رسول اللہ ﷺسے دھوکہ کرنے والے کو دردناک عذاب
{وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّقُوْلُ اٰمَنَّا بِاللہِ وَ بِالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَمَا ہُمْ بِمُؤْمِنِیْنَ}(۸){یُخٰدِعُوْنَ اللہَ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَمَا یَخْدَعُوْنَ اِلَّآ اَنْفُسَہُمْ وَمَا یَشْعُرُوْنَ}(۹)فِیْ قُلُوْبِہِمْ مَّرَضٌ فَزَادَہُمُ اللہُ مَرَضًا وَلَہُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ بِمَا کَانُوْا یَکْذِبُوْنَ}(۱۰){فِیْ قُلُوْبِہِمْ مَّرَضٌ فَزَادَہُمُ اللہُ مَرَضًا وَلَہُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ بِمَا کَانُوْا یَکْذِبُوْنَ}(۱۰)
ترجمہ:اور کچھ لوگ کہتے ہیں کہ ہم اللہ اور پچھلے دن پر ایمان لائے اور وہ ایمان والے نہیں ،فریب دیا چاہتے ہیں اللہ اور ایمان والوں کو اور حقیقت میں فریب نہیں دیتے مگر اپنی جانوں کو اور انہیں شعور نہیں،ان کے دلوں میں بیماری ہے تو اللہ نے ان کی بیماری اور بڑھائی اور ان کے لئے دردناک عذاب ہے بدلہ ان کے جھوٹ کا۔ان کے دلوں میں بیماری ہے تو اللہ نے ان کی بیماری اور بڑھائی اور ان کے لئے دردناک عذاب ہے بدلہ ان کے جھوٹ کا۔
ترجمہ ضیاء الایمان:وہ اللہ تعالی کواور ایمان والوں کو دھوکہ دینا چاہتے ہیں مگرحقیقت میں وہ اپنے آپ کو ہی دھوکہ دے رہے ہیں اور انہیں اس کا شعور نہیں ہے۔اوران کے دلوں میں بیماری ہے ، تواللہ تعالی ان کی بیماری بڑھاتاہے اوران کے لئے دردناک عذاب ہے بدلہ ان کے جھوٹ کا، جب ان سے کہاجائے کہ تم زمین میں فساد نہ کروتوکہتے ہیں کہ ہم تواصلاح کرنے والے ہیں۔
{وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّقُوْلُ اٰمَنَّا بِاللہِ وَ بِالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَمَا ہُمْ بِمُؤْمِنِیْنَ}
مدینہ میں کچھ لوگ ایسے بھی تھے کہ جو بظاہر تو یہ کہتے تھے کہ ہم اللہ اور رسول (ﷺ)اور قیامت پر ایمان لائے اور مسلمان ہوئے تاکہ مسلمانوں میں مل کر منافع دنیا حاصل کریں اور ہر قسم کی سختی سے جو ان پر پیش آنے والی تھی اسلام کو آڑ بنا کر بچیں مگر یہ ایمان درحقیقت ایمان نہ تھا اور بغیر خلوص دل زبان سے کہنا خدائے تعالیٰ علام الغیوب کے آگے کچھ بھی وقعت نہیں رکھتا، اس لیے خدائے تعالیٰ نے مسلمانوں کو تنبیہ کرنے کے لیے فرمایا کہ یہی لوگ فریبی ہیں ہرگز مومن نہیں۔ ان لوگوں کو شرع میں منافق کہتے ہیں ان میں سب کا سرکردہ عبداللہ بن ابی بن سلول تھا۔ رسول اللہ ﷺ کے مدینہ شریف میں تشریف لانے سے پہلے لوگوں نے چاہا تھا کہ اس کو سرداری کی پگڑی بندھوا دیں اور مدینہ کا سردار بنا دیں لیکن جب رسول اللہﷺتشریف لائے اور روح کو زندہ کرنے والی باتوں سے تمام جہالت کی تاریکیاں لوگوں میں سے دور ہوگئیں اور لوگوں کو ایک نئی زندگانی کا مزہ آگیا تو پھر ان کے روبرو اس دنیا پرست کی کچھ بھی وقعت نہیں رہی۔ اس لیے اس شخص کو رسول اللہ ﷺ اور اہل اسلام سے حسد اور رنج پیدا ہوا مگر غلبہ اسلام کی وجہ سے یہ خبث باطن کو ظاہر نہ کرسکا اور لوگوں کے ساتھ بظاہر اپنے آپ کو بھی اسلام میں شمار کیا۔ لیکن یہ اور اس کے رفیق یہود جو مدینہ کے آس پاس بستے تھے اور دس پانچ اور اسی کے ہم قوم ہمیشہ درپردہ اسلام کی بیخ کنی کرتے رہے اور اس نصف النہارکے وقت چمکنے والے آفتاب پر گرد اڑانے اور اس چراغ جاودانی کے بجھانے میں ہر طرح کی کوشش کرتے رہے۔ سورۃ برات اور منافقون اور اس سورۃ اور دیگر سورتوں میں ان کے اقوال و افعال ناشائستہ کا جواب مذکور ہے اور جو کچھ غزوات میں انہوں نے فتور برپاکئے ہیں وہ بھی لکھے ہوئے ہیں، جس سے خدا تعالی نے نفاق کی جڑ کو بالکل کاٹ دیا۔
{یُخٰدِعُوْنَ اللہَ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَمَا یَخْدَعُوْنَ اِلَّآ اَنْفُسَہُمْ وَمَا یَشْعُرُوْنَ}
اس آیت مبارکہ میں اللہ تعالی کو دھوکہ دینے کامطلب یہ ہے کہ وہ رسول اللہ ﷺکو دھوکہ دیتے ہیں ، اس صورت میں {یُخَادِعُونَ اللَّہَ }میں ایک مضاف محذوف مانناپڑے گا ، یاپھریوں معنی بنے گاکہ منافقوں کارسول اللہ ﷺکے ساتھ اس طرح کامعاملہ کرنایعنی رسول اللہ ﷺکو دھوکہ دیناگویااللہ تعالی کے ساتھ یہ معاملہ کرناہے کیونکہ رسول اللہ ﷺاللہ تعالی کے نائب اوراس کے خلیفہ ہیں۔اوراللہ تعالی نے فرمایاکہ جو شخص بھی میرے حبیب کریم ﷺکے ساتھ اس طرح کرتاہے حقیقت میں وہ بے وقوف ہے ، اسے اس بات کاشعور ہی نہیںہے کیونکہ نبی کریم ﷺتو ساری دنیامیں سب سے زیادہ داناہیں ، لھذاان کو کوئی بھی دھوکہ نہیں دے سکتا۔
منافقین کارسول اللہ ﷺکودھوکہ دینے کی کوشش کرنا
وَقَالَ الْحَسَنُ:مَعْنَاہُ یُخَادِعُونَ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَمَا قَالَ اللَّہُ تَعَالَی:إِنَّ الَّذِینَ یُؤْذُونَ اللَّہَ (الْأَحْزَابِ:۵۷) أَیْ:أَوْلِیَاء َ اللَّہِ۔
ترجمہ:حضرت سیدناامام حسن بصری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیںکہ {یُخَادِعُونَ اللَّہَ }کامعنی یہ ہے کہ وہ رسول اللہ {وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّقُوْلُ اٰمَنَّا بِاللہِ وَ بِالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَمَا ہُمْ بِمُؤْمِنِیْنَ}
مدینہ میں کچھ لوگ ایسے بھی تھے کہ جو بظاہر تو یہ کہتے تھے کہ ہم اللہ اور رسول (ﷺ)اور قیامت پر ایمان لائے اور مسلمان ہوئے تاکہ مسلمانوں میں مل کر منافع دنیا حاصل کریں اور ہر قسم کی سختی سے جو ان پر پیش آنے والی تھی اسلام کو آڑ بنا کر بچیں مگر یہ ایمان درحقیقت ایمان نہ تھا اور بغیر خلوص دل زبان سے کہنا خدائے تعالیٰ علام الغیوب کے آگے کچھ بھی وقعت نہیں رکھتا، اس لیے خدائے تعالیٰ نے مسلمانوں کو تنبیہ کرنے کے لیے فرمایا کہ یہی لوگ فریبی ہیں ہرگز مومن نہیں۔ ان لوگوں کو شرع میں منافق کہتے ہیں ان میں سب کا سرکردہ عبداللہ بن ابی بن سلول تھا۔ رسول اللہ ﷺ کے مدینہ شریف میں تشریف لانے سے پہلے لوگوں نے چاہا تھا کہ اس کو سرداری کی پگڑی بندھوا دیں اور مدینہ کا سردار بنا دیں لیکن جب رسول اللہﷺتشریف لائے اور روح کو زندہ کرنے والی باتوں سے تمام جہالت کی تاریکیاں لوگوں میں سے دور ہوگئیں اور لوگوں کو ایک نئی زندگانی کا مزہ آگیا تو پھر ان کے روبرو اس دنیا پرست کی کچھ بھی وقعت نہیں رہی۔ اس لیے اس شخص کو رسول اللہ ﷺ اور اہل اسلام سے حسد اور رنج پیدا ہوا مگر غلبہ اسلام کی وجہ سے یہ خبث باطن کو ظاہر نہ کرسکا اور لوگوں کے ساتھ بظاہر اپنے آپ کو بھی اسلام میں شمار کیا۔ لیکن یہ اور اس کے رفیق یہود جو مدینہ کے آس پاس بستے تھے اور دس پانچ اور اسی کے ہم قوم ہمیشہ درپردہ اسلام کی بیخ کنی کرتے رہے اور اس نصف النہارکے وقت چمکنے والے آفتاب پر گرد اڑانے اور اس چراغ جاودانی کے بجھانے میں ہر طرح کی کوشش کرتے رہے۔ سورۃ برات اور منافقون اور اس سورۃ اور دیگر سورتوں میں ان کے اقوال و افعال ناشائستہ کا جواب مذکور ہے اور جو کچھ غزوات میں انہوں نے فتور برپاکئے ہیں وہ بھی لکھے ہوئے ہیں، جس سے خدا تعالی نے نفاق کی جڑ کو بالکل کاٹ دیا۔
منافقین رسول اللہ ﷺکودھوکہ دینے میں کامیاب نہیں ہوئے
وَمِنْہَا مَا قَالَہُ بَعْضُہُمْ أَنَّہُ إِنَّمَا لَمْ یقتلہم لأنہ لا یخاف من شرہم مع وجودہ صلّی اللہ علیہ وسلم بین أظہرہم یتلو علیہم آیات مُبَیِّنَاتٍ فَأَمَّا بَعْدَہُ فَیُقْتَلُونَ إِذَا أَظْہَرُوا النِّفَاقَ وَعَلِمَہُ الْمُسْلِمُونَ۔
ترجمہ :حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ ہمارے علماء کرام علیہم الرحمہ نے نقل کیاہے کہ ان منافقین کو قتل نہ کرانے کی وجہ یہ بھی تھی کہ رسول اللہ ﷺکی موجودگی میں ان کی شرارتیں اوردھوکے کامیاب نہیں ہوتے تھے اورصحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو اللہ تعالی نے وحی کے ساتھ مطلع فرمادیاتھا، لیکن اب کو ئی ایساشخص ظاہرہوجائے تواس کو قتل کردیاجائے گا۔
(تفسیر القرآن العظیم:أبو الفداء إسماعیل بن عمر بن کثیر (۱:۸۹)
منافق کافراصلی سے بھی زیادہ پلید ہے
ثُمَّ إِنَّ الْمُنَافِقَ اخْتُصَّ بِمَزِیدِ أُمُورٍ مُنْکَرَۃٍ أَحَدُہَا:أَنَّہُ قَصَدَ التَّلْبِیسَ وَالْکَافِرُ الْأَصْلِیُّ مَا قَصَدَ ذَلِکَ. وَثَانِیہَا: أَنَّ الْکَافِرَ عَلَی طَبْعِ الرِّجَالِ، وَالْمُنَافِقَ عَلَی طَبْعِ الْخُنُوثَۃِ وَثَالِثُہَا:أَنَّ الْکَافِرَ مَا رَضِیَ لِنَفْسِہِ بِالْکَذِبِ بَلِ اسْتَنْکَفَ مِنْہُ وَلَمْ یَرْضَ إِلَّا بِالصِّدْقِ، وَالْمُنَافِقُ رَضِیَ بِذَلِکَ وَرَابِعُہَا: أَنَّ الْمُنَافِقَ ضَمَّ إِلَی کُفْرِہِ الِاسْتِہْزَاء َ بِخِلَافِ الْکَافِرِ الْأَصْلِیِّ، وَلِأَجْلِ غِلَظِ کُفْرِہِ قَالَ تَعَالَی: إِنَّ الْمُنافِقِینَ فِی الدَّرْکِ الْأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ (النِّسَاء ِ: ۱۴۵)وَخَامِسُہَا: قَالَ مُجَاہِدٌ:إِنَّہُ تَعَالَی ابْتَدَأَ بِذِکْرِ الْمُؤْمِنِینَ فِی أَرْبَعِ آیَاتٍ، ثُمَّ ثَنَّی بِذِکْرِ الْکُفَّارِ فِی آیَتَیْنِ ثُمَّ ثَلَّثَ بِذِکْرِ الْمُنَافِقِینَ فِی ثَلَاثَ عَشْرَۃَ آیَۃً، وَذَلِکَ یَدُلُّ عَلَی أَنَّ الْمُنَافِقَ أَعْظَمُ جُرْمًا۔
ترجمہ ـامام الرازی المتوفی :۶۰۶ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ پھرمنافق میں مزید برائیاں بھی ہیں جو کافراصلی میں نہیں ہیں:( ۱) منافق دھوکہ کرتاہے جبکہ کافراصلی ایسانہیں کرتا۔
(۲) کافرمردوں کی طبیعت پر ہوتاہے جبکہ منافق ہیجڑوں کی طبیعت پر ہوتاہے ۔
(۳) کافراپنے لئے جھوٹ پسند نہیں کرتااورصدق سے کام لیتاہے ،جبکہ منافق جھوٹ کو پسند کرتاہے ۔
(۴) منافق اپنے کفرکے ساتھ استہزاء کو بھی ملاتاہے جب کہ کافراصلی ایسانہیں کرتا۔
(۵) حضرت سیدناامام مجاہد رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اللہ تعالی نے اہل ایمان کاذکر خیر چارآیات میں فرمایااوردوآیات میں کفارکاذکرفرمایااورتیرہ آیات میں منافقین کاذکرکیا۔ یہیں سے یہ بات واضح ہوگئی کہ منافق کاجرم بہت بڑاہے ۔
(التفسیر الکبیر: أبو عبد اللہ محمد بن عمر بن الحسن بن الحسین التیمی الرازی (۲:۲۹۹)
تنبیہ : امام الرازی رحمہ اللہ تعالی نے حضرت سیدنامجاہد رضی اللہ عنہ کے کلام کو ذکرکرنے کے بعد اس پر کلام بھی فرمایاہے ۔
اس سے معلوم ہواکہ جو شخص اپنے تئیں رسول اللہ ﷺکے ساتھ دھوکہ کررہاہے وہ کتنابڑاپلیدہے ۔ اللہ تعالی ان کے شرسے محفوظ فرمائے ۔
منافقین نے نفاق کیوں اختیارکیا؟
أَنْ یَکُونَ مُرَادُہُمْ إِفْشَاء َ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِلَیْہِمْ أَسْرَارَہُ، وَإِفْشَاء َ الْمُؤْمِنِینَ أَسْرَارَہُمْ فَیَنْقُلُونَہَا إِلَی أَعْدَائِہِمْ مِنَ الْکُفَّارِ۔
ترجمہ :امام الرازی رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیںکہ منافقین نے اپنے نفاق کو اس لئے چھپایاتھاتاکہ رسول اللہ ﷺاوراہل ایمان کے راز حاصل کرکے رسول اللہ ﷺکے ان دشمنوں تک پہنچائیں جوکفارہیں۔
(التفسیر الکبیر: أبو عبد اللہ محمد بن عمر بن الحسن بن الحسین التیمی الرازی (۲:۲۹۹)
اس سے ثابت ہواکہ منافقین رسول اللہ ﷺاوراہل ایمان کی جاسوسی کرنے کے لئے آتے تھے اوررسول اللہ ﷺکے دشمنوں کو اطلاع دینے کی کوشش کرتے تھے ۔ اب تمام اہل ایمان غورکریں جو شخص رسول اللہ ﷺکے ساتھ اس طرح کارویہ رکھے وہ عنداللہ کتنابڑاذلیل ہوگا۔
{فِیْ قُلُوْبِہِمْ مَّرَضٌ فَزَادَہُمُ اللہُ مَرَضًا وَلَہُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ بِمَا کَانُوْا یَکْذِبُوْنَ}
ترجمہ ضیاء الایمان:اوران کے دلوں میں بیماری ہے ، تواللہ تعالی ان کی بیماری بڑھاتاہے اوران کے لئے دردناک عذاب ہے بدلہ ان کے جھوٹ کا۔
اس آیت مبارکہ میں دل کی بیماری سے مراد ان منافقوں کی منافقت اوررسول اللہ ﷺکے ساتھ بغض کی بیماری ہے ۔اس سے معلوم ہواکہ منافقین کے دل رسول للہ ﷺکے بغض کے ساتھ بھرے ہوئے تھے اسی لئے اللہ تعالی نے ارشافرمایاکہ ان کے دلوں میں مرض ہے ۔نفاق کفرسے بڑی بدعقیدگی ہے ۔
مرض کامعنی کیاہے ؟
فِی قُلُوبِہِمْ مَرَضٌ:شَکٌّ وَنِفَاقٌ، وأصل المرض الضعف، سمی الشَّکُّ فِی الدِّینِ مَرَضًا لِأَنَّہُ یُضْعِفُ الدِّینَ کَالْمَرَضِ یُضْعِفُ الْبَدَنَ، فَزادَہُمُ اللَّہُ مَرَضاً، لِأَنَّ الْآیَاتِ کَانَتْ تَنْزِلُ تَتْرَی آیَۃً بَعْدَ آیَۃٍ، کُلَّمَا کَفَرُوا بِآیَۃٍ ازْدَادُوا کُفْرًا وَنِفَاقًا، وَذَلِکَ مَعْنَی قَوْلِہِ تَعَالَی:وَأَمَّا الَّذِینَ فِی قُلُوبِہِمْ مَرَضٌ فَزادَتْہُمْ رِجْساً إِلَی رِجْسِہِمْ۔ وَلَہُمْ عَذابٌ أَلِیمٌ:مُؤْلِمٌ یَخْلُصُ وَجَعُہُ إِلَی قُلُوبِہِمْ، بِما کانُوا یَکْذِبُونَ (مَا لِلْمَصْدَرِ، أَیْ: بِتَکْذِیبِہِمُ اللَّہَ وَرَسُولَہُ فِی السِّرِّ۔
ترجمہ :امام محی السنہ ابومحمدالحسین بن مسعود البغوی المتوفی :۵۱۰ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ {فِی قُلُوبِہِمْ مَرَضٌ}سے مراد شک اورمنافقت کامرض ہے ،مرض کااصل معنی ضعف ہے ، دنیامیں شک کو مرض کانام دیاگیاکیونکہ وہ دین کو کمزورکردیتاہے جیسے مرض بدن کو کمزور کرتاہے ، اس لئے کہ آیات مبارکہ یکے بعد دیگرے نازل ہورہی تھیں ۔ وہ جب بھی کسی آیت کاانکارکرتے توان کاکفراورنفاق زیادہ ہوجاتاہے جیساکہ اللہ تعالی نے فرمایا:{وَأَمَّا الَّذِینَ فِی قُلُوبِہِمْ مَرَضٌ فَزادَتْہُمْ رِجْساً إِلَی رِجْسِہِمْ}
{ وَلَہُمْ عَذابٌ أَلِیمٌ}کامعنی یہ ہے کہ ایسادردناک عذاب ان کو دیاجائے گاکہ وہ اس عذاب کادرد سیدھاان کے دلوں تک چڑھ جائے گا۔
(تفسیر البغوی : محیی السنۃ ، أبو محمد الحسین بن مسعود بن محمد بن الفراء البغوی الشافعی (۱:۸۸)
رسول اللہ ﷺکے دشمنوں کو اللہ تعالی ذلیل فرماتاہے
فکلما کفروا بایۃ ازدادوا کفرااو نصر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وتفضیحہم۔
ترجمہ:حضرت قاضی ثناء اللہ پانی پتی حنفی رحمہ اللہ تعالی لکھتے ہیں کہ جب انہوںنے رسول اللہ ﷺکی درپردہ تکذیب کی تواللہ تعالی نے آیات نازل کرکے اوررسول اللہ ﷺکی مددفرماکرمنافقین کے مرض کو بڑھادیااوران کی ذلت میں اضافہ کردیا۔
(التفسیر المظہری: المظہری، محمد ثناء اللہ(۱:۸۸)
موجودہ لبرل کوکیانام دیاجائے گا؟
قَالَ مَالِکٌ:الْمُنَافِقُ فِی عَہْدِ رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ہو الزِّنْدِیقُ الْیَوْمَ۔
ترجمہ :حضرت سیدناامام مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جو شخص رسول اللہ ﷺکے زمانہ مبارکہ میں ایمان ظاہرکرکے کفرکو چھپاتاتھااسے منافق کہتے تھے مگرآج کے زمانے میں ایساشخص بے دین اورزندیق کہلائے گا۔
