سترہزارگستاخ بندراورخنزیربنادئیے گئے
{وَلَقَدْ عَلِمْتُمُ الَّذِیْنَ اعْتَدَوْا مِنْکُمْ فِی السَّبْتِ فَقُلْنَا لَہُمْ کُوْنُوْا قِرَدَۃً خٰسِـِیْنَ}(۶۵)فَجَعَلْنٰہَا نَکَالًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیْہَا وَمَا خَلْفَہَا وَمَوْعِظَۃً لِّلْمُتَّقِیْنَ}(۶۶)
ترجمہ کنزالایمان:اور بیشک ضرور تمہیں معلوم ہے تم میں کے وہ جنہوں نے ہفتہ میں سرکشی کی تو ہم نے ان سے فرمایا کہ ہوجاؤ بندر دھتکارے ہوئے ،تو ہم نے اس بستی کایہ واقعہ اس کے آگے اور پیچھے والوں کے لئے عبرت کردیا اور پرہیزگاروں کے لئے نصیحت ۔
ترجمہ ضیا ء الایمان:اوریقیناتمھیں معلوم ہے کہ تمھیں میں سے وہ لوگ تھے جنہوں نے ہفتہ میں سرکشی کی توہم نے ان سے فرمایاکہ تم دھتکارے ہوئے بندربن جائوتوہم نے اس بستی کایہ اس کے پہلے اوربعد والوں کے لئے عبرت بنادیااورپرہیزگاروں کے لئے نصیحت ۔
قصہ ان کے بندربننے کا
والقصۃ فیہ انہم کانوا فی زمن داود علیہ السلام بأرض یقال لہا ایلۃ بین المدینۃ والشام علی ساحل بحر القلزم حرم اللہ علیہم صید السمک یوم السبت فکان إذا دخل السبت لم یبق حوت فی البحر الا اجتمع ہناک اما ابتلاء لاولئک القوم واما لزیارۃ السمکۃ التی کان فی بطنہا یونس ففی کل سبت یجتمعن لزیارتہا ویخرجن خراطیمہن من الماء حتی لا یری الماء من کثرتہا وإذا مضی السبت تفرقن ولزمن مقل البحر فلا یری شیء منہا ثم ان الشیطان وسوس إلیہم وقال انما نہیتم عن أخذہا یوم السبت فعمد رجال من اہل تلک القریۃ فحفروا الحیاض حول البحر وشرعوا منہ إلیہا الأنہار فاذا کانت عشیۃ الجمعۃ فتحوا تلک الأنہار فاقبل الموج بالحیتان الی الحیاض فلا یقدرون علی الخروج لبعد عمقہا وقلۃ مائہا فاذا کان یوم الأحد یصطادونہا فاخذوا وأکلوا وملحوا وباعوا فکثرت أموالہم ففعلوا ذلک زمانا أربعین سنۃ او سبعین لم تنزل علیہم عقوبۃ وکانوا یتخوفون العقوبۃ فلما لم یعاقبوا استبشروا وتجرأوا علی الذنب وقالوا ما نری السبت الا قد أحل لنا ثم استن الأبناء سنۃ الآباء فلو انہم فعلوا ذلک مرۃ او مرتین لم یضرہم فلما فعلوا ذلک صار اہل القریۃ وکانوا نحوا من سبعین الفا ثلاثۃ اصناف صنف امسک ونہی وصنف امسک ولم ینہ وصنف انتہک الحرمۃ وکان الناہون اثنی عشر ألفا فنہوہم عن ذلک وقالوا یا قوم انکم عصیتم ربکم وخالفتم سنۃ نبیکم فانتہوا عن ہذا العمل قبل ان ینزل بکم البلاء فلم یتعظوا وأبوا قبول نصحہم فعاقبہم اللہ بالمسخ وذلک قولہ تعالی فَقُلْنا لَہُمْ قہرا کُونُوا قِرَدَۃً جمع قرد کالدیکۃ جمع دیک بالفارسیۃ بوزینہ وہذا امر تحویل لانہم لم یکن لہم قدرۃ علی التحول من صورۃ الی صورۃ وہو اشارۃ الی قولہ إِنَّما قَوْلُنا لِشَیْء ٍ إِذا أَرَدْناہُ أَنْ نَقُولَ لَہُ کُنْ فَیَکُونُ ای لما أردنا ذلک صاروا کما أردنا من غیر امتناع ولا لبث خاسِئِینَ ہو وقردۃ خبران ای کونوا جامعین بین القردیۃ والخسء وہو الصغار والطرد وذلک ان المجرمین لما أبوا قبول النصح قال الناہون واللہ لا نساکنکم فی قریۃ واحدۃ فقسموا القریۃ بجدار وصیروہا بذلک ثنتین فلعنہم داود وغضب اللہ علیہم لاصرارہم علی المعصیۃ فمسخوا لیلا فلما أصبح الناہون أتوا ابوابہا فاذا ہی مغلقۃ لا یسمع منہا صوت ولا یعلو منہا دخان فتسوروا الحیطان ودخلوا فرأوہم قد صار الشبان قردۃ والشیوخ خنازیر لہا أذناب یتعاوون فعرفت القردۃ أنسابہم من الانس ولم یعرف الانس أنسابہم من القردۃ فجعلت القردۃ تأتی نسیبہا من الانس فتشم ثیابہ وتبکی فیقول ألم ننہکم عن ذلک فکانوا یشیرون برؤسہم ای نعم والدموع تفیض من أعینہم ودل ذلک علی انہم لما مسخوا بقی فیہم الفہم والعقل ثم لم یکن ابتداء القردۃ من ہؤلاء بل کانت قبلہم قردۃ وہؤلاء حولوا الی صورتہا لقبحہا جزاء علی قبح أعمالہم وأفعالہم وماتوا بعد ثلاثۃ ایام ولم یتوالدوا
ترجمہ :یہ واقعہ یوں ہواکہ حضرت سیدنادائودعلیہ السلام کے زمانہ مبارک میں ایلہ نام کی ایک بستی تھی جو کہ دریائے قلزم کے کنارے پرتھی ، اوریہ علاقہ شام اورمدینہ منورہ کے مابین واقع تھا کے ساکنین کو اللہ تعالی نے ہفتہ کے دن مچھلی کے شکارسے منع فرمایااورادھریہ ہواکہ سوائے ہفتہ کے باقی تمام دنوں میں مچھلی چھپی رہتی تھی اورہفتہ کے دن ظاہرہوتی تھی تاکہ ان کی آزمائش ہویااس لئے اسی دن مچھلی کہ’ جس نے حضرت سیدنایونس علیہ السلام کو پیٹ میں محفوظ رکھا) کی زیارت کرنے کے لئے تمام دریاکی مچھلیاں حاضرہوتی تھیں ۔چنانچہ ہفتہ کے دن اتناہجوم ہوتاکہ پانی کے اوپربھی مچھلیاں ہی مچھلیاں ہوتی تھیں کہ پانی کاایک قطرہ بھی نظرنہیں آتاتھا، ہفتہ کے دن کے بعد متفرق ہوکر دریاکے اندرایسی گم جاتی تھیں کہ کہیں مچھلیوں کی بوتک نہیں آتی تھی۔
بالآخرشیطان نے ان کے دلوں میں وسوسہ ڈالاکہ تمھارے لئے ہفتہ کے روزشکارحرام ہے نہ کہ کوئی اورامر۔ چنانچہ انہوںنے دریاکے کنارے گہرے گھڑے کھود لئے اورجمعہ کی شام کو ان گڑھوں کی طرف دریاسے نالیاں بنالیں ، اب ہفتہ کی صبح کو مچھلیاں ان گڑھوں میں آپہنچتی تھیں لیکن ان کی گہرائی کی وجہ سے باہرنہیں نکل سکتی تھیں ، ان لوگوں نے اتوار کے دن ان مقیدمچھلیوں کو پکڑنااوربیچنااوراپنے کھانے میں لاناشروع کردیا، جس سے انہیں بہت زیادہ مال حاصل ہوتا، اب اس طرح ان کی عادت ہوگئی ، یہاں تک کہ سترسال تک یہی عمل رہالیکن کوئی عذاب نازل نہ ہوا، وہ اندرہی اندرڈرتے ضرورتھے کہ کہیں عذاب ہی نہ آجائے، مگرجب کچھ نہ ہواتو بہت خوش ہوئے اوریقین کرلیاکہ اب ہفتہ کاشکاران کے لئے حلال ہے ۔ اس بناپردیگرگناہوں پر بھی ہمت کرنے لگے ، یہی طریقہ ان کی اولاد میں جاری ہوگیا۔
اس عمل بدمیں ان کے سترہزارافراد شریک تھے ۔ ان کے تین گروہ بن گئے ایک تواس کام سے کلی طور پر باز رہابلکہ دوسروں کو بھی روکتاتھا،دوسرے گروہ والے خود تواس کام سے دوررہے لیکن ان کو روکابھی نہیں اورتیسرے گروہ کہ جنہوںنے اللہ تعالی کے فرمان شریف کی بے قدری کی ۔روکنے والے گروہ کی تعداد بارہ ہزارتھی ، انہوں نے کہا: اے بھائیو! تم نے اپنے رب تعالی کی نافرمانی کی اوررنبی اللہ علیہ السلام کی سنت کی مخالفت کی ، تمھیں چاہئے کہ ایسی برائی سے رک جائواس سے پہلے کہ ہم پر کوئی عذاب نازل ہو، انہوں نے ان کی بات کی طرف کوئی توجہ نہیں کی اورنہ ہی ان کی نصیحت کوقبول کیاتواللہ تعالی نے ان کو عذاب میں مبتلاء کردیا۔
{فَقُلْنَا لَہُمْ }پس ہم نے بطورقہرفرمایاکہ {کُوْنُوْا قِرَدَۃً}بندربن جائو ، قرد جمع ہے جیسے دیکہ دیک کی جمع ہے ، فارسی میں اسے پوزینہ (بندر) کہتے ہیں { خٰسِـِیْن}یہ اورقرد دونوں کونوا کی خبریں ہیں اورکونواجامعین بین القرد والخسئی اورالخاسئین خسئی سے ہے بمعنی صغااور طرد یعنی ذلت وخواری ۔
واقعہ یوں ہواکہ جب مجرمین نے نصیحت کو قبول کرنے سے انکارکیاتوروکنے والوں نے کہا: ہم تمھارے ساتھ اس بستی میں نہیں رہتے ، چنانچہ انہوںنے بستی میں دیواربنالی اوران سے علیحدہ ہوگئے ۔ اس کے بعد حضرت سیدنادائوعلیہ السلا م نے ان کیخلاف دعاضررکی اوران پر لعنت بھیجی ، پھراللہ تعالی کاقہرنازل ہوا، صرف ان کے گناہ اوران کے اصرارکی وجہ سے رات کے وقت ان کی شکلیں بگڑگئیں ، صبح کوروکنے کے لئے ساراگروہ ان کے گھروں میں گیادروازے بندتھے ، ان نہ ان سے کوئی آواز آتی تھی اورنہ ہی ان کے گھروں سے دھواں وغیرہ اٹھ رہاتھا، دیواروں کو پھاندکر لوگ جب ان کے گھروں میں داخل ہوئے کیادیکھتے ہیں کہ ان کی شکلیں بگڑ چکی ہیں ، ان کے نوجوان بندراوران کے بوڑھے خنزیر بنے بیٹھے ہیں ، یہ ان کو نہ پہچان سکے لیکن وہ بندراورخنزیران کو پہچان گئے اوران کے قریب آکر ان کے کپڑے سونگھتے تھے اورآنکھوں سے آنسوبہاتے تھے ، وہ انہیں جواب میں کہتے کہ کیاہم نے تمھیں روکانہیں تھا؟ لیکن تم نے نہ مانا، وہ اپنے سرہلاکر جواب دیتے کہ ہاں تم نے ہمیں منع کیااورآنسوبہاتے تھے ۔اس سے ثابت ہواکہ مسخ کے بعد بھی ان میں عقل وفہم باقی تھا۔
یہ بات ذہن میں رہے کہ بندروں اورخنزیروں کی ابتداء یہاں سے نہیں ہوئی بلکہ اس سے پہلے بھی بندراورخنزیرموجود تھے ، یہ صرف ان کی شکلیں تبدیل ہوئی تھیں کیونکہ یہ شکل قبیح ہے اوران کے افعال واعمال بھی قبیح ہیں اوروہ تین دن کے بعد مرگئے ، ان میں سے کوئی باقی نہ رہااورنہ ہی ان کے ہاں کوئی اولاد ہوئی ، یہ بندرجو دنیامیں موجود ہیں یہ پہلے سے ہیں۔
