تفسیر سورہ بقرہ آیت ۲۷۳۔ لِلْفُقَرَآء ِ الَّذِیْنَ اُحْصِرُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللہِ لَا یَسْتَطِیْعُوْنَ ضَرْبًا فِی الْاَرْضِ

علماء ومجاہدین کی خدمت اہل اسلام پر لازم ہے

{لِلْفُقَرَآء ِ الَّذِیْنَ اُحْصِرُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللہِ لَا یَسْتَطِیْعُوْنَ ضَرْبًا فِی الْاَرْضِ یَحْسَبُہُمُ الْجَاہِلُ اَغْنِیَآء َ مِنَ التَّعَفُّفِ تَعْرِفُہُمْ بِسِیْمٰہُمْ لَا یَسْئَلُوْنَ النَّاسَ اِلْحَافًا وَمَا تُنْفِقُوْا مِنْ خَیْرٍ فَاِنَّ اللہَ بِہٖ عَلِیْمٌ}(۲۷۳)
ترجمہ کنزالایمان:ان فقیروں کے لئے جو راہ خدا میں روکے گئے زمین میں چل نہیں سکتے نادان انہیں تونگر سمجھے بچنے کے سبب تو انہیں ان کی صورت سے پہچان لے گا لوگوں سے سوال نہیں کرتے کہ گڑگڑانا پڑے اور تم جو خیرات کرو اللہ اسے جانتا ہے۔
ترجمہ ضیاء الایمان:ان فقیروں کے لئے جو اللہ کے راستے میں روک دئیے گئے ، وہ زمین میں چل پھرنہیں سکتے۔ ناواقف انہیں سوال کرنے سے بچنے کی وجہ سے مالدار سمجھتے ہیں۔ تم انہیں ان کی علامت سے پہچان لو گے۔ وہ لوگوں سے لپٹ کر سوال نہیں کرتے اور تم جو خیرات کرو اللہ تعالی اسے خوب جانتا ہے۔

فقراء سے مراد کون؟

قَالَ السُّدِّیُّ وَمُجَاہِدٌ وَغَیْرُہُمَا:المراد بہؤلاء الْفُقَرَاء ِفُقَرَاء ُ الْمُہَاجِرِینَ مِنْ قُرَیْشٍ وَغَیْرِہِمْ، ثُمَّ تَتَنَاوَلُ الْآیَۃُ کُلَّ مَنْ دَخَلَ تَحْتَ صِفَۃِ الْفُقَرَاء ِ غَابِرَ الدَّہْرِوَإِنَّمَا خُصَّ فُقَرَاء ُ الْمُہَاجِرِینَ بِالذِّکْرِ لِأَنَّہُ لَمْ یَکُنْ ہُنَاکَ سِوَاہُمْ وَہُمْ أَہْلُ الصُّفَّۃِ وَکَانُوا نَحْوًا مِنْ أَرْبَعِمِائَۃِ رَجُلٍ،وَذَلِکَ أَنَّہُمْ کَانُوا یَقْدَمُونَ فُقَرَاء َ عَلَی رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ،وَمَا لَہُمْ أَہْلٌ وَلَا مَالٌ فَبُنِیَتْ لَہُمْ صُفَّۃٌ فِی مَسْجِدِ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَقِیلَ لَہُمْ:أَہْلُ الصُّفَّۃِ۔
ترجمہ :امام السدی اورامام مجاہدرضی اللہ عنہمافرماتے ہیں کہ اس آیت کریمہ میں فقراء سے مراد فقراء مہاجرین ہیں ، جو قریش اوردوسرے قبائل سے تعلق رکھتے تھے ، پھریہ آیت کریمہ ہر اس شخص کو شامل ہے جو مستقبل میں فقراء کی صفت کے تحت داخل ہوگااورمہاجرین فقراء کو ذکرکے ساتھ خاص اس لئے کیاگیاہے کیونکہ وہاں ان کے سواکوئی فقیرنہ تھااوریہ فقراء اہل صفہ تھے اورتقریباً چارسوافراد تھے ۔ وہ فقروافلاس کی حالت میں حضورتاجدارختم نبوت ﷺکی بارگاہ اقدس میں آتے تھے ، نہ ان کے اہل وعیال تھے اورنہ ہی ان کے پاس کوئی مال تھا، پس ان کے لئے حضورتاجدارختم نبوت ﷺکی مسجد شریف میں ایک صفہ یعنی ایک سایہ دارچبوترہ تعمیرکیاگیا، پس انکو اہل صفہ کہاگیا۔
(تفسیر القرطبی:أبو عبد اللہ محمد بن أحمد شمس الدین القرطبی (۳:۳۴۰)

ان کی قیام گاہ مسجد شریف ہی تھی

عَنْ نُعَیْمٍ الْمُجْمِرِ،عَنْ أَبِیہِ، عَنْ أَبِی ذَرٍّ قَالَ:کُنْتُ مِنْ أَہْلِ الصُّفَّۃِ، فَکُنَّا إِذَا أَمْسَیْنَاحَضَرْنَا بَابَ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَیَأْمُرُ کُلَّ رَجُلٍ فَیَنْصَرِفُ بِرَجُلٍ،فَیَبْقَی مَنْ بَقِیَ مِنْ أَہْلِ الصُّفَّۃِ عَشَرَۃٌ أَوْ أَکْثَرُ أَوْ أَقَلُّ،فَیُؤْتَی النَّبِیُّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِعَشَائِہِ فَنَتَعَشَّی مَعَہُ، فَإِذَا فَرَغْنَا قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:نَامُوا فِی الْمَسْجِدِ۔
ترجمہ :حضرت سیدناابوذرغفاری رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ میں اہل صفہ میں سے تھا، جب شام ہوتی تھی تو ہم حضورتاجدارختم نبوت ﷺکے دروازے پر حاضرہوتے تھے توآپ ﷺہر آدمی کو حکم ارشادفرماتے تھے وہ ایک آدمی کو اپنے ساتھ گھرلے جاتاتھااوراہل صفہ میں سے جو باقی رہ جاتے وہ دس یااس سے کم افراد ہوتے تھے توحضورتاجدارختم نبوت ﷺاپناشام کاکھانالے آتے اورہم آپ ﷺکے ساتھ کھاناتناول کرلیتے تھے ۔ جب ہم کھاناکھانے سے فارغ ہوجاتے تو حضورتاجدارختم نبوت ﷺفرماتے کہ جائواورمسجد شریف میں سوجائو۔
(حلیۃ الأولیاء وطبقات الأصفیاء :أبو نعیم أحمد الأصبہانی (۱:۳۵۲)

کھجوریں مسجدشریف میں لٹکادی جاتیں

عَنْ أَبِی مَالِکٍ، عَنِ البَرَاء ِ(وَلاَ تَیَمَّمُوا الخَبِیثَ مِنْہُ تُنْفِقُونَ)قَالَ:نَزَلَتْ فِینَا مَعْشَرَ الأَنْصَارِ،کُنَّا أَصْحَابَ نَخْلٍ فَکَانَ الرَّجُلُ یَأْتِی مِنْ نَخْلِہِ عَلَی قَدْرِ کَثْرَتِہِ وَقِلَّتِہِ،وَکَانَ الرَّجُلُ یَأْتِی بِالقِنْوِ وَالقِنْوَیْنِ فَیُعَلِّقُہُ فِی الْمَسْجِدِ،وَکَانَ أَہْلُ الصُّفَّۃِ لَیْسَ لَہُمْ طَعَامٌ،فَکَانَ أَحَدُہُمْ إِذَا جَاعَ أَتَی القِنْوَ فَضَرَبَہُ بِعَصَاہُ فَیَسْقُطُ مِنَ البُسْرِ وَالتَّمْرِفَیَأْکُلُ،وَکَانَ نَاسٌ مِمَّنْ لاَ یَرْغَبُ فِی الخَیْرِ یَأْتِی الرَّجُلُ بِالقِنْوِ فِیہِ الشِّیصُ وَالحَشَفُ وَبِالقِنْوِ قَدْ انْکَسَرَ فَیُعَلِّقُہُ،فَأَنْزَلَ اللَّہُ تَبَارَکَ تَعَالَی(یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا أَنْفِقُوا مِنْ طَیِّبَاتِ مَا کَسَبْتُمْ وَمِمَّا أَخْرَجْنَا لَکُمْ مِنَ الأَرْضِ وَلاَ تَیَمَّمُوا الخَبِیثَ مِنْہُ تُنْفِقُونَ وَلَسْتُمْ بِآخِذِیہِ إِلاَّ أَنْ تُغْمِضُوا فِیہِ)قَالُوا:لَوْ أَنَّ أَحَدَکُمْ أُہْدِیَ إِلَیْہِ مِثْلُ مَا أَعْطَی، لَمْ یَأْخُذْہُ إِلاَّ عَلَی إِغْمَاضٍ أَوْ حَیَاء ٍقَالَ:فَکُنَّا بَعْدَ ذَلِکَ یَأْتِی أَحَدُنَا بِصَالِحِ مَا عِنْدَہُ.
ترجمہ :حضرت سیدنابراء بن عازب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:یہ آیت (وَلاَ تَیَمَّمُوا الْخَبِیثَ مِنْہُ تُنْفِقُونَ)ہم گروہ انصار کے بارے میں اتری ہے۔ ہم کھجور والے لوگ تھے، ہم میں سے کوئی آدمی اپنی کھجوروں کی کم وبیش پیداوار ومقدار کے اعتبار سے زیادہ یا تھوڑا لے کرحضورتاجدارختم نبوت ﷺکے پاس آتا۔ بعض لوگ کھجور کے ایک دو گچھے لے کر آتے، اور انہیں مسجد میں لٹکا دیتے، اہل صفہ کے کھانے کا کوئی بندوبست نہیں تھا تو ان میں سے جب کسی کو بھوک لگتی تو وہ گچھے کے پاس آتا اور اسے چھڑی سے جھاڑتا کچی اور پکی کھجوریں گرتیں پھر وہ انہیں کھا لیتا۔ کچھ لوگ ایسے تھے جنہیں خیر سے رغبت ودلچسپی نہ تھی، وہ ایسے گچھے لاتے جس میں خراب، ردی اور گلی سڑی کھجوریں ہوتیں اور بعض گچھے ٹوٹے بھی ہوتے، وہ انہیں لٹکا دیتے۔ اس پر اللہ تبارک وتعالیٰ نے آیت {یَا ایُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا أَنْفِقُوا مِنْ طَیِّبَاتِ مَا کَسَبْتُمْ وَمِمَّا أَخْرَجْنَا لَکُمْ مِنَ الأَرْضِ وَلاَ تَیَمَّمُوا الْخَبِیثَ مِنْہُ تُنْفِقُونَ وَلَسْتُمْ بِآخِذِیہِ إِلاَّ أَنْ تُغْمِضُوا فِیہِ} نازل فرمائی۔ لوگوں نے کہا کہ اگر تم میں سے کسی کو ویسا ہی ہدیہ دیا جائے جیسا دین سے بیزار لوگوں نے حضورتاجدارختم نبوت ﷺ کو دیا تو وہ اسے نہیں لے گا اور لے گا بھی تو منہ موڑ کر، اس کے بعد ہم میں سے ہر شخص اپنے پاس موجود عمدہ چیز میں سے لانے لگا۔
(سنن الترمذی:محمد بن عیسی بن سَوْرۃ بن موسی بن الضحاک، الترمذی، أبو عیسی (۵:۶۹)

آیت کریمہ کامعنی

قَالَ قَتَادَۃُ وَابْنُ زَیْدٍ:مَعْنَی أُحْصِرُوا فِی سَبِیلِ اللَّہِ حَبَسُوا أَنْفُسَہُمْ عَنِ التَّصَرُّفِ فِی مَعَایِشِہِمْ خَوْفَ الْعَدُوِّ،وَلِہَذَا قَالَ تَعَالَی:(لَا یَسْتَطِیعُونَ ضَرْباً فِی الْأَرْضِ)لِکَوْنِ الْبِلَادِ کُلِّہَا کفرامطبقاوَہَذَا فِی صَدْرِ الْإِسْلَامِ،فَعِلَّتُہُمْ تَمْنَعُ مِنَ الِاکْتِسَابِ بِالْجِہَادِ،وَإِنْکَارُ الْکُفَّارِ عَلَیْہِمْ إِسْلَامَہُمْ یَمْنَعُ مِنَ التَّصَرُّفِ فِی التِّجَارَۃِ فَبَقُوا فُقَرَاء َوَقِیلَ:مَعْنَی لَا یَسْتَطِیعُونَ ضَرْباً فِی الْأَرْضِ أَیْ لِمَا قَدْ أَلْزَمُوا أَنْفُسَہُمْ مِنَ الْجِہَادِ.
ترجمہ :حضرت سیدناقتادہ رضی اللہ عنہ اورحضرت سیدناابن زید رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ اس آیت کریمہ { أُحْصِرُوا فِی سَبِیلِ اللَّہِ}کامعنی ہے کہ جنہوںنے اپنے آپ کو دشمن کے خوف سے اپنے کاروبارمیں تصرف کرنے سے روک لیاہے ، اسی لئے اللہ تعالی نے فرمایا: {لا یَسْتَطِیعُونَ ضَرْباً فِی الْأَرْضِ}وہ زمین میں چلنے پھرنے کی استطاعت نہیں رکھتے ۔ کیونکہ تمام شہرمکمل طور پر کفرکے زیرتسلط ہیں اوریہ ابتدائے اسلام میں تھااورانہیں اکتساب دولت سے بازرکھنے کی علت جہاد تھااورکفارکااسلام قبول کرنے سے انکارکرناکاروبارتجارت میں تصرف کرنے سے مانع تھا، نتیجۃً وہ فقراء ہی باقی رہے ۔ اوریہ بھی کہاگیاہے کہ {لا یَسْتَطِیعُونَ ضَرْباً فِی الْأَرْضِ}کامعنی ہے یعنی انہوںنے جہاد کو لازم پکڑلیاہے اورپہلامعنی زیادہ واضح ہے اورظاہرہے ۔
(تفسیرابن عطیہ :أبو محمد عبد الحق بن غالب بن عبد الرحمن بن تمام بن عطیۃ الأندلسی المحاربی (۱:۳۶۹)

 مجاہدفی سبیل اللہ کوزکوۃ دینا

وَقَدْ أَمَرَ اللَّہُ تَعَالَی بِإِعْطَاء ِ ہَؤُلَاء ِ الْقَوْمِ،وَکَانُوا مِنَ الْمُہَاجِرِینَ الَّذِینَ یُقَاتِلُونَ مَعَ رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ غَیْرَ مَرْضَی وَلَا عُمْیَانَ۔
ترجمہ :امام ابوعبداللہ محمدبن احمدالقرطبی المتوفی : ۶۷۱ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ اللہ تعالی نے اس قوم کو زکوۃ دینے کاحکم ارشادفرمایااوران مہاجرین میں سے جو حضورتاجدارختم نبوت ﷺکی معیت میں جہاد کیاکرتے تھے اوروہ نہ مریض تھے اورنہ ہی وہ نابینا۔
(تفسیر القرطبی:أبو عبد اللہ محمد بن أحمد شمس الدین القرطبی (۳:۳۴۰)

اصحاب صفہ مجاہدین اورطالب العلم تھے

وہم أہل الصفۃ رضی اللہ تعالی عنہم، قالہ ابن عباس ومحمد بن کعب القرظی وکانوا نحوا من ثلاثمائۃ ویزیدون وینقصون من فقراء المہاجرین یسکنون سقیفۃ المسجد یستغرقون أوقاتہم بالتعلم والجہاد وکانوا یخرجون فی کل سریۃ یبعثہا رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم۔
ترجمہ :یہ حضرات اہل صفہ تھے ، یہ حضرت سیدناعبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہمااورمحمدبن کعب القرظی رحمہ اللہ تعالی کاقول ہے ، یہ حضرات فقراء مہاجرین میں سے تھے اوران کی تعداد تین سوکے لگ بھگ تھی ، ان کی تعدادمیں کمی وزیادتی ہوتی رہتی تھی ، یہ حضرات مسجد شریف میں چبوترہ پررہتے تھے ، ان کاساراوقت علم سیکھنے اورجہاد کرنے میں صرف ہوجاتاتھااوریہ حضورتاجدارختم نبوت ﷺکے بھیجے ہوئے ہر سریہ یعنی جنگی مہموں میں شرکت کیاکرتے تھے ۔
(روح المعانی:شہاب الدین محمود بن عبد اللہ الحسینی الألوسی (۲:۴۵)

معارف ومسائل

(۱) وہ فقراء جوجہادیاطلب علم یاضروری عبادات کی وجہ سے دنیاوی کاروبارسے روک دئیے گئے اس میں دینی طلباء کی طرح فقیرعلماء کرام ، قاضی ، مصنف وغیرہ تمام ہی داخل ہیں کہ یہ لوگ دینی خدمات کرتے ہیں ، اگردنیاکی طلب میں مشغول ہوجائیں تو دین ضائعہوجائے ۔ یہ حضرات طلب علم اورتیاری جہاد میں اس قدرمشغول ہیں کہ زمین میں چل پھرکرکمائی نہیں کرسکتے یعنی کمائی کے لئے نہ توسفرکرسکتے ہیں جیساکہ تاجروں کاقاعدہ ہے اورنہ ہی کاروباری سلسلہ میں بازارمیں چل پھرکرکمائی کرسکتے ہیں ۔
(۲) زندگی ہر شخص کی گزرتی ہے مگروہ بہتر ین زندگی وہ ہے جو رب تعالی کے لئے وقف ہوجائے کہ وہ شخص جو کام کرے نفس کے لئے نہیں بلکہ اللہ تعالی کے لئے کرے ، دیکھواللہ تعالی نے ان لوگوں کے لئے صدقات کاحکم خصوصی دیاجو اپنی زندگی اللہ تعالی کیلئے وقف کرچکے ہیں۔جنہیں { أُحْصِرُوا فِی سَبِیلِ اللَّہِ} فرمایاگیا، دیکھواگرزمین کے لئے وقف مسجد بن جائے تواس کی عظمت بڑھ جاتی ہے ، اصحاب کہف کے کتے نے اپنی زندگی اللہ تعالی کے پیاروں کی خدمت کے لئے وقف کی تواسے حیات جاودانی ملی توزمین اورناپاک کتااس وقف زندگی کی وجہ سے شان والے ہوگئے تواگرانسان اپنی زندگی وقف کرے توان شاء اللہ فرشتوں سے افضل ہوجائے گا۔
(۳) عام فقراء سے غریب علماء کرام ، دینی طلباء ، مدرسین کو خیرات دیناافضل ہے ، جنہوںنے اپنے آپ کو دینی خدمت کے لئے وقف کردیا، اگران کی خدمت نہ کی گئی تو یہ طلب معاش کے لئے مجبورہوگئے تو دین کاسخت نقصان ہوگا۔ یہ سب لوگ  { أُحْصِرُوا فِی سَبِیلِ اللَّہِ}میں داخل ہیں۔کیونکہ ایک شخص بیک وقت دوکام نہیں کرسکتا۔ تفسیرنعیمی(۳: ۱۳۳)
(۴) { أُحْصِرُوا فِی سَبِیلِ اللَّہِ}کی عملی تفسیردورنبوی میں اصحابہ صفہ رضی اللہ عنہم تھے اوردورحاضرمیں دینی مدارس کے طلباء ہیں ، یہ ہماری زکوۃ وعشراورفطرانہ اوردیگرنفلی صدقات کابہترین مصرف ہیں ، ان کی خدمت کرنے میں انفاق فی سبیل اللہ کے علاوہ خدمت قرآن ، اشاعت اسلام اورترویج علم دین کاثواب بھی ہے ۔ یعنی حضورتاجدارختم نبوت ﷺنے جہاں مسجد نبوی شریف بنوائی وہاں اس کے ساتھ ایک دینی مدرسہ بھی بنوایا، جس میں اصحاب صفہ زیرتعلیم تھے جوعرب کے مختلف علاقوں سے دین سیکھنے کے لئے اس مدرسہ میں آکرٹھہرے ہوئے تھے اورتعلیم حاصل کررہے تھے جیساکہ آج دینی مدارس میں ملک کے مختلف حصوں سے آکرغریب طلبہ ٹھہرتے ہیں اوردینی تعلیم حاصل کرتے ہیں، آج برصغیرپاک وہندمیں اسلام کی ترویج واشاعت میں ان دینی مدارس کابہت اہم کردارہے ، یہ مبلغین اسلام کی چھاونیاں ہیں ۔ جہاں سے علماء اسلام مبلغین دین ، حفاظ وقراء قرآن تیارہوکرنکلتے ہیں اوردنیاکے کونے کونے میں علم دین کانورپھیلانے کے لئے مصروف عمل ہوجاتے ہیں۔آج لاکھوں مسجدوں میں علماء وائمہ تبلیغ دین کاکام کررہے ہیں یہ علماء مدارس دینیہ سے تیارہوکرنکلتے ہیں ، مدارس نہ ہوں تو مساجدکانظام کیسے چلے اوراقامت صلوۃ کانظام کیسے قائم ہو۔تفسیربرہان القرآن (۱:۵۸۲)
(۵)انہی حضرات کی صف میں وہ مشائخ و علماء و طلبہ و مبلغین و خادمینِ دین داخل ہیں جو دینی کاموں میں مشغولیت کی وجہ سے کمانے کی فرصت نہیں پاتے۔ یہ لوگ اپنی عزت و وقار اور مروت کی وجہ سے لوگوں سے سوال بھی نہیں کرپاتے اور اپنے فقر کو چھپانے کی بھی کوشش کرتے ہیں جس کی وجہ سے لوگ سمجھتے ہیں کہ ان کا گزارا بہت اچھا ہورہا ہے لیکن حقیقتِ حال اس کے برعکس ہوتی ہے۔ اگر کچھ غور سے دیکھا جائے تو ان لوگوں کی زندگی کا مشقت سے بھرپور ہونا بہت سی علامات و قرائن سے معلوم ہوجائے گا۔ ان کے مزاج میں تواضع اور انکسا ری ہوگی ،چہرے پر ضعف کے آثار ہوں گے اور بھوک سے رنگ زرد ہوں گے۔ درس:ہمارے ہاں دین کے اس طرح کے خادموں کی کمی نہیں اور ان کی غربت و محتاجی کے باوجود انہیں مالدار سمجھنے والے ناواقفوں اور جاہلوں کی بھی کمی نہیں۔ شاید ہمارے زمانے کا سب سے مظلوم طبقہ یہی ہوتا ہے۔ اس چیز کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ لوگ اپنے بچوں کو عالم اس لئے نہیں بناتے کہ یہ کھائیں گے کہاں سے؟ جب اس بات کا علم ہے تو یہ بھی تو سوچنا چاہیے کہ جو علماء و خادمینِ دین موجود ہیں وہ کیسے گزارا کر رہے ہوں گے؟ اصحابِ صفہ کی حالت پر مذکورہ آیت مبارکہ کا نزول صرف کوئی تاریخی واقعہ بیان کرنے کیلئے نہیں ہے بلکہ ہمیں سمجھانے، نصیحت کرنے اور ترغیب دینے کیلئے ہے۔ علماء و مُبَلِّغین کی گھروں کی پریشانیاں ختم کردیں پھر دیکھیں کہ دین کا کام کیسی تیزی سے ہوتا ہے۔ سمجھنے کیلئے اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے ان دس نکات کو پڑھ لیں جن میں بار بار علماء کی معاشی حالت سدھارنے کا تذکرہ کرنے کے بعد فرمایا: مولانا!روپیہ ہونے کی صورت میں اپنی قوت پھیلانے کے علاوہ گمراہوں کی طاقتیں توڑنا بھی اِنْ شَآء َ اللہ الْعَزِیز آسان ہوگا۔ میں دیکھ رہا ہوں کہ گمراہوں کے بہت سے افراد صرف تنخواہوں کے لالچ سے زہر اگلتے پھرتے ہیں۔ ان میں جسے دس کی جگہ بارہ دیجئے اب آپ کی سی کہے گا، یا کم از کم بہ لقمہ دوختہ بہ توہوگا۔دیکھئے حدیث کا ارشاد کیسا صادق ہے کہ
عَنْ حَبِیبِ بْنِ عُبَیْدٍ، قَالَ:رَأَیْتُ الْمِقْدَامَ بْنَ مَعْدِی کَرِبٍ جَالِسًا فِی السُّوقِ،وَجَارِیَۃٌ لَہُ تَبِیعُ لَبَنًا وَہُوَ جَالِسٌ یَأْخُذُ الدَّرَاہِمَ، فَقِیلَ لَہُ فِی ذَلِکَ، فَقَالَ:سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ:إِذَا کَانَ فِی آخِرِ الزَّمَانِ لَا بُدَّ لِلنَّاسِ فِیہَا مِنَ الدَّرَاہِمِ وَالدَّنَانِیرِ یُقِیمُ الرَّجُلُ بِہَا دِینَہُ ودُنْیَاہُ۔
ترجمہ :حضرت سیدناحبیب بن عبیدرضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں بازارمیں حضرت سیدنامقدام بن معدی کرم رضی اللہ عنہ کو بیٹھے ہوئے دیکھاکہ ان کی خادمہ دودھ فروخت کررہی تھی اوروہ خود بیٹھے دراہم پکڑرہے تھے ، توان سے اس کے متعلق کوئی بات کی گئی توآپ رضی اللہ عنہ نے جواباً حضورتاجدارختم نبوت ﷺکی یہ حدیث شریف بیان کی کہ حضورتاجدارختم نبوت ﷺنے فرمایا:آخر زمانہ میں دین کا کام بھی درہم و دینار سے چلے گا۔
(المعجم الکبیر:سلیمان بن أحمد بن أیوب بن مطیر اللخمی الشامی، أبو القاسم الطبرانی (۲۰:۲۷۹)
اور کیوں نہ صادق ہو کہ صادق و مصدوقﷺکا کلام ہے، عالِم ما کان و مایکون ﷺکی خبرہے۔   (فتاوی رضویہ لامام احمدرضاحنفی ( ۲۹: ۵۹۹) (تفسیرصراط الجنان (۱: ۴۱۰)
(۶) اس میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جنہوںنے حضورتاجداختم نبوت ﷺکی عزت وناموس پر پہرہ دیااورگستاخوں کوواصل جہنم کیاہے ان کی بھی خدمت کی جائے اوران کے گھروالوں کی بھی خدمت کی جائے ۔
(۷)بعض اوقات ایک انسان جہاد میں نکلنے کے بارے میں شیطان پر غلبہ پا لیتا ہے اور اس کی باتوں میں نہیں آتالیکن یہی انسان جہاد میں مال خرچ کرنے کے بارے میں شیطان کی باتوں میں آجاتا ہے کیونکہ شیطان اس کے دل میں وسوسہ ڈالتا ہے کہ خود بھی جہاد میں چلاگیا اور سارا مال بھی لے گیا تو پھر اگر تو واپس آگیا توتو لوگوں کا محتاج بن کر پھرتا رہے گا جہادکے دوران تو زخمی اور بیمار بھی ہو سکتا ہے اس لئے خود اگر جانا چاہتا ہے تو چلا جا لیکن اپنا مال پیچھے چھوڑ جا شیطان کا یہ وسوسہ اسی آدمی کے دل پر زیادہ اثر کرتا ہے جس کے دل میںواپس آنے کا چور چھپا ہوا ہوتا ہے اور وہ غیر محسوس دنیاکی محبت اور شہادت کے خوف میںمبتلا ہوتا ہے کیونکہ اگر وہ شہادت پانے کا پکا عزم کرکے نکلتا تو واپسی کا خیال ہی اس کے دل میں نہ آتا ہمارے اسلاف شہادت کے شوق میں اور اللہ تعالی سے ملاقات کی محبت میںجہاد کے وقت اپنی تلواروں کے نیام توڑ ڈالتے تھے کیونکہ ان کے دل میں واپس آنے اور زندہ رہنے کا خیال تک نہیں ہوتا تھا کیونکہ وہ لوگ شہادت کی عظمت اور لذت سے واقف تھے ۔ اسلاف ہی میں سے کسی کا واقعہ ہے کہ ایک بار میدان جہاد میں جب لشکر آمنے سامنے آگئے تو شیطان نے انہیں وسوسے ڈالنے شروع کئے ۔ پہلے ان کے دل میں بیوی کی یاد اس کا حسن وجمال اس سے قرب کے لمحات اور اس سے جدائی کے غم کو جگایا پھر عیش وآرام والی زندگی مال واسباب یاد دلائے ۔ قریب تھا کہ ان کے دل میں بزدلی اور دنیا کی محبت پیدا ہو جاتی اور میدان جنگ سے پیچھے ہٹنے کا ارادہ کر لیتے ۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی مدد فرمائی ۔ انہوں نے اپنے نفس کو مخاطب کرکے فرمایا :اے نفس! اگر آج میں میدان جنگ سے پیچھے ہٹا تو میری بیوی پر طلاق ہے اور میرے غلام اور باندیا ں آزاد اور تمام مال فقیروں اور مسکینوں کے لئے صدقہ ہے اے نفس! کیا تو آج میدان جنگ سے بھاگ کر ایسی زندگی گزرانے کے لئے تیار ہے جس میں نہ بیوی ہو گی نہ مال واسباب ۔ ان کے نفس نے کہا :اگر ایسا ہے تو پھر میں پیچھے ہٹنے کو پسند نہیں کرتا۔ انہوں نے فرمایا: تو پھر چل آگے بڑھ ۔ بعض مرتبہ شیطان یہ وسوسہ ڈالتا ہے کہ اگر توجہاد میں مال بھی خرچ کرنے کے لئے ساتھ لے گیا اور تو مارا گیا تو تیری اولاداور گھر والے دوسروں کے محتاج بن کر رہ جائیں گے ۔ اس لئے اپنا مال پیچھے والوں کے لئے چھوڑ جاؤ ان کے لئے اتنا صدمہ کافی ہے کہ تم جارہے ہو ۔ اب انہیں مال سے تو محروم نہ کرو ۔ یہ وسوسہ ان لوگوں کے دل پر زیادہ اثر کرتا ہے جو اللہ تعالیٰ پر مکمل یقین اور اعتماد نہیں رکھتے اور انہیں اس بات کا بھروسہ نہیں ہوتا کہ بندوں کی روزی کی ذمہ داری خود اللہ تعالیٰ نے لی ہوئی ہے ورنہ جو شخص اس بات کا یقین رکھتا ہو کہ اصل رازق تو اللہ ہے میں تو اپنے اہل و عیال تک روزی پہنچانے کا ایک واسطہ ہوں اس پر شیطان کا وسوسہ اثر انداز نہیں ہوتا ۔
(۸)ایک مومن کی سوچ تو یہ ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ مال مجھے میرے فائدے کے لئے دیا ہے اور اس مال سے فائدہ مجھے تبھی ملے گا جب میں اسے اللہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ کر دوںگا ۔ تب یہ مال قبر کے عذاب اور آخرت کی رسوائی سے بھی بچائے گا اور اس مال کی بدولت جنت کی انمول نعمت بھی ملے گی اور قیامت کے دن مجھے اس مال کاحساب دینا نہیں لینا ہوگا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ وہ اپنے راستے میں خرچ کرنے والوں کو لاکھوں کروڑوں گنا بڑھا کر اجر و بدلہ دے گا ۔ مگر آج کے مسلمان کا ذہن اب بدل چکا ہے کیونکہ کافروں نے محنت کر کے اور شیطان نے وسوسے ڈال کر مال کی اہمیت دلوں میں اتنی زیادہ بڑھا دی ہے کہ اب تو مال ہی کے گرد زندگیاں گھوم رہی ہیں اور مال کو معاشرے کے جسم کا خون سمجھا جا رہا ہے ۔ کافروں نے صدیوں کی محنت کے بعد دنیا پر ایسا معاشی نظام مسلط کردیا ہے جس نے ہر شخص کو مال کا حریص او ر لالچی بنادیا ہے اور تو اور شائد آج کتوں کو بھی انسانوں کی حرص اور لالچ دیکھ کر شرم آتی ہو گی ۔ ہر شخص آج پیسے کے پیچھے دوڑ رہا ہے جبکہ پیسہ کسی کے ہاتھ میں ٹھہرنے اور کسی کے ساتھ وفا کا دم بھرنے کے لئے تیار نہیں ہے مالدار بھی ڈر رہے ہیں کہ مال کم نہ ہو جائے ۔ غریب بھی ڈر رہے ہیں کہ مزید غربت کا منہ نہ دیکھنا پڑے ہر مالدار مزید مال کے چکر میں اور ہر غریب مالدار بننے کے چکر میں دن رات اپنا ایمان اور اپنا آرام تباہ کررہا ہے ۔
(۹)مال کا بھوت سروں پر ایسا سوار ہوا ہے کہ اب انسانی قدریں بھی اس کے سامنے پامال ہو رہی ہیں اور معاشرے کی ترتیب اور تقسیم مال کی بنیاد پر ہو رہی ہے اور ہر چیز کو خریدا جا رہا ہے اور ہر چیز کو بیچا جا رہا ہے ایسے درد ناک حالات میں جبکہ غریبوں کے لئے عزت کے ساتھ جینا دوبھر کردیا گیا ہے ۔ اللہ تعالی کے راستے میں خرچ کرنے کی صدائیں عجیب تر معلوم ہوتی ہیں آج جبکہ مال کی خاطر ایمان کو فروخت کردیا جاتا ہے اس وقت یہ آواز لگاناکہ مال دو ایمان کے اعلیٰ مراتب حاصل کرو بہت عجیب سا لگتا ہے لیکن حقیقت میں یہ کچھ بھی عجیب نہیں ہے اسلام ہر دور میں الحمد للہ اپنی اصل شکل کے ساتھ کچھ لوگوں کے دلوں اور ان کے اعمال میں محفوظ رہتا ہے اور یہ اس وقت تک رہے گا جب تک قیامت قائم ہونے کا وقت نہیں آجاتا ۔ آج بھی الحمد للہ ان مسلمانوں کی کمی نہیں ہے جو اللہ اورحضورتاجدارختم نبوت ﷺکے وعدوں پر یقین رکھتے ہیں اور اسلام کے ایک ایک حکم پر مر مٹنا اپنی سعادت سمجھتے ہیں ایسے مسلمانوں کو یہ بات اچھی طرح سے سمجھنی چاہئے کہ اللہ تعالی کے لئے خرچ کرنے کی اس قدر تاکید قرآن مجید میں کیوں آئی ہے ۔ اور رحضورتاجدارختم نبوت ﷺنے اس کی خاطر خود چندہ فرمانے کی تکلیف کس طرح گوارا فرمائی اور حضرت سیدناصدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے اپنے گھر کا سا را سامان کیوں دے دیا ؟آج اگر مسلمان ان سوالوں پر غور کریں اور ان کے جواب تک پہنچ جائیں تو اللہ کی قسم اسلامی فکربہت مضبوط ہو سکتی ہے ۔ ۔ کسی مسلمان شہید کے ورثاء لاورثوں والی زندگی نہیں گزاریں گے ، مجاہدین ختم نبوت بے فکرہوکر دنیابھرمیں اللہ تعالی کے دین کی سربلندی کے لئے کام کرسکیں گے ۔ اور دنیا میں کفر کو دندناتے پھرنے کا موقع نہیں ملے گاکیا کبھی آپ نے سوچا کہ حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے اپنے گھر کی سوئی تک اٹھا کر کیوں دے دی تھی کیا کبھی آپ نے غور کیا کہ حضرات فقہاء کرام نے آخر یہ کیوں لکھ دیا کہ اگر مسلمان بھوکے مررہے ہوں تب بھی مجاہدین کو کمک پہنچانا ان بھوکوں کو کھاناکھلانے سے زیادہ اہم ہے ؟ اللہ کے لئے تھوڑا سا غور کیجئے ہمارے دشمنوں نے اس نکتے پر بہت پہلے غور کر لیا تھا چنانچہ آج وہ محفوظ ہیں۔ مطمئن ہیں اور جہاں چاہتے ہیں وار کرتے ہیں مگر ہم نے اس نکتے کو بھلادیا ہم تو یہ مسئلہ پوچھتے رہ گئے کہ اللہ تعالی کی راہ میں جہاد کرنے والے اوردین حق کی سربلندی کے لئے کام کرنے والے علماء حق کو زکوٰۃ لگتی ہے یا نہیں ۔ ہم نے اپنی تجوریا ں بھریں اور ہم بینکوں کے پیٹ بھرتے رہ گئے ہم نے اپنے کپڑوں ، جوتوں ، زیورات اور شادیوں پر پیسے اڑائے ہم اپنے شوق پر مال قربان کرتے رہے چنانچہ ہم زلیل و خوار ہو گئے کمزور ہو گئے اور اپنے دفاع کے لئے پنے ہی دشمنوں سے بھیک مانگنے پر مجبور ہوگئے اور اپنی روزی کے لئے اپنے دشمنوں کے جوتے صاف کرنے کی ذلت ہمیں سہنی پڑی ۔ اللہ کے لئے اے مسلمانو!اب بھی غور کرلو یاد رکھو جب تک دنیا میں اسلام اور قرآن کو عزت اور مقام نہیں ملتاہم جتنے خوبصورت کپڑے پہن لیں اور جتنی بڑی کوٹھی بنالیں ہم عزت نہیں پاسکتے بلکہ ہم مزید ذلیل اور بزدل ہوتے جائیں گے ۔
(۱۰)یاد رکھو !اگر اللہ تعالی کی شریعت ہمارے ملکوں پر اور اللہ کی ساری زمین پر نافذ نہ ہوئی تو ہم قیامت کے دن مجرم اٹھائیں جائیں گے کیونکہ اللہ تعالی کا دین دنیا میں غالب ہونے کے لئے آیا ہے ۔ توہین کروانے کے لئے نہیں ۔ اللہ تعالی کے لئے اپنی ذمہ داری کو سمجھو ۔ تم انسانوں کی غلامی کے لئے پیدا نہیں ہوئے ۔ تم مالدار کہلانے اور بننے کے لئے بھی پیدا نہیں ہوئے ۔ تم تو پوری انسانیت کو انسانوں کی غلامی سے نکال کر اللہ تعالی کی غلامی میں لانے کے لئے بھیجئے گئے ہو ۔ مگر تم اپنی اس ذمہ داری کو بھول کر کفارکی طرح نوٹ گننے ، زیادہ سے زیادہ ذخیرہ کرنے اور اونچی سے اونچی عمارت بنانے اور مسلمانوں پر اپنے مال کا رعب جمانے میں لگ گئے ۔
اللہ سے ڈرو !موت کا وقت قریب تر ہے ۔ قرآن مجید کی دعوت دنیا کے کونے کونے تک پہنچانا تمہاری ذمہ داری ہے ۔ اللہ کی شریعت نافذ کرنا تمہاری ذمہ داری ہے ۔ اپنے مسلمانوں پر فوقیت حاصل کرنے اور ان پر اپنے مال کا رعب ڈالنے کا بھوت دماغ سے نکال کر کافروں کو خاک چٹانے کی تدبیر کرو ۔ کیونکہ اسی کے لئے تم بھیجے گئے ہو ۔ اب تک جو غفلت ہوگئی اس پر توبہ استغفار کرو اور اللہ کے راستے پر اپنی جان اور اپنامال قربان کرنے کا پکا عزم کرو اور نام و نمود اور نمائش پر مال خرچ کرنے اور اپنے مال سے اسلام دشمن کافروں کو فائدہ پہنچانے سے بچو ۔ ممکن ہے اللہ تعالیٰ تم سے کوئی بڑا کام لے لے اور تمہارے نصیب جاگ جائیں اور تمہاری جان اور تمہارا مال اس کے پاک راستے میں قبول کر لیا جائے ۔
یا اللہ ہمیں اپنے مال اور اپنی جان کی قربانی کی ہمت اورتوفیق عطاء فرما اور ہماری طرف سے انہیں اپنے دربار میں قبول فرما ۔ )

Leave a Reply