رسول اللہ ﷺکی دشمنی کی وجہ سے یہودی توراۃ کے بھی دشمن بن گئے
{اَنْزَلْنَآ اِلَیْکَ اٰیٰتٍ بَیِّنٰتٍ وَمَا یَکْفُرُ بِہَآ اِلَّا الْفٰسِقُوْنَ}(۹۹){اَوَکُلَّمَا عٰہَدُوْا عَہْدًا نَّبَذَہ فَرِیْقٌ مِّنْہُمْ بَلْ اَکْثَرُہُمْ لَا یُؤْمِنُوْنَ}(۱۰۰){وَلَمَّا جَآء َہُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ عِنْدِ اللہِ مُصَدِّقٌ لِّمَا مَعَہُمْ نَبَذَ فَرِیْقٌ مِّنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ کِتٰبَ اللہِ وَرَآء َ ظُہُوْرِہِمْ کَاَنَّہُمْ لَایَعْلَمُوْنَ}(۱۰۱)
ترجمہ کنزالایمان:اور بیشک ہم نے تمہاری طرف روشن آیتیں اتاریں اور ان کے منکر نہ ہوں گے مگر فاسق لوگ ۔اور کیا جب کبھی کوئی عہد کرتے ہیں ان میں ایک فریق اسے پھینک دیتا ہے بلکہ ان میں بہتیروں کو ایمان نہیں اور جب ان کے پاس تشریف لایا اللہ کے یہاں سے ایک رسول ان کی کتابوں کی تصدیق فرماتا تو کتاب والوں سے ایک گروہ نے اللہ کی کتا ب اپنے پیٹھ پیچھے پھینک دی گویا وہ کچھ علم ہی نہیں رکھتے۔
ترجمہ ضیاء الایمان: اوربے شک ہم نے آپ (ﷺ) کی طرف روشن آیات اتاریں اوران کے منکرصرف وہی لوگ ہے جو فاسق ہیں ۔ اورجب بھی کوئی یہ عہد کرتے ہیں توانہیں میں سے ایک گروہ اس عہدکو ہی پھینک دیتاہے بلکہ ان میں بہت زیادہ لوگ توایمان نہیں رکھتے اورجب ان کے پاس اللہ تعالی کی طرف سے رسول (ﷺ) تشریف لائے جو ان کی کتاب کی تصدیق کرتے ہیں تواہل کتاب میں سے ایک گروہ نے اللہ تعالی کی کتاب ہی پیٹھ پیچھے پھینک دی گویا کہ وہ کچھ علم ہی نہیں رکھتے ۔
پچھلی آیت کے ساتھ مناسبت
لما ذکر تعالی ما جبل علیہ الیہود، من خبث السریرۃ ونقض العہود، والتکذیب لرسل اللہ ومعاداۃ أولیائہ، حتی انتہی بہم الحال إِلی عداوۃ السفیر بین اللہ وبین خلقہ وہو جبریل الأمین علیہ السلام، أعقب ذلک ببیان أن من عادۃ الیہود عدم الوفاء بالعقود، وتکذیب الرسل، واتباع طرق الشعوذۃ والضلال، وفی ذلک تسلیۃ لرسول اللہ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم َ حیث سلکوا معہ ہذہ الطریقۃ، فی عدم الأخذ بما انطوی علیہ کتاب اللہ من التبشیر ببعثۃ السراج المنیر، وإِلزامہم الإِیمان بہ واتباعہ، فنبذوا الکتاب وراء ظہورہم، واتبعوا ما ألقت إلیہم الشیاطین من کتب السحر والشعوذۃ، ونسبوہاإِلی سلیمان علیہ السلام وہو منہا بریء ، وہکذا حالہم مع جمیع الرسل الکرام، فلا تذہب نفسک علیہم حسرات.
