تفسیر سورہ بقرہ آیت ۹۳ ۔ از تفسیر ناموس رسالت

رسول اللہ ﷺکے گستاخوں کو ذلیل کرناکیسا؟

{وَ اِذْ اَخَذْنَا مِیْثٰقَکُمْ وَرَفَعْنَا فَوْقَکُمُ الطُّوْرَ خُذُوْا مَآ اٰتَیْنٰکُمْ بِقُوَّۃٍ وَّاسْمَعُوْا قَالُوْا سَمِعْنَا وَعَصَیْنَا وَاُشْرِبُوْا فِیْ قُلُوْبِہِمُ الْعِجْلَ بِکُفْرِہِمْ قُلْ بِئْسَمَا یَاْمُرُکُمْ بِہٖٓ اِیْمٰنُکُمْ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ}(۹۳)
ترجمہ کنزالایمان:اور یاد کرو جب ہم نے تم سے پیمان لیا اور کوہِ طور کو تمہارے سروں پر بلند کیا لو جو ہم تمہیں دیتے ہیں زور سے اور سنو بولے ہم نے سنا اور نہ مانااور ان کے دلوں میں بچھڑا رچ رہا تھا ان کے کفر کے سبب تم فرمادو کیا برا حکم دیتا ہے تم کو تمہارا ایمان اگر ایمان رکھتے ہو ۔
ترجمہ ضیاء الایمان:اوریادکروجب ہم نے تم سے عہد لیااورکوہ طورکو تمھارے سروں پر بلندکردیا(اورفرمایاکہ)اورمضبوطی کے ساتھ لوجو ہم تمھیں دیتے ہیں اورغورکے ساتھ سنو، توبولے : ہم نے سن لیااورہم مانیں گے نہیں ، اوران کے دلوں میں بچھڑے کی محبت رچی ہوئی تھی ان کے کفرکے سبب ۔ اے حبیب ﷺ!آپ ان کو فرمادیجئے کہ یہ باتیں بہت بری ہیں جن کاتمھاراایمان تم کو حکم دیتاہے ۔
اب یہاں یہ بات ظاہر فرماتا ہے کہ تمہارا دعویٰ{ــــــــ نومن بما انزل علینا} بھی صریح غلط ہے اول تو تم نے خود موسیٰ (علیہ السلام) کے معجزات بینات کا انکار کیا اور انبیاء کرام علیہم السلام کو قتل کیا۔ دوم جس کتاب کو تم اپنا ایمان سمجھتے ہو اس کو بھی تو تم نے نہ مانا حالانکہ جب وہ تم کو دی گئی تھی تو اس وقت کوہ طور کو تم پر بلند کیا تھا اور تم نے یہ جان لیا تھا کہ اگر اب اس کو نہیں لیتے ہیں تو ہم پر پہاڑ آپڑتا ہے۔ اس وقت بھی تمہارا یہ حال تھا کہ زبان سے تو تم نے ’’سمعنا ‘‘کہا یعنی مان لیا اور دل میں’’ عصینا ‘‘یعنی نہیں مانا۔ اس کا باعث یہ تھا کہ باوجود معجزات و کراماتِ بیشمار دیکھنے کے تم نے بچھڑا بنا کے پوجا کی ،وہ خباثت تمہارے دلوں میں اس طرح رچ گئی تھی کہ جس طرح زمین پانی کو پی لیتی ہے۔ پھر حسب استعداد نباتات اگاتی ہے۔ اسی طرح تمہارے دل کی زمین میں خدا کی نافرمانی اور انبیاء کرام علیہم السلام کا قتل کرنا اور دل میں عصیناکہنا اور خدا کی منزل کتابوں کا انکار کرنا اور نبی آخر الزمانﷺ اور قرآن کو حق جان کر معاندانہ انکار کرنا اور خدا تعالی کی عبادت و صلہ رحمی کو توڑنا وغیرہ وغیرہ خباثت اور ناپاک خاردار اور پر زہر جڑی بوٹیاں اگتی ہیں جن کا کڑوا پھل تم کو دنیا اور آخرت میں اٹھانا پڑے گا اور اگر تمہارے ایمان کا یہی فتویٰ ہے کہ تم ایسی باتیں کرو تو اے حبیب کریم ﷺ!ان سے کہہ دو کہ یہ بہت برا فتویٰ ہے۔

ایمان دل میں ہوتو بچھڑادل میں نہیں آسکتا

قُلْ بِئْسَما یَأْمُرُکُمْ بِہِ إِیمانُکُمْ: أَنْ تَعْبُدُوا الْعِجْلَ مِنْ دُونِ اللَّہِ، أَیْ:بِئْسَ إِیمَانٌ یأمر بِعِبَادَۃِ الْعِجْلِ، إِنْ کُنْتُمْ مُؤْمِنِینَ: بِزَعْمِکُمْ وَذَلِکَ أَنَّہُمْ قَالُوا:نُؤْمِنُ بِمَا أُنْزِلَ عَلَیْنَا، فَکَذَّبَہُمُ اللَّہُ عزّ وجلّ.
ترجمہ :امام محی السنہ ابومحمدالحسین بن مسعود البغوی الشافعی المتوفی :۵۱۰ھ)رحمہ اللہ تعالی{قُلْ بِئْسَما یَأْمُرُکُمْ بِہِ إِیمانُکُمْ}کاترجمہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ایساایمان توبراایمان ہے جو تم کو بچھڑے کی پوجاکاحکم دیتاہے کہ تم اللہ تعالی کی ذات عالی کو چھوڑ کر بچھڑے کی پوجاکرو{إِنْ کُنْتُمْ مُؤْمِنِینَ}اپنے دعوی کے مطابق اوریہ اس لئے کہ انہوں نے کہاتھاکہ {نُؤْمِنُ بِمَا أُنْزِلَ عَلَیْنَا، فَکَذَّبَہُمُ اللَّہُ عزّ وجلّ}جب ان کو کہاگیاکہ تم رسول اللہ ﷺپرناز ل شدہ کتاب پر ایمان لائوتوانہوں نے کہاکہ ہم تواس پر ایمان لے آئے ہیں جو اللہ تعالی نے ہم پر نازل کیاتواللہ تعالی نے ان کو فرمایاکہ تم تویہی ایمان لائے ہوکہ تم کوکہاگیاکہ توراۃ کو لے لو توتم نے کہاتھاکہ ہم نے سن لیاہے اوراس کی نافرمانی کی ہے ۔ تواللہ تعالی نے ان کے اس قول کی تکذیب فرمائی ۔
(تفسیر البغوی : محیی السنۃ ، أبو محمد الحسین بن مسعود بن محمد بن الفراء البغوی الشافعی (ا:۱۴۳)

سنناکونسانفع ہے ؟

(قَالُواْ سَمِعْنَا)قولک (وَعَصَیْنَا)أمرک وطابق قولہ جوابہم من حیث إنہ قال لہم اسمعوا ولیکن سماعکم سماع تقبل وطاعۃفقالوا سمعنا ولکن لا سماع طاعۃ۔
ترجمہ :امام ابوالبرکات عبداللہ بن احمدالنسفی المتوفی :۷۱۰ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ اللہ تعالی کایہ فرمان شریف ان کے جواب کے ساتھ اس طرح مطابقت رکھتاہے کہ اللہ تعالی نے ان کو فرمایاکہ ’’اسمعوا‘‘ تم سنواورتمھاراسنناقبولیت والااوراطاعت والاہوناچاہئے ، انہوںنے جواب دیاکہ ہم نے سنالیکن اطاعت والاسننانہیں ۔
(تفسیر النسفی (مدارک التنزیل وحقائق التأویل): أبو البرکات عبد اللہ بن أحمد بن محمود حافظ الدین النسفی(۱ـ۱۱۰)

رسول اللہ ﷺکے گستاخوں کو ذلیل کرنے کے لئے ان کامذاق اڑاناکیسا؟

(قُلْ بِئْسَمَا یَأْمُرُکُم بِہِ إیمانکم)بالتوراۃ لأنہ لیس فی التوراۃ عبادۃ العجل وإضافۃ الأمر إلی إیمانہم تہکم وکذا إضافۃ الإیمان الیہم (إِن کُنتُم مُّؤْمِنِینَ)تشکیک فی إیمانہم وقدح فی صحۃ دعواہم لہ۔
ترجمہ:امام ابوالبرکات عبداللہ بن احمدالنسفی المتوفی :۷۱۰ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ اللہ تعالی نے فرمایا:اے حبیب ﷺ! آپ فرمادیں کہ بہت بری بات سکھاتاہے تم کو تمھاراایمان)یعنی توراۃ کے متعلق یہ بہت براہے ، اس لئے کہ توراۃ میں بچھڑے کی پوجاکاحکم تونہیں ہے ۔ یہاں امرکی اضافت ان کے ایمان کی طرف بطور تہکم ہے ، اسی طرح ایمان کی اضافت ان کی طرف بطوراستہزاء ہے ۔
{إِن کُنتُم مُّؤْمِنِین}(اگرتم سچے مومن ہو)ان کے ایمان میں تشکیک کااظہاراوران کے دعوی کی صحت کاانکارومذمت ہے ۔
(تفسیر النسفی (مدارک التنزیل وحقائق التأویل): أبو البرکات عبد اللہ بن أحمد بن محمود حافظ الدین النسفی(۱ـ۱۱۰)

بچھڑے کی محبت رکھنے والے پاگل ہوگئے

وَقَالَ السُّدِّیُّ وَابْنُ جُرَیْجٍ: إِنَّ مُوسَی عَلَیْہِ السَّلَامُ بَرَدَ الْعِجْلَ وَذَرَاہُ فِی الْمَاء ِ، وَقَالَ لِبَنِی إِسْرَائِیلَ: اشْرَبُوا مِنْ ذَلِکَ الْمَاء ِ، فَشَرِبَ جَمِیعُہُمْ، فَمَنْ کَانَ یُحِبُّ الْعِجْلَ خَرَجَتْ بُرَادَۃُ الذَّہَبِ عَلَی شَفَتَیْہِ. وَرُوِیَ أَنَّہُ مَا شَرِبَہُ أَحَدٌ إِلَّا جُنَّ۔
ترجمہ :امام السدی اورابن جریج رحمہمااللہ تعالی فرماتے ہیں کہ حضرت سیدناموسی علیہ السلام نے اس بچھڑے کو ٹکڑے ٹکڑے کرکے پانی میں بکھیردیا، آپ علیہ السلام نے بنی اسرائیل سے فرمایا: اس پانی سے پیو، ان سب نے پانی پیا، جس جس کے دل میں بچھڑے کی محبت تھی سب کے سب پاگل ہوگئے ۔
(تفسیر القرطبی:أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن أبی بکر بن فرح الأنصاری الخزرجی شمس الدین القرطبی (۲:۳۵)

اللہ تعالی نے یہودیوں کو ڈانٹنے کا حکم دیا

قُلْ بِئْسَما یَأْمُرُکُمْ بِہِ إِیمانُکُمْ أَیْ إِیمَانُکُمُ الَّذِی زَعَمْتُمْ فِی قَوْلِکُمْ: نُؤْمِنُ بِما أُنْزِلَ عَلَیْناوَقِیلَ: إِنَّ ہَذَا الْکَلَامَ خِطَابٌ لِلنَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، أُمِرَ أَنْ یُوَبِّخَہُمْ، أَیْ قُلْ لَہُمْ یَا مُحَمَّدُ: بِئْسَ ہَذِہِ الْأَشْیَاء ُ الَّتِی فَعَلْتُمْ وَأَمَرَکُمْ بِہَا إِیمَانُکُمْ۔
ترجمہ :امام ابوعبداللہ محمدبن احمدالقرطبی المتوفی : ۶۷۱ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ اللہ تعالی کایہ فرمان {قُلْ بِئْسَما یَأْمُرُکُمْ بِہِ إِیمانُکُمْ}یعنی تمھاراوہ ایمان جو تم اپنے زعم سے کہتے ہو{ نُؤْمِنُ بِما أُنْزِلَ عَلَیْنا}بعض نے فرمایاکہ اس کلام میں رسول اللہ ﷺکوخطاب ہے ، رسول اللہ ﷺکوحکم دیاگیاہے کہ یہودیوںکوڈانٹ پلائیں یعنی رسول اللہ ﷺکو یہ حکم دیاگیاہے کہ اے حبیب کریم ﷺ! آپ یہودیوں کو فرمائیں کہ تم جو حرکتیں کرتے ہوجن کاتمھیں تمھاراایمان حکم دیتاہے انتہائی بری ہیں۔
(تفسیر القرطبی: أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن أبی بکر بن فرح الأنصاری الخزرجی شمس الدین القرطبی (۲:۳۵)

توحیدہی اصل الایمان ہے

قال رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم لما دخل علی یعقوب النبی علیہ السلام مبشر یوسف علیہ السلام وبشرہ بحیاتہ قال لہ یعقوب علی أی دین ترکتہ قال علی دین الإسلام قال یعقوب علیہ السلام الآن قد تمت النعمۃ علی یعقوب ۔
ترجمہ :رسول اللہ ﷺنے فرمایاکہ جب حضرت سیدنایعقوب علیہ السلام کا قاصد خوشخبری لے کرآیاکہ حضرت سیدنایوسف علیہ السلام زندہ ہیں توآپ علیہ السلام نے اس سے پوچھاکہ زندہ توہیں لیکن یہ بھی خبردوکہ ان کادین کیاہے ؟ اس نے کہاکہ وہ دین اسلام پر ہیں ، توآپ علیہ السلام نے فرمایا: الحمدللہ !میں اب خوش ہوںکہ اللہ تعالی کی نعمت کی تکمیل ہوئی ۔
(روح البیان:إسماعیل حقی بن مصطفی الإستانبولی الحنفی الخلوتی المولی أبو الفداء (ا:۱۸۳)
جن کو ایمان کی قدرہوتی ہے وہ اپنے بچوں کی صحیح دینی تربیت کرتے ہیں جیساکہ اس واقعہ سے معلوم ہواکہ حضرت سیدنایعقوب علیہ السلام کو جیسے ہی خوشخبری ملی حضرت سیدنایوسف علیہ السلام زندہ ہیں تو آپ علیہ السلام فوراً خوش نہیں ہوئے اورنہ ہی آپ نے الحمدللہ کہابلکہ جب پتہ چلاکہ حضرت سیدنایوسف علیہ السلام کادین اسلام ہے تو پھرآپ علیہ السلام نے الحمداللہ کہااورخوشی کااظہارکیا۔
اورایک طرف ان کو دیکھیں جو بنی اسرائیل ہیں یہ حضرت سیدنایعقوب علیہ السلام کی اولاد ہیں وہ ایمان سے اس قدردورہوگئے کہ بچھڑے کے سامنے جھک گئے اوراس کی پوجاکرنے لگے ۔ ان کو چاہئے تھاکہ وہ اپنے جد امجد حضرت سیدنایعقوب علیہ السلام کی تعلیمات پر عمل کرتے ۔ اورتوحیدکو اپناکر اورشرک کوترک کرکے خوش ہوتے ۔

معارف ومسائل

(۱) اس آیت مبارکہ میں دواضافتیں ہیں ۔ ایک بچھڑے کی پوجاکی اضافت توراۃ کی طرف کیونکہ توراۃ میں توبچھڑے کی پوجاکی کوئی بات نہیں ہے ، اس لئے اللہ تعالی نے ان کو ذلیل کرنے کے لئے فرمایاکہ تم کو توراۃ نے بہت براحکم دیاہے کہ تم بچھڑے کی پوجاکرو۔ اور’’ایمان کی اضافت ان کی طرف ‘‘کیونکہ وہ توکافرتھے ، اس لئے ایمان کی اضافت ان کی طرف کرنابھی ان کو ذلیل کرنے کے لئے ہے۔
(۲)اس سے ثابت ہواکہ وہ کتنے احمق تھے کہ قادرمطلق کو چھوڑ کر ایک بچھڑے کی پوجاکرنے لگے تھے اوراسی طرح رسول اللہ ﷺکی نبوت کی تکذیب کرکے اپنی خواہشات کے پیچھے پڑے ہوئے تھے۔
(۳) اس بات سے رسول اللہ ﷺکے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی عظمت وشان معلوم ہوئی کہ وہ کس طرح رسول اللہ ﷺکی اطاعت کیاکرتے تھے اورانہوںنے تمام احکام اسلام کو بخوشی قبول کیااورکسی ایک حکم شریف پر انکارنہ کیا،یہاں تک کہ اپنے بچوں اورمال اوراپنی جان تک کی قربانی سے دریغ نہ کیا۔ اورانہوںنے تب اسلام قبول کیاجب اسلام قبول کرنااپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالناتھا، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے سب کچھ قبول کیامگررسول اللہﷺکادامن نہیں چھوڑا۔
(۴) اس سے معلوم ہواکہ ہر وہ شخص جو اللہ تعالی کے قرآن کریم کو پس پشت ڈال دے وہ بھی انہیں میں داخل ہے۔
(۵) آج بھی جتنے لوگ قرآن کریم کو صرف جھوٹی قسم کھانے کے لئے یامیت پر قرآن خوانی کے لئے استعمال کریں اورعمل انگریز کے قانون پر کریں اورملک میں بھی انگریزی قانون چلائیں وہ بھی انہیں میں داخل ہیں ۔
(۶) اللہ تعالی کے احکامات کاانکارکرنایہ یہودیوں کاکام ہے ۔جس طرح یہودی کرتے تھے کہ مطلب کی بات پر عمل کرتے تھے اوراس کے علاوہ کو ترک کردیتے تھے ، یہی حال ہمارے ہاں موجود لبرل حکمرانوں اوران کے ماننے والوں کاہے کہ جہاں ان کامفادہوتاہے وہ باہر نکل آتے ہیں اورجہاں ان کامفاد نہ ہوتب اپنی دنیوی کاموں میں مگن رہتے ہیں چاہے دین پر قیامت گزرجائے ۔
(۷) اس آیت سے یہ بھی معلوم ہواکہ قبیلہ پرستی بہت بری چیز ہے کیونکہ بنی اسرائیل نے رسول اللہ ﷺکی نبوت شریفہ کاانکاراسی لئے کیاکہ رسول اللہ ﷺان کے قبیلے میں تشریف نہیں لائے بلکہ رسول اللہ ﷺبنی اسماعیل میں تشریف لائے ہیں ۔
اس سے ان لوگوں کو بھی عبرت پکڑنی چاہئے جو اپنے قبیلے دیکھ کر چلتے ہیں چاہے وہ دین کے دشمن ہی کیوں نہ ہوں۔
(۸)ایک مسلمان طالب علم کی ایک یہودی سے ملاقات ہوئی تو اس مسلمان کے سامنے وہ یہودی سود کے فوائد بیان کرنے لگا، مسلمان طالب علم نے سوال کیا: سود میں توبرکت نہیں ہوتی ۔ یہودی کہنے لگاکہ برکت تودنیامیں کہیں بھی نہیں پائی جاتی ۔ طالب علم نے کہا: اگرکوئی شخص کہے کہ مجھے دس ہزاکتے چاہئیں توکیاوہ مل جائیں گے ؟ اس یہودی نے کہاکہ نہیں ۔ پھرسوال کیاکہ اگرکوئی شخص دس ہزاربکریاں مانگے تو ابھی مل جائیں گی ؟ توا س نے جواب دیاکہ ضرورمل جائیں گی ۔ اس مسلمان نے کہاکہ کتے کے ایک وقت میں دس بچے ہوتے ہیں جبکہ بکری کے صرف دوہوتے ہیں۔ پھرہرروز بکریاں ذبح کی جاتی ہیں مگرکتے آزاد پھرتے ہیں ، اس کے باوجود بکریاں زیادہ ہیں اوراسی کو برکت کہتے ہیں ۔
اس سے معلوم ہواکہ بات کثرت کی نہیں ہے بلکہ بات توحکم کی ہے کیونکہ برکت اللہ تعالی کے حکم میں ہے ۔ اورحکم کوماننے والے ہی نفع میں رہتے ہیں اورجولوگ حکم کو ماننے سے انکارکردیں وہ دنیاوآخرت میں ذلیل ہوتے ہیں۔اوراس سے یہ بھی معلوم ہواکہ احکامات شرع کو اپنی عقل پرپرکھنایہ یہودیوں کاطریقہ ہے اورمسلمان احکامات شرع کو اپنی عقل پر نہیں پرکھتابلکہ حکم کو حکم سمجھ کر اس پر عمل کرتاہے اورایساشخص ہی کامل مومن ہے جو حکم کی مصلحت اورعلت جانے بغیرعمل کرے ۔
(۹) اس سے یہ بھی معلوم ہواکہ جو لوگ اللہ تعالی کے اوراس کے رسول اللہ ﷺکے گستاخ اوردشمن ہیں ان کے ساتھ استہزاء کرناقرآن کریم سے ثابت ہے اوراس استہزاء کو بے تہذیبی کہنے والاشخص قرآن کریم کی روح سے بھی ناواقف ہے ۔

Leave a Reply

%d bloggers like this: