حضرت سیدناآدم علیہ السلام کاجنت سے زمین پر تشریف لانا تفسیر سورہ بقرہ آیت ۳۵۔۳۶
وَقُلْنَا یٰٓاٰدَمُ اسْکُنْ اَنْتَ وَزَوْجُکَ الْجَنَّۃَ وَکُلَا مِنْہَا رَغَدًا حَیْثُ شِئْتُمَا وَلَا تَقْرَبَا ہٰذِہِ الشَّجَرَۃَ فَتَکُوْنَا مِنَ الظّٰلِمِیْنَ}(۳۵){ فَاَزَلَّہُمَا الشَّیْطٰنُ عَنْہَاتفسیر فَاَخْرَجَہُمَا مِمَّا کَانَا فِیْہِ وَقُلْنَا اہْبِطُوْا بَعْضُکُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ وَلَکُمْ فِی الْاَرْضِ مُسْتَقَرٌّ وَّمَتٰعٌ اِلٰی حِیْنٍ}(۳۶){فَتَلَقّٰٓی اٰدَمُ مِنْ رَّبِّہٖ کَلِمٰتٍ فَتَابَ عَلَیْہِ اِنَّہ ہُوَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ}(۳۷)
ترجمہ کنزالایمان:اور ہم نے فرمایا اے آدم تو اور تیری بی بی اس جنت میں رہو اور کھاؤ اس میں سے بے روک ٹوک جہاں تمہارا جی چاہے مگر اس پیڑ کے پاس نہ جانا کہ حد سے بڑھنے والوں میں ہوجاؤ گے ۔تو شیطان نے جنت سے انہیں لغزش دی اور جہاں رہتے تھے وہاں سے انہیں الگ کردیا اور ہم نے فرمایا نیچے اترو آپس میں ایک تمہارا دوسرے کا دشمن ہو گا اور تمہیں ایک وقت تک زمین میں ٹھہرنا اور برتنا ہے ۔پھر سیکھ لئے آدم نے اپنے رب سے کچھ کلمے تو اللہ نے اس کی توبہ قبول کی بیشک وہی ہے بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان ۔
ترجمہ ضیاء الایمان : اورہم نے فرمایا: اے آدم (علیہ السلام) تواورتیری زوجہ اس جنت میں رہو اورکھائواس میں سے بغیرکسی روک ٹوک کے جہاں سے تمھارادل چاہے ۔مگر اس درخت کے قریب نہ جاناوگرنہ حدسے بڑھنے والوں میں سے ہوجائوگے ۔ توشیطان نے جنت سے انہیں لغزش دی اورجہاں یہ رہتے تھے وہاں سے ان کو الگ کردیا اورہم نے ان کو فرمایا: تم سب نیچے اترواورتم آپس میں ایک دوسرے کے دشمن ہو۔اورتم نے دنیامیں ایک مدت تک رہناہے اوروہاں تم نے برتناہے ۔
وہ درخت کس چیز کاتھا؟
قَالَ الْإِمَامُ الْعَلَّامَۃُ أَبُو جَعْفَرِ بْنُ جَرِیرٍ، رَحِمَہُ اللَّہُ وَالصَّوَابُ فِی ذَلِکَ أَنْ یُقَالَ:إِنَّ اللَّہَ جَلَّ ثَنَاؤُہُ نَہَی آدَمَ وَزَوْجَتَہُ عَنْ أَکْلِ شَجَرَۃٍ بِعَیْنِہَا مِنْ أَشْجَارِ الْجَنَّۃِ، دُونَ سَائِرِ أَشْجَارِہَا ، فَأَکَلًا مِنْہَا، وَلَا عِلْمَ عِنْدِنَا بِأَیِّ شَجَرَۃٍ کَانَتْ عَلَی التَّعْیِینِ؟ لِأَنَّ اللَّہَ لَمْ یَضَعْ لِعِبَادِہِ دَلِیلًا عَلَی ذَلِکَ فِی الْقُرْآنِ وَلَا مِنَ السُّنَّۃِ الصَّحِیحَۃِ. وَقَدْ قِیلَ:کَانَتْ شَجَرَۃَ الْبُرِّوَقِیلَ: کَانَتْ شَجَرَۃَ الْعِنَبِ، وَقِیلَ: کَانَتْ شَجَرَۃَ التِّینِ. وَجَائِزٌ أَنْ تَکُونَ وَاحِدَۃً مِنْہَا، وَذَلِکَ عِلْمٌ، إِذَا عُلِمَ یَنْفَعُ العالمَ بِہِ علمُہ، وَإِنْ جَہِلَہُ جاہلٌ لَمْ یضرَّہ جَہْلُہُ بِہِ، وَاللَّہُ أَعْلَمُ. (وَکَذَلِکَ رَجَّحَ الْإِمَامُ فَخْرُ الدِّینِ الرَّازِیُّ فِی تفسیرہ وغیرہ، وہو الصواب۔
ترجمہ :حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ تعالی لکھتے ہیںکہ حضرت سیدناامام العلامہ ابوجعفرابن جریررحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ کوئی ایک درخت تھاجس سے اللہ تعالی نے منع فرمایاتھا، اب اس درخت کی تعیین نہ توقرآن کریم میں ہے اورنہ ہی صحیح حدیث شریف میں۔ مفسرین کرام کابھی اس میں اختلاف ہے کہ اوراس کے معلوم کرنے میں کوئی فائدہ اورنہ معلوم کرنے میں کوئی نقصان نہیں ہے ۔لھذااس کی جستجوکی کیاضرورت ہے ، اللہ تعالی کو ہی اس کابہترعلم ہے ۔ امام فخرالدین الرازی رحمہ اللہ تعالی نے بھی یہی فیصلہ کیاہے اورٹھیک بھی یہی معلوم ہوتاہے ۔(اس سے معلوم ہواکہ اس بحث میں نہیں پڑناچاہئے کیونکہ اس میں کوئی فائدہ نہیں ہے )
(تفسیر القرآن العظیم:أبو الفداء إسماعیل بن عمر بن کثیر القرشی البصری ثم الدمشقی (۱:۲۳۵)
تاجدارختم نبوت کے نعرے
عَنْ عَطَاء ٍ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ، قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہ عَلَیْہِ سَلَّمَ:نَزَلَ آدَمُ بِالْہِنْدِ فَاسْتَوْحَشَ، فَنَزَلَ جِبْرِیلُ فَنَادَی بِالْأَذَانِ: اللہُ أَکْبَرُ، اللہُ أَکْبَرُ، أَشْہَدُ أَنْ لَا إِلَہَ إِلَّا اللہُ، أَشْہَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللہِ، فَقَالَ لَہُ: وَمَنْ مُحَمَّدٌ ہَذَا؟ فَقَالَ: ہَذَا آخِرُ وَلَدِکَ مِنَ الْأَنْبِیَاء ِ ۔
ترجمہ:حضرت سیدناابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: جب حضرت سیدناآدم علیہ السلام ہندکی زمین پر اترے توآپ کو گھبراہٹ ہوئی ،توحضرت سیدناجبریل امین علیہ السلا م نے زمین پر آکر اذان دی {: اللہُ أَکْبَرُ، اللہُ أَکْبَرُ، أَشْہَدُ أَنْ لَا إِلَہَ إِلَّا اللہُ، أَشْہَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللہِ}پڑھاتو حضرت سیدناآدم علیہ السلام نے پوچھاکہ یہ محمد(ﷺ) کون ہیں؟ حضرت سیدناجبریل امین علیہ السلام نے عرض کی : یہ آپ کی اولاد میں سے ہیں اورخاتم النبیین ہیں۔
(حلیۃ الأولیاء وطبقات الأصفیاء : أبو نعیم أحمد بن عبد اللہ الأصبہانی (۵:۱۰۷)
اس سے ثابت ہواکہ جیسے ہی آدم علیہ السلام دنیامیں تشریف لائے اورآپ ﷺکی خلافت کااعلان ہواتو ساتھ رسول اللہ ﷺکی ختم نبوت کابھی اعلان کردیاگیا۔
حضرت سیدناآدم علیہ السلام کے جنت سے زمین پر آنے کی حکمت
(۱)حضرت سیدناآدم علیہ السلام کازمین پر تشریف لانا
یَا آدَمُ، کُنْتَ تَدْخُلُ عَلَیَّ دُخُولَ الْمُلُوکِ عَلَی الْمُلُوکِ، وَالْیَوْمَ تَدْخُلُ عَلَیَّ دُخُولَ الْعَبِیدِ عَلَی الْمُلُوکِ. یَا آدَمُ، إِذَا عَصَمْتُکَ وَعَصَمْتُ بَنِیکَ مِنَ الذُّنُوبِ، فَعَلَی مَنْ أَجُودُ بِحِلْمِی؟ وَعَلَی مَنْ أَجُودُ بِعَفْوِی وَمَغْفِرَتِی، وَتَوْبَتِی، وَأَنَا التَّوَّابُ الرَّحِیمُ.یاآدَمُ، لَا تَجْزَعْ مِنْ قَوْلِی لَکَ (اخْرُجْ مِنْہَا) (الأعراف:۱۸)فَلَکَ خَلَقْتُہَا، وَلَکِنِ اہْبِطْ إِلَی دَارِ الْمُجَاہَدَۃِ، وَابْذُرْ بِذْرَ التَّقْوَی، وَأَمْطِرْ عَلَیْکَ سَحَائِبَ الْجُفُونِ، فَإِذَا اشْتَدَّ الْحُبُّ وَاسْتَغْلَظَ، وَاسْتَوَی عَلَی سُوقِہِ، فَتَعَالَ فَاحْصُدْہُ.آدَمُ، مَا أَہْبَطْتُکَ مِنَ الْجَنَّۃِ إِلَّا لِتَتَوَسَّلَ إِلَیَّ فِی الصُّعُودِ، وَمَا أَخْرَجْتُکَ مِنْہَا نَفْیًا لَکَ عَنْہَا، مَا أَخْرَجْتُکَ مِنْہَا إِلَّا لِتَعُودَ.
إِنْ جَرَی بَیْنَنَا وَبَیْنَکَ عَتْبٌ … وَتَنَاء َتْ مِنَّا وَمِنْکَ الدِّیَارُ
فَالْوِدَادُ الَّذِی عَہِدْتَ مُقِیمٌ … وَالْعَثَارُ الَّذِی أَصَبْتَ جُبَارُ
ترجمہ :حافظ ابن قیم الجوزیہ المتوفی : ۷۵۱ھ) حضرت سیدناآدم علیہ السلام کے زمین پر تشریف لانے کے اسرار بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اے آدم (علیہ السلام) میں نے تجھ کو گناہ میں مبتلاء کیااس لئے کہ میں یہ چاہتاہوں کہ اپنے فضل وجودوکرم کو گناہگاروں پر ظاہرکروں ۔ حدیث شریف میں ہے کہ اگرتم گناہ نہ کرتے تواللہ تعالی تم کو فناکردیتااورایسی قوم پیداکرتاجو گناہ کرکے اللہ تعالی سے مغفرت طلب کرتی اوراس کی بارگاہ میں معافی کی خواستگارہوتی ۔ اے آدم اگرتیری ساری اولاد کو معصوم بنادوں تواپناحلم اورعفووکرم اورمغفرت ومعافی کس پر ظاہرکروں ، حالانکہ میں تورحیم ہوں ۔ پس ضرورہے گناہگارموجودہوں تاکہ میں ان کی توبہ قبول کروں اوران پر رحم وکرم کروں ۔ اے آدم ! (علیہ السلام) میرے {اخْرُجْ مِنْہَا}کہنے پر گھبرائومت ، اس لئے کہ جنت کو میں نے تیرے لئے ہی پیداکیاہے لیکن اس وقت تم مجاہدہ اورریاضت کے لئے زمین پر اتروجوتمھارے لئے بمنزلہ خانقاہ یاغارکے ہے اورزمین آسمان کے اعتبارسے بمنزلہ غارہی ہے ۔ اوریہاں آکرتقوی کے تخم کی کاشت کرواورچشم گریاں کی بارش سے اس کو سیراب کرو۔ جب دانہ قوی اورمضبوط ہوجائے اوراپنے تنے پر کھڑاہوجائے تواس کو کاٹ لو ۔ اے آدم ! تجھ کو اس لئے جنت سے اتاراتاکہ تیرے درجات اورمدارج بلندہوں اورجنت سے چندروز کے لئے اس لئے نکالاتاکہ اس سے بہترحالت میں جنت کی طرف لوٹ کر آئو۔
اوراگرہمارے اورتیرے درمیان کوئی رنجش پیش آگئی ہے اورہمارے اورتیرے درمیان میں منزلوں کافاصلہ ہوگیاہے توکوئی پریشانی کی بات نہیں ہے اس لئے کہ محبت ومودت کاتعلق اسی طرح باقی ہے اورجو لغزش تم سے ہوگئی ہے اس کاتدارک ہوسکتاہے ۔
(مدارج السالکین :محمد بن أبی بکر بن أیوب بن سعد شمس الدین ابن قیم الجوزیۃ (۱:۳۶۰)
(۲)محبوب ہی اگر۔۔۔۔
إِبْرَاہِیمَ بْنَ شَیْبَانَ یَقُولُ:سَمِعْتُ أَبَا عَبْدِ اللہِ الْمَغْرِبِیَّ یَقُولُ:تَفَکَّرَ إِبْرَاہِیمُ عَلَیْہِ السَّلَامُ لَیْلَۃً مِنَ اللَّیَالِی فِی شَأْنِ آدَمَ عَلَیْہِ السَّلَامُ قَالَ:یَا رَبِّ خَلَقْتَہُ وَنَفَخْتَ فِیہِ مِنْ رُوحِکِ، وَأَسْجَدْتَ لَہُ مَلَائِکَتَکَ، ثُمَّ بِذَنْبٍ وَاحِدٍ مَلَأْتَ أَفْوَاہَ النَّاسِ حَتَّی یَقُولُوا:(وَعَصَی آدَمُ رَبَّہُ فَغَوَی)(طہ: ۱۲۱)قَالَ: فَأَوْحَی اللہُ أَنْ یَا إِبْرَاہِیمُ أَمَا عَلِمْتَ أَنَّ مُخَالَفَۃَ الْحَبِیبِ عَلَی الْحَبِیبِ شَدِیدَۃٌ ۔
ترجمہ :حضرت سیدناابوعبداللہ المغربی رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ حضرت سیدناابراہیم علیہ السلام نے ایک دفعہ پوری رات حضرت سیدناآدم علیہ السلام کے متعلق غوروفکرکیااوراللہ تعالی کی بارگاہ میں عرض کرنے لگے :یااللہ ! تونے خود ہی حضرت سیدناآدم علیہ السلام کو پیدافرمایااوراپنی طرف سے اس میں روح پھونکی اورتونے خود ان کو فرشتوں سے سجدہ کروایا، پھرتونے صرف ایک بھول کی وجہ سے لوگوں کے منہ ان سے پھیردئیے یہاں تک کہ یہ فرمایا:{ وَعَصٰٓی اٰدَمُ رَبَّہ فَغَوٰی }اور آدم سے اپنے رب کے حکم میں لغزش واقع ہوئی تو جو مطلب چاہا تھا اس کی راہ نہ پائی ۔
اللہ تعالی نے فرمایا: اے ابراہیم علیہ السلام! کیاآپ کو معلوم نہیں ہے کہ محبوب کی مخالفت محبوب کے خلاف شدیدہوتی ہے اورسخت ہوتی ہے۔
(شعب الإیمان:أحمد بن الحسین بن علی بن موسی الخُسْرَوْجِردی الخراسانی، أبو بکر البیہقی (۲:۴۱)
اس حدیث شریف سے بھی پتہ چلتاہے کہ وہ سزانہ تھی بلکہ ایک محبت بھراعتاب تھاجو اللہ تعالی نے اپنے پیارے محبوب حضرت سیدناآدم علیہ السلام پر نازل فرمایا۔
(۳) نااہل لوگوں کو ۔۔۔۔
حضرت سیدناآدم علیہ السلام کی پشت مبارکہ میں وہ لوگ بھی تھے جو جنت میں رہنے کے اہل نہ تھے اورحضرت سیدناآدم علیہ السلام کی پشت مبارکہ سفینہ کے قائم مقام تھی کہ جس میں نیک وبدمومن وکافرہر طرح کے لوگ تھے ، اس لئے دنیامیں اترنے کاحکم دیاتاکہ خبیث کوطیب سے اورشقی کو سعید سے مومن کو کافرسے جدااورالگ کردیاجائے اورخبیث دارالخبیث میں اورطیب دارالطیب میں جاکررہیں
(۴) بدبختوں کے ساتھ جہاد ۔۔۔
یہ بھی وجہ ہوسکتی ہے کہ شقی وبدبخت لوگوں کے مقابلے میں انبیاء کرام علیہم السلام اورنیک لوگوں کاسلسلہ جاری ہواوردوستوں کادشمنوں کے ذریعے امتحان ہواوراللہ تعالی کے مخلص بندے اس کی راہ میں مال خرچ کریں اوراللہ تعالی کے دشمنوں کے خلاف جہاد کاعلم بلندکریں ۔
(۵) مزید اسرارجو۔۔۔
نبوت ورسالت ، امامت وخلافت علی شہادۃ فی سبیل اللہ اورالحب فی اللہ والبغض فی اللہ اوراس کے دشمنوں سے نفرت اوربیزاری یہ تمام فضائل وکمالات زمین پر اترنے کے سبب ہی ہیں ۔
(۶) ارباب معانی کاقول
وَقَالَ بَعْضُ أَرْبَابِ الْمَعَانِی قَوْلُہُ:’’وَلا تَقْرَبا‘‘ إِشْعَارٌ بِالْوُقُوعِ فِی الْخَطِیئَۃِ وَالْخُرُوجِ مِنَ الْجَنَّۃِ، وَأَنَّ سُکْنَاہُ فِیہَا لَا یَدُومُ، لِأَنَّ الْمُخَلَّدَ لَا یَحْظُرُ عَلَیْہِ شی وَلَا یُؤْمَرُ وَلَا یُنْہَی وَالدَّلِیلُ عَلَی ہَذَا قَوْلُہُ تَعَالَی’’إِنِّی جاعِلٌ فِی الْأَرْضِ خَلِیفَۃً‘‘(البقرۃ:۳۰)فَدَلَّ عَلَی خُرُوجِہِ مِنْہَا.
ترجمہ :امام ابوعبداللہ محمدبن احمدالقرطبی المتوفی : ۶۷۱ھ)رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ ارباب معرفت کامسلک یہ ہے کہ {وَلا تَقْرَبا}سے اشارہ ہورہاہے کہ حضرت سیدناآدم علیہ السلام سے اس امر کاوقوع ضرورہوگااوروہ بہشت سے ضرورنکال دیئے جائیں گے اوراس میں ہمیشہ نہیں رہیں گے کیونکہ جو اس میں ہمیشہ قیام پذیرہوااس پر امر ونہی کاسوال ہی پیدانہیں ہوتا، اس پر اللہ تعالی کایہ فرمان دلیل ہے کہ {إِنِّی جاعِلٌ فِی الْأَرْضِ خَلِیفَۃً}خلافت کاوقوع زمین پرہی ہوناہے اس لئے انہیں جنت سے زمین پر تشریف لاناپڑا۔
(تفسیر القرطبی:أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن أبی بکر بن فرح الأنصاری الخزرجی شمس الدین القرطبی(۱:۳۰۴)
(۷)حضرت سیدنانجم الدین رحمہ اللہ تعالی کاقول
قال الشیخ نجم الدین قدس سرہ ان آدم خاطبہ مولاہ خطاب الابتلاء والامتحان والنہی نہی تعزز ودلال کأنہ قال یا آدم ابحت لک الجنۃ وما فیہا الا ہذہ الشجرۃ فانہا شجرۃ المحبۃ والمعرفۃ والمحبۃ مطیۃ المحنۃ وأن منعہ منہا کان تحریضا علی تناولہا فان الإنسان حریص علی ما منع فسکنت نفس آدم الی حواء والی الجنۃ وما فیہا الا الی الشجرۃ المنہی عنہا لانہا کانت مشتہی القلب وکان للنفس فیہا حظ ولا یزال یزداد توقانہ إلیہا فیقصدہا حتی تناول منہا فظہر سر الخلافۃ والمحبۃ والمحنۃ والتحقق بمظاہر الجمال والجلال کالتواب والغفور والعفو والقہار والستار والحاصل انہ لما علم اللہ تعالی انہ یأکل من الشجرۃ نہاہ لیکون أکلہ عصیانا یوجب توبۃ ومحبۃ وطہارۃ من تلوث الذنب کما قال تعالی إِنَّ اللَّہَ یُحِبُّ التَّوَّابِینَ وَیُحِبُّ الْمُتَطَہِّرِینَ فاورثہ ذلک النہی عن أکل الشجرۃ عصیانا بسبب النسیان ثم توبۃ بسبب العصیان ثم محبۃ بسبب التوبۃ ثم طہارۃ بسبب المحبۃ کما ورد فی الخبر (إذا أحب اللہ عبدا لم یضرہ الذنب)ای حفظہ من الذنب وإذا وقع فیہ وفقہ للتوبۃ والندامۃ وکل زلۃ عاقبتہا التوبۃ والتشریف والاجتباء فقیل ہی زلۃ تنزیہ واستحقاق آدم اللوم بالنہی التنزیہی من قبیل حسنات الأبرار سیآت المقربین۔
ترجمہ :حضرت سیدنانجم الدین رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ اللہ تعالی نے حضرت سیدناآدم علیہ السلام کو آزمائشی خطاب سے مخاطب کیااورعشوہ وناز کی نہی سے نوازا۔ گویایوں فرمایاکہ اے آدم ! میں تجھے شجرہ کے سواساری جنت عطاکرتاہوں ، یہ درخت چونکہ محبت ومعرفت کاہے اورمحبت کے لئے محنت کی سواری ضروری ہے ۔
اس کے بعد فرماتے ہیں کہ اللہ تعالی کااس شجرہ سے منع فرماناالٹااس کے کھانے کی تحریض تھی کیونکہ انسان کو جس فعل سے منع کیاجائے اس کے ارتکاب پر وہ حرص رکھتاہے ۔ حضرت سیدناآدم علیہ السلام کادل حضرت سیدتناحوارضی اللہ عنہاسے بہت سکون وقرارپذیرہوا، لیکن شجرہ معرفت کاشوق دل میں جاگزین رہا، کیونکہ یہ قلب کی غذاتھااوراس میں من وجہ نفس کاحظ بھی تھا، اس بناء پر اس کاشوق بڑھتارہااوراس کے خیال میں رہایہاں تک کہ اسے چندروز میں حاصل کرلیا، اس سے خلافت ، محبت ،محنت ، رازکھلا، مظاہرجلال وجمال ، جیسے تواب ، غفور، رحیم ،قہار، ستار ظہورپذیرہوئے مختصر یہ کہ اللہ تعالی کے علم میں تھاکہ حضرت سیدناآدم علیہ السلام اس شجرہ کو ضرورکھائیں گے ، اس پر انہیں اس سے روک دیاگیاتاکہ ان کاکھاناعصیان کاذریعہ بن جائے ، جس سے توبہ ، محبت ، طہارت ازتلوث ذنوب ظاہرہوں گے جیساکہ اللہ تعالی نے فرمایا: {إِنَّ اللَّہَ یُحِبُّ التَّوَّابِینَ وَیُحِبُّ الْمُتَطَہِّرِین}اوراکل شجرہ سے بسبب نسیان عصیان میں متبلاء ہوئے ، پھرتوبہ عصیان کے ذریعہ وراثت میں دی گئی ، پھرتوبہ سے محبت نصیب ہوئی محبت سے طہارت کاشرف ملا۔ جیساکہ رسول اللہ ﷺکافرمان عالی شان ہے کہ جب اللہ تعالی کسی بندہ سے محبت فرماتاہے تواس کوگناہوں سے محفوظ رکھتاہے اگراس سے گناہ ہوبھی جائے تو اس کو توبہ وندامت کی توفیق عطافرماتاہے ۔ اوریہی وہ لغزش ہے کہ جس کاانجام توبہ ، تشریف ، اجتباء ہوااسے زلۃ تنزیہیہ کہتے ہیں ، حضرت سیدناآد م علیہ السلام کو نہی کے بعد ملامت کی گئی یہ نہی تنزیہی اورحسنات الابرابر سیئات المقربین کے قبیل سے ہے۔
(روح البیان:إسماعیل حقی بن مصطفی الإستانبولی الحنفی الخلوتی المولی أبو الفداء (۱:۱۰۸)
(۸) امام اسماعیل حقی بن مصطفی رحمۃ اللہ تعالی علیہ کاقول
وقد قدر اللہ تعالی ان یخرج من صلبہ سید المرسلین صلی اللہ تعالی علیہ وسلم وإخوانہ من الأنبیاء والأولیاء والمؤمنین وخمر طینتہ بتراب کل مؤمن وعدو فاخرجہ الی الدنیا لیخرج من ظہرہ الذین لا نصیب لہم فی الجنۃ ۔
ترجمہ :اللہ تعالی نے حضرت سیدناآدم علیہ السلام کی پشت میں یہ مقدرفرمادیاتھاکہ سیدالانبیاء تاجدارختم نبوت ﷺاوردوسرے انبیاء کرام علیہم السلام اوراولیاء کرام اورتمام مومنین پیداہو ںگے اورپھران کی مٹی کے ساتھ ہرمومن وکافرکاخمیر تیارہوا، انہیں زمین پر بھیجاتاکہ ان سے وہ خارج ہوجائیں جنہیں جنت میں داخل نہیں ہونا۔
(روح البیان:إسماعیل حقی بن مصطفی الإستانبولی الحنفی الخلوتی المولی أبو الفداء (۱:۱۰۸)
(۹) شیخ بافتادہ آفندی رحمہ اللہ تعالی کاقول
وقال مرجع طریقتنا الجلوتیۃ الشیخ الشہیر بافتادہ افندی سر خروج آدم من الجنۃ انہ رأی مرتبۃ من مراتب التوحید أعلی من مرتبتہ التی ہو فیہا فسألہا من اللہ تعالی فقیل لہ لاتصل إلیہا الا بالبکاء فاحب آدم ان یبکی فقیل ان الجنۃ لیست موضع البکاء بل ہی موضع السرور فطلب ان ینزل الی الدنیا فکون ما صدر عنہ ذنبا بالنسبۃ الیہ باعتبار قصور مرتبتہ عن المرتبۃ المطلوبۃ علی نہج حسنات الأبرار سیآت المقربین کذا فی واقعات الہدائی۔
ترجمہ :سلسلہ جلوتیہ کے مرجع طریقت شیخ بافتادہ رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ حضرت سیدناآدم علیہ السلام کادنیامیں تشریف لانے کاراز یہ ہے کہ جس مرتبہ میں تھے اس سے توحیدی مرتبہ کاشان بلندپایا، اللہ تعالی کی بارگاہ میں عرض کی : یااللہ ! یہی مرتبہ عطافرمادے۔ تواللہ تعالی نے فرمایا: یہ مرتبہ آہ فغاں سے ملے گا۔ آپ علیہ السلام نے عرض کی : مجھے رونابھی منظورہے ، اللہ تعالی نے فرمایا: جنت رونے کامقام نہیں ہے تومجھے دنیامیں بھیج دے ، ان سے اس مرتبہ اعلی کی وجہ سے بطریق حساب الابرارسیئات المقربین فعل سرزدہواجس سے دنیامیں تشریف لائے ۔
(روح البیان:إسماعیل حقی بن مصطفی الإستانبولی الحنفی الخلوتی المولی أبو الفداء (۱:۱۰۸)
(۱۰)امام ابوعبداللہ القرطبی المتوفی : ۶۷۱ھ) رحمہ اللہ تعالی کاقول
وَالصَّحِیحُ فِی إِہْبَاطِہِ وَسُکْنَاہُ فِی الْأَرْضِ مَا قَدْ ظَہَرَ مِنَ الْحِکْمَۃِ الْأَزَلِیَّۃِ فِی ذَلِکَ وَہِیَ نَشْرُ نَسْلِہِ فِیہَا لِیُکَلِّفَہُمْ وَیَمْتَحِنَہُمْ وَیُرَتِّبَ عَلَی ذَلِکَ ثَوَابَہُمْ وَعِقَابَہُمُ الْأُخْرَوِیَّ إِذِ الْجَنَّۃُ وَالنَّارُ لَیْسَتَا بِدَارِ تَکْلِیفٍ فَکَانَتْ تِلْکَ الْأَکْلَۃُ سَبَبَ إِہْبَاطِہِ مِنَ الْجَنَّۃِ وَلِلَّہِ أَنْ یَفْعَلَ مَا یَشَاء ُوَقَدْ قَالَ إِنِّی جاعِلٌ فِی الْأَرْضِ خَلِیفَۃً وَہَذِہِ مَنْقَبَۃٌ عَظِیمَۃٌ وَفَضِیلَۃٌ کَرِیمَۃٌ شَرِیفَۃ۔
ترجمہ :امام ابوعبداللہ محمدبن احمدالقرطبی المتوفی : ۶۷۱ھ)رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیںصحیح یہ ہے کہ حضرت سیدناآدم علیہ السلام کے زمین پر اترنے اورپھراس پرقیام کرنے میں حکمت ازلیہ کاتقاضایہ تھاکہ آپ علیہ السلام کی اولاد زمین پر پھیلے اورپھران کو مکلف بناکر ان سے آزمائش کرکے ان پر اخروی سزاوجزاء مرتب کی جائے کیونکہ دوزخ اوربہشت دارالتکلیف نہیں ہے ، یہی اصل موجب ہے حضرت سیدناآدم علیہ السلام کے اکل شجرہ کا، پھرجنت سے نکالے گئے اورزمین پر اتارے گئے کیونکہ ان کی پیدائش زمین سے تھی اوروہ زمین پر اللہ تعالی کے خلیفہ بننے والے تھے اوراللہ تعالی جو چاہتاہے کرتاہے اس سے کون پوچھ سکتاہے ۔ خود فرماتاہے کہ { إِنِّی جاعِلٌ فِی الْأَرْضِ خَلِیفَۃ}بے شک میں زمین پر خلیفہ بنانے والاہوں ۔ یہی ان کی بہت بڑی شان ہے اورفضیلت وبزرگی ہے ۔
(تفسیر القرطبی:أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن أبی بکر بن فرح الأنصاری الخزرجی شمس الدین القرطبی(۱:۳۰۴)
(۱۱) لفظ اسکن سے استدلال
فِی قَوْلِہِ تَعَالَی:’’اسْکُنْ‘‘ تَنْبِیہٌ عَلَی الْخُرُوجِ، لِأَنَّ السُّکْنَی لَا تَکُونُ مِلْکًا، وَلِہَذَا قَالَ بَعْضُ الْعَارِفِینَ: السُّکْنَی تَکُونُ إِلَی مُدَّۃٍ ثُمَّ تَنْقَطِعُ، فَدُخُولُہُمَا فِی الْجَنَّۃِ کَانَ دُخُولَ سُکْنَی لَا دُخُولَ إِقَامَۃٍ ۔
ترجمہ :امام ابوعبداللہ محمدبن احمدالقرطبی المتوفی : ۶۷۱ھ)رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ اسکن یہ نکلنے پرتنبیہ ہے کیونکہ سکنی ملکیت نہیں ہوتااس لئے کہ بعض عارفین رحمہم اللہ تعالی نے فرمایاہے کہ سکنی ایک خاص مدت کے لئے ہوتاہے پھروہ ختم ہوجاتاہے ، پس جنت میں حضرت سیدناآدم علیہ السلام اورحضرت سیدتناحواء رضی اللہ عنہاکادخول سکنی تھانہ کہ بطوراقامت۔
(تفسیر القرطبی:أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن أبی بکر بن فرح الأنصاری الخزرجی شمس الدین القرطبی(۱:۳۰۴)
(۱۲)بعض علماء کرام کاقول
وَقِیلَ: إِنَّ الْحِکْمَۃَ فِی إِخْرَاجِ آدَمَ مِنَ الْجَنَّۃِ عِمَارَۃُ الدُّنْیَا.
ترجمہ :امام القرطبی رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ بعض علماء فرماتے ہیں کہ حضرت سیدناآدم علیہ السلام کے جنت سے زمین پر بھیجنے میں حکمت یہ تھی کہ زمین کو آباد کیاجائے۔
(تفسیر القرطبی: أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن أبی بکر بن فرح الأنصاری الخزرجی شمس الدین القرطبی (ا:۳۱۲)
ملحدین کے اعتراضات کے جوابات ایک ملحد کو منہ توڑجواب
قال الشیخ الکامل المکمل علی ردہ فی ہامش کشف الکنوز وحل الرموز وہو کتاب فرید فی فنہ وجدت تذکرۃ السؤال من بعض الملاحدۃ علی کرسی سیدی ابن نور الدین فی مجلس وعظ بجامع ایاصوفیہ من کلام خواجہ حافظ شیرازی
من ملک بودم وفردوس برین جایم بود … آدم آورد درین دیر خراب آبادم
فاجاب الشیخ بدیہۃ وفہم مراد الملحد عن السؤال فقال أنت أخرجت آدم من الجنۃ حیث ہجت فی صلبہ باستعداد الفساد والإلحاد ولو لم یخرج أبونا آدم لبقیت الملاحدۃ والفجرۃ فی الجنۃ فاقتضت غیرۃ الحق خروجہ ۔
ترجمہ :شیخ کامل علی ردہ کشف الکنور وحل الرموز کے حاشیہ میں نقل کرتے ہیں کہ سیدی ابن نورالدین رحمہ اللہ تعالی کرسی پر جامع مسجد میں وعظ فرمارہے تھے کہ ایک ملحد نے حافظ شیرازی رحمہ اللہ تعالی کاشعرپڑھ کراعتراض کیااورجواب کاانتظارکرنے لگا:
من ملک بودم وفردوس برین جایم بود … آدم آورد درین دیر خراب آبادم
میں جنت میں فرشتہ تھااورفردوس بریں میں میراقیام تھامجھے اس ویران دنیامیں لے آئے ۔
حضرت شیخ رحمہ اللہ تعالی اس کے اعتراض کو بھانپ گئے اورجواباً فرمایا: تونے حضرت سیدناآدم علیہ السلام کو جنت سے نکلوایاہے اس لئے کہ تونے ہی فساد والحاد کو ظاہرکرنے کے لئے ان کی پشت مبارکہ میں ہیجان پیداکیاگیا، پھروہ جنت سے نہ نکلتے تو تجھ جیسے فاسق فاجراورملحدجنت میں رہ جاتے ، اس پر اللہ تعالی کی غیرت کاتقاضہ ہواکہ تجھ جیسوں کو جنت سے خارج کرنے کے لئے حضرت سیدناآدم علیہ السلام کو کچھ دنوں کے لئے دنیامیں بھیج دیا۔
(روح البیان:إسماعیل حقی بن مصطفی الإستانبولی الحنفی الخلوتی المولی أبو الفداء (۱:۱۰۸)
ملحدین کو زبردست جواب
حضرت مفتی احمدیارخان نعیمی رحمہ اللہ تعالی ملحدین کو خطاب کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ تمھارایہ کہناغلط ہے کہ تم کوحضرت سیدناآدم علیہ السلام جنت سے زمین پر لائے ہیں بلکہ تم جیسے بے دینوں نے حضرت سیدناآدم علیہ السلام کو جنت سے باہر نکالاکیونکہ تم ان کی پشت میں تھے اورجنت بے دینوں کی جگہ نہیں ہے ، اس لئے مرضی الہی یہ ہوئی کہ آدم علیہ السلام ان بے دینوں کو زمین پر پھینک آئیں پھرہمیشہ ہمیشہ کیلئے جنت میں تشریف لائیں ، انسان کو پلیدی بیت الخلاء لے جاتی ہے نہ کہ انسان پلیدی کویعنی جب انسان کو قضائے حاجت ہوتی ہے تب اس کے نکالنے کے لئے بیت الخلاء جاناپڑتاہے ۔
حافظ شیرازی رحمہ اللہ تعالی کے شعر کامطلب یہ ہے کہ میں اس سے پہلے عالم ارواح میں نہایت بے فکری میں تھا، میرے ماں باپ مجھ کو دنیامیں لے آئے ، آدم سے مراد انسان ہے جس کامطلب یہ ہوا:
میں خود آیانہیں لایاگیاہوں نہ اس کابھیدسمجھایاگیاہوں
یایہ کہ حافظ شیرازی رحمہ اللہ تعالی یہ مضمون حضرت سیدناآدم علیہ السلام کی طرف فرمارہے ہیں یعنی حضرت سیدناآدم علیہ السلام کہتے ہیں کہ میں جنت میں تھالیکن میری بعض اولاد مجھ کو اتارلائی ، آدم بمعنی انسان کیونکہ ظاہرہے کہ جنت میں حضرت سیدناآدم علیہ السلام رہتے تھے نہ کہ حافظ شیرازی رحمہ اللہ تعالی ۔(تفسیر نعیمی از مفتی احمدیارخان نعیمی (۱: ۳۰۷)
الشیخ ابومدین المغربی رحمہ اللہ تعالی کابڑاخوبصورت جواب
وسئل ابو مدین قدس سرہ عن خروج آدم من الجنۃ علی وجہ الأرض ولم تعدی فی أکل الشجرۃ بعد النہی فقال لو کان أبونا یعلم انہ یخرج من صلبہ مثل محمد صلی اللہ علیہ وسلم لصار یأکل عرق الشجرۃ فکیف ثمرہا لیسارع فی الخروج علی وجہ الأرض لیظہر الکمال المحمدی والجمال الأحمدی ﷺ۔
ترجمہ :حضرت سیدناابومدین المغربی رحمہ اللہ تعالی سے سوال کیاگیاکہ حضرت سیدناآدم علیہ السلام جنت سے کیوں نکالے گئے جب کہ وہ خود جانتے تھے کہ مجھے اکل شجرہ سے منع کیاگیاہے توپھراس کاارتکاب کیوں کیا؟
آپ رحمہ اللہ تعالی نے جواباً فرمایا: اگرحضرت سیدناآدم علیہ السلام یہ جانتے ہوتے کہ مجھ سے سیدالانبیاء تاجدارختم نبوت ﷺکی ولادت باسعاد ت ہوگی تو وہ درخت کاثمرتوکیااس کی جڑیں تک کھاجاتے تاکہ زمین میں جلد ا ترکرکمال محمدی ﷺاورجمال احمدﷺکاظہورہو۔
(روح البیان:إسماعیل حقی بن مصطفی الإستانبولی الحنفی الخلوتی المولی أبو الفداء (۱:۱۰۸)
معارف ومسائل
(۱) بھول کر یاجان بوجھ کر گناہ کرلینامعصیت کہلاتاہے جبکہ اللہ تعالی کے حکم کو غیرمعقول اورخلاف عقل سمجھناکفرہے جوکہ شیطان نے کیاہے ۔
(۲)حضرت سیدناآدم علیہ السلام اورابلیس کی سرگزشت سے قریش اوریہود کو آئینہ دکھایاگیاہے کہ اس آئینہ میں غورسے دیکھواوراپنی شکل پہچانوکہ تم کس راستے پر چل نکلے ہو، جس راستے پر تم چل رہے ہویہ شیطان کاراستہ ہے توجس طرح شیطان حضرت سیدناآدم علیہ السلام کی دشمنی مول لے کرذلیل ورسواہواہے یہی حال تمھاراہوناہے ۔ میرے حبیب کریم ﷺاوران کے ماننے والے سب کے سب کامیاب ہوجائیں گے اورتم نے ذلیل ہوناہے ۔
(۳) اس قصہ سے ہمیں یہ بھی سبق حاصل ہواکہ انسان کو چاہئے کہ وہ خداورسول ﷺکی پیروی کرے نہ کہ اپنی عقل کی اقتداء کرے اورجو شخص اپنی عقل کے پیچھے چلتاہے وہ شیطان کی طرح رسواہوتاہے اورجو اپنی عقل کو خداورسول ﷺکے حکم پر قربان کرتاہے وہی کامیاب ہوتاہے۔
(۴) اس سے یہ بھی معلوم ہواکہ حضرت سیدناآدم علیہ السلام کے قصہ پر اعتراض کرنامنع ہے ۔
(۵) اورجو لوگ حضرت سیدناآدم علیہ السلام کے قصہ پر اعتراض کرتے ہیں وہ ملحدین ہیں۔