گستاخی کی وجہ سے بنی اسرائیل کے سترہزارلوگ مارے گئے
{وَ اِذْ قُلْنَا ادْخُلُوْا ہٰذِہِ الْقَرْیَۃَ فَکُلُوْا مِنْہَا حَیْثُ شِئْتُمْ رَغَدًا وَّادْخُلُوا الْبَابَ سُجَّدًا وَّقُوْلُوْا حِطَّۃٌ نَّغْفِرْلَکُمْ خَطٰیٰکُمْ وَسَنَزِیْدُ الْمُحْسِنِیْنَ}(۵۸){فَبَدَّلَ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا قَوْلًا غَیْرَ الَّذِیْ قِیْلَ لَہُمْ فَاَنْزَلْنَا عَلَی الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا رِجْزًا مِّنَ السَّمَآء ِ بِمَا کَانُوْا یَفْسُقُوْنَ}(۶۰)
ترجمہ کنزالایمان:اور جب ہم نے فرمایا اس بستی میں جاؤ ،پھر اس میں جہاں چاہو بے روک ٹوک کھاؤ اور دروازہ میں سجدہ کرتے داخل ہواور کہو ہمارے گناہ معاف ہوں ہم تمہاری خطائیں بخش دیں گے اور قریب ہے کہ نیکی والوں کو اور زیادہ دیں ۔تو ظالموں نے اور بات بدل دی جو فرمائی گئی تھی اس کے سواتو ہم نے آسمان سے ان پر عذاب اتارا بدلہ ان کی بے حُکمی کا۔
ترجمہ ضیاء الایمان: اوریادکروجب ہم نے بنی اسرائیل کو فرمایا: اس بستی میں داخل ہوجائواوراس میں جہاں سے چاہوبغیرروک ٹوک کھائواوردروازے میں سجدہ کرتے ہوئے داخل ہواوریہ بھی کہوکہ اے اللہ ! ہمارے گناہ معاف فرمااورہم تمھاری خطائیں معاف فرمادیں گے اورقریب ہے کہ نیکی کرنے والوں کو اورزیادہ عطافرمائیں توظالموں نے جو بات ان کوفرمائی گئی تھی اس کو بدل دیاتوہم نے آسمان سے ان پر عذاب اتاراوہ بدلہ تھاان کی نافرمانی کا۔
رسول اللہ ﷺنے فرمایا
عَنْ ہَمَّامِ بْنِ مُنَبِّہٍ أَنَّہُ سَمِعَ أَبَا ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ یَقُولُ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قِیلَ لِبَنِی إِسْرَائِیلَ ادْخُلُوا الْبَابَ سُجَّدًا وَقُولُوا حِطَّۃٌ فَبَدَّلُوا فَدَخَلُوا یَزْحَفُونَ عَلَی أَسْتَاہِہِمْ وَقَالُوا حَبَّۃٌ فِی شَعْرَۃٍ۔
ترجمہ :حضرت سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: بنی اسرائیل سے کہا گیا کہ تم سجدہ کرتے ہوئے دروازے سے داخل ہوجاؤ اور حِطَّۃٌ کہو، یعنی ہمارے گناہ معاف کردے۔ انھوں نے اسے تبدیل کردیا اور ا پنے سرینوں کو گھسیٹتے ہوئے داخل ہوئے جبکہ زبان سے حبۃ فی شعرۃ کہہ رہے تھے۔ اس کے معنی ہیں: بالیوں میں دانے خوب ہوں۔
(صحیح البخاری: محمد بن إسماعیل أبو عبداللہ البخاری الجعفی(۶:۱۹)
بنی اسرائیل کاحضرت سیدنایوشع علیہ السلام کی گستاخی کرنا
حَکَاہَا ابْنُ قُتَیْبَۃَ وَحَکَاہُ الْہَرَوِیُّ عَنِ السُّدِّیِّ وَمُجَاہِدٍ وَکَانَ قَصْدُہُمْ خِلَافَ مَا أَمَرَہُمُ اللَّہُ بِہِ فَعَصَوْا وَتَمَرَّدُوا وَاسْتَہْزَء ُوا فَعَاقَبَہُمُ اللَّہُ بِالرِّجْزِ وَہُوَ الْعَذَابُ وَقَالَ ابْنُ زَیْدٍ:کَانَ طَاعُونًا أَہْلَکَ مِنْہُمْ سَبْعِینَ أَلْفًاوَرُوِیَ أَنَّ الْبَابَ جُعِلَ قَصِیرًا لِیَدْخُلُوہُ رُکَّعًا فَدَخَلُوہُ مُتَوَرِّکِینَ عَلَی أَسْتَاہِہِمْ۔
