تفسیر سورہ بقرہ آیت ۲۶۸ ۔ اَلشَّیْطٰنُ یَعِدُکُمُ الْفَقْرَ وَیَاْمُرُکُمْ بِالْفَحْشَآء ِ وَاللہُ یَعِدُکُمْ مَّغْفِرَۃً مِّنْہُ وَفَضْلً

شیطان اورلبرل دونوں کامقصدِ حیات ایک کیوں؟

{اَلشَّیْطٰنُ یَعِدُکُمُ الْفَقْرَ وَیَاْمُرُکُمْ بِالْفَحْشَآء ِ وَاللہُ یَعِدُکُمْ مَّغْفِرَۃً مِّنْہُ وَفَضْلًا وَاللہُ وٰسِعٌ عَلِیْمٌ}(۲۶۸)
ترجمہ کنزالایمان : شیطان تمہیں اندیشہ دلاتا ہے محتاجی کا اور حکم دیتا ہے بے حیائی کا اور اللہ تم سے وعدہ فرماتا ہے بخشش اور فضل کا اور اللہ وسعت والا علم والا ہے ۔
ترجمہ ضیاء الایمان : شیطان تمھیں تنگدستی سے ڈراتاہے اورحکم دیتاہے بے حیائی اختیارکرنے کااوراللہ تعالی تم سے وعدہ فرماتاہے بخشش اورفضل وکرم کااوراللہ تعالی بڑی وسعت والااورسب کچھ جاننے والاہے ۔
دووعدے اللہ تعالی کی طرف سے
قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ:فِی ہَذِہِ الْآیَۃِ اثْنَتَانِ مِنَ اللَّہِ تَعَالَی وَاثْنَتَانِ مِنَ الشَّیْطَانِ۔
ترجمہ :حضرت سیدناعبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہمافرماتے ہیں کہ اس آیت کریمہ میں دووعدے اللہ تعالی کی طرف سے ہیں اوردووعدے شیطان کی طرف سے ۔
(أیسر التفاسیر :جابر بن موسی بن عبد القادر بن جابر أبو بکر الجزائری(۱:۲۶۱)
تفسیرنبوی ﷺ
عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مَسْعُودٍ،قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:إِنَّ لِلشَّیْطَانِ لَمَّۃً بِابْنِ آدَمَ وَلِلْمَلَکِ لَمَّۃً فَأَمَّا لَمَّۃُ الشَّیْطَانِ فَإِیعَادٌ بِالشَّرِّ وَتَکْذِیبٌ بِالحَقِّ،وَأَمَّا لَمَّۃُ الْمَلَکِ فَإِیعَادٌ بِالخَیْرِ وَتَصْدِیقٌ بِالحَقِّ، فَمَنْ وَجَدَ ذَلِکَ فَلْیَعْلَمْ أَنَّہُ مِنَ اللہِ فَلْیَحْمَدِ اللَّہَ وَمَنْ وَجَدَ الأُخْرَی فَلْیَتَعَوَّذْ بِاللَّہِ مِنَ الشَّیْطَانِ الرَّجِیمِ، ثُمَّ قَرَأَ (الشَّیْطَانُ یَعِدُکُمُ الفَقْرَ وَیَأْمُرُکُمْ بِالفَحْشَاء ِ)الآیَۃَ۔
ترجمہ :حضرت سیدناعبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضورتاجدارختم نبوت ﷺنے فرمایا: آدمی پر شیطان کا اثر (وسوسہ)ہوتا ہے اور فرشتے کا بھی اثر (الہام)ہوتا ہے۔ شیطان کا اثر یہ ہے کہ انسان سے برائی کا وعدہ کرتا ہے، اور حق کو جھٹلاتا ہے۔ اور فرشتے کا اثر یہ ہے کہ وہ خیر کا وعدہ کرتا ہے، اور حق کی تصدیق کرتا ہے۔ تو جو شخص یہ پائے اس پر اللہ کا شکر ادا کرے۔ اور جو دوسرا اثر پائے یعنی شیطان کا تو شیطان سے اللہ تعالی کی پناہ حاصل کرے۔ پھر آپ ﷺنے آیت {الشَّیْطَانُ یَعِدُکُمْ الْفَقْرَ وَیَأْمُرُکُمْ بِالْفَحْشَائِ} پڑھی۔
(سنن الترمذی:محمد بن عیسی بن سَوْرۃ بن موسی بن الضحاک، الترمذی، أبو عیسی (۵:۶۹)
فرمان الہی
وَرُوِیَ أَنَّ فِی التَّوْرَاۃ’’عَبْدِی أَنْفِقْ مِنْ رِزْقِی أَبْسُطْ عَلَیْکَ فَضْلِی فَإِنَّ یَدِی مَبْسُوطَۃٌ عَلَی کُلِّ یَدٍ مَبْسُوطَۃ‘‘۔
ترجمہ :توراۃ شریف میں ہے کہ اللہ تعالی نے فرمایا: اے میرے بندے! میرے رزق سے خرچ کرمیں تجھ پر اپنافضل وسیع کردونگاکیونکہ میراہاتھ ہرکشادہ ہاتھ سے زیادہ کشادہ ہے ۔
(الکشف والبیان عن تفسیر القرآن:أحمد بن محمد بن إبراہیم الثعلبی، أبو إسحاق (۲:۲۷۱)
امام ابوعبداللہ القرطبی المتوفی : ۶۷۱ھ) فرماتے ہیں
وَأَنَّ الشَّیْطَانَ لَہُ مَدْخَلٌ فِی التَّثْبِیطِ لِلْإِنْسَانِ عَنِ الْإِنْفَاقِ فِی سَبِیلِ اللَّہِ،وَہُوَ مَعَ ذَلِکَ یَأْمُرُ بِالْفَحْشَاء ِ وَہِیَ الْمَعَاصِی وَالْإِنْفَاقِ فِیہَا.
ترجمہ :امام ابوعبداللہ محمدبن احمدالقرطبی المتوفی :۶۷۱ھ)رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ شیطان کواللہ تعالی کی راہ میں خرچ کرنے سے بازرکھنے میں خاصہ دخل ہے اوروہ اس کے ساتھ ساتھ فحاشی کاحکم دیتاہے اورفحشاء سے مراد معاصی اوران میں خرچ کرناہے ۔
(تفسیرالقرطبی لامام ابی عبداللہ محمدبن احمدالقرطبی (۳:۳۲۸)
شیطان سے مراد کون؟
اخْتَلَفُوا فِی الشَّیْطَانِ فَقِیلَ إِبْلِیسُ وَقِیلَ سَائِرُ الشَّیَاطِینِ وَقِیلَ شَیَاطِینُ الْجِنِّ وَالْإِنْسِ وَقِیلَ النَّفْسُ الْأَمَّارَۃُ بِالسُّوء ِ.
ترجمہ:امام فخرالدین الرازی المتوفی :۶۰۶ھ)رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ اس شیطان کے بارے میں علماء کرام کے مختلف اقوال ہیں:اس سے مراد یاتوابلیس ہے یاپھرسارے شیطان ہیں اوریہ بھی ایک قول ہے کہ اس سے مراد نفس امارہ ہے یاپھراس سے مراد انسانوں میں جو شیطان ہیں(یعنی لبرل وسیکولر)اورنیچری لوگ ۔
(تفسیرکبیرلامام فخرالدین الرازی (۷:۵۵)

حرام سے وہی بچ سکتاہے جس پر اللہ تعالی کاکرم ہو

عَنْ عَوْنِ بْنِ عَبْدِ اللَّہِ،عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ قَالَ:إِنَّمَا مَثَلُ ابْنِ آدَمَ کَالشَّیْء ِ الْمُلْقَی بَیْنَ یَدَیِ اللَّہِ عَزَّ وَجَلَّ وَبَیْنَ الشَّیْطَانِ، فَإِنْ کَانَ لِلَّہِ فِیہِ حَاجَۃٌ حَازَہُ مِنَ الشَّیْطَانِ،وَإِنْ لَمْ یَکُنْ لِلَّہِ فِیہِ حَاجَۃٌ خَلَّی بَیْنَہُ وَبَیْنَ الشَّیْطَانِ ۔
ترجمہ :حضرت سیدناامام احمدبن حنبل رضی اللہ عنہ حضرت سیدناعبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ انسان کی مثال اس چیز کی طرح ہے جو اللہ تعالی اورشیطان کے سامنے پڑی ہو، اگراللہ تعالی اس پر کرم فرماناچاہتاہو تو وہ شیطان سے لے لیتاہے ، اگراللہ تعالی اس پر کرم نہ فرماناچاہتاہوتواسے شیطان کے لئے چھوڑ دیتاہے ۔
(الزہد:أبو عبد اللہ أحمد بن محمد بن حنبل بن ہلال بن أسد الشیبانی:۱۲۸)

شیطان کو پہچاننے کاآسان طریقہ

وَرَوَی الْحَسَنُ،قَالَ بَعْضُ الْمُہَاجِرِینَ:مَنْ سَرَّہُ أَنْ یَعْلَمَ مَکَانَ الشَّیْطَانِ مِنْہُ فَلْیَتَأَمَّلْ مَوْضِعَہُ مِنَ الْمَکَانِ الَّذِی مِنْہُ یَجِدُ الرَّغْبَۃَ فِی فِعْلِ الْمُنْکَرِ.
ترجمہ :حضرت سیدناامام حسن بصری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ بعض مہاجرین صحابہ کرام رضی اللہ عنہم فرماتے ہیں کہ جو شخص یہ چاہتاہے کہ وہ شیطان کامقام جانے تووہ اس جگہ پر غورکرے جہاں سے اسے برائی کی رغبت مل رہی ہے ۔
(التفسیر الکبیر:أبو عبد اللہ محمد بن عمر بن الحسن بن الحسین التیمی الرازی(۷:۵۵)
آج شیطان کو پہچاننے کاآسان طریقہ یہی ہے کہ آپ غورکریں کہ بے حیائی کون پھیلارہاہے توجواب آئے گامیڈیااوراینکراورآپ غورکریں کہ سارے ملک میں بے دینی کون پھیلارہاہے تو جواب آئے گاکہ کالج اوریونیورسٹی ۔ آپ غورکریں کے پورے ملک کو انگریزوں کاغلام کون بنارہاہے توجواب آئے گاکہ جمہوری حکمران تو ثابت ہوجائے گاکہ شیطان کون ہے ؟

