہز ابن الزبیر لقتالہ، إلی أن ظفر بہ فی سنۃ سبع وستین وقتلہ، لعنہ اللہ.
ترجمہ :امام عبد الرحمن بن أبی بکر، جلال الدین السیوطی المتوفی : ۹۱۱ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ حضرت سیدناعبداللہ بن زبیررضی اللہ عنہ کے ایام میں مختارکذاب نے نبوت کادعوی کردیاتھا، حضرت سیدناعبداللہ بن زبیررضی اللہ عنہ نے اس کے ساتھ قتال کے لئے لشکرتیارکیایہاں تک کہ اس کو ۶۷ھجری میں پکڑلیااوراس کو قتل کردیا، اللہ تعالی کی اس ملعون پرلعنت ہو۔
(تاریخ الخلفاء :عبد الرحمن بن أبی بکر، جلال الدین السیوطی:۱۶۲)
اللہ تعالی روافض کوذلیل ورسواکرے انہوںنے کوفہ کی جامع مسجد میں اس کامزاربنایاہواہے اوراس پرمنوں کے حساب سے سونالگایاہے ، فقیرجب بغدادشریف حاضرہواتوجامع مسجد کوفہ کی زیارت کے لئے حاضرہواتوبہت سے لوگوں کومنع کیاکہ اس ملعون کی قبرپرنہ جاناوہ مدعی نبوت تھا۔
مامون رشیدکامدعی نبوت کو جیل ڈالنا
یُرْوَی أن رجلاً ادَّعَی النبوۃ فی زمن المأمون، فأمر بہ فَوُضِع فی السجن، وبعد عدۃ أشہر ظہر رجل آخر یدعی النبوۃ، فرأی المأمون أن یواجہ کل منہما الآخر، فأحضر المدعی الأول وقال لہ: إن ہذا الرجل یدَّعی أنہ نبی، فماذا تقول فیہ؟ قال:ہو کذاب؛ لأننی لم أرسل أحداً فارتقی إلی منزلۃ الألوہیۃ، لا مجدر أنہ نبی.
ترجمہ :الامام محمد متولی الشعراوی المتوفی : ۱۴۱۸ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ مروی ہے کہ مامون الرشیدکے دورمیں ایک شخص نے نبوت کادعوی کردیا، مامون رشیدنے اس کو قیدکردیا، کئی مہینے گزرنے کے بعد ایک اورشخص نے نبوت کادعوی کردیا، مامون نے دونوں کو بلایااورآمنے سامنے بٹھایااورپہلے شخص کوکہاکہ یہ شخص بھی نبوت کادعوی کررہاہے تم اس کے بارے میں کیاکہتے ہو؟ تو اس نے کہاکہ میں نے تواس کو رسول نہیں بنایا، جھوٹاہے ۔ نعوذباللہ من ذلک ، وہ شخص پہلے مدعی نبوت تھا، جیل جانے کے بعد ترقی کرکے خدابن بیٹھااوروہ اپنے آپ کو اس لائق نہیں جانتاتھاکہ وہ نبی ہے۔
(تفسیر الشعراوی:محمد متولی الشعراوی (۱۹:۱۰۵۸)
(۴۹۹ھ )کامجاہدختم نبوت
أنہ ظہر فیدخلت سنۃ تسع وتسعین واربعمائۃ المحرم رجل بسواد نہاوند ادعی النبوۃ، وتبعہ خلق من الرستاقیۃ، وباعوا أملاکہم ودفعوا إلیہ أثمانہا، وکان یہب جمیع ما معہ لمن یقصدہ، وسمی أربعۃمن أصحابہ أبا بکر وعمر وعثمان وعلی، وکان یدعی معرفۃ النجوم والسحر،وقتل بنہاوند.
ترجمہ :امام جمال الدین أبو الفرج عبد الرحمن بن علی بن محمد الجوزی المتوفی : ۵۹۷ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ سنہ (۴۹۹ھ) میں ایک شخص نے جونہاوندکے دیہات میں رہنے والاتھانبوت کادعوی کردیا، الرستاقیہ کے لوگوں میں سے بہت سے لوگوں نے اس کی اتباع کرلی اورانہوںنے اپنے گھربیچ کراوراپنے سامان فروخت کرکے سب کچھ اس کو ہبہ کردیااوراس ذلیل نے اپنے چیلوں کے نام ابوبکر، عمرعثمان وعلی رکھے ہوئے تھے اوروہ دعوی کرتاتھاکہ اسے علم النجوم اورجادومیں مہارت ہے اوریہ بھی نہاوندمیں قتل کردیاگیا۔
(منتظم فی تاریخ الأمم والملوک:جمال الدین أبو الفرج عبد الرحمن بن علی بن محمد الجوزی (۱۷:۹۵)
مجاہد ختم نبوت حبیب بن عقبہ بن نافع رضی اللہ عنہ
رَجُلًا اسْمُہُ عَاصِمُ بْنُ جَمِیلٍ، (وَکَانَ قَدِ ادَّعَی النُّبُوَّۃَ وَالْکَہَانَۃَ، فَبَدَّلَ الدِّینَ وَزَادَ فِی الصَّلَاۃِ وَأَسْقَطَ ذِکْرَ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنَ الْأَذَانِ، وَدَخَلَ عَاصِمٌ وَمَنْ مَعَہُ الْقَیْرَوَانَ، فَاسْتَحَلَّتْ وَرْفَجُومَۃُ الْمُحَرَّمَاتِ، وَسَبَوُا النِّسَاء َ وَالصِّبْیَانَ، وَرَبَطُوا دَوَابَّہُمْ فِی الْجَامِعِ وَأَفْسَدُوا فِیہِ ثُمَّ سَارَ عَاصِمٌ یَطْلُبُ حَبِیبًا وَہُوَ بِقَابِسَ فَأَدْرَکَہُ وَاقْتَتَلُوا، وَانْہَزَمَ حَبِیبٌ إِلَی جَبَلِ أُورَاسَ فَاحْتَمَی بِہِ، وَقَامَ بِنُصْرَۃِ مَنْ بِہِ، وَلَحِقَ بِہِ عَاصِمٌ فَالْتَقَوْا وَاقْتَتَلُوا، فَانْہَزَمَ عَاصِمٌ وَقُتِلَ ہُوَ وَأَکْثَرُ أَصْحَابِہِ۔
ترجمہ 🙁 ۱۲۶ھ)میں عاصم بن جمیل نامی ملعون نے نبوت کادعوی کیااوراس نے دین متین کوبدل کررکھ دیااوراس نے درود میں اضافہ کردیااوراذان میں سے حضورتاجدارختم نبوتﷺکااسم شریف نکال دیا، عاصم اوراس کے ساتھی قیروان میں داخل ہوئے اوروہاں کے محرمات کوحلال کرلیا، عورتوں ، لڑکوں اورلڑکیوں کو قیدکرلیا، جانوروں کو جامع مسجد میں باندھ دیا، حضرت سیدناحبیب بن عقبہ بن نافع رحمہ اللہ تعالی اس کے خلاف برسرپیکارہوئے اوراس کواوراس کے بہت سے ساتھیوں کوقتل کردیا۔
(الکامل فی التاریخ: أبو الحسن علی بن أبی الکرم محمد الشیبانی الجزری، عز الدین ابن الأثیر(۴:۴۲۶)
مجاہد ختم نبوت المتوکل علی اللہ
وَفِیہَا ظَہَرَ بِسَامَرَّا رَجُلٌ یُقَالُ لَہُ مَحْمُودُ بْنُ الْفَرَجِ النَّیْسَابُورِیُّ، فَزَعَمَ أَنَّہُ نَبِیٌّ، وَأَنَّہُ ذُو الْقَرْنَیْنِ، وَتَبِعَہُ سَبْعَۃٌ وَعِشْرُونَ رَجُلًا، وَخَرَجَ مِنْ أَصْحَابِہِ بِبَغْدَاذَ رَجُلَانِ بِبَابِ الْعَامَّۃِ، وَآخَرَانِ بِالْجَانِبِ الْغَرْبِیِّ، فَأُتِیَ بِہِ وَبِأَصْحَابِہِ الْمُتَوَکِّلَ، فَأَمَرَ بِہِ فَضُرِبَ (ضَرْبًا شَدِیدًا، وَحُمِلَ إِلَی بَابِ الْعَامَّۃِ، فَکَذَّبَ نَفْسَہُ، وَأَمَرَ أَصْحَابُہُ أَنْ یَضْرِبُوہُ)کُلُّ رَجُلٍ مِنْہُمْ عَشْرَ صَفَعَاتٍ، فَفَعَلُوا، وَأَخَذُوا لَہُ مُصْحَفًا فِیہِ کَلَامٌ قَدْ جَمَعَہُ، وَذَکَرَ أَنَّہُ قُرْآنٌ، وَأَنَّ جِبْرَائِیلَ نَزَلَ بِہِ، ثُمَّ مَاتَ مِنَ الضَّرْبِ فِی ذِی الْحِجَّۃِ، وَحُبِسَ أَصْحَابُہُ، وَکَانَ فِیہِمْ شَیْخٌ یَزْعُمُ أَنَّہُ نَبِیٌّ، وَأَنَّ الْوَحْیَ یَأْتِیہِ۔
ترجمہ 🙁 ۲۳۵ھ) میں سامراشہرمیں ایک شخص ظاہرہواجس کومحمودبن فرج نیشاپوری کہتے تھے ، اس کاگمان تھاکہ میں نبی ہوں اورذوالقرنین ہوں ، ستائیس لوگ اس کے متبعین تھے ، اس کے ساتھیوں میں سے آدمیوںنے بغدادمیں باب عامہ پراوردوسرے دوآدمیوںنے باب مغربی میں خروج کیا۔ محمود اوراس کے ساتھی متوکل کے پاس پکڑکرلائے گئے ، متوکل نے اس کو مارنے کاحکم دیا، محمودکوبہت زیادہ ماراگیااوراس کو باب العامہ پرلایاگیا، اس نے وہاں کھڑے ہوکراپنے آپ کو جھوٹاتسلیم کیااورمتوکل نے اس کے ساتھیوں کوحکم دیاکہ اس کو دس دس تھپڑمارو، چنانچہ ان سب نے اپنے جھوٹے نبی کو دس دس تھپڑمارے ، اس کاایک مصحف ملا، جس میں کچھ باتیں لکھی ہوئی تھیں ، وہ کہتاتھاکہ یہ میراقرآن ہے ، جبریل علیہ السلام اسے میرے پاس لاتے ہیں ، اس کے بعد اس کو بہت زیادہ ماراگیایہاں تک کہ وہ اسی مارکی وجہ سے ذوالحجہ میں مرگیااوراس کے ساتھی قیدکردیئے گئے ، ان میں ایک بوڑھاآدمی تھاجوا س کے نبی ہونے کی گواہی دیتاتھااورکہتاتھاکہ اس پر وحی آتی ہے ۔
(الکامل فی التاریخ: أبو الحسن علی بن أبی الکرم محمد الشیبانی الجزری، عز الدین ابن الأثیر(۶:۱۲۵)
مجاہدختم نبوت حضرت ابوعلی بن محمدرحمہ اللہ تعالی
فِی ہَذِہِ السَّنَۃِ ظَہَرَ بِبَاسِنْدَ مِنْ أَعْمَالِ الصَّغَانِیَانِ رَجُلٌ ادَّعَی النُّبُوَّۃَ، فَقَصَدَہُ فَوْجٌ بَعْدَ فَوْجٍ، وَاتَّبَعَہُ خَلْقٌ کَثِیرٌ، وَحَارَبَ مَنْ خَالَفَہُ، فَقَتَلَ خَلْقًا کَثِیرًا مِمَّنْ کَذَّبَہُ، فَکَثُرَ أَتْبَاعُہُ مِنْ أَہْلِ الشَّاشِ خُصُوصًا.وَکَانَ صَاحِبُ حِیَلٍ وَمَخَارِیقَ، وَکَانَ یُدْخِلُ یَدَہُ فِی حَوْضٍ مَلْآنَ مَاء ً، فَیُخْرِجُہَا مَمْلُوء َۃً دَنَانِیرَ، إِلَی غَیْرِ ذَلِکَ مِنَ الْمَخَارِیقِ، فَکَثُرَ جَمْعُہُ، فَأَنْفَذَ إِلَیْہِ أَبُو عَلِیِّ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُظَفَّرِ جَیْشًا، فَحَارَبُوہُ وَضَیَّقُوا عَلَیْہِ، وَہُوَ فَوْقَ جَبَلٍ عَالٍ، حَتَّی قَبَضُوا عَلَیْہِ وَقَتَلُوہُ، وَحَمَلُوا رَأْسَہُ إِلَی أَبِی عَلِیٍّ، وَقَتَلُوا خَلْقًا کَثِیرًا مِمَّنِ اتَّبَعَہُ وَآمَنَ بِہِ، وَکَانَ یَدَّعِی أَنَّہُ مَتَی مَاتَ، عَادَ إِلَی الدُّنْیَا، فَبَقِیَ بِتِلْکَ النَّاحِیَۃِ جَمَاعَۃٌ کَثِیرَۃٌ عَلَی مَا دَعَاہُمْ إِلَیْہِ مُدَّۃً طَوِیلَۃً، ثُمَّ اضْمَحَلُّوا وَفَنَوْا.
ترجمہ 🙁 ۲۲۲ھ) میں طغانیان کے علاقہ میں سے مقام باسندمیں ایک شخص نے نبوت کادعوی کردیا، تویکے بعد دیگرے بہت سے لوگ اس کے پاس آنے لگے اوربہت سے لوگوں نے اس کی اتباع کرلی اوراہل اسلام کو اس کے ساتھ جنگ کرنے کی نوبت آئی ، بہت سے اہل اسلام قتل ہوئے ، اورخصوصاًمقام شاش کے لوگوں نے اس کی پیروی کرلی اوروہ بہت حیلے اورخرق عادت کام کیاکرتاتھا، بھرے ہوئے پانی کے حوض میں ہاتھ داخل کرتاتودیناروں سے بھراہواہاتھ باہرنکالتا، اس کی جماعت میں بہت زیادہ اضافہ ہوا، توحضرت سیدناابوعلی بن محمدبن مظفررحمہ اللہ تعالی نے وہاں اس کے مقابلے کے لئے لشکربھیجا، جنہوںنے اس کے ساتھ جنگ کی اورحالات جنگ پیداکردئیے، وہ ایک بلندپہاڑ پرچڑھاہواتھا، وہاں اسے پکڑکرقتل کیااوراس کاسرحضرت ابوعلی بن محمدرحمہ اللہ تعالی کے پاس لے آئے ، اس کے بہت سے متبعین کو قتل کردیاگیا، اس کے متعلق یہ دعوی کیاجاتاتھاکہ وہ مرنے کے بعد پھردنیامیں واپس آئے گا۔ بہت سے لو گ اس بات پررہے جس کااس نے دعوی کیاتھایعنی اس کی نبوت کے قائل رہے ، ایک عرصہ تک یہ لوگ رہے پھرآہستہ آہستہ سارے کے سارے لوگ مرگئے ۔
(الکامل فی التاریخ:أبو الحسن علی بن أبی الکرم محمد الشیبانی الجزری، عز الدین ابن الأثیر(۷:۲۵)
دباوند کے مجاہدختم نبوت کاایک مدعی نبوت کذاب کو قتل کرنا
وَفِیہَا خَرَجَ بِنَاحِیَۃِ دُنْبَاوَنْدَ رَجُلٌ ادَّعَی النُّبُوَّۃَ، فَقُتِلَ، وَخَرَجَ بِأَذْرَبِیجَانَ رَجُلٌ آخَرُ یَدَّعِی أَنَّہُ یُحَرِّمُ اللُّحُومَ وَمَا یَخْرُجُ مِنَ الْحَیَوَانِ، وَأَنَّہُ یَعْلَمُ الْغَیْبَ، فَأَضَافَہُ رَجُلٌ أَطْعَمَہُ کِشْکِیَّۃً بِشَحْمٍ، فَلَمَّا أَکَلَہَا قَالَ لَہُ: أَلَسْتَ تُحَرِّمُ اللَّحْمَ وَمَا یَخْرُجُ مِنَ الْحَیَوَانِ، وَأَنَّکَ تَعْلَمُ الْغَیْبَ؟ قَالَ:بَلَی قَالَ:فَہَذِہِ الْکِشْکِیَّۃُ بِشَحْمٍ، وَلَوْ عَلِمْتَ الْغَیْبَ لَمَا خَفِیَ عَلَیْکَ ذَلِکَ، فَأَعْرَضَ النَّاسُ عَنْہُ۔
ترجمہ :(۳۴۴ھ) میں دباوندکے شہرمیں ایک شخص نے نبوت کادعوی کردیاتواسے قتل کردیاگیا۔ اوراسی طرح آذربائیجان میں بھی ایک شخص نے نبوت کادعوی کیااوراس نے حیوان سے نکلنے والی تمام اشیاء کوحرام قراردیااورگوشت کو بھی حرام قراردیااوراس کادعوی تھاکہ وہ علم غیب جانتاہے ، ایک شخص نے اس کی دعوت کی تواس کو چربی سے بناحلوہ کھلادیا، پھر اس سے پوچھاکہ تیرادعوی ہے کہ جانورکاگوشت اوراس کے جسم سے نکلنے والی ہرچیز حرام ہے اورتوغیب کاعلم جانتاہے ؟ اس نے کہاکہ ہاں۔ میزبان نے کہاکہ میں نے تجھے چربی سے بناحلوہ کھلایاہے توتجھے پتہ تونہیں چلا؟ اس پرتمام لوگ جواس کے پیروکارہوئے اس سے پھرگئے ۔
(الکامل فی التاریخ:أبو الحسن علی بن أبی الکرم محمد الشیبانی الجزری، عز الدین ابن الأثیر(۷:۲۱۳)
دمشق کے مجاہدختم نبوت کاذکرخیر
وفی سنۃ اثْنَتَیْنِ وَتِسْعین وَخَمْسمِائۃ کَانَ ظہر بِدِمَشْق رجل ادّعی النُّبُوَّۃ وخیل للنَّاس أَشْیَاء من عمل السیمیاء فَقتل لِئَلَّا یفتن النَّاس۔
ترجمہ :امام أبو الفضائل محمد بن علی بن نظیف الحموی رحمہ اللہ تعالی لکھتے ہیں کہ( ۵۹۲ھ) میں دمشق میں ایک شخص نے نبوت کادعوی کردیاسیمیاء کے ذریعے لوگوں کے لئے خیالی چیزیں بناتاتھا، اس کو اس لئے قتل کردیاگیاتاکہ لوگ فتنہ میں مبتلاء نہ ہوجائیں ۔
(التاریخ المنصوری:أبو الفضائل محمد بن علی بن نظیف الحموی:۶)
عمربن ہبیرہ کامدعی نبوت کو قتل کرنا
وکان الضبعی شاعرًا، زعم أنہ ادعی النبوۃ، وکان یقول:لمضر صدر النبوۃ، ولنا عجزہا، وقد ضرب عنقہ عمر بن ہبیرۃ۔
ترجمہ :الدکتور جواد علی المتوفی : ۱۴۰۸ھ) رحمہ اللہ تعالی لکھتے ہیں کہ الضبعی نامی شخص ایک شاعرتھااس نے نبوت کادعوی کردیااوروہ کہاکرتاتھاکہ نبوت کاسینہ قبیلہ مضرکے لئے ہے اورنبوت کی دم ہمارے لئے ، اس کو عمربن ہبیرہ رحمہ اللہ تعالی نے قتل کردیا۔
(المفصل فی تاریخ العرب قبل الإسلام:الدکتور جواد علی (۱۶:۳۹۵)
عبدالملک بن مروان کاحارث بن سعیدمدعی نبوت کوپھانسی دینا
الْحَارِث بن سعید الکذّاب الَّذِی ادّعی النُّبُوَّۃ بِالشَّام مولی أبی الْجلاس کَانَ زاہداً متعبداً لَو لبس جبَّۃ ذہب رُؤِیَ عَلَیْہِ زہادہ أَتَی الْقُدس مختفیاً ثمَّ أُتِی بِہِ عبد الْملک بن مَرْوَان فَأمر لَہُ بخشبۃٍ فَنصبت وصلبہ وَأمر رجلا بحربۃٍ فطعنہ فَأصَاب ضلعاً من أضلاعہ فکفّت الحربۃ فصاح النَّاس الْأَنْبِیَاء لَا یجوز فیہم السّلاح فَلَمَّا رأی ذَلِک رجلٌ من الْمُسلمین تنَاول الحربۃ وطعنہ بہَا فأنفذہا قَالَ الشَّیْخ شمس الدّین ہُوَ أحد الدجالین الَّذین یخرجُون بَین یَدی السّاعۃوَکَانَت قتلتہ فِی حُدُود الثَّمَانِینَ من الْہِجْرَۃ
ترجمہ :امام صلاح الدین خلیل بن أیبک بن عبد اللہ الصفدی المتوفی : ۷۶۴ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ حارث بن سعیدکذاب نے ملک شام میں نبوت کادعوی کردیاتھااوریہ ابوالجلاس کاغلام تھا، عبادت گزاراورتارک الدنیاتھا، یہ پوشیدہ طورپرالقدس شریف آگیا، عبدالملک بن مروان کے پاس اس کو پکڑکرلایاگیا، خلیفہ نے لکڑیاں لانے اورانہیں گاڑنے کاحکم دیا، پھراس کو سولی پرلٹکایاگیا، پھرخلیفہ نے اس کو نیزہ مارنے کاحکم دیا، چنانچہ اس کو نیزہ ماردیاگیا، شیخ شمس الدین رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ قیامت سے پہلے جن دجالوں نے نکلناتھایہ بھی ان میں سے ایک تھااوراس کوسنہ ۷۸۰ ہجری میں قتل کردیاگیا۔
(الوافی بالوفیات:صلاح الدین خلیل بن أیبک بن عبد اللہ الصفدی(۱۱:۱۹۵)
مغیرہ بن سعید الکوفی دجال کاقتل کرنے والے مجاہدختم نبوت
مغیرۃ بن سعید الکوفی دجال أحرق بالنار زمن النخعی أدعی النبوۃ ۔
ترجمہ :امام الدارقطنی المتوفی : ۳۸۵ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ مغیرہ بن سعیدالکوفی دجال نے امام نخعی رحمہ اللہ تعالی کے دورمیں نبوت کادعوی کردیاتھااس کو آگ میں جلادیاگیا۔
(الضعفاء الضعفاء والمتروکون:أبو الحسن علی بن عمر بن أحمد الدارقطنی(۳:۱۳۳)
سلطان غیاث الدین کامدعی نبوت کو قتل کرنا
وفی سنۃ ثمانی وثلثین وستمائۃ ظہر ببلد اماسیا من اعمال الروم رجل ترکمانیّ ادّعی النبوّۃ وسمّی نفسہ بابا فاستغوی جماعۃ من الغاغۃ بما کان یخیل إلیہم من الحیل والمخاریق وکان لہ مرید اسمہ اسحق یتزیّا بزیّ المشایخ فأنفذہ الی أطراف الروم لیدعو الترکمانیین الی المصیر الیہ فوافی اسحق ہذا بلد سمیساط واظہر الدعوۃ لبابا فاتبعہ خلق کثیر من الترکمان خصوصا وکثف جمعہ وبلغ عدد من معہ ستۃ آلاف فارس غیر الرجالۃ فحاربوا من خالفہم ولم یقل کما یقولون لا إلہ الّا اللہ بابا رسول اللہ فقتلوا خلقا کثیرا من المسلمین والنصاری من اہل حصن منصور وکاختین وکرکر وسمیساط وبلد ملطیۃ ممن لم یتبعہم وکانوا یہزمون کلّ من لقیہم من العسکر حتی وصلوا الی اماسیافانفذ إلیہم السلطان غیاث الدین جیشا فیہ جماعۃ من الفرنج الذین فی خدمتہ فحاربوہم وقتلوہم طرّا وأسروا الشیخین بابا واسحق فضرب عنقاہما وکفوا الناس شرہم.
ترجمہ :الشیخ ابن سعید الأندلسی رحمہ اللہ تعالی لکھتے ہیں کہ سنہ ۶۳۸ھ) میں ماسیاشہرمیں جوکہ روم کے علاقوں میں سے ہے سے ایک شخص نے نبوت کادعوی کیااوراس نے اپنانام ’’بابا‘‘ رکھ لیااوربہت سے لوگوں کواس نے اپنے ساتھ ملالیا،اس کاایک مریدتھاجس کانام تھااسحاق ، یہ دونوں اپنی شکل وصورت مشائخ والی بناکررکھتے تھے ، اسحق نے اس کے لئے بہت سے لوگوں کودعوت دی اورباباکاکلمہ پڑھوادیا، اس نے چھے ہزارلوگوںکالشکرجمع کیاپیادوںکے علاوہ،اوریہ لوگ ہراس شخص کو قتل کردیتے تھے جو لاالہ الااللہ بابارسول اللہ نہیں پڑھتاتھااورانہوںنے بہت سے مسلمانوں اورنصرانیوں کو اسی بات پرقتل کردیا، انہوںنے منصور، کاختین ، کرکر،سیمساط میں بہت قتل وغارت گری کی اورہراس لشکرنے ان سے شکست کھائی جو بھی ان کے مقابلے میں آیا،یہاں تک کہ کسی کو ان کے سامنے آنے کی جرات نہیں ہوتی تھی ، یہ تباہی مچاتے مچاتے ماسیاتک جاپہنچے توسلطان غیاث الدین رحمہ اللہ تعالی نے ایک لشکرترتیب دیااوراس لشکرمیں نصرانی بھی تھے جوسلطان کے خادم تھے ، انہوںنے ان منکرین ختم نبوت کو قتل کردیااوربابااوراسحاق کو قیدکرلیااوراس کے بعد ان کو بھی قتل کردیاپھرجاکرلوگ ان کے شرسے محفوظ ہوئے۔
(نشوۃ الطرب فی تاریخ جاہلیۃ العرب:ابن سعید الأندلسی:۲۴۳)
مجاہدختم نبوت جناب سلطان صلاح الدین ایوبی رحمہ اللہ تعالی
وقد حکی الصّلاح الصّفدیّ فی شرح لامیۃ العجم أن السلطان صلاح الدّین یوسف بن أیّوب إنما قتل عمارۃ الیمنیّ الشاعر، حین قام فیمن قام بإحیاء الدولۃ الفاطمیّۃ بعد انقراضہا، علی ما تقدّم ذکرہ فی الکلام علی ترتیب مملکۃ الدیار المصریۃ فی المقالۃ الثانیۃ، مستندا فی ذلک إلی بیت نسب إلیہ من قصیدۃ، وہو قولہ:
کان مبدا ھذا الدینِ من رَجُلٍ سَعٰی فاصبحَ یُدْعیٰ سیدُ الاُممٖ
فجعل النبوّۃ مکتسبۃ
الصلاح الصفدی رحمہ اللہ تعالی نے اپنی کتاب شرح لامیۃ العجم میں نقل کیاہے کہ سلطان صلاح الدین ایوبی رحمہ اللہ تعالی نے عماریمنی شاعرکو بہ فتویٰ علماء دین، ایک شعر کہنے پر قتل کرادیا تھا ۔
کان مبدا ھذا الدینِ من رَجُلٍ سَعٰی فاصبحَ یُدْعیٰ سیدُ الاُممٖ
اس شعر سے اس شخص نے نبوت کو کسبی قرار دیا کہ نبوت ریاضتوں سے حاصل ہوسکتی ہے، اس لیے اسے قتل کروادیا۔
(صبح الأعشی فی صناعۃ الإنشاء :أحمد بن علی بن أحمد الفزاری القلقشندی ثم القاہری (۱۳:۳۰۶)
اس سے معلوم ہواکہ ختم نبوت کا مسئلہ شریعت محمدی میں متواتر ہے، قرآن و حدیث سے اجماع بالفعل سے اور یہ پہلا اجماع ہر وقت اور ہر زمانہ میں حکومت اسلامی نے ہر اس شخص کو جس نے دعوی نبوت کیا، سزائے موت دی ہے۔
مجاہدختم نبوت سلطان بن الاحمررحمہ اللہ تعالی
وَقَدِ ادَّعَی النُّبُوَّۃَ ناس، فقلتہم الْمُسْلِمُونَ عَلَی ذَلِکَ وَکَانَ فِی عَصْرِنَا شَخْصٌ مِنَ الْفُقَرَاء ِ ادَّعَی النُّبُوَّۃَ بِمَدِینَۃِ مالقۃ، فقتلہ السلطان بْنُ الْأَحْمَرِ، مَلِکُ الْأَنْدَلُسِ بِغَرْنَاطَۃَ، وَصُلِبَ إِلَی أَنْ تَنَاثَرَ لَحْمُہُ.
ترجمہ :امام أبو حیان محمد بن یوسف بن علی بن یوسف بن حیان أثیر الدین الأندلسی المتوفی : ۷۴۵ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ لوگوں نے نبوت کا دعوی کیا، تواہل اسلام نے ان کواسی بات پرقتل کردیا، ہمارے زمانے میں بھی ایک شخص جو جاہل صوفیاء میں سے تھانے مالقہ شہرمیں نبوت کادعویٰ کردیااس کو سلطان بن احمرجوغرناطہ میں اندلس کے بادشاہ ہیں نے قتل کرکے اس کو سولی پرلٹکادیایہاں تک کہ اس کاگوشت اس کے جسم سے جھڑنے لگا۔
(البحر المحیط فی التفسیر:أبو حیان محمد بن یوسف بن علی بن یوسف بن حیان أثیر الدین الأندلسی (۸:۴۸۵)
مجاہدختم نبوت علاء الدین صاحب الدیوان کامدعی نبوت کو قتل کرنا
کُیُّ شابٌّ ذکیّ ادَّعَی النُّبُوَّۃ بتُسْتَر، وزعم أنّہ عِیسَی ابن مریم، وأسقط عن أتباعہ العصر والعشاء أمر بقتلہ صاحب الدّیوان.
ترجمہ :امام شمس الدین أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن عثمان بن قَایْماز الذہبی المتوفی : ۷۴۸ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ ’’کیّ‘‘نام کاایک نوجوا ن تھاجس نے نبوت کادعوی کردیااوراس کایہ گمان تھاکہ وہ عیسی بن مریم ہے ، اس نے اپنے ماننے والوں سے عصراورعشاء کی نماز معاف کردی تھی ، اس کو تسترکے حاکم نے قتل کردیاتھا۔
(تاریخ الإسلام:شمس الدین أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن عثمان بن قَایْماز الذہبی (۵۰:۲۰۴)
کی کاقتل کب ہوا؟
کی المتنبء کَانَ شَابًّا ذکیاً فَقِیہا ادّعی النُّبُوَّۃ بتستر وَزعم أَنہ عِیسَی بن مَرْیَم واسقط عَن ابتاعہ صَلَاۃ الْعَصْر وعشاء الْآخِرَۃ َٔمر بقلتہ عَلَاء الدّین صَاحب الدِّیوَان سنۃ اثْنَتَیْنِ وَسبعین وسِتمِائَۃ۔
ترجمہ :صلاح الدین خلیل بن أیبک بن عبد اللہ الصفدی رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ کی نوجوان تھا، فقیہ تھا، تواس نے نبوت کادعوی کردیااس کو قتل کروانے کاحکم صاحب الدیوان علاء الدین نے ۶۷۲ھ) میں دیا۔
(الوافی بالوفیات:صلاح الدین خلیل بن أیبک بن عبد اللہ الصفدی(۲۴:۲۸۴)
مجاہدختم نبوت سلطان اسلام ملک ناصرمحمدرحمہ اللہ تعالی
وَفِی یَوْمَ الْإِثْنَیْنِ الْخَامِسَ وَالْعِشْرِینَ مِنْ رَبِیعٍ الْأَوَّلِ ضُرِبَتْ عُنُقُ شَخْصٍ یُقَالُ لَہُ عَبْدُ اللَّہِ الرُّومِیُّ وَکَانَ غُلَامًا لِبَعْضِ التُّجَّارِ، وَکَانَ قد لزم الجامع، ثم ادّعی النبوۃ واستتیب فَلَمْ یَرْجِعْ فَضُرِبَتْ عُنُقُہُ وَکَانَ أَشْقَرَ أَزْرَقَ الْعَیْنَیْنِ جَاہِلًا، وَکَانَ قَدْ خَالَطَہُ شَیْطَانٌ حَسَّنَ لَہُ ذَلِکَ، وَاضْطَرَبَ عَقْلُہُ فِی نَفْسِ الْأَمْرِ وَہُوَ فِی نَفْسِہِ شَیْطَانٌ إِنْسِیٌّ.
ترجمہ ـ:امام أبو الفداء إسماعیل بن عمر بن کثیر القرشی البصری ثم الدمشقی المتوفی : ۷۷۴ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ سلطان اسلام ملک ناصرمحمد رحمہ اللہ تعالی کے زمانہ میں سنہ ۷۱۹ھ) میں عبداللہ رومی بدبخت نے نبوت کادعوی کردیاتھااوریہ کسی تاجرکاغلام تھااورجامع مسجدمیں بیٹھارہتاتھا، پھرا س نے نبوت کادعوی کردیا، اس کو توبہ کرنے کاکہاگیامگر اس نے توبہ نہیں کی تواس کو قتل کردیاگیااورشیطان اس کے ساتھ جڑارہتاتھا، اوردرحقیقت اس کی عقل خراب ہوگئی تھی اوریہی خود انسانی صورت میں شیطان تھا۔
(البدایۃ والنہایۃ:أبو الفداء إسماعیل بن عمر بن کثیر القرشی البصری ثم الدمشقی (۱۴:۱۱۹)
مجاہدختم نبوت امام احمدرضاحنفی الماتریدی رحمہ اللہ تعالی
برصغیر پاک و ہند میں امام احمد رضا حنفی الماتریدی رحمہ اللہ تعالی کے خانوادے نے منکرین ختم نبوت اور قادیانیت کا رد کیا۔ امام احمد رضا حنفی الماتریدی رحمہ اللہ تعالی نے مرزا قادیانی کو صرف کافر ہی نہیں قرار دیا بلکہ اس کو مزید منافق بھی کہا ہے اور اپنے فتوئوں میں اس کو اس کے اصلی نام غلام قادیانی کے سے تعبیر کیا ہے۔ مرتد و منافق وہ شخص ہے جو کلمہ اسلام پڑھتا ہے۔ اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہے۔ اس کے باوجود اﷲتعالیٰ یاحضورتاجدارختم نبوتﷺیا کسی نبی یا رسول کی توہین کرتا ہے یا ضروریات دین سے کسی شے کا منکر ہے۔ اس کے احکام کافر سے بھی سخت تر ہیں۔ امام صاحب نے مرزا غلام قادیانی اور منکرین ختم نبوت کے ردو ابطال میںمتعدد فتاویٰ کے علاوہ جو مستقل رسائل تصنیف کئے ہیں ان کے نام یہ ہیں۔
(۱)…{ جزاء اﷲعدو بآباہ ختم النبوۃ }یہ رسالہ(۱۳۱۷ھ) میں تصنیف ہوا۔ اس میں عقیدہ ختم نبوت پر ۱۲۰حدیثیں اور منکرین کی تکفیر پر جلیل القدر ائمہ کرام کی تیس تصریحات پیش کی گئی ہیں۔
(۲)…{ السوء والعقاب علی المسیح الکذاب}یہ رسالہ( ۱۳۲۰ھ)میں اس سوال کے جواب میں تحریر ہوا کہ اگر ایک مسلمان مرزائی ہوجائے تو کیا اس کی بیوی اس کے نکاح سے نکل جائے گی؟ امام احمد رضا حنفی الماتریدی رحمہ اللہ تعالی نے دس وجوہات سے مرزا غلام قادیانی کا کفر ثابت کرکے احادیث کے نصوص اور دلائل شرعیہ سے ثابت کیا کہ سنی مسلمہ عورت کا نکاح باطل ہوگیا۔ وہ اپنے کافر مرتد شوہر سے فورا علیحدہ ہوجائے۔
(۳)…{قہرالدیان علی فرقہ بقادیان}یہ رسالہ(۱۳۲۳ھ) میں تصنیف ہوا۔ اس میں جھوٹے مسیح قادیان کے شیطانی الہاموں، اس کی کتابوں کے کفریہ اقوال نقل کئے اورحضرت سیدنا عیسٰی علیہ الصلوۃ والسلام اور ان کی والدہ ماجدہ سیدہ مریم رضی اﷲعنہا کی پاکی و طہارت اور ان کی عظمت کو اجاگر کیا گیا ہے۔
(۴)…{ المبین ختم النبین}یہ رسالہ(۱۳۲۶ھ) میں اس سوال کے جواب میں تصنیف ہوا کہ خاتم النبین میں لفظ النبین پر جو الف لام ہے وہ استغراق کا ہے یا عہد خارجی کا ہے؟۔ امام احمد رضا حنفی الماتریدی رحمہ اللہ تعالی نے دلائل کثیرہ واضح سے ثابت کیا ہے کہ اس پر الف لام استغراق کا ہے اور اس کا منکر کافر ہے۔
(۵)…{ الجزار الدیان علی المرتد القادیان}یہ رسالہ ۳محرم الحرام (۱۳۴۰ھ) کو ایک استفتاء کے جواب میں لکھا گیا اور اس سال ۲۵صفر المظفر ۱۳۴۰ھ) کو آپ کا وصال ہوا۔
(۶)…{ المعتقد} امام احمد رضا حنفی الماتریدی رحمہ اللہ تعالی کے مستند افتاء سے ہندوستان میں جو سب سے پہلا رسالہ قادیانیت کی رد میں شامل ہوا وہ ان کے صاحبزادے مولانا مفتی حامد رضا خان نے (۱۳۱۵ھ/۱۸۹۶ء )الصارم الربانی علی اسراف القادیانی کے نام سے تحریر کیا تھا جس میں مسئلہ حیات عیسٰی علیہ السلام کو تفصیل سے بیان کیا گیا ہے اور غلام قادیانی کذاب کے مثیل مسیح ہونے کازبردست رد کیا گیا ہے۔ امام احمد رضا حنفی الماتریدی رحمہ اللہ تعالی نے خود اس رسالے کو سراہا ہے۔مذکورہ بالا سطور سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ منکرین ختم نبوت اور قادیانیوں کی رد میں امام احمد رضا حنفی الماتریدی رحمہ اللہ تعالی کس قدر سرگرم مستعد متحرک اور فعال تھے۔ وہ اس فتنے کے ظاہر ہوتے ہی اس کی سرکوبی کے درپے تھے۔ اس فتنے کی رد میں امام احمد رضا حنفی الماتریدی رحمہ اللہ تعالی کی مساعی جمیلہ اس قدر قابل ستائش اور قابل توجہ ہیں کہ ہر موافق و مخالف نے انہیں قدر کی نگاہ سے دیکھا ہے۔
مجاہدختم نبوت حضرت پیر سید مہر علی شاہ صاحب رحمہ اللہ تعالی
حضرت پیر مہر علی شاہ صاحب رحمہ اللہ تعالی کا شمار ان نابغہ روزگار ہستیوں میں ہوتا ہے جو احیائے اسلام اور تجدید دین کے باعث محی الدین تھے۔ آپ علم و عرفان اور شریعت و طریقت، دونوں میں جامع تھے۔ قدرت نے انھیں تحفظ ختم نبوت اور فتنہ قادیانیت کی سرکوبی کے لیے بطور خاص تیار کیا تھا۔(۱۸۹۰ء) میںحضرت پیر مہر علی شاہ صاحب رحمہ اللہ تعالی نے مستقل طور پر مدینہ طیبہ میں سکونت پذیر ہونے کا ارادہ کر لیا۔ لہٰذا اس غرض سے حج کا سفر کیا۔ مدینہ طیبہ میں حضور تاجدارختم نبوتﷺ کی بارگاہ میں حاضری کے بعد بہت خوش ہوئے کہ اب زندگی کی باقی تمام بہاریں گنبد خضرا کی ٹھنڈی چھائوں تلے گزاریں گے۔ اسی روز حضور تاجدارختم نبوتﷺپیر مہر علی شاہ صاحب رحمہ اللہ تعالی کے خواب میں تشریف لائے اور فرمایا:مہر علی، ہندوستان میں مرزا قادیانی میری احادیث کو تاویل کی قینچی سے ٹکڑے ٹکڑے کر رہا ہے اور تم خاموش بیٹھے ہو۔واپس جائو اور اس فتنہ کا سدباب کرو۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ حضور تاجدارختم نبوتﷺ اپنے امتی کو ہمیشہ اعلیٰ و ارفع کام کا حکم دیتے ہیں۔ مسجد نبوی شریف میں ایک نماز ادا کرنے کا ثواب پچاس ہزار نمازوں کے برابر ہے، جبکہ بیت اللہ شریف میں ایک نماز ادا کرنے پر ایک لاکھ نمازوں کا ثواب ملتا ہے۔لیکن یہاںحضور تاجدارختم نبوتﷺاپنے ایک امتی کو حکم دے کر قادیانی فتنہ کی سرکوبی کے لیے واپس ہندوستان بھیج رہے ہیں۔ اس بات سے ثابت ہوتا ہے کہ تحفظ ختم نبوت کا کام جہاد عظیم ہے۔ اس کام سے بڑھ کر کوئی کام امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی تعریف پر پورا نہیں اترتا۔ جو کوئی شخص دنیا کے کسی خطے میں تحفظ ختم نبوت کا کام کرتا ہے، اسے بیت اللہ شریف اور مسجدنبوی شریف میں نمازیں پڑھنے سے کروڑوں درجہ زائد ثواب ملتا رہے گا کیونکہ اس کی کوشش سے ایک مسلمان مرتد ہونے سے بچ جاتا ہے اور ایک گم کردہ راہ قادیانی واپس اسلام کی آغوش میں آ جاتا ہے۔ اگر کوئی شخص تحفظ ختم نبوت کا کام کرتا ہے تو اس کو ثواب تو ہوگا ہی لیکن اس کی وجہ سے جتنے آدمی اس نیک کام کو شروع کریں گے یا اس فتنہ کے کفریہ عقائد سے آگاہ ہو کر اپنا ایمان بچائیں گے یا اس فتنہ میں مبتلا لوگ واپس حلقہ بگوش دین متین ہو جائیں گے تو ان سب لوگوں کی نیکیوں میں اس شخص کا بھی مستقل حصہ ہوگا۔ تحفظِ ختم نبوت کا کام ایک ایسے سرمائے کی مثل ہے جو کسی فیض رساں تجارت میں لگا دیا جائے تو اس سے ہمیشہ اس کا منافع ملتا رہے۔ دوسری اہم بات یہ بھی معلوم ہوئی کہ تحفظ ختم نبوت کے کام کی سرپرستی اور نگرانی براہ راست حضور تاجدارختم نبوتﷺخود فرماتے ہیں اور ضرورت پڑنے پر خود راہنمائی بھی فرماتے ہیں۔
حضرت پیرمہرعلی شاہ صاحب رحمہ اللہ تعالی کامدینہ منورہ سے واپس آنااورمرزے کارد کرنا
چنانچہ حضرت پیر مہر علی شاہ صاحب رحمہ اللہ تعالی واپس ہندوستان تشریف لائے اور فتنہ قادیانیت کی سرکوبی کے لیے دن رات ایک کر دیا۔ پیر صاحب نے نہ صرف مسلمانوں کو اس فتنہ کی شر انگیزیوں سے آگاہ کیا بلکہ قادیانیت کی تردید میں کئی ایک کتب بھی تحریر فرمائیں جن میں قادیانی عقائد و عزائم کا منہ توڑ جواب دیا۔ آپ کی بھرپور کوششوں سے مرزا قادیانی حواس باختہ ہو گیا اور کہا کہ بادشاہی مسجد لاہور میں میرے ساتھ تفسیر نویسی کا تحریری مناظرہ کر لیں۔ پیر صاحب نے جواباً فرمایا کہ ممکن ہے اس طرح مناظرہ میں فیصلہ نہ ہو سکے۔ ایک کاغذ پر قلم تم رکھ دو، ایک کاغذ پر قلم میں رکھ دیتا ہوں۔ جس کا قلم خود بخود لکھنا شروع کر دے، وہ سچا اور جس کا قلم پڑا رہے وہ جھوٹا۔ پھر فرمایا کہ اگر یہ بھی منظور نہیں تو تم حسب وعدہ، شاہی مسجد میں آئو، ہم دونوں اس کے مینار پر چڑھ کر چھلانگ لگاتے ہیں، جو سچا ہوگا، وہ بچ جائے گا اور جو کاذب ہوگا، وہ مر جائے گا۔ مرزا قادیانی نے جواب میں اس طرح چپ سادھی کہ گویا دنیا ہی سے رخصت ہو گیا۔ تحفظ ختم نبوت کے لیے پیر صاحب کی یہ رجز خوانی تیرہ سو سال کے اولیاء و مشائخ کی روحانی قوتوں کا فیضان تھا اور نہ جانے کون کون سی ہستیاں آپ کی پشت پناہ تھیں۔ ایک بزرگ حضرت سید چانن شاہ جابہ شریف اس عرصے میں اپنے ایک خواب کی کیفیت بیان کرتے تھے:
میں نے ایک فوج کو عَلَم لہراتے دریائے جہلم کے پل پر سے لاہور کی طرف جاتے دیکھا جس میں سے ایک صاحب نے میرے پوچھنے پر بتایا کہ ہم بغداد شریف سے آ رہے ہیں اور پیر صاحب گولڑہ شریف کی نصرت کے لیے جھوٹے مدعی نبوت مرزا قادیانی کے مقابلے پر لاہور جا رہے ہیں۔
مرزائیوں کے منہ پرطمانچہ
کچھ عرصہ بعد قادیانی جماعت کا ایک وفد حضرت پیر مہر علی شاہ گولڑوی رحمہ اللہ تعالی کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا کہ ایک اندھے اور ایک اپاہج یعنی لنگڑے کے حق میں آپ دعا کریں، دوسرے اندھے اور لنگڑے کے حق میں مرزا قادیانی دعا کرے۔ جس کی دعا سے اندھا اور لنگڑا ٹھیک ہو جائیں، وہ سچا ہے، اس طرح حق و باطل کا فیصلہ ہو جائے گا۔ پیر صاحب نے جواب دیا کہ یہ بھی منظور ہے۔ مزید مرزا قادیانی سے یہ بھی کہہ دیں کہ اگر مردے بھی زندہ کرنے ہوں تو آ جائے، ہم اس کے لیے بھی تیار ہیں۔ لیکن مرزا قادیانی کو پیر صاحب کے سامنے آنے کی ہمت نہ پڑی۔ اس پر حضرت سیدناپیر مہر علی شاہ رحمہ اللہ تعالی نے فرمایا:یہ دعویٰ میں نے ازخود نہیں کیا تھا بلکہ عالم مکاشفہ میں حضور تاجدارختم نبوتﷺکے جمال باکمال سے میرا دل اس قدر قوی اور مضبوط ہو گیا تھا کہ مجھے یقین کامل تھا کہ اگر اس سے بھی کوئی بڑا دعویٰ کرتا تو اللہ تعالیٰ ایک جھوٹے مدعی نبوت کے خلاف ضرور مجھے سچا ثابت کرتا۔ مجھے یقین کامل ہے کہ جو شخص تحفظ ختم نبوت کا کام کرتا ہے، اس کی پشت پر حضور تاجدارختم نبوتﷺکا ہاتھ ہوتا ہے۔
پیر صاحب کا یہ احساس تائید ربانی سے بہرہ ور تھا کیونکہ تحفظ ختم نبوت کی اس جدوجہد میں شروع ہی سے آپ حضور تاجدارختم نبوتﷺکے بے پایاں لطف و کرم کی تجلیاں اپنی آغوش میں لیے ہوئے تھیں۔
مرزے ملعون کاراہ فراراختیارکرنا
(۱۸۹۸ء)میں مرزا قادیانی ملعون نے منٹو پارک میں ایک جمِّ غفیر کی موجودگی میں مینار پاکستان والی جگہ پر اسٹیج لگایا اور بار بار اعلان کر رہا تھا کہ اگر وہ نبوّت کے دعوے میں جھوٹا ہے تو اسے اس اسٹیج سے در بدرکردیا جائے لیکن جو مسلمان بھی یہ کوشش کرتا ناکام رہتا ، حضرت پیر سید مہر علی شاہ صاحب رحمہ اللہ تعالی اتفاقًا جامعہ نظامیہ بازار حکیماں لاہور میں تھے۔حضرت پیر سید مہر علی شاہ صاحب رحمہ اللہ تعالی کی خدمت میں یہ ساری صورت حال بیان کی گئی تو آپ نے مرزا قادیانی کے مقابلے میں آنے کی ٹھانی اور منٹو پارک روانہ ہو گئے اور اسٹیج پہ کھڑے ہو کر فرمایا کہ یہ شخص نبی ہونے کا دعویدار ہے جبکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل ِخاص سے حضورتاجدارختم نبوتﷺ کے اس غلام ابن غلام ابن غلام کو اپنی ولایت سے سرفراز فرمایا ہے ،نبی کا درجہ ہر حال میں ولی سے بالاتر ہوتا ہے ۔میں اس شخص سے چار سوال کرتا ہوں مرزا قادیانی ان سوالات کا جواب دے اور اپنی صداقت کا ثبوت دے ورنہ پھر میں اس کی تردید کرنے کی غرض سے بفضلِ باری تعالٰی ان سوالات کا جواب دوں گا ۔
