دین حق کو چھپانااوراس کو بیان نہ کرنایہودیوں کاشیوہ ہے تفسیر سورہ بقرہ آیت ۴۰۔۴۱

دین حق کو چھپانااوراس کو بیان نہ کرنایہودیوں کاشیوہ ہے

یٰبَنِیْٓ اِسْرَآء ِیْلَ اذْکُرُوْا نِعْمَتِیَ الَّتِیْٓ اَنْعَمْتُ عَلَیْکُمْ وَاَوْفُوْا بِعَہْدِیْٓ اُوْفِ بِعَہْدِکُمْ وَ اِیّٰیَ فَارْہَبُوْنِ}(۴۰){وَاٰمِنُوْا بِمَآ اَنْزَلْتُ مُصَدِّقًا لِّمَا مَعَکُمْ وَلَا تَکُوْنُوْٓا اَوَّلَ کَافِرٍ بِہٖ وَلَا تَشْتَرُوْا بِاٰیٰتِیْ ثَمَنًا قَلِیْلًا وَّ اِیّٰیَ فَاتَّقُوْن}(۴۱){وَلَا تَلْبِسُوا الْحَقَّ بِالْبٰطِلِ وَتَکْتُمُوا الْحَقَّ وَاَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ}(۴۲)
ترجمہ کنزالایمان:اے یعقوب کی اولاد یاد کرو میرا وہ احسان جو میں نے تم پر کیااور میرا عہد پورا کرو میں تمہارا عہد پورا کروں گا اور خاص میرا ہی ڈر رکھو ۔اور ایمان لاؤ اس پر جو میں نے اتارا اس کی تصدیق کرتا ہوا جو تمہارے ساتھ ہے اور سب سے پہلے اس کے منکر نہ بنو اور میری آیتوں کے بدلے تھوڑے دام نہ لو اور مجھی سے ڈرو ۔اور حق سے باطل کو نہ ملاؤ اور دیدہ و دانستہ حق نہ چھپاؤ ۔
ترجمہ ضیاء الایمان :اے یعقوب کی اولاد ! میراوہ احسان یادکروجو میں نے تم پر کیااورمیراعہدپوراکرو ، میں تمھاراعہد پوراکروں گااورخاص مجھ ہی سے ڈرو۔ اورایمان لائوقرآن کریم پر جو میں نے نازل فرمایا، یہ اس کی تصدیق کرتاہے جو تمھارے پاس ہے اورسب سے پہلے منکرنہ بنواورمیری آیتوں کے بدلے تھوڑی قیمت وصول نہ کرو۔اورخاص مجھ ہی سے ڈرو۔اورحق کوباطل کے ساتھ نہ ملائواورجان بوجھ کر حق نہ چھپائو۔
اسرائیل کامعنی ؟
وإسرائیل اسم یعقوب علیہ السلام ومعناہ عبد اللہ لان اسرا بلغۃ العبرانیۃ وہی لغۃ الیہود بمعنی العبد وایل ۔
ترجمہ:امام اسماعیل حقی بن مصطفی الحنفی المتوفی : ۱۱۲۷ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ اسرائیل عبرانی زبان کالفظ ہے اوریہ حضرت سیدنایعقوب علیہ السلام کالقب ہے اوراس کاعربی میں ترجمہ عبداللہ بنتاہے ۔اوریہ یہودکی لغت تھی ۔
(روح البیان:إسماعیل حقی بن مصطفی الإستانبولی الحنفی الخلوتی المولی أبو الفداء (۱:۱۱۷)
یہ بھی ذہن میںرہے کہ یہاں یاد کرنے سے مرادصرف زبان سے تذکرہ کرنا نہیں ہے بلکہ اس سے مرادیہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت و بندگی کرکے ان نعمتوں کا شکر بجالائیں کیونکہ کسی نعمت کا شکر نہ کرنا اس کو بھلادینے کے مترادف ہے۔
اس آیت میں رسول اللہ ﷺکے زمانے کے یہودیوں کو مخاطب کر کے ان سے فرمایا گیا :اے بنی اسرائیل!میرے وہ احسان یاد کرو جو میں نے تمہارے آباو اجداد پر کئے جیسے انہیں فرعون سے نجات دی، ان کیلئے دریا میں گزرگاہ بنادی، بادل کو ان پرسائبان بنادیا، کھانے کیلئے ان پر مَن و سَلْویٰ اتارا،ان کے لئے پانی کے چشمے جاری کئے،انہیں طاقتور قوموں پر فتح عطا فرمائی اور توریت جیسی عظیم کتاب انہیں عطا فرمائی اور میرا وہ احسان یاد کرو جو میں نے تم پر کیا کہ تمہیں اپنے حبیب ﷺکا زمانہ عطا کیا جن کی آمد کی بشارت تورات اور انجیل میں دی گئی ہے۔

دوسرا قول یہ ہے کہ اس سے وہ عہد مراد ہے جو اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے ذریعے بنی اسرائیل سے لیا کہ میں آخری زمانے میں حضرت اسماعیل عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی اولاد میں ایک نبی (ﷺ)کو بھیجنے والاہوں تو جس نے ان کی پیروی کی اور اس نور کی تصدیق کی جسے وہ لے کرآئے تو میں ا س کے گناہ بخش دوں گا اور اسے جنت میں داخل کروں گااور اسے دوگنا ثواب عطا کروں گا۔

حضرت مفتی احمدیارخان نعیمی رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ{ اوف بعہدکم} سبحان اللہ کیاپیارااورامیدافزاارشادہے ۔ اللہ تعالی فرمارہاہے تم میراعہدپوراکرومیں تمھاراعہدپوراکروں گا۔ علماء بنی اسرائیل کو خطرہ تھاکہ اگرہم اسلام قبول کرلیں تو ہماری آمدنیاں بندہوجائیں گی اورنذرونیازیں اورتحفے ہدیے وغیرہ ختم ہوجائیں گے جو ہم کو ہمارے جہلا دیتے ہیں ، نیز ہماری سرداری بھی جاتی رہے گی جو ہم کو اب حاصل ہے ، ان کو فرمایاگیاکہ دنیاوالوں اوریہاں کی مصیبتوں وغیرہ سے نہ ڈرو بلکہ ہم سے خوف کر و یعنی ایمان لانے میں تم کو دنیوی نقصان ہے اورایمان نہ لانے میں ہماری ناراضگی جو دنیاوآخرت کاوبال ہے اوراس سے زیادہ سخت ہے لھذاہم سے خوف کرکے ایمان لے آئو۔اللہ تعالی نے فرمایا: مجھ سے ڈرکرمیرے محبوب ﷺکی مخالفت سے باز آجائو۔ ملخصاً۔
(تفسیر نعیمی از مفتی احمدیارخاں نعیمی ( ۱: ۳۲۶)

رسول اللہ ﷺکی معرفت حاصل ہونے کے باجود۔۔۔

وَأخرج ابْن إِسْحَق وَابْن جریر وَابْن أبی حَاتِم عَن ابْن عَبَّاس فِی قَوْلہ (یَا بنی إِسْرَائِیل) قَالَ: للأحبار من الْیَہُود (اذْکروا نعمتی الَّتِی أَنْعَمت عَلَیْکُم) أَی آلائی عنْدکُمْ وَعند آبائکم لما کَانَ نجاہم بِہِ من فِرْعَوْن وَقَومہ (وأوفوا بعہدی) الَّذِی أخذت بأعناقکم للنَّبِی صلی اللہ عَلَیْہِ وَسلم إِذْ جَاء َکُم (أوف بعہدکم) انجز لکم مَا وعدتکم عَلَیْہِ بتصدیقکم مَعَہ واتباعہ بِوَضْع مَا کَانَ عَلَیْہِم من الإِصر والأغلال (وإیای فارہبون) أَن انْزِلْ بکم مَا أنزلت بِمن کَانَ قبلکُمْ من آبائکم من النقمات (وآمنوا بِمَا أنزلت مُصدقا لما مَعکُمْ وَلَا تَکُونُوا أوّل کَافِر بِہِ) وعندکم بِہِ من الْعلم مَا لَیْسَ عِنْد غَیْرکُمْ (وتکتموا الْحق وَأَنْتُم تعلمُونَ) أَی لَا تکتموا مَا عنْدکُمْ من الْمعرفَۃ برسولی وَبِمَا جَاء َ بِہِ وَأَنْتُم تجدونہ عنْدکُمْ فِیمَا تعلمُونَ من الْکتب الَّتِی بِأَیْدِیکُمْ۔

ترجمہ :حضرت سیدناعبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہمافرماتے ہیں کہ {یٰبَنِیْٓ اِسْرَآء ِیْل}کی تفسیر یہ ہے کہ اے یہود کے علماء!یعنی اے علمائے یہودیادکرومیری ان نعمتوں کو جو میں نے تم پر کی ہیں اورتمھارے آبائواجداد پر کی ہیں ، اس نے انہیں فرعون اوراس کی قوم سے نجات دی ۔{وَاَوْفُوْا بِعَہْدِی}اورجو میں نے تم سے اپنے نبی محمدﷺکے متعلق وعدہ لیاتھااس کو پوراکرو{ اُوْفِ بِعَہْدِکُمْ }میں تمھارے ساتھ کیاہواوعدہ پوراکروں گایعنی تم میرے حبیب کریم ﷺکی تصدیق کرو اوران پرایمان لے آئواگرتم نے یہ کرلیاتو میں تم سے بوجھ ساقط کردوں گا{وَ اِیّٰیَ فَارْہَبُوْنِ}اس بات سے ڈروکہ کہیں تم پر بھی ایساعذاب نہ نازل کردوں جو تم سے پہلے لوگوں پر نازل کیاتھا۔{وَاٰمِنُوْا بِمَآ اَنْزَلْتُ مُصَدِّقًا لِّمَا مَعَکُمْ وَلَا تَکُوْنُوْٓا اَوَّلَ کَافِرٍ بِہٖ }اورایمان لائو اس پر جو میں نے نازل کیاہے یعنی قرآن کریم پر یہ وہی قرآن کریم ہے جوتم پر نازل کردہ کتاب کی تصدیق کرنے والاہے اورتم پہلے انکارکرنے والے نہ بنوکیونکہ تمھارے پاس جو علم ہے وہ دوسرے کسی کے پاس نہیں ہے {وَتَکْتُمُوا الْحَقَّ وَاَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ}اورمیرے رسول ﷺکے متعلق تم کو معرفت حاصل ہے اس کو نہ چھپائواورجوکچھ تمھارے پاس آچکاہے اس کو نہ چھپائوجبکہ تم اپنی گزشتہ کتب میں میرے نبی ﷺکی ان بلندشانوں اورعظمتوں کو پڑھ چکے ہو۔
(الدر المنثور:عبد الرحمن بن أبی بکر، جلال الدین السیوطی (۱:۱۵۴)

یہودی رسول اللہ ﷺاوردین کو جان کربھی کتمان حق کرتے تھے

ثنا سَعِیدٌ عَنْ قَتَادَۃَ قَوْلُہُ:وَأَنْتُمْ تَعْلَمُونَ قَالَ وَہُمْ یَعْلَمُونَ أَنَّہُ رَسُولُ اللَّہِ، وَکَتَمُوا الإِسْلامَ وَہُمْ یَعْلَمُونَ أَنَّہُ دِینُ اللَّہِ.
ترجمہ :حضرت سیدناقتادہ رضی اللہ عنہ {أَنْتُمْ تَعْلَمُونَ}کے متعلق فرماتے ہیں کہ وہ جانتے ہیں یعنی یہودی جانتے تھے کہ رسول اللہ ﷺاللہ تعالی کے رسول ہیں اوروہ یہ بھی جانتے تھے کہ اسلام اللہ تعالی کی طرف سے ہے مگر وہ رسول اللہ ﷺکے نبی ہونے کااسلام کے دین ہونے کاانکارکرتے تھے ۔
(تفسیر القرآن العظیم لابن أبی حاتم:أبو محمد عبد الرحمن بن محمد بن إدریس بن المنذر التمیمی، الحنظلی(۱:۹۹)
{ وَلَا تَکُوْنُوْٓا اَوَّلَ کَافِرٍ بِہٖ}

اورتم پہلے کافرنہ بنوکامطلب؟

وَلا تَکُونُوا أَوَّلَ فریق کافِرٍ بِہِ ای بالقرآن فان وزر المقتدی یکون علی المبتدی کما یکون علی المقتدی:ای لا تسارعوا الی الکفر بہ فان وظیفتکم ان تکونوا أول من آمن بہ لما انکم تعرفون شأنہ وحقیقتہ بطریق التلقی مما معکم من الکتب الالہیۃ کما تعرفون أبنائکم وقد کنتم تستفتحون بہ وتبشرون بزمانہ فلا تضعوا موضع ما یتوقع منکم ویجب علیکم ما لا یتوہم صدورہ عنکم من کونکم أول کافر بہ ودلت الآیۃ علی انہ علیہ الصلاۃ والسلام قدم المدینۃ فکذبہ یہود المدینۃ ثم بنوا قریظۃ وبنوا النضیر ثم خیبر ثم تتابعت علی ذلک سائر الیہود ۔

ترجمہ :یعنی سب سے پہلے قرآن کریم کے ساتھ تم کفرنہ کروکیونکہ مقتدی کاگناہ پہلے اس پر ہوتاہے جس نے اس عمل کی بنیادرکھی ۔ یعنی تم کفرکرنے میں سبقت نہ کروکیونکہ تمھاراعمل تویوں ہوناچاہئے کہ تم سب سے پہلے ایمان لانے والے بنوکیونکہ تم اس کی حقیقت اوراس کی شان اپنی کتابوں میں پڑھ چکے ہواوراس کاحق ہونایونہی جانتے ہو جیسے تم اپنی اولاد کو جانتے ہو،اس سے پہلے تم اسی کے توسل سے اللہ تعالی سے فتح کی دعائیں کیاکرتے تھے اوراسی کی آمد کے تم منتظررہے ، پس اب اپنی متوقع امید کو ضائع نہ کرورسول اللہ ﷺجب مدینہ منورہ تشریف لائے توسب سے پہلے ان کی تکذیب کرنے والے مدینہ منورہ کے یہودی تھے پھربنوقریظہ ،بنونضیراورخیبرکے یہودیوں نے ان کے تابع ہوکر رسول اللہ ﷺکی تکذیب کی ۔
(روح البیان:إسماعیل حقی بن مصطفی الإستانبولی الحنفی الخلوتی المولی أبو الفداء (ا:۱۱۸)
{ وَلَا تَشْتَرُوْا بِاٰیٰتِیْ ثَمَنًا قَلِیْلًا وَّ اِیّٰیَ فَاتَّقُوْن}

شان نزول
کما حکی ان کعب بن الأشرف قال لاحبار الیہود ما تقولون فی محمد قالوا انہ نبی قال لہم کان لکم عندی صلۃ وعطیۃ لو قلتم غیر ہذا قالوا أجبناک من غیر تفکر فامہلنا نتفکر وننظر فی التوراۃ فخرجوا وبدلوا نعت المصطفی بنعت الدجال ثم رجعوا وقالوا ذلک فاعطی کل واحد منہم صاعا من شعیر واربعۃ اذرع من الکرباس فہو القلیل الذی ذکرہ اللہ فی ہذہ الآیۃ الکریمۃ۔
ترجمہ :کعب بن اشرف یہودی نے ایک دن اپنے مذہب یہود کے بڑے بڑے علماء کو بلایااورپوچھاکہ تم حضرت محمدﷺکے بارے میں کیاکہتے ہو؟ توان سب نے یہی کہاکہ وہ تواللہ تعالی کے سچے نبی (ﷺ) ہیں۔ کعب بن اشرف نے کہا: تم کو جوانعامات مجھ سے ملتے تھے آج سے سارے بنداورآج کے بعد تم کو مجھ سے کچھ بھی نہیں ملے گا۔ اگرتم اس کے خلاف کچھ ثابت کروتوپھرتمھاراانعام اورماہانہ نذرونیاز شروع ہوسکتاہے ۔ بعض اہل کتاب یعنی یہودی علماء نے کہا: ہم نے جلدی میں جواب دیاہے اس لئے بلاسوچے سمجھے جواب درست نہیں دیا،ا ٓپ ہمیں موقع دیں تاکہ ہم پھرسے کتاب توراۃ کامطالعہ کریں اورمکمل تحقیق کرکے آپ کو جواب دیتے ہیں ۔ کچھ ہی دیر کے بعد انہوںنے کعب بن اشرف کوتوراۃ دکھائی جہاں جہاں رسول اللہ ﷺکاذکرخیر تھاوہاں وہاں دجال کی تعریف لکھ دی ۔ پھرکعب بن اشرف یہودی کو سنائی تو اس نے ان سب کو ایک صاع جو اورچارچارگزکپڑانذرانہ پیش کیااسی لئے اللہ تعالی نے فرمایا: { ثَمَنًا قَلِیلًا}
(روح البیان: إسماعیل حقی بن مصطفی الإستانبولی الحنفی الخلوتی المولی أبو الفداء (ا:۱۱۸)

اورمیری آیتوں کے بدلے تھوڑاثمن نہ لو!

وَلا تَشْتَرُوا بِآیاتِی ای لا تأخذوا لانفسکم بدلا منہا ثَمَناً قَلِیلًا ہی الحظوظ الدنیویۃ فانہا وان جلت قلیلۃ مسترذلۃ بالنسبۃ الی ما فات عنہم من حظوظ الآخرۃ بترک الایمان قیل کانت عامتہم یعطون أحبارہم من زروعہم وثمارہم ویہدون إلیہم الہدایا ویعطونہم الرشی علی تحریفہم الکلم وتسہیلہم لہم ما صعب علیہم من الشرائع وکان ملوکہم یجرون علیہم الأموال لیکتموا ویحرفوا فلما کان لہم ریاسۃ عندہم ومآکل منہم خافوا ان یذہب ذلک منہم ای من الأحبار لو آمنوا بمحمد واتبعوہ وہم عارفون صفتہ وصدقہ فلم یزالوا یحرفون الکلم عن مواضعہ ویغیرون نعت محمد صلی اللہ علیہ وسلم۔

ترجمہ :اوراپنے نفسوں کے لئے میری آیات کے بدلے میں تھوڑاثمن نہ لو ،ثمن قلیل سے دنیوی لذتیں مراد ہیں کیونکہ اگرچہ کتنی ہی بڑی ہوں لیکن وہ نعمتیں جو ایمان کے بدولت انہیں ملیں گی جویہ چھوڑ بیٹھے ہیں ۔ ان کی نسبت دنیوی نعمتیں نہایت قلیل اوربالکل لاشئی ہیں۔ عام یہودی اپنے احبار اورعلماء کو کھیتوں کے پھلوں سے کچھ دیتے تھے اورانہیں ہدایابھیجتے تھے اوراسی طرح ان کو رشوتیں دیاکرتے تھے تاکہ وہ کتاب کے معانی میںتحریف کریں اورایسے آسان مسائل تیارکریں جو بالکل نرم نرم ہوں ، اسی طرح شاہان وقت بھی انہیں بہت کچھ دیتے تھے تاکہ وہ حق کو پوشیدہ رکھیں اورکلمات میں تحریف کرڈالیں ، احبار اورعلماء یہود کی معاش کاچونکہ صرف یہی واحد ذریعہ تھاانہیں خطرہ لاحق ہواکہ اگر ہم حق ظاہرکردیں گے ،یعنی سیدناامام الانبیاء ﷺپر ایمان لاکر ان کی تابعداری کریں تو ہماری شان وشوکت اوردنیاکی دولت ہاتھ سے نکل جائے گی اگرچہ توراۃ شریف میں آپ ﷺکی صفت اورصدق کاذکربھی موجودتھالیکن توراۃ کو پڑھ کر محروم رہے اورہمیشہ کتاب توراۃ میں تبدیلیاں کرتے رہے ۔
(روح البیان:إسماعیل حقی بن مصطفی الإستانبولی الحنفی الخلوتی المولی أبو الفداء (ا:۱۱۸)

اس سے مرادیہ نہیں ہے کہ تم زیادہ ثمن لیکر آیات کو بیچ سکتے ہوبلکہ اس سے مقصود ان کے کفروعناد کو براقراردیناہے کہ یہ ان سے سرزد ہورہاہے جو اپنی کتب میں رسول اللہ ﷺکی صفات سے آگاہ ہوکر اس کو چھپارہے تھے۔
یہودیت اورعیسائیت کو اسلام کے ساتھ نہ ملائو!

وَأخرج عبد بن حمیدعن قَتَادَۃ فِی قَوْلہ (وَلَا تلبسوا الْحق بِالْبَاطِلِ)قَالَ:لَا تلبسوا الْیَہُودِیَّۃ والنصرانیۃ بالإِسلام وَأَنْتُم تعلمُونَ أَن دین اللہ الإِسلام وَأَن الْیَہُودِیَّۃ والنصرانیۃ بِدعَۃ لَیست من اللہ (وتکتمون الْحق وَأَنْتُم تعلمُونَ) قَالَ: کتموا مُحَمَّدًا وہم یعلمُونَ أَنہ رَسُول اللہ یجدونہ مَکْتُوبًا عِنْدہم فِی التَّوْرَاۃ والإِنجیل یَأْمُرہُم بِالْمَعْرُوفِ وینہاہم عَن الْمُنکر وَیحل لَہُم الطَّیِّبَات وَیحرم عَلَیْہِم الْخَبَائِث۔
ترجمہ :حضرت سیدناقتادہ رضی اللہ عنہ اللہ تعالی کے اس فرمان شریف {وَلَا تلبسوا الْحق بِالْبَاطِلِ}کے تحت فرماتے ہیں کہ یہودیت اورنصرانیت کو اسلام کے ساتھ نہ ملائوجبکہ تم جانتے ہوکہ اللہ تعالی کادین اسلام ہے اوریہودیت ونصرانیت بدعت ہیں ، یہ اللہ تعالی کی طرف سے نہیں ہیں اورانہوںنے رسول اللہ ﷺکی نبوت کو چھپایاحالانکہ وہ جانتے تھے کہ حضرت سیدنامحمدﷺاللہ تعالی کے سچے رسول ہیں اورتورات وانجیل میں آپ ﷺکاذکرخیرپڑھتے رہتے ہیں کہ آپ ﷺ ان کونیکی کاحکم کریں گے اوران کو برائی سے منع کریں گے ان کے لئے حلال کو حلال کریں گے اورناپاک اورخبیث چیزوں کو ان کے لئے حرام کریں گے ۔
(تفسیر القرطبی:أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن أبی بکر بن فرح الأنصاری الخزرجی شمس الدین القرطبی (ا:۳۴۱)
{أَتَأْمُرُونَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَتَنْسَوْنَ أَنْفُسَکُمْ وَأَنْتُمْ تَتْلُونَ الْکِتَابَ أَفَلَا تَعْقِلُونَ}

شانِنزول
قَوْلُہُ تَعَالَی:(أَتَأْمُرُونَ النَّاسَ بِالْبِرِّ) ہَذَا استفہام معناہ التَّوْبِیخِ وَالْمُرَادُ فِی قَوْلِ أَہْلِ التَّأْوِیلِ عُلَمَاء ُ الْیَہُودِ. قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ:کَانَ یَہُودُ الْمَدِینَۃِ یَقُولُ الرَّجُلُ مِنْہُمْ لِصِہْرِہِ وَلِذِی قَرَابَتِہِ وَلِمَنْ بَیْنَہُ وَبَیْنَہُ رَضَاعٌ مِنَ الْمُسْلِمِینَ اثْبُتْ عَلَی الَّذِی أَنْتَ عَلَیْہِ وَمَا یَأْمُرُکَ بِہِ ہَذَا الرَّجُلُ یُرِیدُونَ مُحَمَّدًا صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَإِنَّ أَمْرَہُ حَقٌّ فَکَانُوا یَأْمُرُونَ النَّاسَ بِذَلِکَ وَلَا یَفْعَلُونَہُ وَعَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَیْضًا:کَانَ الْأَحْبَارُ یَأْمُرُونَ مُقَلِّدِیہِمْ وَأَتْبَاعِہِمْ بِاتِّبَاعِ التَّوْرَاۃِ وَکَانُوا یُخَالِفُونَہَا فِی جَحْدِہِمْ صِفَۃَ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ. وَقَالَ ابْنُ جُرَیْجٍ کَانَ الْأَحْبَارُ یحضون فی طَاعَۃِ اللَّہِ وَکَانُوا ہُمْ یُوَاقِعُونَ الْمَعَاصِیَ وَقَالَتْ فِرْقَۃٌ کَانُوا یَحُضُّونَ عَلَی الصَّدَقَۃِ وَیَبْخَلُونَ وَالْمَعْنَی مُتَقَارِبٌ وَقَالَ بَعْضُ أَہْلِ الْإِشَارَاتِ الْمَعْنَی أَتُطَالِبُونَ النَّاسَ بِحَقَائِقِ الْمَعَانِی وَأَنْتُمْ تُخَالِفُونَ عَنْ ظَوَاہِرِ رُسُومِہَا۔
ترجمہ :امام ابوعبداللہ محمدبن احمدالقرطبی المتوفی : ۶۷۱ھ) رحمہ اللہ تعالی نقل فرماتے ہیں کہ اللہ تعالی کایہ فرمان شریف{أَتَأْمُرُونَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَتَنْسَوْنَ أَنْفُسَکُمْ وَأَنْتُمْ تَتْلُونَ الْکِتَابَ أَفَلَا تَعْقِلُونَ}یہ استفہام ہے ، اس کامعنی زجروتوبیخ ہے اوراہل تاویل کے نزدیک اس سے مراد علماء یہود ہیں ۔ حضرت سیدناعبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہمافرماتے ہیں کہ علماء یہود جب اپنے کسی سسرالی رشتہ داروں کے ہاں جاتے اوروہ مسلمان ہوتے یاپھرا ن کے کوئی اوررشتہ دار جواسلام قبول کرچکے ہوتے ان کو کہتے کہ تم اسی دین پر قائم رہوجس پر تم ہوکیونکہ جو کچھ محمدﷺفرماتے ہیں وہ سچ ہے ۔ کیونکہ ان کاامرحق ہے وہ ولوگوںکو اس کاحکم دیتے تھے اورخود رسول اللہ ﷺپر ایمان نہیں لاتے تھے ۔
حضرت سیدناعبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہمافرماتے ہیں کہ یہود کے علماء اپنے ماننے والوں کو اوراپنے پیروکاروں کو تورات کی پیروی کاحکم کرتے تھے اورجب بات رسول اللہ ﷺکے اوصاف شریفہ کی آتی جو توراۃ میں مذکورہیں توخودہی انکارکردیتے تھے ۔ ابن جریج رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ علماء یہود لوگوں کواللہ تعالی کی اطاعت پر ابھارتے تھے اورخود گناہوں کاارتکاب کیاکرتے تھے ۔ اورایک گروہ نے یہ بیان کیاہے کہ وہ لوگوں کو صدقہ دینے پر ابھارتے تھے مگرخود بخل سے کام لیتے تھے ۔ یادرہے یہ تمام معانی قریب قریب ہیں ۔ اوربعض اہل معانی نے بیان کیاہے کہ اس کامطلب یہ ہے کہ کیاتم لوگوں سے معانی کے حقائق کامطالبہ کرتے ہواورتم اس کے نقوش کے ظاہرکی مخالفت کرتے ہو۔
(تفسیر القرطبی: أبو عبد اللہ محمد بن أحمد شمس الدین القرطبی (۱:۳۶۵)
کیایہ خطاب عام نہیں ہے؟
وفی التیسیر یجوز صرف الخطاب الی المسلمین والی کل صنف منہم وبیانہ ایہا السلاطین لا تخلطوا العدل بالجور وایہا القضاۃ لا تخلطوا الحکم بالرشوۃ وکذا کل فریق فہذہ الآیۃ وان کانت خاصۃ ببنی إسرائیل فہی تتناول من فعل فعلہم فمن أخذ رشوۃ علی تغییر حق وابطالہ او امتنع من تعلیم ما وجب علیہ او أداء ما علمہ وقد تعین علیہ حتی یأخذ علیہ اجرا فقد دخل فی مقتضی الآیۃ ۔
ترجمہ :امام اسماعیل حقی الحنفی رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ التیسیرمیں ہے کہ یہ خطاب تمام مسلمانوں اوران کی ہر صنف کو ہے، گویایوں حکم ہواکہ اے شاہان ِ وقت ! عدل کروجہاں بھی ظلم ہو، اے قاضیانِ وقت حکم جاری کرتے ہوئے رشوت نہ لو، اسی طرح ہر ہر فریق کو سمجھاتے جائواوراگریہ خطاب صرف بنی اسرائیل کو ہے توحکم ا س کو بھی شامل ہوگاجو ان جیساعمل کرتے ہیں مثلاً جوحق کو بدل کریاحکم کو بدل کر لوگوں سے پیسے بٹورتے ہیںیاجوکچھ اس پر علم سکھاناواجب ہے پڑھانے سے رک جاتاہے یاعلم کے باوجود عمل نہیں کرتاسب پر یہی حکم جاری ہوگا۔
(روح البیان:إسماعیل حقی بن مصطفی الإستانبولی الحنفی الخلوتی المولی أبو الفداء (ا:۱۱۸)
ویسے تو روئے سخن علمائے یہود کی طرف ہے لیکن اس سے آیت کاکلی اور عمومی مفہوم محدود نہیں ہوتا اور یہ سب حقائق چھپانے والوں کے لئے عام ہے۔دوسرے لفظوں میں حق کو چھپانا ایسا عمل ہے جو حق کے تمام طرف داروں کے غم و غصے کو ابھارتا ہے کیونکہ اس سے بڑھ کر کیا خیانت ہوگی کہ علماء آیات خدا کو اپنے شخصی منافع کے لئے چھپائیں اور لوگوں کو گمراہ کریں جب کہ یہ ان کے پاس خدا کی امانت ہیں۔کتنے بڑے مجرم ہیں وہ علماء و مشائخ جو انسانوں کو ان کے رب کی طرف سے آئے ہوئے پیغام ہدایت سے محروم رکھیں !
آج قرآن کریم کی بعض آیات کریمہ کی جزوی تفصیلات کو بیان کر دیا جاتا ہے تاکہ لوگ انسانوں کے متعلق حقوق جان لیں ، یاپھرچندایک چیدہ چیدہ موضوعات جوسطحی ہوتے ہیں وہی بیان کئے جاتے ہیں اورعوام اوروہ لوگ جو علماء کرام کے ساتھ بیٹھتے ہیں یاپھرمشائخ یعنی پیران عظام کے ساتھ ہی ہوتے ہیں ان کوبھی عقائد کاعلم نہیں ہوتا۔ اگران کے ساتھ کوئی سیکولر یالبرل کسی مسئلہ پر بحث کرنے لگے تو خود کو امن پسند یاصوفی کہہ کر رخصت ہوجاتے ہیں ۔لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ آج کے دور میںسکول وکالج کے اسکالر کہلانے والے لوگوں نے عامۃ الناس کو کتاب اللہ سے دور کرکے ایسی کتابوں کا عادی بنادیاہے جن میں انگریزوں کے اقوال اوران کی تحریریں ہیں جو کفریات اورضلالتوں پر مشتمل ہوتی ہیں جو لوگوں کے عقائد کو خراب کرکے ان کو بے دین اورسیکولرولبرل بنانے کی طرف راغب کرتی ہیں۔اس مسئلہ پر وہ علماء ومشائخ کہلانے والے لوگ بھی خاموشی اختیارکئے ہوئے ہیں بلکہ ان کی اپنی اولادیں سیکولربننے لگی ہیں ۔ یہ ساری وجہ ہی یہی ہے کہ ہمارے علماء ومشائخ نے لبرل ازم اورسیکولرازم کے فساداوران کے فتنے کی طرف توجہ ہی نہیں کی ۔
کیسی بدنصیبی کی بات ہے کہ یہ کلمہ گو امت بھی اس مرض میں مبتلا ہو کر رہ گئی ہے ۔دراصل کتمان حق ہی قوموں کے بگاڑ و زوال کا خاص سبب ہوتا ہے ، چنانچہ کتمان حق کرنے والوں کی یہاں شدید مذمّت کی گئی ہے ۔ اللہ تعالی نے اپنی کتاب میں جو کچھ لوگوں کی ہدایت کے لئے نازل فرمایا اس پر انہوں نے کتمان کا پردہ ڈال دیا اورپھر دینِ حق پر اپنا گھڑا ہوا دین مسلط کردیا۔ لوگوں کو گمراہ کرنے والے اللہ کے راستے کے یہ رہزن اور بنی نوع انسان کے دشمن اللہ کی لعنت اور تمام لعنت کرنے والوں کی لعنت و پھٹکار کے مستحق ہیں۔
وہ بات جو قدیم زمانے سے بہت مفاسد اور حق کشی کا باعث بنتی آرہی ہے اور جس کے مہلک اثرات آج تک جاری و ساری ہیں وہ ہے حق کو چھپانا۔ زیر بحث آیت اگر یہود ونصاری کے متعلق نازل ہوئی اور اس میں بھی شک نہیں کہ اس کا مفہوم ان سب پر محیط ہے جو ایسا کوئی بھی کردار ادا کرتے ہیں۔
انسان فطری طور پر حق کو چاہتاہے اور جو حق کو چھپاتے ہیں وہ در حقیقت انسانی معاشرے کو فطری کمال تک پہنچنے سے بازرکھتے ہیں۔ ظہور اسلام کے وقت اور اس کے بعد اگر علمائِ یہود و نصاری دونوں عہدوں (تورات، انجیل اور دیگر کتب مقدسہ)کی بشارتوں کو اظہار حقیقت کے طور پر افشاء کردیتے اور اس سلسلے میں وہ جو کچھ جانتے تھے لوگوں تک پہنچادیتے تو ہوسکتا تھا کہ تھوڑی سی مدت میں تینوںملتیں ایک ہی پرچم تلے جمع ہوجاتیں اور اس وحدت کی برکات حاصل کرتیں اوریہی کام آج ہمارے دورکے اکثرعلماء ومشائخ کررہے ہیں ،
وہ حق کو چھپاتے ہیںاور انہی کی وجہ سے ملت اختلاف کا شکار ہوتی ہے اور اس میں شگاف پڑجاتے ہیں ۔ آج تک ہم اسی عمل بد کے نتیجے میں مصیبتوں میں مبتلا ہیں۔ یقینا حق پوشی صرف اسی کا نام نہیں کہ آیات الہی اور علامات نبوت کو چھپایاجائے بلکہ اس سے مراد ہر وہ چیز چھپانا ہے جس سے لوگ حقیقت و واقعیت تک پہنچ سکتے ہیں۔ لہذا اس کا مفہوم وسیع ہے۔یہاں تک کہ کبھی وہاں بھی حق پوشی کا اطلاق ہوتاہے جہاں بات کرنے کی ضرورت ہو اور خاموش رہاجائے۔ یہ اس مقام کے لئے ہے جہاں لوگوں کو سخت ضرورت ہو کہ انہیں حقیقت حال سے با خبر کیاجائے اور علماء اور دانشور اس یقینی ضرورت کو پورا کرسکتے ہوں۔
آج کاسب سے بڑامسئلہ ناموس رسالت ﷺاوردین کے دفاع کاہے کیونکہ لبرل وسیکولر طبقہ بہت زیادہ زورپکڑتاجارہاہے اوردینی احکامات پر طرح طرح کے اعتراضات کرتاہے اوران کاسرے سے انکارکردیتاہے اوراسی طرح رسول اللہ ﷺکی عزت وناموس کے مسئلہ کو کوئی اہمیت نہیں دیتا۔ اس کی وجہ بھی ہمارے دورکے مصلحت پسند علماء ہی ہیں یاپھروہ جو خود مذہبی اسکالرکہلاتے ہیں اوران کے پاس بیرونی فنڈ آتاہے وہ اس مسئلہ کے خلاف ہمہ وقت بولتے نظرآتے ہیں ۔ کیاان کو نہیں معلوم کہ اللہ تعالی نے رسول اللہ ﷺکی عزت وناموس کامسئلہ کس اہمیت کے ساتھ بیان فرمایاہے اورخود رسول اللہ ﷺنے اپنے گستاخوں کے قتل کے فیصلے فرمائے ہیں۔ آخریہ دین حق کو چھپاکر کس کی ترجمانی کررہے ہیں اورکیوں یہ خود کو یہودونصاری کاجانشین بنانے کے چکر میں ہیں۔
موجود ہ دور کے علماء کی دین فروشی اورالحادپرستی کازور
آج جو صورتحال ہے یہ کوئی نئی نہیں ہے بلکہ یہ سلسلہ بہت لمبے عرصے سے چل رہاہے، ہر زمانہ میں گرگٹ کی طرح یہ زندقہ والحاد رنگ اورحلیہ بدلتارہاہے ۔ خلافت عباسیہ کے دور میں معتزلہ علماء نے قصر امارت پر قبضہ جماکر اہل حق علماء کرام کے ساتھ وہ وہ ظلم روارکھے جنہیں سن کر برداشت نہیں ہوتی ، بے وقوف خلیفہ کے فرمان پر امام اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ اورامام احمدبن حنبل رضی اللہ عنہ اوردیگرعلماء اہل سنت پر بے تحاشہ کوڑے برسائے گئے اورسینکڑوں اہل حق علماء محدثین اورفقہاء کرام کو شہید کردیاگیااورہزاروں کی تعداد میں علماء کو جیل میں بندکردیاگیا۔ ان سب مظالم کے پیچھے علماء سو اوردرباری ملائوں کے فتوے ہوتے تھے جوکہ باقاعدہ صبح وشام قصر خلافت میں تین تین سوکے قریب براجمان ہوتے تھے اورخلیفہ وقت کو غیراسلامی عقائد پڑھاکر قرآن وسنت کے خلاف کرنے میں مصروف رہتے تھے، پھراسی گروہ بدکے ذلیل افراد نے جلال الدین اکبرکو ملحدبناکر دعوی نبوت پر مجبورکردیا۔
انہیں لوگوں کی وجہ سے حضرت سیدناامام ربانی مجددالف ثانی رحمہ اللہ تعالی جیل میں ڈالے گئے۔پھرانگریز یہاں آیاتواس نے مزید الحاد پرست ملائوں کو تیارکیاتواس کے نتیجے میں سرسید احمدخان جیساملحد اوربے دین پیداہوااور اس کے ساتھ ہندکاسب سے بڑافتنہ اوردجال اکبرفی الہندمرزاغلام قادیانی اوران دو کے علاوہ بہت سے گستاخ پیداہوئے جو رسول اللہ ﷺکی عظمت وشان لوگوں کے دلوں سے نکالنے والے تھے ۔
اورآج پھرایسے ہی دین فروش ملائوں کی خاموشی کی وجہ سے بہت سے ملحد اوربے دین قسم کے لوگ پیداہوچکے ہیں جن کی زبان بندکرنے والاکوئی نظرنہیں آتااورانہیں لبر ل اوربے دین لوگوں کی وجہ سے اہل حق کو مشکلات کاسامناہے اورآج پھرمعتزلہ کی طرح بے دین لوگ حکمرانوں کی کاسہ لیسی کرکے اہل حق کے خلاف ہمہ وقت اپنی دسیسہ کاریوں میں مصروف ہیں۔
اورپھرانہیں کی وجہ سے امیرالمجاہدین حضرت اقدس مولاناحافظ خادم حسین رضوی حفظہ اللہ تعالی کو جیل میں بندکردیاگیا اوروہ چھے ماہ کے طویل عرصہ تک حالت معذوری میں جیل میں رہے اوراسی طرح اہل سنت وجماعت کے دوعظیم علماء اورشیوخ الحدیث شہید ہوگئے ۔

Leave a Reply

%d bloggers like this: