تفسیر سورہ بقرہ آیت ۸۹ تا ۹۱ ۔ از تفسیر ناموس رسالت

انبیاء کرام علیہم السلام کاگستاخ کافرہے

{وَلَمَّاجَآء َہُمْ کِتٰبٌ مِّنْ عِنْدِ اللہِ مُصَدِّقٌ لِّمَا مَعَہُمْ وَکَانُوْا مِنْ قَبْلُ یَسْتَفْتِحُوْنَ عَلَی الَّذِیْنَ کَفَرُوْا فَلَمَّا جَآء َہُمْ مَّا عَرَفُوْا کَفَرُوْا بِہٖ فَلَعْنَۃُ اللہِ عَلَی الْکٰفِرِیْنَ}(۸۹){بِئْسَمَا اشْتَرَوْا بِہٖٓ اَنْفُسَہُمْ اَنْ یَّکْفُرُوْا بِمَآ اَنْزَلَ اللہُ بَغْیًا اَنْ یُّنَزِّلَ اللہُ مِنْ فَضْلِہٖ عَلٰی مَنْ یَّشَآء ُ مِنْ عِبَادِہٖ فَبَآء ُوْ بِغَضَبٍ عَلٰی غَضَبٍ وَ لِلْکٰفِرِیْنَ عَذَابٌ مُّہِیْنٌ}(۹۰){وَ اِذَا قِیْلَ لَہُمْ اٰمِنُوْا بِمَآ اَنْزَلَ اللہُ قَالُوْا نُؤْمِنُ بِمَآ اُنْزِلَ عَلَیْنَا وَیَکْفُرُوْنَ بِمَا وَرَآء َ ہ ٭ وَہُوَ الْحَقُّ مُصَدِّقًا لِّمَا مَعَہُمْ قُلْ فَلِمَ تَقْتُلُوْنَ اَنْبِیَآء َ اللہِ مِنْ قَبْلُ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ}(۹۱)
ترجمہ کنزالایمان :اور جب ان کے پاس اللہ کی وہ کتاب (قرآن) آئی جو ان کے ساتھ والی کتاب (توریت)کی تصدیق فرماتی ہے اور اس سے پہلے اسی نبی کے وسیلہ سے کافروں پر فتح مانگتے تھے تو جب تشریف لایا ان کے پاس وہ جانا پہچانا اس سے منکر ہو بیٹھے تو اللہ کی لعنت منکروں پر۔کس برے مَوْ لوں انہوں نے اپنی جانوں کو خریدا کہ اللہ کے اتارے سے منکر ہوں اس کی جَلَنْ سے کہ اللہ اپنے فضل سے اپنے جس بندے پر چاہے وحی اتار ے تو غضب پر غضب کے سزاوار ہوئے اور کافروں کے لئے ذِلَّتْ کا عذاب ہے۔
اور جب ان سے کہا جائے کہ اللہ کے اتارے پر ایمان لاؤ تو کہتے ہیں وہ جو ہم پر اترا اس پر ایمان لاتے ہیں اور باقی سے منکر ہوتے ہیں حالانکہ وہ حق ہے ان کے پاس والے کی تصدیق فرماتا ہوا تم فرماؤ کہ پھر اگلے انبیاء کو کیوں شہید کیا اگر تمہیں اپنی کتاب پر ایمان تھا ۔
ترجمہ ضیاء الایمان:اور جب ان کے پاس اللہ کی وہ کتاب آئی جو ان کے پاس موجودکتاب(توراۃ) کی تصدیق کرنے والی ہے اور اس سے پہلے یہ اسی نبی کے وسیلہ سے کافروں کے خلاف فتح مانگتے تھے تو جب ان کے پاس وہ جانا پہچانا نبی تشریف لے آیا تواس کے منکر ہوگئے تو اللہ کی لعنت ہو انکار کرنے والوں پر۔ انہوں نے اپنی جانوں کا کتنا برا سودا کیا کہ اللہ نے جو نازل فرمایا ہے اس کا انکار کررہے ہیں اس حسد کی وجہ سے کہ اللہ اپنے فضل سے اپنے جس بندے پر چاہتا ہے وحی نازل فرماتا ہے تو یہ لوگ غضب پر غضب کے مستحق ہوگئے اور کافروں کے لیے ذلت کا عذاب ہے۔ اور جب ان سے کہا جائے کہ اس پر ایمان لاو جو اللہ نے نازل فرمایا ہے تو کہتے ہیں :ہم اسی پر ایمان لاتے ہیں جو ہمارے اوپر نازل کیا گیا اور وہ تورات کے علاوہ دیگر کا انکار کرتے ہیں حالانکہ وہ(قرآن) بھی حق ہے ان کے پاس موجود(کتاب)کی تصدیق کرنے والا ہے۔ اے محبوب! ﷺتم فرما دو کہ (اے یہودیو!)اگر تم ایمان والے تھے تو پھر پہلے تم اللہ کے انبیاء کرام علیہم السلام کو کیوں شہید کرتے تھے؟۔

یہودیوں کارسول اللہ ﷺکی آمد کے لئے دعائیں کرنا۔۔۔

عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ، عَنْ نَاسٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہ عَلَیْہِ وآلہ وَسَلَّمَ فِی قَوْلِہِ (تَعَالَی )وَلَمَّا جاء َہُمْ کِتابٌ مِنْ عِنْدِ اللَّہِ مُصَدِّقٌ لِما مَعَہُمْ وَکانُوا مِنْ قَبْلُ یَسْتَفْتِحُونَ عَلَی الَّذِینَ کَفَرُوا فَلَمَّا جاء َہُمْ مَا عَرَفُوا کَفَرُوا بِہِ قَالَ: کَانَتِ الْعَرَبُ تَمُرُّ بِالْیَہُودِ فَیُؤْذُونَہُمْ وَکَانُوا یَجِدُونَ مُحَمَّدًا (صَلَّی اللَّہ عَلَیْہِ وآلہ وَسَلَّمَ) فِی التَّوْرَاۃِ فَیَسْأَلُونَ اللَّہ (تَعَالَی)أَنْ یَبْعَثَہُ نَبِیًّا فَیُقَاتِلُونَ مَعَہُ الْعَرَبَ فَلَمَّا جَاء َہُمْ مُحَمَّدٌ کَفَرُوا بِہِ حِینَ لَمْ یَکُنْ مِنْ بَنِی إسرائیل۔
ترجمہ :حضرت سیدناعبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیںکہ رسول اللہ ﷺکے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بیان کرتے ہیںکہ مشرکین جب یہودیوں کے پاس سے گزرتے تو انہیں تکلیف پہنچاتے تھے ، اوروہ اس وقت محمدﷺکاذکراپنی کتابوں میں پڑھتے تھے ، وہ اللہ تعالی سے سوال کرتے کہ وہ نبی کریم ﷺکو مبعوث فرمائے تاکہ وہ آپ ﷺکے ساتھ مل کرعرب کے مشرکین کے خلاف جہاد کریں ۔ پھرجب اللہ تعالی نے کرم فرمایارسول اللہﷺ تشریف لے آئے تویہودیوں نے رسول اللہ ﷺکاانکارکردیاجب کہ بنی اسرائیل میں کوئی نبی نہیں تھا۔
(دلائل النبوۃ :أحمد بن الحسین بن علی بن موسی الخُسْرَوْجِردی الخراسانی، أبو بکر البیہقی (۲:۵۳۶)

یہودیوں پرلعنت کاسبب؟

وسبب کفرہم أنہم اعترفوا بنبوۃ محمد صلّی اللہ علیہ وسلّم ثم إنہم أنکروہ وجحدوہ فلہذا لعنہم اللہ تعالی۔
ترجمہ :امام علاء الدین الخازن المتوفی : ۷۴۱ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ یہودیوں کے کفرکاسبب یہ ہے کہ انہوںنے رسول اللہ ﷺکی نبوت شریفہ کو پہچانااورپھران کاانکارکردیااوراسی وجہ سے اللہ تعالی نے ان پر لعنت فرمادی ۔
(لباب التأویل فی معانی التنزیل:علاء الدین علی بن محمد بن إبراہیم بن عمر الشیحی أبو الحسن، المعروف بالخازن(۱:۶۰)
رسول اللہ ﷺکے دشمنوں کو بہت زیادہ ذلیل کیاجائے گا

قال ابن عباس الغضب الأول بتضییعہم التوراۃ وتبدیلہا والثانی بکفرہم بمحمد صلّی اللہ علیہ وسلّم. وقیل الأول بکفرہم بعیسی والإنجیل والثانی بمحمد صلّی اللہ علیہ وسلّم والقرآن.وقیل: الأول بعبادتہم العجل والثانی: بکفرہم بمحمد صلّی اللہ علیہ وسلّم وَلِلْکافِرِینَ یعنی الجاحدین نبوۃ محمد صلّی اللہ علیہ وسلّم من الناس کلہم عَذابٌ مُہِینٌ أی یہانون فیہ.
ترجمہ :حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَافرماتے ہیں :یہودی تورات کو ضائع کرنے اور ا س کے احکامات کو تبدیل کرنے کی وجہ سے پہلے غضب کے مستحق ہوئے اور رسول اللہ ﷺکے ساتھ کفر کرنے کی وجہ سے دوسرے غضب کے حقدار ٹھہرے۔ بعض مفسرین نے فرمایا کہ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور انجیل کا انکار کرنے کی وجہ سے یہودی پہلے غضب کے مستحق ہوئے اور نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ اور قرآن مجید کا انکار کرکے دوسرے غضب کے مستحق ہو گئے۔

اوریہ بھی بیان کیاگیاہے کہ یہودیوںپرغضب تب ہواجب انہوںنے بچھڑے کی پوجاکی اوردسری بارتب جب انہوںنے رسو ل للہ ﷺکی نبوت کاانکارکیا۔اورکافروں کے لئے یعنی جو رسول اللہ ﷺکی نبوت کاانکارکرتے ہیںان کے لئے انتہائی ذلیل کرنے والاعذاب ہے یعنی دوزخ میں رسول اللہ ﷺکے دشمنوں کو بہت زیادہ ذلیل کیاجائے گا۔
(لباب التأویل فی معانی التنزیل:علاء الدین علی بن محمد بن إبراہیم بن عمر الشیحی أبو الحسن، المعروف بالخازن(۱:۶۰)

یہودیوں نے رسول اللہ ﷺکی تکذیب کیوں کی؟

أَنَّہُمْ کَانُوا یَظُنُّونَ أَنَّ الْمَبْعُوثَ یَکُونُ مِنْ بَنِی إِسْرَائِیلَ لِکَثْرَۃِ مَنْ جَاء َ مِنَ الْأَنْبِیَاء ِ مِنْ بَنِی إِسْرَائِیلَ وَکَانُوا یُرَغِّبُونَ النَّاسَ فِی دِینِہِ وَیَدْعُونَہُمْ إِلَیْہِ، فَلَمَّا بَعَثَ اللَّہُ تَعَالَی مُحَمَّدًا مِنَ الْعَرَبِ مِنْ نَسْلِ إِسْمَاعِیلَ صَلَوَاتُ اللہ علیہ، عظم ذلک علیہم فَأَظْہَرُوا التَّکْذِیبَ وَخَالَفُوا طَرِیقَہُمُ الْأَوَّلَ وَثَانِیہَا: اعْتِرَافُہُمْ بنبوتہ کان یوجب علیہم زوال رئاساتہم وَأَمْوَالِہِمْ فَأَبَوْا وَأَصَرُّوا عَلَی الْإِنْکَارِ.
ترجمہ :امام فخرالدین الرازی المتوفی :۶۰۶ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ یہودی یہ خیال کرتے تھے کہ آپ ﷺبنی اسرائیل میں مبعوث ہوں گے ، اس لئے کہ اکثرانبیاء کرام علیہم السلام انہیں میں سے تھے تواس بناء پر لوگوں کو آپ ﷺکے دین کاشوق اوراس کی دعوت دیتے تھے ، جب اللہ تعالی نے آپ ﷺکوعرب نسل حضرت سیدنااسماعیل علیہ السلام میں مبعوث فرمایاتوان پر یہ گراں گزرا۔ یہودیوں نے رسول اللہﷺ کی تکذیب شروع کردی اوراپنے پہلے طریق سے ہٹ گئے ۔ اورآپ ﷺکی نبوت شریفہ کااعتراف ان کی حکومتوں اوران کے اموال کے زوال کاسبب تھالھذاانہوںنے انکارکریااوراس پر ڈٹ گئے ۔
(التفسیر الکبیر: أبو عبد اللہ محمد بن عمر بن الحسن بن الحسین التیمی الرازی(۳:۵۹۹)

انبیاء کرام علیہم السلام کے گستاخوں سے رسول اللہ ﷺکامناظرہ

{فَلِمَ تَقْتُلُونَ أَنْبِیاء َ اللَّہِ }أَنَّہُ سُبْحَانَہُ وَتَعَالَی بَیَّنَ مِنْ جِہَۃٍ أُخْرَی أَنَّ دَعْوَاہُمْ کَوْنَہُمْ مُؤْمِنِینَ بِالتَّوْرَاۃِ مُتَنَاقِضَۃٌ مِنْ وُجُوہٍ أُخَرَ، وَذَلِکَ لِأَنَّ التَّوْرَاۃَ دَلَّتْ عَلَی أَنَّ الْمُعْجِزَۃَ تَدُلُّ عَلَی الصِّدْقِ وَدَلَّتْ عَلَی أَنَّ مَنْ کَانَ صَادِقًا فِی ادِّعَاء ِ النُّبُوَّۃِ فَإِنَّ قَتْلَہُ کُفْرٌ، وَإِذَا کَانَ الْأَمْرُ کَذَلِکَ کَانَ السَّعْیُ فِی قَتْلِ یَحْیَی وَزَکَرِیَّا وَعِیسَی عَلَیْہِمُ السَّلَامُ کُفْرًا فَلِمَ سَعَیْتُمْ فِی ذَلِکَ إِنْ صَدَقْتُمْ فِی ادِّعَائِکُمْ کَوْنَکُمْ مُؤْمِنِینَ بِالتَّوْرَاۃِ.الْمَسْأَلَۃُ الثَّانِیَۃُ: ہَذِہِ الْآیَۃُ دَالَّۃٌ عَلَی أَنَّ الْمُجَادَلَۃَ فِی الدِّینِ مِنْ حِرَفِ الْأَنْبِیَاء ِ عَلَیْہِمُ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَامُ وَأَنَّ إِیرَادَ الْمُنَاقَضَۃِ عَلَی الْخَصْمِ جَائِزٌ.

ترجمہ :اللہ تعالی نے ایک اورطریق سے واضح کیاکہ ان کاتورات پر ایمان رکھنے کادعوی کئی وجہ سے بھی متضاد ہے ، اس لئے کہ تورات واضح کرتی ہے کہ معجزہ کی دلالت صدق پرہے اورجو دعوی نبوت میں صادق ہواس کاقتل کرناکفرہے ، جب معاملہ یوں ہے تو حضرت سیدنایحیی علیہ السلام ، زکریاعلیہ السلام اورحضرت سیدناعیسی علیہ السلام کے شہید کرنے کی سعی کرناکفرہوئی ، اگرتم توراۃ پر ایمان کادعوی کرتے ہوتو بتائو تم نے انبیاء کرام علیہم السلام کو کیوں شہید کیااوردوسرے انبیاء کرام علیہم السلام کو شہیدکرنے کی سعی کیوں کی؟
اس آیت مبارکہ سے یہ بھی واضح ہواکہ دین میں مجادلہ اورمناظرہ انبیاء کرام علیہم السلام کاطریقہ ہے اورمخالف پر نقض اوراعتراض واردکرناجائز ہے ۔
(التفسیر الکبیر: أبو عبد اللہ محمد بن عمر بن الحسن بن الحسین التیمی الرازی(۳:۵۹۹)

انبیاء کرام علیہم السلام کو شہید کرنااوران کاانکارکرنابرابرہے

أَنَّکُمْ بِہَذَا التَّکْذِیبِ خَرَجْتُمْ مِنَ الْإِیمَانِ بِمَا آمَنْتُمْ کَمَا خَرَجَ أَسْلَافُکُمْ بِقَتْلِ بَعْضِ الْأَنْبِیَاء ِ عَنِ الْإِیمَانِ بِالْبَاقِینَ.
ترجمہ :اس آیت کامعنی یہ ہے کہ تم رسول اللہ ﷺکی تکذیب کے سبب اپنے لائے ہوئے ایمان سے خارج ہوچکے جیساکہ تمھارے اسلاف بعض انبیاء کرام علیہم السلام کو شہید کرنے کے سبب ایمان سے خارج ہوئے۔
(التفسیر الکبیر: أبو عبد اللہ محمد بن عمر بن الحسن بن الحسین التیمی الرازی(۳:۵۹۹)

معارف ومسائل

(۱) اس سے معلوم ہواکہ یہودیوں کی خواہش تھی کہ ختمِ نبوتﷺ کا منصب بنی اسرائیل میں سے کسی کو ملتا، لیکن جب انہوں نے دیکھا کہ وہ اس منصب سے محروم رہے اوربنی اسماعیل کو یہ منصب مل گیا تو وہ حسد کی وجہ سے رسول اللہ ﷺاور ان پر نازل ہونے والی اللہ تعالیٰ کی کتاب قرآن مجید کے منکر ہوگئے ۔اس سے معلوم ہوا کہ منصب و مرتبے کی طلب انسان کے دل میں حسد پیدا ہونے کا ایک سبب ہے اور یہ بھی معلوم ہوا کہ حسد ایسا خبیث مرض ہے جو انسان کو کفر تک بھی لے جا سکتا ہے۔
(۲) یہودونصاری جنہیں آج تک مذہب کی حقیقت کاعلم نہیں ہوسکا، جو تین کو ایک اورایک کوتین کہتے ہیں اوراسی طرح یہودی اللہ تعالی کے نبی حضرت سیدناعزیرعلیہ السلام کو اللہ تعالی کابیٹاکہتے ہیں جبکہ دوسری طرف دیکھیں کہ دنیاکے معاملے میں اتنے ماہر ہوچکے ہیں کہ چاندتک پہنچ گئے ہیں ، مگرمذہب انہیں آج تک معلوم نہیں ہوسکا، ان کی تقلیدکرتے ہوئے اوران کی تعلیم پر مرنے والے نام نہاد مسلمان بھی اسی لادینیت اورلبرل ازم کے سیلاب میں بہہ جارہے ہیں ۔
(۳) اس سے معلوم ہواکہ یہودی بارباررسول اللہ ﷺکے توسل سے دعاکرکے اللہ تعالی کی بارگاہ سے اپنی مرادیں پاچکے تھے اوران کو رسول اللہﷺکی نبوت کی کامل معرفت حاصل ہوچکی تھی مگرپھربھی وہ بغض وحسدکی وجہ سے رسول اللہ ﷺکے منکرہوگئے۔
(۴) رسول اللہ ﷺپر حسد کیااوردرپردہ اللہ تعالی پراعتراض کیاکہ بنی اسماعیل میں کوئی بھی نبوت کااہل نہیں ہے مگر اللہ تعالی نے رسول اللہﷺ کو مبعوث فرمادیا۔
(۵) اس سے معلوم ہواکہ رسول اللہ ﷺکے دشمنوں کے لئے ذلیل کرنے والاعذاب ہے ۔
(۶) اس سے یہ بھی معلوم ہواکہ وہ رسول اللہ ﷺکوجانتے تھے مانتے نہ تھے ، اورایمان ماننے کانام ہے نہ کہ صرف جان لینے کا، جانناغیراختیاری ہوتاہے اورماننااختیاری ہوتاہے ۔ عنداللہ اجر اختیاری خیر پر ہی ملتاہے ۔
(۷) یہودیوں نے قرآن اورصاحب قرآن (ﷺ)کاانکارکیاکہ کیوں اللہ تعالی جس پر چاہے اپنے فضل سے وحی اتاردیتاہے اورہمارے خاندان کے لئے نبوت کیوں خاص نہیں فرمائی۔ان بے وقوفوں نے وہ تجارت کی جس میں بجائے نفع کے غضب الہی کمایا، یہ تاجرہیں۔ ان کی جان اصل پونجی ہے اوران کی بدعملیاں وہ مال کہ جو اپنی قیمتی عمریں خرچ کررہے ہیں ، انہوںنے اپنی جانیں دے کر جو کچھ خرید اوہ یہ تھاکہ اللہ تعالی کے نبی ﷺکابغض اوران کے ساتھ دشمنی اوران کی نبوت کاانکارہے۔
ان کایہ سودابڑاہی براہے یایوں سمجھوکہ ان کی جانیں رب تعالی کے یہاں رہن اورقید تھیں اوران سے کہاگیاکہ تم نے ہماری نعمتوں کے عوض اپنی جانیں گروی کردی ہیں۔ اب نیک اعمال کرکے چھڑالینا، انہوںنے یہ تونہ کیابلکہ اس کے لئے اوندھی چال چلے کہ کفرپرکفرکئے ، یایوں سمجھوکہ انہیں رسول اللہ ﷺکے تشریف لانے سے پیشترایمان حاصل تھا، رسول اللہ ﷺکومانتے تھے لیکن رسول اللہ ﷺکی تشریف آوری پر انہوںنے الٹابیوپارکیاکہ کفرکے عوض ایمان فروخت کرڈالا۔ لھذااس بازار سے بجائے نفع کے غضب اورقہرکے پشتارے اپنی پیٹھ پر لادے ہوئے واپس آئے۔ (تفسیرنعیمی (۱:۵۴۸)
(۸)اس سے معلوم ہواکہ کافروں سے مناظرہ کرناقرآن کریم کی سنت ہے ۔
(۹) انبیاء کرام علیہم السلام کی مخالفت کرنااوران کے احکامات پر حجت بازی کرنایاان کو ایذاپہچاناکفرہے ، جیساکہ بنی اسرائیل نے ایمان کادعوی کیاتواللہ تعالی نے ان کایہ جرم انبیاء کرام علیہم السلام کو شہیدکرنے والاان کو جتلاکر ان کوجھوٹاثابت فرمایااوران کاکفرثابت کیا۔
(۱۰) رسول اللہﷺ کے زمانہ مبارک کے یہودیوں نے انبیاء کرام علیہم السلام کو شہید نہیں کیاتھامگران کو بھی انبیاء کرام علیہم السلام کو شہیدکرنے والافرمایاگیااس کی وجہ یہ ہے کہ یہ بھی ان کے قتل سے راضی تھے ۔ اس سے معلوم ہواکہ جو شخص کسی بھی کفرسے راضی ہووہ بھی کافرہی ہوتاہے ۔
(۱۱) اسلامی عقائد میں اپنی طرف سے قیودات لگاناخداتعالی کاانکارہے اوراپنے خداہونے کااقرارہے ، جوشخص یہ کہے کہ اللہ تعالی نے یہ کیوں نازل نہیں کیااوروہ نازل کیوں نہیں کیا، یاایسانازل کردیتایااس طرح نازل کردیتا، یایہ کہے ہم تووہ وحی مانیں گے جو حضرت سیدناموسی علیہ السلام پرنازل ہوئی یاوہ وحی مانیں گے جو حضرت سیدناعیسی علیہ السلام پر نازل ہوئی اوررسول اللہ ﷺپر نازل ہونے والے قرآن کریم کاانکارکرے ایساشخص خود کو خداکہہ رہاہے اوروہ یہ کہتاہے کہ جو میں کہہ رہاہوں وہی صحیح ہے اورجو کچھ خداتعالی نے فرمایاہے وہ غلط ہے ۔ایساشخص اپنے آپ کے خداہونے کادعوے دارہے اورایساشخص مشرک ہے ۔
جیساکہ یہودیوں کو رب تعالی نے فرمایا: میری وحی کی اتباع کروجو میں نے حبیب کریم ﷺپرنازل فرمائی ، توانہوںنے کہا: نہیں بلکہ جوکچھ رب تعالی نے ہم پر نازل کیاہے ہم اس پر ایمان لائیں گے اوراس پر ایمان نہیں لائیں گے جو کچھ اللہ تعالی نے رسول اللہ ﷺپر نازل کیاہے ۔ یہودی یہ قید لگاکر’’جو کچھ ہم پرنازل ہواہے اس کو مانیں گے ‘‘کافراوررب تعالی کے منکرہوگئے۔
اوراسی طرح وہ شخص جو رسول اللہ ﷺکے فیصلوں اورآپ ﷺکے بیان کردہ احکامات کے متعلق کہے کہ یوں نہیں یوں ہوناچاہئے تھایارسول اللہ ﷺاس طرح نہ کرتے وغیرہ وغیرہ ۔ ایساشخص بھی اپنی بات کو درست جبکہ رسول اللہ ﷺکے فرمان شریف کو غلط کہہ رہاہے اوراپنے آپ کو نبی کہہ رہاہے ۔ یادرہے کہ ایساشخص بھی دائرہ ایمان سے خارج ہے ۔ کیونکہ ایسی بات رسول اللہ ﷺکو سوائے خداتعالی کے کوئی نہیں کرسکتاکہ اے حبیب ﷺ! آپ ایسے کرلیں چاہے جو بھی ہو۔ اورجو شخص رسول اللہ ﷺکے کسی فرمان شریف کے متعلق ایساکہے وہ شخص مشرک ہے ۔
اس سے یہ بھی ثابت ہواکہ یہودیوں نے یہ کہاتھاکہ جو وحی رسول اللہ ﷺپر نازل ہوئی ہے ہم اس کو نہیں مانتے بلکہ اس وحی کو مانتے ہیں جو ہم پرنازل ہوئی ۔توجوشخص رسول اللہ ﷺپر نازل ہونے والی وحی کو ترک کرکے وحی منسوخہ کی طرف متوجہ ہواوراس پر عمل کرے وہ شخص توکافربھی ہواورمشرک بھی ہوتوجوشخص رسول اللہ ﷺپر نازل ہونے والی وحی کو چھوڑ کر کفرکے قانون کی طرف متوجہ ہواوراپنے ملک میں رائج کرے وہ شخص کیسے مسلمان ہوسکتاہے؟۔

Leave a Reply