(۱)…مرزا قادیانی حکم دے کہ دریائے راوی اپنا موجودہ رخ تبدیل کرکے فی الفور اس پنڈال کے ساتھ ساتھ بہنا شروع کر دے یا میں ایسا کر دکھاتا ہوں۔
(۲)…ایک نہایت پاکباز کنواری لڑکی کو پنڈال کے نزدیک چوطرفہ پردہ میں رکھ کر مرزا قادیانی دعاء کرے کہ بغیر مرد کے اختلاط کے اللہ کریم اس لڑکی کو اسی جگہ پر ایک لڑکا دے جو اس کی نبوّت یا میری ولایت کی تصدیق کرے۔
(۳)…اپنے لعابِ دہن سے باہر کڑوے پانی کے کنویں کو میٹھا کر دے یا پھر میں کر دیتا ہوں۔
(۴)…وہ مجھے شیر بن کر کھا جائے یا میں اسے کھا جاتا ہوں۔
حضرت پیر سید مہر علی شاہ صاحب رحمہ اللہ تعالی کی زبان مبارک سے یہ الفاظ نکل رہے تھے کہ گردن سے شیر کے بال نمودار ہونے لگے لیکن آپ کے ساتھ کھڑے ایک بزرگ نے فوراً آپ کی گردن مبارک پہ ہاتھ رکھ کر کہا کہ سرکارشریعت، شریعت ۔اس پہ آپ رحمتہ اللہ علیہ اپنی اصل حالت میں آ گئے مگر اسی دوران مرزا قادیانی اسٹیج چھوڑ کر بھاگ گیا بعد میں سرکار اس واقعہ کے یاد آنے پہ فرماتے اگر مولوی صاحب نے مجھے روکا نہ ہوتا تو میں اسے تحت الثریٰ میں بھی ڈھونڈ کر ختم کر دیتا مگر اللہ تعالی کی مرضی یہ نہ تھی آپ نے فرمایا کہ دراصل اسکے پاس تین جِنّ تھے جو اسکے مُقابل بولنے والے کی زبان پکڑ لیتے تھے مگر اللہ کے فضل سے وہ مجھ پہ حاوی نہ ہو سکے۔
(جنہیں ختمِ نبوت سے عشق تھا :از طاہرعبدالرزاق:۱۰۵)
مرزے ملعون کی شکست کے بعد کاحال
قادیانیت کے مقابلے میں حضرت سیدناپیر مہر علی شاہ رحمہ اللہ تعالی کو فتح مبین اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملی، اس کی خوشی میں بادشاہی مسجد لاہور میں ۲۷اگست (۱۹۰۰ء) کو مسلمانوں کا ایک عظیم الشان جلسہ منعقد کیا گیا۔ جلسہ کی صدارت حضرت سیدناپیر مہر علی شاہ رحمہ اللہ تعالی نے کی۔ اس جلسہ میں انتہائی ایمان افروز تقریریں ہوئیں اور ایک قرارداد بھی منظور کی گئی۔ اس قرارداد پر تقریباً ۶۰علمائے کرام کے دستخط ہیں۔ قرارداد کا مفہوم کچھ اس طرح سے تھا کہ مرزا غلام قادیانی کا بزرگان دین اور مشاہیر اسلام کو علمی مناظرے کا چیلنج دینا محض جھوٹی شہرت حاصل کرنے کا اظہار ہے۔ حضرت سیدناپیر مہر علی شاہ رحمہ اللہ تعالی کو جو چیلنج مرزا کذاب کی طرف سے دیا گیا وہ بھی اس امر کا ثبوت ہے کہ یہ صرف مرزا قادیانی کی لاف زنی اور اپنے علم پر جھوٹا گھمنڈ تھا۔ اگر اسے اپنے جھوٹے دعووں پر اعتماد تھا تو اسے پیر صاحب گولڑہ شریف سے تقریری مباحثے سے راہ فرار اختیار نہیں کرنی چاہئے تھی۔ مرزا غلام قادیانی کے عقائد قرآن کریم، احادیث نبویہ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اجماع کے بالکل خلاف اور باطل ہیں۔ مرزا قادیانی نبوت کے غلط، بے بنیاد اور لغوی دعویٰ کی بنیاد پر خارج از اسلام ہے۔ مرزا قادیانی کا قادیان کو مکہ سے نسبت دینا، مسجد قادیان کو مسجد اقصیٰ قرار دینا، حضورتاجدارختم نبوتﷺکی معراج کا منکر ہونا، اللہ تعالی کے ایک برگزیدہ اور محبوب پیغمبر عیسیٰ علیہ السلام کی سخت توہین کرنا انتہائی شرمناک اور سراسر کفر ہے۔ مرزا قادیانی کی تحریریں اور اشتہارات بھی شرمناک جھوٹ اور بدزبانی کا منہ بولتا ثبوت ہیں اس لئے آئندہ اس کی تحریروں کا کوئی جواب دینے کی ضرورت نہیں کیونکہ یہ ایک فیصلہ کن اور اٹل بات ہے کہ غلام قادیانی کے عقائد یکسر خلاف اسلام ہیں۔ مرزا قادیانی لاہور میں اپنے راہ فرار کے بعد بھی اپنی عادت سے مجبور ہو کر حضرت سیدناپیر مہر علی شاہ رحمہ اللہ تعالی کے خلاف بے ہودہ تحریریں شائع کرتا رہا لیکن پیر صاحب نے اسے جواب کے قابل ہی نہ سمجھا۔( ۱۹۰۷ء) میں قادیانیوں نے اپنے حلقوں میں یہ بات مشہور کر دی کہ حضرت سیدناپیر مہر علی شاہ رحمہ اللہ تعالی کا آنے والے سال میں جیٹھ کے مہینے سے پہلے انتقال ہو جائے گا۔ قادیانیوں کی یہ حسرت تو پوری نہ ہوئی( ۱۹۰۸ء) میں جیٹھ سے پہلے پیر صاحب وفات پا جائیں گے البتہ( ۱۹۰۸ء) میں مرزا غلام احمد قادیانی کی عبرتناک موت نے خود اس کے جھوٹے دعووں پر مہر تصدیق ثبت کر دی۔
مجاہدختم نبوت حجۃ الاسلام مولانا حامد رضا خان قادری رحمہ اللہ
آپ اپنے والد ماجدامام احمدرضاحنفی الماتریدی رحمہ اللہ کا آئینہ تھے۔ختم نبوت پر آپ کی نہایت ہی عمدہ اور مفید تصنیف ’’الصارم الربانی علی اسراف القادیانی(۱۳۲۷ھ) ‘‘میں مطبع حنفیہ پٹنہ سے شائع ہوئی اور پھر بریلی اور لاہور سے شائع ہوئی۔
مجاہدختم نبوت حضرت مولانا غلام دستگیر قصوری رحمہ اللہ
آپ کی تبلیغ اسلام کے متعلق کوششیں اور کاوشیں ناقابل فراموش ہیں۔ تذکرہ اکابر اہل سنت میں مولانا عبدالحکیم شرف قادری رحمہ اللہ تعالی نے آپ کی تیرہ تصانیف کا تذکرہ کیا ہے جن میں سے ایک ’’فتح الرحمانی بہ دفع کید قادیانی‘‘بھی ہے جو رد مرزائیت میں بڑی مدلل اور عمدہ تصنیف ہے۔مرزا قادیانی نے جن اکابر علماء کو اپنے مقابل چیلنج دیا ان میں مولانا غلام دستگیر قصوری رحمہ اللہ کا بھی نام شامل ہے۔
مجاہدختم نبوت حضرت مولانا غلام قادر بھیروی رحمہ اللہ
رد مرزائیت میں پنجاب میں سب سے پہلے آپ ہی نے یہ فتویٰ جاری فرمایا کہ قادیانیوں کے ساتھ مسلمان مرد و عورت کا نکاح حرام ہے۔بعد میں علماء دین مفتیان شرع متین نے اسی فتوی مبارکہ سے استفادہ کرتے ہوئے مرزائیوں سے مناکحت و تزویج کو ناجائز اور ان سے میل جول اور ذبیحہ تک کے حرام ہونے کا فتویٰ دیا۔مرزا نے جب نبوت کا دعویٰ کیا اور حکیم نور الدین نے اس کی موافقت کی تو حکیم نور الدین کا ایسا ناطقہ بند کیا کہ زندگی بھر اسے بھیرہ شریف میں داخلے کی جرات نہ ہوئی
مجاہدختم نبوت مجاہد اسلام مولانا فقیر محمد جہلمی رحمہ اللہ
آپ نے( ۱۳ذی الحج ۱۳۰۳ھ) سے ایک ہفتہ وار پرچہ سراج الاخبار کے نام سے جاری کیا۔ اس اخبار نے اپنے دور کے اعتقادی فتنوں خاص کر فتنہ مرزائیت کی تردید میں بڑا کام کیا۔ مرزا قادیانی اور اس کے حواری سراج الاخبار کے کارناموں سے سٹپٹا اٹھے۔ چنانچہ انہوں نے سراج الاخبار کو بند کرانے کے ہر ممکن حربے استعمال کیئے۔ آپ اور آپ کے رفیق حضرت مولانا محمد کرم دین صاحب رحمہ اللہ تعالی پر مقدمات کا آغاز ہوا۔ مگر یہ عالی قدر ہستیاں ان مصائب و آلام سے گھبرانے والی نہ تھیں۔ابتلاء و آزمائش کی آندھیاں ان کے پائے استقلال میں ذرہ بھر لغزش پیدا نہ کر سکیں۔گورداسپور کی عدالت میں مقدمہ چلا جو بالآخر مرزا لعین اور اس کے حواریوں کی شکست پر منتج ہوا۔ مرزا قادیانی کی خوب درگت بنی اورمولانا فقیر محمد جہلمی اور آپ کے رفیق کار مولانا محمد کرم دین رحمہم اللہ باعزت بری ہوئے۔
مجاہدختم نبوت استاذ العلماء مولانا حکیم محمد عالم آسی امرتسری رحمہ اللہ
آپ حضرت مولانا مفتی غلام قادر بھیروی رحمہ اللہ سے شرف تلمذ رکھتے تھے۔ تبلیغ سنت اور رد مرزائیت میں آپ نے دو ضحیم جلدوں میں عظیم الشان تاریخی تصنیف’’الکاویہ علی الغاویہ‘‘(چودھویں صدی کے مدعیان نبوت)عربی اور اردو علٰیحدہ علٰیحدہ شائع فرمائی۔ مجموعی طور پر یہ نادرروزگار کتاب ایک ہزار چھیاسٹھ صفحات پر مشتمل ہے۔ اس کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اس میں بڑی آزادی کے ساتھ مرزائی مذہب کا جتنا بھی لٹریچر ہے، مع پوسٹر و اشتہارات وغیرہ سب کا خلاصہ مع تنقیدات اہل اسلام درج ہے۔ علماء امت اور اہل علم حضرات نے اس کتاب کو تحسین کی نگاہ سے دیکھا ۔ چنانچہ اہل حدیث عالم ثناء اللہ امرتسری اس پر تقریظ لکھتے ہوئے اپنے خیالات کا یوں اظہار کرتے ہیں:’’کتاب الکاویہ علی الغاویہ‘‘مصنفہ جامع المعقول والمنقول جناب مولانا محمد عالم آسی میں نے دیکھی ۔ اپنے مضمون میں جامع ہے۔ اسلامی دنیا میں بہاء اللہ ایرانی اور مرزا قادیانی نے جو تہلکہ مچا رکھا ہے آج اس کی نظیر نہیں ملتی۔ ان حالات و مقالات کی جامع کتاب چاہیئے تھی مصنف علامہ نے اس ضرورت کو پورا کر دیا ۔
مجاہدختم نبو ت حضرت مولانا مفتی غلام مرتضیٰ رحمہ اللہ
آپ ضلع شاہ پور کی وہ عظیم المرتبت شخصیت ہیں جس نے فتنہ قادیانیت کا قلع قمع کرنے میں بے نظیر کارنامے سرانجام دیئے۔ آپ کو حضرت اعلی سید پیر مہر علی شاہ قدس سرہ سے بیعت کا شرف حاصل تھا۔کئی سال مدرسہ نعمانیہ لاہور کے مدرس اول رہے۔(۱۴یا ۱۵مئی ۱۹۰۱ء)کو حکیم نورالدین سے ابراہیم قادیانی کے مکان میں کشمیری بازار میں حیات مسیح ابن مریم علیہ السلام پر تاریخی مناظرہ ہوا۔ حکیم نورالدین خلیفہ اول مرزا لعین آپ سے سخت مرعوب ہو گیااور ایسی کوئی دلیل پیش نہ کر سکا جس پر اسے خود تسلی ہوتی آخر کار اپنا کالاسامنہ لے کر نکل گیا۔ یہ تاریخی مکالمہ آپ نے الظفر الرحمانی میں درج فرمایا۔
مجاہدختم نبوت علامہ ابوالحسنات سید محمد احمد قادری رحمہ اللہ
آپ علماء میں وہ واحد ہستی تھے جن کو تحریک ختم نبوت( ۱۹۵۳ء) میں تمام مکاتب فکر کے علماء نے اپنا قائد تسلیم کیا۔آپ نے اس تحریک میں پرجوش حصہ لیا اور تمام مسلمانوں کو دعوت عمل دی اور حکومت وقت کے سامنے مذہبی مطالبات پیش کیئے۔آپ نے بحیثیت صدر مجلس عمل ان مطالبات کے لئے بڑی جدوجہد کی۔ مظفر علی شمسی بیان کرتاہے کہ میں اس وقت مجلس عمل کا سیکرٹر ی تھا اس جلسہ میں مجھے موصوف کے قریب رہنے کا موقع ملا۔میں ان سے بہت متاثر ہوا اور انہیں ہر موقع پر باعمل پایا۔خواجہ ناظم الدین مرحوم وزیراعظم سے ہر ملاقات میں مولانا کے ہمراہ رہا اور جس شان سے مولانا موصوف نے قوم کے مطالبات پیش کیئے وہ صرف انہی کا خاصہ تھا۔
رد مرزائیت کے سلسلہ میں آپ نے رسائل و جرائد اور اخبارات و اشتہارات کے ذریعہ بھی بڑی خدمت انجام دی ہے۔قادیانیت کے رد میں ذیل کی دو کتابیں آپ کی مستقل یادگار ہیں
(۱)… مرزائیت پر تبصرہ(۲)… قادیانی مذہب کا فوٹو
مجاہدختم نبوت مولانا عبد الحامد بدایوانی رحمہ اللہ
آپ کی زندگی کا سب سے بڑا مشن عقیدہ ختم نبوت کا تحفظ تھا۔چنانچہ اس تحریک میں آپ نے نمایاں حصہ لیا۔ تحریک تحفظ ختم نبوت اور رد مرزائیت کی پاداش میں حکومت نے انہیں گرفتار کر لیا۔ایک سال تک سکھر اور کراچی کی جیلوں میں علامہ ابوالحسنات قادری کی معیت میں نظر بند رہے۔ قید و بند کی صعوبتوں کو بڑی جوانمردی سے برداشت کیا۔ ان کی مدبرانہ فراست نے پورے ملک میں اس تحریک کو مقبول بنا دیا۔
مجاہدختم نبوت مولانا محمد عمر اچھروی رحمہ اللہ
رد مرزائیت میں آپ کی معرکۃ الاراء تصنیف ’’مقیاس النبوۃ‘‘شامل ہے۔ یہ کتاب تین ضحیم جلدوں اور تقریباََ ڈیڑھ ہزار صفحات پر مشتمل ہے۔
مجاہدختم نبوت مولانا عبد الستار خان نیازی رحمہ اللہ
آپ نے تحریک ختم نبوت کے لئے اپنی زندگی کو وقف کر رکھا تھا۔جب( ۱۹۵۳ء) میں تحریک ختم نبوت چلی تو آپ کراچی میں تھے۱۳فروری کو تحریک شروع ہوئی۲۴اور ۲۵فروری کو گرفتاریوں کا آغاز ہوا۔ چنانچہ آپ پولیٹیکل ورکرز کنوینشن سے واپس لاہور آئے اور ۲۷فروری کو جامع مسجد داتا گنج بخش لاہور میں جلسہ سے خطاب کر رہے تھے کہ اطلاع ملی کہ تحریک کے تمام راہنماؤں کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔
راہنماؤں کی گرفتاری کے بعد یہ خطرہ پیدا ہو گیا تھا کہ یہ پرامن تحریک تشدد کا رخ اختیار کر لے گی۔ چنانچہ آپ نے( ۱۳مارچ ۱۹۵۳ء) میں مسجد وزیرخان میں تحریک کے نظام کا مرکزی دفتر قائم کیا اور حضرت مولانا مفتی محمد حسین نعیمی کے تعاون سے تحریک کے اغراض و مقاصد پر مشتمل چار ہزار کاپیاں شہر اور اس کے مضافات میں تقسیم کیں۔ اور اس طرح تحریک تحفظ ختم نبوت کو ایک مرکزی پلیٹ فارم مہیا کیا ۔ جس کی وجہ سے تحریک ایک مضبوط اور منظم شکل میں سامنے آئی ۔
مجاہدختم نبوت حضرت مولانا سید محمد احمد رضوی رحمہ اللہ
آپ کی ذات والا برکات کسی تعارف کی محتاج نہیں۔تحریک ختم نبوت( ۱۹۷۴ء) میں کراچی سے پشاور تک لاہور سے کوئٹہ تک جگہ جگہ ملک کے طول و عرض میں دورے کیئے۔ آپ کی کوئٹہ میں حکیم محمد ادریس فاروقی سے بھی ملاقات ہوئی۔مولانا فاروقی ان دنوں مجلس تحفظ ختم نبوت بلوچستان کے نائب صدر تھے۔ آپ نے بسلسلہ ختم نبوت رضوی صاحب کا بھرپور ساتھ دیا۔ادارہ مجلس عمل کے سیکرٹری جنرل کی حیثیت سے آپ نے دن رات ایک کر رکھا تھا۔آخر اللہ عزوجل نے کامیابی و کامرانی سے ہمکنار فرمایا۔آپ نے رد مرزائیت میں قلمی جہاد بھی فرمایا۔خصوصاََ رد مرزائیت میں ہفت روزہ رضوان لاہور کا ختم نبوت نمبر تاریخی اہمیت کا حامل ہے۔( ۱۹۵۳ء) میں تحریک میں حصہ لینے پر آپ تین ماہ شاہی قلعہ میں محبوس بھی رہے۔
مجاہدختم نبوت مولانا شاہ احمد نورانی صدیقی رحمہ اللہ
حضرت مولانا شاہ احمد نورانی صدیقی رحمہ اللہ کی ختم نبوت کے حوالہ سے خدمات آب زر سے لکھنے کے قابل ہیں۔آپ رحمہ اللہ تعالی نے اپنی ساری زندگی ختم نبوت کے ڈاکوئوں کے خلاف جہاد کرتے ہوئے گزاری ۔
آپ رحمہ اللہ تعالی اپنے ایک خطاب میں فرماتے ہیں کہ عقیدہ ختم نبوت اسلام کا قطعی اور اجماعی عقیدہ ہے جس کا تعلق اسلام کے بنیادی عقائد سے ہے جس پر ایمان لانا بھی ہر مسلمان پر فرض ہے یعنی ایک مسلمان اس بات پر ایمان رکھے کہ حضور تاجدار ختم نبوت ﷺاﷲ تعالی کے آخری نبی اور رسول ہیں اور سلسلہ نبوت ورسالت حضورتاجدارختم نبوتﷺپر ختم ہو چکا ہے اور اب آپﷺکے بعد قیامت تک نہ کوئی نبی آئے گا نہ کوئی رسول آئے گااور آپ ﷺکی کتاب ،شریعت مطہرہ اور تعلیمات تاقیامت ہدایت اور نجات کا آخری سرچشمہ ہیں،اگر کوئی شخص ہزار بار بھی کلمہ پڑھے اور دن رات نماز وقیام میں گزارے ،لیکن وہ آپ ﷺکو خاتم النبیین نہیں مانتا یا آپﷺ کے بعد کسی اور کو بھی نبی مانتا ہے تو وہ بلاشبہ مرتد ہے اور واجب القتل ہے۔اﷲتعالیٰ نے نبوت و رسالت کا جو سلسلہ حضرت سیدنا آدم علیہ السلام سے شروع کیا تھا وہ سلسلہ نبوت حضورتاجدارختم نبوتﷺپر ختم کردیا ہے اور آپ ﷺاﷲتعالی کے آخری نبی اور رسول ہیں ۔اب آپ ﷺکے بعد قیامت تک کوئی نبی اور رسول نہیں آئے گا۔
مجاہدختم نبوت علامہ اقبال رحمہ اللہ تعالی
علماء و مشائخ کے علاوہ دانشوروں نے بھی تحریک تحفظ ختم نبوت کی اپنے اپنے انداز میں آبیاری کی چنانچہ مفکراسلام، شاعر مشرق علامہ محمد اقبال رحمہ اللہ تعالی وہ پہلے مسلمان دانشور ہیں جنہوں نے قادیانیت کیخلاف آئینی جنگ کی ابتدا کی۔ چنانچہ آپ نے (۱۹۳۵ء) میں انگریزی میں ایک مضمون لکھا جس میں آپ نے حکومت کو تجویز دی کہ ’’مرزائیت ‘‘کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں لہٰذا اسے علیحدہ اقلیت قرار دیا جائے۔ علامہ اقبال نے ہر جگہ پر فتنہ قادیانیت کی سرکوبی کیلئے کوششیں کیں۔ مرزا قادیانی کے سیالکوٹ قیام کے دوران علامہ اقبال کے خاندان سے اسکے تعلقات قائم ہوئے جنہیں بعد میں غلط طریقے سے استعمال کرنے کی کوشش کی گئی۔ مرزا قادیانی ۱۸۶۴سے ۱۸۶۸ء)تک سیالکوٹ میں نوکری کرتا رہا اور ساتھ ساتھ غیر مسلموں کے ساتھ مناظرے بھی۔ مرزا چونکہ ایک اچھا مقرر تھا لہٰذا اکثر مناظروں میں فتح یاب ہونے لگا اور اسی وجہ سے مسلمانوں نے اسکی حمایت بھی شروع کر دی۔ سیالکوٹ میں مرزا کا قیام بھی حضرت علامہ اقبال رحمہ اللہ تعالی کے گھر کے پاس ہی تھا لہٰذا علامہ اقبال رحمہ اللہ تعالی کے خاندان کے ساتھ بھی اسکی علیک سلیک ہوگئی اور اس وقت تک مرزا نے کوئی غلط دعویٰ نہیں کیا تھا اور نہ ہی اسلام کیخلاف کوئی زبان درازی کی تھی لیکن جب اس نے مجدد ہونے کا دعویٰ کیا اور اسکے نظریات پر باطل کی گرد پڑنے لگی تو اقبال کے خاندان نے مرزا سے قطع تعلق کر لیا، چنانچہ علامہ اقبال رحمہ اللہ تعالی کے والد شیخ نور محمدرحمہ اللہ تعالی کے بارے میں تو خود قادیانی کتاب’’سیرتِ مہدی‘‘میں درج ہے کہ انہوں نے( ۱۸۹۳ء) میں مرزا سے قطع تعلقی اور برات کا اظہار کر دیا تھا۔ خاندانِ اقبال میں واحد نقب علامہ اقبال کے بھتیجے شیخ اعجاز کی صورت میں لگائی گئی جو قادیانی ہوا اور آخر عمر تک قادیانی ہی رہا۔ قادیانیوں نے شیخ اعجاز کے ذریعے علامہ اقبال رحمہ اللہ تعالی کے خاندان کو بھی قادیانیت میں شامل کرنے کی بہت ترغیب دی لیکن اس میں قطعاً کامیاب نہ ہوسکے حتیٰ کہ شیخ اعجاز کے اپنی بیوی بچے بھی کبھی قادیانیت کی طرف مائل نہ ہوئے۔ قادیانیوں کیخلاف علامہ اقبال رحمہ اللہ تعالی کے نظریات انکے خطوط، مضامین، تقاریر اور شاعری کے ذریعے واضح ہیں۔ علامہ اقبال رحمہ اللہ تعالی اپنے ایک خط میں لکھتے ہیں: بانی تحریک (قادیانیت)کا ولولہ اور جذبہ دیکھ کر میں بھی ابتداء میں انہیں دینِ اسلام کا شیدائی سمجھتا رہا ہوں لیکن جلد ہی یہ تحریک کھل کر سامنے آگئی جب یہ تحریک کھل کر سامنے آئی تو پتہ چلا کہ یہ تو وہ منافق ہے جو کافر سے زیادہ خطرناک ہے۔
ایک اور جگہ علامہ اقبال نے فرمایا :ذاتی طور پر میں اس تحریک سے اس وقت بیزار ہوا تھا جب ایک نئی نبوت جوکہ حضورتاجدارختم نبوتﷺکی نبوت سے برتر ہونے کا دعویٰ کیا گیا اور تمام مسلمانوں کو کافر قرار دیا گیا بعد میں یہ بیزاری بغاوت کی حد تک پہنچ گئی جب میں نے تحریک کے ایک رکن کو اپنے کانوں سے حضورتاجدارختم نبوتﷺ کے متعلق نعوذ باللہ نازیبا کلمات کہتے سنا۔ درخت جڑ سے نہیں پھل سے پہچانا جاتا ہے۔ اگر میرے موجودہ روئیے میں کوئی تناقض ہے تو یہ بھی ایک زندہ اور سوچنے والے انسان کا حق ہے کہ وہ اپنی رائے بدل سکے۔
علامہ اقبال نے اپنی مشہور مثنوی’’پس چہ باید کرد‘‘میں چند اشعار مرزا قادیانی کی جھوٹی نبوت کے بارے میں بھی کہے ہیں۔ ایک شعر میں فرماتے ہیں
تن پرست و جاہ مست و کم نگہ اندر ونش بے نصیب از لا الہ
(خود پسند، عزت چاہنے والا، کوتاہ نظر، اسکا دل لا الٰہ سے خالی ہے)
جاوید نامہ کے ایک شعر میں دو جھوٹے مدعیان نبوت کے بارے میں لکھتے ہیں
آں از ایراں بود و ایں ہندی نژاد آں از حج بیگانہ و ایں را جہاد
(ان میں سے ایک (بہاء اللہ)ایرانی ہے اور دوسرا (مرزا قادیانی) پہلے نے حج منسوخ کر دیا اور دوسرے نے جہاد۔
فتنہ قادیانیت کے بارے میں علامہ اقبال کے ان واضح نظریات نے قادیانیوں کی کمر توڑ دی، وہ اور تو کچھ نہ کر سکے لیکن اقبال رحمہ اللہ تعالی کے ناخلف قادیانی بھتیجے شیخ اعجاز کے ذریعے علامہ اقبال رحمہ اللہ تعالی کے خاندان کو قادیانی ثابت کرکے علامہ اقبال رحمہ اللہ تعالی اور انکے خاندان کو متنازعہ بنانے کی کوشش کی گئی تاکہ اقبال کے افکار و نظریات متنازعہ ہو کر اپنی اہمیت کھو دیں۔ اس سلسلے میں شیخ اعجاز ملعون نے ایک کتاب’’مظلوم اقبال‘‘بھی تحریر کی جس کا مقصد اقبال کے خاندان کو قادیانی ثابت کرنا تھا لیکن اقبال کے اس قادیانی بھتیجے کے بھانجے اور ختم نبوت کے شیدائی خالد مظہر صوفی نے اپنے ماموں کو آڑے ہاتھوں لیا اور اس سازش کو بے نقاب کیا۔ علاوہ ازیں علامہ اقبال کے فرزند جسٹس (ر)جاوید اقبال نے بھی اپنی کتاب ’’زندہ اور‘‘میں خاندانِ اقبال کے قادیانی ہونے کی تردید کی ہے۔ خاندانِ اقبال سے ایک اور معتبر گواہی ناخلف بھتیجے شیخ اعجاز کے بہنوئی (جو کہ علامہ اقبال کے بڑے بھائی شیخ عطاء محمد کے داماد ہیں)ڈاکٹر نظیر صوفی کی حاضر ہے۔ ڈاکٹر نظیر صوفی لکتے ہیں کہ:
یہ کہنا کہ علامہ کے خاندان کے کئی افراد نے مرزائیت قبول کر لی تھی، سراسر جھوٹ ہے۔ حضرت علامہ کے والد، والدہ، چچا، چچی، بہنیں اور بھائی اور انکی اولادیں سب ہی سنی مسلمان تھے اور ہیں سوائے ایک بھتیجے کے جو کہ ججی میں ترقی کیلئے چودھری ظفر اللہ کے زیر اثر چھ بہن بھائیوں میں سے اکلوتا قادیانی بن گیا۔
لکھتا ہوں خونِ دل سے یہ الفاظِ احمریں بعد از رسولِ ہاشمی کوئی نبی نہیں
(علامہ محمداقبال رحمہ اللہ تعالی کے مرزے ملعون اوراس کے حواریوں کے متعلق نظریات کامطالعہ کرنے کے لئے ہماری کتاب ’’صوفیاء کرام کی مجاہدانہ زندگی اورموجودہ خانقاہی نظام ‘‘کامطالعہ فرمائیں)
مجاہدختم نبوت حضرت شیخ الحدیث امیرالمجاہدین مولاناحافظ خادم حسین رضوی حفظہ اللہ تعالی
حضرت شیخ الحدیث امیرالمجاہدین مولاناحافظ خادم حسین رضوی حفظہ اللہ تعالی کی ولادت باسعادت (۳ ربیع الاول ۱۳۸۶ھ/۱۹۶۶ء) نکہ توت پنڈی گھیپ)میں ہوئی ۔
حضرت امیرالمجاہدین حفظہ اللہ تعالی اہل سنت کے ممتاز عالم دین اور مذہبی سیاسی جماعت تحریک لبیک پاکستان کے بانی ہیں۔ سیاست میں آنے سے قبل امیر المجاہدین لاہور میں محکمہ اوقاف کی مسجد میں خطیب تھے۔ ممتاز قادری شہید رحمہ اللہ تعالی کی سزا پر عملدرآمد کے بعد انھوں نے کھل کر حکومت وقت پر تنقید کی، جس کی وجہ سے محکمہ اوقاف کی خطابت کوچھوڑدیا۔
تعلیم و تربیت
حضرت شیخ الحدیث امیرالمجاہدین مولاناحافظ خادم حسین رضوی حفظہ اللہ تعالی نے ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں نکہ کلاں سے حاصل کی کی۔ اس کے بعد مزیددینی تعلیم کے لیے ضلع جہلم چلے گئے اس وقت ان کی عمر بمشکل آٹھ سال ہی تھی اور یہ( ۱۹۷۴ء)کی بات ہے۔ جب حضرت شیخ الحدیث امیرالمجاہدین مولاناحافظ خادم حسین رضوی حفظہ اللہ تعالی اکیلے جہلم پہنچے تو اس وقت تحریک ختم نبوت اپنے عروج پر تھی اور اس کی وجہ سے جلسے جلوس اور پکڑ دھکڑ کا عمل چل رہا تھا۔ جہلم میں علامہ صاحب کے گاؤں کے استاد حافظ غلام محمد موجود تھے جو انہیں جامعہ غوثیہ اشاعت العلوم عید گاہ لے گئے۔ یہ مدرسہ قاضی غلام محمود کا تھا جو پیر مہر علی شاہ صاحب رحمہ اللہ تعالی کے مرید خاص تھے۔ وہ خود خطیب و امام تھے اس لیے مدرسہ کے منتظم ان کے بیٹے قاضی حبیب الرحمن تھے۔ مدرسہ میں حفظ قرآن مجید کے لیے استاد قاری غلام یسین تھے جن کا تعلق ضلع گجرات سے تھا اور وہ آنکھوں کی بینائی سے محروم تھے۔ امیر الجاہدینحفظہ اللہ تعالی نے قرآن مجید کے ابتدائی بارہ پاررے جامع غوثیہ اشاعت العلوم میں حفظ کیے اور اس سے آگے کے اٹھارہ پارے مشین محلہ نمبر ۱کے دار العلوم میں حفظ کیے۔
