اللہ تعالی گستاخوں کادشمن ہے
{قُلْ مَنْ کَانَ عَدُوًّا لِّجِبْرِیْلَ فَاِنَّہ نَزَّلَہ عَلٰی قَلْبِکَ بِاِذْنِ اللہِ مُصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیْہِ وَہُدًی وَّبُشْرٰی لِلْمُؤْمِنِیْنَ}(۹۷){مَنْ کَانَ عَدُوًّا لِّلہِ وَمَلٰٓئِکَتِہٖ وَرُسُلِہٖ وَجِبْرِیْلَ وَمِیْکٰیلَ فَاِنَّ اللہَ عَدُوٌّ لِّلْکٰفِرِیْنَ}(۹۸)
ترجمہ کنزالایمان :تم فرمادو جو کوئی جبریل کا دشمن ہو تو اس نے تو تمہارے دل پر اللہ کے حکم سے یہ قرآن اتارا اگلی کتابوں کی تصدیق فرماتا اور ہدایت و بشارت مسلمانوں کو ۔جو کوئی دشمن ہو اللہ اور اس کے فرشتوں اور اس کے رسولوں اور جبریل اور میکائیل کا تو اللہ دشمن ہے کافروں کا ۔
ترجمہ ضیاء الایمان: اے حبیب ﷺآپ فرمادیں جوکوئی جبریل امین (علیہ السلام) کادشمن ہوتواس نے توتمھارے اللہ تعالی کے کے حکم پر آپ کے دل پر قرآن کریم اتاراہے ، جو پہلی کتابوں کی تصدیق کرنے والاہے اورہدایت اورخوشخبری ہے مسلمانوں کے لئے ۔ جو کوئی دشمن ہواللہ تعالی کااوراس کے فرشتوں کا اوراس کے رسولوں کااورجبریل امین اورمیکائیل کاتواللہ تعالی دشمن ہے کافروں کا۔
شان نزول
سَبَبُ نُزُولِہَا أَنَّ الْیَہُودَ قَالُوا لِلنَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم:إِنَّہُ لَیْسَ نَبِیٌّ مِنَ الْأَنْبِیَاء ِ إِلَّا یَأْتِیہِ مَلَکٌ مِنَ الْمَلَائِکَۃِ مِنْ عِنْدِ رَبِّہِ بِالرِّسَالَۃِ وَبِالْوَحْیِ، فَمَنْ صَاحِبُکَ حَتَّی نُتَابِعَکَ؟ قَالَ:(جِبْرِیلُ) قَالُوا: ذَاکَ الَّذِی یَنْزِلُ بِالْحَرْبِ وَبِالْقِتَالِ، ذَاکَ عَدُوُّنَا! لَوْ قُلْتَ:مِیکَائِیلُ الَّذِی یَنْزِلُ بِالْقَطْرِ وَبِالرَّحْمَۃِ تَابَعْنَاکَ۔
ترجمہ:اس آیت کاشان نزول یہ ہے کہ یہودیوں نے رسول اللہ ﷺسے کہا:اللہ تعالی کے ہر ہر نبی کے پاس اللہ تعالی کی طرف سے ایک فرشتہ آتاہے جو وحی اوررسالت لے کرآتاہے ، آپ کے پاس کون آتاہے ؟ تاکہ ہم بھی آپ ﷺکی اتباع کریں ۔ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: جوفرشتہ وحی لے کر آتاہے اسکانام جبریل امین علیہ السلام ہے ۔ تویہودی کہنے لگے کہ وہ جنگ وجدل کرتاہے وہ ہمارادشمن ہے ۔ اگرآپ ﷺکے پاس میکائیل علیہ السلام وحی لے کر آتے جو بارش اوررحمت لاتے ہیں توہم آپ ﷺکی ضروراتباع کرتے ، اللہ تعالی نے یہ آیت کریمہ نازل فرمائی ۔
(تفسیر القرطبی:أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن أبی بکرالخزرجی شمس الدین القرطبی (۲:۳۶)
حضرت سیدناجبریل امین کے دشمن کااللہ تعالی دشمن ہے
وَہَذَا وَعِیدٌ وَذَمٌّ لِمُعَادِی جِبْرِیلَ عَلَیْہِ السَّلَامُ، وَإِعْلَانُ أَنَّ عَدَاوَۃَ الْبَعْضِ تَقْتَضِی عَدَاوَۃَ اللَّہِ لَہُم وَعَدَاوَۃَ الْعَبْدِ لِلَّہِ ہی معصیتہ واجتناب طاعتہ، ومعادات أَوْلِیَائِہِ.وَعَدَاوَۃَ اللَّہِ لِلْعَبْدِ تَعْذِیبُہُ وَإِظْہَارُ أَثَرِ الْعَدَاوَۃِ عَلَیْہِ۔
ترجمہ :یہ حضرت سیدناجبریل امین علیہ السلام کے دشمنوں کے لئے وعید شدیدہے اوران کی بہت ہی سخت مذمت ہے اوریہ اعلان ہے کہ بعض فرشتوں کے ساتھ دشمنی اللہ تعالی کے ساتھ دشمنی کاتقاضاکرتی ہے اوربندے کااللہ تعالی سے دشمنی رکھنامعصیت ہے ، اس کی اطاعت سے اجتناب ہے اوراس کے اولیاء سے دشمنی ہے اوراللہ تعالی کے بندوں کے ساتھ دشمنی رکھنے کامطلب اس کاعذاب میں مبتلاء کرناہے اوراس پر عداوت کے اثرکااظہارکرناہے ۔
(تفسیر القرطبی:أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن أبی بکرالخزرجی شمس الدین القرطبی (۲:۳۶)
ابن صوریایہودی کارسول اللہ ﷺکے ساتھ کج بحثی کرنا
أَن ابن صوریا من أحبار الیہود حاج النبی صلی اللہ علیہ وسلم وسألہ عمن یہبط علیہ بالوحی فقال جبریل فقال ذاک عدوناولو کان غیرہ لآمنا وقد عادانا مراراً وأشدہا أنہ أنزل علی نبینا أن بیت المقدس سیخربہ بختنصر فبعثنا من یقتلہ فلقیہ ببابل غلاماً مسکیناً فدفع عنہ جبریل وقال إن کان ربکم أمرہ بہلاککم فإنہ لا یسلطکم علیہ وإن لم یکن إیاہ فعلی أی ذنب تقتلونہ ۔
ترجمہ :ابن صوریایہودی عالم تھااس نے رسول اللہ ﷺکے ساتھ حجت بازی کی ، اورآپ ﷺسے سوال کیاکہ آپ ﷺپر کون وحی لاتاہے ؟ رسول اللہ ْﷺنے فرمایا: جبریل امین علیہ السلام ۔ ابن صوریانے کہا: وہ توہمارادشمن ہے ، اگراورکوئی فرشتہ ہوتاتوہم ضرورآپ ﷺ پرایمان لے آتے ، اس نے بارہاہم سے دشمنی کی ہے ۔ ان میں سب سے شدیدتریہی تھی کہ ہمارے نبی پر یہ حکم اتارا، عنقریب بیت المقدس کو بخت نصر تباہ کردے گا، پس ہم نے اس کو قتل کرنے کے لئے ایک آدمی بھیجا، اس نے بخت نصر کو بابل میں ایک مسکین لڑکے کی صورت میں پایا۔ پھرجبریل علیہ السلام نے اس کادفاع کیااورہمارے قاتل سے اس کو بچالیا، اورکہاکہ اگرتمھارے رب تعالی نے اس کو تمھارے ہلاک کرنے کاحکم دیاہے توتمھیں اس پر غلبہ نہیں دے گااوراگراس کے ہلاک کاحکم نہیں دیاتو پھرکس گناہ کی وجہ سے تم اسے قتل کررہے ہو؟
(تفسیر النسفی :أبو البرکات عبد اللہ بن أحمد بن محمود حافظ الدین النسفی (۱:۱۱۴)
یہ بھی ذہن میں رہے کہ ابن صوریاایک آنکھ سے کاناتھااورابولہب کی بیوی بھی ایک آنکھ سے کانی تھی ۔اورمرزاقادیانی دجال اورشیطان بھی کاناہی تھا۔یادرہے کانے لوگ بہت ہی خطرناک ہوتے ہیں ۔
یہودیوں کاحضرت سیدناجبریل امین علیہ السلام کے ساتھ دشمنی کااظہارکرنا
وَأخرج ابْن جریر عَن قَتَادَۃ قَالَ: ذکر لنا عمر بن الْخطاب انْطلق ذَات یَوْم إِلَی الْیَہُود فَلَمَّا أبصروہ رحبوا بِہِ فَقَالَ عمر:وَاللہ مَا جِئْت لِحُبِّکُمْ وَلَا للرغبۃ فِیکُم وَلَکِنِّی جِئْت لأسْمع مِنْکُم وسألوہ فَقَالُوا:من صَاحب صَاحبکُم فَقَالَ لَہُم: جِبْرِیل قَالُوا: ذَاک عدوّنا من الْمَلَائِکَۃ یطلع مُحَمَّد علی سرنا وَإِذا جَاء َ جَاء َ بِالْحَرْبِ وَالسّنۃ وَلَکِن صاحبنا مِیکَائِیل وَإِذا جَاء َ جَاء َ بِالْخصْبِ وَالسّلم فَتوجہ نَحْو رَسُول اللہ صلی اللہ عَلَیْہِ وَسلم لیحدثہ حَدِیثہمْ فَوَجَدَہُ قد أنزل ہَذِہ الْآیَۃ (قل من کَانَ عدوا لجبریل) الْآیَۃ۔
ترجمہ:حضرت سیدناقتادہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک دن حضرت سیدناعمر رضی اللہ عنہ یہودیوں کے پاس تشریف لے گئے ، انہوںنے حضر ت سیدناعمر رضی اللہ عنہ کودیکھتے ہی خوش آمدیدکہا، حضرت سیدناعمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اللہ تعالی کی قسم ! میں تمھارے پاس تمھاری محبت کی وجہ سے نہیں آیا، اورنہ ہی مجھے تمھارے ساتھ کوئی دلچسپی ہے ، میں تم سے کچھ سننے آیاہوں ۔ یہودنے آپ سے پوچھاتمھارے نبی (ﷺ) کے پاس کونسافرشتہ آتاہے ؟ حضرت سیدناعمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: جبریل امین علیہ السلام ۔ انہوںنے کہا: وہ توہمارادشمن ہے ۔ وہ محمد(ﷺ) کو ہماری شکایتیں لگاتاہے اورہمارے خفیہ راز جاکر ان کو بتادیتاہے اوریہی تووہ فرشتہ ہے جو جنگ اورقحط سالی لاتاہے لیکن ہماراساتھی میکائیل (علیہ السلام) ہے وہ جب بھی آتاہے شادابی اورسلامتی لاتاہے ۔ حضرت سیدناعمر رضی اللہ عنہ رسول اللہ ﷺکی بارگاہ کی طرف متوجہ ہوئے تاکہ رسول اللہ ﷺکی بارگاہ عالیہ میں یہودیوں کی باتیں بیان کریں توحضرت سیدناعمر رضی اللہ عنہ کے آنے سے بھی پہلے یہ آیت مبارکہ نازل ہوگئی ۔
(جامع البیان فی تأویل القرآن:محمد بن جریر بن یزید بن کثیر، أبو جعفر الطبری (۲:۳۸۲)مؤسسۃ الرسالۃ
حضرت سیدناعمر رضی اللہ عنہ کا یہودیوں کولاجواب کرنا
وَأخرج ابْن جریر عَن السّدیّ قَالَ لما کَانَ لعمر أَرض بِأَعْلَی الْمَدِینَۃ یَأْتِیہَا وَکَانَ مَمَرہ علی مدارس الْیَہُود وَکَانَ کلما مر دخل عَلَیْہِم فَسمع مِنْہُم وَإنَّہُ دخل عَلَیْہِم ذَات یَوْم فَقَالَ لَہُم: أنْشدکُمْ بالرحمن الَّذِی أنزل التَّوْرَاۃ علی مُوسَی بطور سیناء أتجدون مُحَمَّدًا عنْدکُمْ قَالُوا:نعم إِنَّا نجدہ مَکْتُوبًا عندنَا وَلَکِن صَاحبہ من الْمَلَائِکَۃ الَّذِی یَأْتِیہِ بِالْوَحْی جِبْرِیل وَجِبْرِیل عدونا وَہُوَ صَاحب کل عَذَاب وقتال وَخسف وَلَو کَانَ ولیہ مِیکَائِیل لآمَنَّا بِہِ فَإِن مِیکَائِیل صَاحب کل رَحْمَۃ وکل غیث قَالَ عمر: فَأَیْنَ مَکَان جِبْرِیل من اللہ قَالُوا: جِبْرِیل عَن یَمِینہ وَمِیکَائِیل عَن یسَارہ قَالَ عمر:فأشہدکم أَن الَّذِی عدوّ للَّذی عَن یَمِینہ عدوّ للَّذی ہُوَ عَن یسَارہ وَالَّذِی عَدو للَّذی عَن یسَارہ عدوّ للَّذی ہُوَ عَن یَمِینہ وَأَنہ من کَانَ عدوّہما فَإِنَّہُ عدوّ للہ ثمَّ رَجَعَ عمر لیخبر النَّبِی صلی اللہ عَلَیْہِ وَسلم فَقَالَ فَوجدَ جِبْرِیل قد سبقہ بِالْوَحْی فَدَعَاہُ النَّبِی صلی اللہ عَلَیْہِ وَسلم فَقَرَأَ (قل من کَانَ عدوا لجبریل)الْآیَۃفَقَالَ عمر:وَالَّذِی بَعثک بِالْحَقِّ لقد جِئْت وَمَا أُرِید إِلَّا أَن أخْبرک۔
ترجمہ :حضرت سیدناامام السدی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مدینہ منورہ کے بالائی علاقہ میں حضرت سیدناعمر رضی اللہ عنہ کی زمین تھی ، آپ رضی اللہ عنہ وہاں جایاکرتے تھے ، اورآپ رضی اللہ عنہ کاراستہ یہودیوں کے مدرسہ کے پاس سے تھا، جب آپ رضی اللہ عنہ گزرتے توان یہودیوں کے پا س جاتے اور ان کی باتیں سنتے تھے ، ایک دن آپ رضی اللہ عنہ ان کے پاس گئے توآپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں تمھیں اس ذات کی قسم دے کرپوچھتاہوں جس نے توراۃ کو حضرت سیدناموسی علیہ السلام پر نازل فرمایا۔کیاتم اپنی کتاب میں حضرت سیدنامحمدﷺکاذکرخیرپاتے ہو؟ یہودیوں نے کہا:ہاں۔ ا ن کاتذکرہ ہماری کتاب میں موجود ہے ۔ لیکن ان کاساتھی جو ان پر وحی لاتاہے وہ جبریل امین ہے اوروہ ہمارادشمن ہے ۔ وہ عذاب ، جنگ اورزمین میں دھنسنے جیسے افعال لیکر آتاہے ۔ اگرآپ کے نبی (ﷺ) پر میکائیل علیہ السلام وحی لے کرآتاتو ہم بھی آپ کے نبی ﷺپر ایمان لے آتے ۔ کیونکہ میکائیل علیہ السلام رحمت اوربارش لاتے ہیں ۔
حضرت سیدناعمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: جبریل امین علیہ السلام کااللہ تعالی کی بارگا ہ میں کیامقام ہے ؟ یہودیوں نے کہا: جبریل اللہ تعالی کے دائیں جانب ہے اورمیکائیل بائیں جانب ہے ۔ حضرت سیدناعمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں تمھیں گواہ بناکرکہتاہوں کہ جواس کادشمن ہے جو اللہ تعالی کی دائیں جانب ہے تووہ اس کابھی دشمن ہے ۔ جو اللہ تعالی کی بائیں جانب ہے ، اورجو اللہ تعالی کی بائیں جانب والے کادشمن ہے وہ دائیںجانب والے کابھی دشمن ہے ۔ اورجوان دونوں کادشمن ہے وہ اللہ تعالی کابھی دشمن ہے ۔ پھرحضرت سیدناعمر رضی اللہ عنہ وہاں سے لوٹے تاکہ رسول اللہ ﷺکی بارگاہ میں ان باتوں کی خبردیں توحضرت سیدناعمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جبریل امین علیہ السلام مجھ سے بھی پہلے وحی لے کر پہنچ چکے تھے ۔ رسول اللہ ﷺنے حضرت سیدناعمر رضی اللہ عنہ کو بلایااوریہ آیت کریمہ پڑھ کرسنائی ۔ حضرت سیدناعمر رضی اللہ عنہ نے عرض کی : قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ ﷺکو حق کے ساتھ مبعوث فرمایاہے ، میں فقط اسی بات کے بتانے کے لئے آپ ﷺکی خدمت اقدس میں حاضرہواتھا۔
(الدر المنثور:عبد الرحمن بن أبی بکر، جلال الدین السیوطی (ا:۲۲۳)
دین میں تصلب ایساکہ پتھرسے زیادہ مضبوط
فَقَالَ عُمَرُ: وَاللَّہِ مَا آتِیکُمْ لِحُبِّکُمْ وَلَا أَسْأَلُکُمْ لِأَنِّی شَاکٌّ فِی دِینِی وَإِنَّمَا أَدْخُلُ عَلَیْکُمْ لِأَزْدَادَ بَصِیرَۃً فِی أَمْرِ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَأَرَی آثَارَہُ فِی کِتَابِکُمْ ثُمَّ رَجَعَ عُمَرُ إِلَی رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَوَجَدَ جِبْرِیلَ قَدْ سَبَقَہُ بِالْوَحْیِ فَقَرَأَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ہَذِہِ الْآیَۃَ فَقَال:لَقَدْ وَافَقَکَ رَبُّکَ یَا عُمَرُفَقَالَ عُمَرُ: لَقَدْ رَأَیْتُنِی بَعْدَ ذَلِکَ، فِی دِینِ اللَّہِ أَصْلَبَ مِنَ الْحَجَرِ۔ملخصاً۔
ترجمہ :حضرت سیدناعمر رضی اللہ عنہ نے یہودیوں کو فرمایا:میں اس لئے تمھارے پاس نہیں آتاکہ مجھے تمھارے ساتھ محبت ہے اورنہ ہی اس لئے آتاہوں کہ مجھے اپنے دین کے بارے میں کوئی شک ہے ۔ میں توتمھارے پاس اس لئے آتاہوں تاکہ مجھے رسول اللہ ﷺکے بارے میں بصیرت کے لحاظ سے اضافہ ہواوررسول اللہ ﷺکی علامت نبوت تمھاری کتاب میں دیکھوں۔
حضرت سیدناعمر رضی اللہ عنہ نے فرمایاکہ میں یہودیوں کے ساتھ ہونے والی گفتگوکو رسول اللہ ﷺکی بارگاہ میں بیان کرنے کے لئے آیاتو کیادیکھاکہ جبریل امین علیہ السلام وحی لے کرآچکے تھے تورسول اللہ ﷺنے وہ آیات مجھے پڑھ کرسنائیں پھررسول اللہ ﷺنے مجھے فرمایا: اے عمر ! رب تعالی نے تیرے ساتھ موافقت فرمائی ہے ۔ حضرت سیدناعمررضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اس کے بعد میں نے اپنے آپ کو دین میں پتھرسے بھی زیادہ سخت پایا۔
(تفسیر البغوی:محیی السنۃ، أبو محمد الحسین بن مسعود البغوی (۱:۱۲۴)
یہودی گدھے سے بھی بڑاپاگل ہے
فَقَالَ عُمَرُ: لَئِنْ کَانَ کَمَا تَقُولُونَ فَمَا ہُمَا بِعَدُوَّیْنِ وَلَأَنْتُمْ أَکْفَرُ مِنَ الْحَمِیرِ، وَمَنْ کَانَ عَدُوٌّ لِأَحَدِہِمَا کَانَ عَدُوًّا لِلْآخَرِ وَمَنْ کَانَ عَدُوًّا لَہُمَا کَانَ عَدُوًّا لِلَّہِ۔
ترجمہ :جب یہودیوں نے حضرت سیدناعمر رضی اللہ عنہ کو کہاکہ میکائیل علیہ السلام حضرت جبریل امین علیہ السلام کے دشمن ہیںتوحضرت سیدناعمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اگرتمھاراقول درست ہے تو وہ دونوں ایک دوسرے کے دشمن نہیں ہوسکتے تم گدھے سے بھی زیادہ پاگل ہوجو ایک کادشمن ہے وہ دوسرے کابھی دشمن ہے اورجوان دونوں کادشمن ہے وہ اللہ تعالی کابھی دشمن ہے ۔
(التفسیر الکبیر: أبو عبد اللہ محمد بن عمر بن الحسن بن الحسین التیمی الرازی (۳:۶۱۰)
معارف ومسائل
(۱)یہودی رسول اللہ ﷺکی ضد میں آکر حضرت سیدناجبرائیل امین علیہ السلام کو بھی اپنامخالف کہنے لگے تھے ، یہ بھی ممکن ہے کہ یہودکے علماء اوران کے رہنمائوں کو جب یہ اندیشہ ہواکہ قرآن کریم کی دعوت ان کی عوام کو کہیں متاثرنہ کردے توانہوںنے یہ شوشہ چھوڑاکہ محمد ﷺکے پاس ان کے مطابق جبریل (علیہ السلام) نامی فرشتہ آتاہے اوریہ فرشتہ ہمارادرینہ مخالف ہے ، ہمارے اوپرفلاں فلاں آفتیں اسی کے ہاتھوں آئیں ، اس وجہ سے ہم کسی ایسے شخص پر ایمان نہیں لاتے جس کی ہمارے دشمن کے ساتھ دوستی ہو۔
اگرچہ یہ بات بہت ہی عجیب سی معلوم ہوتی ہے کہ یہودی حماقت کی اس حد تک پہنچ جائیں کہ حضرت سیدناجبریل امین علیہ السلام کو بھی اپنادشمن جاننے لگیں لیکن انسان جب ضد اورحسد کے جنون میں مبتلاء ہوجاتاہے تواس سے کوئی بات بعید نہیں رہ جاتی جیساکہ آج بھی بعض بدمذہب لوگ یہ نظریہ رکھتے ہیں کہ حضرت سیدناجبریل امین علیہ السلام بھول کر وحی رسول اللہ ﷺکے پاس لے آئے وگرنہ انہیں حکم حضرت سیدنامولاعلی رضی اللہ عنہ کے پاس وحی لانے کاتھا۔
(۲)قرآن کریم نے یہودیوں کی اس حماقت پر جوگرفت فرمائی ہے وہ بہت زبردست ہے اورانتہائی سخت ہے ، مطلب یہ کہ اگرتم اس غصہ میں حضرت سیدناجبریل امین علیہ السلام کے مخالف بن بیٹھے ہوکہ انہوں نے یہ وحی رسول اللہ ﷺپر کیوں نازل کی تمھارے اوپر نازل کیوں نہ کی، تویہ توسوچوکہ تمھاری یہ بات کہاں تک پہنچتی ہے ، اس کے معنی یہ ہوئے کہ تم اللہ تعالی کو بھی اپنامخالف سمجھتے ہو کیونکہ حضرت سیدناجبریل امین علیہ السلام بھی تمھارے عقیدہ کے مطابق اللہ تعالی کے فرشتے ہیں اوروہ کوئی بھی کام اللہ تعالی کے حکم کے بغیرنہیں کرتے لازماً یہ کام بھی انہوںنے اللہ تعالی کے حکم پر ہی کیاہے ، پھرتمھاراحضرت سیدناجبریل امین علیہ السلام کادشمن بن جانانہیں ٹھہرے گابلکہ تم تو اللہ تعالی کے بھی دشمن ٹھہرے ۔
(۳)اگرکوئی اہل کتاب میں سے حضرت سیدناجبریل امین علیہ السلام کے ساتھ دشمنی کرتاہے تو اس کی دشمنی کی کوئی وجہ نہیں ۔ اس کے لئے حضرت سیدناجبریل امین علیہ السلام توایک ایسی کتاب لے کرنازل ہوئے ہیںجو اپنے سے پہلے والی کتابوں کی تصدیق کرنے والی ہے ۔اگران میں انصاف ہوتاتووہ حضرت سیدناجبریل امین علیہ السلام کے ساتھ محبت کرتے اوران کے شکرگزارہوتے اوران کے اس احسان پر کہ انہوںنے ان کے لئے فائدہ مندکتاب اتاری اوران کی کتاب منزل یعنی توراۃ شریف کی تصحیح کرنے والی ہے ۔
(۴) اس سے معلوم ہواکہ جو کوئی اللہ تعالی کے فرشتوں اور اس کے انبیاء کرام علیہم السلام کے ساتھ دشمنی رکھتاہے وہ گویاکہ اللہ تعالی کے ساتھ دشمنی رکھتاہے گویااللہ تعالی کے مقربین کے ساتھ عنادرکھنااوران کے ساتھ دشمنی رکھنے والاشخص لعنتی ہے ۔ کیونکہ انبیاء کرام علیہم السلام کے ساتھ دشمنی رکھنے والاشخص ہمیشہ نجاست میں مبتلاء رہتاہے گویاوہ ہمیشہ جنابت کی سی حالت ہے اوریہ چیز موجب لعنت ہے ۔ اسی لئے اللہ تعالی نے نبی کریم ﷺکی زبان مبارک سے کہلوایاکہ اللہ تعالی کافرمان عالی شان ہے جو میرے کسی ولی یادوست سے دشمنی رکھتاہے اس کے ساتھ میں خدااعلان جنگ کرتاہوں۔ظاہرہے کہ اللہ تعالی کے ساتھ کون جنگ کرسکتاہے اسی لئے فرمایاگیاکہ ایساشخص ملعون ہے۔
(۵) اس سے معلوم ہواکہ جس طرح یہودیوں کو حضرت سیدناجبریل امین علیہ السلام کے ساتھ دشمنی ہوگئی تھی اوروہ بھی رسول اللہ ﷺکی وجہ سے اسی طرح آجکل کے لبرل بھی دین کی وجہ سے علماء کے ساتھ دشمنی رکھتے ہیں ۔ یادرہے کہ یہ دشمنی رکھنے میںبھی یہودیوں کے پیروکارہیں۔