تفسیر سورہ بقرہ آیت ۸۷۔۸۸ ۔ از تفسیر ناموس رسالت

خلاف طبع احکامات شرع کاانکارکرنے والے اورانبیاء کرام علیہم السلام کاقتل کرنے والے

{وَلَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسَی الْکِتٰبَ وَقَفَّیْنَا مِنْ بَعْدِہٖ بِالرُّسُلِ وَاٰتَیْنَا عِیْسَی ابْنَ مَرْیَمَ الْبَیِّنٰتِ وَاَیَّدْنٰہُ بِرُوْحِ الْقُدُسِ اَفَکُلَّمَا جَآء َکُمْ رَسُوْلٌ بِمَا لَا تَہْوٰٓی اَنْفُسُکُمُ اسْتَکْبَرْتُمْ فَفَرِیْقًا کَذَّبْتُمْ وَفَرِیْقًا تَقْتُلُوْنَ}(۸۷){وَقَالُوْا قُلُوْبُنَا غُلْفٌ بَلْ لَّعَنَہُمُ اللہُ بِکُفْرِہِمْ فَقَلِیْلًا مَّا یُؤْمِنُوْنَ}(۸۸)
ترجمہ کنزالایمان :اور بے شک ہم نے موسٰی کو کتاب عطا کی اور اس کے بعد پے در پے رسول بھیجے اور ہم نے عیسیٰ بن مریم کو کھلی نشانیاں عطا فرمائیںاور پاک روح سے اس کی مدد کی تو کیا جب تمہارے پاس کوئی رسول وہ لے کر آئے جو تمہارے نفس کی خواہش نہیں تکبر کرتے ہو تو ان میں ایک گروہ کو تم جھٹلاتے اور ایک گروہ کو شہید کرتے ہو ۔اور یہودی بولے ہمارے دلوں پر پردے پڑے ہیںبلکہ اللہ نے ان پر لعنت کی ان کے کفر کے سبب تو ان میں تھوڑے ایمان لاتے ہیں
ترجمہ ضیاء الایمان : اوربے شک ہم نے موسی ( علیہ السلام) کو کتاب عطافرمائی اوران کے بعد یکے بعد دیگرے رسول بھیجے ، اورہم نے عیسی بن مریم (علیہماالسلام)کوواضح معجزات عطافرماکربھیجااورپاک روح سے ان کی مددفرمائی توکیاجب تمھارے پاس رسول وہ لے کرآئے جو تمھارے نفس کی خواہش کے خلاف ہوتاتوتم تکبرکرتے توانبیاء کرام علیہم السلام میں سے ایک گروہ کوتم جھوٹاکہتے اورایک گروہ کو تم شہید کردیتے ہو ۔ اوریہودی بولے :ہمارے دلوں پر پردے پڑے ہوئے ہیں بلکہ اللہ تعالی نے ان پر لعنت فرمائی ہے ان کے کفرکے سبب توان میں بہت تھوڑے لوگ ایمان لاتے ہیں۔
چارہزارانبیاء کرام علیہم السلام توراۃ کی حفاظت کے لئے تشریف لائے
قَالَ الْعُلَمَاء ُ:وَہَذِہِ الْآیَۃُ مِثْلَ قولہ تعالی:ثُمَّ أَرْسَلْنا رُسُلَنا تَتْرا وَکُلُّ رَسُولٍ جَاء َ بَعْدَ مُوسَی فَإِنَّمَا جَاء َ بإثبات التوراۃ والامربِلُزُومِہَا إِلَی عِیسَی عَلَیْہِ السَّلَامُ.
ترجمہ :امام ابوعبداللہ محمدبن احمدالقرطبی المتوفی : ۶۷۱ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ علماء کرام فرماتے ہیں کہ حضرت سیدناموسی علیہ السلام کے بعد حضرت سیدناعیسی علیہ السلام تک جتنے بھی انبیاء کرام علیہم السلام تشریف لائے وہ سب کے سب توراۃ کے اثبات اوراس کے لزوم کے امر کے ساتھ آئے تھے ۔
(تفسیر القرطبی: أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن أبی بکر بن فرح الأنصاری الخزرجی شمس الدین القرطبی (۲:۱۹)
پہلے اللہ تعالی نے ایک کتاب کی حفاظت کے لئے انبیاء کرام علیہم السلام کی جماعت بھیجی جو چارہزارکی تعدادپر مشتمل تھی اورجب بات آئی اپنے حبیب کریم ﷺپر نازل کردہ کتاب کی تو اللہ تعالی نے جماعت علماء اورمجدددین بھیجے تاکہ وہ رسول اللہ ﷺکی تعلیمات شریفہ میں جو علماء سوء کی طرف سے دین دشمن حکمرانوں کی جانب سے خرافات دین میں شامل کردی جائیں تووہ دین کو پھرسے نیاکردیں اوربدعات کامکمل طور پر خاتمہ کردیں۔
حضرت سیدناموسی علیہ السلام کی شریعت کی حفاظت کرنے والے انبیاء کرام علیہم السلام
قالوا کان بین موسی وعیسی علیہما الصلاۃ والسلام أربعۃ آلاف نبیّ، وقیل سبعون ألفاً کانوا علی شریعۃ موسی صلی اللہ علیہ وسلم۔
ترجمہ :امام شہاب الدین احمدبن عمر الخفاجی المصری الحنفی المتوفی : ۱۰۶۹ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ علماء ومحدثین نے بیان کیاہے کہ حضرت سیدناموسی علیہ السلام اورحضرت سیدناعیسی علیہ السلام کے مابین چارہزارانبیاء کرام علیہم السلام تشریف لائے اورایک قول یہ بھی ہے کہ سترہزار انبیاء کرام علیہم السلام تشریف لائے اوروہ سارے کے سارے حضرت سیدناموسی علیہ السلام کی شریعت پر تھے۔
(حَاشِیۃُ الشِّہَابِ عَلَی تفْسیرِ البَیضَاوِی:شہاب الدین أحمد بن محمد بن عمر الخفاجی المصری الحنفی (۲:۱۹۷)

یہودیوں کی گستاخی

فَکَانَ مِمَّنْ کَذَّبُوہُ عِیسَی وَمُحَمَّدٌ عَلَیْہِمَا السَّلَامُ، وَمِمَّنْ قَتَلُوہُ یَحْیَی وَزَکَرِیَّا عَلَیْہِمَا السَّلَامُ۔
ترجمہ :امام ابوعبداللہ محمدبن احمدالقرطبی المتوفی : ۶۷۱ھ) رحمہ اللہ تعالی نقل فرماتے ہیں کہ یہودیوںنے حضرت سیدناعیسی علیہ السلام کو جھوٹاکہااوررسول اللہ ﷺکی بھی تکذیب کی اورانہوں نے حضرت سیدنایحیی اورزکریاعلیہماالسلام کو شہیدکیا۔
(تفسیر القرطبی: أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن أبی بکر بن فرح الأنصاری الخزرجی شمس الدین القرطبی (۲:۱۹)

جویہ کہے کہ مجھے رسول اللہ ﷺکے علم کی حاجت نہیں ہے ؟

قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: أَیْ قُلُوبُنَا مُمْتَلِئَۃٌ عِلْمًا لَا تَحْتَاجُ إِلَی عِلْمِ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَلَا غَیْرِہِ.
ترجمہ :حضرت سیدناعبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہمافرماتے ہیں کہ یہودیوں نے کہاکہ ہمارے دل علم سے بھرے ہوئے ہیں اورہمیں محمدﷺاوران کے علاوہ کسی اورکے علم کی کوئی ضرورت نہیں ہے ۔
(الہدایۃ إلی بلوغ النہایۃ :أبو محمد مکی بن أبی طالب حَمّوش القیروانی ثم الأندلسی القرطبی المالکی (۱:۳۴۳)
اس سے معلوم ہواکہ یہ یہودیوں کامقولہ ہے کہ ہمیں رسول اللہ ﷺکے علم کی حاجت نہیں ہے ۔( نعوذ باللہ من ذلک )آجکل کے لبرل بھی یہی کہتے ہوئے سنائی دیتے ہیں کہ ہمیں کافروں کے علم سے فرصت نہیں ہے توہم قرآن وحدیث کی طرف کیسے توجہ دیں ۔

قلوب چارطرح کے ہوتے ہیں

عَنْ أَبِی الْبُحْتُرِیِّ، عَنْ سَلْمَانَ الْفَارِسِیِّ، قَالَ:الْقُلُوبُ أَرْبَعَۃٌ، قَلْبٌ أَغْلَفُ فَذَلِکَ قَلْبُ الْکَافِرِ، وَقَلْبٌ مَنْکُوسٌ فَذَلِکَ قَلْبُ الْمُنَافِقِ، وَقَلْبٌ مُصْفَحٌ فَذَاکَ قَلْبٌ فِیہِ إِیمَانٌ وَنِفَاقٌ، فَمَثَلُ الْإِیمَانِ کَمَثَلِ الْبَقْلَۃِ یَسْقِیہَا الْمَاء َ، وَمَثَلُ النِّفَاقِ فِیہِ کَمَثَلِ الْقُرْحَۃِ یَسْقِیہَا الصَّدِیدَ، فَہُمَا یَقْتَتِلَانِ فِی جَوْفِہِ فَأَیَّتُہُمَا مَا غَلَبَتْ أَکَلَتْ صَاحِبَہَا حَتَّی یُصَیِّرَہُ اللَّہُ تَعَالَی إِلَی مَا یُصَیِّرُہُ، وَقَلْبٌ أَجْرَدُ فِیہِ سِرَاجٌ وَسِرَاجُہُ نُورُہُ وَذَلِکَ قَلْبُ الْمُؤْمِنِ۔
ترجمہ :حضرت سیدناسلمان فارسی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ قلوب چارطرح کے ہوتے ہیں (۱) وہ دل جو ڈھکاہواہوتاہے وہ کافرکادل ہوتاہے ۔(۲) وہ دل جو الٹایعنی اوندھاہوتاہے وہ منافق کادل ہوتاہے ۔(۳)وہ دل جو صاف ہوتاہے اوراس میں چراغ کی مثل کوئی چیز ہوتی ہے یہ مومن کادل ہوتاہے ۔(۴) اورایک دل وہ ہوتاہے جس میں ایمان اورنفاق دونوں ہوتے ہیں ، ایمان درخت کی مثل ہوتاہے اسے پاک پانی بڑھاتاہے اورنفاق کی مثال زخم کی مثل ہے اسے پیپ اورخون بڑھاتاہے جو مادہ غالب آجائے وہ دوسرے کو ہلاک کردیتاہے ۔
(تفسیر القرآن العظیم لابن أبی حاتم:أبو محمد عبد الرحمن الحنظلی، الرازی ابن أبی حاتم (۵:۱۶۳۶)

انبیاء کرام علیہم السلام کی گستاخی کرنے والاایمان سے محروم کردیاجاتاہے

بَلْ لَعَنَہُمُ اللَّہُ بِکُفْرِہِمْ فَقَلِیلًا مَا یُؤْمِنُونَ ثُمَّ بَیَّنَ أَنَّ السَّبَبَ فِی نُفُورِہِمْ عَنِ الْإِیمَانِ إِنَّمَا ہُوَ أَنَّہُمْ لُعِنُوا بِمَا تَقَدَّمَ مِنْ کُفْرِہِمْ وَاجْتِرَائِہِمْ، وَہَذَا ہُوَ الْجَزَاء ُ عَلَی الذَّنْبِ بِأَعْظَمَ مِنْہُ۔
ترجمہ :اللہ تعالی نے اس آیت مبارکہ میں وجہ بیان کی کہ یہودی ایمان کیوں نہیں لاتے ،اللہ تعالی نے فرمایاکہ وہ ایمان اس لئے نہیں لاتے کہ انہوںنے انبیاء کرام علیہم السلام کاانکارکیاہے اوران کی تکذیب کی ہے اورانبیاء کرام علیہم السلام کی دشمنی پر جرات کی ہے اوراس سبب سے اللہ تعالی نے ان پر لعنت فرمائی ہے ، یہ گناہ پربڑی سزاہے ۔
تفسیر القرطبی: أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن أبی بکر بن فرح الأنصاری الخزرجی شمس الدین القرطبی (۲:۲۵)

یہودیوں کارسول اللہ ﷺکوشہید کرنے کی سازش کرنا

فَفَرِیقاً کَذَّبْتُمْ وَفَرِیقاً تَقْتُلُونَ فَلِقَائِلٍ أَنْ یَقُولَ:أَنْ یُرَادَ فَرِیقًا تَقْتُلُونَہُمْ بَعْدُ لِأَنَّکُمْ حَاوَلْتُمْ قَتْلَ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَوْلَا أَنِّی أَعْصِمُہُ مِنْکُمْ وَلِذَلِکَ سَحَرْتُمُوہُ وَسَمَمْتُمْ لَہُ الشَّاۃَ.وَقَالَ عَلَیْہِ السَّلَامُ عِنْدَ مَوْتِہِ: مَا زَالَتْ أَکْلَۃُ خَیْبَرَ تُعَاوِدُنِی فَہَذَا أَوَانُ انْقِطَاعِ أَبْہَرِی۔
ترجمہ :تم نے حضرت سیدناموسی علیہ السلام کے بعد انبیاء کرام علیہم السلام کو شہید کیااورتم نے رسول اللہ ْﷺکو شہید کرنے کے لئے سازشیں کیں مگرمیں نے انہیں محفوظ رکھا، اس لئے تم نے رسول اللہ ﷺپرجادوکیا، بکری کے گوشت میں زہرملاکررسول اللہ ﷺکودے دیا، آپ ﷺنے اپنے وصال شریف کے وقت فرمایاتھاکہ خیبرکازہرآلود لقمہ باربارمجھے تکلیف دے رہاہے اب اس نے میراجگرکاٹ دیاہے ۔
(التفسیر الکبیر: أبو عبد اللہ محمد بن عمر بن الحسن بن الحسین التیمی الرازی (۳:۵۹۴)

حضرت سیدناعیسی علیہ السلام کی ایسی تقویت کی تخصیص کیوں ؟

وتخصیص عیسی من بین الرسل ووصفہ بایتاء البینات والتأیید بروح القدس لما ان بعثتہم کانت لتنفیذ احکام التوراۃ وتقریرہا واما عیسی فقد نسخ بشرعہ کثیر من أحکامہا وحسم مادۃ اعتقادہم الباطل فی حقہ ببیان حقیقتہ واظہار کمال قبح ما فعلوا بہ ۔
ترجمہ :حضرت سیدناموسی علیہ السلام کے بعد جو انبیاء کرام علیہم السلام تشریف لائے وہ توراۃ کے احکامات کے اجراء کے لئے تشریف لائے اورحضرت سیدناعیسی علیہ السلام کو بہت سے احکامات منسوخ کرنے پرمامورفرمایاگیااوران کے زمانہ کے لوگوں کے جتنے غلط عقائد ونظریات اوربری رسمیں تھیں ان سب کو مٹانے کا حکم دیاگیا۔ پھرظاہرہے کہ غلط عقائد ونظریات اوربری رسموں کو مٹانے کے لئے مردِ میدان کی ضرورت تھی اوروہ بغیر تائیدِ ایزدی کے مشکل ہے ۔
(روح البیان:إسماعیل حقی بن مصطفی الإستانبولی الحنفی الخلوتی المولی أبو الفداء (ا:۱۷۷)
دین پر عمل کرناہماراسٹیٹس نہیں ہے ؟
فکلما جاء کم رَسُولٌ بِما لا تَہْوی ای لا ترید أَنْفُسُکُمُ ولا یوافق ہواکم من الحق الذی لا انحراف عنہ اسْتَکْبَرْتُمْ ای تعظمتم عن الاتباع لہ والایمان بما جاء بہ من عند اللہ۔
ترجمہ :اللہ تعالی نے فرمایاکہ تمھارے پاس رسول اللہ ﷺوہ احکامات لے کر آئے جو تمھارے نفوس نہیں چاہتے ، یعنی احکامات الہیہ تمھاری خواہشات کے موافق نہیں ہیں اورتمھیں رسول اللہ ﷺکی فرمانبرداری اوررسول اللہ ﷺپر ایمان لانے سے انکارہے اوراس کی یہی وجہ ہے کہ تم اپنے آپ کو بڑاسمجھتے ہو۔
(روح البیان:إسماعیل حقی بن مصطفی الإستانبولی الحنفی الخلوتی المولی أبو الفداء (ا:۱۷۷)
یزیدکی دین دشمنی
قال بعضہم لعن یزید علی اشتہار کفرہ وتواتر فظاعۃ شرہ لما انہ کفر حین امر بقتل الحسین رضی اللہ عنہ ولما قال فی الخمر:
فان حرمت یوما علی دین احمد … فخذہا علی دین المسیح ابن مریم
ترجمہ :وہ علماء جو یزیدپر لعنت کے جواز کے قائل ہیں وہ فرماتے ہیںکہ یزیدکاکفرمشہورہے اوراس کے شدیدشرکی خبرمتواترہے اس لئے کہ جب اس نے حضرت سیدناامام حسین رضی اللہ عنہ کے قتل کاحکم دیاتواس نے کفرکیاعلاوہ ازیں اس قول سے وہ کافرہوگیاجیساکہ اس نے شراب نوشی کے وقت کہاتھاکہ آج شراب رسول اللہ ﷺکے دین کی وجہ سے حرام ہے تو تواسے عیسی علیہ السلام کی شریعت کی وجہ سے پی لے ۔
(روح البیان:إسماعیل حقی بن مصطفی الإستانبولی الحنفی الخلوتی المولی أبو الفداء (ا:۱۷۷)
حضرت سیدناجبریل امین کو روح الامین کیوںکہاجاتاہے ؟
سُمِّی جِبْرِیلُ عَلَیْہِ السَّلَامُ بِذَلِکَ لِأَنَّہُ یَحْیَا بِہِ الدِّینُ کَمَا یَحْیَا الْبَدَنُ بِالرُّوحِ فَإِنَّہُ ہُوَ الْمُتَوَلِّی لِإِنْزَالِ الْوَحْیِ إِلَی الْأَنْبِیَاء ِ وَالْمُکَلَّفُونَ فِی ذَلِکَ یَحْیَوْنَ فِی دِینِہِمْ.
ترجمہ :امام ابوعبداللہ محمدبن عمرالرازی المتوفی:۶۰۶ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیںکہ حضرت سیدناجبریل امین علیہ السلام کو روح اس لئے کہاگیاکہ جس طرح روح کی وجہ سے بدن زندہ ہے اسی طرح حضرت سیدناجبریل امین علیہ السلام کی وجہ سے دین زندہ ہے یہی تووہ فرشتے ہیں جوتمام انبیاء کرام علیہم السلام کے پاس وحی لے کرآتے رہے ہیں۔
(التفسیر الکبیر: أبو عبد اللہ محمد بن عمر بن الحسن بن الحسین التیمی الرازی (۳:۵۹۴)

دین کے سامنے اکڑنا

أَفَکُلَّما جاء َکُمْ رَسُولٌ بِما لَا تَہْوی أَنْفُسُکُمُ اسْتَکْبَرْتُمْ فَہُوَ نِہَایَۃُ الذَّمِّ لَہُمْ، لِأَنَّ الْیَہُودَ مِنْ بَنِی إِسْرَائِیلَ کَانُوا إِذَا أَتَاہُمُ الرَّسُولُ بِخِلَافِ مَا یَہْوُونَ کَذَّبُوہُ، وَإِنْ تَہَیَّأَ لَہُمْ قَتْلُہُ قَتَلُوہُ وَإِنَّمَا کَانُوا کَذَلِکَ لِإِرَادَتِہِمُ الرِّفْعَۃَ فِی الدُّنْیَا وَطَلَبِہِمْ لَذَّاتِہَا وَالتَّرَؤُّسَ عَلَی عَامَّتِہِمْ وَأَخْذِ أَمْوَالِہِمْ بِغَیْرِ حَقٍّ، وَکَانَتِ الرسل تبطل علیہ ذَلِکَ فَیُکَذِّبُونَہُمْ لِأَجْلِ ذَلِکَ وَیُوہِمُونَ عَوَامَّہُمْ کَوْنَہُمْ کَاذِبِینَ وَیَحْتَجُّونَ فِی ذَلِکَ بِالتَّحْرِیفِ وَسُوء ِ التَّأْوِیلِ، وَمِنْہُمْ مَنْ کَانَ یَسْتَکْبِرُ عَلَی الْأَنْبِیَاء ِ اسْتِکْبَارَ إِبْلِیسَ عَلَی آدَمَ.
ترجمہ :امام ابوعبداللہ محمدبن عمرالرازی المتوفی:۶۰۶ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں اس آیت مبارک میں اللہ تعالی نے یہودیوں کی انتہائی مذمت فرمائی ، بنی اسرائیل کے یہود کے پاس جب بھی کوئی رسول تشریف لائے اوراس رسول نے ان کی نفسانی خواہشات کے خلاف کوئی بھی بات کی تو انہوں نے ان کی تکذیب کی اوراگرممکن ہواتوان کو شہید کردیا، یہ سب کچھ اس لئے کہ وہ دنیوی چودھراہٹ ، حصول لذت دنیا، عوام پر ظلم اوران سے ناجائزمال حاصل کرتے تھے ۔ حضرات انبیاء کرام علیہم السلام اسے غلط قراردیتے تواسی وجہ سے یہ ان کی تکذیب کرتے تھے اورعوام کو مغالطہ دیتے تھے کہ یہ انبیاء کرام علیہم السلام جھوٹے ہیں اوراس میں تحریف اورغلط تاویلات کاسہارالیتے تھے ۔ ان میں سے بہت سے لوگ توانبیاء کرام علیہم السلام کے ساتھ اس طرح تکبرسے پیش آئے جیسے حضرت سیدناآدم علیہ السلام کے ساتھ ابلیس پیش آیاتھا۔
( الکبیر: أبو عبد اللہ محمد بن عمر بن الحسن بن الحسین التیمی الرازی (۳:۵۹۴)

معارف ومسائل

(۱) اس سے معلوم ہواکہ جو شخص اپنے آپ کو بڑاجانتے ہوئے دینی احکامات پر عمل نہ کرے کہ اب مجھ جیسااتناامیرشخص بھی دین پر عمل پیراہوتووہ شخص یہودیوں کاپیروکارہے کیونکہ انہوںنے بھی خودکو بڑاجانتے ہوئے دین مصطفی ﷺکوماننے سے انکارکردیاتھا۔
(۲) اس سے یہ بھی معلوم ہواکہ رسول اللہ ﷺکی امت کے علماء کرام بڑے درجے والے ہیں کہ ان سے وہ کام لیاگیاجو انبیاء کرام علیہم السلام سے لیاگیا۔
(۳) تکبروغروربارگاہ نبوت (ﷺ) سے دورکردیتاہے اوراللہ تعالی کی رحمت سے بھی اس کو محروم کردیتاہے ۔ یہ بھی ذہن میں رہے کہ کافروں کے مقابلے میں تکبرکرناعبادت ہے ، مسلمانوں کے سامنے اکڑناحرام ہے اورانبیاء کرام علیہم السلام کے سامنے تکبرکفرہے اوراسی طرح رسول اللہ ﷺکی شریعت حقہ کے سامنے اکڑنابھی کفرہے ۔
(۴) حضرت سیدنامفتی احمدیارخان نعیمی رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیںکہ حضرت سیدناموسی علیہ السلام کی مخالفت کی وجہ سے سترلاکھ لوگ ہلاک ہوگئے تھے اورحضرت سیدنانوح علیہ السلام کی مخالفت اورگستاخی کی وجہ سے ساراجہان ڈوب گیاتھااوراسی طرح بنی اسرائیل بندراورخنزیربنادیئے گئے تھے ۔ (تفسیرنعیمی (۱: ۵۳۵)
(۵) اس سے معلوم ہواکہ یہودی دین کے سامنے اسی لئے اکڑتے تھے کہ ان کو دنیوی عیش ولذت کے ختم ہونے کاڈرتھا، آج بھی ہمارے حکمرانوں کو اپنی دنیوی لذتیں ختم ہونے کاڈرہے اسی لئے وہ دین متین کو تخت پر نہیں آنے دیتے ۔ اوریہ یادرہے جو شخص اپنی دینوی خواہشات کی تکمیل کے لئے دین کی راہ میں رکاوٹ بنتاہے وہ اپنے وقت کایہودی ہے۔
(۶) یہودی انبیاء کرام علیہم السلام کو شہیدکرنے پرفخرکرتے تھے کہ ان کوقتل کرناہمارے ایمان کے پختہ ہونے کی علامت ہے ، وہ یہودی کہتے تھے کہ ہماری عوام چونکہ جاہل ہیں وہ ان کی عجیب وغریب باتیں سن کر ان پرایمان لے آتے ہیں مگرہم معجزات دیکھ کربھی دھوکہ نہیں کھاتے اورجو بات ہمارے مذہب اورقاعدے کے خلاف ہواسے ہرگزنہیں مانتے کیونکہ ہمارے دل نور کے غلافوں میں لپٹے ہوئے ہیں ۔
(۷) یہودیوں کے کفرکی وجہ یہ ہے کہ وہ گزشتہ انبیاء کرام علیہم السلام کے انکاراوران کی گستاخیوں کے سبب رحمت سے دورکردیئے گئے اورانہوںنے اپنی لیاقت کو بگاڑلیامثلاجب انہوںنے ایک معجزے یاایک نبی (ﷺ) یااللہ تعالی کے ایک حکم شریف کاانکارکیاتو ان کے دلوں میں سختی اورسیاہی پیداہوگئی جب دوسرے نبی یاحکم الہی کاانکارکیاتووہ سختی بڑھ گئی آخرکارانکارکرتے کرتے اب وہ سختی اس حدتک پہنچ گئی کہ اس میںکوئی وعظ وغیرہ اثرنہیں کرتا۔ خیال رہے کہ کسی بات کادل پراثرتب پڑتاہے جب کہ بات کرنے والے کاوقار دل میں ہو،چونکہ بنی اسرائیل کے یہودیوںکے دلوں میں انبیاء کرام علیہم السلام کی عظمت نہ تھی اس لئے وہ انبیاء کرام علیہم السلام خصوصاً سیدالانبیاء ﷺکی تعلیم کو قبول نہ کرتے تھے اس لئے رسول اللہ ﷺنے تبلیغ کرنے سے پہلے اپنی پہچان کروائی پھراحکام شرعیہ کی تبلیغ کی۔
(۸)اس سے یہ بھی معلوم ہواکہ جو شخص دین کے سامنے اکڑے یعنی کسی بھی دینی حکم پر اکڑجائے اوراس پر عمل نہ کرے یادینی حکم کو ناپسندکرے ایساشخص دین اسلام سے خارج ہے ۔
(۹) تعصب اورتصلب میں فرق ہے ۔ تصلب نہایت عمدہ خوبی ہے اورتعصب سخت عیب ہے ۔ تصلب کے معنی ہیں دین میں پختگی کہ دین حق پراس طرح مضبوط ہوکہ شیطان کی دھوکہ بازیاں اورکفارکے فریب میں نہ آئے اوردنیاوی مصیبتوں اورپریشانیوں میں بھی دین پر قائم رہے ، تعصب یہ ہے کہ اپنی جھوٹی بات پر ضدکرے اوریاروں اوردوستوں کی جھوٹی بات کی حمایت کرے اوراپنے مخالف کی حقانیت ظاہرہونے پر بھی اس کاانکارہی کئے جائے اوراپنے کو نیک اوردوسروں کو بدسمجھے ۔ خلاصہ کلام یہ ہے کہ حق بات پر ثابت قدم رہنے کانام تصلب ہے اورباطل پر ضدکرنے کا نام تعصب ہے ان یہودیوں نے اپنے تعصب کو تصلب سمجھااوراس پر فخرکیا۔ اوریہی حال ہمارے دور کے دین دشمنوں کاہے کہ وہ دین سے دوری کو تصلب فی الدین سمجھتے ہیں جبکہ تصلب فی الدین کو تعصب گردانتے ہیں۔
(۱۰) اس آیت کریمہ سے مسئلہ ختم نبوت کی بھی وضاحت ہوتی ہے وہ یوں کہ حضرت سیدناموسی علیہ السلام کی کتاب کی حفاظت کے لئے انبیاء کرام علیہم السلام بھیجتے جاتے رہے اوران کااختتام حضرت سیدناعیسی علیہ السلام کی بعثت پر ہوامگررسو ل اللہ ﷺکی کتاب کے لئے یہ نہ فرمایاکہ اس کی تبلیغ کے لئے انبیاء کرام علیہم السلام بھیجے گئے ، اگرقرآن کریم کی تبلیغ کے لئے بھی انبیاء کرام علیہم السلام نے آناہوتاتواللہ تعالی ان کاذکربھی فرماتا، مگرتبلیغ قرآن کریم کے لئے اللہ تعالی نے انبیاء کرام علیہم السلام کو نہ بھیجابلکہ فرمایاکہ رسول اللہ ﷺخاتم النبیین اورتاجدارختم نبوت ہیں (ﷺ)

Leave a Reply