تفسیر سورہ بقرہ آیت ۲۶۹۔ یُّؤْتِی الْحِکْمَۃَ مَنْ یَّشَآء ُ وَمَنْ یُّؤْتَ الْحِکْمَۃَ فَقَدْ اُوْتِیَ خَیْرًا کَثِیْرًا

علم وحکمت کیاہے ؟ وحی یاانگریزی تعلیم

{یُّؤْتِی الْحِکْمَۃَ مَنْ یَّشَآء ُ وَمَنْ یُّؤْتَ الْحِکْمَۃَ فَقَدْ اُوْتِیَ خَیْرًا کَثِیْرًا وَمَا یَذَّکَّرُ اِلَّآ اُولُوا الْاَلْبٰبِ}(۲۶۹)
ترجمہ کنزالایمان : اللہ حکمت دیتا ہے جسے چاہے اور جسے حکمت مِلی اُسے بہت بھلائی ملی اور نصیحت نہیں مانتے مگر عقل والے۔
ترجمہ ضیاء الایمان: اللہ حکمت دیتا ہے جسے چاہے اور جسے حکمت مِلی اُسے بہت بھلائی ملی اور نصیحت نہیں مانتے مگر عقل والے۔

حکمت سے مراد کیاہے ؟

عَنْ أَبِی الدَّرْدَاء ِفِی قَوْلِ اللہ:ومن یؤت الحکمۃ فقد أوتی خیرا کَثِیرًا قَالَ:قِرَاء َۃُ الْقُرْآنِ،وَالْفِکْرَۃُ فِیہِ.
ترجمہ:حضرت سیدناابودرداء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالی کے اس فرمان شریف میں حکمت سے مراد قرآن کریم کی تلاوت اوراس میں غوروفکرکرناہے ۔
(تفسیر القرآن العظیم لابن أبی حاتم:أبو محمد عبد الرحمن بن محمد بن إدریس بن المنذر التمیمی(۲:۵۳۱)

دوسراقول
عَنْ مَطَرٍ الْوَرَّاقِ، فِی قَوْلِہِ:وَمَنْ یُؤْتَ الْحِکْمَۃَ فَقَدْ أُوتِیَ خَیْرًا کَثِیرًا قَالَ:بَلَغَنَا أَنَّ الْحِکْمَۃَ خَشْیَۃُ اللَّہِ، وَالْعِلْمُ باللہ.
ترجمہ :حضرت سیدنامطرالوراق رحمہ اللہ تعالی اللہ تعالی کے اس فرمان شریف کے متعلق فرماتے ہیں کہ اس آیت کریمہ میں حکمت سے مراد اللہ تعالی کاخوف اوراللہ تعالی کی ذات وصفات کے متعلق علم ہے ۔
(تفسیر القرآن العظیم لابن أبی حاتم:أبو محمد عبد الرحمن بن محمد بن إدریس بن المنذر التمیمی(۲:۵۳۱)

تیسراقول
حَدَّثَنَا مَالِکُ بْنُ أَنَسٍ،قَالَ:قَالَ زَیْدُ بْنُ أَسْلَمَ:إِنَّ الْحِکْمَۃَ:الْعَقْلُ،قَالَ مَالِکٌ:وَإِنَّہُ لَیَقَعُ فِی قَلْبِی، أَنَّ الحکمۃ ہو الْفِقْہُ فِی دَیْنِ اللَّہِ وَأَمْرٌ یُدْخِلُہُ اللَّہُ فِی الْقُلُوبِ مِنْ رَحْمَتِہِ وَفَضْلِہِ،وَمِمَّا یُبَیِّنُ ذلک أنک تحد الرَّجُلَ عَاقِلا فِی أَمْرِ الدُّنْیَا،إِذَا نَظَرَ فِیہَا،وَتَجِدُ آخَرَ ضَعِیفًا فِی أَمْرِ دُنْیَاہُ،عَالِمًا بِأَمْرِ دِینِہِ،بَصِیرًا بِہِ،یُؤْتِیہِ اللَّہُ إِیَّاہُ،وَیَحْرِمُہُ ہَذَا ،فَالْحِکْمَۃُ:الْفِقْہُ فِی دَیْنِ اللَّہِ.
ترجمہ :حضرت سیدنامالک بن انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت سیدنازیدبن اسلم رضی اللہ عنہ نے فرمایا:حکمت عقل ہے اوریہ میرے دل میں واردہواہے کہ حکمت دین میں تفقہ یعنی سمجھ حاصل کرناہے اوریہ ایک ایساامرجو اللہ تعالی اپنے فضل اوررحمت سے دلوں میں داخل فرماتاہے اوریہ اس سے واضح ہوتاہے توایک شخص کودیکھتاہے کہ وہ دنیاکے معاملات میں بہت کمزورہے اوراموردین کاعالم ہے ایسے شخص کو اللہ تعالی نے بصیرت عطاکی ہوتی ہے اوردین کے امورسے غافل شحص کو حکمت سے محروم رکھاجاتاہے ۔ پس حکمت اللہ تعالی کے دین کی سمجھ ہے ۔
(تفسیر القرآن من الجامع لابن وہب:أبو محمد عبد اللہ بن وہب بن مسلم المصری القرشی (۲:۵۳۴)

سبحان اللہ !حضرت سیدنازیدبن اسلم رضی اللہ عنہ کے اس فرمان شریف میں لبرل وسیکولرکاکھلاردہے ، آج لبرل وسیکولرعلماء حق کو یہی طعنہ دیتے ہیں کہ یہ لوگ جاہل ہیں اوران کو علم نہیں ہے اوران کو دنیاکے بارے کچھ خبرنہیں ہے ۔ اوران کو صرف مسجد کاپتہ ہے وغیرہ وغیرہ ۔ اورآپ غورکریں کہ ایک عالم دین ہو، یہ نہ ہوکہ وہ عبدالدیناراورحکمرانوں کے دروازے پر چکرلگانے والاہواللہ تعالی کااس پر کتناکرم ہوتاہے کہ وہ اتناعلم رکھتاہے اوران کو دنیاکی رنگینیوں کے متعلق کچھ خبرنہیں ہوتی ہے ، مگراس کے ساتھ ساتھ دنیامیں اٹھنے والے ہر ہر فتنے سے آگاہ ہوتاہے اوراس کارد کرنابھی اسے خوب آتاہے ، ہزارہاکتب کے مطالعے کے ساتھ ساتھ اس کے اندرموجود ہزاروں احکام شرع کاحافظ ہوتاہے ۔ واللہ یہی حکمت ہے کہ وہ بظاہرجسے لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ یہ توجاہل ہے مگروہی شخص اپنے رب تعالی کی ذات وصفات کے متعلق تمام ضروری علم رکھنے والااوراپنے رب تعالی کی معرفت تامہ رکھنے والاہوتاہے ۔

چوتھاقول
عَنْ أَبِی أُمَامَۃَ قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:مَنْ قَرَأَ ثُلُثَ الْقُرْآنِ أُعْطِیَ ثُلُثَ النُّبُوَّۃِ، وَمَنْ قَرَأَ نِصْفَہُ أُعْطِیَ نِصْفَ النُّبُوَّۃِ،وَمَنْ قَرَأَ ثُلُثَیْہِ أُعْطِیَ ثُلُثَیِ النُّبُوَّۃِ،وَمَنْ قَرَأَ الْقُرْآنَ کُلَّہُ أُعْطِیَ النُّبُوَّۃَ کُلَّہَا، وَیُقَالُ لَہُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ:اقْرَأْ وَارْقَہ بِکُلِّ آیَۃٍ دَرَجَۃً حَتَّی یُنْجِزَ مَا مَعَہُ مِنَ الْقُرْآنِ،فَیُقَالُ لَہُ:اقْبِضْ فَیَقْبِضُ، فَیُقَالُ لَہُ: ہَلْ تَدْرِی مَا فِی یَدَیْکَ؟فَإِذَا فِی یَدِہِ الْیُمْنَی الْخُلْدُ،وَفِی الْأُخْرَی النَّعِیمُ۔
ترجمہ :حضرت سیدناابوامامہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضورتاجدارختم نبوت ﷺنے فرمایا:جس نے قرآن کریم کاتیسراحصہ پڑھاتواسے فیضان نبوت کاثلث عطاکیاگیااورجس نے قرآن کریم کانصف پڑھااسے فیضان نبوت کانصف حصہ ملااورجس نے قرآن کریم کادوثلث تلاوت کیاتواسے فیضان نبوت کے دوثلث ملے ۔ اورجس نے مکمل قرآن کریم پڑھاتواسے مکمل فیضان نبوت عطاکیاگیا۔ قیامت کے دن اسے کہاجائے گاکہ پڑھ اورہرایک آیت کے بدلے میں ایک درجہ بلندہوحتی کہ جتناقرآن کریم تیرے پاس ہے وہ مکمل ہوجائے ، اس کوکہاجائے گاکہ پکڑ، پس وہ پکڑلے گا، ارشادہوگاکہ تجھے معلوم ہے کہ تیرے ہاتھ میں کیاہے ؟ پس اس کے داہنے ہاتھ میں جنت ہوگی اوردوسرے ہاتھ میں دوسری نعمتیں ۔
(شعب الإیمان:أحمد بن الحسین بن علی بن موسی أبو بکر البیہقی(۳:۳۷۷)

حکمت کامفہوم

قُلْتُ:وَہَذِہِ الْأَقْوَالُ کُلُّہُا مَا عَدَا قَوْلَ السُّدِّیِّ وَالرَّبِیعِ وَالْحَسَنِ قَرِیبٌ بَعْضُہَا مِنْ بَعْضٍ،لِأَنَّ الْحِکْمَۃَ مَصْدَرٌ مِنَ الْإِحْکَامِ وَہُوَ الْإِتْقَانُ فِی قَوْلٍ أَوْ فِعْلٍ،فَکُلُّ مَا ذُکِرَ فَہُوَ نَوْعٌ مِنَ الْحِکْمَۃِ الَّتِی ہِیَ الْجِنْسُ، فَکِتَابُ اللَّہِ حِکْمَۃٌ، وَسُنَّۃُ نَبِیِّہِ حِکْمَۃٌ، وَکُلُّ مَا ذُکِرَ مِنَ التَّفْضِیلِ فَہُوَ حِکْمَۃٌ وَأَصْلُ الْحِکْمَۃِ مَا یُمْتَنَعُ بِہِ مِنَ السَّفَہِ، فَقِیلَ لِلْعِلْمِ حِکْمَۃٌ، لِأَنَّہُ یُمْتَنَعُ بِہِ، وَبِہِ یُعْلَمُ الِامْتِنَاعُ مِنَ السَّفَہِ وَہُوَ کُلُّ فِعْلٍ قَبِیحٍ، وَکَذَا الْقُرْآنُ وَالْعَقْلُ وَالْفَہْمُ.
ترجمہ :امام ابوعبداللہ محمدبن احمدالقرطبی المتوفی : ۶۷۱ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ میں کہتاہوںکہ یہ تمام اقوال ماسوائے السدی اورامام الربیع اورامام حسن بصری رحمہم اللہ تعالی کے اقوال ایک دوسرے کے قریب قریب ہیں ۔ کیونکہ حکمت مصدرہے احکام سے اوراس کامعنی ہے قول یافعل میں پختہ یامضبوط ہونا، پس کتاب اللہ حکمت ہے اورحضورتاجدارختم نبوت ﷺکی سنت کریمہ بھی حکمت ہے ۔ اورفضیلت میں سے جو کچھ ذکرکیاگیاہے وہ سب حکمت ہے ۔ دراصل حکمت وہ شئی ہے جس کے سبب انسان سفاہت (بے وقوفی ) سے باز رہے ، پس علم کو حکمت کہاگیاکیونکہ اس کے سبب اس سے روکاجاسکتاہے اوراس کے ساتھ سفاہت اورپاگل پن سے باز رہنے کوجاناجاسکتاہے ۔ اورسفاہت سے مراد ہر وہ فعل ہے جو قبیح ہواوراسی طرح قرآن کریم عقل وفہم وفراست یہ سب حکمت ہیں کیونکہ ان کے سبب سفاہت کے ارتکاب سے بازرہاجاتاہے ۔
(تفسیر القرطبی:أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن أبی بکر بن فرح الأنصاری الخزرجی شمس الدین القرطبی (۳:۳۲۹)

قرآن کریم ہی علم کاسرچشمہ ہے

عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ،أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ،قَالَ:مَنْ قَرَأَ الْقُرْآنَ فَقَدِ اسْتَدَرَجَ النُّبُوَّۃَ بَیْنَ جَنْبَیْہِ غَیْرَ أَنَّہُ لَا یُوحَی إِلَیْہِ،لَا یَنْبَغِی لِصَاحِبِ الْقُرْآنِ أَنْ یَحِدَّ مَعَ مَنْ حَدَّ،وَلَا یَجْہَلَ مَعَ مَنْ جَہِلَ وَفِی جَوْفِہِ کَلَامُ اللَّہِ تَعَالَی۔
ترجمہ :حضرت سیدناعبداللہ بن عمرورضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضورتاجدارختم نبوت ﷺنے فرمایا:جس نے قرآن کریم پڑھااس نے اپنے سینے میں فیضان نبوت جمع کرلیالیکن اس کی طرف وحی نہیں کی جاتی اورجس نے قرآن کریم پڑھاپھراس نے کسی دوسرے کے متعلق یہ خیال کیاکہ اس کو اس سے افضل نعمت ملی ہے تواس نے اس چیز کو بڑاجانااورجس کو اللہ تعالی نے بڑافرمایااس کو چھوٹاسمجھا۔ صاحب قرآن کے لئے مناسب نہیں کہ وہ غصہ کرے اس سے جو اس کے ساتھ غصہ کرے اورجہالت کامظاہرہ کرے اس سے جو اس کے ساتھ جہالت کامظاہرہ کرے جبکہ اس کے دل میں اللہ تعالی کاقرآن کریم ہے ۔
(المستدرک علی الصحیحین:أبو عبد اللہ الحاکم محمد بن عبد اللہ بن محمد(۱:۷۳۸)

اس حدیث شریف سے وہ مولوی حضرات عبرت حاصل کریں جو احساس کمتری کاشکاررہتے ہیں اوربے دینوںکی بڑی بڑی گاڑیاں اوران کے محلات دیکھ کر ان کے منہ میں پانی آجاتاہے ۔اوریہ لوگ یہ بات بھول جاتے ہیں کہ اللہ تعالی نے انہیں صرف دنیاکامال دیاہے اورتمھیں تورب تعالی نے اپناکلام جو اس نے اپنے حبیب کریم ﷺپروحی فرمایاوہ عطافرمادیاہے ۔اس احساس کمتری نے آج بہت سے مولویوں کو دین سے دورکردیاہے اورآج بہت سے مولوی کف افسوس ملتے دکھائی دیتے ہیں کہ کاش ہم نے دین نہ پڑھاہوتااورہم نے بھی انگریزی تعلیم حاصل کی ہوتی اورآج ہم بھی اس دنیوی عیش وآرام میں ہوتے ۔ ایسے لوگ جو قرآن کریم پڑھ کر افسوس کرتے نظرآتے ہیں یہ ذراجاکرعلماء حق سے سوال کریں کہ کوئی حافظ قرآن قرآن پڑھنے کے بعد یہ کہے کہ مجھے افسوس ہے کہ میں قرآن کریم نہ پڑھتابلکہ انگریزی پڑھتاتواس کے متعلق شرع شریف کیافرماتی ہے ؟

اس طرح لبرل وسیکولر منافقین کاگروہ ہے وہ بھی ہمہ وقت یہ بکواس کرتانظرآتاہے کہ ہم نے اپنے بچوں کو قرآن پڑھواکربھوکانہیں مارنا۔ میں پہلے جس مسجد شریف میں خدمت دین کے واسطے مامورتھاوہاں ایک نماز ی نے رمضان المبارک میں اپنابچہ میرے پاس لاکرکہاکہ اسے آ پ قرآن کریم پڑھادیں تاکہ رمضان المبارک میں کچھ نہ کچھ پڑھ لے گا۔ جب وہ بچہ پڑھنے لگاتودوتین دن بعد اس کاماموں جو کہ پنجاب یونیورسٹی سے پوزیشن ہولڈرتھااورکسی بڑے عہدے پر حکومت کانوکرتھاوہ آیااوراس نے بڑے غصے میں کہاکہ مولوی صاحب !ہم نے اپنے بچے کوقرآن پڑھواکربھوکانہیں مارنا، بس کریں جو اس نے پڑھ لیاہے وہی اس کو کافی ہے ۔ اب آپ ہی غورکریں کہ ان بے دینوں نے کس طرح قرآن کریم کے متعلق نظریات بنالئے ہیں کہ نعوذ باللہ من ذلک قرآن کریم پڑھنے سے انسان بھوکامرجاتاہے ۔

