کیافرعون صرف خواب کی وجہ سے بچوں کو قتل کرتارہا؟
{وَ اِذْ نَجَّیْنٰکُمْ مِّنْ اٰلِ فِرْعَوْنَ یَسُوْمُوْنَکُمْ سُوْٓء َ الْعَذَابِ یُذَبِّحُوْنَ اَبْنَآء َکُمْ وَیَسْتَحْیُوْنَ نِسَآء َکُمْ وَ فِیْ ذٰلِکُمْ بَلَآ ء ٌ مِّنْ رَّبِّکُمْ عَظِیْمٌ}(۴۹)
ترجمہ کنزالایمان :اور یاد کروجب ہم نے تم کو فرعون والوں سے نجات بخشی کہ تم پر بُرا عذاب کرتے تھے تمہارے بیٹوں کو ذبح کرتے اور تمہاری بیٹیوں کو زندہ رکھتے اور اس میں تمہارے رب کی طرف سے بڑی بلا تھی یا بڑا انعام ۔
ترجمہ ضیاء الایمان:اے قوم یہود یادکروجب ہم نے تم کو فرعونیوں سے نجات بخشی تم کو سخت اذیتوں میں رکھتے تھے ،تمھارے بیٹوں کو قتل کرتے اورتمھاری بیٹیوں کو زندہ رکھتے اورا س میں تمھارے رب تعالی کی طرف سے بلاتھی یاانعام ۔
امام السدی رحمہ اللہ تعالی کاقول
وَہُوَ قَوْلُ السُّدِّیِّ أَنَّ فِرْعَوْنَ رَأَی فِی مَنَامِہِ أَنَّ نَارًا أَقْبَلَتْ مِنْ بَیْتِ الْمَقْدِسِ وَاشْتَمَلَتْ عَلَی مِصْرَ فَأَحْرَقَتِ الْقِبْطَ دُونَ بَنِی إِسْرَائِیلَ فَسَأَلَ عَنْ رُؤْیَاہُ فَقَالُوا یَخْرُجُ مِنْ ہَذَا الْبَلَدِ الَّذِی جَاء َ بَنُو إِسْرَائِیلَ مِنْہُ رَجُلٌ یَکُونُ عَلَی یَدِہِ ہَلَاکُ مِصْرَ، فَأَمَرَ بِقَتْلِ الذُّکُورِ ۔
ترجمہ:فرعون نے خواب دیکھا کہ بَیْتُ الْمَقْدِ سْ کی طرف سے آگ آئی اس نے مصر کو گھیر کر تمام قبطیوں کو جلا ڈالا بنی اسرائیل کو کچھ ضرر نہ پہنچایا اس سے اس کو بہت وحشت ہوئی کاہنوں نے تعبیر دی کہ بنی اسرائیل میں ایک لڑکا پیدا ہوگا جو تیرے ہلاک اور زوال سلطنت کا باعث ہوگا۔ یہ سن کر فرعون نے حکم دیا کہ بنی اسرائیل میں جو لڑکا پیدا ہو قتل کردیا جائے۔
(التفسیر الکبیر:أبو عبد اللہ محمد بن عمر بن الحسن بن الحسین التیمی الرازی (۲۴:۵۷۸)
سیدنعیم الدین مرادآبادی رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیںکہ دائیاں تفتیش کے لئے مقرر ہوئیں بارہ ہزار بروایت دیگرستر ہزار لڑکے قتل کر دئیے گئے اور نوّے ہز ار حمل گرادیئے گئے اور مشیتِ الہٰی سے اس قوم کے بوڑھے جلد جلد مرنے لگے قوم قبط کے رؤسانے گھبرا کر فرعون سے شکایت کی کہ بنی اسرائیل میں موت کی گرم بازاری ہے اس پر ان کے بچے بھی قتل کیے جاتے ہیں تو ہمیں خدمت گار کہاں سے میسر آئیں گے فرعون نے حکم دیا کہ ایک سال بچے قتل کیے جائیں اور ایک سال چھوڑے جائیں تو جو سال چھوڑنے کا تھا اس میں حضرت سیدنا ہارون علیہ السلام پیدا ہوئے اور قتل کے سال حضرت موسٰی علیہ السلام کی ولادت ہوئی۔
یہ توتمام مفسرین نے تقریباً نقل کیاہے کہ فرعون نے خواب دیکھااوراس کو اپنی قوم کو جلتاہوادکھایاگیاتو اس نے بنی اسرائیل کے بچوں کو قتل کرناشروع کردیالیکن یہاں یہ بات بہت اہم ہے کہ فرعون یہ اطلاع پاچکاتھاکہ حضرت سیدناموسی علیہ السلام تشریف لانے والے ہیں اوراس نے صرف اورصرف آپ علیہ السلام کی آمد کو روکنے کے لئے یہ قتل کروائے تھے ۔ انسان کادماغ مائوف ہوجاتاہے جب یہ سوچتاہے دنیامیں ایسے ایسے کمینے اورگھٹیالوگ بھی ہوئے ہیں جو اپنے اقتدار کے نشہ میں اس قدر مست ہوئے کہ ان کو اللہ تعالی کے انبیاء کرام علیہ السلام کاحیاء بھی نہ رہا۔
حضرت سیدناعبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہماکاقول شریف
قَوْلُ ابْنِ عباس رضی اللہ عنہما أنہ وقع إِلَی فِرْعَوْنَ وَطَبَقَتِہِ مَا کَانَ اللَّہُ وَعَدَ إِبْرَاہِیمَ أَنْ یَجْعَلَ فِی ذُرِّیَّتِہِ أَنْبِیَاء َ وَمُلُوکًا فَخَافُوا ذَلِکَ وَاتَّفَقَتْ کَلِمَتُہُمْ عَلَی إِعْدَادِ رِجَالٍ مَعَہُمُ الشِّفَارُ یَطُوفُونَ فِی بَنِی إِسْرَائِیلَ فَلَا یَجِدُونَ مَوْلُودًا ذَکَرًا إِلَّا ذَبَحُوہُ، فَلَمَّا رَأَوْا کِبَارَہُمْ یَمُوتُونَ وَصِغَارَہُمْ یُذَبَّحُونَ خَافُوا الْفَنَاء َ فَحِینَئِذٍ لَا یَجِدُونَ مَنْ یُبَاشِرُ الْأَعْمَالَ الشَّاقَّۃَ، فَصَارُوا یَقْتُلُونَ عَامًا دُونَ عَامٍ.
ترجمہ:حضرت سیدناعبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہمافرماتے ہیںکہ فرعون اوراس کے حواریوں کو یہ بات پہنچی تھی کہ اللہ تعالی نے حضرت سیدناابراہیم علیہ السلام سے وعدہ فرمایاہے کہ ان کی اولاد میں انبیاء کرام علیہم السلام اوربادشاہ پیدافرمائے گا، فرعون کو اس بات سے خوف لاحق ہوااورانہوںنے یہ فیصلہ کیاکہ کچھ ایسے لوگ ہوں جن کے پاس چھری ہواوروہ بنی اسرائیل کاجائز ہ لیتے رہیں جب بھی کوئی بچہ پیداہواسے ذبح کردیاکریں ، جب انہوںنے دیکھاکہ بڑے مررہے ہیں اورچھوٹے ذبح ہورہے ہیں تووہ ان کے ختم ہونے سے اس لئے ڈرے کہ ہمارے کام کون کرے گاَ تووہ ایک سال قتل کرتے اورایک سال چھوڑ دیتے تھے ۔
(غرائب القرآن ورغائب الفرقان:نظام الدین الحسن بن محمد بن حسین القمی النیسابوری (۱:۲۸۳)
حضرت سیدناسعید بن جبیر رضی اللہ عنہ کاقول
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّہِ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ، أَنْبَأَنَا أَصْبُغُ بْنُ زَیْدٍ، حَدَّثَنَا الْقَاسِمُ بْنُ أَبِی أَیُّوبَ، أَخْبَرَنِی سَعِیدُ بْنُ جُبَیْرٍ قَالَ:سَأَلْتُ عَبْدَ اللَّہِ بْنَ عَبَّاسٍ عَنْ قَوْلِ اللَّہِ عَزَّ وَجَلَّ لِمُوسَی عَلَیْہِ السَّلَامُ وَفَتَنَّاکَ فُتُوناً فَسَأَلْتُہُ عَنِ الْفُتُونِ ما ہو؟ فقال:استأنف النہار یا ابن جُبَیْرٍ فَإِنَّ لَہَا حَدِیثًا طَوِیلًا، فَلَمَّا أَصْبَحْتُ غَدَوْتُ إِلَی ابْنِ عَبَّاسٍ لِأَنْتَجِزَ مِنْہُ مَا وَعَدَنِی مِنْ حَدِیثِ الْفُتُونِ، فَقَالَ: تَذَاکَرَ فِرْعَوْنُ وَجُلَسَاؤُہُ مَا کَانَ اللَّہُ وَعَدَ إِبْرَاہِیمَ عَلَیْہِ السَّلَامُ أَنْ یَجْعَلَ فِی ذُرِّیَّتِہِ أَنْبِیَاء َ وَمُلُوکًا، فَقَالَ بَعْضُہُمْ: إِنَّ بَنِی إِسْرَائِیلَ یَنْتَظِرُونَ ذَلِکَ لا یَشُکُّونَ فِیہِ.وَکَانُوا یَظُنُّونَ أَنَّہُ یُوسُفُ بْنُ یَعْقُوبَ، فَلَمَّا ہَلَکَ قَالُوا: لَیْسَ ہَکَذَا کَانَ وعد إبراہیم علیہ السلام، فقال فرعون: کیف تَرَوْنَ؟ فَائْتَمَرُوا وَأَجْمَعُوا أَمْرَہُمْ عَلَی أَنْ یَبْعَثَ رِجَالًا مَعَہُمُ الشِّفَارُ یَطُوفُونَ فِی بَنِی إِسْرَائِیلَ فَلَا یَجِدُونَ مَوْلُودًا ذَکَرًا إِلَّا ذَبَحُوہُ،
ترجمہ :حضرت سیدناسعید بن جبیر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میںنے حضرت سیدناعبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہماسے سوال کیاکہ مجھے حضرت سیدناموسی علیہ السلام کے متعلق آگاہ فرمائیں تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:اب تودن غروب ہونے والاہے اوربات بہت لمبی ہے پھرکبھی سہی ۔ چنانچہ میںنے دوسرے دن آپ رضی اللہ عنہ کی خدمت میں عرض کی توآپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:سنوفرعون کے دربار میں ایک بارذکرچلاکہ اللہ تعالی کاوعدہ حضرت سیدناابراہیم علیہ السلام سے تھاکہ ان کی اولاد پاک میں انبیاء کرام علیہم السلام اوربادشاہ بھیجے گا، چنانچہ بنی اسرائیل آج تک ان کے منتظرہیں اورانہیں یقین ہے کہ مصرکی حکومت پھران کے پاس آ جائے گی ، پہلے توان کاخیال تھاکہ یہ وعدہ حضرت سیدنایوسف علیہ السلام کے متعلق ہے لیکن جب ان کاوصال ہوگیاتو اب وہ یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ اللہ تعالی ان میں اپنے ایک نبی کو بھیجے گاجن کے ہاتھوں انہیں سلطنت ملے گی اوران کی مذہبی اوردینی ترقی ہوگی ، یہ باتیں کرکے انہوںنے مجلس مشاورت قائم کی کہ اب کیاکیاجائے جس سے آئندہ کے اس خطرے سے محفوظ رہ سکیں ۔ آخر اس جلسے میں یہ قرارداد منظورہوئی کہ پولیس کامحکمہ قائم کیاجائے جوسارے بنی اسرائیل میں چکرلگایاکرے تاکہ جہاں بھی ان کے ہاں بچہ پیداہواس کو فوراً قتل کردے۔۔۔۔ملخصاً۔
(بحر العلوم: أبو اللیث نصر بن محمد بن أحمد بن إبراہیم السمرقندی (۲:۳۹۵)
امام الرازی رحمہ اللہ تعالی کاقول
إِنَّ الْأَنْبِیَاء َ الَّذِینَ کَانُوا قَبْلَ مُوسَی عَلَیْہِ السَّلَامُ بَشَّرُوا بِمَجِیئِہِ وَفِرْعَوْنُ کَانَ قَدْ سَمِعَ ذَلِکَ فَلِہَذَا کَانَ یُذَبِّحُ أَبْنَاء َ بَنِی إِسْرَائِیلَ۔
ترجمہ :امام فخرالدین الرازی رحمہ اللہ تعالی اورامام سراج الدین الحنبلی المتوفی : ۷۷۵ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ بے شک حضرت سیدناموسی علیہ السلام کے آنے سے بھی پہلے انبیاء کرام علیہم السلام نے حضرت سیدناموسی علیہ السلام کی آمد کی خوشخبری دی تھی اورفرعون نے یہ سن رکھاتھااس لئے اس نے بنی اسرائیل کے لڑکوں کو قتل کرناشروع کردیاتھا۔
(التفسیر الکبیر:أبو عبد اللہ محمد بن عمر بن الحسن بن الحسین التیمی الرازی (۲۴:۵۷۸)
ایک سوال اوراس کاجواب
فَإِنْ قِیلَ: إِنَّ فِرْعَوْنَ کَانَ کَافِرًا بِاللَّہِ فَکَانَ بِأَنْ یَکُونَ کَافِرًا بِالرُّسُلِ أَوْلَی، وَإِذَا کَانَ کَذَلِکَ فَکَیْفَ یُمْکِنُ أَنْ یُقْدِمَ عَلَی ہَذَا الْأَمْرِ الْعَظِیمِ بِسَبَبِ إِخْبَارِ إِبْرَاہِیمَ عَلَیْہِ السَّلَامُ عَنْہُ قُلْنَا: لَعَلَّ فِرْعَوْنَ کَانَ عَارِفًا بِاللَّہِ وَبِصِدْقِ الْأَنْبِیَاء ِ إِلَّا أَنَّہُ کَانَ کَافِرًا کُفْرَ الْجُحُودِ وَالْعِنَادِ أَوْ یُقَالُ: إِنَّہُ کَانَ شَاکًّا مُتَحَیِّرًا فِی دِینِہِ وَکَانَ یُجَوِّزُ صِدْقَ إِبْرَاہِیمَ عَلَیْہِ السَّلَامُ فَأَقْدَمَ عَلَی ذَلِکَ الْفِعْلِ احْتِیَاطًا.
ترجمہ :امام فخرالدین الرازی رحمہ اللہ تعالی ایک سوال لکھتے ہیں کہ اگرکوئی یہ کہے کہ فرعون تواللہ تعالی کامنکرہے تواب وہ اللہ تعالی کے رسولوں علیہم السلام کابطریق اولی منکرہوگاتوان کامنکرہوتے ہوئے سیدناابراہیم علیہ السلام کی
خبرکی بنیاد پر اس نے اتنابڑاقدم کیوں اٹھایا؟
اس کاجواب یہ ہے کہ ممکن ہے کہ فرعون اللہ تعالی کے بارے میں جانتاہواورانبیاء کرام علیہم السلام کو سچاجانتاہواورضد اورہٹ دھرمی کی بناء پر کافرہواوریہ بھی کہاجاسکتاہے کہ وہ دین کے معاملے میں تحیراورتشکیک ( یعنی لبرل از م میں مبتلاء ہوگیاہو) کاشکارہواورممکن ہے کہ وہ حضرت سیدناابراہیم علیہ السلام کو سچاجانتاہواوراس نے احتیاطاً یہ قدم اٹھایاہو۔
(التفسیر الکبیر:أبو عبد اللہ محمد بن عمر بن الحسن بن الحسین التیمی الرازی (۳:۵۰۷)
امام شمس الدین محمدبن احمدالخطیب الشربینی الشافعی المتوفی : ۹۷۷ھ) کاقول
فلذلک اجترأ علی قتل خلق کثیر من أولاد الأنبیاء لتخیل فاسد۔
ترجمہ ۔:امام شمس الدین محمدبن احمدالخطیب الشربینی الشافعی المتوفی : ۹۷۷ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ فرعون نے حضرت سیدناموسی علیہ السلام کو قتل کرنے کے لئے انبیاء کرام علیہم السلام کی اولاد میں سے بہت سی مخلوق کو قتل کردیااوریہ سارے کاساراکام اس نے اپنے فاسد خیال کو پوراکرنے کے لئے کیاتاکہ حضرت سیدناموسی علیہ السلام کی آمدکو روکاجائے ۔
(السراج المنیر:شمس الدین، محمد بن أحمد الخطیب الشربینی الشافعی (۳:۸۰)
حافظ ابن کثیر المتوفی : ۷۷۴ھ)رحمہ اللہ تعالی کاقول
وَہُمْ شَعْبُ بَنِی إِسْرَائِیلَ الَّذِینَ ہُمْ مِنْ سلالۃ نبی اللہ یعقوب بن إسحق بْنِ إِبْرَاہِیمَ خَلِیلِ اللَّہِ وَکَانُوا إِذْ ذَاکَ خیار أہل الأرض وَکَانَ الْحَامِلُ لَہُ عَلَی ہَذَا الصَّنِیعِ الْقَبِیحِ إنَّ بَنِی إِسْرَائِیلَ کَانُوا یَتَدَارَسُونَ فِیمَا بَیْنَہُمْ، مَا یأثرونہ عن إبراہیم عَلَیْہِ السَّلَامُ مِنْ أَنَّہُ سَیَخْرُجُ مِنْ ذُرِّیَّتِہِ غُلَامٌ یَکُونُ ہَلَاکُ مَلِکِ مِصْرَ عَلَی یَدَیْہِ، وذلک واللہ أعلم حین کان جَرَی عَلَی سَارَّۃَ امْرَأَۃِ الْخَلِیلِ مِنْ مَلِکِ مِصْرَ مِنْ إِرَادَتِہِ إِیَّاہَا عَلَی السُّوء ِ وَعِصْمَۃِ اللَّہِ لَہَا وَکَانَتْ ہَذِہِ الْبِشَارَۃُ مَشْہُورَۃً فِی بَنِی إِسْرَائِیلَ فَتَحَدَّثَ بِہَا الْقِبْطُ فِیمَا بَیْنَہُمْ، ووصلت إلی فرعون، فذکرہا لہ بعض أمرائہ وأساورتہ، وہم یسمرون عندہ، فأمر عن ذَلِکَ بِقَتْلِ أَبْنَاء ِ بَنِی إِسْرَائِیلَ، حَذَرًا مِنْ وُجُودِ ہَذَا الْغُلَامِ، وَلَنْ یُغْنِیَ حَذَرٌ مِنْ قَدَرٍ.
ترجمہ :حافظ ابن کثیر المتوفی : ۷۷۴ھ)رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیںکہ بنی اسرائیل اللہ تعالی کے نبی یعنی یعقوب بن اسحاق بن ابراہیم خلیل اللہ علیہم السلام کے سلسلہ نسب سے تعلق رکھتے تھے اوراس زمانے میں دنیاکے ممتاز ترین لوگوں میں شمار ہوتے تھے لیکن فرعون نے انہیں ملک کے ادنی ترین لوگ بنانے کی کوشش میں ان کے بیٹوں کو قتل کردیاوران کی بیٹیوں کو زندہ چھوڑ دیاکیونکہ وہ جانتاتھاکہ بنی اسرائیل کاتعلق حضرت سیدناابراہیم علیہ السلام کے سلسلہ نسب سے ہے اوراس کو خدشہ تھاکہ ان میں سے کوئی نہ کوئی اٹھ کر اسے ہلاک کرکے اس کے ملک اوراقتدار کو اس سے چھین لے گااوراللہ تعالی ہی بہترجانتاہے کہ اس نے حضرت سیدناابراہیم علیہ السلام کی زوجہ محترمہ رضی اللہ عنہماکو اس سے قبل مصر سے شاید اسی وجہ سے نکالاہو، بہرکیف اللہ تعالی نے ان کی آبروکی حفاظت فرمائی تھی ، اس کے علاوہ خود بنی اسرائیل میں اللہ تعالی کی یہ بشارت بڑی مشہور تھی کہ انہیں میں سے کوئی فرعون کاتختہ الٹے گااوریہی بات فرعون کے وزیروں اوراس کے قرابت داروں نے فرعون کے دل میں بٹھادی تھی ۔جس کی وجہ سے اس نے بنی اسرائیل کے بچوں اورمردوں کو قتل کرناشروع کردیاتھا۔
(البدایۃ والنہایۃ:أبو الفداء إسماعیل بن عمر بن کثیر القرشی البصری ثم الدمشقی (ا:۱۲۴)
اس ساری بحث سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ بنی اسرائیل کے بچوں کے قتل کرنے میں اصل جو بات تھی وہ یہی تھی کہ فرعون کو حضرت سیدناموسی علیہ السلام کی آمد کی اطلاع مل چکی تھی اسی لئے وہ بچوں کو قتل کرواتارہاتاکہ اس کاتخت خطرے میں نہ پڑے ۔
ا س آیت مبارکہ میں یہود کو تنبیہ
أَنَّہُمْ لَمَّا عَرَفُوا أَنَّہُمْ کَانُوا فِی نِہَایَۃِ الذُّلِّ وَکَانَ خَصْمُہُمْ فِی نِہَایَۃِالْعِزِّ إِلَّا أَنَّہُمْ کَانُوا مُحِقِّینَ وَکَانَ خَصْمُہُمْ مُبْطِلًا لَا جَرَمَ زَالَ ذُلُّ الْمُحِقِّینَ وَبَطَلَ عِزُّ الْمُبْطِلِینَ، فَکَأَنَّہُ تَعَالَی قَالَ: لَا تَغْتَرُّوا بِفَقْرِ مُحَمَّدٍ وَقِلَّۃِ أَنْصَارِہِ فِی الْحَالِ، فَإِنَّہُ مُحِقٌّ لَا بُدَّ وَأَنْ یَنْقَلِبَ الْعِزُّ إِلَی جَانِبِہِ وَالذُّلُّ إِلَی جَانِبِ أَعْدَائِہِ، وَثَالِثُہَا: أَنَّ اللَّہَ تَعَالَی نَبَّہَ بِذَلِکَ عَلَی أَنَّ الْمُلْکَ بِیَدِ اللَّہِ یُؤْتِیہِ مَنْ یَشَاء ُ، فَلَیْسَ لِلْإِنْسَانِ أَنْ یَغْتَرَّ بِعِزِّ الدُّنْیَا بَلْ عَلَیْہِ السَّعْیُ فِی طَلَبِ عِزِّ الْآخِرَۃِ۔
ترجمہ :امام فخرالدین الرازی رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺکے زمانہ اقدس کے یہودی یہ باتیں جانتے تھے کہ ان کو فرعونیوں نے بڑے عذاب میں مبتلاکئے رکھااوران کادشمن نہایت عزت میں تھا، البتہ یہ حق پر اوران کے دشمن فرعونی باطل پر تھے ، ضروری تھاکہ حق والوں کی ذلت اورباطل والوں کی عزت ختم کردی جائے توگویااللہ تعالی فرمارہاہے کہ اے مشرکین مکہ اوریہود ونصاری! رسول اللہ ﷺکے ظاہری فقراورمعاونین کی قلت پر دھوکہ نہ کھائو، اس لئے کہ آپﷺحق پرہیںاورضروری ہے کہ عزت آپ ﷺکی طرف اورذلت آپ ﷺکے دشمن کی طرف جائے ۔
اوراللہ تعالی نے یہ تنبیہ فرمائی کہ ملک اللہ تعالی کے ہاتھ میں ہے جسے چاہے عطافرمائے ، انسا ن عزت دنیاوی کی وجہ سے غرورمیں مبتلاء نہ ہوبلکہ اللہ تعالی سے آخرت کی عزت پانے کے لئے سعی کرے ۔
(التفسیر الکبیر:أبو عبد اللہ محمد بن عمر بن الحسن بن الحسین التیمی الرازی (۳:۵۰۷)
اس آیت مبارکہ میں ہمارے دورکے غلامان یہود کو بھی تنبیہ ہے کہ وہ بھی دین دشمنی میں مگن نہ رہیں آج تم نے جن علماء کرام کو نہتاجان کران کے ساتھ ظلم وستم روارکھاہے یہ بات بعید نہیں ہے کہ اللہ تعالی کل کلاں تم کو نیچے پٹخ دے اوررسول اللہ ﷺکے دین مبارک کو تخت پر لے آئے ۔توپھرتمھاراحال بھی وہی فرعون والاہوگاکیونکہ وہ دین سے خوف کھاتاتھابالآخر اللہ تعالی نے اس ظالم کو سمندرمیں غرق فرمادیاکہیں یہ نہ ہوکہ تمھارے ساتھ بھی وہی ہو کہ تم غرق کردئیے جائو۔
دائیاں یانرسیں ؟
ووکل بالقوابل فکنّ یفعلن ذلک حتی قتل فی طلب موسی اثنی عشر ألفا وقیل: سبعین ألفا۔
ترجمہ :امام علائو الدین الخازن المتوفی : ۷۴۱ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ دائیوں کو کہاگیاکہ بنی اسرائیل میں جو بچہ پیداہواس کو قتل کردو ، دائیوں نے حضرت سیدناموسی علیہ السلام کی طلب میں بارہ ہزاراورایک روایت کے مطابق
سترہزار بچے قتل کردیئے ۔
(لباب التأویل فی معانی التنزیل: علاء الدین علی بن محمد بن إبراہیم(۱:۴۳)
اس وقت ان دائیوں نے حضرت سیدناموسی علیہ السلام کے قتل کے لئے سترہزار بچے ماردیئے ، آج ہم اپنے دورکے ڈاکٹروں اورنرسوں کو دیکھیں کہ یہ کیاکررہے ہیں ۔ ان کی دہشت گردی کسی سے بھی ڈھکی چھپی نہیں ہے یہ لوگ ساراسال خواتین سے چیک اپ کے نام پر بھاری فیسیں بٹورتے ہیں اورجب وقت آتاہے بچے کی ولادت کاتو بڑاآپریشن کرکے بچہ دانی ضائع کردیتے ہیں تاکہ دوسے زائد بچے ہی نہ پیداہوسکیں ۔ اس فرعون نے توسترہزاربچے قتل کئے مگرہمارے انگریزی اداروں کے فیض یافتہ یہ قصائی روزانہ کئی کئی ستر ہزار بچوں کاقتل کرتے ہیں۔
حضرت سیدناموسی علیہ السلام کازوربازو
وقد اعطی اللہ نفس موسی علیہ السلام من القوۃ علی التصرف ما کان یعطیہ أولئک المقتولین لو کانوا احیاء ولذلک کانت معجزاتہ ظاہرۃ باہرۃ۔
ترجمہ الامام اسماعیل حقی حنفی رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ اللہ تعالی نے حضرت سیدناموسی علیہ السلام کو ان کے تمام لڑکوں کے برابرقوت دی اگروہ زندہ ہوتے توان سب کی قوت اورحضرت سیدناموسی علیہ السلام کی قوت برابرہوتی اسی وجہ سے ان کے معجزات میں سے ایک معجزہ ان کازوربازوتھا۔
(روح البیان: إسماعیل حقی بن مصطفی الإستانبولی الحنفی الخلوتی المولی أبو الفداء (۱:۱۲۹)
کیاحاکم کے کہنے پرقتل کرنے والے کو قتل کیاجائے گا؟
نَسَبَ اللَّہُ تَعَالَی الْفِعْلَ إِلَی آلِ فِرْعَوْنَ وَہُمْ إِنَّمَا کَانُوا یَفْعَلُونَ بِأَمْرِہِ وَسُلْطَانِہِ لِتَوَلِّیہِمْ ذَلِکَ بِأَنْفُسِہِمْ وَلِیُعْلِمَ أَنَّ الْمُبَاشِرَ مَأْخُوذٌ بِفِعْلِہِ قَالَ الطَّبَرِیُّ وَیَقْتَضِی أَنَّ مَنْ أَمَرَہُ ظَالِمٌ بِقَتْلِ أَحَدٍ فَقَتَلَہُ الْمَأْمُورُ فَہُوَ الْمَأْخُوذُ بِہِ. قَالَ الشَّافِعِیُّ:إِذَا أَمَرَ السُّلْطَانُ رَجُلًا بِقَتْلِ رَجُلٍ وَالْمَأْمُورُ یَعْلَمُ أَنَّہُ أُمِرَ بِقَتْلِہِ ظُلْمًا کَانَ عَلَیْہِ وَعَلَی الْإِمَامِ الْقَوَدُ کَقَاتِلَیْنِ مَعًا۔ملخصاً۔
ترجمہ :امام ابوعبداللہ محمدبن احمدالقرطبی المتوفی : ۶۷۱ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ اللہ تعالی نے فعل کو آل فرعون کی طرف منسوب کیاہے کیونکہ وہ فرعون کے حکم پر بنی اسرائیل کے بچوں کو قتل کرتے تھے چونکہ یہ کام ان کے سپردتھا، اس لئے فعل کی نسبت ان کی طرف کی گئی ، نیز اس لئے تاکہ معلوم ہوجائے کہ کام کرنے والااپنے کام کی وجہ سے سزاکاحقدارہے ۔امام طبری رحمہ اللہ تعالی نے فرمایا: اللہ تعالی کایہ ارشاداس بات کاتقاضہ کرتاہے کہ جس کو کسی شخص نے کہاکہ فلاں کوقتل کردو تو اس نے قتل کردیاتو دونوں سے مواخذہ ہوگا۔
امام شافعی رضی اللہ عنہ نے فرمایا:جب بادشاہ کسی پولیس والے کوحکم دے کہ فلاں شخص کو قتل کردو اوریہ شخص جانتاہے کہ اس کو ظلماً قتل کیاجارہاہے تو حاکم اورپولیس والے دونوں کو قتل کیاجائے گاکیونکہ یہ اب ایسے ہوگئے ہیں کہ ان دونوں نے قتل کیاہے ۔
(تفسیر القرطبی: أبو عبد اللہ محمد بن أحمدشمس الدین القرطبی (۱:۳۸۱)
معارف ومسائل
(۱)قال القشیری: من صبر فی اللہ علی قضاء اللہ، عوّضہ اللہ صحبۃ أولیائہ، ہؤلاء بنو إِسرائیل، صبروا علی مقاساۃ الضر من فرعون وقومہ، فجعل منہم أنبیاء ، وجعل منہم ملوکاً، وآتاہم ما لم یؤت أحداً من العالمین.
ترجمہ :امام ابوالقاسم عبدالکریم القشیری رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیںکہ جو شخص اللہ تعالی کے فیصلے پر راضی رہتاہے تواللہ تعالی اس کے عوض اسے اپنے اولیاء کی صحبت عطافرماتاہے ، جیساکہ بنی اسرائیل نے فرعونیوں کی طرف سے آنے والی مصیبتوں پر صبرکیاتورب تعالی نے ان میں انبیاء کرام علیہم السلام بھیجے اوران میں بادشاہ پیدافرمائے اورانہیں وہ وہ نعمتیں عطافرمائیں جو دنیامیں کسی کونہ دیں۔
(صفوۃ التفاسیر:محمد علی الصابونی(۱:۵۰)
(۲)اس سے معلوم ہواکہ سب سے پہلے پولیس کامحکمہ قائم بھی اللہ تعالی کے پاک نبی حضرت سیدناموسی علیہ السلام کے خلاف ہواہے ، اسی وجہ سے آج بھی جہاں انبیاء کرام علیہم السلام کے وارث ہوں گے وہاں وہاں ان پر ظلم کیاجاتاہے ۔
(۳) اس سے معلوم ہواکہ آجکل جولوگ فیملی پلانگ کے نام پر بچوں کو قتل کرنے میں لگے ہوئے ہیں ان کاپیشروبھی وہی فرعون ہی ہے۔
(۴) اپنے اقتدار کے لئے انبیاء کرام علیہم السلام اورعلماء کرام کوخطرہ سمجھنافرعون کاطریقہ ہے ۔
(۵)اس سے یہ بھی معلوم ہواکوئی شخص یہ کہہ کر نہیں چھوٹ سکتاکہ میں نے توحکمرانوں کے کہنے پر قتل کیاتھالھذامیں تومجبورہوں بلکہ شرع مبارک کے حکم کے مطابق حاکم اورقاتل دونوں کو قتل کیاجائے گا۔چونکہ یہاں حکم شرع نافذ نہیں ہے اس لئے یہ دونوں کامعاملہ حاکم شرعی کے پاس لے جایاجائے گاجب بھی اسلامی ریاست قائم ہوگی۔