تفسیر سورہ بقرہ آیت ۷۴ ۔ از تفسیر ناموس رسالت

جن کو ناموس رسالت کاپاس نہ ہوان کے دل پتھرکے بنادیئے جاتے ہیں

{ثُمَّ قَسَتْ قُلُوْبُکُمْ مِّنْ بَعْدِ ذٰلِکَ فَہِیَ کَالْحِجَارَۃِ اَوْ اَشَدُّ قَسْوَۃً وَ اِنَّ مِنَ الْحِجَارَۃِ لَمَا یَتَفَجَّرُ مِنْہُ الْاَنْہٰرُ وَ اِنَّ مِنْہَا لَمَا یَشَّقَّقُ فَیَخْرُجُ مِنْہُ الْمَآء ُ وَ اِنَّ مِنْہَا لَمَا یَہْبِطُ مِنْ خَشْیَۃِ اللہِ وَمَا اللہُ بِغٰفِلٍ عَمَّا تَعْمَلُوْنَ}(۷۴)

ترجمہ کنزالایمان:پھر اس کے بعد تمہارے دل سخت ہوگئے تو وہ پتھروں کی مثل ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ کَرّے اور پتھروں میں تو کچھ وہ ہیں جن سے ندیاں بہہ نکلتی ہیں اور کچھ وہ ہیں جو پھٹ جاتے ہیں تو ان سے پانی نکلتا ہے اور کچھ وہ ہیں کہ اللہ کے ڈر سے گر پڑتے ہیں اور اللہ تمہارے کَوْتکَوْں سے بے خبر نہیں۔

ترجمہ ضیاء الایمان: پھراس کے بعد تمھارے دل سخت ہوگئے تووہ پتھروں کی مانند ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ سخت ، پتھروں میں توکچھ وہ بھی ہیں جن سے ندیاں بہنے لگتی ہیں اورکچھ وہ ہیں جو پھٹ جاتے ہیں توان سے پانی نکلتاہے اورکچھ وہ ہیں کہ اللہ تعالی کے خوف سے گرپڑتے ہیں اوراللہ تعالی تمھارے اعمال سے بے خبرنہیں ہے ۔
اس میں دوقول ہیں ایک تومراد ان سے وہ لوگ ہیں جن کوگائے ذبح کرنے کاکہاگیااوردوسرے وہ لوگ ہیں جورسول اللہ ﷺکے زمانہ اقدس میں تھے ، وہ بھی حضرت سیدناموسی علیہ السلام کی تکذیب کرکے گستاخ بنے اورزمانہ اقدس میں رہنے والے یہودی اوران کے علماء بھی رسول اللہ ﷺکی گستاخی کرکے اپنے دل مردہ اورسخت کربیٹھے۔پہلاقول حضرت سیدناعبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہماکاہے اوردوسراقول امام اسماعیل حقی نقل کرتے ہیں۔ اس میں کوئی تناقض نہیں ہے ،اس سے دونوں مراد ہوسکتے ہیں بلکہ ہر وہ شخص مراد ہوسکتاہے جو بھی اللہ تعالی کے انبیاء کرام علیہم السلام کاگستاخ ہے۔