ترجمہ :جب رب تعالی نے یہودیوں کی جبلی اورفطری خباثتوں کو ذکرکیامثلاً درونی خباثت ، عہدکو توڑنا، رب تعالی کے رسولوں کو جھوٹاکہنا، اس کے اولیاء کرام کے ساتھ دشمنی رکھنا، اورتواوررب تعالی کے مقرب فرشتے حضرت سیدناجبریل امین علیہ السلام کے ساتھ دشمنی رکھنا جو خداتعالی اوراس کی مخلوق کے درمیان سفیرہیں ، تواس کے بعد رب تعالی نے اس بات کو بیان کیاکہ عہدوں کو پورانہ کرنااوررسولوں کو جھٹلانااورگمراہی اورجادوٹونوں کی راہ پرچلناان یہودیوں کی عادت ہے ، اس میں رسول اللہ ﷺکے لئے تسلی ہے کہ ان بدبختوں نے آپ ﷺکے ساتھ بھی یہی رویہ رکھاہے۔ چنانچہ ان کی کتابوں میں نبی آخرالزماں ﷺکی بعثت کی جوبشارت موجود تھی اس کو انہوںنے قبول نہ کیااورنہ ہی آپﷺ پر ایمان لائے اورنہ ہی آپ ﷺکی اتباع کی ۔ حالانکہ توراۃ شریف نے ان پرتینوں باتیں لازم کی تھیں ۔ ان لوگوں نے اللہ تعالی کی کتاب کو پیٹھ پیچھے پھینک دیااوران باتوں ، جادوٹونوں کے پیچھے لگ گئے جو سکھاتے توان کو شیاطین تھے لیکن یہ لوگ ان باتوں کو حضرت سیدناسلیمان علیہ السلام کی طرف منسوب کردیتے تھے جب کہ جادوٹونوں سے حضرت سیدناسلیمان علیہ السلام بالکل بری تھے توجب سب انبیاء کرام علیہم السلام کے ساتھ ان بدبختوں کایہی حال ہے توآپ ﷺپریشان نہ ہوں۔
(صفوۃ التفاسیر:محمد علی الصابونی(۱:۷۳)
{اَنْزَلْنَآ اِلَیْکَ اٰیٰتٍ بَیِّنٰتٍ }
رسول اللہ ﷺکی نبوت صرف قرآن کریم پر ہی موقوف نہیں ہے جس کے متعلق یہ بہانہ کردیاکہ قرآن کریم توجبریل امین علیہ السلام لے کرآئے ہیں ،جوہمارے دشمن ہیں ، البتہ تحقیق ہم نے آپ ﷺکی نبوت ورسالت کو ثابت کرنے کے لئے نہایت واضحہ اورروشن دلائل نازل کئے ، جن میں کسی قسم کااشتباہ اورالتباس نہیں ہے اورنہ ان میں جبریل امین علیہ السلام واسطہ ہیں ۔ پس اگرقرآن کریم کو دلیل نبوت نہیں سمجھتے کہ جبریل امین علیہ السلام سے دشمنی ہے توان آیات بینات کاتمھارے پاس کیاجواب ہے ؟ جن میں جبریل امین علیہ السلام کاکوئی واسطہ نہیں ہے ۔ ان کو خود بھی معلوم ہے مگررسول اللہ ﷺکے ساتھ دشمنی کی وجہ سے انکارکرتے ہیں ۔
شان نزول
قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا: ہَذَا جَوَابٌ لِابْنِ صُورِیَّا حَیْثُ قَالَ لِرَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: یَا مُحَمَّدُ مَا جِئْتَنَا بِشَیْء ٍ نَعْرِفُہُ، وَمَا أُنْزِلَ عَلَیْکَ مِنْ آیَۃٍ بَیِّنَۃٍ فَنَتَّبِعَکَ بِہَا؟ فأنزل اللہ ہذہ الآیۃ۔
ترجمہ :حضرت سیدناعبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہمافرماتے ہیں کہ یہ آیت کریمہ ابن صوریاجو یہودیوں کاعالم تھاکے جواب میں نازل ہوئی ہے ، اس نے ایک مرتبہ رسول اللہﷺ کی بارگاہ اقدس میں حاضرہوکرکہا: آپﷺ ایسی کوئی چیز نہیں لائے جس کو ہم پہنچانتے ہوں۔ اورآپ ﷺپرکوئی واضح آیت نہیں اتری کہ ہم جس کی اتباع کریں تواللہ تعالی نے یہ آیت مبارکہ نازل فرمائی۔
(تفسیر القرطبی:أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن أبی بکر بن فرح الأنصاری الخزرجی شمس الدین القرطبی (۲:۳۹)
توراۃ پھینکنے سے کیا مرادہے ؟
وَالْمُرَادُ التَّوْرَاۃُ، لِأَنَّ کُفْرَہُمْ بِالنَّبِیِّ عَلَیْہِ السَّلَامُ وَتَکْذِیبَہُمْ لَہُ نَبْذٌ لَہَا۔
ترجمہ :امام ابوعبداللہ محمدبن احمدالقرطبی المتوفی :۶۷۱ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ (توراۃ کو پھینکنے سے مراد ) یہ ہے کہ انہوںنے رسول اللہ ﷺکاانکارکیااوررسول اللہ ﷺکوجھوٹاکہاتھااوریہی اس کوپھینکناہے۔
(تفسیر القرطبی:أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن أبی بکر بن فرح الأنصاری الخزرجی شمس الدین القرطبی (۲:۳۹)
{وَلَمَّا جَآء َہُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ عِنْدِ اللہِ مُصَدِّقٌ لِّمَا مَعَہُمْ}
یہودیوں کاتعصب کہ ۔۔۔۔۔
حَدَّثَنَا أَبُو زُرْعَۃَ ثنا عَمْرُو بْنُ حَمَّادٍ ثنا أَسْبَاطٌ عَنِ السُّدِّیِّ وَلَمَّا جَاء َہُمْ رَسُولٌ مِنْ عِنْدِ اللَّہِ مُصَدِّقٌ لِمَا مَعَہُمْ قَالَ: لَمَّا جَاء َہُمْ مُحَمَّدٌ عَارَضُوہُ بِالتَّوْرَاۃِ فَخَاصَمُوہُ بِہَا، فَاتَّفَقَتِ التَّوْرَاۃُ وَالْقُرْآنُ، فَنَبَذُوا التَّوْرَاۃَ وَأَخَذُوا بِکِتَابِ آصِفَ وَسِحْرِ ہَارُوتَ وَمَارُوتَ فَلَمْ یُوَافِقِ الْقُرْآنَ فَذَلِکَ قَوْلُ اللَّہِ کَأَنَّہُمْ لَا یَعْلَمُونَ
ترجمہ :امام السدی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺتشریف لائے تو یہودیوں نے رسول اللہ ﷺکے ساتھ توراۃ کامعارضہ کیا۔ توقرآن کریم اورتوراۃ شریف اصول میں متفق پائے گئے ، توانہوںنے توراۃ کو بھی پس پشت ڈال دیااورآصف کی کتاب اورہاروت وماروت کے جادوکو لے لیا، گویاوہ جانتے ہی نہیں کہ محمدﷺکی اتباع اورآپ ﷺکی تصدیق کاحکم توراۃ میں ہے ۔
اورآصف کی کتاب قرآن کریم کے ساتھ موافقت نہیں رکھتی اسی لئے اللہ تعالی نے فرمایا:گویاکہ وہ جانتے ہی نہیں۔
(تفسیر القرآن العظیم لابن أبی حاتم:أبو محمد عبد الرحمن بن محمد الحنظلی، الرازی ابن أبی حاتم (۱:۱۸۴)
ایک سوال اوراس کاجواب
فَإِنْ قِیلَ: کَیْفَ یَصِحُّ نَبْذُہُمُ التَّوْرَاۃَ وَہُمْ یَتَمَسَّکُونَ بِہِ؟ قُلْنَا:إِذَا کَانَ یَدُلُّ عَلَی نُبُوَّۃِ مُحَمَّدٍ عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَامُ لِمَا فِیہِ مِنَ النَّعْتِ وَالصِّفَۃِ وَفِیہِ وُجُوبُ الْإِیمَانِ ثُمَّ عَدَلُوا عَنْہُ کَانُوا نَابِذِینَ لِلتَّوْرَاۃِ.أَمَّا قَوْلُہُ تَعَالَی: کَأَنَّہُمْ لَا یَعْلَمُونَ فَدَلَالَۃٌ عَلَی أَنَّہُمْ نَبَذُوہُ عَنْ عِلْمٍ وَمَعْرِفَۃٍ لِأَنَّہُ لَا یُقَالُ ذَلِکَ إِلَّا فِیمَنْ یَعْلَمُ، فَدَلَّتِ الْآیَۃُ مِنْ ہَذِہِ الْجِہَۃِ عَلَی أَنَّ ہَذَا الْفَرِیقَ کَانُوا عَالِمِینَ بِصِحَّۃِ نُبُوَّتِہِ إِلَّا أَنَّہُمْ جَحَدُوا مَا یَعْلَمُونَ، وَقَدْ ثَبَتَ أَنَّ الْجَمْعَ الْعَظِیمَ لَا یَصِحُّ الْجَحْدُ عَلَیْہِمْ فَوَجَبَ الْقَطْعُ بِأَنَّ أُولَئِکَ الْجَاحِدِینَ کَانُوا فِی الْقِلَّۃِ بحیث تجوز المکابرۃ علیہم.
ترجمہ :سوال یہ پیداہوتاہے کہ یہودی توراۃ سے توتمسک کرتے تھے ، پھراس کے پھینکنے کاکیامعنی ہے ؟ تواس کے جواب میں امام الرازی رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ جب اس میں رسول اللہ ﷺکی نبوت شریفہ اوررسول اللہ ﷺکی نعت وشان کاذکرہوتااوررسول اللہ ﷺپر ایمان لانے کی بات ہوتی تواس سے اعراض کرلیتے تھے تویہی توراۃ کو پھینکناہے {کَأَنَّہُمْ لَا یَعْلَمُونَ}یہ الفاظ اس بات پر واضح دلالت کرتے ہیں کہ انہوںنے رسول اللہ ﷺکی نبوت کو جان کر توراۃ کو پھینکاکیونکہ یہ بات عالم سے ہی کہی جاسکتی ہے ، اس اعتبار سے آیت بتارہی ہے کہ یہ فریق رسول اللہ ﷺکی نبوت کی صحت کو جانتاتھالیکن انہوںنے انکارکردیااوریہ ثابت ہے کہ عظیم تعداد نے انکارنہیں کیاتوجان بوجھ کر انکارکرنے والے تعداد میں کم تھے جن سے مکابرہ جائز ہے ۔
(التفسیر الکبیر: أبو عبد اللہ محمد بن عمر بن الحسن بن الحسین التیمی الرازی (۳:۶۱۶)
توراۃ کو انہوں نے کیسے پھینکاتھا؟
وَقَالَ سُفْیَانُ بْنُ عُیَیْنَۃَ: أَدْرَجُوہُ فِی الْحَرِیرِ وَالدِّیبَاجِ، وَحَلَّوْہُ بِالذَّہَبِ وَالْفِضَّۃِ، وَلَمْ یُحِلُّوا حَلَالَہُ وَلَمْ یُحَرِّمُوا حَرَامَہُ، فَذَلِکَ النَّبْذُ۔
ترجمہ:حضرت سیدناسفیان بن عیینہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ یہودیوں نے توراۃ کو ریشم اوردیباج میں لپیٹ رکھاتھااوراسے سونے اورچاندی سے مزین کردیاتھالیکن توراۃ نے جس چیز کو حلال کیااس کو حلال نہ جانتے اورتوارۃ نے جس چیز کو حرام کیااس کو حرام نہ جانتے تھے۔اوریہی توراۃ کو پھینکناہے ۔
(الکشف والبیان عن تفسیر القرآن:أحمد بن محمد بن إبراہیم الثعلبی، أبو إسحاق (۱:۲۴۲)
امام الشعبی رضی اللہ عنہ کاقول
. قَالَ الشَّعْبِیُّ:ہُوَ بَیْنَ أَیْدِیہِمْ یَقْرَء ُونَہُ، وَلَکِنْ نَبَذُوا الْعَمَلَ بِہِ۔
ترجمہ:امام الشعبی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ توراۃ ان کے ہاتھوں میں تھی مگر انہوںنے اس پرعمل کرناچھوڑ دیااسی کو اللہ تعالی نے توراۃ کوپھینکناقراردیاہے ۔
(کتاب تفسیر القرآن:أبو بکر محمد بن إبراہیم بن المنذر النیسابوری (۲:۵۲۸)
{ وَمَا یَکْفُرُ بِہَآ اِلَّا الْفٰسِقُوْنَ}
اس آیت مبارکہ سے معلوم ہوتاہے کہ قرآن کریم اورشریعت شریفہ پر اعتراض کرنے والااوراس کاانکار کرنے والااس کی برکات سے محروم رہنے والاشخص فاسق وفاجرہوتاہے اسی لئے اللہ تعالی ایسے شخص کو اپنے دین سے محروم رکھتاہے ۔ یہاں ہم اپنے دعوے کے ثبوت میں دواجلہ ائمہ کے اقوال نقل کرتے ہیں ۔
فاسق وفاجر کو وحی کانور نصیب نہیں ہوتا
قَالَ فِی البُّرْہَانِ: اعْلَمْ أَنَّہُ لَا یَحْصُلُ لِلنَّاظِرِ فَہْمُ مَعَانِی الْوَحْیِ وَلَا یَظْہَرُ لَہُ أَسْرَارُہُ وَفِی قَلْبِہِ بِدْعَۃٌ أَوْ کِبْرٌ أَوْ ہَوًی أَوْ حُبُّ الدُّنْیَا أَوْ وَہُوَ مُصِرٌّ عَلَی ذَنْبٍ أَوْ غَیْرُ مُتَحَقِّقٍ بِالْإِیمَانِ أَوْ ضَعِیفُ التَّحْقِیقِ أَوْ یَعْتَمِدُ عَلَی قَوْلِ مُفَسِّرٍ لَیْسَ عِنْدَہُ عِلْمٌ أَوْ رَاجَعٌ إِلَی مَعْقُولِہِ وَہَذِہِ کُلُّہَا حُجُبٌ وَمَوَانِعُ بَعْضُہَا آکَدُ مِنْ بَعْضٍ۔
ترجمہ :برہان میںبیان کیاگیاہے کہ جانناچاہئے کہ ناظراس وقت وحی کے معانی کی تحصیل نہیں کرسکتااورنہ ہی اس پر وحی کے اسرارآشکارہوسکتے ہیں جب تک اس کے دل میں بدعت ، تکبر، اپنی رائے اوردنیاکی محبت جاگزیں ہویاوہ گناہ پر اصرارکرنے والاہویاایمان پر ثابت نہ ہویاتحقیق میں کمزورہویاکسی ایسے مفسر پر اعتماد کرتاہو جو علم صحیح کاحامل نہ ہو، یہ امور سب کے سب موانع ہیں ، ان کی موجودگی میں وحی کے معانی تک رسائی ممکن نہیں ہے ہاں ان موانع میں بہ اعتباردرجہ فرق ہے ۔
(الإتقان فی علوم القرآن:عبد الرحمن بن أبی بکر، جلال الدین السیوطی (۴:۲۱۶)
دنیادارکوقرآن کریم کی سمجھ نہیں آسکتی
وامامع میلہ الی الدنیافلاسبیل لہ الی فہم الغوامض ابداً۔
ترجمہ :شیخ اکبرمحی الدین ابن عربی رحمہ اللہ تعالی کاقول جو شخص دنیاکی جانب میلان رکھے اسے قرآن وحدیث شریف کی باریکیاں سمجھنے کی توفیق نہیں ہوسکتی ۔
(الیواقیت والجواہرلامام عبدالوہاب الشعرانی :۴۴)
امام اسماعیل حقی الحنفی المتوفی :۱۱۲۷ھ) کی مذکورہ مسئلہ کی مزید وضاحت
واعلم ان القرآن ہو النور الإلہی الذی کشف اللہ بہ الظلمات والیہود أرادوا ان یطفئوا نور اللہ واللہ متم نورہ ولیس لہم فی ذلک الا الفضاحۃ والخزی کما إذا دخل الحمام ناس فی لیل مظلم وفیہم الأصحاء واہل العیوب فجاء واحد بسراج مضء لا یسارع الی إطفائہ الا اہل العیوب مخافۃ ان یظہر عیوبہم للاصحاء ویلحق بہم مذمۃ:
شمع رخشندہ در ان جمع نخواہند کہ تا … عیب شان در شب تاریک بماند مستور
وای آن وقت روشن شود این راز چوروز … پردہ برخیزد واین حال بیاید بظہور
ترجمہ :قرآن کریم ایک نور الہی ہے ، اس کے ذریعے اللہ تعالی نے اندھیروں کو دورفرمایا۔ یہودی اسے بجھاناچاہتے تھے لیکن اللہ تعالی اپنے نور کو مکمل کرنے والاہے ، اس میں یہودیوں کو سوائے رسوائی اورذلت کے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔اس کی مثال ایسے ہے جیسے لوگ اندھیری رات میں حمام میں داخل ہوئے اوراس میں اچھے لوگ بھی ہوں اوربرے لوگ بھی ، اس کے بعد کوئی شخص روشن چراغ لے آئے تو اس کو بجھانے کے لئے سوائے فاسق وفاجر لوگوں کے کوئی بھی جلدی نہیں کرے گا، اس خطرے پر کہ ان کے عیب ظاہرنہ ہوں اورنہ اسے خرابی کانشانہ بنناپڑے ۔
شمع رخشندہ در ان جمع نخواہند کہ تا … عیب شان در شب تاریک بماند مستور
وای آن وقت روشن شود این راز چوروز … پردہ برخیزد واین حال بیاید بظہور
روشن شمع میں نہیں آئیں گے اس لئے کہ ان کے عیب اندھیری رات میں پوشیدہ رہتے ہیں ، افسوس اس وقت ہوگاجب یہ پوشیدہ رازوں کی روشنی کی طرح روشن ہوگا، پردہ اٹھے گاتویہ ظاہرہوجائے گا۔
(روح البیان:إسماعیل حقی بن مصطفی الإستانبولی الحنفی الخلوتی المولی أبو الفداء (ا:۱۸۹)
مفتی احمدیارخان نعیمی کے قلم سے مذکورہ مسئلہ کی وضاحت
قرآن کریم اورکفارکی مثال ایسی ہے جیساکہ اندھیری کوٹھڑی میں خوبصورت اوربدشکل لوگ موجود تھے ، بدصورت اپنے حسن کی تعریف کررہاتھا، وہ سمجھتاتھاکہ اس اندھیرے میں مجھے کون دیکھ رہاہے ، جو چاہوں اپنی زبان سے منوالوں ۔ اچانک وہاں شمع آگئی ، یہ تیز زبان اوربدصورت شخص جلدی سے اٹھ کر اس کو پھونکے مارنے اور اس چراغ میں عیب نکالنے لگا، اس کی وجہ یہ نہیں کہ شمع بری ہے بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس عیبی کو اپنے عیب کھلنے کااندیشہ ہے ۔ اسی طرح سعید وشقی روحیں دنیامیں جمع تھیں ، مگرشقی(بدبخت ) اپنی تیز زبانی سے اپنی سعادت کے خطبے پڑھ رہے تھے کہ اچانک اللہ تعالی کے نور یعنی رسول اللہ ﷺایک روشن شمع قرآن کریم لیکر دنیامیں تشریف لائے ، جس روشنی میں ہر ہر چیز صاف نظرآنے لگی ۔ کفارنے اپناکفروفسق چھپانے کے لئے اس میں صدہاقسم کے عیب نکالنے شروع کردیئے اورچاہاکہ اس شمع کو بجھادیں مگررحمانی شمع انسانی پھونک سے کبھی بھی نہیں بجھ سکتی ۔ آج تک قرآن کریم کے ہزاروں دشمن ہیں مگرقرآن کریم دن بدن ترقی کررہاہے ۔
(تفسیرنعیمی از مفتی احمدیارخان نعیمی (۱: ۵۸۰)
حق کے راستے میں ایک اوربہت بڑی رکاوٹ
ولہذا قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (حبک الشیء یعمی ویصم)أراد النبی علیہ الصلاۃ والسلام ان من الحب ما یعمی عن طریق الحق والرشد ویصمک عن استماع الحق وان الرجل إذ اغلب الحب علی قلبہ ولم یکن لہ رادع من عقل او دین أصمہ حبہ عن العذل وأعماہ عن الرشد او یعمی العین عن النظر الی مساویہ ویصم الاذن عن استماع العذل فیہ او یعمی ویصم عن الآخرۃ وفائدتہ النہی عن حب ما لا ینبغی الإغراق فی حبہ۔
ترجمہ :اوراسی وجہ سے رسول اللہ ﷺنے فرمایا: جب تجھے کسی سے محبت ہوجاتی ہے تو نہ اس کے عیب کو دیکھ سکتاہے اورنہ ہی اس کے عیب سن سکتاہے۔اس حدیث شریف کامطلب ہے کہ دنیاکی محبت میں نہ حق کاراستہ دکھائی دیتاہے اورنہ ہی حق کی بات سنی جاسکتی ہے ۔ اوراسی طرح جب کسی کی محبت غالب ہوجاتی ہے اورعقلی دلائل بھی اس کو منع کرنے والے نہ ہوں تو وہ حق کے سننے سے بہراہوجاتاہے اورحق کو دیکھنے سے اندھاہوجاتاہے ۔ اوراسی طرح آخرت کی باتوں سے بہرہ اورآخرت کے امورسے اندھاہوجاتاہے ۔ کسی شئی کی محبت سے روکنے کایہی معنی ہے کہ اس کی محبت میں مستغرق نہ ہوجائو۔
(روح البیان:إسماعیل حقی بن مصطفی الإستانبولی الحنفی الخلوتی المولی أبو الفداء (۱:۱۹۱)
اس سے معلوم ہواکہ دنیاکی محبت بھی ایک بہت بڑاذریعہ ہے جو انسان کو قرآن کریم اوردین متین کی فہم سے مانع ہے ۔
عہدتوڑنے سے کیامراد ہے ؟
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قَالَ مَالِکُ بْنُ الضَّیْفِ حِینَ بُعِثَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَذَکَّرَہُمْ مَا أُخِذَ عَلَیْہِمْ مِنَ الْمِیثَاقِ وَمَا عَہِدَوا إِلَیْہِمْ فِی مُحَمَّدٍ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:وَاللَّہِ مَا عَہِدَ إِلَیْنَا فِی مُحَمَّدٍ وَلا أَخَذَ عَلَیْنَا مِیثَاقًا فَأَنْزَلَ اللہ عَزَّ وَجَلَّ: أَوَکُلَّمَا عَاہَدُوا عَہْدًا نَبَذَہُ فَرِیقٌ منہم.
ترجمہ :حضرت سیدناعبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہمافرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے مالک بن ضیف یہودی سے فرمایاکہ دین محمدی (ﷺ) کے بارے میں تم سے عہد لیاگیاہے کہ جب وہ ظاہرہو تواس کی اتباع کی جائے ۔ تومالک بن ضیف یہودی نے کہا: اللہ تعالی کی قسم ہم سے ہر گز اس طرح کاکوئی بھی عہد نہیں لیاگیا، اللہ تعالی نے اس کوجھوٹاکرنے کے لئے یہ آیت مبارکہ نازل فرمائی۔اللہ تعالی نے فرمایا:محبوب کریم ﷺکی اتباع کو ترک کرنااورمیرے حبیب کریم ﷺپرایمان نہ لانایہی عہدکو پھینکناہے ۔
(عیون الأثر فی فنون المغازی والشمائل والسیر:محمد بن محمد الیعمری الربعی، أبو الفتح، فتح الدین (۱:۲۴۴)
اس آیت مبارکہ سے رسول اللہ ﷺکو تسلی دی گئی
أَوَکُلَّما عاہَدُوا عَلَی عَہْدٍ بَعْدَ عَہْدٍ نَقَضُوہُ وَنَبَذُوہُ، بَلْ یَدُلُّ عَلَی أَنَّ ذَلِکَ کَالْعَادَۃِ فِیہِمْ فَکَأَنَّہُ تَعَالَی أَرَادَ تَسْلِیَۃَ الرَّسُولِ عِنْدَ کُفْرِہِمْ بِمَا أَنْزَلَ عَلَیْہِ مِنَ الْآیَاتِ بِأَنَّ ذَلِکَ لَیْسَ بِبِدْعٍ مِنْہُمْ، بَلْ ہُوَ سَجِیَّتُہُمْ وَعَادَتُہُمْ وَعَادَۃُ سَلَفِہِمْ عَلَی مَا بَیَّنَہُ فِی الْآیَاتِ الْمُتَقَدِّمَۃِ مِنْ نَقْضِہِمُ الْعُہُودَ وَالْمَوَاثِیقَ حَالًا بَعْدَ حَالٍ لِأَنَّ مَنْ یُعْتَادُ؍ مِنْہُ ہَذِہِ الطَّرِیقَۃُ لَا یَصْعُبُ عَلَی النَّفْسِ مُخَالَفَتُہُ کَصُعُوبَۃِ مَنْ لَمْ تَجْرِ عَادَتُہُ بِذَلِکَ.
ترجمہ :ا س آیت مبارکہ سے واضح ہواکہ یہودیوں نے مسلسل عہد توڑے اورانہیں پس پشت ڈال دیا، بلکہ یہ الفاظ بتارہے ہیں کہ گویایہ ان کی عادت بن گئی تھی توگویاان آیات سے کفرپر رسول اللہ ﷺکو تسلی دی ، یہ کوئی انہوںنے نیاکام نہیں کیابلکہ یہ توان کی طبیعت تھی اوران کے اسلاف کی عادت ہے جیساکہ پہلی آیت میں بیان ہواکہ انہوں نے عہد درعہد توڑ ڈالے ۔ اس لئے کہ جن کاطریقہ ہی یہی ہوتوان کی مخالفت نفس پر شاق نہیں گزرتی ، جس قدراس کی مخالفت نفس پرشاق گزرتی ہے جس کی عادت نہ ہو۔
(التفسیر الکبیر: أبو عبد اللہ محمد بن عمر بن الحسن بن الحسین التیمی الرازی (۳:۶۱۵)
قرآن کریم کو ترک کرکے انگریزی فنون میں گھسنے والوں کارد
سائنسدان بڑایاگدھا؟
حکی ان نصیر الدین الطوسی دخل علی ولی من اولیاء اللہ تعالی لاجل الزیارۃ فقیل لہ ہذا عالم الدنیا نصیر الدین الطوسی قال الولی ما کمالہ قیل لیس لہ عدیل فی علم النجوم قال الولی الحمار الأبیض اعلم منہ فانحرف الطوسی وقام من مجلسہ فاتفق انہ نزل تلک اللیلۃ علی باب بیت طاحونۃ فقال الطحان ادخل البیت فانہ سیکون اللیلۃ مطر عظیم حتی لو لم یغلق الباب لاخذہ السیل فسأل الطحان عن وجہہ فقال لی حمار ابیض إذا حرک ذنبہ الی جانب السماء ثلاثا لم تمطر السماء وإذا حرکہ الی جانب الأرض یقع المطر فلما سمعہ اعترف بعجزہ وصدق الولی وزال غیظہ۔
ترجمہ :نصیرالدین الطوسی کسی اللہ تعالی کے ولی کی خدمت میں زیارت کی غرض سے حاضرہوا۔ ان کی خدمت میں عرض کیاگیاکہ یہ بہت بڑے عالم ہیں ، جن کانام نصیرالدین الطوسی ہے ۔ اس ولی اللہ نے سوال کیاکہ ان کاکیاکمال ہے ؟ لوگوں نے کہاکہ علم النجوم میں اپنی نظیرآپ ہیں۔ اس ولی اللہ نے فرمایا:پھرسفید گدھااس سے زیادہ عالم ہے۔ الطوسی یہ سنتے ہی واپس لوٹ آیا۔ ان کی مجلس میں بیٹھنابھی گوارانہ کیا۔ دوسری رات آٹے کی چکی کے دروازے پر رات گزارنے کااتفاق ہواتوآٹاپیسنے والے نے کہا: مولانا! گھرکے اندرتشریف لائیں ، اگرآپ نے دروازہ بند نہ کیاتو آپ کو بارش گھیرلے گی ، مولانانے اس سے پوچھاکہ بھائی تجھے کیسے معلوم ہواہے ؟ تو اس نے کہا: میراایک سفید گدھاہے ، جب وہ اپنی دم آسمان کی طرف کرکے تین مرتبہ ہلاتاہے تو بارش نہیں ہوتی اورجب زمین کی طرف کرکے ہلاتاہے تو بارش ہوجاتی ہے ۔ جب الطوسی نے سناتو اپنے عجز کااعتراف کرتے ہوئے ولی اللہ کی تصدیق کی اوران کے متعلق رنج وغصہ زائل ہوگیا۔
(روح البیان: إسماعیل حقی بن مصطفی الإستانبولی الحنفی الخلوتی , المولی أبو الفداء (۱:۱۹۰)
ہمارے اکابرنے سائنسی علوم میں دلچسپی کیوں نہ لی؟
وحکی ان ولیا قال لابن سینا أفنیت عمرک فی العلوم العقلیۃ فالی أی مرتبۃ وصلت قال وجدت ساعۃ من ساعات الأیام بکون الحدید فیہا کالخمیر فقال الولی أخبرنی عن تلک الساعۃ فلما جاء ت الساعۃ أخبرہ وأخذ بیدہ حدیدا فنفذ فیہ إصبعہ فبعد مضی الساعۃ قال الولی ہل تقدر علی تنفیذ إصبعک ایضا قال لا فانہ من خصائص تلک الساعۃ ولا یمکن فاخذہ الولی ونفذ إصبعہ فیہ وقال ینبغی للعاقل ان لا یصرف عمرہ الی الزائل الفانی فکما ان ابن سینا ادعی استقلال العقل فی طریق الوصول فالقی فی جہنم کذلک الیہود خذلہم اللہ انفوا من اتباع محمد صلی اللہ علیہ وسلم والعمل بما جاء بہ من عند اللہ وادعوا الاستقلال فخابوا وخسروا وبقوا فی ظلمۃ الجہل والکفر۔
ترجمہ:ایک ولی اللہ نے ابن سیناسے فرمایا: تونے اپنی عمر علوم عقلیہ میں ضائع کردی ۔ تم یہ بتائو کہ اب کس مرتبہ کو پہنچ گئے ہو؟ توا س نے کہا: ہاں مجھے ایک گھڑی معلوم ہوئی ہے ، جس میں لوہامٹی ہوجاتاہے ۔ اس اللہ تعالی کے ولی نے فرمایاکہ اس گھڑی کے متعلق مجھے بھی بتائیں ۔ جب وہ وقت آیاتو خبردیتے ہوئے لوہے میں انگلی دبادی ، انگلی اس کے اندردھنس گئی ، وہ گھڑی گزرنے کے بعد ولی اللہ نے فرمایا۔ اب بھی انگلی لوہے کے اندردبائی جاسکتی ہے؟اس نے کہا: نہیں ۔ کیونکہ وہ اس گھڑی کی خصوصیات سے ہے ۔ اب توکوئی امکان نہیں ہے ۔ ولی اللہ نے لوہاپکڑااوراپنی انگلی اس میں دبادی ۔
عقل مندکے لئے ضروری ہے کہ اپنی عمرمٹنے والی اشیاء میں ضائع نہ کریں ،جیساکہ ابن سینانے طریق ِ وصول میںاستقلال العقل کادعوی کیاتووہ دوزخ کامستحق بنا، اسی طرح یہودیوں( اللہ تعالی ان کو ذلیل کرے )نے رسول اللہ ﷺکی اتباع سے روگردانی کی اور استقلال کادعوی کیاجس کی وجہ سے نقصان وخسارہ میں پڑے اورجہل وکفرکی ظلمت میں رہے ۔
(روح البیان: إسماعیل حقی بن مصطفی الإستانبولی الحنفی الخلوتی المولی أبو الفداء (۱:۱۹۰)
معارف ومسائل
(۱) اس سے معلوم ہواکہ اس آیت مبارکہ میں رسول اللہ ﷺکو تسلی دی گئی ہے کیونکہ یہودی رسول اللہ ﷺکی تکذیب کرتے تھے توکریم آقاﷺپریشان ہوجاتے تھے اس لئے اللہ تعالی نے یہ آیات مبارکہ نازل فرمائیں ۔
(۲) اس سے یہ معلوم ہواکہ یہودیوں نے توراۃ شریف پر عمل کی بجائے جادوٹونے کی طرف منہ کرلیا۔ یہی حال آج ہمارے نام نہادمسلمانو ں کاہے ۔
(۳) اس سے یہ بھی معلوم ہواکہ جو لوگ گناہوں میں مبتلاء ہوں ان کو مسائل دینیہ کی فہم حاصل نہیں ہوتی اورآپ بھی تجربہ کرکے دیکھ لیں جتنے لوگ بدکاراورفاسق وفاجرہوں گے وہ قرآن کریم اوراحادیث شریف کامذاق اڑارہے ہوں گے ۔
(۴) اس سے یہ بھی معلوم ہواکہ یہودی بھی توراۃ شریف کو غلاف چڑھاکراوروہ بھی سونے اورچاندی اورریشمی غلاف میں لپیٹ کر رکھاکرتے تھے ۔ اورساتھ ساتھ انہوںنے اس پر عمل کرناترک کردیاتھا۔ آج یہی حال ہمارے مسلمانوں کاہے کہ قرآن کریم کی طباعت کے لئے اعلی قسم کی مشینری لگادی گئی ہے اوربہت اچھی قسم کی طباعت ہوتی ہے مگرساری دنیامیں قرآن کریم نافذ العمل نہیں ہے ۔
(۵) ان آیات مبارکہ سے یہ مسئلہ واضح ہوگیاجو شخص اللہ تعالی کے مقرب فرشتوں اورعظیم المرتبت رسولوں سے دشمنی رکھتاہے وہ گویااللہ تعالی کے ساتھ دشمنی رکھتاہے اورایساشخص یقینالعنتی اورکافرہے ۔
(۶)اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی کتاب پر عمل نہ کرنا اسے پیٹھ پیچھے پھینکنے کے مترادف ہے اگرچہ اسے روز پڑھے اور اچھے کپڑوں میں لپیٹ کر رکھے جیسے یہودی توریت کی بہت تعظیم کرتے تھے مگر حضور پر نورﷺپر ایمان نہ لائے تو اس پر عمل نہ کیا گیا گویا اسے پسِ پشت ڈال دیا۔ آج کے مسلمانوں کا حال بھی اس سے بہت مشابہ ہے کہ قرآن پاک کے عمدہ سے عمدہ اورنفیس نسخے گھروں اورمسجدوں میں الماریوں کی زینت تو ہیں ، ریشمی غلاف بھی ان پر موجود ہیں لیکن پڑھنے، سمجھنے اور عمل کرنے کی حالت یہ ہے کہ ان الماریوں اور ریشمی غلافوں پر گرد کی تہہ جم چکی ہے اور حقیقتا ًوہ گرد ان غلافوں پر نہیں بلکہ مسلمانوں کے دلوں پر جمی ہوئی ہے۔آج کہاں ہیں وہ مسلمان جنہیں قرآن کے حلال وحرام کا علم ہو؟جنہیں اسلامی اخلاق کا پتہ ہو؟ جن کے دل اللہ تعالیٰ کی آیات سن کر ڈر جاتے ہوں اور ان کے اعضا اللہ تعالیٰ کے خوف سے کانپ اٹھتے ہوں ؟ جن کے دل و دماغ پر قرآن کے انوار چھائے ہوئے ہوں۔ افسوس!
وہ معزز تھے زمانے میں مسلماں ہوکر ہم خوار ہوئے تارکِ قرآں ہو کر
اس آیت سے اشارۃً معلوم ہوا کہ قرآن شریف کی طرف پیٹھ نہیں کرنی چاہیے کہ یہ بے رخی اور بے تَوَجُّہی کی علامت ہے اور یہ بھی معلوم ہوا کہ بے عمل آدمی جاہل کی طرح ہوتا ہے بلکہ اس سے بھی بدتر ہے۔(صراط الجنان (۱:۱۷۵)
(۷) اس ساری بحث سے یہ مسئلہ معلوم ہواکہ عہدشکنی اورجان بوجھ کر شریعت سے منہ پھیرلینایہودی خصلتیں ہیں اگرمسلمان بھی ایساہی کرنے لگیں تو اس کے اوریہودی کے کردار میں کیافرق رہ جائے گا؟۔
(۸) یہودی توراۃ کے منکر نہ تھے بلکہ اس کو مانتے تھے پھررب تعالی نے فرمایاکہ انہوںنے توراۃ کو پیٹھ پیچھے پھینک دیاہے کیونکہ رسول اللہ ﷺکاانکارکرکے توراۃ کومانناماننانہیں ہے اوراس پر عمل عمل نہیں ہے ۔