ترجمہ :ابن قتیبہ نے بیان کیاہے اورالہروی نے السدی اورامام مجاہد رضی اللہ عنہم سے بیان کیاہے کہ ان کامقصد صرف اورصرف اس حکم کی مخالفت کرناتھاجو ان کو دیاگیاتھا، پس انہوںنے نافرمانی کی ، سرکشی کی اورحضرت سیدنایوشع بن نون رضی اللہ عنہ کامذاق اڑایااوراللہ تعالی نے ان کو عذاب میں مبتلاء کردیا۔ امام ابن زید رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ یہ عذاب طاعون کاتھاان کے سترہزار لوگ اسی میں مارے گئے ۔ اوریہ بھی روایت ہے کہ اس شہر کادروازہ چھوٹابنایاگیاتھاتاکہ وہ جھکتے ہوئے داخل ہوں تووہ اپنی سرینوں کے بل گھسٹتے ہوئے داخل ہوئے۔
(تفسیر القرطبی:أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن أبی بکر بن فرح الأنصاری الخزرجی شمس الدین القرطبی(۱:۴۱۱)
رسول اللہ ﷺکی حدیث شریف کے لفظ کو بدلنامنع
وَکَانَ مَالِکُ بْنُ أَنَسٍ یُشَدِّدُ فِی حَدِیثِ رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فی التَّاء ِ وَالْیَاء ِ وَنَحْوِ ہَذَا۔
ترجمہ :حضرت سیدنامالک بن انس رضی اللہ عنہ رسول اللہ ﷺکے فرمان شریف میں تااوریامیں بھی بہت زیادہ سختی کرتے تھے یعنی اتنی بھی تبدیلی نہیں ہونے دیتے تھے ۔
(جامع الأصول فی أحادیث الرسول :مجد الدین أبو السعادات المبارک الشیبانی الجزری ابن الأثیر (۱:۱۰۱)
رسول اللہ ﷺکی تعلیم
عَنْ سَعْدِ بْنِ عُبَیْدَۃَ حَدَّثَنِی الْبَرَاء ُ أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ إِذَا أَخَذْتَ مَضْجَعَکَ فَتَوَضَّأْ وُضُوء َکَ لِلصَّلَاۃِ ثُمَّ اضْطَجِعْ عَلَی شِقِّکَ الْأَیْمَنِ ثُمَّ قُلْ اللَّہُمَّ أَسْلَمْتُ وَجْہِی إِلَیْکَ وَفَوَّضْتُ أَمْرِی إِلَیْکَ وَأَلْجَأْتُ ظَہْرِی إِلَیْکَ رَغْبَۃً وَرَہْبَۃً إِلَیْکَ لَا مَلْجَأَ وَلَا مَنْجَا مِنْکَ إِلَّا إِلَیْکَ آمَنْتُ بِکِتَابِکَ الَّذِی أَنْزَلْتَ وَنَبِیِّکَ الَّذِی أَرْسَلْتَ فَإِنْ مُتَّ فِی لَیْلَتِکَ مُتَّ عَلَی الْفِطْرَۃِ قَالَ فَرَدَدْتُہُنَّ لِأَسْتَذْکِرَہُ فَقُلْتُ آمَنْتُ بِرَسُولِکَ الَّذِی أَرْسَلْتَ فَقَالَ قُلْ آمَنْتُ بِنَبِیِّکَ الَّذِی أَرْسَلْتَ قَالَ وَہَذَا حَدِیثٌ حَسَنٌ صَحِیحٌ وَقَدْ رُوِیَ مِنْ غَیْرِ وَجْہٍ عَنْ الْبَرَاء ِ وَلَا نَعْلَمُ فِی شَیْء ٍ مِنْ الرِّوَایَاتِ ذِکْرَ الْوُضُوء ِ إِلَّا فِی ہَذَا الْحَدِیثِ۔
ترجمہ :حضرت سیدنابراء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:جب تم اپنے بستر پر سونے کے لیے جائو توجس طرح صلوۃ کے لیے وضو کرتے ہو ویساہی وضو کرکے جائو ، پھر داہنے کروٹ لیٹو، پھر (یہ)دعا پڑھو:{اللَّہُمَّ أَسْلَمْتُ وَجْہِی إِلَیْکَ وَفَوَّضْتُ أَمْرِی إِلَیْکَ وَأَلْجَأْتُ ظَہْرِی إِلَیْکَ رَغْبَۃً وَرَہْبَۃً إِلَیْکَ لاَمَلْجَأَ وَلاَ مَنْجَا مِنْکَ إِلاَّ إِلَیْکَ آمَنْتُ بِکِتَابِکَ الَّذِی أَنْزَلْتَ وَنَبِیِّکَ الَّذِی أَرْسَلْتَ}پس اگر تو اس رات میں مرگیا تو فطرت (اسلام)پرمرے گا ،حضرت سیدنا برا ء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : میں نے دعا کے ان الفاظ کو دہرایا تاکہ یاد ہوجائیں تو دہراتے وقت میں نے کہا:{آمَنْتُ بِرَسُولِکَ الَّذِی أَرْسَلْتَ} جب کہہ لیا تو آپﷺ نے فرمایا:(رسول نہ کہو بلکہ){آمَنْتُ بِنَبِیِّکَ الَّذِی أَرْسَلْتَ}کہو، میں ایمان لایا تیرے اس نبی ﷺپر جسے تو نے بھیجاہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
(سنن الترمذی:محمد بن عیسی بن سَوْرۃ بن موسی بن الضحاک، الترمذی، أبو عیسی (۵:۳۳۶)
اس حدیث شریف سے بھی معلوم ہواکہ حدیث شریف میں الفاظ کوبیان کرتے ہوئے خاص دھیان رکھاجائے کہ کہیں اس کے معنی میں تغیرواقع نہ ہوجائے۔
لفظ نبی میں مدح زیادہ ہونے کاسبب ؟
لِأَنَّ لَفْظَ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَمْدَحُ وَلِکُلِّ نَعْتٍ مِنْ ہَذَیْنِ النَّعْتَیْنِ مَوْضِعٌأَلَا تَرَی أَنَّ اسْمَ الرَّسُولِ یَقَعُ عَلَی الْکَافَّۃِ وَاسْمُ النَّبِیِّ لَا یَسْتَحِقُّہُ إِلَّا الْأَنْبِیَاء ُ عَلَیْہِمُ السَّلَامُ وَإِنَّمَا فُضِّلَ الْمُرْسَلُونَ مِنَ الْأَنْبِیَاء ِ لِأَنَّہُمْ جَمَعُوا النُّبُوَّۃَ وَالرِّسَالَۃَ۔فَلَمَّا قَالَ:(وَنَبِیِّکَ)جَاء َ بِالنَّعْتِ الْأَمْدَحِ ۔
ترجمہ:امام ابوعبداللہ محمدبن احمدالقرطبی المتوفی :۶۷۱ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ نبی کالفظ لفظ رسول سے زیادہ مدح کاباعث تھاان دونوں صفات میں ہر صفت کاخاص موقع ومحل ہے۔کیاآپ نے یہ ملاحظہ نہیں کیاکہ رسول کااسم تمام پر واقع ہوتاہے اورنبی کااسم صرف اورصرف انبیاء کرام علیہم السلام پر بولاجاتاہے ۔ رسل کرام علیہم السلام کوانبیاء کرام علیہم السلام پر فضیلت دی گئی ہے کیونکہ وہ نبوت ورسالت کو جمع کرتے ہیں، جب {ونبیک} فرمایاتو ایسی نعت ذکرفرمائی جو زیادہ مدح کاباعث تھی ۔
(تفسیر القرطبی: أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن أبی بکر بن فرح الأنصاری الخزرجی شمس الدین القرطبی (۱:۴۱۲)
مفتوحہ علاقہ میں داخل ہونے کاسنت طریقہ
وَلِہَذَا کَانَ عَلَیْہِ الصلاۃ والسلام یَظْہَرُ عَلَیْہِ الْخُضُوعُ جِدًّا عِنْدَ النَّصْرِ کَمَا رُوِیَ أَنَّہُ کَانَ یَوْمَ الْفَتْحِ فَتْحِ مَکَّۃَ داخلا إلیہا من الثنیۃ العلیا وأنہ لخاضع لِرَبِّہِ حَتَّی إِنَّ عُثْنُونَہُ لَیَمَسُّ مَوْرِکَ رَحْلِہِ شکرا للہ عَلَی ذَلِکَ، ثُمَّ لَمَّا دَخَلَ الْبَلَدَ اغْتَسَلَ وَصَلَّی ثَمَانِیَ رَکَعَاتٍ وَذَلِکَ ضُحًی، فَقَالَ بَعْضُہُمْ: ہَذِہِ صَلَاۃُ الضُّحَی، وَقَالَ آخَرُونَ بَلْ ہِیَ صَلَاۃُ الْفَتْحِ فَاسْتَحَبُّوا لِلْإِمَامِ وَلِلْأَمِیرِ إِذَا فَتَحَ بَلَدًا أَنْ یُصَلِّیَ فِیہِ ثَمَانِیَ رَکَعَاتٍ عِنْدَ أَوَّلِ دُخُولِہِ کَمَا فَعَلَ سَعْدُ بْنُ أَبِی وَقَّاصٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ لَمَّا دَخَلَ إِیوَانَ کِسْرَی صَلَّی فِیہِ ثَمَانِیَ رَکَعَاتٍ، وَالصَّحِیحُ أَنَّہُ یَفْصِلُ بَیْنَ کُلِّ رَکْعَتَیْنِ بِتَسْلِیمٍ، وَقِیلَ یُصَلِّیہَا کُلَّہَا بِتَسْلِیمٍ وَاحِدٍ، وَاللَّہُ أَعْلَمُ.
ترجمہ :حضرت سیدناعمر بن خطاب اورعبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہمافرماتے ہیں جب مکہ مکرمہ فتح ہواتورسول اللہ ﷺاس شہر میں داخل ہوئے تو انتہائی عاجزی اورتواضع کااظہارہورہاتھایہاں تک کہ آپﷺنے اپناسرمبارک جھکایاہواتھااوراونٹنی کے پالان سے آپ ﷺکاسرمبارک لگ رہاتھا۔ شہر میں جاتے ہی غسل فرماکرضحی کے وقت آٹھ رکعت نماز اداکی جو ضحی کی نماز بھی تھی اورفتح کے شکریہ کی نماز بھی ۔دونوں طرح کے قول محدثیں نے نقل کئے ہیں۔
حضرت سیدناسعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے جب ملک ایران فتح کیااورکسری کے شاہی محلات میں پہنچے تو اسی سنت کے مطابق آٹھ رکعات اداکیں ۔ دودورکعت سے ایک سلام کے ساتھ پڑھنے کابعض کامذہب ہے۔ اوربعض نے یہ بھی کہاہے کہ آپ رضی اللہ عنہ نے آٹھ رکعات ایک ہی سلام کے ساتھ اداکی تھیں ۔
(تفسیر القرآن العظیم:أبو الفداء إسماعیل بن عمر بن کثیر القرشی البصری ثم الدمشقی (ا:۱۷۵)
بنی اسرائیل کاانبیاء کرام علیہم السلام کو شہیدکرنااوران کی گستاخیاں کرنااوراللہ تعالی کاان پر لعنت مسلط کرنا
{وَ اِذْ قُلْتُمْ یٰمُوْسٰی لَنْ نَّصْبِرَ عَلٰی طَعَامٍ وّٰحِدٍ فَادْعُ لَنَا رَبَّکَ یُخْرِجْ لَنَا مِمَّا تُنْبِتُ الْاَرْضُ مِنْ بَقْلِہَا وَقِثَّآئِہَا وَفُوْمِہَا وَعَدَسِہَا وَبَصَلِہَا قَالَ اَتَسْتَبْدِلُوْنَ الَّذِیْ ہُوَ اَدْنٰی بِالَّذِیْ ہُوَ خَیْرٌ اِہْبِطُوْا مِصْرًا فَاِنَّ لَکُمْ مَّا سَاَلْتُمْ وَضُرِبَتْ عَلَیْہِمُ الذِّلَّۃُ وَالْمَسْکَنَۃُ وَبَآء ُوْ بِغَضَبٍ مِّنَ اللہِ ذٰلِکَ بِاَنَّہُمْ کَانُوْا یَکْفُرُوْنَ بِاٰیٰتِ اللہِ وَیَقْتُلُوْنَ النَّبِیّٖنَ بِغَیْرِ الْحَقِّ ذٰلِکَ بِمَا عَصَوْا وَّکَانُوْا یَعْتَدُوْنَ}
ترجمہ کنزالایمان:اور جب تم نے کہا اے موسیٰ ہم سے تو ایک کھانے پر ہرگز صبر نہ ہوگا تو آپ اپنے رب سے دعاء کیجئے کہ زمین کی اگائی ہوئی چیزیں ہمارے لئے نکالے کچھ ساگ اور ککڑی اور گیہوں اور مسور اور پیاز فرمایاکیا ادنیٰ چیزکو بہتر کے بدلے مانگتے ہو اچھا مصر ف یا کسی شہر میں اترو وہاں تمہیں ملے گا جو تم نے مانگا اور ان پر مقرر کردی گئی خواری اور ناداری اور خدا کے غضب میں لوٹے یہ بدلہ تھا اس کا کہ وہ اللہ کی آیتوں کا انکار کرتے اور انبیاء کو ناحق شہید کرتے یہ بدلہ تھا ان کی نافرمانیوں اور حد سے بڑھنے کا۔
ترجمہ ضیاء الایمان:اے بنی اسرائیل ! یادکروجب تم نے کہا: اے موسی ہم سے ایک کھانے پر توکبھی بھی صبرنہ ہوگا، آپ اللہ تعالی سے دعاکیجئے کہ وہ ہمارے لئے زمین سے اگائی ہوئی چیزیں نکالے جیسے ساگ اورککڑی اورمسورکی دال اورپیاز۔ حضرت موسی علیہ السلام نے فرمایا: کیاتم بہترچیز کے بدلے میں ادنی چیز لیناچاہتے ہو؟کسی شہر میں چلوبے شک تمھارے لئے وہی ہے جو تم نے مانگااوران پر زلت ومسکنت مسلط کردی گئی اوروہ اللہ تعالی کاعذاب لیکرلوٹے ، اس وجہ سے کہ یہ لوگ اللہ تعالی کی آیتوں کے ساتھ کفرکرتے تھے اوراللہ تعالی کے انبیاء کرام علیہم السلام کو ناحق شہیدکرتے تھے ۔ یہ بات اس وجہ سے ہوئی کہ انہوںنے نافرمانی کی اورحدسے آگے نکل گئے ۔
بنی اسرائیل کی گستاخیاں
قَوْلُہُ تَعَالَی:(ذلِکَ)’’ ذَلِکَ‘ تَعْلِیلٌ(بِأَنَّہُمْ کانُوا یَکْفُرُونَ)أَیْ یَکْذِبُونَ بِآیاتِ اللَّہِ)أَیْ بِکِتَابِہِ وَمُعْجِزَاتِ أَنْبِیَائِہِ، کَعِیسَی وَیَحْیَی وَزَکَرِیَّا وَمُحَمَّدٍ عَلَیْہِمُ السَّلَامُ(وَیَقْتُلُونَ النَّبِیِّینَ) مَعْطُوفٌ عَلَی’’ یَکْفُرُونَ‘‘۔
ترجمہ :حضرت سیدناامام ابوعبداللہ محمدبن احمدالقرطبی المتوفی:۶۷۱ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ یہاں ذلک کی علت بیان ہورہی ہے{بِأَنَّہُمْ کانُوا یَکْفُرُونَ}یعنی وہ جھٹلاتے تھے اللہ تعالی کی آیات کو اورانبیاء کرام علیہم السلام کے معجزات کو جیسے حضرت سیدناعیسی علیہ السلام ، حضرت سیدنایحیی علیہ السلام ، حضرت سیدنازکریاعلیہ السلام اورحضور سیدناتاجدارختم نبوت محمدرسول اللہ ﷺکو ۔ (وَیَقْتُلُونَ النَّبِیِّینَ)یکفرون پر معطوف ہے ۔
(تفسیر القرطبی: أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن أبی بکر بن فرح الأنصاری الخزرجی شمس الدین القرطبی (۱:۴۲۲)
ایک ہی دن میں یہودیوں نے تین سوانبیاء کرام علیہم السلام کو شہیدکردیا
کانُوا یَکْفُرُونَ بِآیاتِ اللَّہِ: الْآیَاتُ الْمُعْجِزَاتُ التِّسْعُ وَغَیْرُہَا الَّتِی أَتَی بِہَا مُوسَی، أَوِ التَّوْرَاۃُ، أَوْ آیَاتٌ مِنْہَا، کَالْآیَاتِ الَّتِی فِیہَا صِفَۃُ رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، أَوْ فِیہَا الرَّجْمُ، أَوِ الْقُرْآنُ، أَوْ جَمِیعُ آیَاتِ اللَّہِ الْمُنَزَّلَۃِ عَلَی الرُّسُلِ، أَقْوَالٌ خَمْسَۃٌ، وَإِضَافَۃُ الْآیَاتِ إِلَی اللَّہِ لِأَنَّہَا مِنْ عِنْدِہِ تَعَالَی وَیَقْتُلُونَ النَّبِیِّینَ: قَتَلُوا یَحْیَی وَشَعِیَا وَزَکَرِیَّا.وَرُوِیَ عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ قَتَلَ بَنُو إِسْرَائِیلَ سَبْعِینَ نَبِیًّا، وَفِی رِوَایَۃٍ ثَلَاثَمِائَۃِ نَبِیٍّ فِی أَوَّلِ النَّہَارِ۔
ترجمہ:امام أبو حیان محمد بن یوسف بن علی بن یوسف بن حیان أثیر الدین الأندلسی المتوفی : ۷۴۵ھ) رحمہ اللہ تعالی نقل کرتے ہیں کہ وہ اللہ تعالی کی آیات کاانکارکرتے تھے یعنی وہ نومعجزات جو اللہ تعالی نے حضرت سیدناموسی علیہ السلام کو عطافرمائے تھے ان کاانکارکرتے تھے ۔یاپھرتوراۃ کاانکارکرتے تھے یاپھران آیات کاانکارکرتے تھے جن میں رسول اللہ ﷺکی صفات بیان ہوئی ہیں ، یاان آیات کاانکارکرتے تھے جن میں رجم کاذکرہے ، یاپھرقرآن کریم کاانکارکرتے تھے یاپھروہ ان تمام آسمانی آیات کاانکارکرتے تھے جو اللہ تعالی نے اپنے انبیاء کرام علیہم السلام پر نازل فرمائی ہیں، آیات کی اضافت اللہ تعالی کی طرف اس لئے کہ اس نے ہی نازل فرمائی ہیں
اورانبیاء کرام علیہم السلام کو قتل کرتے تھے اورانہوںنے حضرت سیدنایحیی علیہ السلام ، شعیاعلیہ السلام اورزکریاعلیہ السلام کو شہیدکیااورحضرت سیدناعبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ بنی اسرائیل نے سترانبیاء کرام علیہم السلام کو شہید کیا، اورایک روایت میں یہ ہے کہ انہوں نے ایک دن صبح ہی صبح تین سوانبیاء کرام علیہم السلام کو شہیدکردیاتھا۔
(البحر المحیط فی التفسیر:أبو حیان محمد بن یوسف بن علی بن یوسف بن حیان أثیر الدین الأندلسی (۱:۳۸۳)
کافرنے نبی علیہ السلام کوکیسے قتل کرلیا؟
فَإِنْ قِیلَ: کَیْفَ جَازَ أَنْ یُخَلِّیَ بَیْنَ الْکَافِرِینَ وَقَتْلِ الْأَنْبِیَاء ِ؟ قِیلَ: ذَلِکَ کَرَامَۃٌ لَہُمْ وَزِیَادَۃٌ فِی مَنَازِلِہِمْ، کَمَثَلِ مَنْ یُقْتَلُ فِی سَبِیلِ اللَّہِ مِنَ الْمُؤْمِنِینَ، وَلَیْسَ ذَلِکَ بِخِذْلَانٍ لَہُمْ۔
ترجمہ :امام ابوعبداللہ محمدبن احمدالقرطبی المتوفی :۶۷۱ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ اگریہ کہاجائے کہ ایک کافرکو کیسے یہ قوت حاصل ہوگئی کہ اس نے اللہ تعالی کے نبی کو شہیدکردیا؟ تواس کاجواب یہ ہے کہ یہ انبیاء کرام علیہم السلام کی کرامت اوران کے مقامات میں زیادتی کے لئے تھاجیسے بندہ مومن جو اللہ تعالی کے راستے میں شہید کردیاجاتاہے تواسے مرتبہ ملتاہے ، انبیاء کرام علیہم السلام کااللہ تعالی کے راہ میں شہید ہوجاناان کے لئے خذلان اوررسوائی کاسبب نہیں ہے ۔
(تفسیر القرطبی: أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن أبی بکر بن فرح الأنصاری الخزرجی شمس الدین القرطبی (۱:۴۲۲)
کوئی بھی جہادی نبی ( علیہ السلام ) شہید نہیں ہوئے
قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ وَالْحَسَنُ: لَمْ یُقْتَلْ نَبِیٌّ قَطُّ مِنَ الْأَنْبِیَاء ِ إِلَّا مَنْ لَمْ یُؤْمَرْ بِقِتَالٍ، وَکُلُّ مَنْ أُمِرَ بِقِتَالٍ نُصِرَ۔
ترجمہ :حضرت سیدناعبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہمااورحضرت سیدناامام حسن رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ انبیاء کرام علیہم السلام میں سے کوئی بھی نبی شہید نہیں ہوئے مگروہ جنہیں قتال کاحکم نہیں دیاگیاتھااورجس نبی ( علیہ السلام) کو جہاد کی اجازت دی گئی پھران کی مددبھی کی گئی تھی ۔
(البحر المحیط فی التفسیر:أبو حیان محمد بن یوسف بن علی بن یوسف بن حیان أثیر الدین الأندلسی (۱:۳۸۳)
پس یہودی ذلت ومسکنت میں ڈوب گئے اورمغضوب علیہم بنے اورملعون بنے ، بندروخنزیزبنائے گئے ۔یہی وہ لوگ ہیں جو مجموعہ شر ہیں ابلیس کے بڑے بھائی کہے جائیں تو بے جانہ ہوگا۔ اس کے بعد مزید سرکشی ، کفراوردین الہی کے ساتھ عداوت ودشمنی وغیرہاہزارہافتنے انہیں میں موجودہیں ۔ انتہائی مکاروٹھگ ہیں اورعیاری ومکاری میں بے انتہاء ماہرہیں ۔ بے وقوف احمق نصاری جو ان کے ازلی دشمن تھے وہ بھی ان کے ساتھ کھڑے ہوگئے ہیں ۔ آج نصرانی یہودی فوج کے ہراول دستہ کافوجی بناہواہے عیسائیوں کو نہ اپنے مذہب کاپتاہے اورنہ ہی انجیل کی سچی تعلیمات کا، مکاریہودنے اسے قومی ومذہبی اوردینی سطح پر اپنے اندرضم کرلیاہے اوراس کی حیثیت اورمذہبی شعاروں تک کو تباہ کردیاہے ۔
قیامت تک کی ذلت ومسکنت اورغلامی کی پیشنگوئی ہے کہ یہ قوم کبھی بھی فلاح نہیں پائے گی اوراقتدار وسلطنت حاصل نہیں کرسکے گی ، ہاں غیروں کی حمایت اوردوسروں کی ماتحتی اورسایہ میں جیسے موجودہ اسرائیلی حکومت ہے ، برائے نام یہودی اقتداراورمملکت ہے ، لیکن حقیقت میں یہ امریکی وبرطانوی چھائونی ہے اوران کے زیرسرپرستی قائم ہے ۔ اگرآج امریکہ اس کی مددسے ہاتھ کھینچ لے شاید ایک ہفتہ بھی یہ دنیامیں نہ رہ سکے ۔ فوراً سے پہلے دنیاکے نقشہ سے ہی ختم ہوجائے گی۔
تین سوانبیاء کرام علیہم السلام کو شہید کرکے دکانیں کھول لیں
أخرج أَبُو دَاوُد والطالیسی وَابْن أبی حَاتِم عَن ابْن مَسْعُود قَالَ: کَانَت بَنو إِسْرَائِیل فِی الْیَوْم تقتل ثَلَاثمِائَۃ نَبِی ثمَّ یُقِیمُونَ سوق بقلہم فِی آخر النَّہَار۔
ترجمہ :امام ابودائودالطیالسی اورامام ابن ابی حاتم رحمہمااللہ تعالی نے حضرت سیدناعبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ سے روایت کیاکہ بنی اسرائیل نے صبح کے وقت تین سوانبیاء کرام علیہم السلام کو شہید کیااوراسی دن شام کو سبزی کابازارلگائے کھڑے تھے۔
(الدر المنثور:عبد الرحمن بن أبی بکر، جلال الدین السیوطی (ا:۱۷۸)
اس سے معلوم ہواکہ وہ کتنے بے حس لوگ تھے کہ تین سوانبیاء کرام علیہم السلام کو شہیدکرکے بھی کسی کے دل میں کوئی دکھ نہیں ہے اورنہ ہی کسی طرح کاکوئی افسوس ہے ۔
سب سے زیادہ عذاب کس کوہوگا؟
عَنْ أَبِی عُبَیْدَۃَ بْنِ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ مَسْعُودٍ، أَنَّہُ قَالَ: إِنَّ مِنْ أَشَدِّ النَّاسِ عَذَابًا یَوْمَ الْقِیَامَۃِ: إِمَامٌ مُضِلٌّ یُضِلُّ النَّاسَ بِغَیْرِ عِلْمٍ، أَوْ رَجُلٌ قَتَلَ نَبِیًّا، أَوْ رَجُلٌ قَتَلَہُ نَبِیُّ، أَوْ رَجُلٌ مُصَوِّرٌ، یُصَوِّرُ ہَذِہِ التَّمَاثِیلَ۔
ترجمہ :حضرت سیدناعبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: قیامت کے دن سب سے زیادہ سخت عذاب اسے ہوگاجس نے اللہ تعالی کے کسی نبی ( علیہ السلام) کو شہید کیایاجسے اللہ تعالی کے نبی علیہ السلام نے قتل کیااوراسے سخت عذاب ہوگاجو گمراہی پھیلانے والاہواورجوتصویریں بنانے والاہو۔
(الجامع :معمر بن أبی عمرو راشد الأزدی مولاہم، أبو عروۃ البصری، نزیل الیمن (۱۰:۳۹۸)
یہویوں نے انبیاء کرام علیہم السلام کوکیسے شہید کرلیا؟
انبیاء کرام علیہم السلام کو کیسے قتل کرلیا؟آیات الہیہ کی تکذیب اورانبیاء کرام علیہم السلام کے قتل کی جرات اوردلیری اس لئے پیداہوئی کہ وقتاً فوقتاً اللہ تعالی کی نافرمانیاں کیں اوراللہ تعالی کی حدود سے تجاوز کرتے تھے نتیجہ یہ ہواکہ رفتہ رفتہ معصیت اورنافرمانی دلوں میں راسخ ہوگئی اوراس نے اللہ تعالی کی آیات کی تکذیب اورانبیاء علیہم السلام کے قتل کرنے پر آمادہ کردیا۔
معارف ومسائل
(۱)بعض لوگوں کی طبیعت میں کم ہمتی، نالائقی اور نیچ پن ہوتا ہے ۔ آپ انہیں پکڑ کر بھی اوپر کرنا چاہیں تو وہ کم تر اور نیچے رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ ایسے لوگ عموما زندگی کی لذتوں اور نعمتوں سے فائدہ نہیں اٹھا پاتے۔ بلند ہمت اور بہتر سے بہتر کے طالب ہی خالق و مخلوق کے ہاں پسندیدہ ہوتے ہیں۔بنی اسرائیل پر نعمتوں کے ذکر کے بعد یہاں سے ان کی کم ہمتی اور نالائقی ونافرمانی کے کچھ واقعات بیان فرمائے جاتے ہیں۔ان میں سے ایک واقعہ یہ ہے: بنی اسرائیل نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے مطالبہ کیا کہ ہم ایک ہی قسم کے کھانے پر صبر نہیں کرسکتے، آپ دعا کریں کہ ہمیں زمین کی ترکاریاں اور دالیں وغیرہ ملیں۔حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَا م نے انہیں سمجھایا کہ تمہیں اتنا اچھا کھانا بغیر محنت کے مل رہا ہے ، کیا اس کی جگہ ادنیٰ قسم کا کھانا لینا چاہتے ہو؟ لیکن جب وہ نہ مانے تو حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے بارگاہِ الٰہی میں دعا کی۔ اِس پر حکم ہوا کہ اے بنی اسرائیل!اگر تمہارایہی مطالبہ ہے تو پھر مصرجاو وہاں تمہیں وہ چیزیں ملیں گی جن کا تم مطالبہ کررہے ہو۔ مصر سے مراد یا توملک ِمصر یا مطلقا کوئی بھی شہرہے۔
(۲) اس سے یہ معلوم ہواکہ ساگ ککڑی وغیرہ جو چیزیں بنی اسرائیل نے مانگیں ان کا مطالبہ گناہ نہ تھا لیکن مَن وسلوٰی جیسی نعمت بے محنت چھوڑ کر ان کی طرف مائل ہونا پست خیالی ہے۔ ہمیشہ ان لوگوں کا میلانِ طبع پستی ہی کی طرف رہا اور حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون عَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام جیسے جلیل القدر، بلند ہمت انبیاء کرام علیہم السلام کے بعد توبنی اسرائیل کے نیچ پن اور کم حوصلگی کا پورا ظہور ہوا۔ جب بڑوں سے نسبت ہو تو دل و دماغ اور سوچ بھی بڑی بنانی چاہئے اور مسلمانوں کو تو بنی اسرائیل سے زیادہ اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ ان کی نسبت سب سے بڑی ہے۔
(۳)بنی اسرائیل بلند مراتب پر فائز ہونے کے بعد جن وجوہات کی بنا پر ذلت و غربت کی گہری کھائی میں گرے، کاش ان وجوہات کو سامنے رکھتے ہوئے عبرت اور نصیحت کے لئے ایک مرتبہ مسلمان بھی اپنے اعمال و افعال کا جائز لے لیں اور اپنے ماضی و حال کا مشاہدہ کریں کہ جب تک مسلمانوں نے اللہ تعالیٰ اور اس کے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے احکامات کی پیروی کو اپنا سب سے اہم مقصد بنائے رکھا اور ا س راہ میں آنے والی ہر رکاوٹ کو جڑ سے اکھاڑ کر چھوڑا تب تک دنیا کے کونے کونے میں ان کے نام کا ڈنکا بجتا رہا اور جب سے انہوں نے اللہ تعالیٰ اوراس کے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم َکے احکامات سے نافرمانی اور سرکشی والا راستہ اختیار کیا تب سے دنیا بھر میں جو ذلت و رسوائی مسلمانوں کی ہوئی ہے اور ہو رہی ہے وہ سب کے سامنے ہے۔
(۴)یہودیوں پر ان کے گھٹیا کردار کی وجہ سے ذلت و غربت مسلط کردی گئی۔ ان پر غضب ِ الٰہی کی صورت یہ ہوئی کہ انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور صلحاء کی بدولت جورتبے انہیں حاصل ہوئے تھے وہ ان سے محروم ہوگئے، اس غضب کا باعث صرف یہی نہیں تھا کہ انہوں نے آسمانی غذاوں کے بدلے زمینی پیداوار کی خواہش کی یا حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے زمانے میں اُسی طرح کی اور خطائیں کیں بلکہ عہدِ نبوت سے دور ہونے اور زمانہ دراز گزرنے سے ان کی دینی صلاحیتیں باطل ہوگئیں ، اللہ تعالیٰ کی آیتوں کے ساتھ کفر کا راستہ اختیار کیا، انہوں نے حضرت زکریا، حضرت یحیٰ اور حضرت شعیاعَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو شہید کیا اور ایسا ناحق قتل کیا کہ اس کی وجہ خود یہ قاتل بھی نہیں بتاسکتے، انہوں نے نافرمانی اور سرکشی کا راستہ اختیار کیا۔ الغرض ان کے عظیم جرائم اور قبیح ترین افعال کی وجہ سے ان پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہوئی، ان پر ذلت و غربت مسلط کی گئی اور وہ غضب ِ الٰہی کے مستحق ہوئے۔(تفسیرصراط الجنان (۱:۱۳۵)
(۵) اس سے معلوم ہواکہ جب قوم اللہ تعالی کے انبیاء کرام علیہم السلام کی بے ادبی اورگستاخی کرنے لگے تواللہ تعالی ان سے ہر طرح کی آسائش لے لیتاہے اوروہ دنیامیں ذلیل وخوار ہوکررہ جاتے ہیں۔
(۶) اس سے یہ بھی معلوم ہواکہ انبیاء کرام علیہم السلام کی عداوت بندے کو اللہ تعالی کی ہر طرح کی نعمت سے محروم کردیتی ہے ۔
(۷) اللہ تعالی کے انبیاء کرام علیہم السلام کی عداوت بندے کو رب تعالی کی رحمت سے بھی محروم کردیتی ہے کیونکہ اللہ تعالی نہیں چاہتاکہ اس کی جنت میں اس کے محبوب انبیاء کرام علیہم السلام کادشمن بھی آجائے۔
(۸) اس سے یہ بھی معلو م ہواسب سے سخت کفرانبیاء کرام علیہم السلام کی گستاخی اوران کو قتل کرناہے۔
(۹) اس سے معلوم ہواکہ بنی اسرائیل نے انبیاء کرام علیہم السلا م کو شہید کرنے کی ہمت اسی لئے کی کہ ان کے دل گناہوںکی وجہ سے سیاہ ہوچکے تھے یہی وجہ ہے آج ان لوگوں کورسول اللہ ﷺکی عزت وناموس کامسئلہ سمجھ نہیں آتا۔