شیطان انسان پر کیسے حملہ آورہوتاہے؟

فِی تَفْسِیرِ الْفَحْشَاء ِ،وَہُوَ أَنَّہُ یَقُولُ:لَا تُنْفِقِ الْجَیِّدَ مِنْ مَالِکَ فِی طَاعَۃِ اللَّہِ لِئَلَّا تَصِیرَ فَقِیرًا، فَإِذَا أَطَاعَ الرَّجُلُ الشَّیْطَانَ فِی ذَلِکَ زَادَ الشَّیْطَانُ، فَیَمْنَعُہُ مِنَ الْإِنْفَاقِ فِی الْکُلِّیَّۃِ حَتَّی لَا یُعْطِیَ لَا الْجَیِّدَ وَلَا الرَّدِیء َ وَحَتَّی یَمْنَعَ الْحُقُوقَ الْوَاجِبَۃَ، فَلَا یُؤَدِّی الزَّکَاۃَ وَلَا یَصِلُ الرَّحِمَ وَلَا یَرُدُّ الْوَدِیعَۃَ، فَإِذَا صَارَ ہَکَذَا سَقَطَ وَقْعُ الذُّنُوبِ عَنْ قَلْبِہِ وَیَصِیرُ غَیْرَ مُبَالٍ بِارْتِکَابِہَا، وَہُنَاکَ یَتَّسِعُ الْخَرْقُ وَیَصِیرُ مِقْدَامًا عَلَی کُلِّ الذُّنُوبِ، وَذَلِکَ ہُوَ الْفَحْشَاء ُ وَتَحْقِیقُہُ أَنْ لِکُلِّ خَلْقٍ طَرَفَیْنِ وَوَسَطًا فَالطَّرَفُ الْکَامِلُ ہُوَ أَنْ یَکُونَ بِحَیْثُ یَبْذُلُ کُلَّ مَا یَمْلِکُہُ فِی سَبِیلِ اللَّہِ الْجَیِّدَ وَالرَّدِیء َ وَالطَّرَفُ الْفَاحِشُ النَّاقِصُ لَا یُنْفِقُ شَیْئًا فِی سَبِیلِ اللَّہِ لَا الْجَیِّدَ وَلَا الرَّدِیء َ وَالْأَمْرُ الْمُتَوَسِّطُ أَنْ یَبْخَلَ بِالْجَیِّدِ وَیُنْفِقَ الرَّدِیء َ،فَالشَّیْطَانُ إِذَا أَرَادَ نَقْلَہُ مِنَ الطَّرَفِ الْفَاضِلِ إِلَی الطَّرَفِ الْفَاحِشِ،لَا یُمْکِنُہُ إِلَّا بِأَنْ یَجُرَّہُ إِلَی الْوَسَطِ،فَإِنْ عَصَی الْإِنْسَانُ الشَّیْطَانَ فِی ہَذَا الْمَقَامِ انْقَطَعَ طَمَعُہُ عَنْہُ،وَإِنْ أَطَاعَہُ فِیہِ طَمِعَ فِی أَنْ یَجُرَّہُ مِنَ الْوَسَطِ إِلَی الطَّرَفِ الْفَاحِشِ،فَالْوَسَطُ ہُوَ قَوْلُہُ تَعَالَی: یَعِدُکُمُ الْفَقْرَ وَالطَّرْفُ الْفَاحِشُ قَوْلُہُ وَیَأْمُرُکُمْ بِالْفَحْشاء ِ۔
ترجمہ :فحشاء کی تفسیرمیں دوسری وجہ یوں کہناہے (یعنی شیطان یوں کہتاہے کہ)تم اللہ تعالی کی راہ میں عمدہ مال خرچ نہ کروکہ کہیں تم فقیرنہ ہوجائواگربندہ اس کی بات مان لے تووہ آگے بڑھ کر اللہ تعالی کی راہ میں خرچ کرنے سے روک دیتاہے حتی کہ پھرانسان خرچ ہی نہیں کرتانہ عمدہ اورنہ ہی ردی ،حتی کہ وہ لازم حقوق کی ادائیگی سے منع کردیتاہے توپھرآدمی زکوۃ ادانہیں کرتا، صلہ رحمی نہیں کرتا، اورنہ ہی امانت واپس کرتاہے ، جب انسان کی یہ صورت حال ہوجاتی ہے تو وہ گرجاتاہے ، پھر اس کے دل میں گناہ حقیرہوجاتے ہیں اوروہ ان کے ارتکاب کی پرواہ نہیں کرتا۔اس مقام پراس کی جھجک ختم ہوجاتی ہے اورتمام گناہوں پر اقدام کرنے لگتاہے اوریہی فحشاء ہے ۔
اس کی تفصیل یوں ہے کہ ہر خلق کی دواطراف اوروسط ہوتی ہیں ۔ طرف کامل یہ ہے کہ اپنے مال کو اللہ تعالی کی راہ میں خرچ کرے خواہ عمدہ ہویاردی ، طرف ناقص وفاحش یہ ہے کہ خرچ ہی نہ کرے نہ جیداورنہ ہی ردی اوروسط یہ ہے کہ عمدہ سے بخل کرے اورردی اللہ تعالی کی راہ میں خرچ کرے توشیطان نے جب طرف کامل سے طرف فاحش کی طرف لوٹانے کاارادہ دکیاتوممکن ہے کہ وہ وسط کی طرف لائے اوراگرانسان اس مقام پر شیطان کی بات نہ مانے تو اس کاطمع ختم ہوجائے گااوراگراطاعت کرے گا تواس کاطمع بڑھے گااوروہ اسے وسط سے فاحش کی طرف لے جائے گا۔
وسط کی طرف اشارہ{یَعِدُکُمُ الْفَقْر}سے اورفاحش کی طرف {وَیَأْمُرُکُمْ بِالْفَحْشاء ِ}میں اشارہ ہے ۔
(التفسیر الکبیر:أبو عبد اللہ محمد بن عمر بن الحسن بن الحسین التیمی الرازی(۷:۵۵)

لبرل وسیکولرطبقہ کی دین دشمنی

مفسرشہیرمفتی احمدیارخان نعیمی رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ خیرات کرنے سے کبھی بھی غربت نہیں آتی تجربہ ہے بیاہ شادی کی حرام رسموں ، انگریزی کوٹ میں مقدمہ بازی اورعیاشی سے سینکڑوں گھربربادہوگئے ہیں ۔مگراللہ تعالی کے نام پر دینے سے کوئی بھی گھرخراب ہوتے آج تک نہیں دیکھا۔
بخیل کامال ہمیشہ حرام جگہ خرچ ہوتاہے ، دیکھاگیاہے خیرات سے گبھرانے والے صدہاکھیل کود میں اوربیماریوں میں بے دریغ مال خرچ کرتے ہیں ۔ اللہ تعالی کے نام پرپیسہ خرچ نہیں کرسکتے مگرشادی ، موت اورالیکشن ، بیماری ، مقدمہ بازی میں خوب خوب مال خرچ کرتے ہیں۔
آجکل لبرل وسیکولرجدیدتہذیب کے دلدادہ قربانی کے موقع پرکہتے ہیں کہ قربانی نہ کرواس سے پیسہ برباد ہوتاہے ۔ قوم غریب ہے ، اتناپیسہ سکولوں اورکالجوں پر لگادو، آج تک ان کی نظرسینمااوردیگرعیاشیوں پرنہ گئی ۔ ایک سال کی قربانی کاخرچ مسلمانوں کی ایک رات کی سینمابینی سے کم ہے مگراسے بندکرنے کاخیال بھی نہیں ۔ یہ ہے آیت کریمہ کاظہورمگران شاء اللہ کوئی دینی کام بندنہ ہوگا، گرگٹ کی پھونک سے حضرت سیدناابراہیم علیہ السلام کی آگ تیزنہ ہوئی ۔
(تفسیرنعیمی از مفتی احمدیارخان نعیمی (۳:۱۱۵)

معارف ومسائل

(۱)آج غورکریں کہ لبرل وسیکولر طبقہ اربوں روپیہ حرام کاموں پر صرف کردیتاہے مگران کو تکلیف نہیں ہوتی جیسے ہی کسی دینی عمل پر پیسہ خرچ کرنے کی بات آتی ہے تو ان کو غربت کاخوف طاری ہوجاتاہے ۔
کسی بھی نیک کام پر جیسے قربانی وغیرہ یاحج وعمرہ کی بات ہوتو لبرل وسیکولر فوراً یہ کہناشروع کردیتے ہیں کہ اس سے اچھاتھاکہ یہی پیسہ تم کسی یتیم پر اورغریب پر خرچ کردیتے یاکسی بیوہ کی شادی کروادیتے َ۔
اسی طرح ان لبرل وسیکولر طبقہ کوجب یہ کہاجائے کہ تم سودکو ترک کردو کیونکہ یہ اللہ تعالی اورحضورتاجدارختم نبوت ﷺکے ساتھ کھلی جنگ ہے تو کہتے ہیں کہ اگرسود کو بندکردیاتو پھرہم بھوکے مرجائیں گے ۔
شیطان کے پیروکاراورخود شیطان یہی لبرل وسیکولرطبقہ ہیں اوریہی لوگ اللہ تعالی کے نام پر پیسہ خرچ کرنے سے منع کرتے ہے اورخود اربوں روپیہ حرام کاموں پر خرچ کردیتے ہے ۔
آج ان ذلیلوں کے پاس علماء حق پر اورمدارس دینیہ پر خرچ کرنے کے واسطے پیسہ نہیں ہے مگرکرکٹ میچ کروانے کے واسطے اربوں روپیہ اورفحاشی پھیلانے کے واسطے کروڑوں روپیہ ان کے پاس سے نکل آتاہے۔
(۲)حضورتاجدارختم نبوت ﷺکی عزت وناموس کے مسئلہ پر اگرروڈ بندکردئیے جائیں تو لبرل وسیکولر لوگوں کویہی فکرلاحق رہتی ہے کہ کاروباربندہوگئے ہیں اورہم بھوکے مرگئے ہیں اوراگرکرکٹ میچ ہوتو اس پر قومی بیت المال سے کروڑوں روپیہ صرف کرکے اورمساجد بندکرکے اورروڈ وغیرہ بندکرکے بیٹھے رہیں پھران کو فکرنہیں ہوگی ۔ دراصل یہی لوگ شیطان کے مرید ہیں کہ جب اللہ تعالی کے نام پر اوراس کے دین کے نام پرخرچ کرنے کی بات آئے توان کو غربت کاخوف لاحق ہوجاتاہے اورجیسے ہی بے حیائی اورفحاشی کی اشاعت کی بات آئے توپھریہ لوگ خوشحال ہوجاتے ہیں۔
(۳) ان لبرل وسیکولر لوگوں کو مساجد ومدارس جو اپنی مددآپ کے تحت محض اللہ تعالی کے فضل وکرم اورحضورتاجدارختم نبوت ﷺکی نگاہ عنایت سے چل رہے ہیں یہ بھی ان کو بوجھ محسوس ہوتے ہیں اورانہیں کو ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ گردانتے ہیں اورسکول وکالج اورکھیل کود کے بڑے بڑے میدان بنانے کے لئے اورکافروں کے مندراورگرجے قائم کرنے کے لئے ان کے پاس اربوں روپیہ آجاتاہے ۔
(۴) اللہ تعالی کی راہ میں خرچ کرنے اورزکوۃ دینے کے وقت شیطان انسان کو فقراورتنگدستی سے ڈراتاہے ، خصوصاًاچھے اورقابل توجہ اموال خرچ کرناچاہوتوشیطان ڈراتاہے کہ مفلس اورقلا ش ہوجائوگے لیکن برے کاموں کواس طرح سجااوربناکرپیش کرتاہے اوران کے لئے آرزوئوں کو اس طرح جگاتاہے کہ اس پر انسان بڑی سے بڑی رقم بے دھڑک خرچ کرڈالتاہے چنانچہ دیکھاگیاہے کہ مسجد شریف اورمدرسہ اورکسی کارخیرکے لئے کوئی چندہ لینے کے لئے کسی کے پاس پہنچ جائے توصاحب مال ایک ایک سودینے کے لئے بھی بارباراپنے حساب وکتاب کی جانچ پڑتال کرتاہے اورمانگنے والے کو کئی کئی بارچکرلگواتاہے ۔ لیکن یہی شخص شراب ،بدکاری اورمقدمہ بازی ، کھیل تماشے اورفضول رسم ورواج کے جال میں پھنستاہے تو بے تحاشہ خرچ کرتاہے اوراس سے کسی قسم کی ہچکچاہٹ اورترددکاظہورنہیں ہوتا، اکثراوقات یہ شیطانی وسوسہ اللہ تعالی کی راہ میں خرچ کرنے میں رکاوٹ پیداکرتاہے بلکہ زکوۃ اوردیگرواجب اخرجات پر بھی اثرانداز ہوتاہے ۔

Leave a Reply

%d bloggers like this: