دین حق کے دفاع میں کھڑاہوناسنت انبیاء کرام علیہم السلام ہے اورانبیاء کرام علیہم السلام کے گستاخوں کو ذلیل ورسواکرنااللہ تعالی کی سنت ہے
{اَلَمْ تَرَ اِلَی الَّذِیْ حَآجَّ اِبْرٰہٖمَ فِیْ رَبِّہٖٓ اَنْ اٰتٰیہُ اللہُ الْمُلْکَ اِذْ قَالَ اِبْرٰہٖمُ رَبِّیَ الَّذِیْ یُحْیٖ وَیُمِیْتُ قَالَ اَنَا اُحْیٖ وَاُمِیْتُ قَالَ اِبْرٰہٖمُ فَاِنَّ اللہَ یَاْتِیْ بِالشَّمْسِ مِنَ الْمَشْرِقِ فَاْتِ بِہَا مِنَ الْمَغْرِبِ فَبُہِتَ الَّذِیْ کَفَرَ وَاللہُ لَا یَہْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَ}(۲۵۸)
ترجمہ کنزالایمان :اے محبوب کیا تم نے نہ دیکھا تھا اسے جو ابراہیم سے جھگڑا اس کے رب کے بارے میں اس پر کہ اللہ نے اسے بادشاہی دی جب کہ ابراہیم نے کہا کہ میرا رب وہ ہے کہ جِلاتا اور مارتا ہے بولا میں جِلاتا اور مارتا ہوں ابراہیم نے فرمایا تو اللہ سورج کو لاتا ہے پورب سے تو اس کو پچھم سے لے آ تو ہوش اُ ڑ گئے کافر کے اور اللہ راہ نہیں دکھاتا ظالموں کو ۔
ترجمہ ضیاء الایمان :اے حبیب کریم ﷺ! کیا آپ نے اس کونہ دیکھا تھا جس نے ابراہیم( علیہ السلام) سے اس کے رب تعالی کے بارے میں اس بنا پر جھگڑا کیا کہ اللہ تعالی نے اسے بادشاہی دی ہے ،جب ابراہیم( علیہ السلام) نے فرمایا:میرا رب تعالی وہ ہے جوزندگی دیتا ہے اور موت دیتا ہے۔ اس نے کہا:میں بھی زندگی دیتا ہوں اور موت دیتا ہوں۔ابراہیم ( علیہ السلام)نے فرمایا:تو اللہ تعالی سورج کو مشرق سے طلوع فرماتاہے پس تو اسے مغرب سے نکال لا۔ تو اس کافر کے ہوش اڑ گئے اور اللہ تعالی ظالموں کوہدایت نہیں دیتا۔
نمرود مچھرکے ہاتھوں ذلیل ہوگیا
وَکَانَ إِہْلَاکُہُ لَمَّا قَصَدَ الْمُحَارَبَۃَ مَعَ اللَّہِ تَعَالَی بِأَنْ فَتَحَ اللَّہُ تَعَالَی عَلَیْہِ بَابًا مِنَ الْبَعُوضِ فَسَتَرُوا عَیْنَ الشَّمْسِ وَأَکَلُوا عَسْکَرَہُ وَلَمْ یَتْرُکُوا إِلَّا الْعِظَامَ، وَدَخَلَتْ وَاحِدَۃٌ مِنْہَا فِی دِمَاغِہِ فَأَکَلَتْہُ حَتَّی صَارَتْ مِثْلَ الْفَأْرَۃِ، فَکَانَ أَعَزُّ النَّاسِ عِنْدَہُ بَعْدَ ذَلِکَ مَنْ یَضْرِبُ دِمَاغَہُ بِمِطْرَقَۃٍ عَتِیدَۃٍ لِذَلِکَ۔
ترجمہ :امام ابوعبداللہ محمدبن احمدالقرطبی المتوفی : ۶۷۱ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ نمرود کے ہلاک ہونے کاقصہ یوںہے کہ جب اس نے اللہ تعالی کے ساتھ جنگ کاارادہ کیاتو اللہ تعالی نے اس پر مچھروں کادروازہ کھول دیا، جس سے سورج تک چھپ گیااورمچھروں کے اس لشکر نے نمرودکے لشکروں کوکھاناشروع کردیااوراس کی ساری فوج کی سوائے ہڈیوں کے کچھ نہ چھوڑااوران مچھروں میں سے ایک مچھراس نمرود کے دماغ میں گھس گیااوراسے کھاڈالا، یہاں تک کہ وہ مچھرچوہیاجیساہوگیااوراس کے بعد اس کے نزدیک لوگوں میں سب سے معززوہ تھاجو اس کے دماغ پر بھاری ہتھوڑے مارتاتھا۔
(تفسیر القرطبی:أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن أبی بکر شمس الدین القرطبی (۳:۲۸۳)
پہلاقول
أنہم خرجوا إلی عید لہم فدخلہ إِبْرَاہِیمُ عَلَی أَصْنَامِہِمْ فَکَسَّرَہَا، فَلَمَّا رَجَعُوا قَالَ لَہُمْ: أَتَعْبُدُونَ مَا تَنْحِتُونَ؟ فَقَالُوا:فَمَنْ تَعْبُدُ؟ قَالَ:أَعْبُدُ (رَبِّی الَّذِی یُحْیِی وَیُمِیتُ.
ترجمہ :جب نمرودی لوگ اپنے میلے والے دن شہرسے باہرگئے توحضرت سیدناابراہیم علیہ السلام نے ان کے بتوں کو توڑ دیا، جب وہ واپس لوٹے تو آپ علیہ السلام نے ان کو فرمایا: کیاتم ان کی عبادت کرتے ہوجو ٹوٹ کرگرجاتے ہیں؟ توانہوںنے کہاکہ تم کس کی عبادت کرتے ہو؟ آپ علیہ السلام نے فرمایاکہ میں اپنے رب تعالی کی عبادت کرتاہوں جو زندہ بھی کرتاہے اورمارتابھی ہے ۔
(تفسیر القرطبی:أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن أبی بکر شمس الدین القرطبی (۳:۲۸۳)
دوسراقول
وَقَالَ بَعْضُہُمْ:إِنَّ نُمْرُوذَ کَانَ یَحْتَکِرُ الطَّعَامَ فَکَانُوا إِذَا احْتَاجُوا إِلَی الطَّعَامِ یَشْتَرُونَہُ مِنْہُ، فَإِذَا دَخَلُوا عَلَیْہِ سَجَدُوا لَہُ،فَدَخَلَ إِبْرَاہِیمُ فَلَمْ یسجد لہ،فقال:مالک لَا تَسْجُدُ لِی!قَالَ: أَنَا لَا أَسْجُدُ إِلَّا لِرَبِّی فَقَالَ لَہُ نُمْرُوذُ:مَنْ رَبُّکَ؟ قَالَ إِبْرَاہِیمُ:رَبِّیَ الَّذِی یُحْیِی وَیُمِیتُ.
ترجمہ :اوربعض ائمہ نے یہ بیان کیاہے کہ نمرود اناج ذخیرہ کرلیتاتھا، جب لوگوں کو طعام کی حاجت ہوتی تووہ اس سے خریدتے ، جب وہ اس کے پاس آتے تو اس کوسجدہ کرتے ، پس حضرت سیدناابراہیم علیہ السلام اس کے پاس گئے تو آپ علیہ السلام نے نمرود کو سجدہ نہ کیا، اس نے کہاکہ تجھے کیاہواہے کہ تومجھے سجدہ نہیں کرتا؟ آپ علیہ السلام نے فرمایاکہ میں اپنے رب تعالی کے علاوہ کسی کو بھی سجدہ نہیں کرتا۔ نمرود نے آپ علیہ السلام کوکہاکہ تیرارب کون ہے ؟ آپ علیہ السلام نے فرمایاکہ میرارب تعالی وہ ہے جو زندہ بھی کرتاہے اورمارتابھی ہے۔
(تفسیر القرطبی:أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن أبی بکر شمس الدین القرطبی (۳:۲۸۳)
محافظ ناموس توحیدپررب تعالی کاکرم
عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِی صَالِحٍ، قَال:انْطَلَقَ إِبْرَاہِیمُ النَّبِیُّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ،یَمْتَارُ فَلَمْ یَقْدِرْ عَلَی الطَّعَامِ، فَمَرَّ بِسَہْلَۃٍ حَمْرَاء َ،فَأَخَذَ مِنْہَا، ثُمَّ رَجَعَ إِلَی أَہْلِہِ، فَقَالُوا:مَا ہَذَا؟ قَالَ:حِنْطَۃٌ حَمْرَاء ُ،قَالَ:افْتَحُوہَا فَوَجَدُوہَاحِنْطَۃً حَمْرَاء َ،قَالَ:فَکَانَ إِذَا زَرَعَ مِنْہَا شَیْئًا خَرَجَ سُنْبُلَۃً مِنْ أَصْلِہَا إِلَی فَرْعِہَا حَبًّا مُتَرَاکِبًا۔
ترجمہ :حضرت سیدناامام الاعمش حضرت سیدناابوصالح رحمہ اللہ تعالی سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت سیدناابراہیم علیہ السلام طعام لینے کے لئے گئے اورخالی ہاتھ واپس آنے لگے ( کیونکہ آپ علیہ السلام نے نمرود کو سجدہ نہیں کیاتواس نے گندم نہیں دیا)تو آپ علیہ السلام سرخ موٹی ریت کے پاس سے گزرے توآپ علیہ السلام نے اس سے بورے بھرلیئے ، پھراپنے گھروالوں کی طرف واپس لوٹ آئے توانہوںنے پوچھاکہ یہ کیاہے ؟ توآپ علیہ السلام نے فرمایا: یہ سرخ گندم ہے ۔ پس جب انہوںنے اسے کھولاتواسے سرخ گندم ہی پایا۔ جب اس میں سے کچھ کاشت کی توجڑسے شاخ کے سرے تک سٹانکلاجو کہ دانوں سے بھراہواتھا۔
(مصنف ابن ابی شیبہ:أبو بکر بن أبی شیبۃ، عبد اللہ بن محمد بن إبراہیم بن عثمان بن خواستی العبسی (۵:۳۳۰)
نمرود نے حضرت سیدناابراہیم علیہ السلام کی گستاخی کردی
قَالَ ابْنُ عَطِیَّۃَ:وَقَدْ تَأَوَّلَ قَوْمٌ فِی قِرَاء َۃِ مَنْ قَرَأَ’ فَبَہَتَ‘‘بِفَتْحِہَا أَنَّہُ بِمَعْنَی سَبَّ وَقَذَفَ، وَأَنَّ نُمْرُوذَ ہُوَ الَّذِی سَبَّ حِینَ انْقَطَعَ وَلَمْ تَکُنْ لہ حیلۃ.
ترجمہ :امام ابن عطیہ المتوفی :۵۴۲ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ ایک قوم نے اس کی قرات کی تاویل کی ہے کہ انہوںنے اسے فتح کے ساتھ پڑھاہے یعنی بمعنی سب گالی گلوچ دینااورقذف تہمت لگانا۔ یقیناً نمرودہی ہے کہ جس نے حضرت سیدناابراہیم علیہ السلام کے دلائل سے عاجز آکر آپ علیہ السلام کو گالیاں دیں ۔
(تفسیرابن عطیہ :أبو محمد عبد الحق بن غالب بن عبد الرحمن بن تمام بن عطیۃ(۱:۳۴۷)
خلیل اللہ علیہ السلام جیل میں
فقال مقاتل:لمّا کسَّرَ الأَصنامَ سجنہ النمروذ۔
ترجمہ:امام مقاتل رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ جب حضرت سیدناابراہیم علیہ السلام نے مشرکین کے بتوں کو ان کی عیدکے دن توڑاتونمرود نے آپ علیہ السلام کو جیل میں قیدکردیا۔
(اللباب فی علوم الکتاب: أبو حفص سراج الدین عمر بن علی بن عادل الحنبلی الدمشقی النعمانی (۴:۳۳۷)
حضرت سیدناابراہیم علیہ السلام کے گستاخ کاانجام
ان النمرود لما عتا عتوا کبیرا والقی ابراہیم فی النار بعد ہذہ المحاجۃ سلط اللہ علی قومہ البعوض فاکلت لحومہم وشربت دماء ہم فلم یبق الا العظام والنمرود کما ہو لم یصبہ شیء فبعث اللہ بعوضۃ فدخلت فی منخرہ فمکث اربعمائۃ سنۃ تضرب رأسہ بالمطارق فعذبہ اللہ اربعمائۃ سنۃ کما ملک اربعمائۃ سنۃ وہو الذی بنی صرحا الی السماء ببابل فاتی اللہ بنیاہم من القواعد فخر علیہم السقف من فوقہم۔
ترجمہ :بے شک نمرودجب سرکشی اورتکبرمیں حدسے بڑھ گیاتو حضرت سیدناابراہیم علیہ السلام کے ساتھ مناظرے میں شکست کھاکرانہیں آگ میں ڈالاتواللہ تعالی نے اس قوم پر مچھروں کومسلط فرمادیا، مچھروں نے ان کے جسموں کے گوشت تک کھالئے اوران کے خون چوس لئے یہاں تک کہ جسم کی صرف ہڈیاں رہ گئیں لیکن نمرودجوں کاتوں ہی رہااورایک عرصہ کے بعد اس کے نتھنوں میں مچھرگھس گیااوراس کی یہ کیفیت ہوگئی کہ جب تک اس کے سرپرہتھوڑے لگتے رہتے تواسے سکون رہتاورنہ ویسے ہی دکھ میں مبتلارہتااسے اللہ تعالی نے اسی عذاب میں چارسوسال تک مبتلاء رکھا۔ یہی وہ نمرود ہے کہ جس نے بابل میں بہت بلندمحل تعمیرکیاتھا، اللہ تعالی نے اس کی بنیادیں اکھیڑڈالیں اوروہ ان کی چھتوں سمیت ان پر آگراجس سے وہ سب کے سب فناہوگئے ۔
(توفیق الرحمن :فیصل بن عبد العزیز بن فیصل ابن حمد المبارک الحریملی النجدی (۱:۳۵۵)
نمرود کے اس محل کے آثارآج بھی موجود ہیں اوریہ دشمنوں کے لئے عبرت کانشان آج بھی موجودہے ۔ اس کے ساتھ ہی حضرت سیدناایوب علیہ السلام کامزاراقدس ہے ۔ ان کے مابین چندایکڑکاہی فاصلہ ہے ۔اوربحمداللہ اس فقیرکو حضرت سیدناایوب علیہ السلام کے مزاراقدس پر حاضری کاشرف نصیب ہواہے ۔
