تفسیر سورہ بقرہ آیت ۸۴ تا ۸۶ ۔ از تفسیر ناموس رسالت

قرآن کریم کے بعض احکامات کوماننے والے اوربعض کاانکارکرنے والوں کارد

{وَ اِذْ اَخَذْنَا مِیْثٰقَکُمْ لَا تَسْفِکُوْنَ دِمَآء َکُمْ وَلَا تُخْرِجُوْنَ اَنْفُسَکُمْ مِّنْ دِیَارِکُمْ ثُمَّ اَقْرَرْتُمْ وَاَنْتُمْ تَشْہَدُوْنَ}(۸۴){ثُمَّ اَنْتُمْ ہٰٓـؤُلَآء ِ تَقْتُلُوْنَ اَنْفُسَکُمْ وَتُخْرِجُوْنَ فَرِیْقًا مِّنْکُمْ مِّنْ دِیٰرِہِمْ تَظٰہَرُوْنَ عَلَیْہِمْ بِالْاِثْمِ وَالْعُدْوٰنِ وَ اِنْ یَّاْ تُوْکُمْ اُسٰرٰی تُفٰدُوْہُمْ وَہُوَ مُحَرَّمٌ عَلَیْکُمْ اِخْرَاجُہُمْ اَفَتُؤْمِنُوْنَ بِبَعْضِ الْکِتٰبِ وَتَکْفُرُوْنَ بِبَعْضٍ فَمَا جَزَآء ُ مَنْ یَّفْعَلُ ذٰلِکَ مِنْکُمْ اِلَّا خِزْیٌ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَیَوْمَ الْقِیٰمَۃِ یُرَدُّوْنَ اِلٰٓی اَشَدِّ الْعَذَابِ وَمَا اللہُ بِغٰفِلٍ عَمَّا تَعْمَلُوْنَ}(۸۵){اُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ اشْتَرَوُا الْحَیٰوۃَ الدُّنْیَا بِالْاٰخِرَۃِ فَلَا یُخَفَّفُ عَنْہُمُ الْعَذَابُ وَلَا ہُمْ یُنْصَرُوْنَ}(۸۶)
ترجمہ کنزلایمان :اور جب ہم نے تم سے عہد لیا کہ اپنوں کا خون نہ کرنا اور اپنوں کو اپنی بستیوں سے نہ نکالنا پھر تم نے اس کا اقرار کیا اور تم گواہ ہو ،پھر یہ جو تم ہو اپنوں کو قتل کرنے لگے اور اپنے میں ایک گروہ کو ان کے وطن سے نکالتے ہو ان پر مدد دیتے ہو (ان کے مخالف کو)گناہ اور زیادتی میں اور اگر وہ قیدی ہو کر تمہارے پاس آئیں توبدلا دے کر چھڑا لیتے ہو اور ان کا نکالنا تم پر حرام ہے تو کیا خدا کے کچھ حکموں پر ایمان لاتے ہو اور کچھ سے انکار کرتے ہو تو جو تم میں ایسا کرے اس کا بدلہ کیا ہے مگر یہ کہ دنیا میں رسوا ہو اور قیامت میں سخت تر عذاب کی طرف پھیرے جائیں گے اور اللہ تمہارے کَوْتکَوْں سے بے خبر نہیں ۔یہ ہیں وہ لوگ جنہوں نے آخرت کے بدلے دنیا کی زندگی مَوْل لی تو نہ ان پر سے عذاب ہلکا ہو گااور نہ ان کی مدد کی جائے گی ۔
ترجمہ ضیاء الایمان: اوریادکروجب ہم نے تم سے عہد لیاکہ تم اپنوںکوقتل نہ کرنااوراپنوں کو اپنی بستیوں سے نہ نکالنا، پھرتم نے اس کااقرارکیااورتم خود اس پر گواہ ہو،پھرتم خود ہی اپنوں کو قتل کرنے لگے اوراپنوں میں سے ایک گروہ کو اپنے وطن سے نکالنے پر ان کے مخالف کو گناہ اورزیادتی میں مدد دیتے ہوئے اورتمھارے اپنے قیدی بن کر تمھارے پاس آئیں توتم بدلہ دے کر ان کو قید سے آزادکروالیتے ہواوران کانکالناہی حرام ہے تو تم اللہ تعالی کے کچھ احکامات پر ایمان لاتے ہواورکچھ کاانکارکرتے ہو، توجو بھی تم میں سے ایساکرے اس کی کیاسزاہے ، مگریہ کہ دنیامیں وہ ذلیل ورسواہواورقیامت کے دن سخت عذاب کی طرف پھیرے جائیں گے اوراللہ تعالی تمھارے اعمال سے بے خبرنہیں ہے ۔ یہی ہیں وہ لوگ جنہوںنے آخرت کے بدلے میں دنیاکی زندگی خریدلی ، نہ توان سے عذاب ہلکاہوگااورنہ ہی ان کی مددکی جائے گی۔
یہ ذہن میں رہے کہ مدینہ منورہ میں رسول اللہ ﷺکی آمدشریفہ سے پہلے تقریباً پانچ قبائل آباد تھے ، دوخالص عرب تھے یعنی اوس اورخزرج ۔ اورتین قبائل یہودیو ںکے تھے ، یعنی بنوقریظہ ،بنونضیراوربنوقینقاع۔ ان قبائل میں مختلف اوقات میں لڑائیاں ہوتی تھیں ، عرب آپس میں بھی لڑتے تھے اوریہودیوں کے ساتھ بھی لڑتے تھے اوراسی طرح یہودی آپس میں لڑتے تھے اوراوس وخزرج کے ساتھ بھی لڑتے تھے ۔ کیونکہ ان کے آپس میں معاہدے ہوتے تھے اورعہدشکنی پر لڑتے تھے۔

یہودیوں کاکچھ احکامات پر عمل کرنااورکچھ کوترک کرنا

قَالَ السُّدِّیُّ: إِنَّ اللَّہَ تَعَالَی أَخَذَ عَلَی بَنِی إِسْرَائِیلَ فِی التَّوْرَاۃِ أَنْ لَا یَقْتُلَ بَعْضُہُمْ بَعْضًا وَلَا یُخْرِجَ بَعْضُہُمْ بَعْضًا مِنْ دِیَارِہِمْ، وَأَیُّمَا عَبْدٍ أَوْ أَمَۃٍ وَجَدْتُمُوہُ مِنْ بَنِی إِسْرَائِیلَ فَاشْتَرُوہُ بِمَا قَامَ مِنْ ثَمَنِہِ وَأَعْتِقُوہُ، فَکَانَتْ قُرَیْظَۃُ حُلَفَاء َ الْأَوْسِ وَالنَّضِیرُ حُلَفَاء َ الْخَزْرَجِ، وَکَانُوا یَقْتَتِلُونَ فِی حَرْبٍ سنین، فیقاتل بنو قریظۃ مع حلفائہم وبنو النضیر مع حلفائہم وإذا غلبوا خرّبوا دِیَارَہُمْ وَأَخْرَجُوہُمْ مِنْہَا، وَإِذَا أُسِرَ رَجُلٌ مِنَ الْفَرِیقَیْنِ جَمَعُوا لَہُ حَتَّی یَفْدُوہُ وَإِنْ کَانَ الْأَسِیرُ مِنْ عَدُوِّہِمْ، فَتُعَیِّرُہُمُ الْعَرَبُ وَتَقُولُ :کَیْفَ تُقَاتِلُونَہُمْ وَتَفْدُونَہُمْ؟قَالُوا: إِنَّا أُمِرْنَا أَنْ نَفْدِیَہُمْ، فَیَقُولُونَ: فَلِمَ تقاتلوہم؟ قالوا: إنا نستحی أن نستذل حلفاء نا، فعیّرہم اللہ تعالی، فَقَالَ: ثُمَّ أَنْتُمْ ہؤُلاء ِ تَقْتُلُونَ أَنْفُسَکُمْ وَفِی الْآیَۃِ تَقْدِیمٌ وَتَأْخِیرٌ، وَنَظْمُہَا: وَتُخْرِجُونَ فَرِیقًا مِنْکُمْ مِنْ دِیَارِہِمْ تَظَاہَرُونَ عَلَیْہِمْ بِالْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ، وَہُوَ مُحَرَّمٌ عَلَیْکُمْ إِخْرَاجُہُمْ، وَإِنْ یَأْتُوکُمْ أُسَارَی تُفَادُوہُمْ۔