(تفسیر القرآن العظیم:أبو الفداء إسماعیل بن عمر بن کثیر (۱:۸۹)
جب رسول اللہ ﷺکو علم تھاکہ یہ منافقین ہیں توان کو قتل کیوں نہیں کیا؟
وَقَدْ سُئِلَ الْقُرْطُبِیُّ وَغَیْرُہُ مِنَ الْمُفَسِّرِینَ عَنْ حِکْمَۃِ کَفِّہِ عَلَیْہِ الصلاۃ والسلام عَنْ قَتْلِ الْمُنَافِقِینَ مَعَ عِلْمِہِ بِأَعْیَانِ بَعْضِہِمْ وَذَکَرُوا أَجْوِبَۃً عَنْ ذَلِکَ مِنْہَا مَا ثَبَتَ فِی الصَّحِیحَیْنِ أَنَّہُ صَلَّی اللَّہُ علیہ وسلم قال لعمر رضی اللہ عنہ أَکْرَہُ أَنْ یَتَحَدَّثَ الْعَرَبُ أَنَّ مُحَمَّدًا یَقْتُلُ أَصْحَابَہُ وَمَعْنَی ہَذَا خَشْیَۃَ أَنْ یَقَعَ بِسَبَبِ ذَلِکَ تَغَیُّرٌ لِکَثِیرٍ مِنَ الْأَعْرَابِ عَنِ الدُّخُولِ فِی الْإِسْلَامِ وَلَا یَعْلَمُونَ حِکْمَۃَ قَتْلِہِ لَہُمْ وَأَنَّ قَتْلَہُ إِیَّاہُمْ إِنَّمَا ہُوَ عَلَی الْکُفْرِ فإنہم إنمایَأْخُذُونَہُ بِمُجَرَّدِ مَا یَظْہَرُ لَہُمْ فَیَقُولُونَ: إِنَّ مُحَمَّدًا یَقْتُلُ أَصْحَابَہُ، قَالَ الْقُرْطُبِیُّ: وَہَذَا قَوْلُ عُلَمَائِنَا وَغَیْرِہِمْ کَمَا کَانَ یُعْطِی الْمُؤَلَّفَۃَ قُلُوبُہُمْ مع علمہ بسوء اعْتِقَادِہِمْ۔
ترجمہ :حضرت سیدناامام القرطبی رحمہ اللہ تعالی اوردوسرے مفسرین سے یہ سوال کیاگیاکہ رسول اللہ ﷺمنافقین کو جانتے تھے اس کے باوجو د انہیں قتل نہیں کروایا؟امام القرطبی رحمہ اللہ تعالی نے اس کے کئی جواب نقل کئے ہیں :
ایک جواب تویہ ہے کہ رسول اللہ ﷺنے حضرت سیدناعمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو فرمایاکہ میں یہ بات پسند نہیں کرتاکہ کوئی یہ کہے رسول اللہ ﷺاپنے ساتھیوں کو قتل کروادیتے ہیں ،مطلب یہ کہ جو اعرابی آس پاس ہیں انہیں یہ تومعلوم نہ ہوگاکہ ان منافقوں کے پوشیدہ کفرکی بناپر ان کوقتل کیاگیاہے ، ان کی نظریں تو صرف ظاہرداری پر ہوں گی ، جب ان میں یہ بات مشہورہو جائے گی کہ رسول اللہ ﷺاپنے ساتھیوں کو قتل کروادیتے ہیں توخوف ہے کہ وہ اسلام قبول کرنے سے رک نہ جائیں۔
حضرت سیدناامام القرطبی رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ ہمارے علماء کرام کابھی یہی قول ہے کہ ٹھیک اسی طرح رسول اللہ ﷺمولفۃ القلوب جن کے دل اسلام کی جانب مائل کئے جاتے تھے مال عطافرمایاکرتے تھے حالانکہ آپ ْﷺجانتے تھے یہ لوگ منافقین ہیں اوران کے عقیدے گندے ہیں۔
(تفسیر القرآن العظیم:أبو الفداء إسماعیل بن عمر بن کثیر (۱:۸۹)
موجودہ لبرل کانقصان پرانے منافق سے زیادہ ہے
وَہُوَ أَنَّ اللَّہَ تَعَالَی کَانَ قَدْ حَفِظَ أَصْحَابَ نَبِیِّہِ عَلَیْہِ السَّلَامُ بِکَوْنِہِ ثَبَّتَہُمْ أَنْ یُفْسِدَہُمُ الْمُنَافِقُونَ أَوْ یُفْسِدُوا دِینَہُمْ فَلَمْ یَکُنْ فِی تَبْقِیَتِہِمْ ضَرَرٌ، وَلَیْسَ کَذَلِکَ الْیَوْمَ، لِأَنَّا لَا نَأْمَنُ مِنَ الزَّنَادِقَۃِ أَنْ یُفْسِدُوا عامتنا وجہالنا.
