اللہ تعالی کے کلام پر اعتراض کرنے والے کافرہیں | تفسیر سورہ بقرہ آیت ۲۶ ، ۲۷

اللہ تعالی کے کلام پر اعتراض کرنے والے کافرہیں

{اِنَّ اللہَ لَا یَسْتَحْیٖٓ اَنْ یَّضْرِبَ مَثَلًا مَّا بَعُوْضَۃً فَمَا فَوْقَہَا فَاَمَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا فَیَعْلَمُوْنَ اَنَّہُ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّہِمْ وَاَمَّا الَّذِیْنَ کَفَرُوْا فَیَقُوْلُوْنَ مَاذَآ اَرَادَ اللہُ بِہٰذَا مَثَلًا یُضِلُّ بِہٖ کَثِیْرًا وَّیَہْدِیْ بِہٖ کَثِیْرًا وَمَا یُضِلُّ بِہٖٓ اِلَّا الْفٰسِقِیْنَ}(۲۶){الَّذِیْنَ یَنْقُضُوْنَ عَہْدَ اللہِ مِنْ بَعْدِ مِیْثٰقِہٖ وَیَقْطَعُوْنَ مَآ اَمَرَ اللہُ بِہٖٓ اَنْ یُّوْصَلَ وَیُفْسِدُوْنَ فِی الْاَرْضِ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الْخٰسِرُوْنَ}(۲۷)
ترجمہ کنزالایمان:بیشک اللہ اس سے حیا نہیں فرماتا کہ مثال سمجھانے کو کیسی ہی چیز کا ذکر فرمائے مچھر ہو یا اس سے بڑھ کر تو وہ جو ایمان لائے وہ تو جانتے ہیں کہ یہ ان کے رب کی طرف سے حق ہے رہے کافر وہ کہتے ہیں ایسی کہاوت میں اللہ کا کیا مقصود ہے اللہ بہتیروں کو اس سے گمراہ کرتا ہے اور بہتیروں کو ہدایت فرماتا ہے اور اس سے انہیں گمراہ کرتا ہے جو بے حکم ہیں ۔وہ جو اللہ کے عہد کو توڑ دیتے ہیں پکا ہونے کے بعد اور کاٹتے ہیں اس چیز کو جس کے جوڑنے کا خدا نے حکم دیا ہے اور زمین میں فساد پھیلاتے ہیںوہی نقصان میں ہیں۔
ترجمہ ضیاء الایمان: مثال سمجھانے کے لئے اللہ تعالی کسی بھی چیز کاذکرفرمانے سے حیا نہیں فرماتا، وہ مچھر ہویااس سے بھی بڑھ کر ،جو ایمان والے ہیں وہ توجانتے ہیں کہ یہ اللہ تعالی کی طرف سے حق ہے ، رہے کافرتووہ یہ کہتے ہیں کہ ایسی مثال بیان کرنے سے اللہ تعالی کاکیامقصود ہے۔ اللہ تعالی بہت زیادہ لوگوں کو اس سے گمراہ کرتاہے اوربہت زیادہ لوگوں کو ہدایت عطافرماتاہے اوراس سے گمراہ صرف فاسق ہی ہوتے ہیں ، وہ جو اللہ تعالی کے عہد کو مضبوط ہونے کے بعد توڑتے ہیں، اوراس چیز کو کاٹتے ہیں جس کو اللہ تعالی نے جوڑنے کاحکم دیاہے اورزمین میں فساد پھیلاتے ہیں وہی نقصان اٹھانے والے ہیں۔
شان نزول
قول اول
عن ابن عباس أنہ لما نزل:یَا أَیُّہَا النَّاسُ ضُرِبَ مَثَلٌ فَاسْتَمِعُوا لَہُ (الْحَج:۷۳)فَطَعَنَ فِی أَصْنَامِہِمْ ثُمَّ شَبَّہَ عِبَادَتَہَا بِبَیْتِ الْعَنْکَبُوتِ قَالَتِ الْیَہُودُ أَیُّ قَدْرٍ لِلذُّبَابِ وَالْعَنْکَبُوتِ حَتَّی یَضْرِبَ اللَّہُ الْمَثَلَ بِہِمَا فَنَزَلَتْ ہَذِہِ الْآیَۃُ.
ترجمہ :حضرت سیدناعبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہماسے مروی ہے کہ جب یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی {یَا أَیُّہَا النَّاسُ ضُرِبَ مَثَلٌ فَاسْتَمِعُوا لہُ} (الْحَج:۷۳) اے لوگو! جب مثال بیان کی جاتی ہے ،اسے کان لگاکرسنو!
اس میں ان کے بتوں پرطعن کیاگیاہے ، پھران کی عبادت کو عنکبوت یعنی مکڑی کے گھرکے ساتھ تشبیہ دی تو یہودیوں نے کہا:مکھی اورمکڑی کی کیاقدرہے کہ اللہ تعالی ان کے ساتھ مثال بیان کرے تویہ آیت مبارکہ نازل ہوئی ۔
قول ثانی
وَالْقَوْلُ الثَّانِی:أَنَّ الْمُنَافِقِینَ طَعَنُوا فِی ضَرْبِ الْأَمْثَالِ بِالنَّارِ وَالظُّلُمَاتِ وَالرَّعْدِ وَالْبَرْقِ فِی قَوْلِہِ: مَثَلُہُمْ کَمَثَلِ الَّذِی اسْتَوْقَدَ نَارًا (الْبَقَرَۃِ: ۱۷)
ترجمہ :منافقین نے آگ ، ظلمات اوررعد وبرق کے ساتھ مثالوں پر طعن کیا{ مَثَلُہُمْ کَمَثَلِ الَّذِی اسْتَوْقَدَ نَارًا (الْبَقَرَۃِ: ۱۷)}ان کی مثال ایسی ہے کہ کسی نے آگ جلائی ۔
قول ثالث
وَالْقَوْلُ الثَّالِثُ:أَنَّ ہَذَا الطَّعْنَ کَانَ مِنَ الْمُشْرِکِینَ قال القفال:الکل محتمل ہاہنا، أَمَّا الْیَہُودُ فَلِأَنَّہُ قِیلَ فِی آخِرِ الْآیَۃِ:وَما یُضِلُّ بِہِ إِلَّا الْفاسِقِینَ الَّذِینَ یَنْقُضُونَ عَہْدَ اللَّہِ مِنْ بَعْدِ مِیثاقِہِ وَہَذَا صِفَۃُ الْیَہُودِ، لِأَنَّ الْخِطَابَ بِالْوَفَاء ِ وَبِالْعَہْدِ فِیمَا بَعْدُ إِنَّمَا ہُوَ لِبَنِی إِسْرَائِیلَ وَأَمَّا الْکُفَّارُ وَالْمُنَافِقُونَ فَقَدْ ذَکَرُوا فِی سُورَۃِ الْمُدَّثِّرِ وَلِیَقُولَ الَّذِینَ فِی قُلُوبِہِمْ مَرَضٌ وَالْکافِرُونَ مَاذَا أَرادَ اللَّہُ بِہذا مَثَلًا کَذلِکَ یُضِلُّ اللَّہُ مَنْ یَشاء ُ وَیَہْدِی مَنْ یَشاء ُ (الْمُدَّثِّرِ: ۳۱) الْآیَۃَ فَأَمَّا الَّذِینَ فِی قُلُوبِہِمْ مَرَضٌ ہُمُ الْمُنَافِقُونَ، وَالَّذِینَ کَفَرُوا یَحْتَمِلُ الْمُشْرِکِینَ لِأَنَّ السُّورَۃَ مَکِّیَّۃٌ فَقَدْ جُمِعَ الفریقان ہاہنا: إذا ثبت ہذا فنقول: احتمال الکل ہاہنا قَائِمٌ لِأَنَّ الْکَافِرِینَ وَالْمُنَافِقِینَ وَالْیَہُودَ کَانُوا مُتَوَافِقِینَ فِی إِیذَاء ِ رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَقَدْ مَضَی مِنْ أَوَّلِ السُّورَۃِ إِلَی ہَذَا الْمَوْضِعِ ذِکْرُ الْیَہُودِ، وَذِکْرُ الْمُنَافِقِینَ، وَذِکْرُ الْمُشْرِکِینَ وَکُلُّہُمْ مِنَ الَّذِینَ کَفَرُوا ثُمَّ قَالَ الْقَفَّالُ: وَقَدْ یَجُوزُ أَنْ یَنْزِلَ ذَلِکَ ابْتِدَاء ً مِنْ غَیْرِ سَبَبٍ لِأَنَّ مَعْنَاہُ فِی نَفْسِہِ مُفِیدٌ.
ترجمہ :تیسراقول یہ ہے کہ یہ اعتراض مشرکین کی طر ف سے تھا، شیخ القفال رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں کہ یہ تمام احتمالات ممکن ہیں ، یہودی اس لئے کہ آخری آیت میں ہے کہ ’’اوراس سے فاسق لوگ ہی گمراہ ہوتے ہیں اوروہ جو اللہ تعالی کے عہد کو پختہ کرنے کے بعد توڑدیتے ہیں ‘‘اوریہ یہودیوں کاعمل اورحال ہے ، کیونکہ بعد میں وفاء وعہد کاذکربنی اسرائیل کے ساتھ ہی ہے ۔
سورۃ المدثرمیں ہے کہ
{وَ لِیَقُوْلَ الَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِہِمْ مَّرَضٌ وَّ الْکٰفِرُوْنَ مَاذَآ اَرَادَ اللہُ بِہٰذَا مَثَلًا کَذٰلِکَ یُضِلُّ اللہُ مَنْ یَّشَآء ُ وَ یَہْدِیْ مَنْ یَّشَآء ُ وَ مَا یَعْلَمُ جُنُوْدَ رَبِّکَ اِلَّا ہُوَ وَ مَا ہِیَ اِلَّا ذِکْرٰی لِلْبَشَرِ }
ترجمہ کنزالایمان:اور دل کے روگی اور کافر کہیں اس اچنبے کی بات میں اللہ کا کیا مطلب ہے یونہی اللہ گمراہ کرتا ہے جسے چاہے اور ہدایت فرماتا ہے جسے چاہے اور تمہارے رب کے لشکروں کو اس کے سوا کوئی نہیں جانتا اور وہ تو نہیں مگر آدمی کے لئے نصیحت۔
جن کے دلوں میں مرض ہے سے مراد منافقین اوراہل کفرہیں اوراہل کفر سے مراد مشرکین ہیں کیونکہ یہ سورت مکی ہے تودونوں کو وہاں جمع کردیا۔
ان تمام کااحتمال یہاں قائم ہے ۔ کیونکہ کفار، منافقین اوریہودرسول اللہ ﷺکی گستاخی میں متفق تھے ، ابتداء ِسورت سے لیکر یہاں تک یہودی اورمنافقین اورمشرکین کاذکرآیاہے ۔
(التفسیر الکبیر:أبو عبد اللہ محمد بن عمر بن الحسن بن الحسین التیمی الرازی (۲:۳۶۱)

مشرکین کاقرآن کریم پر اعتراض

وَأخرج عبد الْغَنِیّ الثَّقَفِیّ فِی تَفْسِیرہ والواحدی عَن الن عَبَّاس قَالَ: إِن اللہ ذکر آلِہَۃ الْمُشْرکین فَقَالَ (وَإِن یسلبہم الذُّبَاب شَیْئا) وَذکر کید الْآلہَۃ کبیت العنکبوت فَقَالُوا: أَرَأَیْت حَیْثُ ذکر اللہ الذُّبَاب وَالْعَنْکَبُوت فِیمَا أنزل من الْقُرْآن علی مُحَمَّدأَی شَیْء کَانَ یصنع بِہَذَا فَأنْزل اللہ (إِن اللہ لَا یستحیی أَن یضْرب مثلا)۔
ترجمہ :امام عبدالغنی الثقفی رحمہ اللہ تعالی نے اپنی تفسیر الواحدی میں حضرت سیدناعبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہماسے روایت کیاہے کہ اللہ تعالی نے مشرکین کے خدائوں کاذکرکیا:
{یٰٓاَیُّہَا النَّاسُ ضُرِبَ مَثَلٌ فَاسْتَمِعُوْا لَہ اِنَّ الَّذِیْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللہِ لَنْ یَّخْلُقُوْا ذُبَابًا وَّ لَوِاجْتَمَعُوْا لَہ وَ اِنْ یَّسْلُبْہُمُ الذُّبَابُ شَیْـًا لَّا یَسْتَنْقِذُوْہُ مِنْہُ ضَعُفَ الطَّالِبُ وَالْمَطْلُوْبُ }
اے لوگو ایک کہاوت فرمائی جاتی ہے اسے کان لگا کر سنو وہ جنہیں اللہ کے سوا تم پوجتے ہوایک مکھی نہ بناسکیں گے اگرچہ سب اس پر اکٹھے ہوجائیں اور اگر مکھی ان سے کچھ چھین کرلے جائے تو اس سے چھڑا نہ سکیں کتنا کمزور چاہنے والا اور وہ جس کو چاہا ۔سورۃالحج :۷۳)
اسی نے ان کے خدائوں کے مکر کاذکرفرمایاکہ وہ عنکبوت یعنی مکڑی کے جالے کی طرح ہیں، توانہوں نے کہا: کیادیکھاتونے کہ اللہ تعالی مکھی اورمکڑی کاذکرفرمارہاہے ، اس قرآن میں جو محمدﷺپر نازل کیاگیاہے اوراللہ تعالی ان مثالوں سے کیاچاہتاہے ۔
اللہ تعالی نے فرمایا:
{اِنَّ اللہَ لَا یَسْتَحْیٖٓ اَنْ یَّضْرِبَ مَثَلًا مَّا بَعُوْضَۃً فَمَا فَوْقَہَا فَاَمَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا فَیَعْلَمُوْنَ اَنَّہُ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّہِمْ وَاَمَّا الَّذِیْنَ کَفَرُوْا فَیَقُوْلُوْنَ مَاذَآ اَرَادَ اللہُ بِہٰذَا مَثَلًا یُضِلُّ بِہٖ کَثِیْرًا وَّیَہْدِیْ بِہٖ کَثِیْرًا وَمَا یُضِلُّ بِہٖٓ اِلَّا الْفٰسِقِیْنَ}{الَّذِیْنَ یَنْقُضُوْنَ عَہْدَ اللہِ مِنْ بَعْدِ مِیْثٰقِہٖ وَیَقْطَعُوْنَ مَآ اَمَرَ اللہُ بِہٖٓ اَنْ یُّوْصَلَ وَیُفْسِدُوْنَ فِی الْاَرْضِ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الْخٰسِرُوْنَ}
ترجمہ ضیاء الایمان: مثال سمجھانے کے لئے اللہ تعالی کسی بھی چیز کاذکرفرمانے سے حیا نہیں فرماتا، وہ مچھر ہویااس سے بھی بڑھ کر ،جو ایمان والے ہیں وہ توجانتے ہیں کہ یہ اللہ تعالی کی طرف سے حق ہے ، رہے کافرتووہ یہ کہتے ہیں کہ ایسی مثال بیان کرنے سے اللہ تعالی کاکیامقصود ہے۔ اللہ تعالی بہت زیادہ لوگوں کو اس سے گمراہ کرتاہے اوربہت زیادہ لوگوں کو ہدایت عطافرماتاہے اوراس سے گمراہ صرف فاسق ہی ہوتے ہیں ، وہ جو اللہ تعالی کے عہد کو مضبوط ہونے کے بعد توڑتے ہیں، اوراس چیز کو کاٹتے ہیں جس کو اللہ تعالی نے جوڑنے کاحکم دیاہے اورزمین میں فساد پھیلاتے ہیں وہی نقصان اٹھانے والے ہیں۔
(الدر المنثور: عبد الرحمن بن أبی بکر، جلال الدین السیوطی (۱:۱۰۳)

حیاء کی دوقسمیں ہیں

حیاء عقلی
وہ ہے جس کاسبب کوئی امرعقلی ہواورترک حیاء میں عقلمندوں کے نزدیک وہ قابل ملامت ہو، جیسے عام محفلوں میں غلط حرکتیں کرناوغیرہ ۔
حیاء شرعی
وہ امر ہے جس کاسبب کوئی امرشرعی ہواورحیاء نہ کرنے سے شرعاً قابل ملامت ومستحق مذمت ہو،جیسے غیرمحرم عورتوں کے ساتھ نازیباحرکات کرنا۔
یہ وہ لوگ باتیں کررہے ہیں جو اپنی سگی بیٹیوں کو زندہ درگورکردیتے تھے ، اپنی سگی ماں کو منڈی میں جاکر بیچ دیاکرتے تھے ،جوکعبہ مشرفہ کابے لباس ہوکر سیٹیاں بجاتے ہوئے طواف کیاکرتے تھے ۔ ان کو رب تعالی کے مچھراورمکڑی کی مثال بیان کرنے پر تعجب ہورہاہے کہ اللہ تعالی خداہوکر ایسی باتیں کرتاہے ۔
بالکل اسی طرح کاحال ہمارے دور کے لبرل وبے دین لوگوں کاہے ،جو رات دن بے حیائی کرے گا اورفلمیں بنابناکر ساری قوم کو بے حیاء کرتاہے اوراگرکوئی عالم دین کسی گستاخ کو کتابلاکہہ دے تو ان کو شرم آناشروع ہوجاتی ہے کہ عالم دین ہوکر کیسی باتیں کرتے ہیں ۔
آج توان کی غیرت کاجنازہ یہاں تک نکل چکاہے کہ ان کو غیرت کی بات کرنے پر غیرت آتی ہے ۔ جیسے کوئی شخص اپنے گھروالوں کے ساتھ بیٹھافلمیں دیکھے اوراس میں اس کی نوجوان بیٹی بھی بیٹھی ہواوراتنے میں کوئی آکر کہہ دے یہ کیابے شرمی ہے ؟ تو فلم دیکھنے والے کو اس بات پر غیرت آجائے گی ۔
اس سے معلوم ہواکہ جب انسان کادل مردہ اورعقل فاسد ہوجائے تووہ غیرشرعی اورغیرعقلی امور کو بہتراوراچھاسمجھنے لگتا ہے اوران کے ترک کو حیاء سے تعبیرکرتاہے جوکہ سراسرحماقت اورپاگل پن ہے۔ مثلاً آجکل بے دین اورلبرل مادرپدرآزاد عورتیں برقع پہننے سے شرم محسوس کرتی ہیں ،یاجیسے لبرل لڑکے داڑھی رکھنے کو شرم اورعار کاسبب جانتے ہیں ۔
اس بحث سے معلوم ہواکہ لبرل وبے دین طبقہ عقل شرعی اورعرفی دونوں سے عاری ہے ۔
نقض ِ عہد سے کیامراد ہے ؟
وَیُفْسِدُونَ فِی الْأَرْضِ فَالْأَظْہَرُ أَنْ یُرَادَ بِہِ الْفَسَادُ الَّذِی یَتَعَدَّی دُونَ مَا یَقِفُ عَلَیْہِمْ وَالْأَظْہَرُ أَنَّ الْمُرَادَ مِنْہُ الصَّدُّ عَنْ طَاعَۃِ الرَّسُولِ عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَامُ لِأَنَّ تَمَامَ الصَّلَاحِ فِی الْأَرْضِ بِالطَّاعَۃِ لِأَنَّ بِالْتِزَامِ الشَّرَائِعِ یَلْتَزِمُ الْإِنْسَانُ کُلَّ مَا لَزِمَہُ، وَیَتْرُکُ التَّعَدِّیَ إِلَی الْغَیْرِ، وَمِنْہُ زَوَالُ التَّظَالُمِ وَفِی زَوَالِہِ الْعَدْلُ الذی قامت بہ السموات وَالْأَرْضُ۔
ترجمہ :امام محمدبن عمر الرازی المتوفی : ۶۰۶ھ) رحمۃ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ مختاریہی ہے کہ فساد سے مرادوہی ہے جو دوسروں تک پہنچے نہ کہ اپنے تک ، اوریہ مرادا ظہرہے کہ یہ اطاعت ِرسول اللہ ﷺسے روکناہے ۔ کیونکہ زمین پر کامل اصلاح اللہ تعالی اوراس کے رسول کریمﷺ کی اطاعت سے ہی ممکن ہے ۔کیونکہ الزام احکامات شرعیہ سے انسان پر تمام لوازم کالزوم اوردوسروں کے ساتھ زیادتی کاترک لازم ہوجاتاہے ۔
(التفسیر الکبیر:أبو عبد اللہ محمد بن عمر بن الحسن بن الحسین التیمی الرازی (۲:۳۶۰)

الخاسرون سے مراد کیاہے ؟

أَنَّہُمْ خَسِرُوا نَعِیمَ الْجَنَّۃِ لِأَنَّہُ لَا أَحَدَ إِلَّا وَلَہُ فِی الْجَنَّۃِ أَہْلٌ وَمَنْزِلٌ، فَإِنْ أَطَاعَ اللَّہَ وَجَدَہُ، وَإِنْ عَصَاہُ وَرِثَہُ الْمُؤْمِنُونَ، فَذَلِکَ قَوْلُہُ تَعَالَی:أُولئِکَ ہُمُ الْوارِثُونَ الَّذِینَ یَرِثُونَ الْفِرْدَوْسَ ہُمْ فِیہا خالِدُونَ (الْمُؤْمِنُونَ۱۰،۱۱) وَقَالَ: إِنَّ الْخاسِرِینَ الَّذِینَ خَسِرُوا أَنْفُسَہُمْ وَأَہْلِیہِمْ یَوْمَ الْقِیامَۃِ (الشُّورَی: ۴۵)وَثَانِیہَا: أَنَّہُمْ خَسِرُوا حَسَنَاتِہِمُ الَّتِی عَمِلُوہَا لِأَنَّہُمْ أَحْبَطُوہَا بِکُفْرِہِمْ فَلَمْ یَصِلْ لَہُمْ مِنْہَا خَیْرٌ وَلَا ثَوَابٌ، وَالْآیَۃُ فِی الْیَہُودِ وَلَہُمْ أَعْمَالٌ فِی شَرِیعَتِہِمْ، وَفِی الْمُنَافِقِینَ وَہُمْ یَعْمَلُونَ فِی الظَّاہِرِ مَا یَعْمَلُہُ الْمُخْلِصُونَ فَحَبِطَ ذَلِکَ کُلُّہُ، وَثَالِثُہَا:أَنَّہُمْ إِنَّمَا أَصَرُّوا عَلَی الْکُفْرِ خَوْفًا مِنْ أَنْ تَفُوتَہُمُ اللَّذَّاتُ الْعَاجِلَۃُ، ثُمَّ إنہا تفوتہم إما عند ما یَصِیرُ الرَّسُولُ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَأْذُونًا فِی الْجِہَادِ أَوْ عِنْدَ مَوْتِہِمْ۔
ترجمہ :(۱)اس خسارے سے مراد یہ ہے کہ وہ لوگ جنت سے محروم ہوگئے کیونکہ جنت میں ہر ایک کے لئے اہل ومنزل ہے ، اگراس نے اللہ تعالی کی اطاعت کرلی تو اسے پالے گااوراگراس کی نافرمانی کی تواسے اہل ایمان پالیں گے ۔
جیساکہ اللہ تعالی نے فرمایا: یہی لوگ وارث ہیں کہ جنت کی میراث پائیں گے اوراس میں ہمیشہ رہیں گے ۔اوردوسرے مقام پر فرمایاکہ یقیناخسارے میں وہ ہیں جو اپنی جانیں اوراپنے گھروالے ہاربیٹھے قیامت کے دن ۔
(۲) دوسری صورت خسارے کی یہ ہے کہ اپنی تمام نیکیوں سے محروم ہوگئے جوان کے کفرکرنے کی وجہ سے ضائع ہوگئیں ، ان پر ان کو کوئی اجر نہیں ملااورنہ ہی ان کو کسی طرح کی کوئی خیرملی ۔
اگریہ آیت یہودیوں کے بارے میں ہوتوان کی اپنی شریعت کے مطابق اعمال اوراگرمنافقین کے بارے میں ہوتو پھران کے ظاہری اعمال جو خلوص دل سے نہ تھے توتمام اعمال ضائع ہوگئے ۔
(۳) ان کے خسارے کی تیسری صورت یہ ہے کہ وہ کفر پر اس وجہ سے قائم تھے کہ کہیں دنیاوی لذات اوردنیوی فوائد ختم نہ ہوجائیں تووہ ان سے ختم ہوگئے ۔ ان کے دنیاوی فوائد ختم ہونے کے دوہی راستے ہیں ایک تورسول اللہ ﷺکو جہاد کی اجازت مل گئی یاپھران کی موت ہوگئی ۔
(التفسیر الکبیر:أبو عبد اللہ محمد بن عمر بن الحسن بن الحسین التیمی الرازی (۲:۳۶۰)
دین کامذاق اڑانافساد فی الارض ہے
وَیُفْسِدُونَ فِی الْأَرْضِ بالمنع عن الایمان والاستہزاء بالحق وقطع الوصل التی علیہا یدور فلک نظام العالم وصلاحہ أُولئِکَ ہُمُ الْخاسِرُونَ۔
ترجمہ :امام اسماعیل حقی بن مصطفی الحنفی المتوفی : ۱۱۲۷ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیںکہ {وَیُفْسِدُونَ فِی الْأَرْضِ}سے مراد یہ ہے کہ وہ لوگوں کو ایمان لانے سے منع کرتے ہیں اور جو رسول اللہ ﷺحق لائے ہیں ا س کامذاق اڑاتے ہیںاورجس پر نظام ِعالم کی اصلاح کادارومدار ہے اس کو قطع کرتے ہیں ۔
(روح البیان:إسماعیل حقی بن مصطفی الإستانبولی الحنفی الخلوتی المولی أبو الفداء (۱:۸۹)
زمین میں گناہ پھیلانے والے فساد فی الارض کے مرتکب ہیں
وَیُفْسِدُونَ فِی الْأَرْضِ:بِالْمَعَاصِی وَتَعْوِیقِ النَّاسِ عَنِ الْإِیمَانِ بِمُحَمَّدٍ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَبِالْقُرْآنِ، أُولئِکَ ہُمُ الْخاسِرُونَ:الْمَغْبُونُونَ۔
ترجمہ :امام محی السنۃ ابومحمدالحسنین بن مسعود البغوی الشافعی المتوفی : ۵۱۰ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیںکہ {وَیُفْسِدُونَ فِی الْأَرْض}سے مراد یہ ہے وہ لوگ جو زمین میں گناہ کو عام کرتے ہیں اورلوگوں کو رسول اللہﷺاورقرآن کریم پر ایمان لانے سے منع کرتے ہیں یہی نقصان اٹھانے والے ہیں ۔
(تفسیر البغوی:محیی السنۃ ، أبو محمد الحسین بن مسعود بن محمد بن الفراء البغوی الشافعی (۱:۹۹)