ترجمہ :امام السدی رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیںکہ بے شک اللہ تعالی نے بنی اسرائیل سے توراۃ میں یہ عہد لیاتھاکہ تم میں کوئی بھی بعض بعض کو قتل نہ کرے اورنہ ہی تمھارابعض تمھارے بعض کو ان کے گھروں سے نکالے اوربنی اسرائیل کاکوئی بھی غلام یالونڈی تم پائوتواسے تم نے آزاد کرواناہے ۔ یہودیوں کاقبیلہ بنوقریظہ انصار کے قبیلہ اوس کاحلیف تھااوریہودیوں کاقبیلہ بنونضیر انصار کے قبیلہ خزرج کاحلیف تھااورجنگ میں قتل کرتے تھے ۔
بنوقریظہ کے یہودی اپنے حلیفوں کے ساتھ مل کرلڑے اوربنونضیر کے یہودی اپنے حلیفوں کے ساتھ ملکراپنے یہودیوں کے خلاف لڑتے تھے ، جب ان میں کوئی فریق دوسرے فریق پر غالب آجاتاتو دوسروں کے شہروں کو ویران کردیتاتھااوران کو گھروں سے بھی نکال د یتا،اورفریقین میں سے کسی کاکوئی شخص قیدہوجاتاتو پھرآپس میں مال جمع کرتے اوراس کو چھڑوالیتے تھے ۔اگرچہ وہ قیدی ان کادشمن ہی کیوں نہ ہوتاتواہل عرب ان کی اس حرکت پر ان کو عاردلاتے تھے کہ جب وہ تمھارے ہتھے چڑھ جائیں توتم ان کو قتل کرتے ہواوران کو ان کے گھروں سے بھی نکال دیتے ہواورجب وہ قیدی بن جائیں تو پھرپیسے جمع کرکے ان کو چھڑابھی لیتے ہو؟ یہودیوں نے مشرکین کو جواباًکہا: یہ اللہ تعالی کاحکم ہے کہ جب تم میں کوئی قیدی بن جائے تواس کو تم فدیہ دے کرآزاد کرائو، اس پر اہل عرب ان کو کہتے کہ تم پھران کو قتل کیوں کرتے ہواوران کو ان کے گھروں سے کیوں نکالتے ہو؟ تویہودی جواباًکہتے کہ اگرہم ان کو قتل نہ کریں توپھرہمارے حلیف کہیں گے کہ تم نے ہمارے ساتھ کیاہواعہد پورانہیں کیا۔ان کی اسی حرکت پر اللہ تعالی نے ان کو عار دلائی ۔
(تفسیر البغوی : محیی السنۃ ، أبو محمد الحسین بن مسعود بن محمد بن الفراء البغوی الشافعی (۱:۱۳۹)

امام بغوی الشافعی المتوفی :۵۱۰ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں
فَکَأَنَّ اللَّہَ تَعَالَی أَخَذَ عَلَیْہِمْ أَرْبَعَۃَ عُہُودٍ: تَرْکَ الْقِتَالِ وَتَرْکَ الْإِخْرَاجِ وَتَرْکَ الْمُظَاہَرَۃِ عَلَیْہِمْ مَعَ أَعْدَائِہِمْ وَفِدَاء َ أَسْرَاہُمْ فَأَعْرَضُوا عَنِ الْکُلِّ إِلَّا الْفِدَاء َ،قَالَ اللَّہُ تَعَالَی:أَفَتُؤْمِنُونَ بِبَعْضِ الْکِتابِ وَتَکْفُرُونَ بِبَعْضٍ، قَالَ مُجَاہِدٌ یَقُولُ:إِنْ وَجَدْتَہُ فِی یَدِ غَیْرِکَ فَدَیْتَہُ وَأَنْتَ تَقْتُلُہُ بِیَدِکَ، فَما جَزاء ُ مَنْ یَفْعَلُ ذلِکَ مِنْکُمْ: یَا مَعْشَرَ الْیَہُودِ، إِلَّا خِزْیٌ: عَذَابٌ وَہَوَانٌ، فِی الْحَیاۃِ الدُّنْیا، فَکَانَ خِزْیُ قُرَیْظَۃَ الْقَتْلَ وَالسَّبْیَ، وَخِزْیُ النَّضِیرِ الْجَلَاء َ وَالنَّفْیَ مِنْ مَنَازِلِہِمْ إِلَی أَذَرِعَاتٍ وأریحا مِنَ الشَّامِ، وَیَوْمَ الْقِیامَۃِ یُرَدُّونَ إِلی أَشَدِّ الْعَذابِ، وہو عَذَابِ النَّارِ، وَمَا اللَّہُ بِغافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ۔
ترجمہ:امام محی السنہ ابومحمدالحسین البغوی الشافعی المتوفی :۵۱۰ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ گویاکہ اللہ تعالی نے بنی اسرائیل سے چاروعدے لئے تھے (۱) تم نے اپنوں کو قتل نہیں کرنا(۲) تم نے اپنوں کو اپنے علاقہ سے نہیں نکالنا(۳) اپنوں کے خلاف ان کے کسی دشمن کی مددنہ کرنا(۴)جہاں کہیں تم کو تمھارااپناکوئی قیدی ملے تو اس کو مال دے کرآزادکرواناہے۔
یہودیوںنے اللہ تعالی کے تمام وعدے پس پشت ڈال دئیے سوائے فدیہ دے کرچھڑانے کے ۔
حضرت سیدناامام مجاہد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اگرتو اپنے بھائی کو غیرکے ہاتھ میں پاتاہے تو اس کو پیسے دے کرچھڑوالیتاہے اورخود اسے اپنے ہاتھ سے قتل کردیتاہے ۔ اے گروہ یہود! تمھاری سزاعذاب وذلت ہے ، دنیامیں بھی اورآخرت میں بھی ۔
دنیامیں بنوقریظہ کی رسوائی اس طرح ہوئی کہ رسول اللہ ﷺنے پہلے ان کو قیدکیاپھران کے مردوں کو قتل کردیااوران کی خواتین اوربچوں کو غلام بنا لیااوردنیامیں بنونضیر کی رسوائی جلاوطنی اورشام کے علاقہ اریحااورمیدانی علاقوں کی طرف ملک بدری تھی اورقیامت کے دن آگ کاعذاب بھی ان کے لئے ہے۔
(تفسیر البغوی : محیی السنۃ ، أبو محمد الحسین بن مسعود بن محمد بن الفراء البغوی الشافعی (۱:۱۳۹)
مسلمانوں پر کافروں کے قوانین جاری کرنے والے
قُلْتُ:وَلَعَمْرُ اللَّہِ لَقَدْ أَعْرَضْنَا نَحْنُ عَنِ الْجَمِیعِ بِالْفِتَنِ فَتَظَاہَرَ بَعْضُنَا عَلَی بَعْضٍ!لَیْتَ بِالْمُسْلِمِینَ، بَلْ بِالْکَافِرِینَ!حَتَّی تَرَکْنَا إِخْوَانَنَا أَذِلَّاء َ صَاغِرِینَ یَجْرِی عَلَیْہِمْ حُکْمُ الْمُشْرِکِینَ، فَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ إِلَّا بِاللَّہِ الْعَلِیِّ الْعَظِیمِ۔