محدث کبیرامام احمدرضاحنفی رحمہ اللہ تعالی کافتوی شریفہ

امام احمدرضاحنفی رحمہ اللہ تعالی جب حرمین شریفین گئے تو علماء حرمین نے آپ سے سوالات کئے ، آپ رحمہ اللہ تعالی نے ان کے جوابات دئیے ، ان سوالات میں سوال نمبرپچیس اورا س کاجواب نقل کیاجاتاہے جس سے آپ کو اندازہ لگاناآسان ہوجائے گاکہ اس کے متعلق امام احمدرضارحمہ اللہ تعالی کانظریہ کیاہے ؟
اگوکوئی شخص یہ کہے کہ یہ آیت کریمہ{ وَ قُلْ رَّبِّ زِدْنِیْ عِلْمًا }سورۃ طہ:۱۱۴)
اور عرض کرو کہ اے میرے رب مجھے علم زیادہ دے ۔
اوریہ آیت مبارکہ تم فرمادو کہ{ قُلْ ہَلْ یَسْتَوِی الَّذِیْنَ یَعْلَمُوْنَ وَ الَّذِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَ اِنَّمَا یَتَذَکَّرُ اُولُوا الْاَلْبٰبِ}سورۃ الزمر:۹)ترجمہ کنزالایمان :تم فرماؤ کیا برابر ہیں جاننے والے اور انجان نصیحت تو وہی مانتے ہیں جو عقل والے ہیں ۔
اوریہ حدیث شریف کہ{ اطلبوا العلم ولو بالصین}، علم حاصل کروخواہ تمھیں چین جاناپڑے ، اس سے علوم دینیہ ہی خاص نہیں ہیں بلکہ ان آیات واحادیث میں عموم ہے کہ اللہ تعالی اورحضورتاجدارختم نبوت ﷺنے مسلمانوں اورنصرانیوں اورمشرکین کے علوم اورانگریزی زبان کے سیکھنے کابھی حکم دیاہے وگرنہ حضورتاجدارختم نبوت ﷺچین کانام نہ لیتے حالانکہ وہاں چین میں عربی زبان نہ تھی ۔حضورتاجدارختم نبوت ﷺکی مراد چینی زبان سیکھناتھی ۔
الجواب :امام احمدرضاحنفی رحمہ اللہ تعالی اس کے جواب میں فرماتے ہیں کہ یہ قرآن کریم کی تفسیربالرائے ہے جو کہ سقیم ہے اورحضورتاجدارختم نبوت ﷺپر بہت بڑاافتراء ہے اوریہ خبیث نیچریوں کی کی ہوئی بکواس ہے ، ہم نے آیات کریمہ کی مراد کے متعلق اورحدیث مذکورکے متعلق تفصیل سے کلام کیاہے اپنے فتاوی{ العطایا النبویہ فی الفتاوی الرضویہ} کی کتاب الحظروالاباحۃ میں ، ان سے مراد کیاہے باقی رہی یہ حدیث توایک قوم کے نزدیک موضوع ہے اوراس کے ضعیف ہونے پرمحدثین کااتفاق ہے ۔
(فتاوی الحرمین برجف ندوۃ المین لامام احمدرضاخان (۲۷،۲۸)مطبوعہ ترکی

انگریزی تعلیم کاحکم شرعی اوراس کے دینی ودنیاوی نقصانات

انگریزی تعلیم کا حکم شرعی یہ ہے کہ انگریزی اپنی ذات کے اعتبار سے ایک زبان ہے اور باعتبار عرف کے ایک خالص نصاب کا نام ہے ،جو مختلف علوم وفنون کا حامل ہے۔ شریعت نے کسی زبان یا کسی علم وفن کا سیکھنا ممنوع قرار نہیں دیا لیکن قبائح(برائیوں)او رمفاسد کے مل جانے کی وجہ سے ممنوع ہونے کا حکم لگایا گیا ہے۔اب مشاہدہ اور تجربہ سے ثابت ہو چکا ہے کہ موجودہ انگریزی تعلیم کا یہ لازم اثر ہے کہ وضع قطع شرعی نہیں رہتی۔ عقائد بھی متزلزل ہو جاتے ہیں، مغربیت کی محبت اور عظمت نظروں میں ایسی سما جاتی ہے کہ اسلام اور خلافت راشدہ اس کے مقابلہ میں ہیچ نظر آنے لگتی ہے، حتی کہ اسلام اور مسلمانوں سے دلی ہم دردی نہیں رہتی۔ اسلامی تمدن کو حقارت اور نفرت کی نظروں سے دیکھتے ہیں، احکام شرعیہ کی قلب میں کوئی وقعت نہیں رہتی، مسجد کے بجائے سینما اور قرآن کریم کی تلاوت کے بجائے ناول ان کا محبوب بن جاتا ہے حتی کہ رفتہ رفتہ مزاج ہی بدل جاتا ہے اور بجائے اسلامی مزاج کے مغربی مزاج ہو جاتا ہے اور ظاہر ہے کہ یہ تمام امور اللہ اور اس کے حبیب کریم ﷺ کے نزدیک مبغوض(جس سے بغض رکھا جائے)اور ملعون (جس پر لعنت کی جائے)ہیں اور دین کی بربادی اور تباہی کا پورا سامان ہیں۔ ان قبائح اور مفاسد کی بناء پر علماء نے انگریزی تعلیم کے عدم جواز کا فتوی دیا اور اگر انگریزی تعلیم ان مفاسد سے خالی ہو تو پھر ناجائز نہ ہو گی بلکہ اگر کوئی شخص دنیاوی ضرورت سے انگریزی پڑھنا چاہے تو وہ ضرورت اگر شرعاً جائز ہو تو انگریزی پڑھنا جائز ہو گا ورنہ ناجائز ہو گا۔ اور اگر کسی دینی ضرورت سے انگریزی پڑھے مثلاً مخالفین کے اعتراضات کا جواب دینے کے لیے، یا مخالفین کو دعوت اسلام دینے کے لیے پڑھے تاکہ کفار سے اسلامی حکومت کے معاملات میں مراسلت او رمکاتبت کرسکے تو یہ صرف جائز نہیں بلکہ عین قربت وعبادت ہے او راگر محض دنیوی ترقی کے لیے پڑھے تو اس کا یہ حکم نہیں۔ماخوذ از احسن التفہیم لمسئلۃ التعلیم )

کیاقرآن پڑھنے سے انسان بھوکامرجاتاہے؟

جویہ کہے کہ۔۔وہ ہم میں سے نہیں ہے
عَنِ ابْنِ أَبِی مُلَیْکَۃَ، عَنْ عُبَیْدِ اللَّہِ بْنِ أَبِی نَہِیکٍ،عَنْ سَعْدٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ:لَیْسَ مِنَّا مَنْ لَمْ یَتَغَنَّ بِالْقُرْآنِ قَالَ سُفْیَانُ یَعْنِی یَسْتَغْنِی بِہِ۔
ترجمہ :حضرت سیدناعبیداللہ بن ابی نہیک رضی اللہ عنہ حضرت سیدناسعد رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیںکہ اے کمائی کرنے والے تاجرو !میں نے حضورتاجدارختم نبوت ﷺکوفرماتے ہوئے سناہے کہ وہ ہم میں سے نہیں ہے جو قرآن کریم کے ساتھ مستغنی نہ ہو۔ حضرت سیدناسفیان رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ اس سے مراد یہ ہے کہ وہ ہم میں سے نہیں ہے جو قرآن کریم کو غنی ہونے کاسبب نہ جانے ۔
(مسند الحمیدی:أبو بکر عبد اللہ بن الزبیر بن عیسی بن عبید اللہ القرشی الأسدی الحمیدی المکی (ا:۱۹۲)

قرآن کریم توامیرکردیتاہے

عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو،أَنَّ امْرَأَۃً أَتَتِ النَّبِیَّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ:إِنَّ زَوْجِی مِسْکِینٌ لَا یَقْدِرُ عَلَی شَیء ٍ، فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِزَوْجِہَا:أَتَقْرَأُ الْقُرَآنَ شَیْئًا؟ قَالَ:أَقْرَأُ سُورَۃَ کَذَا وَسُورَۃَ کَذَا،فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:بَخٍ بَخٍ زَوْجُکِ غَنِیٌّ،فَالْزَمِیہِ فَلَزِمَتِ الْمَرْأَۃُ زَوْجَہَا،ثُمَّ أَتَتِ النَّبِیَّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ،فَقَالَتْ:یَا نَبِیَّ اللہِ قَدْ بَسَطَ اللہُ عَلَیْنَاوَرَزَقَنَا۔
ترجمہ :حضرت سیدناعبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہمافرماتے ہیں کہ ایک مائی صاحبہ حضورتاجدارختم نبوت ﷺکی بارگاہ اقدس میں حاضرہوئی اورعرض کی یارسول اللہ ﷺ! میراشوہرمسکین ہے وہ کسی چیز پر قادرنہیں ہے ،حضورتاجدارختم نبوت ﷺنے اس کے شوہرسے فرمایا: کیاتوقرآن کریم کی تلاوت کرتاہے ؟ اورفرمایاکہ توفلاں سورت پڑھ ،اس نے تلاوت کی توحضورتاجدارختم نبوت ﷺنے فرمایاشاباش تیراشوہرتوغنی ہے ، پس وہ عورت اپنے خاوندکے ساتھ رہی پھرحضورتاجدارختم نبوت ﷺکی بارگاہ میں حاضرہوئی اورعرض کی : یارسول اللہ ﷺ! اللہ تعالی نے ہم پر رزق کشادہ فرمادیاہے ۔
(المعجم الکبیر:سلیمان بن أحمد بن أیوب بن مطیر اللخمی الشامی، أبو القاسم الطبرانی (۱۳:۴۱)

زیادہ نفع پانے والاتاجرکون؟

عَنْ أَبِی أُمَامَۃَ،أَنَّ رَجُلًا جَاء َ إلی النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:یَا نَبِیَّ اللہِ،اشْتَرَیْتُ مِقْسَمَ بَنِی فُلَانٍ، فَرَبِحْتُ فِیہِ کَذَاوَکَذَا قَالَ:أَفَلَا أُنَبِّئُکُمْ بِمَا ہُوَ أَکْثَرُ رِبْحًا؟قَالَ:وَہَلْ یُوجَدُ؟قَالَ:رَجُلٌ تَعَلَّمَ عَشْرَ آیَاتٍ فَذَہَبَ الرَّجُلُ فَتَعْلَمَ عَشْرَ آیَاتٍ،فَأَتَی النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرَہُ۔
ترجمہ :حضرت سیدناابوامامہ رضی اللہ عنہ روایت فرماتے ہیں کہ ایک شخص حضورتاجدارختم نبوت ﷺکی بارگاہ اقدس میں حاضرہوااورعرض کی : یارسول اللہ ﷺ! میں نے بنی فلاں کاحصہ خریداہے اورمجھے اس پر اتنااتنانفع ہواہے ، حضورتاجدارختم نبوت ﷺنے فرمایا: میں تجھے اس سے زیادہ نفع پانے والے شخص کے بارے میں خبرنہ دوں؟ اس نے عرض کی : یارسول اللہ ﷺ! کیاکوئی ایساشخص بھی ہے جو اس سے زیادہ نفع کمالے ؟ توحضورتاجدارختم نبوت ﷺنے فرمایا: اس سے زیادہ نفع کمانے والاوہ شخص ہے جو قرآن کریم کی دس آیات کو سیکھے ، پھروہ شخص چلاگیااوراس نے دس آیات کریمہ سیکھ لیں،پھروہ حضورتاجدارختم نبوت ﷺکی خدمت اقدس میں حاضرہوکرعرض گزارہواکہ میں نے دس آیات کریمہ پڑھ لی ہیں۔
(شعب الإیمان:أحمد بن الحسین بن علی بن موسی الخُسْرَوْجِردی الخراسانی، أبو بکر البیہقی (۳:۳۴۰)

ساری دنیاسے بہترسوداکیاہے ؟

وَأَخْبَرَنِی أَبُو عُبَیْدَۃَ أَنَّ ابْنَ مَسْعُودٍکَانَ إِذَا أَصْبَحَ فَخَرَجَ أَتَاہُ النَّاسُ إِلَی دَارِہِ،فَیَقُولُ:عَلَی مَکَانِکُمْ ،ثُمَّ یَمُرُّ بِالَّذِینَ یُقْرِئُہُمُ الْقُرْآنَ فَیَقُولُ:أَبَا فُلَانٍ بِأَیِّ سُورَۃٍ أَنْتَ؟ فَیُخْبِرُہُ،فَیَقُولُ:فِی أَیِّ آیَۃٍ فَیُخْبِرُہُ فَیَفْتَحُ عَلَیْہِ الْآیَۃَ الَّتِی تَلِیہَا، ثُمَّ یَقُولُ:تَعَلَّمْہَا فَإِنَّہَا خَیْرٌ لَکَ مِمَّا بَیْنَ السَّمَاء ِ وَالْأَرْضِ ،قَالَ:فَیَظُنُّ الرَّجُلُ أَنَّہُ لَیْسَ فِی الْقُرْآنِ آیَۃٌ خَیْرٌ مِنْہَا،ثُمَّ یَمُرُّ بِالْآخَرِ فَیَقُولُ لَہُ مِثْلَ ذَلِکَ،حَتَّی یَقُولَ ذَلِکَ لِکُلِّہِمْ۔
ترجمہ :حضرت سیدناابوعبیدہ رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ حضرت سیدناعبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ صبح ہی صبح اپنے کاشانہ اقدس سے باہرتشریف لے آتے اورلوگ بھی صبح ہی صبح ان کے گھرکے باہرجمع ہوجاتے تھے ، پھرآپ رضی اللہ عنہ فرماتے کہ تم سب اپنی اپنی جگہ ٹھہرو، پھرآپ رضی اللہ عنہ لوگوں سے فرداًفرداً سوال کرتے کہ اے فلاں ! آپ کونسی سورت پڑھتے ہواورکونسی آیت پڑھتے ہو؟ جب وہ خبردیتے توآپ رضی اللہ عنہ اسے سبق پڑھایاکرتے تھے اوراسی طرح وہ ہر ایک شخص کوایک آیت کریمہ سکھاتے پھرفرماتے کہ اس آیت کو سیکھ لے کیونکہ یہ تیرے اس تمام سے بہترہے جو آسمان اورزمین کے درمیان ہے حتی کہ آپ رضی اللہ عنہ تمام قرآن کریم کی ہرہر آیت کے بارے میں یہی فرمایاکرتے تھے ۔
(المعجم الکبیر:سلیمان بن أحمد بن أیوب بن مطیر اللخمی الشامی، أبو القاسم الطبرانی (۹:۱۳۵)

اصل امیری کیاہے ؟

عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ قَالَ:قَالَ ابْنُ مَسْعُودٍ:لَوْ قِیلَ لِأَحَدِکُمْ:لَوْ غَدَوْتَ إِلَی الْقَرْیَۃِ کَانَ لَکَ أَرْبَعُ قَلَائِصَ لَبَاتَ یَقُولُ:قَدْ آنَ لِی أَنْ أَغْدُوَ،فَلَوْ أَنَّ أَحَدَکُمْ غَدَافَتَعَلَّمَ آیَۃً مِنْ کِتَابِ اللَّہِ لَکَانَتْ خَیْرًا لَہُ مِنْ أَرْبَعٍ وَأَرْبَعٍ وَأَرْبَعٍ حَتَّی عَدَّ شَیْئًا کَثِیرًا.
ترجمہ:حضرت سیدناابواسحاق رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ حضرت سیدناعبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے ارشادفرمایا:تم اگرصبح کے وقت فلاں شہرکو جائو توتمھارے لئے چاراونٹنیاں ہیں۔ فرماتے تھے کہ وہ کہتاہے کہ میں کیسے صبح سویرے جاسکتاہوں اگرتم میں سے کوئی صبح جائے اوراللہ تعالی کی کتاب یعنی قرآن کریم کی کوئی آیت سیکھے تویہ اس کے لئے کئی چاراونٹنیوں سے بہترہے حتی کہ آپ نے بہت سی تعداد شمارکی ۔
(المصنف:أبو بکر عبد الرزاق بن ہمام بن نافع الحمیری الیمانی الصنعانی (۳:۳۶۵)

خیروبرکت کیاہے ؟

عَنِ الْحَسَنِ،عَن أَنَس؛أَنَّ النَّبِیّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ:إِنَّ الْبَیْتَ الَّذِی یُقْرَأُ فِیہِ الْقُرْآنُ یَکْثُرُ خَیْرُہُ وَالْبَیْتُ الَّذِی لا یُقْرَأُ فِیہِ الْقُرْآنُ یَقِلُّ خَیْرُہُ.
ترجمہ :حضرت سیدناانس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضورتاجدارختم نبوت ﷺنے فرمایا: وہ گھرجس میں اللہ تعالی کے قرآن کریم کی تلاوت کی جائے اس میں خیروبرکت زیادہ ہوتی ہے اوروہ گھرجس میں اللہ تعالی کے کلام پاک کی تلاوت نہ کی جائے تو وہاں خیروبرکت کم ہوتی ہے ۔
(مسند البزار :أبو بکر أحمد بن عمرو المعروف بالبزار (۱۳:۲۰۵)

حافظ قرآن سے بڑھ کرکوئی امیرنہیں

عَنْ أَنَسٍ،قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:الْقُرْآنُ غَنِیٌّ لَا فَقْرَ بَعْدَہُ،وَلَا غِنًی دُونَہُ۔
ترجمہ :حضرت سیدناانس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضورتاجدارختم نبوت ﷺنے فرمایا: قرآن کریم غنی ہونے کاسبب ہے اوراس کے بعد کوئی فقریعنی محتاجی نہیں ہے اورقرآن کریم کے بغیرغنانہیں ہے ۔
(مسند الشہاب:أبو عبد اللہ محمد بن سلامۃ بن جعفر بن علی بن حکمون القضاعی المصری (ا:۱۸۶)
احساس کمتری کاشکارمولوی کے لئے حضورتاجدارختم نبوت ﷺ کافرمان
حَدَّثَتْنَا سَاکِنَۃُ بِنْتُ حُمَیْدٍ الْغَنَوِیَّۃُ،قَالَتْ:سَمِعْتُ رَجَاء ً الْغَنَوِیَّ، یَقُولُ:وَکَانَتْ أُصِیبَتْ یَدُہُ یَوْمَ الْجَمَلُ: قَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلمَّ:مَنْ أَعْطَاہُ اللہُ حِفْظَ کِتَابِہِ لَوْ ظَنَّ أَنَّ أَحَدًا أُوتِیَ أَفْضَلَ مِمَّا أُوتِیَ فَقَدْ غَمَطَ أَعْظَمَ النِّعَمِ ۔
ترجمہ:حضرت سیدنارجاالغنوی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضورتاجدارختم نبوت ﷺنے فرمایا: جس شخص کو اللہ تعالی نے اپنے قرآن کریم کے حفظ کی دولت سے نوازا، پھراس نے کسی اورکے متعلق یہ گمان کیاکہ اسے اس سے افضل چیز دی گئی ہے تواس نے اللہ تعالی کی عظیم نعمت کی ناشکری کی ہے ۔
(شعب الإیمان:أحمد بن الحسین بن علی بن موسی الخُسْرَوْجِردی الخراسانی، أبو بکر البیہقی (۴:۱۷۸)

دین کے طلبہ کی برکت سے عذاب کارفع ہونا

ثَنَا ثَابِتُ بْنُ عَجْلاَنَ الأَنْصَارِیُّ قَالَ:کَانَ یُقَالُ:إِنَّ اللَّہَ لَیُرِیدُ الْعَذَابَ بِأَہْلِ الأَرْضِ،فَإِذَا سَمِعَ تَعْلِیمَ الصِّبْیَانِ الْحِکْمَۃَ صَرَفَ ذَلِکَ عَنْہُمْ قَالَ مَرْوَانُ:یَعْنِی بِالْحِکْمَۃِ:الْقُرْآنَ ۔
ترجمہ :حضرت سیدناثابت بن عجلان انصاری رضی اللہ عنہ نے خبردی ہے کہ بیان کیاجاتاہے کہ بے شک اللہ تعالی اہل زمین کو عذا ب دینے کاارادہ فرماتاہے اورجب وہ استاد کو بچوںکو قرآن کریم اورسنت کریمہ کی تعلیم دیتے ہوئے سنتاہے تو وہ اس عذاب کو ان سے پھیردیتاہے ۔ اورمروان نے کہاہے کہ حکمت سے مراد قرآن کریم ہے ۔
(مسند الإمام الدارمی:أبو محمد عبد اللہ بن عبد الرحمن الدارمی(۲:۱۰۶۴)

قرآن کریم کی ناقدری نہ کرو

وَقَالَ بَعْضُ الْحُکَمَاء ِ:مَنْ أُعْطِیَ الْعِلْمَ وَالْقُرْآنَ یَنْبَغِی أَنْ یُعَرِّفَ نَفْسَہُ،وَلَا یَتَوَاضَعَ لِأَہْلِ الدُّنْیَا لِأَجْلِ دُنْیَاہُمْ، فَإِنَّمَا أُعْطِیَ أَفْضَلَ مَا أُعْطِیَ أَصْحَابُ الدُّنْیَا۔
ترجمہ :بعض حکماء کرام نے فرمایاہے کہ جس کو علم اورقرآن کریم عطاکیاگیاہواسے چاہئے کہ وہ اپنے آپ کو پہچانے اوراہل دنیاکے سامنے ان کی دنیاکی وجہ سے نہ جھکے کیونکہ جو اسے عطاکیاگیاہے وہ اس سے بہت افضل ہے جودنیاداروں کو دیاگیاہے ۔
(تفسیر القرطبی:أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن أبی بکر بن فرح الأنصاری الخزرجی شمس الدین القرطبی (۳:۳۲۹)

معارف ومسائل

(۱) فلسفہ ، منطق اورریاضی وغیرہ حکمت نہیں ہے ۔ قرآن وحدیث اورفقہ وغیرہ علوم دینیہ حکمت ہیں ، جس کی یہاں تعریف ہے ۔ حضرت سیدناعمر رضی اللہ عنہ نے توریت جمع فرمانے اوراس کامطالعہ کرنے کی اجازت چاہی توآپ کو حضورتاجدارختم نبوت ﷺنے منع فرمادیااورفرمایاکہ اگرحضرت سیدناموسی علیہ السلام آج زندہ ہوتے تو وہ بھی ہماری ہی پیروی کرتے ۔ توکیابوعلی ، جالینوس کی خلاف شرع بکواس توریت سے بڑھ کرہے ؟۔
(۲) خیال رہے کہ مال ودولت خیرکثیرنہیں ہے ، اسے تورب تعالی نے کثیرفرمایا، اگریہ خیرکثیرہے تو چاہئے تھاکہ اکثرانبیاء کرام علیہم السلام جیسے حضرت سیدناعیسی علیہ السلام اورحضرت سیدنایحیی علیہ السلام جومال نہ رکھتے تھے وہ خیرکثیرسے محروم ہوتے اورفرعون ،نمرود اورقارون وغیرہ بے دین مالدارخیرکثیروالے ہوتے ۔ ایسے ہی حضرت سیدنابلال رضی اللہ عنہ اورحضرت سیدناصہیب رضی اللہ عنہ توخیرکثیرے محروم ہوتے اورابوجہل خیرکثیروالاہوتا۔
(۳) علم دین محض اپنی کوشش سے نہیں ملتا، رب تعالی کی کرم نواز سے ملتاہے ،دیکھوارشادی باری تعالی ہواجسے چاہے حکمت عطافرمادے ۔ کتب اوراستاد تو اس علم کے حاصل ہونے کے اسباب ہیںتاہم سبب مسبب الاسباب کے ہاتھ ہے ۔ کتب اوراستاد سے جو علم ملتاہے وہ ایساہے جیساکہ بجلی کی تاریں جوڑ دینااورفیض ربانی ایساہے جیسے اس میں بجلی کاآجاناکہ بغیربجلی کے تاریں وغیرہ سب کچھ ہیں مگربے کارہیں ۔ تفسیرنعیمی از مفتی احمدیارخان نعیمی ( ۳: ۱۱۵)
(۴) اللہ تعالی نے حکمت کی عظمت وشان کو بیان فرمایااوراسے خیرکثیرقراردیااورجن لوگوں کواللہ تعالی کی طرف سے حکمت دی گئی ان کی بھی تعریف وتوقیرکااعلان فرمایااوریہ بات واضح ہے کہ جن لوگوں کو حکمت ملی ہے وہ از روئے قرآن وحدیث حکیم ہی کہلائیں گے ، پس معلوم ہوناچاہئے کہ اس حکمت کے ساتھ موصوف حکیم لوگ کون ہوں گے؟ جنہیں خیرکثیر کی دولت سے نوازاگیا۔ اول توحضرات انبیاء کرام علیہم السلام ہی اس کے مصداق ہیںپھروہ لوگ جو انبیاء کرام علیہم السلام کے وارث اورجانشین ہیں۔ یعنی علماء حق جنہوں نے علم وعقل کے ذریعے حق کوپالیا، جس طرح وہ علمی حیثیت سے وارث انبیاء علیہم السلام قرارپائے اسی طرح وہ حکمت انبیاء کرام علیہم السلام کی روسے بھی حکیم اورخیرکثیرکے مصداق اورجامع قرارپائے ۔
پوری دنیااوردنیاوی سازوسامان کو قرآن کریم نے متاع قلیل کہہ کرحکمت کے مقابلے میں اسے نہایت ہی حقیرقراردیاجس سے دنیاداروں کی حقارت ثابت ہوئی اورعلم وحکمت کو خیرکثیرکہہ کر دنیاداروں پر علماء ربانی کی برتری ثابت ہوئی توعلماء کرام کو چاہئے کہ وہ اللہ تعالی کے قرآن کریم کے فیصلے کی روسے اپنے آپ کو قطعاً حقیراورمعمولی نہ سمجھیں ۔ اورکسی صورت دنیاداروں کے سامنے تواضع اورانکساری کامعاملہ نہ کریں ۔ اسی بنیادپرحضورتاجدارختم نبوت ﷺنے فرمایا: بدترین عالم وہ ہے جو دنیاداروں کے دروازوں پر حاضری دے ۔ اوران کو اپنے سے اعلی اوربرترتصورکرتاہے ۔

Leave a Reply