تفسیر سورہ بقرہ آیت ۵۰۔۵۱۔۵۲۔۵۳۔۵۴۔۵۵ {وَ اِذْ وٰعَدْنَا مُوْسٰٓی اَرْبَعِیْنَ لَیْلَۃً ثُمَّ اتَّخَذْتُمُ الْعِجْلَ مِنْ بَعْدِہٖ وَاَنْتُمْ ظٰلِمُوْنَ}(۵۱){ثُمَّ عَفَوْنَا عَنْکُمْ مِّنْ بَعْدِ ذٰلِکَ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ}

حضرت سیدناموسی علیہ السلام کی گستاخی کرنے والوں کو سزا

{وَ اِذْ وٰعَدْنَا مُوْسٰٓی اَرْبَعِیْنَ لَیْلَۃً ثُمَّ اتَّخَذْتُمُ الْعِجْلَ مِنْ بَعْدِہٖ وَاَنْتُمْ ظٰلِمُوْنَ}(۵۱){ثُمَّ عَفَوْنَا عَنْکُمْ مِّنْ بَعْدِ ذٰلِکَ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ}(۵۲) {وَ اِذْ اٰتَیْنَا مُوْسَی الْکِتٰبَ وَالْفُرْقَانَ لَعَلَّکُمْ تَہْتَدُوْنَ}(۵۳){وَ اِذْ قَالَ مُوْسٰی لِقَوْمِہٖ یٰقَوْمِ اِنَّکُمْ ظَلَمْتُمْ اَنْفُسَکُمْ بِاتِّخَاذِکُمُ الْعِجْلَ فَتُوْبُوْٓا اِلٰی بَارِئِکُمْ فَاقْتُلُوْٓا اَنْفُسَکُمْ ذٰلِکُمْ خَیْرٌ لَّکُمْ عِنْدَ بَارِئِکُمْ فَتَابَ عَلَیْکُمْ اِنَّہ ہُوَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ}(۵۴)وَ اِذْ قُلْتُمْ یٰمُوْسٰی لَنْ نُّؤْمِنَ لَکَ حَتّٰی نَرَی اللہَ جَہْرَۃً فَاَخَذَتْکُمُ الصّٰعِقَۃُ وَاَنْتُمْ تَنْظُرُوْنَ}(۵۵)

ترجمہ کنزالایمان:اور جب ہم نے موسیٰ سے چالیس رات کا وعدہ فرمایا پھر اس کے پیچھے تم نے بچھڑے کی پوجا شروع کردی اور تم ظالم تھے ۔پھر اس کے بعد ہم نے تمہیں معافی دی کہ کہیں تم احسان مانو ۔اور جب ہم نے موسیٰ کو کتاب عطا کی اور حق و باطل میں تمیز کردینا کہ کہیں تم راہ پر آؤ ،اور جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا اے میری قوم تم نے بچھڑا بناکر اپنی جانوں پر ظلم کیا تو اپنے پیدا کرنے والے کی طرف رجوع لاؤ تو آپس میں ایک دوسرے کو قتل کرو یہ تمہارے پیدا کرنے والے کے نزدیک تمہارے لئے بہتر ہے تو اس نے تمہاری توبہ قبول کی بیشک وہی ہے بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان ۔اور جب تم نے کہا اے موسیٰ ہم ہرگز تمہارا یقین نہ لائیں گے جب تک اعلانیہ خدا کو نہ دیکھ لیں تو تمہیں کڑک نے آلیا اور تم دیکھ رہے تھے ۔پھر مرے پیچھے ہم نے تمہیں زندہ کیا کہ کہیں تم احسان مانو ۔
ترجمہ ضیاء الایمان:اوریہ بھی یادکروکہ جب ہم نے حضرت موسی ( علیہ السلام) سے چالیس راتوں کاوعدہ فرمایا، پھران کے طور پرآنے کے بعد تم نے بچھڑے کی پوجاشروع کردی اورتم توپکے ظالم تھے ، پھراس کے بعد ہم نے تم کو معاف فرمادیاتاکہ تم ہماراشکراداکرو۔اوریہ بھی یادکروجب ہم نے حضرت موسی ( علیہ السلام ) کو کتاب یعنی توراۃ عطاکی اورحق وباطل میں فرق کرنا سکھایاتاکہ تم ہدایت پائو۔اوریادکروجب حضرت موسی ( علیہ السلام) نے اپنی قوم سے فرمایا: اے میری قوم ! تم نے بچھڑے کی عبادت کرکے اپنی جانوں پر ظلم کیاہے لھذا اب تم اللہ تعالی کی بارگاہ میں توبہ کروکہ تم اپنے لوگوں کو قتل کرویہ تمھارے خالق ومالک کے نزدیک سب سے بہترہے تواس نے تمھاری توبہ قبول فرمائی ، بے شک وہی بہت زیادہ توبہ قبول فرمانے والااوربڑامہربان ہے۔
{وَ اِذْ وٰعَدْنَا مُوْسٰٓی اَرْبَعِیْنَ لَیْلَۃً ثُمَّ اتَّخَذْتُمُ الْعِجْلَ مِنْ بَعْدِہٖ وَاَنْتُمْ ظٰلِمُوْنَ}(۵۱){ثُمَّ عَفَوْنَا عَنْکُمْ مِّنْ بَعْدِ ذٰلِکَ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ}(۵۲)
العجل بچھڑا۔ گائے کا بچہ۔ گوسالہ۔ اس کی جمع عجول اور مؤنث عجلۃ استعمال ہوتا ہے۔ایک شعبدہ باز نے جو بنی اسرائیل میں سے تھا اور جس کا نام سامری تھا، چاندی یا سونے کا ایک بچھڑا بنا کر اس کے اندر وہ مٹی ڈا ل دی جو اس نے فرعون کی غرقابی کے وقت حضرت جبرائیل (علیہ السلام)کے گھوڑے کے قدم کے نیچے سے اٹھا کر اپنے پاس محفوظ رکھی ہوئی تھی(چونکہ اس میں مادۂ حیات تھا)، اس مٹی کی مٹھی سے اس بچھڑے میں جان پڑ گئی اور اس کے منہ سے کچھ آواز نکلنے لگی، اگرچہ وہ آواز بے معنی تھی مگر ان لوگوں کے لیے حیرت کی بات ضرور تھی، چونکہ بنی اسرائیل کے لوگ اہل مصر کو گائے کی پوجا کرتے ہوئے دیکھ چکے تھے اس لیے عبادت کے اس طریقے سے وہ پہلے سے ہی آشنا تھے اور وہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام)سے بچھڑے کی شکل کے بت بھی مانگ چکے تھے، پھر فرعون کے غرق ہونے کے بعد شام کی طرف جاتے ہوئے ان کا گزر قوم عمالقہ پر ہوا جو گائے کی شکل کے بت پوجتے تھے، اس لیے انہوں نے سامری کے بہکانے پر بچھڑے کی پوجا میں جلدی بازی کی، چند لوگوں کے سوا تمام اسرائیلی اس بچھڑے کی پوجا کرنے لگ گئے۔
مصر میں گائے کی پرستش کا رواج تھا اس لیے یہ مرض بنی اسرائیل میں بھی پیدا ہو گیا تھا۔ بچھڑے کی پرستش کا واقعہ تورات میں مذکور ہے۔

دس لاکھ لوگ ایک ہی وقت میں شرک میں مبتلاہوگئے

وَالْأَرْبَعُونَ فِی قَوْلِ أَکْثَرِ الْمُفَسِّرِینَ ذُو الْقَعْدَۃِ وَعَشَرَۃٌ مِنْ ذِی الْحَجَّۃِ وَکَانَ ذَلِکَ بَعْدَ أَنْ جاوز البحر وسأل قَوْمُہُ أَنْ یَأْتِیَہُمْ بِکِتَابٍ مِنْ عِنْدِ اللَّہِ فَخَرَجَ إِلَی الطُّورِ فِی سَبْعِینَ مِنْ خِیَارِ بَنِی إِسْرَائِیلَ وَصَعِدُوا الْجَبَلَ وَوَاعَدَہُمْ إِلَی تَمَامِ أربعین لیلۃ فعدوا فیما ذکر المفسرین عِشْرِینَ یَوْمًا وَعِشْرِینَ لَیْلَۃً وَقَالُوا قَدْ أَخْلَفَنَا مَوْعِدَہُ فَاتَّخَذُوا الْعِجْلَ وَقَالَ لَہُمُ السَّامِرِیُّ: ہَذَا إِلَہُکُمْ وَإِلَہُ مُوسَی فَاطْمَأَنُّوا إِلَی قَوْلِہِ وَنَہَاہُمْ ہَارُونُ وَقَالَ یَا قَوْمِ إِنَّما فُتِنْتُمْ بِہِ وَإِنَّ رَبَّکُمُ الرَّحْمنُ فَاتَّبِعُونِی وَأَطِیعُوا أَمْرِی قالُوا لَنْ نَبْرَحَ عَلَیْہِ عاکِفِینَ حَتَّی یَرْجِعَ إِلَیْنا مُوسی (طہ: ۹۰)فَلَمْ یَتَّبِعْ ہَارُونَ وَلَمْ یُطِعْہُ فِی تَرْکِ عِبَادَۃِ الْعِجْلِ إِلَّا اثْنَا عَشَرَ أَلْفًا فِیمَا رُوِیَ فِی الْخَبَرِوَتَہَافَتَ فِی عِبَادَتِہِ سَائِرُہُمْ وَہُمْ أَکْثَرُ مِنْ أَلْفَیْ أَلْفٍ فَلَمَّا رَجَعَ مُوسَی وَوَجَدَہُمْ عَلَی تِلْکَ الْحَالِ أَلْقَی الْأَلْوَاحَ فَرُفِعَ مِنْ جُمْلَتِہَا سِتَّۃُ أَجْزَاء ٍ وَبَقِیَ جُزْء ٌ وَاحِدٌ وَہُوَ الْحَلَالُ وَالْحَرَامُ وَمَا یَحْتَاجُونَ وَأَحْرَقَ الْعِجْلَ وَذَرَاہُ فِی الْبَحْرِ فَشَرِبُوا مِنْ مَائِہِ حبا للعجل فظہرت علی شفاہہم صفرۃ وَوَرِمَتْ بُطُونُہُمْ فَتَابُوا وَلَمْ تُقْبَلْ تَوْبَتُہُمْ دُونَ أَنْ یَقْتُلُوا أَنْفُسَہُمْ فَذَلِکَ قَوْلُہُ تَعَالَی:فَتُوبُوا إِلی بارِئِکُمْ فَاقْتُلُوا أَنْفُسَکُمْ” (البقرۃ: ۵۴) فَقَامُوا بِالْخَنَاجِرِ وَالسُّیُوفِ بَعْضُہُمْ إِلَی بَعْضٍ مِنْ لَدُنْ طُلُوعِ الشَّمْسِ إِلَی ارْتِفَاعِ الضُّحَی فَقَتَلَ بَعْضُہُمْ بَعْضًا لَا یَسْأَلُ وَالِدٌ عَنْ وَلَدِہِ وَلَا وَلَدٌ عَنْ وَالِدِہِ وَلَا أَخٌ عَنْ أَخِیہِ وَلَا أَحَدٌ عَنْ أَحَدٍ کُلُّ مَنَ اسْتَقْبَلَہُ ضَرَبَہُ بِالسَّیْفِ وَضَرَبَہُ الْآخَرُ بِمِثْلِہِ حَتَّی عَجَّ مُوسَی إِلَی اللَّہِ صَارِخًا:یَا رَبَّاہُ قَدْ فَنِیَتْ بَنُو إِسْرَائِیلَ! فَرَحِمَہُمُ اللَّہُ وَجَادَ عَلَیْہِمْ بِفَضْلِہِ فَقَبِلَ تَوْبَۃَ مَنْ بَقِیَ وَجَعَلَ مَنْ قُتِلَ فِی الشُّہَدَاء ِ۔
ترجمہ :امام ابوعبداللہ محمدبن احمدالقرطبی المتوفی : ۶۷۱ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ اکثرمفسرین کے نزدیک یہ چالیس دن ذوالقعدہ کے اوردس دن ذوالحجہ کے تھے اوریہ اس کے بعد ہواجب آپ علیہ السلام نے دریاعبورکرلیااورقوم نے کہا: آپ اللہ تعالی کی طرف ہمارے لئے کوئی کتاب لے آئیں ۔ حضرت سیدناموسی علیہ السلام بنی اسرائیل کے چیدہ چیدہ سترلوگوں کو لیکر باہرنکلے اورایک پہاڑ پر چڑھ گئے اوران سے مکمل چالیس راتوں کاوعدہ فرمایاتومفسرین کے قول کے مطابق انہوںنے بیس دن اوربیس راتیں شمارکیں اورکہنے لگے کہ ہمارے ساتھ وعدہ خلافی ہوئی ہے۔ یعنی وہ یہ کہنے لگے کہ حضرت سیدناموسی علیہ السلام نے یہی ہم سے وعدہ فرمایاتھانہ کہ چالیس دن اورچالیس راتوں کا۔ پھرانہوںنے بچھڑے کو معبود بنالیا، سامری نے ان کو کہا: یہی تمھاراخداہے اورموسی ( علیہ السلام) کابھی یہی خداہے ، وہ سارے کے سارے سامری کی اس بات سے مطمئن ہوگئے ۔

حضرت سیدناہارون علیہ السلام نے ان کو منع کیااورفرمایا: { یَا قَوْمِ إِنَّما فُتِنْتُمْ بِہِ وَإِنَّ رَبَّکُمُ الرَّحْمنُ فَاتَّبِعُونِی وَأَطِیعُوا أَمْرِی قالُوا لَنْ نَبْرَحَ عَلَیْہِ عاکِفِینَ حَتَّی یَرْجِعَ إِلَیْنا مُوسی}اے میری قوم ! تم توفتنہ میں مبتلاء ہوگئے اس سے اوربلاشبہ تمھارارب تووہ ہے جوبے حد مہربان ہے پس تم میری پیروی کرواورمیراحکم مانوتوقوم نے کہا:ہم تواسی کی عبادت پر جمے رہیں گے ، یہاں تک کہ حضرت سیدناموسی علیہ السلام ہماری طرف لوٹ کرآئیں ۔
حضرت سیدناہارون علیہ السلام کی صرف بارہ ہزارلوگوں نے بات مانی اوران کی فرمانبرداری کی اوران کے علاوہ باقی لوگوں نے حضرت سیدناہارون علیہ السلام کی پیروی نہ کی اورجولوگ بچھڑے کی عبادت کرنے لگے تھے ان کی تعداد دس لاکھ سے بھی زیادہ تھی۔

جب حضرت سیدناموسی علیہ السلام واپس تشریف لائے تو آپ علیہ السلام نے ان کو اس حال میں دیکھاتوآپ علیہ السلام نے جلال میں تختیاں نیچے رکھ دیں ، پھرآپ نے اس بچھڑے کو جلادیااوراس کی راکھ سمندرمیں بہادی ، بنی اسرائیل نے بچھڑے کی محبت کی وجہ سے اس سمندرسے پانی پی لیا، پس ان کے ہونٹوں سے زردی ظاہرہوگئی اوران کے پیٹ پھول گئے ،پھریہ سارے اللہ تعالی کی بارگاہ میں توبہ کرنے لگے تواللہ تعالی نے ان کی توبہ قبول نہیں فرمائی حتی کہ اپنے آپ کو یہ لوگ قتل کریں۔

پس انہوںنے خنجراورتلواریں اٹھالیں اورسورج کے طلوع ہونے سے چاشت تک ایک دوسرے کو قتل کرتے رہے ، انہوںنے ایک دوسرے کو قتل کیاکسی والد نے اپنے بیٹے کے بارے میں اورکسی بیٹے نے باپ کے بارے میں اوربھائی نے اپنے بھائی کے بارے میں یہ نہ پوچھاجوسامنے آیااسے تلوارسے قتل کردیا، اسی طرح ہرایک اپنے رشتہ دار کو قتل کرتاحتی کہ حضر ت سیدناموسی علیہ السلام نے اللہ تعالی کی بارگاہ میں گڑگڑاکردعاکی : یااللہ ! بنی اسرائیل توختم ہوگئے ، پس اللہ تعالی نے ان پر رحم فرمایااوران پر اپنافضل فرمایا، پس جوباقی رہ گئے ان کی توبہ قبول فرمائی اورجو مارے گئے انہیں شہداء میں شمارکیا۔
(تفسیر القرطبی:أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن أبی بکر بن فرح الأنصاری الخزرجی شمس الدین القرطبی (المتوفی:(۱:۳۳۳)

جنہوںنے بچھڑے کی پوجانہیں کی ان کو بھی سزادی گئی

وَیُرْوَی أَنَّ یُوشَعَ بْنَ نُونٍ خَرَجَ عَلَیْہِمْ وَہُمْ مُحْتَبُونَ فَقَالَ مَلْعُونٌ مَنْ حَلَّ حَبْوَتَہُ أَوْ مَدَّ طَرَفَہُ إِلَی قَاتِلِہِ أَوِ اتَّقَاہُ بِیَدٍ أَوْ رِجْلٍ فَمَا حَلَّ أَحَدٌ مِنْہُمْ حَبْوَتَہُ حَتَّی قُتِلَ مِنْہُمْ یَعْنِی مَنْ قُتِلَ وَأَقْبَلَ الرَّجُلُ یَقْتُلُ مَنْ یَلِیہِ. ذَکَرُہُ النَّحَّاسُ وَغَیْرُہُ. وَإِنَّمَا عُوقِبَ الَّذِینَ لَمْ یَعْبُدُوا الْعِجْلَ بِقَتْلِ أَنْفُسِہِمْ عَلَی الْقَوْلِ الْأَوَّلِ لِأَنَّہُمْ لَمْ یُغَیِّرُوا الْمُنْکَرَ حِینَ عَبَدُوہُ وَإِنَّمَا اعْتَزَلُوا وَکَانَ الْوَاجِبُ عَلَیْہِمْ أَنْ یُقَاتِلُوا مَنْ عَبَدَہُ وَہَذِہِ سُنَّۃُ اللَّہِ فِی عِبَادِہِ إِذَا فَشَا الْمُنْکَرُ وَلَمْ یُغَیَّرْ عُوقِبَ الْجَمِیعُ.رَوَی جَرِیرٌ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ (مَا مِنْ قَوْمٍ یُعْمَلُ فِیہِمْ بِالْمَعَاصِی ہُمْ أَعَزُّ مِنْہُمْ وَأَمْنَعُ لَا یُغَیِّرُونَ إِلَّا عَمَّہُمُ اللَّہُ بِعِقَابٍ۔