ترجمہ:امام ابوعبداللہ محمدبن احمدالقرطبی المتوفی : ۶۷۱ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ میں کہتاہوں کہ اللہ تعالی کی قسم ! ہم نے فتنوں کے ڈرکی وجہ سے اللہ تعالی کے تمام احکامات کو ترک کردیاہے اورہم نے کافروں کی مددکی مسلمانوں کے خلاف ۔ مسلمانوں پر افسوس ہے بلکہ کافروںپر افسوس ہے ۔ہم نے اپنے بھائیوں کو ذلیل ورسواچھوڑ دیااوراہل اسلام پر مشرکین کے قانون نافذ کئے ۔ { فَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ إِلَّا بِاللَّہِ الْعَلِیِّ الْعَظِیمِ}
(تفسیر القرطبی: أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن أبی بکر بن فرح الأنصاری الخزرجی شمس الدین القرطبی (۲:۱۹)

معارف ومسائل

(۱) آپس میں ایک دوسرے کوقتل کرناجس طرح ہماری شریعت میں حرام ہے اسی طرح حضرت سیدناموسی علیہ السلام کی شریعت میں بھی حرام تھا۔
(۲) ان آیات میں اللہ تعالی نے یہودیوں کے ایمان کا جو نقشہ بیان فرمایاہے ، اگرانصاف کی نظرسے دیکھاجائے تو آج مسلمانوں کی حالت زار بھی اس سے مختلف نہیں ہے بلکہ ان سے بھی آگے ہے ۔
(۳) اوریہ بھی ذہن میں رہے کہ اللہ تعالی کی بھی یہی سنت ہے کہ اس کے فرمانبرداربندے ہی مقام پر پہنچتے ہیں اورنافرمان اوراس کی آیات مبارکہ کوترک کرنے والے ذلتوں کی پستیوں میں گرتے چلے جاتے ہیں۔
(۴) آج مسلمانوں کی حالت زار بھی یہی ہے کہ آسمان نے انہیں ثریاسے اٹھاکر زمینی ذلتوں میں اتاراہے کیونکہ وہ یہودیوں کی اقتداء میں اتنے منہمک ہوئے کہ قرآن کریم کو ترک کرکے ان کے نقش قدم پر چلنے لگے توان کاحال بھی وہی ہوگیاکہ قرآن کریم کے بعض حصے کو مانتے ہیں اوربعض کاانکارکرتے ہیں ۔
(۵) یہ بھی غورکرنے کی بات ہے کہ مسلمان جو ساری دنیاپر چھایاہواتھاآخرکس وجہ سے اتنی پستیوں میں چلاگیا، اس کی وجہ سب کو معلوم ہے کیونکہ جواللہ تعالی کانہیں بنتاتووہ اپنوں کااوراپنابھی نہیں رہتا۔
(۶) آخر مسلمان یہ کیوں بھول گیاکہ ہم توان لوگوں کے وارث ہیں جنہوں نے اپنی ساری زندگی خربوز ہ نہیں کھایاکہ ان کو اس کے کھانے کاطریقہ معلوم نہیں تھاکہ رسول اللہ ﷺنے کس طرح کھایاتھا۔ آج سوائے چندنہتے اوربے سروسامان علماء اوران کے شاگردوں کے علاوہ اسلام کانام اوراسلام کادرد کسی کے دل ودماغ میں نہیں ہے ، اورپھرانہیں علماء کی برکت سے آج جودینی غیرت ہے وہ نظرآتی ہے اور پورامعاشرہ اوربے دین حکام سمیت انہیں علمائے حق کو اس راستے سے ہٹانے میں رات دن کوشاں ہے ۔
(۷) یہ ذہن میں رہے کہ اگریہودی مجرم ہے کہ وہ توراۃ کامنکرہے کہ اس کاتوراۃ پر عمل نہیں ہے تواس بارے میں ہمارے حکمران اورعوام کبھی کسی سے پیچھے نہیں ہیں ، وہ تورات کامنکرتویہ قرآن کریم کامنکرہے۔
(۸)بنی اسرائیل کا عملی ایمان ناقص تھا کہ کچھ حصے پر عمل کرتے تھے اور کچھ پر نہیں اور اس پر فرمایا گیا کہ کیا تم کتاب کے کچھ حصے پر ایمان رکھتے ہواور کچھ سے انکار کرتے ہو۔ اس آیت سے معلوم ہواکہ شریعت کے تمام احکام پر ایمان رکھنا ضروری ہے اور تمام ضروری احکام پر عمل کرنا بھی ضروری ہے ۔کوئی شخص کسی وقت بھی شریعت کی پابندی سے آزاد نہیں ہوسکتا اورخود کوشیخ طریقت کا نام دے کر یا کسی بھی طریقے سے شریعت سے آزاد کہنے والے کافر ہیں۔
(۹) ان یہودیوں سے جو وعدے لئے گئے ان میں جو آسان تھے ان پر تووہ عمل کرتے تھے اورجومشکل تھے ان کو ترک کردیتے تھے ، حالانکہ ان پر پہلے امور بھی یعنی ان کو قتل کرنااوراپنے علاقہ سے نکالنابھی حرام تھااوران کو جلاوطن کرنااوران کے گھروں پر قبضہ کرنابھی حرام تھااوران کے خلاف کفارکی مددکرنابھی حرام تھامگروہ پہلے تمام امور کو ترک کردیتے یعنی ان کے خلاف کرتے تھے سوائے فدیہ دے کر اپنے لوگوں کو آزادکروانے کے ۔
آج اگرہم غورکریں کہ وہ یہودی بھی ہمارے حکمرانوں سے پیچھے تھے کیونکہ وہ قتل کرتے اوران کے خلاف کفارکی مددکرتے اوراتنے ظالم ہوکر بھی اپنے دشمنوں کو یعنی یہودیوں کو بھی اپناہم مذہب ہونے کی بناء پر آزاد کرواتے تھے ۔
ہمارے حکمران کافروں کی مددکرتے ہیں اہل اسلام کے خلاف ، انہوںنے افغانستان میں امریکہ جیسے دہشت گرد کی مددکی اوراہل اسلام کو قتل کروایااوراسی طرح اب کشمیریوں کاقتل کروارہے ہیں اورکشمیریوں کے خلاف انڈیاکے مشرکین کی مددکررہے ہیں ۔ اوراسی طرح انہوں نے اہل اسلام کو پکڑپکڑکرامریکہ کے حوالے کیا، اس معاملے میں ہمارے حکمران یہودیوں سے بھی چارقدم آگے نکلے ۔ کیونکہ ان ذلیلوں نے عافیہ صدیقی کو پکڑکر امریکہ کے حوالے کیااوران کے علاوہ کتنے مسلمان لوگ ہیں جن کو پکڑ کر کافروں کے حوالے کیاہے ۔
(۱۰)یہودی توراۃ کے بعض احکامات کومانتے تھے جبکہ بعض کاانکارکرتے تھے اورشریعت کاوہ حکم جو ان کی خواہش نفس کے موافق اورطبیعت کے ساتھ موافقت رکھتااس کو مان لیتے تھے اورجوان کی طبیعت کے ساتھ موافقت نہ رکھتااس کو ترک کردیتے تھے ۔ اسی لئے اللہ تعالی نے فرمایاکہ تم بعض کتاب پرایمان لاتے ہواوربعض کتاب کے ساتھ کفرکرتے ہو۔ حالانکہ ایمان میں تجزی اورتقسیم جاری ہی نہیں ہوتی ، سارے احکامات الہیہ کو ماننے کانام ایمان جو شخص اللہ تعالی کے کسی ایک بھی حکم کے ماننے سے انکارکرتاہے وہ کافرہے ۔
(۱۱) اس آیت مبارکہ سے معلوم ہواکہ جوشخص شریعت مبارک کے اس حکم کو مانے جو اس کی طبیعت اوراس کے مزاج کے ساتھ موافقت رکھتاہو اورجو حکم الہی اس کی طبیعت کے مخالف ہواس کو قبول نہ کرنے والاکافرہے ۔
(۱۲) اسی طرح دنیاوی حکومتوں میں کفرکاقانون چلانابھی رب تعالی کے قرآن کاانکارہے اوررب تعالی کے قرآن کریم کاانکاراس کے ساتھ بغاوت ہے ۔
(۱۳)جو مولوی آپکو سکھاتا ہے کہ سنتِ نبوی ﷺصرف اور صرف لباس پہننا ، حلیہ اور کھانے پینے کے طریقے کا نام ہے وہ جھوٹ بولتا ہے ، حلیہ ، لباس ، کھانے پینے کا طریقہ ، رسول اللہ ﷺکی سنتوں کا صرف ۱۰فیصد حصہ ہے ، باقی۹۰فیصد جدوجہد ، معاشرے کی برائیوں کو ختم کرنے کی کوششیں ، معاشرے میں ظالموں کی زد سے غلاموں کو بچانے کی کوششیں ، امور حکومت ، امور جہاد ، امور انصاف ، امور معیشت ہیں ، جو کہ ایک انتہائی لمبا اور کٹھن راستہ ہے اس لیے مولویوں نے ۱۰فیصد سنتوں ، حلیہ ، لباس ، کھانے پینے کے طریقے کو ہی کل سنت قرار دے کر سخت اور پرخطر راستے سے اپنی جان بچائی ہوئی ہے ، لیکن خود کہتے ہیں :ایک بھی سنت کا تارک ولی اللہ نہیں ہوسکتا ،
جبکہ خود ۹۰فیصد سنتوں کے تارک ہیں ، خیرات و داد رسی بھی رسول اللہ ﷺکی سنت ہے ، معاشرے میں ظلم بڑھ جائے تو اسکے خلاف لڑنا بھی سنت رسولﷺہے ، دشمنوں سے حکمت کے تحت معاھدے کرنا بھی حضور ﷺکی سنت ہے ، دشمنوں سے جنگ کرنا بھی سنت ِ رسول ﷺہے ، دشمنوں کو معاف کردینا بھی حضور ﷺکی سنت ہے ، کار ِ حکومت چلانا بھی حضور ﷺکی سنت ہے ،اپنے گستاخوں کے قتل کے لئے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو روانہ کرنابھی رسول اللہ ﷺکی سنت ہے ،گستاخوں کے قتل ہونے پر خوش ہونابھی رسول اللہ ﷺکی سنت مبارکہ ہے ۔
لیکن ہمارے علماء نے سیدھا سیدھا رستہ نکالا کہ :’’جس دن خلافتِ راشدہ کا نظام آگیا نا ؟ اس دن سب سے بڑا سیاستدان میں ہوں گا‘‘
کیا خلافتِ راشدہ کا نظام اوپر سے گرے گا ؟ یا صبح کو اچانک ہماری آنکھ کھلے گی اور خلافت قائم ہوجائے گی ؟ یہ تو ویسی ہی بات ہوگئی کہ جیسے تحریک پاکستان میںذرہ بھرکوشش نہ کرنے والے پاکستان بننے کے بعد بڑے بڑے سیاستدان بن گئے ، لیکن انکو توفیق نہ ہوئی کہ پاکستان بنانے کے لیے اپنا ایک آنہ اور ایک فرد بھی قربان کریں ، تو اس وقت مسئلہ یہ ہے کہ حضور ﷺکی سنت کو کیسے ’’قائم‘‘کیا جائے ؟مطلب یہ کہ کس طرح سے رسول اللہ ﷺکے طریقہ حکومت کو پاکستان میں رائج کیا جائے ، یہی سب سے بڑا مسئلہ ہے نہ کہ یہ کہ نظام بحال ہونے کے بعد کون کون سا مولوی سیاست کرے گا ۔
خدا کے لیے آنکھیں کھولو جب تک معاشرے میں یہ کفریہ نظام نافذ ہے تب تک تمہارا اس ۱۰فیصد سنت پر چلنا جو کہ حلیے لباس اور کھانے پینے کے طریقے سے متعلق ہے کوئی بڑا کارنامہ نہیں ،داڑھی تو سکھ یہودی اور عیسائی بھی رکھ لیتے ہیں ،کچے برتنوں میں تو ہندو سادھو ، جوگی اور تارک دنیا عیسائی راہب بھی کھا لیتے ہیں ، سر پر پگڑی تو آج سے ۱۰۰سال پہلے پورا پنجاب پہنتا تھا رسول اللہ ﷺکے عاشق ہو تو حضور ﷺکی صرف آسان سنتوں پر اکتفا کرکے نا بیٹھ جاؤ اس مشکل اور کٹھن سنت کو زندہ کرو جو حضرت سیدناامام حسین رضی اللہ عنہ کے بعد سے جمیع مسلمانوں نے ترک کردی ہے ۔
(۱۴)اسلام میں پورے کے پورے داخل ہوجاؤ.ہمارے مالک و خالق کا فرمان ہے:
بعض مدعیان اسلام اپنی کم علمی کی وجہ سے دین اسلام کا ایک ناقص تصور لئے ہوئے بڑی بیباکی اور دہڑلے سے بسااوقات یہ کہتے سنائی دیتے ہیں کہ فلاں معاملے میں مذہب کی بات نہ کرواس سلسلے میں قرآن و سنت کو بیچ میں لے کر نہ آؤ.
ایسی باتیں سننے کے بعد دو باتوں میں سے ایک کا امکان ہے یا تو ان کے ذہن میں دین اسلام کی جامعیت کا تصور موجود نہیں ہے ،وہ سمجھتے ہیں کہ اسلام چند عبادات اور عقائد کا نام ہے۔باقی رہے ہمارے دنیوی معاملات ان کا ہمارے مذہب سے کوئی تعلق نہیں، ان معاملات میں ہم اپنی مرضی کے پابند ہیں، ان معاملات میں مذہب کو بیچ میں لانے کی کوئی ضرورت نہیں،ایسے حضرات کی خدمت میں عرض ہے کہ اسلام محض چند عقائد اور عبادات کا نام نہیں بلکہ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات اور نظام زندگی کا نام ہے ،مزید وضاحت کے لئے عرض ہے کہ اسلام پانچ چیزوں کے مجموعے کا نام ہے:
عقائد، عبادات، معاملات، معاشرت اور اخلاق اور زندگی کا کوئی گوشہ ایسا نہیں جو ان پانچ شعبوں سے باہر ہو۔
دوسرا امکان یہ ہے کہ ان حضرات کے ذہن میں اسلام کی جامعیت کا تصور تو موجود ہو مگر وہ اپنی طرف سے اسے صرف چند عقائد اور عبادات تک محدود رکھنا چاہتے ہیں۔گویا وہ آدھے مسلمان اور آدھے کافر رہنا چاہتے ہیں۔جبکہ اسلام یہ کہتا ہے جو چاہے ایمان لائے اور جو چاہے کفر کرے لیکن یہ بین بین والا معاملہ نہیں چلے گا۔اللہ پاک کو مان لیا ہے تو پھر ہر بات اللہ رب العالمین کی ہی ماننی پڑے گی۔ہمارے جسم کا خالق بھی وہی ہے، رازق بھی وہی ہے اور مالک بھی وہی ہے تو لامحالہ مرضی بھی اسی کی چلے گی۔

Leave a Reply