ترجمہ :امام ابوعبداللہ محمدبن احمدالقرطبی المتوفی : ۶۷۱ھ) رحمہ اللہ تعالی لکھتے ہیں کہ اللہ تعالی نے رسول اللہ ﷺکے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی حفاظت فرمائی تھی کہ منافقین انہیں خراب کرسکیں کیونکہ اللہ تعالی نے مومنین کو ثابت قدمی عطافرمائی ،اوراللہ تعالی نے اہل ایمان کے ایمان کی حفاظت فرمائی کہ منافقین ان کے ایمان کو خراب کرسکیں ۔ پس ان کو قتل نہ کرنے میں کوئی حرج نہیں تھالیکن آج کادوراس طرح کانہیں ہے ، ہم بے دینوں اورزندیقوں اورلبرل طبقہ سے امن میں نہیں ہیں کہ وہ ہماری عوام اورجاہل لوگوں کے نظریات خراب نہیں کریں گے ۔
(تفسیر القرطبی: أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن أبی بکر القرطبی (۱:۱۹۷)
معارف ومسائل
(۱)اس سے معلوم ہواکہ منافقین اپنے تئیں رسول اللہ ﷺکو دھوکہ دیتے تھے ۔
(۲)اللہ تعالی نے رسول اللہ ﷺکودھوکہ دینے والوں کو اپنے ساتھ دھوکہ کرنے والاقراردیا۔
(۳)منافقین کے دل میں موجود شک کو مرض فرمایاگیاہے اورمرض کمزوری کانام ہے جس طرح مرض انسان کو کمزورکردیتاہے اسی طرح منافقت انسان کے دین کو ختم کردیتی ہے ۔
(۴) وہ لوگ غورکریں جوآجکل دین کے متعلق ، اللہ تعالی اوررسول اللہ ﷺکے متعلق شک میں مبتلاہوچکے ہیں، اورضروریات دینی کے متعلق ان کو شک واقع ہوگیاہے کہ کہیں یہ منافقین کی صف میں توشامل نہیں ہوچکے ۔
(۵ اس سے یہ بھی معلوم ہوگیاکہ منافق کافراصلی سے بھی زیادہ نجس اورپلید ہوتاہے۔
(۶)اوریہ بھی معلوم ہواکہ جو شخص رسول اللہ ﷺکے خلاف دل میں بغض رکھے گاتواسے ایسے عذاب میں مبتلاء کیاجائے گاجس کادرد سیدھااس کے دل کو پہنچے گا۔
(۷) اس سے یہ بھی معلوم ہوگیاکہ منافقین کے نفاق کو اختیارکرنے کی اصل وجہ ہی رسول اللہ ﷺکے ساتھ دشمنی تھی ۔
(۸) وہ لوگ غورکریں جو اہل اسلام کی اورخصوصاً علماء حقہ کی جاسوسیاں کرکے کفاراورمشرکین تک پہنچاتے ہیں۔
(۹) اس سے یہ بھی معلوم ہوگیاکہ جو لوگ درپردہ رسول اللہ ﷺکی تکذیب کرتے ہیں یارسول اللہ ﷺکی سنن میںسے کسی بھی سنت کی تکذیب کرتے ہیں ان کے لئے دردناک عذاب ہے ۔