ترجمہ :حضرت سیدنایوشع بن نون رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ وہ ان کے پاس گئے جبکہ وہ سارے گھٹنے کھڑے کرکے ہاتھوں یاکپڑوں سے کلاوہ مار کربیٹھے تھے ، حضرت یوشع نے فرمایاوہ لعنتی ہوگاجو اپناہاتھ یاکپڑاکھولے گایااپنے قاتل کی طرف نظراٹھاکر دیکھے گایااپنے ہاتھ سے بچائوکی کوشش کرے گا،پس ان میں سے کسی نے بھی اپنے بچائوکی کوشش نہیں کی اورنہ ہی کسی نے اپناکپڑاکھولایہاں تک کہ ان کو قتل کردیاگیا۔اورہرشخص کو اس کے قریبی رشتہ دار نے قتل کیا، پس جنہوںنے بچھڑے کی پوجانہیں کی تھی ان کو قتل کرنے کاکہاگیاان کویہی سزادی گئی کہ وہ اپنے رشتہ داروں کوقتل کریں کیونکہ انہوںنے ان کوبچھڑے کی پوجاسے منع نہیں کیاتھا۔ یہ اللہ تعالی کی سنت ہے کہ جب ا س کے بندوں میں برائی پھیل جائے اوراسے کوئی نہ روکے تو تمام کو سزادی جاتی ہے۔
(تفسیر القرطبی:أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن أبی بکر بن فرح الأنصاری الخزرجی شمس الدین القرطبی (المتوفی:(۱:۴۰۲)

اس واقعہ میں رسول اللہ ﷺکوتسلی دی گئی

ہَذِہِ الْقِصَّۃُ فِیہَا فَوَائِدُ: أَحَدُہَا:أَنَّہَا تَدُلُّ عَلَی أَنَّ أُمَّۃَ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ خَیْرُ الْأُمَمِ، لِأَنَّ أُولَئِکَ الْیَہُودَ مَعَ أَنَّہُمْ شَاہَدُوا تِلْکَ الْبَرَاہِینَ الْقَاہِرَۃَ اغْتَرُّوا بِہَذِہِ الشُّبْہَۃِ الرَّکِیکَۃِ جِدًّا، وَأَمَّا أُمَّۃُ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَإِنَّہُمْ مَعَ أَنَّہُمْ مُحْتَاجُونَ فِی مَعْرِفَۃِ کَوْنِ الْقُرْآنِ؍ مُعْجِزًا إِلَی الدَّلَائِلِ الدَّقِیقَۃِ لَمْ یَغْتَرُّوا بِالشُّبَہَاتِ الْقَوِیَّۃِ الْعَظِیمَۃِ، وَذَلِکَ یَدُلُّ عَلَی أَنَّ ہَذِہِ الْأُمَّۃَ خَیْرٌ مِنْ أُولَئِکَ وَأَکْمَلُ عَقْلًا وَأَزْکَی خَاطِرًا مِنْہُمْ. وَثَانِیہَا: أَنَّہُ عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَامُ ذَکَرَ ہَذِہِ الْحِکَایَۃَ مَعَ أَنَّہُ لَمْ یَتَعَلَّمْ عِلْمًا، وَذَلِکَ یَدُلُّ عَلَی أَنَّہُ عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَامُ استفادہا من الوحی وَثَالِثُہَا:فِیہِ تَحْذِیرٌ عَظِیمٌ مِنَ التَّقْلِیدِ وَالْجَہْلِ بِالدَّلَائِلِ فَإِنَّ أُولَئِکَ الْأَقْوَامَ لَوْ أَنَّہُمْ عَرَفُوا اللَّہَ بِالدَّلِیلِ مَعْرِفَۃً تَامَّۃً لَمَا وَقَعُوا فِی شُبْہَۃِ السَّامِرِیِّ. وَرَابِعُہَا: فِی تَسْلِیَۃِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِمَّا کَانَ یُشَاہِدُ مِنْ مُشْرِکِی الْعَرَبِ وَالْیَہُودِ وَالنَّصَارَی بِالْخِلَافِ عَلَیْہِ وَکَأَنَّہُ تَعَالَی أَمَرَہُ بِالصَّبْرِ عَلَی ذَلِکَ کَمَا صَبَرَ مُوسَی عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَامُ فِی ہَذِہِ الْوَاقِعَۃِ النَّکِدَۃِ فَإِنَّہُمْ بَعْدَ أَنْ خَلَّصَہُمُ اللَّہُ مِنْ فرعون وأراہم المعجزات العجیبۃ من أول ظہر وموسی إِلَی ذَلِکَ الْوَقْتِ اغْتَرُّوا بِتِلْکَ الشُّبْہَۃِ الرَّکِیکَۃِ، ثُمَّ إِنَّ مُوسَی عَلَیْہِ السَّلَامُ صَبَرَ عَلَی ذَلِکَ فَلَأَنْ یَصْبِرَ مُحَمَّدٌ عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَامُ عَلَی أَذِیَّۃِ قَوْمِہِ کَانَ ذَلِکَ أَوْلَی وَخَامِسُہَا: أَنَّ أَشَدَّ النَّاسِ مُجَادَلَۃً مَعَ الرَّسُولِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَعَدَاوَۃً لَہُ ہُمُ الْیَہُودُ فَکَأَنَّہُ تَعَالَی قَالَ:إِنَّ ہَؤُلَاء ِ إِنَّمَا یَفْتَخِرُونَ بِأَسْلَافِہِمْ، ثُمَّ إِنَّ أَسْلَافَہُمْ کَانُوا فِی الْبَلَادَۃِ وَالْجَہَالَۃِ وَالْعِنَادِ إِلَی ہَذَا الْحَدِّ فَکَیْفَ ہَؤُلَاء ِ الْأَخْلَافُ.
ترجمہ :ابوعبداللہ محمدعمر الرازی المتوفی:۶۰۶ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیںکہ اس واقعہ میں بہت سے فوائدہیں :

(۱) اس میں اس بات کی نشاندہی ہے کہ رسول اللہ ﷺکی امت افضل ہے اس لئے کہ یہودی براہین کاملہ کامشاہدہ کرنے کے باوجود اس قدرادنی اورکمزور سے شبہ میں مبتلاء ہوگئے لیکن رسول اللہ ﷺکی امت باوجودیہ کہ وہ معرفت ِ معجزہ قرآن کریم میں دلائل دقیقہ کی محتاج ہے مگروہ بڑے سے بڑے شبہ سے دھوکہ نہیں کھاتی جس سے واضح ہواکہ یہ امت ان سے افضل ، عقل میں اکمل اورپاکیزگی دل میں ازکی ہے۔
(۲) رسول اللہ ْﷺنے یہ واقعہ بیان فرمایاحالانکہ آپ ﷺنے نہیں پڑھاجو واضح کررہاہے کہ آپ ﷺکی رہنمائی وحی ہی کرتی ہے۔
(۳) مشرکین عرب اوریہود ونصاری کی مخالفت پر رسول اللہ ﷺکے لئے تسلی ہے گویااللہ تعالی فرمارہاہے کہ اے حبیب ﷺ! آپ صبرسے کام لیں جیسے حضرت سیدناموسی علیہ السلام نے صبرکیا، ان کواللہ تعالی نے فرعون سے نجات دی اورحضرت سیدناموسی علیہ السلام کے ظہورسے لیکر اب تک ا نھوں نے کتنے معجزات دیکھے مگروہ کمزور سے کمزورشبہ کاشکارہوگئے لیکن حضرت سیدناموسی علیہ السلام نے اس پر بھی صبرفرمایاتوقوم کی اذیت پر رسول اللہ ﷺکاصبرکرنااس سے اولی ہوگا۔
(۴) رسول اللہ ﷺکے ساتھ جھگڑاکرنے اوررسول اللہ ﷺکے ساتھ دشمنی رکھنے میں یہودی سب سے سخت تھے یعنی رسول اللہ ﷺکے سب سے بڑے دشمن یہودی تھے گویااللہ تعالی فرمارہاہے یہ اپنے آبائواجداد پر فخرکرتے ہیں جب ان کے اسلاف جہالت اورعناد میں اس حد کوپہنچے ہوئے تھے توان کے اخلاف کاعالم کیاہوگا؟۔
ّالتفسیر الکبیر: أبو عبد اللہ محمد بن عمر بن الحسن بن الحسین التیمی الرازی ((۳:۵۱۲)
ہرقوم کاایک الگ بچھڑاہے
حضرت سیدی شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی رحمہ اللہ تعالی می فرمودندکہ اہل تحقیق گفتہ اندکہ ہر قوم راگوسالہ ایست کہ درپرستش اومشغول اند گوبظاہرخود رامسلمان ودیندارپندارندچنانچہ درحدیث شریف تیراشارہ باین معنی آمدہ جائیکہ فرمودہ اندعن أبی صالحٍ، عن أبی ہریرۃَ،عن النبیِّ صلی اللہ علیہ وسلم قالَ:تَعِسَ عبدُالدِّینارِ وعبدُالدِّرہمِ وعبدُالخَمیصۃِ، إِن أُعطیَ رضیَ، وإن مُنعَ سخطَ، تَعِسَ وانتکَسَ، وإذا شِیکَ فلا انتقَشَ۔
ترجمہ :اہل تحقیق نے کہاہے ہر قوم کاایک بچھڑاہے جس کی پوجامیں وہ مصروف ہیں اگرچہ ظاہر میں اپنے آپ کو مسلمان اوردیندار کہتے ہیں ، چنانچہ حدیث شریف میں بھی اس معنی کی طرف اشارہ ہے کہ حضرت سیدناابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: وہ شخص تباہ وبرباد ہوگیاجو کہ درہم ودیناراورروپیہ کاغلام بندہ یاشال اورزینت والے لباس کابندہ ہے۔ اگراللہ تعالی کی طرف سے اس کو یہ چیزیں مل جائیں تو اللہ تعالی پر خوش رہتاہے وگرنہ اللہ تعالی سے بھی ناراض ہوجاتاہے ۔ اوراللہ تعالی کے متعلق شکایات کادروازہ کھول دیتاہے ۔
(تفسیرعزیزی از سیدی شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی (۱: ۳۰۵)
(المخلصیات:محمد بن عبد الرحمن بن العباس البغدادی المخَلِّص (۳:۱۳۴)
آج جاہل پیر، گمراہ لیڈر اورجعلی علماء اورمراسی طبقہ قوم کے لئے بچھڑے ثابت ہوئے ہیں ، قوم نے سب کچھ پس پشت ڈال کر انہیں کو سب کچھ جان لیاہے ۔ اللہ تعالی ان بچھڑوں سے ہماری ملت کو محفوظ فرمائے۔
وَ اِذْ قُلْتُمْ یٰمُوْسٰی لَنْ نُّؤْمِنَ لَکَ حَتّٰی نَرَی اللہَ جَہْرَۃً فَاَخَذَتْکُمُ الصّٰعِقَۃُ وَاَنْتُمْ تَنْظُرُوْنَ}(۵۵)
حضرت سیدناموسی علیہ السلام کی گستاخی پرسترلوگ مرگئے
(وَإِذْ قُلْتُمْ) مَعْطُوفٌ یَا مُوسی نِدَاء ٌ مُفْرَدٌ لَنْ نُؤْمِنَ لَکَ أَیْ نُصَدِّقَک حَتَّی نَرَی اللَّہَ جَہْرَۃً” قِیلَ: ہُمُ السَّبْعُونَ الَّذِینَ اخْتَارَہُمْ مُوسَی وَذَلِکَ أَنَّہُمْ لَمَّا أَسْمَعَہُمْ کَلَامَ اللَّہِ تَعَالَی قَالُوا لَہُ بَعْدَ ذَلِکَ لَنْ نُؤْمِنَ لَکَ (البقرۃ: ۵۵)وَالْإِیمَانُ بِالْأَنْبِیَاء ِ وَاجِبٌ بَعْدَ ظُہُورِ مُعْجِزَاتِہِمْ فَأَرْسَلَ اللَّہُ عَلَیْہِمْ نَارًا مِنَ السَّمَاء ِ فَأَحْرَقَہُمْ ثُمَّ دَعَا مُوسَی رَبَّہُ فَأَحْیَاہُمْ کَمَا قَالَ تَعَالَی’’ ثُمَّ بَعَثْناکُمْ مِنْ بَعْدِ مَوْتِکُمْ‘‘۔
ترجمہ :امام ابوعبداللہ محمدبن احمدالقرطبی المتوفی : ۶۷۱ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ وہ سترآدمی جن کو حضرت سیدناموسی علیہ السلام لیکر گئے انہوں نے کہا:ہم آپ کی تصدیق نہیں کریں گے یہاں تک کہ ہم اللہ تعالی کاکلام سنیں ۔ جن کو اللہ تعالی کاکلام سنایاگیاتو انہوںنے کہا : ہم تب تک آپ کایقین نہیں کریں گے جب تک اللہ تعالی کو عیاناً دیکھ نہ لیں ۔ چونکہ معجزات کے ظہورکے بعد واجب ہے کہ انبیاء کرام علیہم السلام پر ایمان لایاجائے تو اللہ تعالی نے آسمان سے آگ بھیجی جس نے ان کو جلادیا، پھرحضرت سیدناموسی علیہ السلام نے دعاکی تواللہ تعالی نے انہیں زندہ کردیا۔
(تفسیر القرطبی:أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن أبی بکر بن فرح الأنصاری الخزرجی شمس الدین القرطبی (المتوفی:(۱:۳۳۳)

سترلوگوں پر عذاب آنے کی وجہ ؟

روی أن السبعین الذین کانوا مع موسی علیہ السلام عند الانطلاق إلی الجبل قالوا لہ نحن لم نعبد العجل کما عبدہ ہؤلاء فأرنا اللہ جہرۃ فقال موسی سألتہ ذلک فأباہ علیّ فقالوا إنک رأیت اللہ تعالی فلن نؤمن لک حتی نری اللہ جہرۃ فبعث اللہ علیہم صاعقۃ فأحرقتہم وتعلقت المعتزلۃ بہذہ الآیۃ فی نفی الرؤیۃ لأنہ لو کان جائز الرؤیۃ لما عذبوا بسؤال ما ہو جائز الثبوت قلنا إنما عوقبوا بکفرہم لأن قولہم إنک رأیت اللہ فلن نؤمن لک حتی نری اللہ جہرۃ کفر منہم ولأنہم امتنعوا عن الإیمان بموسی بعد ظہور معجزتہ حتی یروا ربہم جہرۃ والإیمان بالانبیاء واجب بعد ظہور معجزاتہم ولا یجوز اقتراح الآیات علیہم ولأنہم لم یسألوا سؤال استرشاد بل سؤال تعنت وعناد۔
ترجمہ :امام ابوالبرکات عبداللہ بن احمدالنسفی المتوفی : ۷۱۰ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ جبل طورکی طرف جاتے ہوئے سترافراد حضرت سیدناموسی علیہ السلام سے کہنے لگے کہ ہم نے ان کی طرح بچھڑے کی عبادت نہیں کی ، پس ہم اللہ تعالی کو اپنی آنکھوں سے دیکھیں گے تب یقین کریں گے ۔ حضرت سیدناموسی علیہ السلام نے فرمایا: میںنے خود یہ سوال کیا، اللہ تعالی نے انکارفرمایاتھا، انہوںنے کہا: آپ نے اللہ تعالی کو دیکھاہے ہم ہرگز آپ پراعتماد نہیں کریں گے ، جب تک اللہ تعالی کوظاہرنہ دیکھ لیں۔ پس اللہ تعالی نے ان پر ایک کڑک بھیجی جس نے ان کو جلادیا۔
معتزلہ نے اس آیت کریمہ سے اس بات پر استدلال کیاہے کہ اللہ تعالی کی رئویت ممکن نہیں ہے ۔ دلیل یہ دی کہ اگریہ جائز ہوتی توجائز کام کے مطالبہ پر ان کو سزانہ دی جاتی ۔
معتزلہ کو جواب : ان کو سزاتوان کے انکارکی وجہ سے ملی ، ان کاقول {إنک رأیت اللہ فلن نؤمن لک حتی نری اللہ جہرۃ}ان کی طرف سے کفراورانکارتھا۔
ان پر عذاب اس لئے بھی آیاکہ وہ حضرت سیدناموسی علیہ السلام کے معجزات دیکھ کر ایمان سے پھررہے تھے ، جب تک وہ اپنے رب تعالی کو سامنے نہ دیکھ لیں حالانکہ انبیاء کرام علیہم السلام پر ایمان معجزات کے ظہور کے بعد لانالازم ہے ،انبیاء کرام علیہم السلام سے نئے معجزات طلب کرناجائز نہیں ہے۔
ان پر عذاب آنے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ انہوںنے رشدوہدایت طلب کرنے کے لئے سوال نہیں کیاتھابلکہ محض تعنت اوردشمنی کی خاطرسوال کیاتھاجس کی وجہ سے ان پر عذاب آیا۔
(تفسیر النسفی :أبو البرکات عبد اللہ بن أحمد بن محمود حافظ الدین النسفی(۱:۹۰)

اس آیت مبارکہ پر امام الرازی رحمہ اللہ تعالی کا ایمان افروز کلام
بَیَانُہُ مِنْ وُجُوہٍ، أَحَدُہَا: کَأَنَّہُ تَعَالَی قَالَ:اذْکُرُوا نِعْمَتِی حِینَ قُلْتُمْ لِمُوسَی لَنْ نُؤْمِنَ لَکَ حَتَّی نَرَی اللَّہَ جَہْرَۃً فَأَخَذَتْکُمُ الصَّاعِقَۃُ ثُمَّ أَحْیَیْتُکُمْ لِتَتُوبُوا عَنْ بَغْیِکُمْ وَتَتَخَلَّصُوا عَنِ الْعِقَابِ وَتَفُوزُوا بِالثَّوَابِ، وَثَانِیہَا: أَنَّ فِیہَا تَحْذِیرًا لِمَنْ کَانَ فِی زَمَانِ نَبِیِّنَا مُحَمَّدٍ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنْ فِعْلِ مَا یُسْتَحَقُّ بِسَبَبِہِ أَنْ یُفْعَلَ بِہِ مَا فُعِلَ بِأُولَئِکَ وَثَالِثُہَا:تَشْبِیہُہُمْ فِی جُحُودِہِمْ مُعْجِزَاتِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ علیہ وسلم بأسلافہم فی جحود نبوۃ مُوسَی عَلَیْہِ السَّلَامُ مَعَ مُشَاہَدَتِہِمْ لِعِظَمِ تِلْکَ الْآیَاتِ الظَّاہِرَۃِ وَتَنْبِیہًا عَلَی أَنَّہُ تَعَالَی إِنَّمَا لَا یُظْہِرُ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وسلم مثلہا لعلمہ بأنہ لو أظہرہا لجحودہا وَلَوْ جَحَدُوہَا لَاسْتَحَقُّوا الْعِقَابَ مِثْلَ مَا اسْتَحَقَّہُ أَسْلَافُہُمْ، وَرَابِعُہَا: فِیہِ تَسْلِیَۃٌ لِلنَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِمَّا کَانَ یُلَاقِی مِنْہُمْ وَتَثْبِیتٌ لِقَلْبِہِ عَلَی الصَّبْرِ کَمَا صَبَرَ أُولُو الْعَزْمِ مِنَ الرُّسُلِ وَخَامِسُہَا:فِیہِ إِزَالَۃُ شُبْہَۃِ مَنْ یَقُولُ:إِنَّ نُبُوَّۃَ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَوْ صَحَّتْ لَکَانَ أَوْلَی النَّاسِ بِالْإِیمَانِ بِہِ أَہْلَ الْکِتَابِ لِمَا أَنَّہُمْ عَرَفُوا خَبَرَہُ، وَذَلِکَ لِأَنَّہُ تَعَالَی بَیَّنَ أَنَّ أَسْلَافَہُمْ مَعَ مُشَاہَدَتِہِمْ تِلْکَ الْآیَاتِ الْبَاہِرَۃَ عَلَی نُبُوَّۃِ مُوسَی عَلَیْہِ السَّلَامُ کَانُوا یَرْتَدُّونَ کُلَّ وَقْتٍ وَیَتَحَکَّمُونَ عَلَیْہِ وَیُخَالِفُونَہُ فَلَا یُتَعَجَّبُ مِنْ مُخَالَفَتِہِمْ لِمُحَمَّدٍ عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَامُ وَإِنْ وَجَدُوا فِی کُتُبِہِمُ الْأَخْبَارَ عَنْ نُبُوَّتِہِ.
ترجمہ :ابوعبداللہ محمدعمر الرازی المتوفی:۶۰۶ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیںکہ اس واقعہ میں بہت سے فوائدہیں :
(۱)گویااللہ تعالی ارشادفرمارہاہے کہ میری نعمت کو یادکرو جب تم نے حضر ت موسی علیہ السلام سے کہاتھاکہ ہم تجھ پر ایمان نہیں لائیں گے جب تک اللہ تعالی کو واضح طور پر نہ دیکھ لیں توتمھیں کڑک نے آلیا، پھرتمھیں اس نے زندہ کیاتاکہ اپنی سرکشی سے توبہ کرلو، عتاب سے نجات اورثواب حاصل کرو۔
(۲) اس میں رسول اللہ ﷺکے زمانہ مبارک کے لوگوں کو ڈرایاگیاہے ، اگرانہوںنے بھی ایساہی عمل کیاتو یہ سزاان کو بھی ہوسکتی ہے ۔
(۳) انہیں اس بارے میں تشبیہ دی ہے کہ انہوںنے رسول اللہ ﷺکے معجزات کاانکارکیاجیساکہ ان کے بڑوں نے بڑی بڑی نشانیاں دیکھ کربھی حضرت سیدناموسی علیہ السلام کی نبوت کاانکارکیااوراس پر بھی تنبیہ ہے کہ اللہ تعالی رسول اللہ ﷺسے ان کی مثل نشانیوں کاظہورنہیں فرمارہاکیونکہ وہ جانتاہے کہ اگرانہیں ظاہرکیاتویہ انکارکریں گے اوراپنے بڑوں کی طرح عذاب کے مستحق قرارپائیں گے ۔
(۴) اس میں رسول اللہ ﷺکو تسلی دی گئی ہے تاکہ رسول اللہ ﷺثابت قدم رہیں وہ جتنی بھی تکلیفیں دیتے ہیں آپ اللہ تعالی کے تمام انبیاء کرام علیہم السلام کی طرح صبرفرمائیں۔
(۵) اس میں ایک شبہ کاازالہ بھی کیاگیاہے کہ اگررسول اللہ ﷺکی نبوت سچی ہوتی تواہل کتاب ایمان لانے میں پہل کرتے کیونکہ انہیں آپ ﷺکے بارے میں معلوم تھااس لئے کہ اللہ تعالی نے واضح کردیاکہ ان کے بڑوں نے حضرت سیدناموسی علیہ السلام کی نبوت پر بڑی بڑی نشانیاں دیکھیں لیکن ہر وقت مرتدرہے اوران کی مخالفت کرتے ہوئے انہیں براکہتے رہے لھذارسول اللہ ﷺکے ساتھ ان کی مخالفت پر کوئی تعجب نہیں ہوناچاہئے اگرچہ انہوںنے اپنی کتابوں میں رسول اللہ ﷺکے بارے میں روایات پڑھ رکھی تھی۔
(التفسیر الکبیر: أبو عبد اللہ محمد بن عمر بن الحسن بن الحسین التیمی الرازی ((۳:۵۱۲)

رسول اللہ ﷺکے غلام کا اپنے نبی ﷺپر اعتماد

عَنْ عُمَارَۃَ بْنِ خُزَیْمَۃَ، أَنَّ عَمَّہُ، حَدَّثَہُ وَہُوَ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ابْتَاعَ فَرَسًا مِنْ أَعْرَابِیٍّ، فَاسْتَتْبَعَہُ النَّبِیُّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِیَقْضِیَہُ ثَمَنَ فَرَسِہِ، فَأَسْرَعَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الْمَشْیَ وَأَبْطَأَ الْأَعْرَابِیُّ، فَطَفِقَ رِجَالٌ یَعْتَرِضُونَ الْأَعْرَابِیَّ، فَیُسَاوِمُونَہُ بِالْفَرَسِ وَلَا یَشْعُرُونَ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ابْتَاعَہُ، فَنَادَی الْأَعْرَابِیُّ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: إِنْ کُنْتَ مُبْتَاعًا ہَذَا الْفَرَسِ وَإِلَّا بِعْتُہُ؟ فَقَامَ النَّبِیُّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حِینَ سَمِعَ نِدَاء َ الْأَعْرَابِیِّ، فَقَالَ: أَوْ لَیْسَ قَدِ ابْتَعْتُہُ مِنْکَ؟ فَقَالَ الْأَعْرَابِیُّ: لَا، وَاللَّہِ مَا بِعْتُکَہُ، فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: بَلَی، قَدِ ابْتَعْتُہُ مِنْکَ فَطَفِقَ الْأَعْرَابِیُّ، یَقُولُ ہَلُمَّ شَہِیدًا، فَقَالَ خُزَیْمَۃُ بْنُ ثَابِتٍ:أَنَا أَشْہَدُ أَنَّکَ قَدْ بَایَعْتَہُ، فَأَقْبَلَ النَّبِیُّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلَی خُزَیْمَۃَ فَقَالَ: بِمَ تَشْہَدُ؟، فَقَالَ:بِتَصْدِیقِکَ یَا رَسُولَ اللَّہِ فَجَعَلَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ شَہَادَۃَ خُزَیْمَۃَ بِشَہَادَۃِ رَجُلَیْنِ۔
ترجمہ :حضرت سیدنا عمارہ بن خزیمہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ان کے چچا نے بیان کیا جو رسول اللہ ﷺکے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے تھے کہ نبی کریم ﷺنے ایک بدوی سے گھوڑا خریدا ۔ اور بدوی سے کہا کہ میرے ساتھ آؤ تاکہ تمہارے گھوڑے کی قیمت ادا کر دوں ۔ رسول اللہ ﷺجلدی جلدی چلے جبکہ اعرابی آہستہ آہستہ چلا ۔ تو لوگ اس بدوی کے سامنے آئے اور گھوڑے کا سودا کرنے لگے ۔ انہیں علم نہیں تھا کہ نبی کریم ﷺنے اسے خرید لیا ہے ۔ تو اس بدوی نے رسول اللہ ﷺکو پکارا اور کہا :اگر گھوڑا خریدنا ہے تو خرید لو ورنہ میں اسے فروخت کر دوں گا ۔ نبی کریم ﷺاس کی آواز سن کر رک گئے اور فرمایا کیا میں نے اسے تم سے خرید نہیں لیا ؟ بدوی نے کہا :نہیں قسم اللہ کی ! میں نے تو اسے تم کو نہیں بیچا ۔ آپ ﷺنے فرمایا :کیوں نہیں میں نے تم سے خرید لیا ہے ۔ بدوی کہنے لگا چلو گواہ لاؤ ۔ تو سیدنا خزیمہ بن ثابت رضی اللہ عنہ بولے :میں گواہی دیتا ہوں کہ تو نے یہ بیچ دیا ہے ۔ نبی کریم ﷺخزیمہ کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا تم کس طرح گواہی دیتے ہوں ؟ انہوں نے عرض کیا : یارسول اللہ ﷺ!آپ کی تصدیق کی بنا پر (یعنی آپ ﷺاللہ کے رسول ہیں جھوٹ نہیں بول سکتے اور آپﷺ ہمیں وہ کچھ بتاتے ہیں جو ہم ملاحظہ نہیں کرتے لیکن اس کے باوجود ہم وہ سب کچھ تسلیم کرتے ہیں تو یہ کیوں نہیں تسلیم کر سکتے ۔ چنانچہ رسول اللہ ﷺنے سیدنا خزیمہ رضی اللہ عنہ کی گواہی کو دو آدمیوں کی گواہی کے برابر قرار دے دیا ۔
(سنن أبی داود: أبو داود سلیمان بن الأشعث بن إسحاق بن بشیر بن شداد بن عمرو الأزدی السَِّجِسْتانی (۳:۳۰۸)

اس سے معلوم ہواکہ رسول اللہ ﷺکے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے کسی نے بھی آپ ﷺسے یہ مطالبہ نہیں کیا۔ کریم آقاﷺ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو اپنے حبیب کریم ﷺپر کس قدراعتمادتھا۔ یہ بات ذہن میں رہے کہ جب تک رسول اللہ ﷺپر اس قدرایمان نہیں ہوگابندہ مومن نہیں ہوسکتا۔

معارف ومسائل

(۱) اس سے معلوم ہواکہ دس لاکھ سے زائد لوگ موجود تھے اوران میں حضرت سیدناہارون علیہ السلام بھی موجود ہیں پھربھی وہ لوگ علاوہ بارہ ہزارکے سب کے سب شرک میں مبتلاہوگئے۔
(۲)اسی لئے حضور امیرالمجاہدین مولاناحافظ خادم حسین رضوی حفظہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ جب قوم کے ذہن گندے ہوجائیں تو پھرسامنے حضرت سیدناہارون علیہ السلام بھی کھڑے ہوں توقوم ان کو نہیں پہچانتی اوربچھڑے کے سامنے جھک جاتی ہے۔
(۳) یہ بھی معلوم ہواکہ شریعت موسوی میں مرتدکی سزاقتل تھی اورہماری شریعت حقہ میں مرتدکو تین دن کاوقت دیاجاتاہے اوراسے مجبورکیاجاتاہے تاکہ یہ اسلام قبول کرلے اوردین کی طرف لوٹ آئے اگریہ اسلام قبول نہ کرے تو مرد کوقتل کردیاجاتاہے اورعورت کو زندگی بھرجیل میں ڈال دیاجاتاہے ۔
(۴)اس سے یہ بھی معلوم ہواکہ رسول اللہ ﷺکی امت بنی اسرائیل سے کہیں افضل ہے کیونکہ وہ تھوڑے سے شبہ سے دھوکہ کھاگئے اوربچھڑے کے سامنے جھک گئے اورادھررسول اللہ ﷺکی امت ہے کہ بڑے شبہات سے بھی دھوکہ نہیں کھاتی اوریہاں عام سے مسلمانوں کاایمان بھی بڑامضبوط ہے۔ بحمدہ تعالی۔
(۵) اس آیت مبارکہ میں رسول اللہ ﷺکوتسلی دی گئی ہے کہ بنی اسرائیل تووہ ہیں جو حضرت سیدناموسی علیہ السلام کے ہاتھ سے بڑے بڑے معجزات دیکھ کر بھی ایمان نہیں لائے پھرجیسے موسی علیہ السلام نے صبرفرمایااسی طرح آپ ﷺبھی صبرفرمائیں۔
(۶) ادب بڑی شئی ہے کیونکہ حضرت سیدناموسی علیہ السلام کی قوم بنی اسرائیل نے توبہ کی اورموسی علیہ السلام سے معافی مانگی تو اللہ تعالی نے معاف فرمادیااورسامری اکڑگیاتو دونوں جہانوں میں ماراگیا۔
رسول اللہ ﷺکے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی اطاعت گزاری
چند ایک احادیث مبارکہ نقل کرتے ہیں جس میں رسول اللہ ﷺکے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی اطاعت کے متعلق بیان ہے قارئین کرام اندازہ لگائیں کہ ایک طرف حضرت سیدناموسی علیہ السلام کے ماننے و الے تھے اوردوسری جانب کریم آقاﷺ کے غلام ہیں کہ کس طرح حکم نبوی ﷺپر جان چھڑکتے ہیں۔
حضرت سیدناامیرمعاویہ اوراطاعت
عَنْ سُلَیْمِ بْنِ عَامِرٍ، قَالَ:کَانَ مُعَاوِیَۃُ یَسِیرُ بِأَرْضِ الرُّومِ، وَکَانَ بَیْنَہُمْ وَبَیْنَہُ أَمَدٌ، فَأَرَادَ أَنْ یَدْنُوَ مِنْہُمْ، فَإِذَا انْقَضَی الْأَمَدُ غَزَاہُمْ، فَإِذَا شَیْخٌ عَلَی دَابَّۃٍ یَقُولُ:اللہُ أَکْبَرُ، اللہُ أَکْبَرُ، وَفَاء ٌ لَا غَدْرٌ، إِنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ:مَنْ کَانَ بَیْنَہُ وَبَیْنَ قَوْمٍ عَہْدٌ، فَلَا یَحِلَّنَّ عُقْدَۃً وَلَا یَشُدَّہَا حَتَّی یَنْقَضِیَ أَمَدُہَا، أَوْ یَنْبِذَ إِلَیْہِمْ عَلَی سَوَاء ٍ ،فَبَلَغَ ذَلِکَ مُعَاوِیَۃَ فَرَجَعَ، وَإِذَا الشَّیْخُ عَمْرُو بْنُ عَبَسَۃَ۔
ترجمہ :حضرت سیدناسلیم بن عامر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت سیدناامیرمعاویہ رضی اللہ عنہ فوج کو لیکر ارض روم کی طرف چل پڑے ، حضرت سیدناامیرمعاویہ رضی اللہ عنہ اوررومیوںکے درمیان طے شدہ معاہدہ کی کچھ مدت ابھی باقی تھی ، حضرت سیدناامیرمعاویہ رضی اللہ عنہ نے سوچاکہ ان کے قریب پہنچ کر رک جاتے ہیں ،جونہی مدت ختم ہوگی ان کے ساتھ جنگ شروع کردیں گے ۔ لیکن دیکھاکہ ایک شیخ اپنی سواری پر سوار ہیں اوریہ کہتے ہوئے جارہے ہیں کہ اللہ اکبراللہ اکبروعدہ پوراکیاجائے ۔ عہدشکنی نہ کی جائے ۔ کیونکہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: جس شخص کاکسی قوم کے ساتھ کوئی معاہدہ ہوتو اسے مدت گزرنے سے پہلے یاان کی طرف سے عہد شکنی سے پہلے اس کی گرہ کھولنی اوربندنہیں کرنی چاہئے ۔ حضرت سیدناامیر معاویہ رضی اللہ عنہ یہ بات سنتے ہی فوراً واپس لوٹ گئے اورپتہ چلاکہ وہ شیخ حضرت سیدناعمر و بن عبسہ رضی اللہ عنہ تھے ۔
(مسند أبی داود الطیالسی:أبو داود سلیمان بن داود بن الجارود الطیالسی البصری (۲:۴۷۱)
حضرت سیدناعمر بن عبدالعزیز اوراطاعت
عَنْ مَعْمَرٍ، عَنِ الزُّہْرِیِّ قَالَ: کُنَّا مَعَ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِیزِ فَأَخَّرَ صَلَاۃَ الْعَصْرِ، فَقَالَ لَہُ عُرْوَۃُ: حَدَّثَنِی بَشِیرُ بْنُ أَبِی مَسْعُودٍ الْأَنْصَارِیُّ، أَنَّ الْمُغِیرَۃَ بْنَ شُعْبَۃَ أَخَّرَ الصَّلَاۃَ مَرَّۃً یَعْنِی الْعَصْرَ فَقَالَ لَہُ أَبُو مَسْعُودٍ: أَمَا وَاللہِ یَا مُغِیرَۃُ، لَقَدْ عَلِمْتَ أَنَّ جِبْرِیلَ عَلَیْہِ السَّلَامُ أُنْزِلَ فَصَلَّی فَصَلَّی رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَصَلَّی النَّاسُ مَعَہُ، ثُمَّ نَزَلَ فَصَلَّی فَصَلَّی رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَصَلَّی النَّاسُ مَعَہُ، حَتَّی عَدَّ خَمْسَ صَلَوَاتٍ . فَقَالَ لَہُ عُمَرُ: انْظُرْ مَا تَقُولُ یَا عُرْوَۃَ، وَإنَّ جِبْرِیلَ ہُوَ سَنَّ وَقْتَ الصَّلَاۃِ، فَقَالَ لَہُ عُرْوَۃُ: کَذَلِکَ حَدَّثَنِی بَشِیرُ بْنُ أَبِی مَسْعُودٍ قَالَ: فَمَا زَالَ عُمَرُ یَعْلَمُ وَقْتَ الصَّلَاۃِ بِعَلَامَۃٍ حَتَّی فَارَقَ الدُّنْیَا۔
ترجمہ :حضرت سیدناامام الزہری رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم لوگ حضرت سیدناعمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ کے پاس حاضرتھے ، انہوںنے عصر کی نماز موخرکردی ، توعروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا: مجھے حضرت سیدنابشیر بن ابی مسعود رضی اللہ عنہ نے حدیث شریف بیان کی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت سیدنامغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے بھی نماز عصر میں تاخیر کردی تھی ، توحضرت سیدناابومسعود رضی اللہ عنہ نے ان کو فرمایاتھاکہ اللہ تعالی کی قسم ! اے مغیرہ ! آپ یہ بات جانتے ہیںکہ ایک مرتبہ حضرت سیدناجبریل امین علیہ السلام نازل ہوئے اورانہوںنے نماز پڑھی ، رسول اللہ ﷺاورصحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بھی اسی وقت نماز اداکی ۔ اسی طرح وہ پانچوں نمازوں کے وقت آئے اورانہوں نے وقت مقررکیا۔ یہ حدیث شریف سن کر حضرت سیدناعمربن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اے عروہ ! اچھی طرح سوچ سمجھ کرکہو، کیاجبریل امین علیہ السلا م نے نماز کاوقت متعین کیاتھا؟ انہوںنے جواب دیاکہ جی ہاں انہوںنے وقت متعین کیاتھا۔ حضرت سیدنابشیربن ابی مسعود رضی اللہ عنہ نے مجھے اسی طرح حدیث شریف بیان کی۔ اس کے بعد حضرت سیدناعمر بن عبدالعزیزرضی اللہ عنہ دنیاسے رخصت ہونے تک نماز کے وقت کا تعین علامت سے کیاکرتے تھے ۔
(المعجم الکبیر: سلیمان بن أحمد بن أیوب بن مطیر اللخمی الشامی، أبو القاسم الطبرانی (۱۷:۲۵۶)
حضرت سیدناعبداللہ بن عمر اوراطاعت
عَنْ نَافِعٍ، أَنَّ ابْنَ عُمَرَ بَلَغَہُ أَنَّ رَافِعًا، یُحَدِّثُ فِی ذَلِکَ بِنَہْیٍ عَنْ رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَأَتَاہُ وَأَنَا مَعَہُ، فَسَأَلَہُ، فَقَالَ:نَہَی رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنْ کِرَاء ِ الْمَزَارِعِ ، فَتَرَکَہَا ابْنُ عُمَرَ، فَکَانَ لَا یُکْرِیہَا، فَکَانَ إِذَا سُئِلَ یَقُولُ: زَعَمَ ابْنُ خَدِیجٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَہَی عَنْ کِرَاء ِ الْمَزَارِعِ۔
ترجمہ :حضرت سیدناعبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہماسے مروی ہے کہ ہم لوگ زمین کو بٹائی پر دے دیاکرتے تھے ، اس میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے ، بعد میں حضرت سیدنارافع بن خدیج رضی اللہ عنہ نے بتایاکہ رسول اللہ ﷺنے اس سے منع فرمایاہے اس لئے ہم نے اسے ترک کردیا۔
(السنن الصغری للنسائی:أبو عبد الرحمن أحمد بن شعیب بن علی الخراسانی، النسائی (۷:۴۵)
حضرت سیدنارافع بن خدیج اوراطاعت
حَدَّثَنَا رَافِعُ بْنُ خَدِیجٍ قَالَ:لَقِیَنِی عَمِّی ظُہَیْرُ بْنُ رَافِعٍ، فَقَال:یَا ابْنَ أَخِی، قَدْ نَہَانَا رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنْ أَمْرٍ کَانَ بِنَا رَافِقًا قَالَ:فَقُلْتُ:مَا ہُوَ یَا عَمُّ؟ قَالَ:نَہَانَا أَنْ نُکْرِیَ مَحَاقِلَنَا یَعْنِی أَرْضَنَا الَّتِی بِصِرَارٍ قَالَ: قُلْتُ:أَیْ عَمُّ، طَاعَۃُ رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَحَقُّ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: بِمَ تُکْرُوہَا؟ قَالَ:بِالْجَدْوَلِ الرُّبِّ وَبِالْأَصَوَاعِ مِنَ الشَّعِیرِ؟ قَالَ:فَلَا تَفْعَلُوا، ازْرَعُوہَا، أَوْ أَزْرِعُوہَا قَالَ: فَبِعْنَا أَمْوَالَنَا بِصِرَارٍ ۔
ترجمہ :حضرت سیدنارافع بن خدیج رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ میری ملاقات میرے چچاحضرت سیدناظہیربن رافع رضی اللہ عنہ کے ساتھ ہوگئی ، انہوںنے فرمایا: اے بھتیجے ! رسول اللہ ﷺنے ہمیں ایک ایسی چیز سے منع فرمایاہے جوہمارے لئے نفع بخش ہوسکتی تھی ۔ میں نے پوچھاچچاجان ! وہ کیاہے ؟ توانہوںنے جواب دیاکہ بلندجگہوں پر جو ہماری زمینیں ہیں ان میں مزارعت سے ہمیں منع فرمادیاہے ۔ میں نے کہا: چچاجان ! رسول اللہ ﷺکی اطاعت ہمارے لیے اس سے بھی زیادہ نفع بخش ہے۔ نبی کریم ﷺنے فرمایا: تم کس چیز کے بدلے زمین کو کرائے پر دیتے ہو؟ انہوںنے جواب دیاکہ چھوٹی نالیوں کی پیداواراورجو کے مقررہ صاع کے عوض ۔ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: ایسانہ کرو، جس شخص کے پاس کوئی زمین ہواوروہ خود اس میں کھیتی باڑی کرے اگرخود نہیں کرسکتاتواپنے کسی بھائی کو اجازت دے دے ۔ چنانچہ ہم نے وہاں پرموجود اپنی زمینیں فروخت کردیں ۔
(مسند الإمام أحمد بن حنبل:أبو عبد اللہ أحمد بن محمد بن حنبل بن ہلال بن أسد الشیبانی (۲۸:۵۲۱)
حضرت سیدناخریم اسدی اوراطاعت
حَدَّثَنَا قَیْسُ بْنُ بِشْرٍ التَّغْلِبِیُّ، قَالَ: أَخْبَرَنِی أَبِی وَکَانَ، جَلِیسًا لِأَبِی الدَّرْدَاء ِ، قَالَ: کَانَ بِدِمَشْقَ رَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُقَالُ لَہُ:ابْنُ الْحَنْظَلِیَّۃِ، وَکَانَ رَجُلًا مُتَوَحِّدًا، قَلَّمَا یُجَالِسُ النَّاسَ، إِنَّمَا ہُوَ فِی صَلَاۃٍ، فَإِذَا فَرَغَ فَإِنَّمَا یُسَبِّحُ وَیُکَبِّرُ حَتَّی یَأْتِیَ أَہْلَہُ، فَمَرَّ بِنَا یَوْمًا وَنَحْنُ عِنْدَ أَبِی الدَّرْدَاء ِ، فَقَالَ لَہُ أَبُو الدَّرْدَاء ِ:کَلِمَۃً تَنْفَعُنَا وَلَا تَضُرُّکَ، قَالَ:قَالَ لَنَا رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:إِنَّ الْمُنْفِقَ عَلَی الْخَیْلِ فِی سَبِیلِ اللہِ، کَبَاسِطِ یَدِہِ بِالصَّدَقَۃِ لَا یَقْبِضُہَاقَالَ:ثُمَّ مَرَّ بِنَا یَوْمًا آخَرَ، فَقَالَ لَہُ أَبُو الدَّرْدَاء ِ:کَلِمَۃً تَنْفَعُنَا وَلَا تَضُرُّکَ، فَقَالَ:قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:نِعْمَ الرَّجُلُ خُرَیْمٌ الْأَسَدِیُّ لَوْلَا طُولُ جُمَّتِہِ وَإِسْبَالُ إِزَارِہِ فَبَلَغَ ذَلِکَ خُرَیْمًا فَجَعَلَ یَأْخُذُ شَفْرَۃً فَیَقْطَعُ بِہَا شَعَرَہُ إِلَی أَنْصَافِ أُذُنَیْہِ، وَرَفَعَ إِزَارَہُ إِلَی أَنْصَافِ سَاقَیْہِ قَالَ: فَأَخْبَرَنِی أَبِی قَالَ:دَخَلْتُ بَعْدَ ذَلِکَ عَلَی مُعَاوِیَۃَ فَإِذَا عِنْدَہُ شَیْخٌ جُمَّتُہُ فَوْقَ أُذُنَیْہِ، وَرِدَاؤُہُ إِلَی سَاقَیْہِ، فَسَأَلْتُ عَنْہُ فَقَالُوا: ہَذَا خُرَیْمٌ الْأَسَدِیُّ۔
ترجمہ :حضرت سیدنابشرتغلبی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم حضرت سیدناابودرداء رضی اللہ عنہ کے پاس دمشق میں بیٹھے ہوئے تھے، فرماتے ہیں کہ دمشق میں رسول اللہ ﷺکے ایک صحابی رضی اللہ عنہ رہاکرتے تھے ، جن کو ابن الحنظلیہ رضی اللہ عنہ کہاجاتاتھا۔ وہ گوشہ نشین طبیعت کے آدمی تھے اورلوگوں سے بہت کم میل جول رکھتے تھے ۔ ان کی عادت تھی کہ نماز اداکرتے رہتے تھے ، اس سے فارغ ہوتے تو تسبیح وتقدیس میں مصروف ہوجاتے تھے ، اس کے بعد اپنے گھرچلے جاتے تھے۔ ایک دن ہمارے پاس سے گزرے تو حضرت سیدناابودرداء رضی اللہ عنہ نے ان کو فرمائش کی کہ رسول اللہ ﷺکی کوئی حدیث شریف سنائیں، انہوںنے فرمایاکہ رسول اللہ ﷺنے ہمیں فرمایا: اللہ تعالی کی راہ میں گھوڑے پر خرچ کرنے والااس شخص کی طرح ہے جس نے صدقہ کے لئے اپنے ہاتھ کوکھول رکھاہو، اورکبھی بھی بندنہ کرتاہو۔ اس کے بعد وہ پھرہمارے پاس سے گزرے تو حضرت سیدناابودرداء رضی اللہ عنہ نے حدیث شریف سنانے کی فرمائش کی :انہوںنے فرمایا: کہ رسول اللہ ﷺنے ایک مرتبہ فرمایاکہ خریم اسدی (رضی اللہ عنہ ) بہترین آدمی ہیں ، اگراس کے بال اتنے لمبے نہ ہوتے اوراس کی شلوار ٹخنوں کے نیچے نہ ہوتی ۔ حضرت سیدناخریم رضی اللہ عنہ کو یہ بات معلوم ہوئی توانہوںنے ایک چھری لیکر نصف کانوں تک اپنے بال کاٹ لئے ۔ اوراپناتہ بنداپنی نصف پنڈلی تک اٹھالیا۔ میرے والد ماجد رضی اللہ عنہ نے بیان کیاکہ میں ایک بار حضرت سیدناامیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضرہواتووہاں ایک بزرگ نظرآئے ، جن کے بال کانوںسے اوپراورتہبندپنڈلی تک تھی۔ میں نے لوگوں سے ان کے متعلق پوچھاتوانہوںنے بتایاکہ یہ خریم اسدی رضی اللہ عنہ ہیں۔
(مسند الإمام أحمد بن حنبل:أبو عبد اللہ أحمد بن محمد بن حنبل بن ہلال بن أسد الشیبانی (۲۹:۱۵۹)
حضرت سیدنابسربن ارطاۃ اوراطاعت نبوی ﷺ
عَنْ جُنَادَۃَ بْنِ أَبِی أُمَیَّۃَ، قَالَ:کُنْتُ عِنْدَ بُسْرِ بْنِ أَرْطَاۃَ، فَأُتِیَ بِمَصْدَرٍ قَدْ سَرَقَ بُخْتِیَّۃً، فَقَالَ: لَوْلَا أَنِّی سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَہَانَا عَنِ الْقَطْعِ فِی الْغَزْوِ لَقَطَعْتُکَ، فَجُلِدَ ثُمَّ خُلِّیَ سَبِیلُہُ ۔
ترجمہ:حضرت سیدناجنادہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ حضر ت سیدنابسربن ارطاۃ رضی اللہ عنہ نے کسی غزوے میں ایک آدمی کوجس کانام مصدرتھاچوری کرتے ہوئے پایاتواس کوکوڑے مارے ، ہاتھ نہیں کاٹے ۔ فرمایاکہ رسول اللہ ﷺنے ہمیں جہاد کے دوران ہاتھ کاٹنے سے منع فریاہے ۔ اگرمیں نے رسول اللہ ﷺسے یہ حدیث شریف نہ سنی ہوتی تو میںتمھاراہاتھ کاٹ دیتا۔ پھراس کاراستہ چھوڑ دیایعنی اس کو جانے دیا۔
(مسند الإمام أحمد بن حنبل:أبو عبد اللہ أحمد بن محمد بن حنبل بن ہلال بن أسد الشیبانی (۲۹:۱۷۰)
حضرت سیدناامراء القیس اوراطاعت
أَخْبَرَنِی رَجَاء ُ بْنُ حَیْوَۃَ، وَالْعُرْسُ بْنُ عَمِیرَۃَ، عَنْ أَبِیہِ عَدِیٍّ، قَالَ: خَاصَمَ رَجُلٌ مِنْ کِنْدَۃَ یُقَالُ لَہُ: امْرُؤُ الْقَیْسِ بْنُ عَابِسٍ، رَجُلًا مِنْ حَضَرَمَوْتَ إِلَی رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی أَرْضٍ، فَقَضَی عَلَی الْحَضْرَمِیِّ بِالْبَیِّنَۃِ، فَلَمْ تَکُنْ لَہُ بَیِّنَۃٌ، فَقَضَی عَلَی امْرِئِ الْقَیْسِ بِالْیَمِینِ، فَقَالَ الْحَضْرَمِیُّ: إِنْ أَمْکَنْتَہُ مِنَ الْیَمِینِ یَا رَسُولَ اللَّہِ ذَہَبَتْ وَاللَّہِ أَوْ وَرَبِّ الْکَعْبَۃِ أَرْضِی، فَقَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: مَنْ حَلَفَ عَلَی یَمِینٍ کَاذِبَۃٍ لِیَقْتَطِعَ بِہَا مَالَ أَخِیہِ لَقِیَ اللَّہَ، وَہُوَ عَلَیْہِ غَضْبَانُ قَالَ رَجَاء ُ:وَتَلَا رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ (إِنَّ الَّذِینَ یَشْتَرُونَ بِعَہْدِ اللَّہِ وَأَیْمَانِہِمْ ثَمَنًا قَلِیلًا)فَقَالَ امْرُؤُ الْقَیْسِ:مَاذَا لِمَنْ تَرَکَہَا یَا رَسُولَ اللَّہِ؟ قَالَ: الْجَنَّۃُ قَالَ: فَاشْہَدْ أَنِّی قَدْ تَرَکْتُہَا لَہُ کُلَّہَا۔
ترجمہ :حضرت سیدناعدی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ قبیلہ کندہ کے امرء القیس بن عابس نامی ایک آدمی کانبی کریم ﷺکی موجودگی میں ایک زمین کے متعلق حضرموت کے ایک آدمی کے ساتھ جھگڑاہوگیا، نبی کریم ﷺنے حضرمی کو گواہ پیش کرنے کی تلقین کی ، لیکن اس کے پاس گواہ نہیں تھے ، نبی کریم ﷺنے امرء القیس کو قسم کھانے کے لئے فرمایا: حضرمی کہنے لگا: یارسول اللہ ﷺ! اگرآپ ﷺنے اس کوقسم کھانے کی اجازت دے دی تو رب کعبہ کی قسم ! یہ میری زمین لے جائے گا۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جو شخص اس مقصد کیلئے جھوٹی قسم کھائے کہ اس کے ذریعے اپنے بھائی کامال ہتھیالے تواللہ تعالی سے اس حال میں ملے گاکہ اللہ تعالی اس سے ناراض ہوگا۔ پھرنبی کریم ﷺنے یہ آیت مبارکہ تلاوت فرمائی ۔بے شک وہ لوگ جو اللہ تعالی کے وعدہ اوراپنی قسموں کو تھوڑی سی قیمت کے عوض بیچ دیتے ہیں ۔ امرء القیس نے کہاکہ جو شخص اپنے حق کو چھوڑ دے اسے کیاملے گا؟ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:اسے جنت ملے گی۔ امرء القیس نے عرض کیا: یارسول اللہ ﷺ! آپ گواہ رہیں میں نے ساری زمین اس کے حق میں چھوڑ دی۔
(مسند الإمام أحمد بن حنبل:أبو عبد اللہ أحمد بن محمد بن حنبل بن ہلال بن أسد الشیبانی (۲۹:۳۵۴)
حضرت سیدناابوثعلبہ اوراطاعت
عَنْ أَبِی ثَعْلَبَۃَ الْخُشَنِیِّ: أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَبْصَرَ فِی یَدِہِ خَاتَمًا مِنْ ذَہَبٍ، فَجَعَلَ یَقْرَعُہُ بِقَضِیبٍ مَعَہُ، فَلَمَّا غَفَلَ النَّبِیُّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَلْقَاہُ، فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: مَا أُرَانَا إِلَّا قَدْ أَوْجَعْنَاکَ، وَأَغْرَمْنَاکَ۔
ترجمہ :حضرت سیدناابوثعلبہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺنے ان کے ہاتھ میں سونے کی ایک انگوٹھی دیکھی ، رسول اللہ ﷺاپنی چھڑی سے ان کے ہاتھ ہلانے لگے۔ اسی دوران رسول اللہ ﷺدوسری جانب متوجہ ہوئے توانہوں نے اپنی انگوٹھی اتارکرپھینک دی۔ رسول اللہ ﷺکی جب دوبارہ نظرپڑی تو انگلی میں انگوٹھی نظرنہ آئی ۔ رسول اللہ ﷺنے فرمایاکہ شاید ہم نے تمھیں تکلیف دی اورمقروض بنادیا۔
(المعجم الأوسط:سلیمان بن أحمد بن أیوب بن مطیر اللخمی الشامی، أبو القاسم الطبرانی (۴:۱۱۴)
حضرت سیدناعثمان بن ابی العاص اوراطاعت
عَنِ الْحَسَنِ، قَالَ: دُعِیَ عُثْمَانُ بْنُ أَبِی الْعَاصِ إِلَی خِتَانٍ فَأَبَی أَنْ یُجِیبَ، فَقِیلَ لَہُ: فَقَالَ: إِنَّا کُنَّا لَا نَأْتِی الْخِتَانَ عَلَی عَہْدِ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَلَا یُدَعَی إِلَیْہِ۔
ترجمہ :حضرت سیدناحسن رضی اللہ عنہ روایت فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت سیدناعثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہ کو کسی بچے کے ختنے کے موقع پر بلایاگیاتوانہوںنے جانے سے انکارفرمادیا۔ کسی نے وجہ پوچھی توفرمایاکہ رسول اللہ ﷺکے زمانہ مبارک میں ہم لوگ ایسے مواقع پر جاتے تھے اورنہ ہی ہمیں کوئی بلاتاتھا۔
(المعجم الکبیر: سلیمان بن أحمد بن أیوب بن مطیر اللخمی الشامی، أبو القاسم الطبرانی (۹:۵۷)
حضرت سیدنامحمدبن مسلمہ اوراطاعت
ثنا سَہْلُ بْنُ أَبِی الصَّلْتِ، قَالَ: سَمِعْتُ الْحَسَنَ، یَقُولُ: إِنَّ عَلِیًّا بَعَثَ إِلَی مُحَمَّدِ بْنِ مَسْلَمَۃَ فَجِیء َ بِہِ فَقَالَ: مَا خَلَّفَکَ عَنْ ہَذَا الْأَمْرِ؟، فَقَالَ: دَفَعَ إِلَیَّ ابْنُ عَمِّکَ، یَعْنِی رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، سَیْفًا، فَقَالَ:قَاتِلْ بِہِ مَا قُوتِلَ بِہِ الْعَدُوُّ، فَإِذَا رَأَیْتَ النَّاسَ یَقْتُلُ بَعْضُہُمْ بَعْضًا فَاعْمَدْ بِہِ إِلَی صَخْرَۃٍ فَاضْرِبْہُ بِہَا، ثُمَّ الْزَمْ بَیْتَکَ حَتَّی یَأْتِیَکَ مَنِیَّۃٌ قَاضِیَۃٌ أَوْ یَدٌ خَاطِئَۃٌ، قَالَ: خَلُّوا عَنْہُ۔
ترجمہ :حضرت سیدناامام حسن رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت سیدنامولاعلی رضی اللہ عنہ نے حضرت سیدنامحمدبن مسلمہ رضی اللہ عنہ کو بلایا، جب وہ آئے توحضرت سیدنامولاعلی رضی اللہ عنہ نے ان سے پوچھاکہ تم امورسلطنت سے پیچھے کیوں ہٹ گئے؟ توانہوںنے جواب دیاکہ مجھے رسول اللہ ﷺنے ایک تلواردی تھی اورفرمایاتھاکہ اس تلوار کے ساتھ دشمن کے ساتھ قتال کرواورجب تم دیکھوکہ لوگ آپس میں ہی ایک دوسرے کو قتل کرنے لگے ہیںتوتم یہ تلوار لے جاکرایک چٹان پر دے مارنااوراپنے گھرمیں بیٹھ جانایہاں تک کہ تم کو موت آجائے جو فیصلہ کردے یاکوئی گناہگارہاتھ آجائے ۔ حضرت سیدنامولاعلی رضی اللہ عنہ نے یہ سن کرفرمایاکہ ان کو چھوڑ دو۔
(المعجم الکبیر: سلیمان بن أحمد بن أیوب بن مطیر اللخمی الشامی، أبو القاسم الطبرانی (۱۹:۲۳۵)

Leave a Reply