بنی اسرائیل کے دل سخت کیوں ہوئے ؟

وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: الْمُرَادُ قُلُوبُ وَرَثَۃِ الْقَتِیلِ، لِأَنَّہُمْ حِینَ حَیِیَ وَأَخْبَرَ بِقَاتِلِہِ وَعَادَ إِلَی مَوْتِہِ أَنْکَرُوا قَتْلَہُ، وَقَالُوا: کَذَبَ، بَعْدَ مَا رَأَوْا ہَذِہِ الْآیَۃَ الْعُظْمَی، فَلَمْ یَکُونُوا قَطُّ أَعْمَی قُلُوبًا، وَلَا أَشَدَّ تَکْذِیبًا لِنَبِیِّہِمْ مِنْہُمْ عِنْدَ ذَلِکَ، لَکِنْ نَفَذَ حُکْمُ اللَّہِ بِقَتْلِہِ.
ترجمہ :حضرت سیدناعبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہماسے مروی ہے کہ ان دلوں سے مراد مقتول کے ورثاکے دل ہیں کیونکہ جب وہ زندہ ہوااوراس نے اپنے قاتل کی خبردی اورپھرفوت ہوگیاتوانہوںنے ا س کے قتل سے انکارکردیااورکہاکہ اس نے جھوٹ بولاہے ، اس کے بعد کہ وہ اتنی بڑی نشانی دیکھ چکے تھے ، پہلے ان کے دل کبھی بھی اتنے اندھے نہیں ہوئے تھے اورنہ ہی انہوںنے حضرت سیدناموسی علیہ السلام کی اتنی تکذیب کی تھی ، لیکن اللہ تعالی کاحکم اس کے قتل کے بارے میں نافذ ہوگیا۔
(تفسیر القرطبی:أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن أبی بکر بن فرح الأنصاری الخزرجی شمس الدین القرطبی (ا:۴۳۶)
دوسراقول
ثُمَّ قَسَتْ قُلُوبُکُمْ خطاب لاہل عصرالنبی علیہ السلام من الأحبار وثم لاستبعاد القسوۃ من بعد ذکر ما یوجب لین القلوب ورقتہا ونحوہ ثم أنتم تمترون۔
ترجمہ :حضرت سیدناامام اسماعیل حقی حنفی المتوفی : ۱۱۲۷ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیںکہ یہ خطاب رسول اللہ ﷺکے زمانہ مبارک کے اہل کتاب کے ان علماء کو ہے جن کو رسول اللہ ﷺکی نبوت شریفہ کی تمام نشانیاں معلوم تھیں باوجوداس کے وہ رسول اللہ ﷺکی نبوت شریفہ میں شک کرتے تھے ۔ حالانکہ ان کو دل نرم کرنے والے امور بتادیئے گئے تھے ۔
(روح البیان: إسماعیل حقی بن مصطفی الإستانبولی الحنفی الخلوتی المولی أبو الفداء (۱:۱۶۴)

کافرکادل سخت کیوں ہوجاتاہے ؟

وقلوب ہؤلاء الیہود لا تنقاد ولا تلین ولا تخشع ولا تفعل ما أمرت بہ وَمَا اللَّہُ بِغافِلٍ بساہ عَمَّا تَعْمَلُونَ ای الذی تعملونہ وہو وعید شدید علی ما ہم علیہ من قساوۃ القلوب وما یترتب علیہا من الأعمال السیئۃ فقلب الکافر أشد فی القساوۃ من الحجارۃ وانہا مع فقد اسباب الفہم والعقل منہا وزوال الخطاب عنہا تخضع لہ وتتصدع ۔

ترجمہ :حضرت سیدناامام اسماعیل حقی حنفی المتوفی : ۱۱۲۷ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیںکہ ان یہودیوں کے دل نہ توفرمانبرداری کرتے ہیں اورنہ ہی نرم پڑتے ہیں اورنہ ہی ڈرتے ہیں اور نہ وہ عمل کرتے ہیں جس کاان کو حکم دیاگیاہے اوریہ لوگ جو کچھ بھی کررہے ہیں اللہ تعالی اس سے غافل نہیں ہے ، یہ بہت ہی سخت وعید ہے اوراس عمل کی وجہ سے جس پر ان کے دل اٹکے ہوئے ہیں( یعنی انبیاء کرام علیہم السلام کی گستاخیاں اوران کی نافرمانیاں )کی وجہ سے ان پر یہ وعید مرتب ہورہی ہے ۔

کافرکادل پتھرسے بھی زیادہ سخت اس لئے ہوتاہے کہ پتھرمیں فہم وفراست کے اسباب اورخطاب نہ ہونے کے باوجود وہ اللہ تعالی سے ڈررہاہے اوراس کے لئے فرمانبرداری کررہاہے ۔لیکن یہ کسی طورپربھی سمجھنے کے قریب نہیں آتا۔
(روح البیان: إسماعیل حقی بن مصطفی الإستانبولی الحنفی الخلوتی المولی أبو الفداء (۱:۱۶۴)

یہودیوں اورلبرل کے دل سخت ہونے کی وجہ ؟

والاشارۃ فی تحقیق الآیۃ ان الیہود وان شاہدوا عظیم الآیات فحین لم تساعدہم العنایۃ لم یزدہم کثرۃ الآیات الا قسوۃ علی قسوۃ فان اللہ أراہم الآیات الظاہرۃ فرأوہا بنظر الحسن ولم یرہم البرہان الذی یراہ القلب فیحجزہم عن التکذیب والإنکار یدل علیہ قولہ تعالی وَہَمَّ بِہا لَوْلا أَنْ رَأی بُرْہانَ رَبِّہِ۔والمتفلسفۃ الذین استدرجہم الحق بالخذلان من حیث لا یعلمون۔
ترجمہ :اس آیت میں اشارہ ہے کہ یہودیوں نے بڑے بڑے معجزات دیکھے لیکن چونکہ عنایت ربانی ان کے شامل حال نہ ہوئی اسی لئے دل کی سختی کے علاوہ انہیں کچھ بھی نصیب نہیں ہوا، اس لئے اللہ تعالی نے ان کو آیات ظاہرہ وباہرہ تودکھائے اورانہوںنے ظاہری حواس سے انہیں دیکھالیکن انہیں اس برہان سے محروم رکھاجسے قلب سے دیکھاجاتاہے یہی بات ان کے لئے آڑ بن گئی اوران سے تکذیب وانکارسرزدہواچنانچہ اللہ تعالی کے اس فرمان { لَوْلا أَنْ رَأی بُرْہانَ رَبِّہِ}سے معلوم ہوتاہے ۔اوران فلسفیوں کو بھی اپنے اسرارسے محروم رکھتاہے اورا نہیں اللہ تعالی خسارہ میں ڈالنے کی وجہ سے مہلت دیتاہے اورانہیں علم نہیں ہوتااسی لئے وہ گمراہی میں بڑھتے جاتے ہیں۔
(روح البیان: إسماعیل حقی بن مصطفی الإستانبولی الحنفی الخلوتی المولی أبو الفداء (۱:۱۶۴)

کیاپتھروں میں ادراک ہوتاہے ؟

قَالَ مُجَاہِدٌ:مَا تَرَدَّی حَجَرٌ مِنْ رَأْسِ جَبَلٍ، وَلَا تَفَجَّرَ نَہْرٌ مِنْ حَجَرٍ، وَلَا خَرَجَ مِنْہُ مَاء ٌ إِلَّا مِنْ خَشْیَۃِ اللَّہِ، نَزَلَ بِذَلِکَ الْقُرْآنُ الْکَرِیمُ.
ترجمہ :حضرت سیدنامجاہد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جوپتھرپہاڑ کی چوٹی سے گرتاہے، جونہرپتھرسے پھوٹتی ہے اوراس سے جوپانی نکلتاہے سب کچھ اللہ تعالی کی خشیت سے ہوتاہے ۔
(الجواہر الحسان فی تفسیر القرآن:أبو زید عبد الرحمن بن محمد بن مخلوف الثعالبی (ا:۲۶۶)

ستون حنانہ اوررسول اللہ ﷺکاعشق

أَخْبَرَنِی یَحْیَی بْنُ سَعِیدٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِی ابْنُ أَنَسٍ، أَنَّہُ سَمِعَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّہِ، قَالَ: کَانَ جِذْعٌ یَقُومُ إِلَیْہِ النَّبِیُّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا وُضِعَ لَہُ المِنْبَرُ سَمِعْنَا لِلْجِذْعِ مِثْلَ أَصْوَاتِ العِشَارِ حَتَّی نَزَلَ النَّبِیُّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَوَضَعَ یَدَہُ عَلَیْہِ۔
ترجمہ:حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ مسجد میں ایک کھجور کا تنا تھا جس پر ٹیک لگا کر نبی کریم ﷺکھڑے ہوتے تھے۔ جب آپ ﷺکے لیے منبر رکھا گیا تو ہم نے اس تنے سے دس ماہ کی حاملہ اونٹنی کے بلبلا نے جیسی آواز سنی۔ آخرکار نبی کریم ﷺمنبر سے اترے اور اس تنے پر اپنا دست مبارک رکھا۔
(صحیح البخاری:محمد بن إسماعیل أبو عبداللہ البخاری الجعفی(۲:۹)

حجراسود کا حضور کی بارگاہ میں سلام عرض کرنا

عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَۃَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: إِنِّی لَأَعْرِفُ حَجَرًا بِمَکَّۃَ کَانَ یُسَلِّمُ عَلَیَّ قَبْلَ أَنْ أُبْعَثَ، إِنِّی لَأَعْرِفُہُ الْآنَ۔
ترجمہ:حضرت سیدناجابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:مکہ میں ایک پتھر ہے جو مجھ پراس وقت بھی سلام بھیجتاتھاجب میں نے اعلان نبوت ہی نہیں کیاتھا، اسے میں اب بھی پہچانتاہوں ۔
(مسند الإمام أحمد بن حنبل:أبو عبد اللہ أحمد بن محمد بن حنبل بن ہلال بن أسد الشیبانی (۳۴:۴۱۹)

جبل احدشریف کی محبت

عَنْ عَمْرِو بْنِ أَبِی عَمْرٍو، مَوْلَی المُطَّلِبِ بْنِ حَنْطَبٍ، أَنَّہُ سَمِعَ أَنَسَ بْنَ مَالِکٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ، یَقُولُ: خَرَجْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، إِلَی خَیْبَرَ أَخْدُمُہُ، فَلَمَّا قَدِمَ النَّبِیُّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، رَاجِعًا وَبَدَا لَہُ أُحُدٌ، قَالَ: ہَذَا جَبَلٌ یُحِبُّنَا وَنُحِبُّہُ ثُمَّ أَشَارَ بِیَدِہِ إِلَی المَدِینَۃِ، قَالَ: اللَّہُمَّ إِنِّی أُحَرِّمُ مَا بَیْنَ لاَبَتَیْہَا، کَتَحْرِیمِ إِبْرَاہِیمَ مَکَّۃَ، اللَّہُمَّ بَارِکْ لَنَا فِی صَاعِنَا وَمُدِّنَا۔
ترجمہ:حضرت سیدناانس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺکے ہمراہ خیبر کی طرف نکلاتوراستے میں آپﷺ کی خدمت کرتا تھا۔ جب نبی کریمﷺ واپس تشریف لائے اور احد پہاڑ سامنے ظاہر ہواتوفرمایا:یہ پہاڑ ہم سے محبت کرتا ہے اور ہم اس سے محبت کرتے ہیں۔ پھر آپ ﷺنے مدینہ طیبہ کی طرف اپنے ہاتھ سے اشارہ کرکے فرمایا:اے اللہ!میں اس کے دونوں پتھریلے میدانوں کے درمیانی خطے کو حرمت والا قراردیتا ہوں، جس طرح حضرت سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے مکہ کو حرمت والا قرار دیا تھا۔ اے اللہ !تو ہمارے صاع اور مد میں برکت عطا فرما۔
(صحیح البخاری: محمد بن إسماعیل أبو عبداللہ البخاری الجعفی(۴:۳۵)

محب سے محبت کانبوی انداز

عَنْ أَنَسٍ، أَنّ النَّبِیَّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ إِذَا قَدِمَ مِنْ سَفرٍ، فَنَظَرَ إِلَی جُدُرَاتِ الْمَدِینَۃِ، أَوْضَعَ رَاحِلَتَہُ، وَإِنْ کَانَ عَلَی دَابَّۃٍ حَرَّکَہَا مِنْ حُبِّہَا۔
ترجمہ :حضرت سیدناانس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب بھی رسول اللہ ﷺسفرسے واپس تشریف لاتے تو جیسے ہی مدینہ منورہ کی دیواروں پر نظرپڑتی تو آپ ﷺاپنی سوار ی کو تیز کردیتے تھے اگرچہ رسول اللہ ﷺجانورپرہی ہوتے تواسے بھی مدینہ منورہ کی اشیاء کی محبت میں تیز دوڑاتے تھے۔
(شرح السنۃ:محیی السنۃ، أبو محمد الحسین بن مسعود بن محمد بن الفراء البغوی الشافعی (۷:۳۱۵)

مکہ کے سارے پتھرسلام عرض کرتے تھے

ولما أتی الوحی رسول اللہ صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَسَلَّم َ فی أول المبعث، وانصرف رسول اللہ صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَسَلَّم َ إلی منزلہ سلمت علیہ الحِجَارَۃُ فکلہا کانت تقول: السَّلام علیک یا رسول اللہ.
ترجمہ:امام ابوحفص سراج الدین الدمشقی الحنبلی المتوفی : ۷۷۵ھ) رحمہ اللہ تعالی نقل کرتے ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺپر پہلی وحی آئی اوررسول اللہﷺغارِ حراء سے واپس تشریف لانے لگے تو راستے کے سارے پتھررسول اللہ ﷺپر ان الفاظ میں سلام عرض کرتے تھے کہ السَّلام علیک یا رسول اللہ.
(اللباب فی علوم الکتاب: أبو حفص سراج الدین عمر بن علی بن عادل الحنبلی الدمشقی النعمانی(۱:۱۸۹)

غارحراء اورتحفظ ناموس رسالتﷺ

وَکَمَا رُوِیَ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ:) قَالَ لِی ثَبِیرٌ اہْبِطْ فَإِنِّی أَخَافُ أَنْ یَقْتُلُوکَ عَلَی ظَہْرِی فَیُعَذِّبُنِی اللَّہُ (. فَنَادَاہُ حِرَاء ٌ: إِلَیَّ یَا رَسُولَ اللَّہِ.
ترجمہ :رسول اللہ ﷺسے مروی ہے کہ جب آپ ﷺنے فرمایا: ثبیرپہاڑ نے مجھے کہا: یارسول اللہ ﷺآپ مجھ سے اترجائیں ، مجھے خطرہ ہے کہ کہیں کفارمکہ آپ ﷺکومیری پشت پر شہید کردیں گے ۔ ساتھ ہی غارِ حراء سے آواز آئی یارسو ل اللہ ﷺ! میر ی طرف تشریف لائیں ۔
(تفسیر القرطبی:أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن أبی بکر بن فرح الأنصاری الخزرجی شمس الدین القرطبی (۱:۴۴۶)

جمادات کی رسول اللہ ﷺکے ساتھ محبت کاانکارنہیں کیاجاسکتا

وَلا یُنْکَرُ وَصْفُ الْجَمَادَاتِ بِحُبِّ الْأَنْبِیَاء ِ، وَالْأَوْلِیَاء ِ، وَأَہْلِ الطَّاعَۃِ، کَمَا حَنَّتِ الْأُسْطُوَانَۃُعَلَی مُفَارَقَتِہِ حَتَّی سَمِعَ الْقَوْمُ حَنِینَہَا إِلَی أَنْ أَسْکَتَہَا الرَّسُولُ، وَکَمَا أُخْبِرَ أَنَّ حَجَرًا کَانَ یُسَلِّمُ عَلَیْہِ قَبْلَ الْوَحْیِ، فَلا یُنْکَرُ أَنْ یَکُونَ جَبَلُ أُحُدٍ، وَجَمِیعُ أَجْزَاء ِ الْمَدِینَۃِ کَانَتْ تُحِبُّہُ، وَتَحِنُّ إِلَی لِقَائِہِ حَالَۃَ مُفَارَقَتِہِ إِیَّاہَا، حَتَّی أَسْرَعَ إِلَیْہَا حِینَ وَقَعَ بَصَرُہُ عَلَیْہَا، کَمَا أَقْبَلَ عَلَی الْأُسْطُوَانَۃِ وَاحْتَضَنَہَا حِینَ سَمِعَ حَنِینَہَا عَلَی مُفَارَقَتِہِ.
ترجمہ
امام محی السنہ ابومحمدالبغوی الشافعی المتوفی : ۵۱۶ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ جمادات کی انبیاء کرام علیہم السلام ،اولیاء کرام اوراہل اطاعت کیساتھ محبت کاانکارنہیں کیاجاسکتاجیساکہ استن حنانہ رونے لگاتھاجب رسول اللہﷺنے اسے چھوڑ کر منبرکو اختیارفرمایاتھا، تب تک اس نے خاموشی اختیارنہیں کی جب تک رسول اللہ ﷺنے اپنادست اقدس اس پر نہیں رکھا، اوراسی طرح یہ بھی حدیث شریف میں ہے کہ ایک پتھررسول اللہ ﷺپر وحی آنے سے بھی پہلے سلام عرض کیاکرتاتھااوراس سے بھی انکارنہیں ہے کہ جبل احداورمدینہ منورہ کی ہر ہرچیز رسول اللہ ﷺکے ساتھ محبت کرتی تھی اورہر ہر چیز رسول اللہ ﷺکے ساتھ ملاقات کاانتہائی شوق رکھتی جب رسول اللہ ﷺمدینہ منورہ سے باہر تشریف لے جاتے تھے تومدینہ منورہ کی ایک ایک چیز رسول اللہ ﷺکاانتظارکرتی تھی یہاں تک کہ رسول اللہ ﷺبھی کوشش کرتے تھے کہ ان پر نگاہ جلدی پڑے جیساکہ استن حنانہ پر رسول اللہ ﷺنے اپنامبارک ہاتھ رکھااوراس نے رسول اللہ ﷺکی جدائی میں رونے سے خاموشی اختیارکی۔
(شرح السنۃ:محیی السنۃ، أبو محمد الحسین بن مسعود بن محمد بن الفراء البغوی الشافعی (۷:۳۱۵)

ان معجزات کاانکارکرنے والے کون ؟

وأنکرت المعتزلۃ ذلک، ولا یلتفت إلیہم؛ لأنہ لا دلیل لہم إلا مجرد الاستبعاد.
ترجمہ :امام ابوحفص سراج الدین الدمشقی الحنبلی المتوفی : ۷۷۵ھ) رحمہ اللہ تعالی نقل کرتے ہیں کہ اس کا(کہ شجروحجرمیں رسول اللہ ﷺکی محبت اور معرفت ہوتی ہے ) انکارصرف معتزلہ ہی کرتے ہیں اوران کی باتوں کی طرف توجہ دینے کی کوئی ضرورت نہیں ہے اس لئے کہ ان کے پاس کوئی دلیل نہیں ہے سوائے عقلی استبعاد کے ۔
(اللباب فی علوم الکتاب: أبو حفص سراج الدین عمر بن علی بن عادل الحنبلی الدمشقی النعمانی(۱:۱۸۹)
لبرل منکرہوتاہے
نطق آب ونطق خاک ونطق کل

ہست محسوس حواس اہل دل

فلسفی کو منکر حنانہ است

از حواس أولیا بیکانہ است

ہر کرا در دل شک و پیچانیست

در جہان او فلسفی پنہانیست

ترجمہ :مولاناروم رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ پانی اورگارے کابولنااہل دل کے حواس کو محسوس ہوتاہے ۔ وہ فلسفی جواستن حنانہ کے رونے کامنکرہے وہ حواس اولیاء کامنکرہے ۔جس کے دل میں شک اورٹیڑھاپن نہیں ، جہان میںا س کے نزدیک لبرل پاگل ہے ۔
(روح البیان:إسماعیل حقی بن مصطفی الإستانبولی الحنفی الخلوتی المولی أبو الفداء (۱:۱۶۵)

معارف ومسائل

(۱) اس سے معلوم ہواکہ انبیاء کرام علیہم السلام کے معجزات کاانکارخود ان کی تکذیب ہے ۔
(۲) جو لوگ اللہ تعالی کے انبیاء کرام علیہم السلام کے معجزات کاانکارکرتے ہیں اللہ تعالی ان کے دل پتھرسے بھی زیادہ سخت کردیتاہے ۔
(۳) جو شخص حضرت سیدناموسی علیہ السلام کے معجزے کاانکارکرے اس کادل پتھرسے بھی زیادہ سخت ہوجائے توجوشخص رسول اللہ ﷺکے معجزات کاانکارکرے اس کاکیاحال ہوگا؟
(۴) اس سے یہ بھی معلوم ہواکہ جو لوگ رسول اللہ ﷺکی نبوت شریفہ میں یا رسول اللہ ﷺکی شریعت مبارک کے کسی بھی مسئلہ میں شک کرتے ہیں ان کے دل سخت ہوچکے ہیں۔
(۵) جو شخص حضرت سیدناموسی علیہ السلام کی تکذیب کرے اللہ تعالی اس کے دل کو پتھرکاکردے تو جو شخص رسول اللہ ﷺکی شریعت مبارکہ کی تکذیب کرے ا س کاکیاانجام ہوگا؟۔
(۶) اس سے یہ بھی معلو م ہواکہ اگرانسان اللہ تعالی کے انبیاء کرام علیہم السلام کی گستاخی کریں تو ان کے دل پتھرکے ہوجاتے ہیں اوراگرپتھررسول اللہ ﷺکے ساتھ محبت کریں تواللہ تعالی ان کے دلوں کو انسانوں کے دلوں سے زیادہ نرمی پیدافرمادیتاہے ۔
(۷) اس سے معلوم ہواکہ نہ ماننے والوں کے سامنے مردہ زندہ کردئیے جائیںتونہیں مانتے ۔
(۸) اوراس سے یہ بھی معلوم ہواکہ منکرین کے سامنے اللہ تعالی کے نبی علیہ السلام بھی کھڑے ہوں تو بھی منکر ہی رہتے ہیں۔
(۹) اس سے یہ بھی معلوم ہواکہ جو لوگ انبیاء کرام علیہم السلام کی گستاخی کرتے ہیں اللہ تعالی ان کو ہدایت نصیب نہیں کرتااورجتنے لوگ خاموشی اختیارکرتے ہیں وہ بھی ذلیل ہوجاتے ہیں۔
(۱۰) بنی اسرائیل کی طرف سے حق کو چھپانا، ناشکری ، بے ادبی اورنا انصافی ، جہاد سے انکار، انبیاء کرام علیہم السلام کی گستاخیاں ، بچھڑے کی پوجااوراللہ تعالی کے انبیاء کرام علیہم السلام کوشہیدکرنایہ تمام ایسی بیماریاں ہیں کہ بالآخراللہ تعالی نے ان کے دل سخت کردئیے۔
(۱۱) موجودہ زمانہ کایورپ ، امریکہ ، برطانیہ ،جرمنی اورفرانس کون ہیں ؟ یہ وہی بنی اسرائیل اوریہودی ہی توہیں جن کو قساوت قلبی کالقب آج سے تین ہزارسال پہلے ملاتھاوہ آج اُس سے کہیں زیادہ لعنت کے مستحق بن چکے ہیں ۔ پورے جہان کو گولہ وبارود کاڈھیربناکر درندوں سے زیادہ بے رحمی کے ساتھ خلق خداکو ہرقسم کے ظلم وستم کانشانہ بناکر تباہ کررہے ہیں اورلوگوں کو بلاوجہ تڑپاتڑپا کران کی عصمتیں لوٹ رہے ہیں اورکتنے اسلامی ممالک کو کھنڈرات میں تبدیل کرچکے ہیں ، اورساتھ ساتھ خود کو امن وانصاف کا علمبرداربھی کہتے ہیں اوریہی لوگ آج بھی ہمارے کریم آقاﷺ کی گستاخیاں کرکے اپنے باپ دادائوں کی یادیں تازہ کرتے ہیں اورکچھ نام نہاد مسلمان جو ان کی کاسہ لیسی کرتے ہوئے نہیں تھکتے بلکہ انہیں کے فضلہ خواربنے ہوئے ہیں۔
(۱۲)اگریہودی لوگ رسول اللہ ﷺکی نبوت شریفہ کونہ مانیں یاآپ ﷺکے معجزات کو دیکھ کر اورآپ ﷺکے پراثروعظ پر قہقہ لگائیں توان سے کوئی تعجب نہیں ، اس سے کوئی بھی عرب یاکوئی اورقوم یہ نہ سمجھے کہ نبی کریم ﷺکی نبوت اورفیض ہدایت کاقصور ہے بلکہ ان کی استعداد میں فتورہے ، حضرت سیدناعیسی علیہ السلام نے یہودیوں کی سخت دلی کی مذمت فرمائی اوران کو سانپوں کے بچے قراردیا۔
(۱۳) اس سے معلوم ہواکہ اہل سنت وجماعت کامذہب حق ہے کہ حیوانات اورجمادات میں بھی روح اورحیات ہے اوران میں ایک خاص قسم کاشعور اورادراک ہوتاہے جس کی حقیقت اللہ تعالی کو ہی معلوم ہے ۔اورتمام انبیاء کرام علیہم السلام اوررسل عظام علیہم السلام کااس بات پر اجماع ہے کہ جمادات میں ایک روح مجردہے جو حق تعالی کو پہچانتی ہے اوراسی کے احکامات کی تعمیل کرتی ہے۔ ایک مخلوق کادوسری مخلوق سے بے تعلق اوربے خبرہوناتوعقلاً ممکن ہے بلکہ واقع ہے لیکن مخلوق کاخالق عزوجل سے بے تعلق اوربے خبرہوناعقلاًناممکن ہے ۔

Leave a Reply