الفاسقین سے مرادکون؟

{ وَمَا یُضِلُّ بِہٖٓ اِلَّا الْفٰسِقِیْنَ}
عرف شرع میں فسق خدا کی فرمانبرداری سے گناہ کرکے خارج ہونے کو کہتے ہیں اور اس کے تین درجے ہیں :
(۱)…تغابی: یعنی باوجوداسکے کہ گناہ کو برا سمجھتا ہے مگر کبھی خواہش نفسانی سے اس کا مرتکب ہوجاتا ہے۔
(۲)…انہماک: یعنی گناہ کرنے کی عادت کرلے اور کچھ پروا نہ کرے۔
(۳) …جحود :وہ یہ کہ گناہ کو اچھا جان کر عمل میں لائے اور خدا اور رسولﷺکے فرمان کوکچھ نہ سمجھے۔ اس تیسرے درجے میں انسان کافر ہوجاتا ہے اور پہلے دونوں درجوں تک مومن رہتا ہے کیونکہ تصدیق جو اصلِ ایمان ہے اس کے دل میں باقی ہے۔
(تفسیر الحقانی از علامہ عبدالحق حقانی الدہلوی (۱:۱۳۹)
وہ بدبخت جن کے لیے خسارہ ہے
کچھ بدبخت انسان ایسے ہیں جن کے لیے اپنے برے اعمال کی وجہ سے دونوں جہانوں میں خسارہ ہے ۔
یہ کون ہیں ؟ آئیں ملاحظہ فرمائیں ! اور اپنا دامن بچائیں ۔
(۱) باطل پر ایمان لانے والاخسارے میں ہے
اللہ تعالی نے ارشادفرمایا
{قُلْ کَفٰی بِاللہِ بَیْنِیْ وَ بَیْنَکُمْ شَہِیْدًا یَعْلَمُ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِالْبٰطِلِ وَکَفَرُوْا بِاللہِ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الْخٰسِرُوْنَ }
ترجمہ :اے حبیب کریمﷺ!آپ فرمائیں اللہ بس ہے میرے اور تمہارے درمیان گواہ جانتا ہے جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے اور وہ جو باطل پر یقین لائے اور اللہ کے منکِر ہوئے وہی گھاٹے میں ہیں ۔(سورۃُ العنکبوت : ۵۲)
ّ(۲)شرک کرنے والوں کے لیے خسارہ ہے
اللہ تعالی کافرمان عالی شان ہے :
{وَ لَقَدْ اُوْحِیَ اِلَیْکَ وَ اِلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکَ لَئِنْ اَشْرَکْتَ لَیَحْبَطَنَّ عَمَلُکَ وَ لَتَکُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ }
ترجمہ:اور بیشک وحی کی گئی تمہاری طرف اور تم سے اگلوں کی طرف کہ اے سننے والے اگر تو نے اللہ کا شریک کیا تو ضرور تیرا سب کیا دھرا اَکارت جائے گا اور ضرور تو ہار میں رہے گا۔(سورۃ الزمر : ۶۵)
(۳) اللہ کی آیات کا انکارکرنے والے خسارے میں ہیں
اللہ تعالی کافرمان عالی شان ہے
{لَہ مَقَالِیْدُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَالَّذِیْنَ کَفَرُوْا بِاٰیٰتِ اللہِ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الْخٰسِرُوْنَ }
ترجمہ :اسی کے لئے ہیں آسمانوں اور زمین کی کنجیاں اور جنہوں نے اللہ کی آیتوں کا انکار کیا وہی نقصان میں ہیں ۔
(۴)اللہ کی ملاقات کو جھٹلانے والوں کے لیے خسارہ ہے
اللہ تعالی کافرمان عالی شان ہے :
{وَیَوْمَ یَحْشُرُہُمْ کَاَنْ لَّمْ یَلْبَثُوْٓا اِلَّا سَاعَۃً مِّنَ النَّہَارِ یَتَعَارَفُوْنَ بَیْنَہُمْ قَدْ خَسِرَ الَّذِیْنَ کَذَّبُوْا بِلِقَآ ِ اللہِ وَمَا کَانُوْا مُہْتَدِیْنَ }
ترجمہ:اور جس دن انہیں اٹھائے گا گویا دنیا میں نہ رہے تھے مگر اس دن کی ایک گھڑی آپس میں پہچان کریں گے وہ پورے گھاٹے میں رہے وہ جنہوں نے اللہ تعالی سے ملنے کو جھٹلایا اور ہدایت پر نہ تھے۔(سورۃ یونس :۴۵)
(۵) غلط عقیدہ اپناکر خوش ہونے والے خسارے میں ہیں
اللہ تعالی کافرمان عالی شان ہے :
{قُلْ ہَلْ نُنَبِّئُکُمْ بِالْاَخْسَرِیْنَ اَعْمٰلًا ،اَلَّذِیْنَ ضَلَّ سَعْیُہُمْ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَ ہُمْ یَحْسَبُوْنَ اَنَّہُمْ یُحْسِنُوْنَ صُنْعًا ،اُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا بِاٰیٰتِ رَبِّہِمْ وَلِقَآئِہٖ فَحَبِطَتْ اَعْمٰلُہُمْ فَلَا نُقِیْمُ لَہُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ وَزْنًا}
ترجمہ:تم فرماؤ کیا ہم تمہیں بتادیں کہ سب سے بڑھ کر ناقص عمل کن کے ہیں،ان کے جن کی ساری کوشش دنیا کی زندگی میں گم گئی اور وہ اس خیال میں ہیں کہ اچھا کام کررہے ہیں ،یہ لوگ جنہوں نے اپنے رب کی آیتیں اور اس کا ملنا نہ ماناتو ان کا کیا دھرا سب اکارت ہے تو ہم ان کے لئے قیامت کے دن کوئی تول نہ قائم کریں گے ۔(سورۃ الکہف : ۱۰۳۔۱۰۴،۱۰۵)
اس آیت کے تحت سید نعیم الدین مراد آبادی رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ یعنی وہ کون لوگ ہیں جو عمل کر کے تھکے اورمشقّتیں اٹھائیں اور یہ امید کرتے رہے کہ ان اعمال پر فضل و نوال سے نوازے جائیں گے مگر بجائے اس کے ہلاکت و بربادی میں پڑے ۔ حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما نے فرمایا وہ یہود و نصارٰی ہیں ۔ بعض مفسِّرین نے کہا کہ وہ راہب لوگ ہیں جو صوامع میں عُزلت گزین رہتے تھے ۔ حضرت سیدناعلیِ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا کہ یہ لوگ اہلِ حروراء یعنی خوارج ہیں ۔(سورۃ الکہف : ۱۰۳)
(۶) اسلام کو ترک کرکے دوسرادین اختیارکرنے والے
اللہ تعالی کافرمان عالی شان ہے :
{وَمَنْ یَّبْتَغِ غَیْرَ الْاِسْلٰمِ دِیْنًا فَلَنْ یُّقْبَلَ مِنْہُ وَہُوَ فِی الْاٰخِرَۃِ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ}
ترجمہاور جو اسلام کے سوا کوئی دین چاہے گا وہ ہر گز اس سے قبول نہ کیا جائے گا اور وہ آخرت میں زیاں کاروں سے ۔(سورۃ آل عمران :۸۵)
(۷)کافروں کی پیروی کرنے والوں کے لیے خسارہ ہے
اللہ تعالی کافرمان عالی شان ہے :
{یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِنْ تُطِیْعُوا الَّذِیْنَ کَفَرُوْا یَرُدُّوْکُمْ عَلٰٓی اَعْقٰبِکُمْ فَتَنْقَلِبُوْا خٰسِرِیْنَ}
ترجمہ:اے ایمان والواگر تم کافروں کے کہے پر چلے تو وہ تمہیں اُلٹے پاؤں لوٹا دیں گے پھر ٹوٹا کھا کے پلٹ جاؤ گے ۔(سورۃ آل عمران : ۱۴۹)
(۸) اللہ تعالی کا عہد توڑنے والوں کے لیے خسارہ ہے
اللہ تعالی کافرمان عالی شان ہے :
{الَّذِیْنَ یَنْقُضُوْنَ عَہْدَ اللہِ مِنْ بَعْدِ مِیْثٰقِہٖ وَیَقْطَعُوْنَ مَآ اَمَرَ اللہُ بِہٖٓ اَنْ یُّوْصَلَ وَیُفْسِدُوْنَ فِی الْاَرْضِ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الْخٰسِرُوْنَ}کَیْفَ تَکْفُرُوْنَ بِاللہِ وَکُنْتُمْ اَمْوٰتًا فَاَحْیٰکُمْ ثُمَّ یُمِیْتُکُمْ ثُمَّ یُحْیِیْکُمْ ثُمَّ اِلَیْہِ تُرْجَعُوْنَ}
ترجمہ :وہ جو اللہ کے عہد کو توڑ دیتے ہیںپکا ہونے کے بعد اور کاٹتے ہیں اس چیز کو جس کے جوڑنے کا خدا نے حکم دیا ہے اور زمین میں فساد پھیلاتے ہیںوہی نقصان میں ہیں۔بھلا تم کیونکر خدا کے منکر ہو گے حالانکہ تم مردہ تھے اس نے تمہیں جِلایا پھر تمہیں مارے گا پھر تمہیں جِلائے گا پھر اسی کی طرف پلٹ کر جاؤ گے۔(سورۃ البقرۃ : ۲۷،۲۸)
صدرالافاضل سید نعیم الدین مراد آبادی رحمہ اللہ تعالی لکھتے ہیں کہ اس سے وہ عہد مراد ہے جو اللہ تعالٰی نے کتب سابقہ میں حضور سید عالم ﷺپر ایمان لانے کی نسبت فرمایا ایک قول یہ ہے کہ عہد تین ہیں ۔ پہلا عہد وہ جو اللہ تعالٰی نے تمام اولاد آدم سے لیا کہ اس کی ربوبیت کا اقرار کریں اس کا بیان اس آیت میں ہے {وَاِذْ اَخَذَرَبُّکَ مِنْ بنِیْ اٰدَمَ۔ الایۃ}دوسرا عہد انبیاء کے ساتھ مخصوص ہے کہ رسالت کی تبلیغ فرمائیں اور دین کی اقامت کریں اس کا بیان اس آیت { وَاِذْ اَخَذَ مِنَ النَّبِیٖنَ مِیْثَاقَھُم }میں ہے۔ تیسرا عہد علماء کے ساتھ خاص ہے کہ حق کو نہ چھپائیں اس کا بیان{وَاِذاَخَذَ اللّٰہ ُ مِیْثَاقَ الَّذِیْنَ اُوْتُواالْکِتابَ }میں ہے۔
رشتہ و قرابت کے تعلقات مسلمانوں کی دوستی و محبت تمام انبیاء کا ماننا کتبِ الٰہی کی تصدیق حق پر جمع ہونا یہ وہ چیزیں ہیں جن کے ملانے کا حکم فرمایا گیا ان میں قطع کرنا بعض کو بعض سے ناحق جدا کرنا تفرقوں کی بنا ڈالنا ممنوع فرمایا گیا۔
دلائل توحید و نبوت اور جزائے کفر و ایمان کے بعد اللہ تعالٰی نے اپنی عام و خاص نعمتوں کا اور آثار قدرت وعجائب وحکمت کا ذکر فرمایا اور قباحت کفر دلنشین کرنے کے لئے کفار کو خطاب فرمایا کہ تم کس طرح خدا کے منکر ہوتے ہو باوجود یہ کہ تمہارا اپنا حال اس پر ایمان لانے کا متقاضی ہے کہ تم مردہ تھے مردہ سے جسم بے جان مراد ہے ہمارے عرف میں بھی بولتے ہیں زمین مردہ ہوگئی عربی میں بھی موت اس معنی میں آئی خود قرآن پاک میں ارشاد ہوا { یُحْیِی الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِھَا}تو مطلب یہ ہے کہ تم بے جان جسم تھے عنصر کی صورت میں پھر غذا کی شکل میں پھر اخلاط کی شان میں پھر نطفہ کی حالت میں اس نے تم کو جان دی زندہ فرمایا پھر عمر کی معیار پوری ہونے پر تمہیں موت دے گا پھر تمہیں زندہ کرے گا اس سے یا قبر کی زندگی مراد ہے جو سوال کے لئے ہوگی یا حشر کی پھر تم حساب و جزا کے لئے اس کی طرف لوٹائے جاؤ گے اپنے اس حال کو جان کر تمہارا کفر کرنا نہایت عجیب ہے، ایک قول مفسرین کا یہ بھی ہے کہ{ کَیْفَ تَکْفُرُوْنَ }کا خطاب مؤمنین سے ہے اور مطلب یہ ہے کہ تم کس طرح کافر ہوسکتے ہو در آنحالیکہ تم جہل کی موت سے مردہ تھے اللہ تعالٰی نے تمہیں علم و ایمان کی زندگی عطافرمائی اس کے بعد تمہارے لئے وہی موت ہے جو عمر گزرنے کے بعد سب کو آیا کرتی ہے اس کے بعد وہ تمہیں حقیقی دائمی حیات عطا فرمائے گا پھر تم اس کی طرف لوٹائے جاؤ گے اور وہ تمہیں ایسا ثواب دے گا جو نہ کسی آنکھ نے دیکھا نہ کسی کان نے سنا نہ کسی دل پر اس کا خطرہ گزرا ۔(سورۃ البقرۃ : ۲۷،۲۸)
(۹) اللہ تعالی کی خفیہ تدبیر سے نہ ڈرنے والوں کے لیے خسارہ ہے
اللہ تعالی کافرمان عالی شان ہے :
{اَفَاَمِنُوْا مَکْرَ اللہِ فَلَا یَاْمَنُ مَکْرَ اللہِ اِلَّا الْقَوْمُ الْخٰسِرُوْنَ }
ترجمہ :کیا اللہ تعالی کی خفیہ تدبیر سے بے خبر ہیںتو اللہ تعالی کی خفیہ تدبیر سے نڈر نہیں ہوتے مگر تباہی والے۔(سورۃ الاعراف : ۹۹)
صدرالافاضل سید نعیم الدین مراد آبادی رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ اور اس کے مُخلِص بندے اس کا خوف رکھتے ہیں ۔ رَبیع بن خَثیم کی صاحبزادی نے ان سے کہا کیا سبب ہے میں دیکھتی ہوں سب لوگ سوتے ہیں اور آپ نہیں سوتے ہیں ؟ فرمایا ! اے نورِ نظر ، تیرا باپ شَب کو سونے سے ڈرتا ہے یعنی یہ کہ غافل ہو کر سوجانا کہیں سببِ عذاب نہ ہو ۔(سورۃ الاعراف : ۹۹)
(۱۰) اللہ تعالی کے متعلق بد گمانی کرنے والوں کے لیے خسارہ ہے
اللہ تعالی کافرمان عالی شان ہے :
{وَ ذٰلِکُمْ ظَنُّکُمُ الَّذِیْ ظَنَنْتُمْ بِرَبِّکُمْ اَرْدٰیکُمْ فَاَصْبَحْتُمْ مِّنَ الْخٰسِرِیْنَ }
ترجمہ :اور یہ ہے تمہارا وہ گمان جو تم نے اپنے رب کے ساتھ کیا اور اس نے تمہیں ہلاک کردیا تو اب رہ گئے ہارے ہوؤں میں ۔(سورہ فصلت : ۲۳)
(۱۱)اللہ کے ذکر سے غفلت کرنے والوں کے لیے خسارہ ہے
اللہ تعالی کافرمان عالی شان ہے :
{یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُلْہِکُمْ اَمْوٰلُکُمْ وَ لَآ اَوْلٰدُکُمْ عَنْ ذِکْرِ اللہِ وَ مَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِکَ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الْخٰسِرُوْنَ }
ترجمہ:اے ایمان والو تمہارے مال نہ تمہاری اولاد کوئی چیز تمہیں اللہ تعالی کے ذکر سے غافل نہ کرے اور جو ایسا کرے تو وہی لوگ نقصان میں ہیں ۔
(۱۲) اپنے مسلمان بھائی کو قتل کرنے والوں کے لیے خسارہ ہے
اللہ تعالی کافرمان عالی شان ہے :
{فَطَوَّعَتْ لَہ نَفْسُہ قَتْلَ اَخِیْہِ فَقَتَلَہ فَاَصْبَحَ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ }
ترجمہ :تو اُس کے نفس نے اُسے بھائی کے قتل کا چاؤ دلایا تو اسے قتل کردیا تو رہ گیا نقصان میں ۔(سورۃ المائدہ : ۳۰)
(۱۳)نماز نہ پڑھنے والے لوگوں کے لیے خسارہ ہے
عَنْ حُرَیْثِ بْنِ قَبِیصَۃ فَقَالَ:سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ:إِنَّ أَوَّلَ مَا یُحَاسَبُ بِہِ العَبْدُ یَوْمَ القِیَامَۃِ مِنْ عَمَلِہِ صَلاَتُہُ، فَإِنْ صَلُحَتْ فَقَدْ أَفْلَحَ وَأَنْجَحَ، وَإِنْ فَسَدَتْ فَقَدْ خَابَ وَخَسِرَ۔
ترجمہ:سیدناحریث رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا :قیامت کے روز بندے سے سب سے پہلے اس کی نماز کا محاسبہ ہوگا، اگر وہ ٹھیک رہی تو وہ کامیاب ہو گیا، اور اگر وہ خراب نکلی تو وہ ناکام اور خسارے میں رہا ۔
(سنن الترمذی:محمد بن عیسی بن سَوْرۃ بن موسی بن الضحاک، الترمذی، أبو عیسی (۱:۵۳۵)
(۱۴) امیرزادوں کے لیے خسارہ ہے
عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ، قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ :تَعِسَ عَبْدُ الدِّینَارِ، وَعَبْدُ الدِّرْہَمِ، وَعَبْدُ الْخَمِیصَۃِ، تَعِسَ وَانْتَکَسَ، وَإِذَا شِیکَ فَلَا انْتَقَشَ۔
ترجمہ :حضرت سیدناابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:دینار کابندہ درہم کابندہ اورچادرکابندہ تباہ ہوگیابلکہ اوندھے منہ دوزخ میں گرے ، بلکہ اللہ تعالی کرے اس کو کانٹالگے توکبھی بھی نہ نکلے۔
(سنن ابن ماجہ:ابن ماجۃ أبو عبد اللہ محمد بن یزید القزوینی، وماجۃ اسم أبیہ یزید (۲:۱۳۸۶)
(۱۵)مال کی زکوۃ نہ دینے والے خسارے میں ہیں
عَنْ أَبِی ذَرٍّ قَالَ جِئْتُ إِلَی رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَہُوَ جَالِسٌ فِی ظِلِّ الْکَعْبَۃِ قَالَ فَرَآنِی مُقْبِلًا فَقَالَ ہُمْ الْأَخْسَرُونَ وَرَبِّ الْکَعْبَۃِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ قَالَ فَقُلْتُ مَا لِی لَعَلَّہُ أُنْزِلَ فِیَّ شَیْء ٌ قَالَ قُلْتُ مَنْ ہُمْ فِدَاکَ أَبِی وَأُمِّی فَقَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ہُمْ الْأَکْثَرُونَ إِلَّا مَنْ قَالَ ہَکَذَا وَہَکَذَا وَہَکَذَا فَحَثَا بَیْنَ یَدَیْہِ وَعَنْ یَمِینِہِ وَعَنْ شِمَالِہِ ثُمَّ قَالَ وَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِہِ لَا یَمُوتُ رَجُلٌ فَیَدَعُ إِبِلًا أَوْ بَقَرًا لَمْ یُؤَدِّ زَکَاتَہَا إِلَّا جَاء َتْہُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ أَعْظَمَ مَا کَانَتْ وَأَسْمَنَہُ تَطَؤُہُ بِأَخْفَافِہَا وَتَنْطَحُہُ بِقُرُونِہَا کُلَّمَا نَفِدَتْ أُخْرَاہَا عَادَتْ عَلَیْہِ أُولَاہَا حَتَّی یُقْضَی بَیْنَ النَّاسِ۔
ترجمہ:حضرت سیدناابوذر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں رسول اللہﷺکے پاس آیا،آپﷺ کعبہ کے سائے میں بیٹھے تھے آپﷺ نے مجھے آتا دیکھاتوفرمایا’:رب کعبہ کی قسم!قیامت کے دن یہی لوگ خسارے میں ہوں گے،میں نے اپنے جی میں کہا: شاید کوئی چیز میرے بارے میں نازل کی گئی ہو۔میں نے عرض کیا :کون لوگ؟ میرے ماں باپ آپ ﷺپرقربان ہوں؟تو رسول اللہﷺنے فرمایا:یہی لوگ جوبہت مال والے ہیں سوائے ان لوگوں کے جوایسا ایساکرے ۔آپ ﷺنے اپنے دونوں ہاتھ سے لپ بھرکراپنے سامنے اوراپنے دائیں اوراپنے بائیں طرف اشارہ کیا،پھرفرمایا:قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، جوبھی آدمی اونٹ اور گائے چھو ڑ کرمرااوراس نے اس کی زکوۃ ادانہیں کی تو قیامت کے دن وہ اس سے زیادہ بھاری اور موٹے ہوکر آئیں گے جتناوہ تھے اوراسے اپنے کھروں سے روندیں گے، اوراپنی سینگوں سے ماریں گے، جب ان کاآخری جانور بھی گزرچکے گاتو پھر پہلالوٹادیا جائے گا یہاں تک کہ لوگوں کے درمیان فیصلہ کردیا جائے ۔
(سنن الترمذی:محمد بن عیسی بن سَوْرۃ بن موسی بن الضحاک، الترمذی، أبو عیسی (۳:۵۱۷)

(۱۶) تین قسم کے لوگوں کے لیے خسارہ ہے
عَنْ أَبِی ذَرٍّ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ:ثَلَاثَۃٌ لَا یُکَلِّمُہُمُ اللہُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ، وَلَا یَنْظُرُ إِلَیْہِمْ وَلَا یُزَکِّیہِمْ وَلَہُمْ عَذَابٌ أَلِیمٌ قَالَ:فَقَرَأَہَا رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ثَلَاثَ مِرَارًا، قَالَ أَبُو ذَرٍّ:خَابُوا وَخَسِرُوا، مَنْ ہُمْ یَا رَسُولَ اللہِ؟ قَالَ:الْمُسْبِلُ، وَالْمَنَّانُ، وَالْمُنَفِّقُ سِلْعَتَہُ بِالْحَلِفِ الْکَاذِبِ۔
ترجمہ:حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے اور انہوں نے نبی ﷺسے روایت کی کہ آپ ﷺنے فرمایا :تین (قسم کے لوگ )ہیں اللہ تعالی ان سے گفتگو نہیں کرے گا ، نہ قیامت کے روز ان کی طرف دیکھے گا اور نہ انہیں (گناہوں سے )پاک کرے گا اور ان کے لیے درد ناک عذاب ہوگا ۔ ابو ذر رضی اللہ عنہ نے کہا :آپﷺ نے اسے تین دفعہ پڑھا ۔ ابو ذر رضی اللہ عنہ نے کہا :ناکام ہو گئے اور نقصان سے دو چار ہوئے ،یارسول اللہ ﷺ!یہ کون ہیں ؟ رسول اللہ ﷺنے فرمایا : ٹخنے سے نیچے تہ بند لٹکانے والا، اور احسان جتانے والا، اور جھوٹی قسم کھا کر اپنا سامان بیچنے والا ۔
(صحیح مسلم :مسلم بن الحجاج أبو الحسن القشیری النیسابوری (ا:۱۰۲)

(۱۷)دشمن صحابہ خسارے میں ہے
قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ الْحُسَیْنِ رَحِمَہُ اللَّہُ:لَقَدْ خَابَ وَخَسِرَ مَنْ سَبَّ أَصْحَابَ رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِأَنَّہُ خَالَفَ اللَّہَ وَرَسُولَہُ وَلَحِقَتْہُ اللَّعْنَۃُ مِنَ اللَّہِ عَزَّ وَجَلَّ وَمِنْ رَسُولِہِ وَمِنَ الْمَلَائِکَۃِ وَمِنْ جَمِیعِ الْمُؤْمِنِینَ ,وَلَا یَقْبَلُ اللَّہُ مِنْہُ صَرْفًا وَلَا عَدْلًا لَا فَرِیضَۃً وَلَا تَطَوُّعًا , وَہُوَ ذَلِیلٌ فِی الدُّنْیَا , وَضِیعُ الْقَدْرِ ,کَثَّرَ اللَّہُ بِہِمُ الْقُبُورَ وَأَخْلَی مِنْہُمُ الدُّورَ۔
ترجمہ:امام ابوبکرمحمدبن الحسین الآجری البغدادی المتوفی : ۳۶۰ھ) رحمہ اللہ تعالی نقل فرماتے ہیںوہ شخص ذلیل ورسواہوااورخسارے میں پڑاجس نے رسول اللہ ﷺکے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی گستاخی کی کیونکہ اس نے اللہ تعالی اوراس کے رسول کریم ﷺکی مخالفت کی ہے اوراللہ تعالی،رسول ﷺاورتمام ملائکہ کرام اورتمام مومنین کی طرف سے اس پر لعنت پڑی ہے ،اللہ تعالی اس گستاخ کے نہ فرض قبول کرے گااورنہ ہی نفل اورایساشخص دنیامیں ہی ذلیل ہوجائے گااوراس کی عزت لوگوں کے دلوں سے ختم ہوجائے گی ، اللہ تعالی ان کی قبروں کو بڑھائے اوران کے گھروں کو خالی کردے۔
(الشریعۃ:أبو بکر محمد بن الحسین بن عبد اللہ الآجُرِّیُّ البغدادی (۵:۲۵۰۶)

(۱۸)گستاخ صحابہ واہل بیت خسارے میں پڑگیا
قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ الْحُسَیْنِ رَحِمَہُ اللَّہُ:لَقَدْ خَابَ وَخَسِرَ مَنْ أَصْبَحَ وَأَمْسَی وَفِی قَلْبِہِ بُغْضٌ لِعَائِشَۃَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہَا أَوْ لِأَحَدٍ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَوْ لِأَحَدٍ مِنْ أَہْلِ بَیْتِ رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ۔
ترجمہ:امام ابوبکرمحمدبن الحسین الآجری البغدادی المتوفی : ۳۶۰ھ) رحمہ اللہ تعالی نقل فرماتے ہیں تحقیق وہ شخص ذلیل ورسواہواجس کے دل میں صبح یاشام حضرت سیدتناعائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہاکابغض ہویارسول اللہ ﷺکے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے کسی کابغض ہویارسول اللہ ﷺکی آل پاک میں سے کسی کابغض ہو۔
(الشریعۃ: أبو بکر محمد بن الحسین بن عبد اللہ الآجُرِّیُّ البغدادی (۵:۲۴۲۷)

(۱۹)جو جنت نہ پاسکاوہ ۔۔۔
ثَنَا رَجُلٌ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ عَبْدِ الْعَزِیزِ خَطَبَ النَّاسَ، فَقَالَ:أَیُّہَا النَّاسُ إِنَّکُمْ لَمْ تُخْلَقُوا عَبَثًا، وَلَمْ تُتْرَکُوا سُدًی وَقَدْ خَابَ وَخَسِرَ مَنْ خَرَجَ مِنْ رَحْمَۃِ اللہِ الَّتِی وَسِعَتْ کُلَّ شَیْء ٍ، وَحَرَّمَ الْجَنَّۃَ الَّتِی عَرْضُہَا السَّمَاوَاتُ وَالْأَرْضُ۔
ترجمہ:حضرت سیدناعمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ نے خطبہ ارشادفرمایاکہ اے لوگو! بے شک تم کو فضول پیدانہیں کیاگیااورنہ ہی تمھیں فضول چھوڑاگیاہے ، تحقیق وہ شخص ذلیل ورسواہوااورخسارے میں پڑگیاجو اللہ تعالی کی رحمت جو ہر چیز سے وسیع ہے سے نکل گیا اوراللہ تعالی کی جنت سے محروم ہوگیاجس کی چوڑائی اورلمبائی زمینوں اورآسمانوں جتنی ہے ۔
(حلیۃ الأولیاء وطبقات الأصفیاء :أبو نعیم أحمد بن عبد اللہ بن أحمد بن إسحاق (۵:۲۸۶)

(۲۰)رسول اللہ ﷺکے متعلق شک میں رہنے والاخسارے میں ہے
نا مُسْلِمُ بْنُ مُخَلَّدٍ الطَّائِفِیُّ، قَالَ:رَأَیْتُ النَّبِیَّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی الْمَنَامِ فَقُلْتُ:یَا رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:مَا تَقُولُ فِی الْقَدَرِیَّۃِ؟ قَالَ:مَجُوسٌ قُلْتُ:فَمَا تَقُولُ فِی الرَّافِضَۃِ؟ قَالَ:ہُمْ شَرٌّ مِنَ الْقَدَرِیَّۃِ أَوِ الْقَدَرِیَّۃُ شَرٌّ مِنْہُمْ قُلْتُ:یَا رَسُولَ اللَّہِ، مَا تَقُولُ فِی الْمُرْجِئَۃِ؟ قَالَ:ہُمْ دُونَہُمْ، وَہُمْ مُخَالِفُونَ لِلسُّنَّۃِ ، قُلْتُ :یَا رَسُولَ اللَّہِ، مَا تَقُولُ فِی الشُّکَّاکِ؟ قَالَ:لَقَدْ خَابَ وَخَسِرَ مَنْ شَکَّ فِیَّ ، قُلْتُ:یَا رَسُولَ اللَّہِ، إِنَّہُمْ لَا یَشُکُّونَ فِیکَ،وَلَکِنْ لَا یَدْرُونَ مَا ہُمْ عِنْدَ اللَّہِ، قَالَ:سُبْحَانَ اللَّہِ، وَہَلْ یَدْرِی أَحَدٌ مَا ہُوَ عِنْدَ اللَّہِ؟۔
ترجمہ:حضرت سیدنامسلم بن مخلد الطائفی رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ میں نے خواب میں رسول اللہ ﷺکی زیارت کی تو میں نے عرض کیا: یارسول اللہ ﷺ! آپ ﷺقدریوں کے بارے میں کیافرماتے ہیں ؟ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: وہ مجوسی ہیں ۔ میں نے عرض کی : یارسول اللہ ﷺ! رافضیوں کے بارے میں کیافرماتے ہیں ؟ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: ! وہ قدریوں سے بھی زیادہ ذلیل ہیں یافرمایا:قدری ان سے زیادہ ذلیل ہیں ، میں نے عرض کیایارسول اللہ ﷺمرجیہ کے بارے میں کیافرماتے ہیں ؟ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: یہ ان سے بھی زیادہ ذلیل ہیں اوریہ میری سنت کے مخالف ہیں ، میںنے عرض کیا: یارسول اللہ ﷺ!جو شک میں مبتلاء ہیں ان کے بارے میں کیافرماتے ہیں ؟ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: وہ شخص ذلیل ورسواہوااورخسارے میں پڑگیاجو میرے بارے میں شک میں مبتلاہوا، میں نے عرض کیا:یارسول اللہ ﷺ!وہ آپ ﷺکے بارے میں شک نہیں کرتے لیکن وہ یہ جانتے نہیںکہ ان کااللہ تعالی کے ہاں کیامقام ہے ؟ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: سبحان اللہ ! کیاکوئی ایسے مقام پر پہنچ سکتاہے کہ وہ یہ جان لے کہ اس کااللہ تعالی کے ہاں کیامقام ہے ؟۔
(شرح أصول اعتقاد أہل السنۃ والجماعۃ:أبو القاسم ہبۃ اللہ بن الحسن بن منصور الطبری الرازی اللالکائی (۶:۸۱۱۰)

(۲۱)جس کاہمسایہ پریشان ہو۔۔
عَنْ أَبِی شُرَیْحٍ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ:وَاللَّہِ لاَ یُؤْمِنُ، وَاللَّہِ لاَ یُؤْمِنُ، وَاللَّہِ لاَ یُؤْمِنُ قِیلَ:وَمَنْ یَا رَسُولَ اللَّہِ؟ قَالَ: الَّذِی لاَ یَأْمَنُ جَارُہُ بَوَایِقَہُ۔
ترجمہ:حضرت سیدناابو شریح رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:واللہ !وہ ایمان والا نہیں واللہ!وہ ایمان والا نہیں، واللہ !وہ ایمان والا نہیں۔ عرض کی گئی:یارسول اللہ ﷺ!کون؟ آپ ﷺنے فرمایا:جس کا ہمسایہ اس کی اذیتوں سے محفوظ نہ ہو۔
(صحیح البخاری:محمد بن إسماعیل أبو عبداللہ البخاری الجعفی(۸:۱۰)

(۲۲)جس کے گناہ سات سو سے زیادہ ہوجائیں۔۔۔۔
عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ، رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:اسْتَغْفِرُوا فَاسْتَغْفَرُوا،فَقَالَ: أَکْمِلُوا سَبْعِینَ مَرَّۃً فَأَکْمَلْنَاہَا، فَقَالَ:مَنِ اسْتَغْفَرَ سَبْعِینَ مَرَّۃً غَفَرَ اللَّہُ لَہُ سَبْعمِائَۃَ ذَنْبٍ وَقَدْ خَابَ عَبْدٌ وَخَسِرَ أَذْنَبَ فِی کُلِّ یَوْمٍ أَکْثَرَ مِنْ سَبْعمِائَۃِ ذَنْبٍ۔
ترجمہ :حضرت سیدناانس بن مالک رضی اللہ عنہ نے فرمایاکہ رسول اللہ ﷺنے ایک بار ہمیں حکم دیاکہ استغفارکرو، پھراستغفارکرو، پھررسول اللہ ﷺنے فرمایا: ستربار مکمل کرو، جب ہم نے سترباراستغفارکرلیاتو رسول اللہ ﷺنے فرمایا: جو شخص سترباراستغفارکرتاہے اللہ تعالی اس کے سات سوگناہ معاف فرمادیتاہے اوروہ شخص ذلیل ورسواہوااورخسارے میں پڑاجس کے روزانہ سات سو سے زیادہ گناہ ہوجائیں ۔
(الدعاء للطبرانی:سلیمان بن أحمد بن أیوب بن مطیر اللخمی الشامی، أبو القاسم الطبرانی (ا:۵۱۶)

(۲۳)جس نے رسول اللہ ﷺکی رحمت سے حصہ نہیں پایا
عَنْ أَبِی صَالِحٍ قَالَ: کَانَ النَّبِیُّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:یُنَادِیہِمْ یَا أَیُّہَا النَّاسُ إِنَّمَا أَنَا رَحْمَۃٌ مُہْدَاۃٌ۔
ترجمہ:حضرت سیدناابوصالح رضی اللہ عنہ نے ارشادفرمایاکہ رسول اللہ ﷺلوگوں کو مخاطب کرکے فرمایاکرتے تھے کہ اے لوگو! میں رحمت ہوں اورہدایت دینے کے لئے تشریف لایاہوں۔(۱)
قَالَ الْمُنَاوِیُّ فِی شَرْحِہِ أَیْ ذُو رَحْمَۃٍ أَوْ مُبَالِغٌ فِی الرَّحْمَۃِ حَتَّی کَأَنِّی عَیْنُہَا لِأَنَّ الرَّحْمَۃَ مَا یَتَرَتَّبُ عَلَیْہَا النَّفْعُ وَذَاتُہُ کَذَلِکَ فَالْمَعْنَی مَا أَنَا إلَّا ذُو رَحْمَۃٍ لِلْعَالَمِینَ أَہْدَاہَا اللَّہُ تَعَالَی إلَیْہِمْ فَمَنْ قَبِلَ ہِدَایَتَہُ أَفْلَحَ وَنَجَا وَمَنْ أَبَی خَابَ وَخَسِرَ۔
ترجمہ :امام عبدالرئوف المناوی رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیںکہ اس حدیث شریف کامعنی یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺفرماتے ہیں کہ میں رحمت والاہوں یاپھراس میں مبالغہ ہے کہ میں عین ِ رحمت ہوں ، کیونکہ رحمت وہ ہوتی ہے جس پر نفع مترتب ہو تاہے اورآپ ﷺکی ذات مبارکہ ایسی ہی ہے ۔معنی یہ ہے کہ میں سارے جہانوں کے لئے رحمت ہوں گویاکہ اللہ تعالی نے مجھے ہدیہ بناکر لوگو ں کی طرف بھیجا، پس جس نے اس ہدیہ کو قبول کرلیاوہ نجات پاگیااورکامیاب ہوگیااورجس نے انکارکیاوہ ذلیل ورسوا ہوااورخسارے میں پڑگیا۔(۲)

(۱)سنن الدارمی:أبو محمد عبد اللہ بن عبد الرحمن الدارمی (۱:۱۶۶)
(۲)بریقۃ محمودیۃ:محمد بن محمد بن مصطفی بن عثمان، أبو سعید الخادمی الحنفی (۱:۱۵۹)

(۲۴) جس کے علی رضی اللہ عنہ مولانہیں ۔۔۔۔
قَالَ نِفْطَوَیْہِ:فَقُلْتُ لإِسْمَاعِیلَ الْقَاضِی:فِیہِ طُرُقٌ، رَوَاہُ الْبَصْرِیُّونَ وَالْکُوفِیُّونَ؟ فَقَالَ:نَعَمْ، وَقَدْ خَابَ وَخَسِرَ مَنْ لَمْ یَکُنْ عَلِیٌّ مَوْلَاہُ ہَذَا لَفْظُ إِسْمَاعِیلَ.
ترجمہ :حضرت سیدناامام اسماعیل رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ جس کے مولاعلی رضی اللہ عنہ مولانہیں وہ شخص ذلیل ورسواہوااورخسارے میں پڑگیا۔
(تاریخ الإسلام وَوَفیات المشاہیر وَالأعلام:شمس الدین أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن عثمان بن قَایْماز الذہبی (۶:۷۱۷)

(۲۵) جو مولاعلی رضی اللہ عنہ کی سیرت سے غافل رہا۔۔۔
عَن مُعَاوِیَۃ بن عبد اللہ بن میسرَۃ قَالَ سَمِعت أَبَا حنیفَۃ یَقُول من رغب عَن سیرۃ عَلیّ رَضِی اللہ عَنہُ فِی أہل الْقبْلَۃ فقد خَابَ وخسر۔
ترجمہ :حضرت سیدنامعاویہ بن عبداللہ بن میسرہ رضی اللہ عنہ نے ارشادفرمایاکہ میں نے حضرت سیدناامام اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ کو فرماتے ہوئے سناکہ جو شخص اہل اسلام میں سے مولاعلی رضی اللہ عنہ کی سیرت سے غافل رہاوہ ذلیل ورسواہوااورخسارے میں پڑگیا۔
(أخبار أبی حنیفۃ وأصحابہ: الحسین بن علی بن محمد بن جعفر، أبو عبد اللہ الصَّیْمَری الحنفی:۲۷)

(۲۶)جوجاہل رہاوہ ۔۔۔۔
من عرف ربہ نسی کل مَا دونہ وَمن جہل ربہ تعلق بِکُل شَیْء دونہ وَمن اعتز بِالْعلمِ فَازَ وَمن اعتز بِالْجَہْلِ خَابَ وخسر۔
ترجمہ :حضرت سیدناامام محمدبن الحسین النیشاپوری رحمہ اللہ تعالی المتوفی : ۴۱۲ھ) فرماتے ہیں کہ جس شخص نے اپنے رب تعالی کو پہچا ن لیاوہ پھرہر چیز کو بھول گیااورجو شخص اپنے رب تعالی سے جاہل رہاوہ دنیاکی ہرہرچیز میں الجھارہے گا،اورجس شخص نے علم کے ذریعے عزت پائی وہ کامیاب ہوگیااورجس نے جہالت کے ساتھ عزت پانے کی کوشش کی وہ ذلیل ورسواہوااورخسارے میں پڑگیا۔
(طبقات الصوفیۃ:محمد بن الحسین بن محمد لم النیسابوری، أبو عبد الرحمن السلمی :۱۲۸)

(۲۷)بلاعلم عبادت کرنے والے۔۔۔
عَنْ سُوَیْدِ بْنِ غَفَلَۃَ، أَنَّ أَبَا بَکْرٍ الصِّدِّیقَ، رَضِیَ اللہُ تَعَالَی عَنْہُ خَرَجَ ذَاتَ یَوْمٍ فَاسْتَقْبَلَہُ النَّبِیُّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ لَہُ:بِمَ بُعِثْتَ یَا رَسُولَ اللہِ؟ قَالَ:بِالْعَقْلِ قَالَ:فَکَیْفَ لَنَا بِالْعَقْلِ؟ فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: إِنَّ الْعَقْلَ لَا غَایَۃَ لَہُ وَلَکِنْ مَنْ أَحَلَّ حَلَالَ اللہِ وَحَرَّمَ حَرَامَہُ سُمِّیَ عَاقِلًا فَإِنِ اجْتَہَدَ بَعْدَ ذَلِکَ سُمِّیَ عَابِدًا فَإِنِ اجْتَہَدَ بَعْدَ ذَلِکَ سُمِّیَ جَوَادًا فَمَنِ اجْتَہَدَ فِی الْعِبَادَۃِ وَسَمَحَ فِی نَوَائِبِ الْمَعْرُوفِ بِلَا حَظٍّ مِنْ عَقْلٍ یَدُلُّہُ عَلَی اتِّبَاعِ أَمْرِ اللہِ عَزَّ وَجَلَّ وَاجْتِنَابِ مَا نَہَی اللہ عَنْہُ فَأُولَئِکَ ہُمُ الْأَخْسَرُونَ أَعْمَالًا , الَّذِینَ ضَلَّ سَعْیُہُمْ فِی الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا وَہُمْ یَحْسَبُونَ أَنَّہُمْ یُحْسِنُونَ صُنْعًا۔
ترجمہ :حضرت سیدناسوید بن غفلہ رضی اللہ عنہ ارشادفرماتے ہیں کہ حضرت سیدناابوبکررضی اللہ عنہ اپنے گھرسے باہر نکلے تو رسول اللہ ﷺسے ملاقات ہوئی ۔ آپ رضی اللہ عنہ نے عرض کی : یارسول اللہ ﷺ! آپ ﷺکو کس چیز کے ساتھ بھیجاگیاہے ؟ رسول اللہﷺ نے فرمایا:عقل کے ساتھ ، حضرت سیدناابوبکررضی اللہ عنہ نے عرض کی : یارسول اللہ ﷺ! ہم عقل کو کیسے اختیارکرسکتے ہیں؟ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: بے شک عقل کی کوئی انتہاء نہیں ہے ، لیکن جس شخص نے اللہ تعالی کے حلال کو حلال جانااورحرام کو حرام جانااسے عقل مندجاناجائے گا، اوراگروہ اس کے بعد اللہ تعالی کی راہ میں مزید کوشش کرے عبادت کے ساتھ اورنیکی کی راہ میں تکالیف پر صبرکرے لیکن عقل کاسہارانہ لے تو اسے اللہ تعالی کے حکم کی اتباع کی طرف رہنمائی کرے اوراس کی منع کردہ اشیاء سے باز رکھے تویہی لوگ ہیں جو بدترین اعمال والے ہیں جن کی دنیامیں کی گئی کوشش بیکارگئی حالانکہ اپنے گمان میں وہ اچھے اعمال کرنے والے تھے ۔
(حلیۃ الأولیاء وطبقات الأصفیاء :أبو نعیم أحمد بن عبد اللہ الأصبہانی (۱:۲۱)

(۲۸)خارجی فکرکے لوگ خسارے والے ہیں؟
عن أبی الطفیل قال:مر ابن الکواء إلی علی علیہ السلام فقال لہ:من (الأخسرون أعمالاً)؟ قال: ویلک ہم أہل (حرورا)۔
ترجمہ :حضرت سیدناابوالطفیل رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ وہ مقام الکواء سے گزرے تو حضرت سیدنامولاعلی رضی اللہ عنہ سے ملاقات ہوئی توانہو ں نے عرض کی : حضور ! خسارے والے کون ہیں؟ تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: توہلاک ہوجائے۔سارے خارجی فکرکے لوگ خسارے والے ہیں۔
(مناقب أمیر المؤمنین علی بن أبی طالب:علی بن محمد بن محمد بن الطیب بن أبی یعلی ، المعروف بابن المغازلی :۱۱۱)

(۲۹)جوقرآن وسنت سے منہ پھیرے
قَالَ الْمُنْکَدِرِیُّ إِنَّہُ سَمِعَ الْحَکَمَ بْنَ عُمَیْر ُ سَمِعْتُ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ (إِنَّ ہَذَا الْقُرْآنَ صَعْبٌ مُسْتَصْعَبٌ لِمَنْ کَرِہَہُ مُیَسَّرٌ لِمَنْ تَبِعَہُ وَإِنَّ حَدِیثِی صَعْبٌ مُسْتَصْعَبٌ لِمَنْ کَرِہَہُ مُیَسَّرٌ لِمَنْ تَبِعَہُ مَنْ سَمِعَ حَدِیثِی وَحَفِظَہُ وَعَمِلَ بِہِ جَاء َ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ مَعَ الْقَرْآنِ وَمَنْ تَہَاوَنَ بِحَدِیثِی فَقَدْ تَہَاوَنَ بِالْقُرْآنِ وَمَنْ تَہَاوَنَ بِالْقُرْآنِ خَسِرَ الدُّنْیَا وَالْآخِرَۃَ آمُرُ أُمَّتِی أَنْ خُذُوا بِقَوْلِی وَأَطِیعُوا أَمْرِی وَاتَّبِعُوا سُنَّتِی مَنْ أَخَذَ بِقَوْلِی وَاتَّبَعَ سُنَّتِی جَاء َ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ مَعَ الْقَرْآنِ وَمَنْ تَہَاوَنَ بِحَدِیثِی وَسُنَّتِی فَقَدْ تَہَاوَنَ بِالْقُرْآنِ وَمَنْ تَہَاوَنَ بِالْقُرْآنِ خَسِرَ الدُّنْیَا وَالْآخِرَۃَ لِأَنَّ اللَّہَ یَقُولُ (وَمَا آتَاکُم الرَّسُول فَخُذُوہُ)
ترجمہ:حضرت سیدنامحمدبن المنکدررحمہ اللہ تعالی بیان کرتے ہیںکہ انہوںنے حضرت سیدناالحکم بن عمیررضی اللہ عنہ سے سناوہ فرماتے ہیںکہ میں نے رسول اللہ ﷺسے سناکہ آپ ﷺفرمارہے تھے کہ بے شک قرآن کریم مشکل اوردشوارہے اس پر جو اسے ناپسندکرتاہے اورآسان ہے اس کے لئے جو اس کی پیروی کرتاہے ، اورمیری حدیث شریف بھی مشکل اوردشوار ہے اس کے لئے جو اسے ناپسندکرتاہے اور آسان ہے اس کے لئے جو اس کی پیروی کرتاہے۔ جو شخص میری حدیث شریف سنے اوراسے یاد کرے اوراس پر عمل کرے توقیامت کے دن جب آئے گا تو قرآن کریم کے ساتھ آئے گااورجس شخص نے میری حدیث شریف کو حقیرجانایقینااس نے قرآن کریم کو حقیرجاناہے اورجس نے قرآن کریم کو حقیر جاناہے وہ دنیاوآخرت میں ذلیل ورسواہوجائے گا اورخسارے میں مبتلاء ہوگا، میں تمھیں حکم دیتاہوں کہ تم میرے فرمان شریف کو تھامے رکھو، اورمیرے حکم کی پیروی کرواورمیری سنت کی اتباع کرو ، جس شخص نے میرے فرمان کو تھامااورمیری سنت کی پیروی کی وہ قیامت کے دن قرآن کریم کے ساتھ آئے گا۔
(ذم الکلام وأہلہ:أبو إسماعیل عبد اللہ بن محمد بن علی الأنصاری الہروی (۴:۶۹)

(۳۰)جو رسول اللہ ﷺکاگستاخ بناوہ ۔۔۔۔
عَنْ مَعْمَرٍ عَنِ الْحَسَنِ قَالَ:خَسِرَ عَبْدٌ لَا یَکُونُ حَظُّہُ مِنْ کِتَابِ اللَّہِ إِلَّا التَّکْذِیبَ بِنَبِیِّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔
ترجمہ:حضرت سیدنامعمرحضرت سیدناامام الحسن رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیںکہ ذلیل ہوگیااورخسارے میں پڑگیاوہ شخص جسے قرآن کریم پڑھ کر بھی سوائے رسول اللہ ﷺکی گستاخیوں کے کچھ ہاتھ نہ آیا۔
(تفسیر عبد الرزاق:أبو بکر عبد الرزاق بن ہمام بن نافع الحمیری الیمانی الصنعانی (۳:۸۴)

(۳۱)خسارے والے کون ہیں؟
قَالَ أَبُو جَعْفَرٍوَالْخَاسِرُونَ جَمْعُ خَاسِرٍ، وَالْخَاسِرُونَ:النَّاقِصُونَ أَنْفُسَہُمْ حُظُوظَہَا بِمَعْصِیَتِہِمُ اللَّہَ مِنْ رَحْمَتِہِ، کَمَا یَخْسَرُ الرَّجُلُ فِی تِجَارَتِہِ بِأَنْ یُوضَعَ مِنْ رَأْسِ مَالِہِ فِی بَیْعِہِ. فَکَذَلِکَ الْکَافِرُ وَالْمُنَافِقُ خَسِرَ بِحِرْمَانِ اللَّہِ إِیَّاہُ۔
ترجمہ :حضرت سیدناامام محمدباقررضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ خاسرکی جمع الخاسرون ہے اورالخاسرون : ان کو کہتے ہیں جنہوںنے اللہ تعالی کی نافرمانی کرکے اللہ تعالی کی رحمت سے اپناحصہ ختم کرلیاہو، جیساکہ کوئی شخص اپناساراپیسہ کاروبار میں ڈال دے پھراس کاتمام کاروبارتباہ ہوجائے اسی طرح کافروں اورمنافقوں نے اللہ تعالی کی رحمت سے اپناحصہ ختم کرلیاہے ۔ انہوںنے گناہ کئے اوررسول اللہ ﷺکی بے ادبی کی تواللہ تعالی نے ان کو اپنی رحمت سے محروم کردیا۔
(جامع البیان عن تأویل آی القرآن: محمد بن جریر أبو جعفر الطبری (۱:۴۲۰)

(۳۲)لبرل خسارے میں ہے
أَخْبَرَنَا ابْنُ وَہْبٍ، قَالَ:قَالَ ابْنُ زَیْدٍ:ہَذَا الْمُنَافِقُ، إِنْ صَلُحَتْ لَہُ دُنْیَاہُ أَقَامَ عَلَی الْعِبَادَۃِ، وَإِنْ فَسَدَتْ عَلَیْہِ دُنْیَاہُ وَتَغَیَّرَتِ انْقَلَبَ، وَلَا یُقِیمُ عَلَی الْعِبَادَۃِ إِلَّا لِمَا صَلُحَ مِنْ دُنْیَاہُ.وَإِذَا أَصَابَتْہُ شِدَّۃٌ أَوْ فِتْنَۃٌ أَوِ اخْتِبَارٌ أَوْ ضِیقٌ، تَرَکَ دِینَہُ وَرَجَعَ إِلَی الْکُفْرِ۔
ترجمہ :حضرت سیدناوہب بن منبہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت سیدناابن زید رضی اللہ عنہ نے بیان کیاکہ منافق شخص اگراس کی دنیادرست رہے یعنی مال وغیرہ وافرمقدارمیں رہے تو اللہ تعالی کی عبادت بھی کرتارہے گااوراگردنیوی معاملات خراب ہوجائیں توپھریہ پلٹ جائے گااورعبادت تک نہیں کرے گاجب تک مالی معاملات درست نہ ہوں ، اگراسے کوئی سختی یاکوئی پریشانی آن پہنچے تو دین بھی چھوڑ دے گااورکافربن جائے گا۔اسی کے متعلق اللہ تعالی نے فرمایا:{وَإِنَّ أَصَابَتْہُ فِتْنَۃٌ انْقَلَبَ عَلَی وَجْہِہِ خَسِرَ الدُّنْیَا وَالْآخِرَۃَ}سورۃ الحج :۱۱)
(جامع البیان عن تأویل آی القرآن: محمد بن جریر بن یزید بن کثیر بن غالب الآملی، أبو جعفر الطبری (۶۱:۴۷۵)
کیونکہ لبرل طبقہ ہی وہ واحد طبقہ ہے جو پیسہ دیکھ کر دین بھی بدلتارہتاہے اورانہیں کی بہت بڑی تعداد جو اسلام کو چھوڑ کر مرتد ہوچکی ہے اورصرف اورصرف پیسے کی خاطر خود کو مرزائی کہہ کر بیرون ملک چلے گئے ہیں۔

(۳۳)رسول اللہ ﷺکاہر ہر گستاخ ذلیل ہواہے اورہوتارہے گا
{تَبَّتْ یَدَا أَبِی لَہَبٍ وَتَبَّ }معناہ خسرت یدا أبی لہب، وتب: أی خسر۔
ترجمہ :امام ابراہیم بن السری بن سہل الزجاج المتوفی : ۳۱۱ھ) رحمہ اللہ تعالی {تَبَّتْ یَدَا أَبِی لَہَبٍ وَتَبَّ }کامعنی بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اس کامعنی یہ ہے کہ ابولہب کے ہاتھ ذلیل ہوگئے اورخسارے والے بن گئے اورتب کامعنی بھی یہی ہے کہ وہ خسارے والا ہوگیا۔
(معانی القرآن وإعرابہ:إبراہیم بن السری بن سہل، أبو إسحاق الزجاج (۵:۴۷۴)

معارف ومسائل

(۱)اس سے معلوم ہواکہ جو شخص اللہ تعالی کے کلام پر اعتراض کرتاہے وہ شخص کافرہے ۔
(۲) اس سے یہ بھی معلوم ہواکہ اللہ تعالی کے دشمنوں کے کاموں کو ذلیل ترین اشیاء کے ساتھ تشبیہ دیناتاکہ وہ کافرذلیل ہوجائیں جائز ہے اوریہی قرآنی اسلوب ہے ۔
(۳)اس سے یہ بھی معلوم ہوابندہ مومن اللہ تعالی کے کسی بھی امر پر اعتراض نہیں کرتااگراعتراض کرے تو پھرمومن ہی نہیں رہتااوراہل ایمان کبھی بھی اللہ تعالی کے حکم کو عقل کے ترازومیں تولنے کی ہمت نہیں کرتے، ہزاروں شرعی احکامات پر بلاچوں چرامسلمان بہت ہی شوق کے ساتھ عمل کررہے ہیں ، اورآج تک انہوں نے کبھی بھی علماء کرام سے بھی دریافت نہیں کیاکہ ان احکامات کی حکمت کیاہے اوراس کی دلیل کیاہے ۔ قرن اول میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بغیر حیل وحجت کے رسول اللہ ﷺکے ہر ہرحکم اوراشارہ پر شوق ومحبت کے ساتھ جانثاری کے ساتھ عمل کیااورانہوںنے رسول اللہ ﷺسے کسی بھی حکم کی وجہ معلوم نہیں کی اورنہ ہی کسی معجزہ کے انتظارمیں رہے یہی تووہ وجہ ہے کہ ان کو معیارایمان کادرجہ ملا۔
(۴) اس سے یہ بھی معلوم ہواکہ کفارومشرکین اورمنافقین کااس پر اعتراض کرنادرحقیقت رسول اللہ ﷺکی ایذا کے لئے تھا۔
(۵) یہ بھی معلوم ہواکہ جب قرآن کریم پر اعتراض ہوتو رسول اللہ ﷺکو تکلیف ہوتی ہے ۔
(۶) جب قرآن کریم کی گستاخی ہوتو کسی شخص کو تکلیف نہ ہوتو وہ اپنے ایمان کاجائزہ لے ۔
(۷) اس سے یہ بھی معلوم ہواکہ جو لوگ رسول اللہ ﷺکے دین سے روکتے ہیں وہ عہد کو توڑنے والے ہیں ۔
(۸)ا س سے معلوم ہواکہ جو لوگ رسول اللہ ﷺکے دین کاراستہ روکتے ہیں وہ جنت نہ جاسکیں گے ۔
(۹) رسول اللہ ﷺکے دین کاراستہ روکنے والے یاتویہودی ہیں یاپھرمنافقین ۔
(۱۰) رسول اللہ ﷺکے دین کاراستہ روکنے والے ہمیشہ دنیوی مفاد کو نقصان سے بچانے کی خاطرآڑ بنتے ہیں اور اس آیت مبارکہ میں اللہ تعالی نے وعدہ کیاہے کہ ان کے یہ فوائد ختم ہوجائیں گے ۔
(۱۱) آج بھی یہ بات دیکھی جاسکتی ہے کہ جتنے لوگ اقامت دین کی راہ میں رکاوٹ ہیں وہ سارے یہی دنیاپرست ہیں ۔
(۱۲) تومسلمان قوم کاہر ہر زمانے میں یہی فیصلہ رہاہے اورتاقیامت یہی فیصلہ رہے گا کہ خداتعالی اوراس کے رسول ﷺکے ہر ہرحکم پر بغیر حکمت اوروجہ معلوم کئے عمل کرتے رہیں گے بخلاف کفار ومنافقین اوریہودونصاری کے وہ اللہ تعالی کے ہر ہر حکم پر اعتراض کرتے اوررسول اللہ ﷺکے حکم پر اعتراض کرتے تھے اورآج بھی بے دین طبقہ دینی احکامات پر اعتراضات کرتاہے ۔
(۱۳) {وَیُفْسِدُونَ فِی الْأَرْضِ}سے معلوم ہواکہ وہ لوگ جو حق کامذاق اڑائیں اورلوگوں کو ایمان لانے سے روکیں وہ فساد فی الارض کے مرتکب ہیں ۔ اب پاکستان میں حکومت سندھ کی اسمبلی میں یہ قانون پاس کیاگیاکہ اٹھارہ سال تک کوئی لڑکایالڑکی اسلام قبول نہیں کرسکتے ۔ بموجب اس آیت کریمہ کے ایسے لوگ جتنے بھی اس اسمبلی میں شریک تھے اوراس قانون کے بنانے میں ان کاعمل دخل تھایااس قانون پر راضی رہے سب کے سب ایمان سے خارج ہوچکے ہیں چاہے وہ اپنے آپ کو پیرکہیں یاسیاسی لیڈر۔
(۱۴) یہ بھی معلوم ہواکہ جو لوگ زمین میں گناہ کو عام کرتے ہیں جیسے فلمی اداکاریاڈرامے بنانے والے اوراسی طرح کے دوسرے لوگ جو اہل ایمان میں گناہ پھیلانے کاسبب بنتے ہیں وہ فساد فی الارض کے مرتکب ہیں۔
(۱۵) { وَمَا یُضِلُّ بِہٖٓ اِلَّا الْفٰسِقِیْنَ}سے معلوم ہواکہ آج جتنے لوگ فلمیں بنانے والے فلم بنانے کو گناہ نہیں بلکہ ثواب کاکام جان کرکرتے ہیں وہ دائرہ ایمان سے فارغ ہیں اوراسی طرح جو لوگ سود کو حلال جان کررشوت کو تحفہ جان کراور رب تعالی کی حرام کردہ اشیاء کو حلال جان کر کرتے ہیں وہ سب کے سب اس آیت مبارکہ کے تحت ایمان سے خارج ہیں۔

Leave a Reply