تفسیر سورہ بقرہ آیت ۷۹ ۔ از تفسیر ناموس رسالت

یہودیوں کی رسول اللہ ﷺکے ساتھ دشمنی رکھنا اورقرآن کریم کاانکشاف کرنا

{فَوَیْلٌ لِّلَّذِیْنَ یَکْتُبُوْنَ الْکِتٰبَ بِاَیْدِیْہِمْ ثُمَّ یَقُوْلُوْنَ ہٰذَا مِنْ عِنْدِ اللہِ لِیَشْتَرُوْا بِہٖ ثَمَنًا قَلِیْلًا فَوَیْلٌ لَّہُمْ مِّمَّا کَتَبَتْ اَیْدِیْہِمْ وَوَیْلٌ لَّہُمْ مِّمَّا یَکْسِبُوْنَ}(۷۹)
ترجمہ کنزالایمان:تو خرابی ہے ان کے لئے جو کتاب اپنے ہاتھ سے لکھیں پھر کہہ دیں یہ خدا کے پاس سے ہے کہ اس کے عوض تھوڑے دام حاصل کریں تو خرابی ہے ان کے لئے ان کے ہاتھوں کے لکھے سے اور خرابی ان کے لئے اس کمائی سے ۔
ترجمہ ضیاء الایمان: بربادی ہے ان کے لئے جو کتاب اپنے ہاتھ سے لکھ کر کہتے ہیں کہ یہ اللہ تعالی کی طرف سے ہے ، تاکہ وہ اس کے عوض تھوڑی قیمت حاصل کریں ، توبربادی ہے ان کے لئے ، ان کے ہاتھوں کے لکھے ہوئے سے اورخرابی ہے ان کے لئے ان کی اس کمائی سے ۔
شان نزول
روی ان أحبار الیہود خافوا ذہاب مآکلہم وزوال ریاستہم حین قدم النبی علیہ السلام المدینۃ فاحناوا فی تعویق أسافل الیہود عن الایمان فعمدوا الی صفۃ النبی علیہ السلام فی التوراۃ وکانت ہی فیہا حسن الوجہ جعد الشعر اکحل العین ربعۃ ای متوسط القامۃ فغیروہا وکتبوا مکانہ طوال ازرق سبط الشعر وہو خلاف الجعد فاذا سألہم سفلتہم عن ذلک قرأوا علیہم ما کتبوا فیجدونہ مخالفا لصفتہ علیہ السلام فیکذبونہ۔
ترجمہ :جب رسول اللہ ﷺنے اعلان نبوت فرمایاتویہودیوں کے علماء کوخطرہ لاحق ہواکہ آپ ﷺکے اوصاف جو توراۃ میں درج ہیں ، عوام کو معلوم ہوگئے تو پھرہمارے کھانے پینے اورعزت و جاہ کے تمام راستے بندہوجائیں گے ، انہوںنے توراۃ کے اندرجو رسول اللہ ﷺکے اوصاف شریفہ درج تھے ان کو تبدیل کردیااوراپنی قوم کو تبدیل شدہ اوصاف بیان کرتے جورسول اللہ ﷺکے اوصاف شریفہ کے برعکس تھے ، اسی لئے ان کی عوام رسول اللہﷺکی تکذیب کرتی رہی ۔ اس حیلہ سے ان یہودیوں کے نذرانے بحال رہے ۔

رسول اللہ ﷺکے اوصاف جو توراۃ میں موجود تھے وہ کچھ اس طرح کہ آپ ﷺحسین چہرہ والے ، گھنگریالے بالوں والے ، شرمیلی آنکھوں والے اورمتوسط قدوالے ﷺہیں۔انہوںنے ان اوصاف شریفہ کی جگہ یہ لکھ دیاکہ آپ ﷺکاقدلمبااورآنکھیں نیلی اورلٹکے ہوئے اورسیدھے بال ۔ نعوذباللہ من ذالک ۔ توراۃ میں رسول اللہ ﷺکے متعلق بیان تھااورآپ ﷺکے حسن وجمال کاذکربھی ۔ جب یہودی اپنے علماء سے سوال کرتے تو وہ پچھلے اوصاف بیان کرتے جس کی وجہ سے یہودی عوام رسول اللہ ﷺکی پیروی اورآپ ﷺپرایمان لانے سے محروم رہے ۔
(روح البیان:إسماعیل حقی بن مصطفی الإستانبولی الحنفی الخلوتی , المولی أبو الفداء (۱:۱۶۸)

قریش بھی یہودیوں کے کہنے پر انکارکرتے تھے

وَأخرج ابْن أبی حَاتِم عَن ابْن عَبَّاس فِی قَوْلہ (فویل للَّذین یَکْتُبُونَ الْکتاب)الْآیَۃقَالَ:ہم أَحْبَار الْیَہُود وجدوا صفۃ النَّبِی صلی اللہ عَلَیْہِ وَسلم مَکْتُوبَۃ فِی التَّوْرَاۃ أکحل أعین ربعَۃ جعد الشّعْر حسن الْوَجْہ فَلَمَّا وجدوہ فِی التَّوْرَاۃ محوہ حسداً وبغیاً فَأَتَاہُم نفر من قُرَیْش فَقَالُوا:تَجِدُونَ فِی التَّوْرَاۃ نَبیا أُمِّیا فَقَالُوا:نعم نجدہ طَویلا أَزْرَق سبط الشّعْر فانکرت قُرَیْش وَقَالُوا:لَیْسَ ہَذَا منا۔
ترجمہ :امام ابن ابی حاتم رحمہ اللہ تعالی حضرت سیدناعبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہماسے روایت کرتے ہیں کہ یہودیوں نے توراۃ میں رسول اللہ ﷺکے اوصاف شریفہ پائے کہ رسول اللہ ﷺکی مبارک آنکھیں سرمگیں ہیں ، آنکھیں موٹی موٹی ہیں ، درمیانہ قد، بال مناسب ، گھنگریالے ہیں ،چہرہ نہایت حسین ہے ۔
یہودیوں نے حسد اوربغض کی وجہ سے رسول اللہ ﷺکے ان اوصاف کو مٹادیا ، ان کے پاس قریش کے لوگ آئے اورانہوںنے یہودیوں سے پوچھاکہ تم توراۃ میں امی نبی (ﷺ) کاذکرپڑھتے ہو؟ تویہودی علماء نے کہا:ہاں۔ توراۃ میں اس نبی کی یہ صفات پڑھتے ہیں کہ قد بہت لمبا، آنکھیں نیلی ہیں اوربال سیدھے ہیں ۔ پس قریش یہ سن کر رسول اللہ ﷺکی نبوت شریفہ کاانکارکرنے لگے اورقریش نے یہ کہہ دیاکہ یہ ہم میں سے نہیں ہے۔
(الدر المنثور: عبد الرحمن بن أبی بکر، جلال الدین السیوطی (ا:۲۰۲)

وہ تحریف کیسے کرتے تھے؟

تحریف کامطلب تویہ ہے کہ بات کو اصل معنی اورمفہوم سے پھیرکر اپنی خواہش کے مطابق ایسے معنی پہنادیئے جائیں جوقائل کی منشاء کے بالکل خلاف ہو، لیکن اس کی کئی صورتیں ممکن ہیں ، یہ تحریف لفظی بھی ہوسکتی ہے جیساکہ ہم نے بیان کیاہے اورمعنوی بھی ۔ یہودیوں نے ہر طرح سے تحریف کی تھی کبھی توایساہوتاکہ لفظ کی ادائیگی کے طریقے کو بدل دیتے تھے اوراس کی قراء ت میں ایسی تبدیلی کرتے کہ لفظ کی ساخت ہی بدل گئی ، مثلاًمکہ مکرمہ کے کعبہ مشرفہ کے دامن میں موجود کوہِ مروہ کے ساتھ چونکہ حضرت سیدنااسماعیل علیہ السلام کی یادیں وابستہ ہیں جہاں سے حجاج کرام سعی کاآغاز کرتے ہیں ، لیکن یہودیوں نے یہ ثابت کرنے کے لئے کہ ذبیح اللہ حضرت سیدنااسماعیل علیہ السلام نہیں تھے بلکہ حضرت سیدنااسحاق علیہ السلام تھے ، انہوںنے مروہ لفظ کو ہی بدل دیاتاکہ مروہ کوملک شام میں دکھایاجاسکے ۔ مروہ لفظ کو بگاڑ کر مورہ یامریاکردیاگیا۔
اوراسی طرح کبھی وہ عبارت میں کمی بیشی کردیتے تھے ، کہیں جملہ حذف کردیاتوکہیں اضافہ کردیاتاکہ عبارت کامعنی ہی بدل کررہ جائے ۔ مثلاً حضرت سیدناابراہیم علیہ السلام کے ہجرت کے واقعہ میں ایسی ایسی تبدیلیاں کی ہیں کہ بیت اللہ اورمکہ معظمہ سے ان کاتعلق ہی کاٹ دیاگیااوریہ ثابت کرنامشکل ہوگیاکہ حضرت سیدناابراہیم علیہ السلام کبھی حجاز مقدس آئے تھے اورانہوںنے بیت اللہ کی تعمیرکی تھی ۔اوراسی طرح معنوی تحریف توانہوںنے بہت زیادہ کی ہے جس کی مثالیں ہم آگے چل کرنقل کریں گے ۔ ان شاء اللہ تعالی

ویل کاتعارف ۔ ویل کی گہرائی ؟

عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ:عَنِ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ:الْوَیْلُ وَادٍ فِی جَہَنَّمَ یَہْوِی فِیہِ الْکَافِرُ أَرْبَعِینَ خَرِیفًا قَبْلَ أَنْ یَبْلُغَ قَعْرَہُ۔
ترجمہ :حضرت سیدناابوسعید الخدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:ویل دوزخ میں ایک وادی ہے ، جس میں کافرکو ڈالاجائے گاتوچالیس سال تک وہ اس کی تہہ تک نہیں پہنچ پائے گا۔
( تفسیر البغوی : محیی السنۃ ، أبو محمد الحسین بن مسعود بن محمد بن الفراء البغوی الشافعی (ا:۱۳۷)

دوزخیوں کے پیپ کی جگہ

عَن ابْن عَبَّاس قَالَ: ویل سیل من صدید فِی أصل جَہَنَّم وَفِی لفظ ویل وَاد فِی جَہَنَّم یسیل فِیہِ صدیدہ۔
ترجمہ :حضرت سیدناعبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہمافرماتے ہیں کہ ویل دوزخ میں ایک وادی ہے جس میں دوزخیوں کے جسم سے نکلنے والاپیپ ہوگا، اس میں ان علماء کو ڈالاجائے گاجو اللہ تعالی کی کتاب میں موجود رسول اللہ ﷺکے اوصاف چھپاتے ہیں اورایک روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ ویل دوزخ کے اندرایک وادی ہیں جس میں دوزخیوں کاپیپ بہے گا۔
(اللباب فی علوم الکتاب:أبو حفص سراج الدین عمر بن علی بن عادل الحنبلی الدمشقی النعمانی (۲:۲۰۸؟)
ویل پہاڑوں کو بھی جلادے
عَن عَطاء بن یسَار قَالَ:ویل وَاد فِی جَہَنَّم لَو سیرت فِیہِ الْجبَال لماعت من شدَّۃ حرہ۔
ترجمہ:حضرت سیدناعطابن یساررضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ویل جہنم میں ایک وادی ہے ، جس میں پہاڑ بھی ڈالے جائیں تو وہ بھی پگھل جائیں ۔
(تفسیر أبی السعود :أبو السعود العمادی محمد بن محمد بن مصطفی (۱:۱۲۰)

رسول اللہ ﷺکایہودیوں کی تحریف کی قلعی کھولنا

عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ، قَالَ:لَمَّا فُتِحَتْ خَیْبَرُ أُہْدِیَتْ لِلنَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ شَاۃٌ فِیہَا سُمٌّ، فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:اجْمَعُوا إِلَیَّ مَنْ کَانَ ہَا ہُنَا مِنْ یَہُودَ فَجُمِعُوا لَہُ،فَقَالَ:إِنِّی سَائِلُکُمْ عَنْ شَیْء ٍ، فَہَلْ أَنْتُمْ صَادِقِیَّ عَنْہُ؟، فَقَالُوا:نَعَمْ، قَالَ لَہُمُ النَّبِیُّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:مَنْ أَبُوکُمْ؟، قَالُوا:فُلاَنٌ، فَقَالَ: کَذَبْتُمْ، بَلْ أَبُوکُمْ فُلاَنٌ، قَالُوا:صَدَقْتَ، قَالَ: فَہَلْ أَنْتُمْ صَادِقِیَّ عَنْ شَیْء ٍ إِنْ سَأَلْتُ عَنْہُ؟، فَقَالُوا: نَعَمْ یَا أَبَا القَاسِمِ، وَإِنْ کَذَبْنَا عَرَفْتَ کَذِبَنَا کَمَا عَرَفْتَہُ فِی أَبِینَا، فَقَالَ لَہُمْ: مَنْ أَہْلُ النَّارِ؟، قَالُوا:نَکُونُ فِیہَا یَسِیرًا، ثُمَّ تَخْلُفُونَا فِیہَا، فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: اخْسَئُوا فِیہَا، وَاللَّہِ لاَ نَخْلُفُکُمْ فِیہَا أَبَدًا، ثُمَّ قَالَ: ہَلْ أَنْتُمْ صَادِقِیَّ عَنْ شَیْء ٍ إِنْ سَأَلْتُکُمْ عَنْہُ؟، فَقَالُوا:نَعَمْ یَا أَبَا القَاسِمِ، قَالَ:ہَلْ جَعَلْتُمْ فِی ہَذِہِ الشَّاۃِ سُمًّا؟، قَالُوا: نَعَمْ، قَالَ:مَا حَمَلَکُمْ عَلَی ذَلِکَ؟، قَالُوا:أَرَدْنَا إِنْ کُنْتَ کَاذِبًا نَسْتَرِیحُ، وَإِنْ کُنْتَ نَبِیًّا لَمْ یَضُرَّکَ۔

ترجمہ :حضرت سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا:جب خیبر فتح ہوا تو یہودیوں نے نبی کریم ﷺکو ایک بکری تحفہ بھیجی، جس میں زہر ملا ہوا تھا۔ نبی کریم ﷺنے فرمایا:یہاں جتنے یہودی ہیں ان سب کو اکھٹا کرو،وہ سب آپ ﷺکے سامنے اکھٹے کیے گئے۔ پھر آپ ﷺنے فرمایا:میں تم سے ایک بات پوچھنے والا ہوں کیا تم سچ سچ بتاؤ گے؟انھوں نے کہا: جی ہاں تو نبی کریم ﷺنے فرمایا:’’تمہارا باپ کون ہے؟‘‘انھوں نے کہا: فلاں شخص!آ پ ﷺنے فرمایا:تم نے جھوٹ کہا ہے بلکہ تمہارا باپ فلاں شخص ہے۔ انھوں نے کہا: بلاشبہ آپ ﷺسچ کہتے ہیں۔ آپ ﷺنے فرمایا:اچھااب اگر تم سے کچھ پوچھوں تو سچ بتاؤ گے؟انھوں نے کہا: جی ہاں ابوالقاسمﷺ!اگر ہم نے جھوٹ بولا تو آپﷺ ہمارا جھوٹ پہچان لیں گے جیسا کہ پہلے آپﷺ نے ہمارے باپ کے متعلق ہمارا جھوٹ معلوم کرلیا ہے۔ پھر آپ ﷺنے ان سے پوچھا:دوزخی کون لوگ ہیں؟انھوں نے کہا:ہم چند روز کے لیے دوزخ میں جائیں گے، پھر ہمارے بعد تم اس میں ہمارے جانشین ہوگے۔ اس پر نبی کریم ﷺنے فرمایا:تم ہی اس میں ذلیل وخوار ہوکر رہو گے۔ اللہ کی قسم!ہم کبھی اس میں تمہاری جانشینی نہیں کریں گے۔ پھر آپ ﷺنے فرمایا:اگر میں تم سے کوئی سوال پوچھوں تو کیا تم میرے سامنے سچ بولوگے؟انھوں نے کہا:جی ہاں ابو القاسمﷺ!آپ ﷺنے فرمایا:کیا تم نے اس بکری میں زہر ملایا ہے؟انھوں نے کہا:ہاں۔ آپ ﷺنے فرمایا:تمھیں اس بات پر کس چیز نے آمادہ کیا تھا؟انھوں نے کہا:ہمارا خیال یہ تھا کہ اگر آپﷺ کادعوی جھوٹاہے تو آپ ﷺسے ہمیں نجات مل جائے گی اور اگر آپ ﷺحقیقت میں نبی ہیں تو آپﷺ کو کچھ نقصان نہیں ہوگا۔
(صحیح البخاری: محمد بن إسماعیل أبو عبداللہ البخاری الجعفی(۴:۹۹)

یہودی علماء کے توراۃ میں تحریف کردہ مسائل

قَالَ عُلَمَاؤُنَا رَحْمَۃُ اللَّہِ عَلَیْہِمْ: نعت اللہ تعالی أحبارہم بأنہ یبدلون ویحرقون فَقَالَ وَقَوْلُہُ الْحَقُّ:” فَوَیْلٌ لِلَّذِینَ یَکْتُبُونَ الْکِتابَ بِأَیْدِیہِمْ الآیۃ وذلک أنہ لما درس الْأَمْرُ فِیہِمْ، وَسَاء َتْ رَعِیَّۃُ عُلَمَائِہِمْ، وَأَقْبَلُوا عَلَی الدُّنْیَا حِرْصًا وَطَمَعًا، طَلَبُوا أَشْیَاء َ تَصْرِفُ وُجُوہَ النَّاسِ إِلَیْہِمْ، فَأَحْدَثُوا فِی شَرِیعَتِہِمْ وَبَدَّلُوہَا، وَأَلْحَقُوا ذَلِکَ بِالتَّوْرَاۃِ، وَقَالُوا لِسُفَہَائِہِمْ: ہَذَا مِنْ عِنْدِ اللہ، لیقبلوہا عنہم فتتأکد رئاستہم وَیَنَالُوا بِہِ حُطَامَ الدُّنْیَا وَأَوْسَاخَہَا. وَکَانَ مِمَّا أَحْدَثُوا فِیہِ أَنْ قَالُوا: لَیْسَ عَلَیْنَا فِی الْأُمِّیِّینَ سَبِیلٌ، وَہُمُ الْعَرَبُ، أَیْ مَا أَخَذْنَا مِنْ أَمْوَالِہِمْ فَہُوَ حِلٌّلَنَاوَکَانَ مِمَّا أَحْدَثُوا فِیہِ أَنْ قَالُوا:لَا یَضُرُّنَا ذَنْبٌ، فَنَحْنُ أَحِبَّاؤُہُ وَأَبْنَاؤُہُ، تَعَالَی اللَّہُ عَنْ ذَلِکَ!وَإِنَّمَا کَانَ فِی التَّوْرَاۃِ یَا أَحْبَارِی وَیَا أَبْنَاء َ رُسُلِی’’فَغَیَّرُوہُ وَکَتَبُوا‘‘ یَا أَحِبَّائِی وَیَا أَبْنَائِی فَأَنْزَلَ اللَّہُ تَکْذِیبَہُمْ:وَقالَتِ الْیَہُودُ وَالنَّصاری نَحْنُ أَبْناء ُ اللَّہِ وَأَحِبَّاؤُہُ قُلْ فَلِمَ یُعَذِّبُکُمْ بِذُنُوبِکُمْ فَقَالَتْ: لَنْ یُعَذِّبَنَا اللَّہُ، وَإِنْ عَذَّبَنَا فَأَرْبَعِینَ یَوْمًا مِقْدَارَ أَیَّامِ الْعِجْلِ، فَأَنْزَلَ اللَّہُ تَعَالَی:وَقالُوا لَنْ تَمَسَّنَا النَّارُ إِلَّا أَیَّاماً مَعْدُودَۃً قُلْ أَتَّخَذْتُمْ عِنْدَ اللَّہِ عَہْداً۔
ترجمہ :امام ابوعبداللہ محمدبن احمدالقرطبی المتوفی: ۶۷۱ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ ہمارے علماء کرام نے لکھاہے کہ اللہ تعالی نے علماء یہود کے بارے میں بتایاکہ وہ تحریف کرتے ہیں اورتبدیلی کرتے ہیں ، اللہ تعالی نے فرمایا: {فَوَیْلٌ لِلَّذِینَ یَکْتُبُونَ الْکِتابَ بِأَیْدِیہِم}توہلاکت ہوان کے لئے جو لکھتے ہیں کتاب اپنے ہاتھوں سے ۔
جب معاملہ یہودی علماء کی طرف سے اس نوبت تک پہنچااورعلماء کی رعیت ختم ہوگئی اوروہ دنیاکی حرص ولالچ میں مبتلاء ہوگئے اورانہوںنے ایسی ایسی چیزیں طلب کیں جو لوگوں کے رخ ان کی طرف پھیردیں توانہوںنے اپنی شریعت میں بدعتوں کو نکالااورشریعت بدل ڈالی ، پھرانہوںنے اس تبدیلی کو بھی توراۃ کے ساتھ ملادیا۔ اپنے بے وقوف لوگوں سے کہا:یہ بھی اللہ تعالی کی ہی طرف سے ہے تاکہ وہ ان کی طرف سے اسے بھی قبول کرلیں اورعوام پر ان کی گرفت مضبوط رہے اوراس کے ذریعے وہ دنیاکامال ومتاع حاصل کریں اورجو کچھ انہوں نے اختراع کیاتھااس میں یہ بھی تھاکہ انہوںنے کہا:{لَیْسَ عَلَیْنَا فِی الْأُمِّیِّینَ سَبِیلٌ، وَہُمُ الْعَرَبُ}

یعنی ہم پر عوام الناس کے بارے میںکوئی گرفت نہیں ہے اوروہ عرب ہیں یعنی جوکچھ ہم ان کے مال لیں وہ ہمارے لئے حلال ہیں اوروہ عرب ہیں اوران کی ایک اختراع یہ بھی تھی کہ وہ کہتے تھے کہ{لَا یَضُرُّنَا ذَنْبٌ، فَنَحْنُ أَحِبَّاؤُہُ وَأَبْنَاؤُہُ}ہمیں کوئی بھی گناہ نقصان نہیں دے گاکیوں کہ ہم اللہ تعالی کے محبوب ہیں اوراس کے بیٹے ہیں ۔ اللہ تعالی ان کے اس طرح کے نازیباکلمات سے پاک اوربلندہے ۔
توراۃ میں یہ تھاکہ {یَا أَحْبَارِی وَیَا أَبْنَاء َ رُسُلِی}اے میرے علما! اورمیرے رسول کی اولاد ! تو انہوںنے ا سے بھی بدل دیااور لکھ دیاکہ اے میرے محبوبو! اورمیرے بیٹو۔ اللہ تعالی نے ان کی تکذیب فرمائی اورفرمایا:{وَقالَتِ الْیَہُودُ وَالنَّصاری نَحْنُ أَبْناء ُ اللَّہِ وَأَحِبَّاؤُہُ قُلْ فَلِمَ یُعَذِّبُکُمْ بِذُنُوبِکُمْ }اوریہودی یہ بھی کہتے تھے کہ اللہ تعالی ہم کو عذاب نہیں دے گااگروہ عذاب دے گاتوصرف اورصرف چالیس دن دے گا جتنے دن ہم نے بچھڑے کی عبادت کی تھی اللہ تعالی نے یہاں بھی ان کی تکذیب فرمائی اوریہ آیت مبارکہ نازل فرمائی {وَقالُوا لَنْ تَمَسَّنَا النَّارُ إِلَّا أَیَّاماً مَعْدُودَۃً قُلْ أَتَّخَذْتُمْ عِنْدَ اللَّہِ عَہْداً}اورانہوں نے کہا: ہر گزہمیں آگ نہیں چھوئے گی بجز گنتی کے دنوں کے ۔ آپ ﷺفرمایئے کیاتم نے اللہ تعالی سے کوئی عہد لے رکھاہے؟
( تفسیر القرطبی: أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن أبی بکر بن فرح الأنصاری الخزرجی شمس الدین القرطبی (۲:۷)

کیایہودی تھوڑامال لیتے تھے؟

انما وصفہ بالقلۃ اما لفنائہ وعدم ثوابہ واما لکونہ حراما لان الحرام لا برکۃ فیہ ولا یربو عند اللہ ۔
ترجمہ :امام اسماعیل حقی الحنفی المتوفی : ۱۱۲۷ھ)رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں یہودیوں کے علماء توبہت زیادہ مال لیتے تھے لیکن اللہ تعالی نے فرمایاکہ وہ بہت تھوڑامال لیتے ہیں کیونکہ اس کاقلیل ہونااس کے فناہونے کی وجہ سے ہے یااس لئے کہ اس کاانہیں کوئی بھی اجر نہیں ملے گابلکہ الٹاعذاب میں مبتلاء ہوں گے یااس لئے کہ وہ حرام تھااورحرام میں کوئی بھی برکت نہیں ہوتی اوراللہ تعالی کے ہاں حرام مال کی کوئی وقعت نہیں ہوتی ۔
(روح البیان:إسماعیل حقی بن مصطفی الإستانبولی الحنفی الخلوتی المولی أبو الفداء (۱:۱۶۷)

متکبرعلماء بھی وادی ویل میں ہونگے

فویل لواعظ تکبر وافتخر بتقبیل الناس یدہ ورأی نفسہ خیرا من السامعین ویتقید بالمدح والذم اللہم الا ان یخرج ذلک من قلبہ والمعیار مساواۃ المقبل واللاطم عندہ بل رجحان اللاطم والضارب ۔قال فی مجلس وعظہ جنید البغدادی لو لم اسمع قولہ صلی اللہ علیہ وسلم (ان اللہ یؤید ہذا الدین بالرجل الفاجر)لما اجترأت علی الوعظ فانا ذلک الرجل الفاجر۔
ترجمہ :اس واعظ کے لئے بھی ہلاکت ہے جو لوگوں کی طرف سے ہاتھ پائوں چومے جانے پر تکبرکرتاہے اورفخرمحسوس کرتاہے اورسمجھتاہے کہ میں ان لوگوں سے افضل ہوں ، ایساشخص مدح وذم کی خرابیوںمیں مقیدرہتاہے ۔ ہاں اللہ تعالی جس کے دل سے ایسے باطل خیالات دورفرمادے تووہ بچ جائے گاورنہ مشکل ہے ۔ حضرت سیدناجنید بغدادی رحمہ اللہ تعالی نے اپنی مجلس شریف میں فرمایاکہ اگرمیں نے رسول اللہ ﷺکایہ فرمان نہ سناہوتاکہ{ ان اللہ یؤید ہذا الدین بالرجل الفاجر}بے شک اللہ تعالی اپنے دین کی مددفاجربندے سے بھی کروالیتاہے تو میں کبھی بھی وعظ کرنے کی ہمت نہ کرتا، اب مجھے سہارامل گیاکہ وہی فاجر میں ہی سہی دین کو فائدہ تو ہورہاہے ۔
(روح البیان:إسماعیل حقی بن مصطفی الإستانبولی الحنفی الخلوتی المولی أبو الفداء (ا:۱۶۸)

یہودی توتم سے نہیں پوچھتے

عَنْ عُبَیْدِ اللَّہِ بْنِ عَبْدِ اللَّہِ، أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا، قَالَ:کَیْفَ تَسْأَلُونَ أَہْلَ الکِتَابِ عَنْ شَیْء ٍ وَکِتَابُکُمُ الَّذِی أُنْزِلَ عَلَی رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَحْدَثُ، تَقْرَء ُونَہُ مَحْضًا لَمْ یُشَبْ، وَقَدْ حَدَّثَکُمْ أَنَّ أَہْلَ الکِتَابِ بَدَّلُوا کِتَابَ اللَّہِ وَغَیَّرُوہُ، وَکَتَبُوا بِأَیْدِیہِمُ الکِتَابَ، وَقَالُوا: ہُوَ مِنْ عِنْدِ اللَّہِ لِیَشْتَرُوا بِہِ ثَمَنًا قَلِیلًا؟ أَلاَ یَنْہَاکُمْ مَا جَاء َکُمْ مِنَ العِلْمِ عَنْ مَسْأَلَتِہِمْ؟ لاَ وَاللَّہِ مَا رَأَیْنَا مِنْہُمْ رَجُلًا یَسْأَلُکُمْ عَنِ الَّذِی أُنْزِلَ عَلَیْکُمْ ۔
ترجمہ :حضرت سیدناعبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہمافرماتے ہیں کہ اے مسلمانو! تم یہودیوں سے کسی چیز کے متعلق کیوں سوال کرتے ہو؟ جبکہ تمھاری کتاب یعنی قرآن کریم جو اللہ تعالی نے اپنے حبیب کریم ﷺپر نازل فرمائی ہے، اس نے اللہ تعالی کے متعلق بڑی واضح اورغیرمبہم باتیں ہمیں بتائی ہیں ، جن میں کسی قسم کاالتباس نہیں ہے ۔ اللہ تعالی نے بیان فرمایاکہ اہل کتاب نے اللہ تعالی کی کتاب یعنی تورات کو بدل ڈالاہے اوراس میں تبدیلی کی ہے ، انہوںنے اپنے ہاتھوں سے تحریرلکھ کرکہاکہ یہ اللہ تعالی کی طرف سے ہے ۔ تاکہ اس کے بدلے مال وصول کریں ۔ کیاجو ان کے مسائل کے متعلق تمھارے پاس قرآن کریم اوررسول اللہ ﷺکی سنت کے واسطہ سے علم آچکاہے ، اس نے تم کو منع نہیں کیاہے ؟ اللہ تعالی کی قسم ! ہم نے یہودیوں میں سے کسی کوبھی نہیں دیکھاکہ اس نے قرآن کریم کے متعلق سوال کیاہوجو تم پر نازل کیاگیاہے۔
(صحیح البخاری:محمد بن إسماعیل أبو عبداللہ البخاری الجعفی(۱:۱۱۱)

اس سے معلوم ہواکہ اہل اسلام کو یہودیوں سے کچھ بھی نہیں پوچھناچاہئے کیونکہ اللہ تعالی نے جو کچھ اہل اسلام کو عطافرمایاہے دنیابھرکے مذاہب اس سے محروم ہیں ۔ اس لئے ان کو چاہئے کہ وہ ہم سے پوچھیں اورہماری تعلیمات پرعمل پیراہوں تاکہ ان کو ہدایت نصیب ہو، اگرہماری عوام جیساکہ آجکل ان کے علوم فاسدہ کی دلدادہ ہوچکی ہے اس سے توبہ نہ کی تویہ بھی اپنے مذہب سے بیگانہ ہوجائیں گے جیساکہ آجکل قوم لبرل از م اورسیکولرازم میں مبتلاء ہوکر اپنے دین سے بے بہرہ بلکہ دین دشمن ہوچکی ہے ۔ اس سے ان لوگوں کو بھی عبرت پکڑنی چاہئے جو کہتے ہیں کہ سنوسب کی اورمانواپنی نعوذ باللہ من ذلک ۔

معارف ومسائل

(۱) کتب سماویہ میں تحریف کرنے والوں کو دووجہ سے عذاب ہوگا:ایک توکتاب میں تحریف کرنے کااوردوسرا عذاب اس وجہ سے کہ انہوںنے اس تحریف کے ذریعے مال کمایا۔
(۲) ثمناً قلیلاً سے مراد دراہم معدوہ مراد نہیں ہے بلکہ مال کثیرمراد ہے اس لئے کہ اگربالفرض حق اورہدایت کی قیمت لگائی جائے توروئے زمین کے خزانے اس کے مقابلے میں ہیچ ہیں۔
(۳) اس سے یہ بھی معلوم ہواکہ جب بھی علماء سوء اپنے جال بچھاتے ہیں تو بے وقوف عوام بہت جلد اس میں پھنستے ہیں۔
(۴)اس سے یہ بھی معلوم ہواکہ کتاب اللہ میں تحریف لفظی ومعنوی دونوں طرح کفرہے ، پھراللہ تعالی کی ذات پرجھوٹ بولناکفربالائے کفرہے ۔
(۵) علماء سو، سرکاری مراعات یافتہ علماء بڑے زوروشورسے حکام اورعوام کو خوش کرنے لئے شریعت الہی اوراحکامات خداوندی کو توڑموڑ کر پیش کررہے ہیں ۔جب زنابل منظورہواتواس پر دلائل دینے والے بھی علماء سوہی تھے ۔
(۶) انہیں نام نہاد علماء سونے یہودیوں کی روش پر چلتے ہوئے دوتہائی امت سے زیادہ کو لبرل ازم کی طرف دھکیل دیاہے، چونکہ قرآن کریم من جانب اللہ محفوظ ہے ،کسی قسم کی لفظی تحریف توکرنہیں سکتے معنوی تحریفات اورغلط مطالب اوربے سروپااوربے سند روایات اوراسرائیلیوں کی گھڑی ہوئی باتیں بیان کرکے لوگوں کو گمراہی کے گڑھوں میں ڈال رہے ہیں۔ان شاء اللہ تعالی ایسے بدخواہان اسلام اوردشمنان دین کاحشربھی علماء یہودکے ساتھ ہی ہوگا۔
(۷) یہوی عوام اپنی کتاب سے بالکل جاہل اوربے خبرہوتے تھے توان کے علماء کتاب میں جو چاہتے تبدیلی کرتے تھے ، اگروہ یہودی عوام بھی اپنی کتابوں کے متعلق آگاہی رکھتے توان کے علماء کبھی بھی اس میں تحریف نہ کرسکتے ۔
(۸) یہودی علماء کی اس خباثت پر اللہ تعالی نے فرمایاکہ دنیاکاحقیرمال حاصل کرنے کے لئے وہ اپنے ہاتھوں سے تحریرلکھ کر کہہ دیتے ہیں کہ یہ اللہ تعالی کی طرف سے ہے ، ان کی ہلاکت ہے اوران کی اس حرام کمائی پر بھی ہلاکت ہے ۔
(۹) موجودہ یہودیو ں وعیسائیوں کو دیکھ لیں تو آج بھی یہ اپنی کتابوں میں تبدیلیاں کرنے میں لگے ہوئے ہیں ۔
(۱۰) زمانہ ماضی کے یہودی ہوں یاموجودہ دورکے، دونوں کے رویہ سے ان لوگوں کو بھی عبرت حاصل کرنی چاہئے جو کہتے ہیں کہ قرآن کریم محرف ہے اوران کایہ دعوی ہے کہ قرآن پہلے بہت طویل تھااوراس میں لگ بھگ اٹھارہ ہزار آیات تھیں جن کو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے قرآن کریم سے خارج کردیاہے (نعوذ باللہ من ذلک)اورساتھ یہ بھی کہتے ہیں کہ قرآن کریم میں بارہ ائمہ اہل بیت کے نام بھی تھے جو نکال دیئے گئے ہیں ۔ یہ ذہن میں رہے جو بھی شخص قرآن کریم کے متعلق اس طرح کی باتیں کرتاہے وہ شخص ملحد اوربے دین اورزندیق ہے ۔ اگرقرآن کریم میں بھی تحریف کردی گئی ہے توپھردوسری کتب اورقرآن کریم میں کیافرق رہ گیاہے ؟۔
(۱۱)اس سے یہ بھی معلوم ہواکہ یہودیوں نے پوری کوشش کی کہ جو جوچیز رسول اللہ ﷺکے وجود شریف پر دلالت کرتی ہے اسے اللہ تعالی کی کتاب میں سے نکال دیاجائے ، غرضیکہ جتنی بھی شکلیں ممکن تھیں وہ تمام تحریفیں بنی اسرائیل نے اللہ تعالی کے کلام میں کی ہیں اوراس دیدہ دلیری کے ساتھ کی ہیں کہ وہ جانتے تھے ہم یہ تحریف کررہے ہیں۔ رسول اللہ ﷺکے زمانہ مبارک کے یہودی میں یہ مرض عروج پر پہنچ گیاتھا۔
(۱۲) اس سے یہ بھی معلوم ہواکہ جب یہودی رسول اللہ ﷺکے دشمن ہیں تو ہمارے خیرخواہ کیسے ہوسکتے ہیں ؟ آج جتنے دیسی انگریز ہیں وہ یہود ونصاری کو اپناخیرخواہ گردانتے ہیں وہ پرلے درجے کے احمق ہیں ۔
(۱۳) اس سے یہ بھی معلوم ہواکہ جب یہودی اپنے آپ کے ساتھ اوراپنی قوم کے ساتھ مخلص نہیں ہیں تو پھریہ مسلمانوں کے ساتھ کیسے مخلص ہوسکتے ہیں؟۔
(۱۴) رسول اللہ ﷺکے زمانہ مبارکہ کے یہودی بھی رسول اللہ ﷺکے دشمن اورآج کے یہودی بھی رسول اللہ ﷺکے دشمن ہیں ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو دیکھیں وہ بھی یہودیوں کے دشمن تھے کیونکہ یہودی رسول اللہ ﷺکے دشمن تھے ۔ اوریہودی آج بھی دشمن ہے مگرمسلمان ان کے دشمن کیوں نہیں ؟ آخر یہ یہودیوں کے خیرخواہ اوران کے دوست کیسے بن گئے ؟آج بھی آپ دیکھیں کہ کہیں بھی گستاخی ہووہ یہودیوں کی طرف سے ہوتی ہے ، اوراگرکسی اورمذہب کابدبخت رسول اللہ ﷺکی گستاخی کرتاہے تو یہودی ان کی پشت پر کھڑے ہوتے ہیں ۔ اسی طرح پاکستان یاکسی بھی ملک میں کوئی بدبخت رسول اللہ ﷺکی گستاخی کرتاہے تو یہودی اس کی پوری پوری مددکرتے ہیں جیساکہ آسیہ ملعونہ کامعاملہ سب کے سامنے ہے اوراسی طرح انڈیاکے سلمان رشدی ملعون اوربنگالی تسلیمہ نسرین جیسے بدبخت ترین کے ساتھ دنیابھرکے غلیظ لوگ یعنی یہودی ان کے ساتھ کھڑے ہوئے ہیں۔

Leave a Reply