(روح البیان:إسماعیل حقی بن مصطفی الإستانبولی الحنفی الخلوتی المولی أبو الفداء (۱:۱۵۶)
دین دشمنوں کویہودیوں سے بھی بڑی سزا
وکان عقوبۃ الأمم بالخسف والمسخ علی الأجساد وعقوبۃ ہذہ الامۃ علی القلوب وعقوبات القلوب أشد من عقوبات النفوس
قال اللہ تعالی وَنُقَلِّبُ أَفْئِدَتَہُمْ وَأَبْصارَہُمْ الآیۃ۔
ترجمہ :امام اسماعیل حقی الحنفی المتوفی : ۱۱۲۷ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیںکہ سزاان لوگوں کی ہے جو اللہ تعالی کے احسان کی قدرنہیں کرتے اورنہ ہی انعام فرمانے والے رب تعالی کے احسان کاشکراداکرتے ہیں۔ اگلی امتوں کوجسموں کے مسخ کی سزادی جاتی تھی اوراس امت کی سزادل کامسخ ہونااوردل کی سزاجسم کی سزاسے بہت بڑی اورسخت ہے جیساکہ اللہ تعالی نے فرمایا: ہم نے ان کے دلوں اورآنکھوں کو پھیردیا۔
(روح البیان:إسماعیل حقی بن مصطفی الإستانبولی الحنفی الخلوتی المولی أبو الفداء (۱:۱۵۶)
انسان کادل مسخ ہوجانے کی تین علامات
ثم علامۃ المسخ مثل الخنزیر ان یأکل العذرات ومن أکل الحرام فقلبہ ممسوخ ویقال علامۃ مسخ القلب ثلاثۃ أشیاء لا یجد حلاوۃ الطاعۃ ولا یخاف من المعصیۃ ولا یعتبر بموت أحد بل یصیر ارغب فی الدنیا کل یوم کذا فی زہرۃ الریاض۔
ترجمہ :امام اسماعیل حقی الحنفی المتوفی : ۱۱۲۷ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ مسخ کی علامت خنزیرجیسی ہے اوروہ حرام کھاتاہے ، جسے حرام کھاتادیکھویقین کرلو اس کادل مسخ ہوچکاہے ۔
دل کے مسخ ہونے کی تین علامتیں ہیں: (۱) اللہ تعالی کی اطاعت میں لذت نہ ملے ۔ (۲) بلاخوف وخطراللہ تعالی کی نافرمانی کرے ۔(۳) کسی کی موت سے عبرت نہ پکڑے ، ہر روز دنیوی امور میں منہمک رہے ۔
(روح البیان:إسماعیل حقی بن مصطفی الإستانبولی الحنفی الخلوتی المولی أبو الفداء (۱:۱۵۶)
جو شخص اللہ تعالی کی اطاعت نہ کرے اس کی سزایہ ہے کہ اس کادل خنزیرجیساہوگیاہے توجوشخص اللہ تعالی کے احکامات کاہی انکارکردے ۔
حضرت مفتی احمدیارخان نعیمی رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیںکہ اللہ تعالی فرماتاہے کہ اے اسرائیلیو! تمھیں ان ایلہ والوں کاقصہ تویاد ہی ہے جو تمھارے ہی بزرگ تھے ، انہوں نے ہفتہ کے دن ایک بداعتدالی کرلی ، یعنی مچھلی کاشکارکرلیاتوہم نے سب کو بندربنادیا، ان کایہ واقعہ سارے اگلے پچھلوں کے لئے عبرت اورپرہیزگارعلماء واعظین کے لئے نصیحت بنادیاگیا، تم اس کو سوچ کرعبرت کیوں نہیں پکڑتے اوررسول اللہ ﷺپر ایمان کیوں نہیں لاتے ، جب مچھلی کے شکارسے عذاب آگیاتو کیااتنے بڑے نبی ﷺکی مخالفت سے عذاب نہیں آئے گا، خیال رہے کہ ایک حکم ربانی کاانکارویساہی کفرہے جیساکہ تمام احکامات کاانکار۔ کفرمیں تقسیم نہیں کہ کفرآدھایاتہائی ، ہرکفرپوراکفرہے ۔ ہاں درجات کفراورکیفیات کفرمیں فرق ہوتاہے ، بعض سخت کافراوربعض ہلکے کافر، اسی بناء پرعذابوں میں فرق ہے ۔
(تفسیرنعیمی از مفتی احمدیارخان نعیمی ( ۱: ۴۵۰)
معارف ومسائل
(۱)ملحدین اعتراض کرتے ہیں کہ ایساکیسے ہوگیاکہ انسان بندروخنزیربن جائے ۔ عقل اس کو نہیں مانتی ؟
ہم ان جدیدفلسفہ اورسائنس کے دلدادہ لوگوں کو ان کے ہی بڑے ملحد اورگستاخ ترین شخص کاحوالہ دیتے ہیں کہ ڈارئون کے نزدیک بندرترقی کرتاکرتاانسان بن گیاہم یہ کہتے ہیں کہ اگرانسان اپنی انسانی اقدارکو پامال کرکے تنزل اختیارکرکے بندروخنزیرکیوں نہیں بن سکتا؟ یہی قرآن کریم کافیصلہ ہے کہ وہ بندروخنزیربن گئے ۔
(۲)ڈرائون کی تحقیقات پر ایمان رکھنے والوں کو ڈرائون کی بکواس جلدی سمجھ آجاتی ہے مگر قرآن وحدیث کی تعلیمات سمجھ نہیں آتیں ، ان کے نزدیک اگربندرترقی کرکے انسان ہوسکتاہے تو انبیاء کرام علیہم السلام کے مقابلے میں آنے والابدبخت ترین شخص ترقی معکوس کرکے انسان سے بندروخنزیرکیوں نہیں بن سکتا۔ اوریہ بھی ذہن میں رہے کہ بندرسے انسان بنتاتوکسی نے نہیں دیکھااورنہ ہی ایساہواہے اورنہ ہی قرآن وحدیث اورکسی آسمانی کتاب میں اس کاکہیں ذکربلکہ ان کے اس غلیظ عقیدے کے خلاف قرآن وحدیث اورآسمانی کتب میں بے شمار دلائل موجود ہیںاورہزاروں لوگوں کو انسان سے بندراورخنزیربنتے ہوئے لاکھوں لاکھ لوگوں نے حضرت سیدنادائود علیہ السلام کے زمانے میں دیکھاہے اوراسی طرح بعد میں رسول اللہ ﷺکے گستاخ اورصحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے گستاخوں میں سے اکادکالوگوں کو خنزیراوربندربنتے ہوئے بھی لوگوں نے دیکھاہے اورہمارے ائمہ کرام نے اپنی اپنی کتب میں اسے نقل بھی کیاہے ۔لھذاگستاخوں کابندروخنزیربنناکوئی امرمحال نہیں ہے ۔
(۳) یہ ذہن میں رہے کہ جو لوگ اس نظریہ کے حامل ہیں اوراسے اپنے اداروں میں پڑھتے پڑھاتے ہیں اوراسے درست جانتے ہیں وہ اللہ تعالی کے تمام انبیاء کرام علیہم السلام کے گستاخ ہونے کی وجہ سے مرتدہیں ۔
(۴) اللہ تعالی نے متقی لوگوں کے لئے فرمایاکہ ان کے لئے اس واقعہ میں نصیحت ہے اورنافرمانوں کے لئے فرمایاکہ ان کے لئے سزاہے، وہ کہاوت مشہور ہے کہ غلام کو لکڑی سے تنبیہ کی جاتی ہے اورشریف آدمی کو ملامت ہی کافی ہوتی ہے۔
(۵) اس سے یہ بھی معلوم ہواکہ آج جوبندروخنزیرپائے جاتے ہیں یہ مسخ شدہ کی نسل سے نہیں ہیں بلکہ یہ وہی ہیں جو پہلے سے چلتے آرہے ہیں۔
(۶) اس سے معلوم ہواکہ اللہ تعالی کے نبی حضرت سیدنادائودعلیہ السلام کاایک بار لعنت کرناان کے سب کے سب گستاخوں کو بندراورخنزیربناگیا۔
(۷) یہ بھی ذہن میں رہے کہ ان کے مردبندراوران کی عورتیں بندریابنادی گئی تھیں ۔
(۸) اس سے وہ لوگ بھی عبرت پکڑیں جو یہ کہتے ہیں کہ دل صاف ہوناچاہئے نماز،روزہ ، داڑھی اورلباس پر ایمان موقوف نہیں ہے ، جب ہماری صورت وسیرت ہی کفارکی سی ہوگی تومسلمانی کس چیز کانام ہے، دیکھوبنی اسرائیل صرف ایک حکم کے انکارپرعذاب الہی میں گرفتارہوگئے۔
(۹) کسی گناہ پر عذاب نہ آنااس بات کی دلیل نہیں ہے کہ وہ گناہ گناہ نہیں ہے جیساکہ یہودی سترسال تک اس گناہ میں مبتلارہے مگرعذاب سترسال کے بعد آیا۔
(۱۰) تبلیغ صرف علماء پر فرض نہیں ہے بلکہ جس کو جو بھی مسئلہ معلوم ہوناواقف کو ضروربتائے ورنہ گناہگارہوگاجیساکہ بنی اسرائیل کو منع کرنے والے سب علماء نہ تھے مگرتبلیغ کی برکت سے عذاب سے بچ گئے۔
(۱۱) رسول اللہ ﷺکے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تمام انبیاء کرام علیہم السلام کے صحابہ کرام سے افضل واعلی ہیں ، اللہ تعالی نے رسول اللہ ﷺکے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کاامتحان لیاکہ ایک بار بحالت احرام شکاری جانوران کے خیموں میں آگئے مگران میں سے کسی نے آنکھ اٹھاکر بھی ا نہیں نہ دیکھا۔
(۱۲) رسول اللہ ﷺکی امت آج بھی حالت احرام میں شکارنہیں کرتی بلکہ اللہ تعالی نے حرم میں شکارحرام فرمایامگربفضلہ تعالی یہ امت بڑی مضبوطی کے ساتھ اس پرکابندرہے حتی کہ حرم کے کبوترحاجیوں کے پاس آجاتے ہیں بلکہ ان کے سروں اوربازئوں پر آکر بیٹھتے ہیں مگرکوئی بھی ان کو نہیں چھیڑتا، یہ محض اللہ تعالی کاکرم ہے ۔
(۱۳) یہ بھی اللہ تعالی کاکرم ہے کہ آج تک کسی بھی نبی ( علیہ السلام) کی امت اتنی دیراپنے نبی (علیہ السلام) کی تعلیمات پر کاربندنہیں رہی، بلکہ حضرت سیدنادائود علیہ السلام ان میں ہی موجود ہیں مگر لوگ ان کے سامنے جس کام سے منع کیاگیاہے وہی کام کررہے ہیں اوروہ بھی ایک دوبار نہیں بلکہ سترسال تک کرتے رہے ۔ مگرقربان جائیں محبوب کریم ﷺپر کہ آپ ﷺکی امت آج چودہ سوسال سے زائدعرصہ بیت جانے پر بھی حالت احرام میں شکارکی جانب دیکھتے بھی نہیں ۔
(۱۴) اس سے ایک مسئلہ یہ بھی معلوم ہواآج کاگناہ گارجب حرم مکرم میں جائے توحالت احرام میں شکارکی جانب نہیں دیکھتاکیوں کہ اس کو یادہے کہ آج سے چودہ سو سال پہلے میرے نبی کریم ﷺنے اس سے منع فرمایاتھاتواس امت میں بعض جاہل اوربے دین لوگ یہ بات کیسے کہہ لیتے ہیں کہ وہ صحابی جو رسول اللہ ﷺکے ہمہ وقت ساتھ رہے اوراپناتن من دھن رسول اللہ ﷺپر قربان کردیاانہوںنے رسول اللہ ﷺکی شہزادی حضرت سیدہ کائنات فاطمہ رضی اللہ عنہماکی حق تلفی کرلی ۔فیاللعجب ۔