آپ کو قرآن پاک حفظ کرنے میں چار سال کا عرصہ لگا۔ جب آپ کی عمر بارہ برس ہوئی تو دینہ ضلع گجرات چلے گئے اور وہاں دو سال تجویدوقرأت کی تعلیم حاصل کی۔تجویدو قرأت کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد (۱۹۸۰ء) میں مزید تعلیم حاصل کرنے کے لیے لاہور تشریف لے آئے۔ وہاں آپ نے شہرہ آفاق دینی درسگاہ جامعہ نظامیہ لاہور میں درس نظامی کی تعلیم حاصل کی۔لاہور مدرسہ میں آٹھ سال تعلیم حاصل کرنے کے بعد( ۱۹۸۸ء) میں فارغ التحصیل ہو گئے تھے۔
خدمت دین
حضرت شیخ الحدیث امیرالمجاہدین مولاناحافظ خادم حسین رضوی حفظہ اللہ تعالی نے پہلامقام جہاں سے آپ نے خدمت دین کاآغاز فرمایاوہ ( ۱۹۹۳ء) میں محکمہ اوقاف پنجاب کے تحت اور داتا دربار لاہور کے نزدیک واقع پیر مکی مسجد تھی ۔ حضرت غازی اسلام جناب ملک ممتاز حسین قادری شہیدرحمہ اللہ تعالی کے سلمان تاثیرکوقتل کرنے کے بعدآپ نے حکومت وقت کو کلمہ حق کہناشروع فرمایا، اگرچہ اس سے پہلے بھی آپ متعددبارجیل میں قیدوبندکی صعوبتیں برداشت کرچکے تھے ، مگراب حکومت کے دین دشمن منصوبوں پرکھل کربیان فرمانے لگے ، جس کے سبب حکومت نے آپ کومنع کیاتوآپ نے فرمایاکہ اس مسجد شریف کی خطابت تم اپنے پاس رکھومیں تویونہی حق بیان کرتارہوں گا۔
اب تادم تحریر ( ۷ محرم الحرام ۱۴۴۲ھ/۲۷اگست ۲۰۲۰)یتیم خانہ لاہور روڈ کے قریب واقع مسجد رحمت اللعالمین میں آپ خطابت کے فرائض سرانجام دیتے ہیں اورآپ کی مسجد شریف میں فدایان ختم نبوت جمعہ کی نماز کے لئے صبح دس بجے ہی پہنچ جاتے ہیں ۔
سلسلہ نقشبندیہ سے تعلق
روحانی طور پر حضرت شیخ الحدیث امیرالمجاہدین مولاناحافظ خادم حسین رضوی حفظہ اللہ تعالی سلسلہ عالیہ نقشبندیہ میں حضرت اقدس عارف باللہ خواجہ محمد عبد الواحد صدیقی مجددی المعروف حاجی پیر صاحب رحمہ اللہ تعالی کے مرید ہیں۔
ابتلاء اورجدوجہد
آپ نے بہت جلد اپنے بیانات میں دینی غیرت وحمیت کے سبب اسلام پسند طبقے میں اپنی جگہ بنائی ہے اوراہل اسلام کشاں کشاں آپ کی طرف کھنچے چلے آئے ۔آپ پر( ۲۰۱۶ء) میںناموس رسالت کے قانون کے حق میں ریلی نکالنے پر لاٹھی چارج کیا گیا اور آپ کو گرفتار کرکے جیل بھیج دیا گیا تھا۔
(۲۰۱۷ء) میں ایک پارلیمانی بل میں حکومت کی طرف سے قانون ختم نبوت کی ایک شق میںتبدیلی کرنے پر، آپ نے سخت رد عمل کا اظہار کیا اور نومبر (۲۰۱۷ء) میں فیض آباد انٹرچینج پر دھرنا دے دیا۔۲۵نومبر کی صبح وفاقی پولیس اور رینجر نے ایک ناکام آپریشن کیا، جس میں کئی افراد زخمی ہوئے، پولیس نے ۱۲ہزار آنسو گیس کے شل پھینکے اور ۸لوگ جن میں حافظ قرآن بھی تھے ناموس رسالت کادفاع کرتے ہوئے اورتاجدارختم نبوتﷺکانعرہ مستانہ لگاتے ہوئے شہید ہو گئے۔ واقعے کے بعد ملک گھیر احتجاج شروع ہو گیا۔ اور ۲۵نومبر کو وزیر داخلہ نے فوج سے مدد طلب کر لی۔
یادرہے جب فیض آباددھرنادیاگیاتوانتہائی سخت سردی کے دن تھے ، پہاڑی علاقوں میں بر ف باری ہورہی تھی اورفیض آباد میں سخت ترین بارشیں ہوتی تھیں اورمجاہدین ختم نبوت بغیرکسی سائبان کے بڑے جوش ولولہ کے ساتھ موجودتھے ، ہمارے مخلص دوست جناب ڈاکٹرمحمدسیف علی صاحب حفظہ اللہ نے تن تنہاتمام مجاہدین ختم نبوت کے لئے خیموں کابندوبست کیا۔
حکومت کاریاستی جبروتشدد
فیض آباد انٹرچینج پر تحریک لبیک کا دھرنا متعددایام تک جاری رہا اورحکومتی بدمعاشی کی وجہ سے حالات کشیدہ رہے، تحریک لبیک پاکستان کے سربراہ حضرت شیخ الحدیث امیرالمجاہدین مولاناحافظ خادم حسین رضوی حفظہ اللہ تعالی سمیت ۱۵۰۰سے زائد افراد کے خلاف پولیس سب انسپکٹر کو اغوا کرنے، وائرلیس سیٹ چھیننے، پولیس ملازمین پر حملے کرنے، سرکاری و نجی املاک کو نقصان پہنچانے، مساجد میں اعلانات کر کے لوگوں کو اشتعال دلانے، کارسرکار میں مداخلت کرنے پر ۳مقدمات درج کر لیے تھے، ۱۸افراد گرفتار کر لیے گئے تھے، فیض آباد آپریشن کے دوران جام شہادت نوش کرنے والوں کی تعداد ۸ تھی ۔
راولپنڈی کی ایک عدالت نے جمعرات کی رات تحریک لبیک پاکستان کے ۸۶کارکنوں کو( ۲۰۱۸ء)میںناموس رسالت کے حق میں مظاہروں میں حصہ لینے پر ۵۵، ۵۵سال قید کی سزائیں سنائی ہیں۔
یادرہے ان لوگوں میں اکثرتعداد حضرت شیخ الحدیث امیرالمجاہدین مولاناحافظ خادم حسین رضوی حفظہ اللہ تعالی کے قریبی رشتہ داروں کی تھی اوران میں قبلہ امیرالمجاہدین حفظہ اللہ تعالی کے بڑے بھائی قبلہ امیر حسین حفظہ اللہ تعالی بھی شامل ہیں۔
ان مجاہدین ختم نبوت ﷺکو مجموعی طور پر ایک کروڑ ۲۹ لاکھ ۲۵ہزار روپے جرمانہ ادا کرنا ہو گا، بصورت دیگر انھیں مزید ۱۴۶سال قید کاٹنا ہو گی۔ عدالتی فیصلے سنائے جانے کے بعد پولیس نے مجاہدین ختم نبوت کو اٹک جیل بھجوا دیا۔
حضورامیرالمجاہدین حفظہ اللہ کی خطابت کی ولولہ انگیزی
محترم جناب عمرفاروق لکھتے ہیں کہ حضرت شیخ الحدیث مولاناحافظ خادم حسین رضوی حفظہ اللہ تعالی ختم نبوت اورناموس رسالت کے حوالے سے اپنے مؤقف میں کوئی لچک نہیں رکھتے اوردیگرمذہبی جماعتوں سے بھی و ہ اسی طرح کے مؤقف کی ا میدرکھتے ہیں یہی وجہ ہے کہ انہیں اپنے مسلک والوں کی مخالفت کابھی سامناہے،اسی طرح انہیں دیگرمذہبی جماعتوں سے بھی اختلاف اورشکوہ ہے اوران جماعتوں کی طرف سے بھی انہیں طعن وتشنیع کاسامناہے مگروہ اس کی پرواہ نہیں کرتے ان کوعلامہ اقبال رحمہ اللہ تعالی سے عقیدت ہے اورعلامہ اقبال رحمہ اللہ تعالی کے اشعارکااپنی تقریرمیں موقع محل کے مطابق خوب استعمال کرتے ہیں ان کاکہناہے کہ جوسیکولردانشوراقبال کے مخالف ہیں وہ اس پاکستان سے چلے جائیں کیوں کہ یہ پاکستان علامہ کے تصورکی عملی تصویرہے ۔حکومت کے لیے انہیں طاقت سے دبانامشکل ہے کیونکہ طاقت سے دبنے والے نہیں ہیں وہ دلیل سے بات کرنے کے قائل ہیں وہ کہتے ہیں کہ اگرمیں ناموس رسالت کے نام پر’’بھون‘‘دیاجاؤں تویہ میرے لیے سعادت ہوگی ۔ان کاکہناہے کہ غازی اسلام ممتازقادری شہیدرحمہ اللہ تعالی اور ملعونہ آسیہ مسیح مقدمات کے فیصلے ایسی تاریخوں میں آئیے ہیں جس سے ظاہرہوتاہے کہ یہ فیصلے ایک منصوبہ بندی اورایجنڈے کے تحت دیے گئے ہیں ۔
حضرت شیخ الحدیث مولاناحافظ خادم حسین رضوی حفظہ اللہ تعالی کی اصل طاقت ان کی خطابت ہے جس میں وہ سامعین پرسحرطاری کردیتے ہیں ،جگہ جگہ ان کی تقاریر ہوتی ہیں ، ہر جگہ ان کی تقریروں کو پذیرائی حاصل ہے ، وہ ایک اچھے خطیب ہیں ، موقع شناسی ومردم شناسی کے ماہر ہیں،کس جگہ کیسی بات ہونی چاہیے مولانا اس فن کے تاجدار ہیں، انہیں اپنے خطیبانہ لب ولہجہ کی وجہ سے دین دشمن اورلبرل وسیکولر طبقہ کی جانب سے کافی تنقیدکابھی سامناہے، ان کی تقریروں میں کوئی انوکھی اور اچھوتی باتیں نہیں ہوتیں ؛ بلکہ مجمع کے لیے جس چیز کی ضرورت محسوس کرتے ہیں، اس کو بڑے سادہ انداز میں بیان کردیتے ہیں ، الفاظ کی الٹ پھیر ، لہجہ کا تصنع اورپرتکلف انداز بیان سے آپ بالکل بیزارہیں ، وہ بالکل سنجیدہ لہجے کے عادی بھی ہیں اور اس کے حامی بھی ہیں، اور چاہتے یہی ہیں کہ تقریروبیان میں اپنی صلاحیت کا نہیں ؛ بلکہ مجمع کی صلاحیت کا لحاظ کیا جائے ، وہ تقریروں میں اپنی واہ واہ نہیں چاہتے ، وہ اس میدان میں ایک مختلف شخصیت بن کر ابھرے ، بڑے دبے اور سادہ لہجہ میں ایسی گفتگو کرتے ہیں کہ دین وشریعت کی باتیں ایک عام سے عام بے پڑھے لکھے انسان کوبھی سمجھ میں آجاتی ہیں ۔ آپ اپنے بیانوں میں صرف زبانی جملے نہیں کہتے؛ بلکہ اپنا درد دل بیان کرتے ہیں۔، آپ خشک مزاج نہیں اور نہ انہیں خشک مزاجی پسند ہے، وہ ایک زندہ دل انسان کی حیثیت سے زندگی بسر کررہے ہیں ، خطابت ،بے خوفی اوربے باکی ان کی خوبیاں ہیں اوریہ ہی ان کی اصل طاقت ہے ۔
حضورتاجدارختم نبوتﷺکی بارگاہ کے منظورنظر
ایک دن شام کے وقت یہ فقیرپرتقصیرحضرت امیرالمجاہدین شیخ الحدیث مولاناحافظ خادم حسین رضوی حفظہ اللہ کی خدمت اقدس میں حاضرہواتوملاقات کرنے والوں کابہت زیادہ رش تھا، رات کے گیارہ بجے تک ملاقاتیوں کو رخصت دے دی گئی ، بعدمیں ایک سفیدریش عالم جوکہ لاہورکے ہی رہائشی تھے وہ اوریہ فقیررہ گئے ، پھرمختلف موضوعات پرسلسلہ کلام جاری رہا، رات کے دوبجے وہ مولاناصاحب حضرت امیرالمجاہدین حفظہ اللہ تعالی کو بتانے لگے کہ حضورسیدناداتاعلی ہجویری رحمہ اللہ تعالی کے مزاراقدس پرایک مجذوب بزرگ رہتے ہیں ، ان کاحضورتاجدارختم نبوتﷺکے ساتھ بلاواسطہ کلام ہوتارہتاہے ، ایک دن میں نے ان کو عرض کی کہ حضوریہ بتائیں کہ اس وقت حضورتاجدارختم نبوتﷺکے منظورنظرکون ہیں ؟ توانہوںنے کہاکہ میں نے یہی بات حضورتاجدارختم نبوتﷺکی بارگاہ ختم نبوت میں عرض کی تومجھے یہی فرمایاکہ اس وقت میرے منظورنظر’’خادم حسین رضوی‘‘ہیں ۔ وہ مولاناکہتے ہیں کہ میں نے ان مجذوب کو کہاکہ یہ جوایک لاہورکے مولوی کے صاحب امیرالمجاہدین حفظہ اللہ تعالی کے خلاف بولتے ہیں اوربہت بے ہودہ باتیں کرتے ہیں ، کیاان کے متعلق بھی آپ نے حضورتاجدارختم نبوتﷺکی بارگاہ ختم نبوت میں عرض کی ہے ؟ وہ کہنے لگے میں نے یہ بات حضورتاجدارختم نبوتﷺکی بارگاہ شریفہ میں کی تھی توآپ ﷺنے فرمایا: وہ مولوی ’’خادم حسین رضوی ‘‘کوگالیاں نہیں دیتابلکہ وہ مجھیاذیت دیتاہے۔ بس اس عالم کااتناکہناکہ حضورامیرالمجاہدین حفظہ اللہ تعالی زورزورسے رونے لگے اورمدینہ منورہ کی طرف منہ کرکے عرض گزارہوئے :یارسول اللہ ﷺ!جب ہم موجودہیں توکوئی آپ ﷺکواذیت کیوں دے ۔ کافی دیرتک حضورامیرالمجاہدین حفظہ اللہ تعالی روتے رہے اوریہی کلمات دہراتے رہے۔
حضورامیرالمجاہدین حفظہ اللہ تعالی کاعلمی ذوق
ایک مولاناصاحب بیان کرتے ہیں کہ میںحضورامیرالمجاہدین قبلہ شیخ الحدیث حافظ خادم حسین رضوی حفظہ اللہ تعالی کے پاس حاضر ہوا،آپ کی ڈائری میں ایک حدیث شریف لکھی تھی جو کسی حدیث کی کتاب سے نقل کی تھی،آپ نے ایک لفظ پہ زیر دیکھی ،آپ کیونکہ علم نحو و صرف کے امام ہیں، آپ نے پاس بیٹھے مفتی صاحب سے فرمایا:یہاں زیر نہیں آتی حالانکہ آپ کو اللہ عزوجل نے اس علم پہ کافی حد تک عبور دیا ہوا ہے باوجود اس کے آپ نے اصل کتاب منگوائی دیکھا وہاں زیر تھی ،پھر جس جس کتاب میں وہ حدیث شریف تھی ساری کتابوں میں ڈھونڈی،ساتھ دو تین مفتیان کرام بھی لگے رہے ،سب مل کر سحری تک ایک زیر پہ تحقیق کرتے رہے حالانکہ آخر میں بات وہی نکلی حضورامیرالمجاہدین حفظہ اللہ تعالی نے دیکھتے ہی کہہ دی تھی کہ یہ زیر نہیں بنتی یہاں کاتب کی غلطی ہے ۔
میں یہ منظر دیکھ کر حیران رہ گیا،اتنی دیانت داری ہمارے علماء کرام میں،اتنی محنت ایک زیرکے لئے ایک شیخ الحدیث اور تین مفتیان کرام نے ساری رات محنت کی ،میںنے شکر ادا کیا۔ یا اللہ! ہمارا دین کتنے محفوظ ہاتھوں میں ہے،حضورتاجدارختم نبوتﷺکے وارث کتنے ایمان دار ہیں ۔
طلبہ کی خیرخواہی
سنہ ( ۲۰۰۳ء) میں جب فقیرصرف ونحوکاطالب علم تھا، تب میرے ایک دوست یتیم خانہ میں امام مسجد تھے ، میں ان کوملنے کے لئے گیاتوانہوںنے کہاکہ میں عصرکے وقت حضورامیرالمجاہدین شیخ الحدیث مولاناخادم حسین رضوی حفظہ اللہ کے پاس پڑھنے کے لئے جاتاہوں ، اگرآپ بھی آناچاہوتوچلو، میںنے حضورامیرالمجاہدین حفظہ اللہ کانام توپہلے ہی سن رکھاتھا، دل میں شوق تھاآپ کو ملنے کاتواس کاموقع میسرآیاتومیںنے کہاکہ نفع اٹھایاجائے اورآپ کی زیارت کی جائے تومیںنے فوراکہاکہ ضرورچلوں گا۔ جیسے ہی آپ کی مسجد شریف میں پہنچے توآپ اس وقت عصرکی نماز پڑھاچکے تھے اورمسجد شریف میں مصلی پراکیلے بیٹھے ہوئے تھے ،قرآن کریم اٹھاکراس میںسے صیغے نکالنے لگے تومیں ساتھ ہی بیٹھاہواتھا، میں پڑھ نہیں رہاتھا، مجھے فرمانے لگے آپ بھی پڑھتے ہو؟ میں نے عرض کی : جی جناب ۔ فرمانے لگے تواب کیوں نہیں پڑھ رہے ہو، ویسے ہی بیٹھے ہو، وقت ضائع کرتے ہوئے تم کوکچھ برامحسوس نہیں ہوتا۔آپ کی یہ پیاربھری ڈانٹ سنتے ہی میں اس دوست کے ساتھ بیٹھ کرپڑھنے لگا۔
ایمان پرموت کازبردست وظیفہ
ایک مرتبہ یہ فقیربھی حضورامیرالمجاہدین حفظہ اللہ تعالی کی خدمت اقدس میں حاضرتھاکہ ایک شخص نے عرض کی کہ حضور!دعافرمائیں کہ اللہ تعالی ایمان پرموت دے !آپ نے فرمایاکہ صرف ایک کام کرووہ یہ کہ تم حضورتاجدارختم نبوتﷺکی عزت وناموس پرپہرہ دوتمھارے نسلوں کے ایمان کو بھی اللہ تعالی محفوظ رکھے گا۔
مجاہدختم نبوت غازی اسلام جناب ملک ممتاز حسین قادری شہیدرحمہ اللہ تعالی
ملک ممتاز حسین قادری اعوان (ولادت:۱۹۸۵ء )شہادت:۲۰۱۶ء) پاکستان کی پنجاب پولیس کے کمانڈو یونٹ ایلیٹ فورس کے ایک سپاہی تھے۔ جو گورنر پنجاب سلمان تاثیر کے سرکاری محافظوں میں شامل تھے۔ غازی اسلام جناب ملک ممتاز حسین قادری شہیدرحمہ اللہ تعالی نے گورنر کی جانب سے قانون توہین رسالت پر تنقید کرنے پر اس کو فائرنگ کر کے ہلاک کر دیا تھا۔ غازی اسلام جناب ملک ممتاز حسین قادری شہیدرحمہ اللہ تعالی کو راولپنڈی کی انسداد دہشت گردی کی عدالت نے گستاخ کوقتل کرنے پر( ۲۰۱۱ء) میں دو مرتبہ موت کی سزا سنائی تھی۔ سزا کے خلاف اپیل پر اسلام آباد ہائی کورٹ نے فروری( ۲۰۱۵ء) میں اس مقدمے سے دہشت گردی کی دفعات تو خارج کر دی تھیں تاہم سزائے موت برقرار رکھنے کا حکم دیا تھا۔ اسی فیصلے کو دسمبر( ۲۰۱۵ء) میں سپریم کورٹ نے برقرار رکھا تھا۔ غازی اسلام جناب ملک ممتاز حسین قادری شہیدرحمہ اللہ تعالی کو ۲۹فروری( ۲۰۱۶ء) کوشہیدکردیاگیا۔
بشارت
آپ کی پیدائش سے دو سال قبل ایک رات آپ کے والد محترم ملک بشیر اعوان نیند سے بیدار ہوئے تو دیکھا کہ گھر کے ایک کونہ میں ایک نورانی چہرہ والے باریش بزرگ نماز پڑھ رہے ہیں۔ ملک صاحب پریشان ہوئے کہ دروازہ بند ہونے کے باوجود یہ بزرگ کمرے میں کیسے تشریف فرما ہوئے ہیں؟ اسی دوران وہ بزرگ اٹھے اور کمرہ سے باہر جاتے ہوئے کہا:بشیر صاحب جہاں ہم نے نماز پڑھی ہے وہاں اللہ کا ایک ولی اور عاشق رسول پیدا ہوگا جو آپ کا نام پوری دنیا میں روشن کرے گا۔ اس کی ایک للکار سے چار سو کفر کے ایوانوں میں زلزلہ طاری ہو جائے گا اور پاکستان کی نظریاتی و جغرافیائی سرحدوں کو دوام حاصل ہوگا۔چنانچہ دو سال بعد اسی کونا میں ملک ممتاز حسین قادری کی ولادت ہوئی۔
دین کی طرف توجہ
٭…بچپن سے ہی سر پر عمامہ سجانا شروع کر دیا اور جب کچھ بڑے ہوئے تو بانی دعوت اسلامی مولانا محمد الیاس قادری حفظہ اللہ کے مرید ہو گئے۔ مرید ہونے کے بعد دینی رجحانات میں مزید اضافہ ہو گیا اور پڑھائی کی طرف توجہ کم ہو گئی۔حضرت غازی اسلام رحمہ اللہ تعالی نے مدرستہ المدینہ کراچی میں داخلہ کی خواہش ظاہر کی جو گھریلو حالات کی وجہ سے پوری نہیں ہو سکی۔
٭…غازی اسلام ممتاز قادری شہیدرحمہ اللہ تعالی نماز ، روزہ اور دیگر احکام شریعت کے پابند تھے۔ حضورتاجدارختم نبوتﷺکی سنت کریمہ پر عمل کی کوشش کرتے تھے۔ علما ء کرام کی محبت اور ان کی خدمت کو باعث فخر سمجھتے تھے۔
٭…حضرت غازی اسلام بہترین نعت خواں تھے۔ انہیں بچپن سے ہی حضورتاجدارختم نبوتﷺکی نعت شریف پڑھنے کا شوق تھا۔ آپ نے اپنی یادداشتوں میں لکھا:دس سال کی عمر میں جو نعت شریف ایک بار سن لیتا وہ مجھے زبانی یاد ہو جاتی ، جب کہ اسکول کا انگریزی سبق مجھے دس دس دن تک یاد نہیں ہوتا تھا۔ سبق یاد نہ ہونے کی صورت میں اسکول میں اساتذہ کو انگریزی نظم کے بجائے حضورتاجدارختم نبوتﷺ کی نعت شریف سنا دیتا تو ہر سزا سے بچ جاتا۔
٭…اہل محلہ شاہد ہیں کہ ڈیوٹی سے چھٹی کے دنوں میں محلہ کے بچوں کو نعت شریف اور سنتیں سکھاتے تھے اسی لیے محلہ بھر کے بچے ان سے بہت محبت کرتے تھے۔
٭…آپ کا معمول تھا کہ روزانہ ڈیوٹی پر جانے سے پہلے اور ڈیوٹی سے واپسی پر اپنے نومولود شہزادے محمد علی رضا کو نعت شریف اور اذان سناتے۔
٭…گرفتاری کے فوراً بعد کوہسار تھانے میں آپ وجد کے عالم میں نعت شریف:
یا رسول اللہ تیرے چاہنے والوں کی خیر
پڑھ کر بارگاہ رسالت میں حاضری لگوا رہے تھے اور شہادت سے قبل بھی کئی گھنٹے تک نعت خوانی میں مشغول رہے۔
٭…آپ کے گھر والوں کا کہنا ہے کہ ہم نے دھوم دھام سے شادی کرنے کے لیے کافی رقم جمع کر رکھی تھی مگر انہوں نے کہاشادی شریعت کے مطابق سادگی سے ہو گی ، ڈسکو وغیرہ کے بجائے محفل کا اہتمام ہو گا اور بارات و ولیمہ میں چند افراد کو دعوت دی جائے گی۔
٭…جنازہ کے موقع پر شرکاء جنازہ کو ان کے ساتھی پولیس اہلکاروں نے بتایا کہ وہ (ممتاز قادری)میز پر کھانا کھانے کی بجائے زمین پر بیٹھ کر کھاتے اور کہتے زمین پر بیٹھ کر کھاناحضورتاجدارختم نبوتﷺکی سنت ہے۔
سلمان تاثیر کے قتل کا پس منظر
(۱۴جون ۲۰۰۹ئْ) کو ضلع ننکانہ کے گاؤں اٹانوالی میں ایک مسیحی عورت آسیہ ملعونہ نے حضورتاجدارختم نبوﷺ کی شان اقدس میں گستاخی کی۔ تحقیقات مکمل ہونے کے بعد عدالت نے اسے (۸نومبر ۲۰۱۰ء )کو سزائے موت اور ایک لاکھ جرمانے کا حکم سنایا۔
(۲۰نومبر ۲۰۱۰ء) کو اس وقت کے گورنر پنجاب سلمان تاثیر نے پوپ اور دیگر مسیحی کمیونٹی کی نمائندگی کرتے ہوئے شیخوپورہ جیل میں آسیہ مسیح سے ملاقات کی اور اس ملعونہ کو یقین دلایا کہ میری تمام تر ہمدردیاں تمہارے ساتھ ہیں اور میں تمہیں صدر پاکستان سے معافی دلواؤں گا۔ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے گورنر نے کہا:آسیہ کو (گستاخی رسول کی وجہ سے)جو سزا سنائی گئی وہ انسانیت کے خلاف اور بڑی ظالمانہ سزا تھی۔مزید برآں سلمان تاثیر نے قرآن و سنت کی روشنی میں بننے والے قانون تحفظ ناموس رسالت کو کالا قانون کہہ ڈالا اور ٹوئٹر پر اپنے آخری پیغام میں لکھا’’مجھ پر توہین رسالت قانون کے سلسلے میں دائیں بازو کی قوتوں کے سامنے جھکنے کے لیے شدید دباؤ ہے ، تا ہم اگر میں اس موقف پر آخری شخص بھی رہ گیا تب بھی ایسا نہیں کروں گا ، میں ایسے لوگوں کو جوتے کی نوک پر رکھتا ہوں‘‘۔
صرف یہی نہیں سلمان تاثیر کو ختم نبوت کے منکر قادیانیوں سے اس قدر ہمدردی تھی کہ اس کی بیٹی شہربانو نے بیان دیا’’میرا والد قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کے سخت مخالف تھا‘‘
سلمان تاثیر کے والد محترم ڈاکٹر محمد دین تاثیر ناموس رسالت پر فدا تھے۔ شہید ناموس رسالت غازی علم دین شہید کے جسد مبارک کو لاہور منتقل کر نے کے لیے انہوں نے ہی ازراہ عقیدت تابوت پیش کیا تھا۔ نہ جانے سلمان تاثیر کو اپنے والد کے افکار سے اس قدر کیوں بغاوت تھی۔
سلیمان تاثیرکاجرم
حضورتاجدارختم نبوتﷺ کی شان اقدس میں معاذاللہ گستاخیاں کرنے والی عورت کو عدالتی تحقیقات میں گستاخ ثابت ہونے کے بعد بے قصور اور مظلومہ کہہ کر قانون ہاتھ میں لینا اور اپنے عہدہ کے حلف کی خلاف وزری کرنا ، ملعونہ گستاخ کی وکالت کر کے خود توہین رسالت کا ارتکاب کرنا ، قرآن و سنت کی روشنی میں بننے والے قانون تحفظ ناموس رسالت کو کالا قانون قرار دینا ، علما کرام کو جوتی کی نوک پر رکھنا اور ختم نبوت کے منکر مرزائیوں کو مسلمان سمجھنا وہ امور ہیں جو اس کے قتل کا سبب بنے۔
حضرت غازی اسلام کااضطراب
آپ کے بھائی کا کہنا ہے کہ سلمان تاثیر کی ہرزہ سرائیوں اور اس کے خلاف ہونے والے احتجاج کے دوران گرفتاریوں پر ممتاز قادری پریشان رہنے لگے ، کھانا پینا بھی مشکل ہو گیا ، بیٹے محمد علی رضا کے بیمار ہونے پر مجھے کہا کہ مجھ میں ہمت نہیں ، آپ اسے ڈاکٹر کے پاس لے جائیں۔ گھریلو معاملات میں بے توجہی کے باعث گھر والے پریشان اور کچھ ناراض بھی ہوئے۔ میرے استفسار پر کہنے لگے:بہت بڑے عہدے پر فائز ایک شخص توہین رسالت کر رہا ہے ، علماء فتوے دے رہے ہیں ، احتجاج ہو رہا ہے ، میں سخت تکلیف میں ہوں ، مجھ سے کھایا پیا نہیں جا رہا اور میرا دوستوں میں دل نہیں لگتا ۔
ممتاز قادری نے مختلف وکلا اور پولیس آفیسرز سے سلمان تاثیر کے خلاف ایف آئی آر درج نہ ہونے کی وجہ پوچھی ، جب انہیں بتایا گیا کہ گورنر کے خلاف مقدمہ درج نہیں ہو سکتا تو کہنے لگے:یہ کیسا قانون ہے؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ خود کو فرات کے کنارے بھوک سے مرنے والے کتے کے بارے میں بھی جواب دہ سمجھتے ہیں اور یہاں حکمران گستاخی بھی کریں تو ان کے خلاف مقدمہ درج نہیں کیا جاتا۔
سلمان تاثیر کی جہنم کی جانب روانگی
(۴جنوری ۲۰۱۱ء) وہ تاریخی دن ہے جب شہید ناموس رسالت غازی اسلام ممتاز حسین قادری شہیدرحمہ اللہ تعالی نے اپنے حبیب کریمﷺ کی گستاخیوں کا بدلہ لیتے ہوئے اسلام آباد کوہسار مارکیٹ کے باہر سلمان تاثیر کو ۲۷گولیاں مار کر اپنے سینے کی آگ گستاخ کے خون سے بجھائی۔ گستاخ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے ہلاک ہو گیا۔
اس سے عشاقانِ رسول مسرور ہوئے ، کفر کے ایوانوں میں زلزلہ بپا ہوا اور ناموس رسالت قانون میں ترمیم کے حوالے سے پارلیمنٹ میں جمع کروائی گئی قرارداد سمیت ناموس رسالت کے خلاف اٹھنے والی تمام آوازیں تھم گئیں۔ اوریہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ سلمان تاثیر کے حامیوں کی تمام تر کوششوں کے باوجود اس کا جنازہ پڑھانے کے لیے کوئی عالم دین میسر نہیں آیا۔
عدالتی فیصلہ
سلمان تاثیر کو قتل کرنے کے بعدغازی اسلام ممتازحسین قادری شہیدرحمہ اللہ تعالی نے فوراً گرفتاری پیش کر دی۔ میڈیا اور ۶۰ سے زیادہ تفتیشی اداروں کے سامنے ایک ہی بیان دیا کہ میں نے سلمان تاثیر کو توہین رسالت کی وجہ سے قتل کیا اور میں اپنے فعل پر مطمئن ہوں۔
راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں لگائی گئی انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت کے ذریعے کیس کی سماعت ہوئی۔ عدالتی کارروائی کی رپورٹ شائع ہوئی جس کے مطابق آپ کا بیان درج ذیل ہے :
میں سلمان تاثیر کی جانب بڑھا۔ تب مجھے اس سے بات کرنے کا موقع ملا ’’محترم آپ نے بحثیت گورنر قانون تحفظ ناموس رسالت کو ’’کالا قانون‘‘کہا ہے؟ اگر ایسا ہے تو یہ آپ کے لیے مناسب نہیں (آپ کو زیب نہیں دیتا)۔ اس پر وہ اچانک چلایا اور کہنے لگا ’’نہ صرف وہ کالا قانون ہے بلکہ وہ میری نجاست ہے‘‘۔ بحثیت مسلمان میں دباؤ (جذبات)میں خود کو کنٹرول نہ رکھ سکا اور فوراً مشتعل ہو گیا۔ میں نے ٹرگر (بندوق کا گھوڑا)دبایا اور وہ میرے سامنے ڈھیر ہو گیا۔ مجھے کوئی پچھتاوا نہیں ہے اور میں نے یہ حضورتاجدارختم نبوتﷺکی ناموس کے لئے کیاہے
یکم اکتوبر( ۲۰۱۱ء) کو دہشت گردی کی عدالت کے جج پرویز علی شاہ نے آپ کو دو مرتبہ سزائے موت اور دو لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی اور اپنے فیصلے میں کہا:آپ نے جو کام کیا وہ اسلام کی رو سے ٹھیک ہے مگر ملکی قانون کے تحت آپ کو سزا سنائی جا رہی ہے۔
(یعنی اگر اسلامی قانون ہوتا تو عدالت آپ کو باعزت طور پر بری کر دیتی مگر یہاں انگریز کا جاری کردہ قانون ہے اس لیے سزا سنائی جا رہی ہے)یہ فیصلہ سنتے ہی ممتاز قادری کا چہرہ خوشی سے چمک اٹھا اور انہوں نے وہاں موجود اپنے والد محترم کو مبارک باد دی اور حاضرین میں مٹھائی تقسیم کی۔
اس فیصلہ کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کیا گیا۔( ۹مارچ ۲۰۱۵ء) کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے دہشت گردی عدالت کے فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ کیس دہشت گردی کے زمرے میں نہیں آتا ، البتہ ہائی کورٹ نے فرد واحد کے قتل کی بنیاد پر ایک بار سزائے موت کا فیصلہ برقرار رکھا۔
اس فیصلہ کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی گئی جہاں جسٹس (ر)خواجہ محمد شریف (سابق چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ) اور جسٹس (ر)نذیر اختر نے قرآن و سنت کی روشنی میں غازی اسلام کے حق میں زبردست دلائل پیش کیے مگر کسی کے دباؤ پر آصف کھوسہ کی سربراہی میں بینچ نے دلائل رد کیے بغیر ۷اکتوبر ۲۰۱۵ء) کو اپنا فیصلہ سناتے ہوئے سزائے موت ختم کرنے کی بجائے دہشت گردی عدالت کا فیصلہ بحال کر دیا۔
اس پر نظر ثانی کے لیے درخواست دائر کی گئی مگر وکلا کے دلائل سنے بغیر ہی آصف کھوسہ نے اسے یہ کہہ کر مسترد کر دیا کہ سلمان تاثیر نے کوئی گستاخی کی ہی نہیں لہذا درخواست ناقابل سماعت ہے۔
اپیل مسترد ہونے کے بعد صدر کو مراسلہ روانہ کیا گیا جس میں کہا گیا کہ یہ فیصلہ قرآن و سنت کے منافی ہے لہذا صدر اپنے خصوصی اختیارات کے تحت اسے کالعدم قرار دیں۔ دوسری طرف مختلف مکاتب فکر کے راہنماؤں نے صدر سے ملاقات کے لیے رابطہ کیا۔ حضورامیرالمجاہدین شیخ الحدیث علامہ حافظ خادم حسین رضوی حفظہ اللہ اور دیگر اکابرین اہل سنت و جماعت نے تحریک رہائی ممتاز حسین قادری کے تحت عدالتی فیصلہ کے خلاف احتجاجی تحریک چلائی۔ مگر افسوس بے حمیت وزیر اعظم کی ایڈوائس پر ضمیر فروش صدر نے عوام کے ایمانی جذبات کا قتل عام کرتے ہوئے مراسلہ کو مسترد کر دیا۔
غازی اسلام کی مقبولیت
ارشاد باری تعالی ہے:
{إِنَّ الَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ سَیَجْعَلُ لَہُمُ الرَّحْمَنُ وُدًّا }
ترجمہ :جو لوگ ایمان لائے اور اچھے اعمال کیے اللہ تعالی انہیں اپنا محبوب بنائے گا اور اپنے بندوں کے دلوں میں ان کی محبت ڈال دے گا۔
اس وعدہ الہیہ کے مطابق( ۴جنوری ۲۰۱۱ء) کے بعد ممتاز قادری کو بے حد مقبولیت حاصل ہوئی۔ ہر طبقہ کے عشاقان دین متین آپ سے محبت کرتے ہیں۔
آپ رحمہ اللہ تعالی کے بھائی کا کہنا ہے کہ ۴جنوری کی شام ۶بجے جب پولیس کے افسران ہمارے گھر آئے تو اجازت لے کر داخل ہوئے ، (حالانکہ مجرموں کے دروازے توڑ کر آتے ہیں)جو چیز جہاں سے اٹھائی وہیں رکھ دی ، پھر گھر کے افراد کو اپنے ہمراہ لے گئے اور اعزاز کے ساتھ سوالات پوچھتے رہے۔
جب غازی اسلام ممتاز حسین قادری شہیدرحمہ اللہ تعالی سے پہلی ملاقات ہوئی تو افسران والد صاحب کے قدموں میں گر گئے اور کہنے لگے کہ ہمیں معاف کر دیں ہم مجبور ہیں۔ہمیں پولیس افسران کے اس رویہ پر حیرت ہوئی تو ممتاز قادری صاحب نے مجھے قریب بلا کر میرے کان میں کہا:یہ تو کچھ بھی نہیں ،حضورتاجدارختم نبوتﷺکے غلاموں کے قدموں میں تو بادشاہوں کے تاج بھی جھک جاتے ہیں۔عدالت میں پہلی پیشی کے موقع پر وکلا نے ان کا زبردست استقبال کیا اور کئی من پھول نچھاور کیے جس سے بوکھلا کر حکومت نے فیصلہ کیا کہ ممتاز حسین قادری کیس کا ٹرائل خصوصی عدالت کے ذریعے جیل میں ہی ہو گا۔ لاکھوں روپے فیس لینے والے سینکڑوں وکلا نے ان کا کیس مفت لڑنے کی پیشکش کی۔
جب آپ جیل پہنچے تو ہزاروں قیدیوں نے غلامی رسول میں موت بھی قبول ہے کے نعروں سے استقبال کیا اور گلے میں ہار بھی ڈالے۔آپ کی شہادت پر دنیا بھر کے مسلمانوں کی افسردگی اور ملک و بیرون ملک سے جنازہ میں لاکھوں افراد کی شرکت آپ کی مقبولیت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
شہادت
عوامی رد عمل کے خوف سے غازی اسلام رحمہ اللہ تعالی کو شہید کرنے کا منصوبہ مکمل طور پر خفیہ رکھا گیا۔ رات کو آپ معمول کے مطابق آرام کر رہے تھے کہ نیند سے بیدار کر کے بتایا گیا کہ صبح آپ کو پھانسی دی جائے گی۔ آپ نے سفید لباس زیب تن کیا اور واسکٹ پہنی جس پر پاکستانی پرچم کا بیج آویزاں کیا۔ادھر پولیس کی گاڑیاں آپ کے گھر کے باہر پہنچیں اور اہل خانہ سے کہا کہ غازی صاحب کی طبیعت خراب ہے ، خیریت دریافت کرنے کے لیے آئیں۔
اہل خانہ کی آمد پر آپ نے انہیں نہایت اطمینان کے ساتھ جھوم جھوم کر دیر تک نعتیں سنائی اور بتایا کہ مجھے بیداری کی حالت میں حضورتاجدارختم نبوتﷺ، خلفاء راشدین رضی اللہ عنہم ، غوث اعظم اور داتا گنج بخش علی ہجویری رضی اللہ عنھم کی زیارت ہوئی ، انہوں نے میری قربانی قبول ہونے کی بشارت دی ہے۔
آپ نے اہل خانہ سے یہ بھی کہا :تمہاری خواہش تھی کہ میں رہا ہو جاؤں اور میری خواہش تھی کہ میں بارگاہ رسالت میں حاضر ہو جاؤں۔ اللہ تعالی اور اس کے رسول کریمﷺنے میری التجا کو قبول فرمایا ہے۔
آپ کو شہید کرنے کے لیے ۴بجے کا وقت طے تھا۔ اہل خانہ سے ملاقات کے بعد آپ نے آب زمزم اور عجوہ کھجوروں سے سحری کر کے روزہ رکھا ، نماز تہجد ادا کی اور وقت مقرر سے قبل ہی پھانسی گھاٹ کی طرف جانے لگے۔ آپ سے کہا گیا ابھی کچھ وقت باقی ہے۔ فرمانے لگے:سامنے حضورتاجدارختم نبوتﷺجلوہ افروز ہیں اور انتظار فرما رہے ہیں۔
آپ نے جیل حکام سے کہا:بوقت شہادت میں سر پر عمامہ باندھے رکھوں گا ، میرے چہرہ پر کالا کپڑا بھی نہیں ڈالا جائے گا اور میں پھندا اپنے ہاتھوں سے گلے میں ڈالوں گا۔چنانچہ آپ کی خواہش پوری کی گئی۔آپ( ۲۹فروری ۲۰۱۶ء) بروز سوموار صبح 4 بجے نعرہائے تکبیر و رسالت لگاتے ہوئے بارگاہ رسالت میں حاضر ہو گئے۔
کرامات
(۱)…جیل میں آپ کی برکت سے کینسر اور دیگر امراض میں مبتلا متعد لاعلاج مریض شفایاب ہو گئے۔ ان کا کہنا ہے کہ ہماری صحت یابی پر ڈاکٹر محو حیرت ہیں۔
(۲)…شہید ناموس رسالت ممتاز قادری نے اپنی یادداشتوں میں لکھا:پیرومرشد کی نظر کرم اور اثر انگیز دعاؤں کی بدولت جیل کی کوٹھڑی جس کا سائز۸/۶ہے اکثر ایک وسیع باغیچہ میں تبدیل ہو جاتی ہے ، چشمے بھی نظر آتے ہیں ، پہاڑ اور پرندے بھی ، سب کچھ نظر آتا ہے اور مل بھی جاتا ہے۔ جیل کی دیواروں کو اکثر ٹوٹا ہوا شگاف زدہ دیکھتا ہوں اور جیل کی سلاخیں اکثر ہوا یا پانی کی طرح راستہ دیتی رہتی ہیں۔ وہ تمام عاشقان مصطفی ﷺستاروں کی طرح حرف بحرف نظر آتے ہیں جو ناموس رسالتﷺ اور میری رہائی کے لیے قربانیاں دے رہے ہیں۔
(۳)…غازی اسلام ممتاز قادری رحمہ اللہ تعالی کو غسل دینے کی سعادت حاصل کرنے والے احباب کا کہنا ہے کہ آپ کے جسم مبارک سے ایسی عمدہ خوشبو پھوٹ رہی تھی کہ میں نے زندگی بھر ایسی خوشبو کبھی نہیں سونگھی۔
(۴)…عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ دو دن گزر جانے کے باوجود آپ کا جسم مبارک مکمل طور پر تروتازہ تھا ، پھانسی کے باوجود چہرہ مبارک کی چمک مسلسل بڑھ رہی تھی اور تدفین تک آپ کے مبارک جسم سے معطر پسینہ جاری تھا۔
مجاہدختم نبوت جناب غازی اسلام محمدتنویرحسینی قادری حفظہ اللہ
الحمد للہ عزوجل اللہ تعالی نے اہل سنت وجماعت میں سے ایک اور سنی کو محافظ ناموس رسالت منتخب فرمایا ہے غازی ملک ممتاز حسین قادری شہید رحمۃ اللہ علیہ کی شہادت کے بعد ایک اور ممتاز قادری بن گیا ہے اس غازی اسلام محافظ ناموس رسالت کا نام غازی تنویر احمد قادری ہے جن کا تعلق میر پور آزاد کشمیر سے ہے اس وقت آپ اسکاٹ لینڈ میں مقیم ہیں ۔
غالبا( ۲۵مارچ ۲۰۱۶ء)کو آپ ایک سٹور میں داخل ہوئے یہ سٹور ایک اسد نامی قادیانی چلاتا تھا یہ قادیانی جھوٹی نبوت کا دعویدار تھا اور عیسائیت کا بھی پرچار کرنے والا تھا برطانوی اسٹیبلشمنٹ کا اس کو بھرپور تعاون حاصل تھا اور بہت سے لوگ اس کذاب سے متاثر تھے۔
حضرت غازی تنویر قادری صاحب حفظہ اللہ تعالی کو جب اس بات کا علم ہوا کہ یہ قادیانی نبوت کا دعویدار ہے چنانچہ آپ ۲۵مارچ ۲۰۱۶ء)کو اس کے سٹور میں داخل ہوئے اوراس گستاخ کے سینے پر چڑھ گئے اور سنت فاروقی ادا کرتے ہوئے چھری کے تیس وار کرکے اس کو واصل جہنم کر دیا ۔غازی صاحب نے اس کو واصل جہنم کر کے محافظین ختم نبوت میں شامل ہو گئے اس وقت غازی تنویر قادری اسکاٹ لینڈ میں پابند سلاسل ہیں اللہ تعالی غازی صاحب کی حفاظت فرمائے ۔
محافظ اسلام غازی تنویر حسین قادری الحسینی کے قریبی،دیرینہ دوست جناب محمد ساجد قادری حفظہ اللہ تعالی کااس فقیرپرتقصیرکوفون آیاجس میں انہوںنے بتایاکہ آجکل انگریزوںنے حضرت غازی اسلام پربہت زیادہ سختیاں کررکھی ہیں ۔اللہ تعالی اہل کفرکوذلیل ورسوافرمائے۔
ماشاء اللہ حضرت غازی اسلام کے نعتیہ کلام پرمشتمل دوکتابیں شائع ہوچکی ہیں اوران کی اشاعت کاسہراحضرت علامہ مولانامحمدشہزادقادری ترابی حفظہ اللہ ، محمدساجدقادری حفظہ اللہ ،محمدکبیراحمدالحسینی حفظہ اللہ اورمحترم جناب محمدرضوان صاحب کے سرہے ، اللہ تعالی کی بارگاہ میں دعاہے کہ مولاتعالی حضرت غازی اسلام کو جلداز جلد رہائی عطافرمائے۔
غازی اسلام جناب فیصل صاحب حفظہ اللہ
پشاورمیں ایک مرتد طاہرنامی ملعون نے نبوت کادعوی کررکھاتھا، جس کو جیل میں بندکیاگیا، دوسال میں تقریباًتیرہ باروہ پیش ہوامگرجج سے کوئی فیصلہ نہیں ہوسکا، اتنے میں وہاں کے ایک طالب علم جناب غازی اسلام محمدفیصل حفظہ اللہ تعالی کوخواب میں حضورتاجدارختم نبوتﷺکی زیارت ہوتی ہے ا ورخواب میں ہی حضورتاجدارختم نبوتﷺنے ان کو اس مرتدکوقتل کرنے کاحکم ارشادفرمایا۔ دوسرے دن غازی اسلام نے اس ملعون کی پیشی پرجاکراس کو کمرہ عدالت میں ہی واصل جہنم کردیا۔ اورفوراًہی گرفتاری دے دی ۔ اسی وقت پولیس نے ان سے پوچھاکہ آپ نے اس کو کیوں مارا؟ توغازی اسلام نے انتہائی جلال میں فرمایاکہ یہ ملعون حضورتاجدارختم نبوتﷺکاگستاخ تھااور ختم نبوت کامنکرتھااورخود نبوت کامدعی تھا۔ مجھے خواب میں حضورتاجدارختم نبوتﷺنے حکم فرمایاہے ، اس لئے میں نے اس کو قتل کردیاہے ۔ اورساتھ غازی اسلام نے کہاکہ جب بھی کوئی ایساملعون اٹھے گامیں اسے بھی قتل کردوں گا۔
یہ ذہن میں رہے عدالتیں گستاخوں کے خلاف فیصلوں میں تاخیر نہ کریں پشاورمیں گستاخ رسول کے قتل کا واقعہ عدالتی نظام کی کمزور ی ہے۔ عدالتیں فیصلے نہیں کریں گی تو پھر ختم نبوت کے سپاہی گستاخوں کا خود فیصلہ کریں گے،غازی فیصل خالد اسلام کا مجاہدہے۔ طاہر ملعون، گستاخ تھااورمدعی نبوت تھا، اس کے ساتھ یہی ہونا چاہیے تھاکیونکہ قادیانی مرتد ہیں۔ غازی فیصل کو جو سعادت حاصل ہوئی ہے۔ یہ تو نصیب والوں کو ملتی ہے۔ہمارے عدالتی نظام میں تو پتا نہیں طاہر ملعون کو سزا ملتی یا نہیں۔ فیصل نے اسے جہنم واصل کر کے اپنی دنیا اور آخرت، دونوں سنوار لی ہیں۔