منکرین کے ساتھ مناظرہ کرنے کے آداب
ثُمَّ أَمَرَ نُمْرُوذُ بِإِبْرَاہِیمَ فَأُلْقِیَ فِی النَّارِ، وَہَکَذَا عَادَۃُ الْجَبَابِرَۃِ فَإِنَّہُمْ إِذَا عُورِضُوا بِشَیْء ٍ وَعَجَزُوا عَنِ الْحُجَّۃِ اشْتَغَلُوا بِالْعُقُوبَۃِ،وَتَدُلُّ عَلَی إِثْبَاتِ الْمُنَاظَرَۃِ وَالْمُجَادَلَۃِ وَإِقَامَۃِ الْحُجَّۃِ وَفِی الْقُرْآنِ وَالسُّنَّۃِ مِنْ ہَذَا کَثِیرٌ لِمَنْ تَأَمَّلَہُ، قَالَ اللَّہُ تَعَالَی:قُلْ ہاتُوا بُرْہانَکُمْ إِنْ کُنْتُمْ صادِقِینَ فَہُوَ کُلُّہُ تَعْلِیمٌ مِنَ اللَّہِ عَزَّ وَجَلَّ السُّؤَالَ وَالْجَوَابَ وَالْمُجَادَلَۃَ فِی الدِّینِ،لِأَنَّہُ لَا یَظْہَرُ الْفَرْقُ بَیْنَ الْحَقِّ وَالْبَاطِلِ إِلَّا بِظُہُورِ حُجَّۃِ الْحَقِّ وَدَحْضِ حُجَّۃِ الْبَاطِلِ وَجَادَلَ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَہَلَّ الْکِتَابِ وَبَاہَلَہُمْ بَعْدَ الْحُجَّۃِ، عَلَی مَا یَأْتِی بَیَانُہُ وَتَنَاظَرُوا بَعْدَ مُبَایَعَۃِ أَبِی بَکْرٍ فِی أَہْلِ الرِّدَّۃِ، إِلَی غَیْرِ ذَلِکَ مِمَّا یَکْثُرُ إِیرَادُہ قَالَ الْمُزَنِیُّ صَاحِبُ الشَّافِعِیِّ:وَمِنْ حَقِّ الْمُنَاظَرَۃِ أَنْ یُرَادَ بِہَا اللَّہُ عَزَّ وَجَلَّ وَأَنْ یُقْبَلَ مِنْہَا مَا تبین وقالوا:لَا تَصِحُّ الْمُنَاظَرَۃُ وَیَظْہَرُ الْحَقُّ بَیْنَ الْمُتَنَاظِرِینَ حَتَّی یَکُونُوا مُتَقَارِبِینَ أَوْ مُسْتَوِیِینَ فِی مَرْتَبَۃٍ وَاحِدَۃٍ مِنَ الدِّینِ وَالْعَقْلِ وَالْفَہْمِ وَالْإِنْصَافِ، وَإِلَّا فہو مراء ومکابرۃ.ملتقطاً۔
ترجمہ :جب نمرود حضرت سیدناابراہیم علیہ السلام سے عاجز آگیاتواس نے حضرت سیدناابراہیم علیہ السلام کے بارے میں حکم دیاکہ ان کو آگ میں پھینک دیاجائے اورجابرحکمرانوں کی عادت ہمیشہ سے اسی طرح رہی ہے کہ جب کسی چیز کے ساتھ ان کامقابلہ کیاجائے اوردلیل لانے سے عاجز ہوجائیں تو وہ سزادینے میں لگ جاتے ہیں ۔ پس اللہ تعالی نے حضرت سیدناابراہیم علیہ السلام کو آگ سے نجات عطافرمائی۔یہ آیت کریمہ مناظرہ ،مجادلہ اورحجت قائم کرنے کے اثبات پر دلالت کرتی ہے ، قرآن وسنت میں غوروفکرکرنے والوں کے لئے اس پر کثیردلائل موجود ہیں۔ اللہ تعالی نے ارشادفرمایا: { قُلْ ہاتُوا بُرْہانَکُمْ إِنْ کُنْتُمْ صادِقِین}
پس یہ سب اللہ تعالی کی جانب سے دین کے بارے میں سوال وجواب اورمجادلہ کی تعلیم ہے کیونکہ حق وباطل کے درمیان فرق ظاہرہی نہیں ہوتامگرتبھی جب حق کی دلیل ظاہروغالب ہواورباطل کی دلیل فاسدہو۔ اورحضورتاجدارختم نبوت ﷺنے اہل کتاب کے ساتھ مجادلہ فرمایا، حجت قائم کرنے کے بعد ان کے ساتھ مباہلہ کیاجیساکہ اس کابیان آگے آئے گا۔
حضرت سیدناابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کی بیعت ہوجانے کے بعد مرتدین کے بارے میں مناظرہ کیااوراس کے علاوہ کثیرایسے واقعات ہیں ۔حضرت سیدناامام المزنی رحمہ اللہ تعالی امام شافعی رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ مناظرے کے حقوق میں سے یہ ہے کہ اللہ تعالی کی رضااورخوشنودی کے لئے کیاجائے اوراس سے جو چیز واضح ہواسے قبول کرلیاجائے ۔ اوردوسرے علماء یہ بھی فرماتے ہیں کہ مناظرہ سہی نہیں ہوتااورمناظرہ کرنے والوں کے درمیان حق ظاہروواضح ہوجاتاہے جبکہ وہ دین ،عقل ، فہم اورانصاف میں ایک دوسرے کے قریب ہوں یاایک ہی مرتبہ میں مساوی اوربرابرہوں۔ مگر اس میں ریاکاری اورباہمی عداوت ، مخالفت اورایک دوسرے پر غلبہ پانے کی کوشش ہوتی ہے ۔
(تفسیر القرطبی:أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن أبی بکر شمس الدین القرطبی (۳:۲۸۳)
قدرت الہیہ کے منکرین کارد
قال فی اسئلۃ الحکم الحکمۃ فی طلوع شمس قرب القیامۃ من مغربہا ان ابراہیم علیہ الصلاۃ والسلام قال لنمرود فَإِنَّ اللَّہَ یَأْتِی بِالشَّمْسِ مِنَ الْمَشْرِقِ فَأْتِ بِہا مِنَ الْمَغْرِبِ فَبُہِتَ الَّذِی کَفَرَ وان السحرۃ والمنجمۃ عن آخرہم ینکرون ذلک وانہ غیر کائن فیطلعہا الحق یوما من المغرب لیری المنکرین قدرتہ وان الشمس فی ملکہ ان شاء اطلعہا من المشرق او المغرب۔
ترجمہ :اسئلۃ الحکم میں ہے کہ قرب قیامت میں سورج مغرب کی طرف سے اس لئے طلوع ہوگاکہ جب حضرت سیدناابراہیم علیہ السلام نے نمرود سے فرمایاکہ سورج کو مغرب کی جانب سے لائو۔ تووہ مبہوت ہوگیا، اسی طرح ہر دورکے جادوگراورسائنس دان انکارکرتے چلے آئیں ہیں اورانکارکرتے چلے جارے ہیں اوریہ کہتے ہیں کہ سورج کامغرب کی جانب طلوع ہوناناممکن ہے ، اس لئے اللہ تعالی ایک دن مغرب سے لائے گاتاکہ منکرین اللہ تعالی کی قدت کو دیکھیں اوریقین کریں کہ سورج اللہ تعالی کے قبضہ وقدرت میں ہے ۔ اگرچاہے تواسے مشرق سے لائے اوراگرچاہے تو اسے مغرب سے لائے ۔
(روح البیان:إسماعیل حقی بن مصطفی الإستانبولی الحنفی الخلوتی (۱:۴۱۰)
معارف ومسائل
(۱) مشرکین کے بتوں کو توڑنارب تعالی کے خلیل علیہ السلام کی سنت کریمہ ہے ۔
(۲) اس سے یہ بھی معلوم ہواکہ مشرکین کوان کے عید کے دن جب وہ خوشی کے ساتھ اچھل کود رہے تھے دکھ پہچانارب تعالی کے پاک نبی حضرت سیدناابراہیم علیہ السلام کی سنت کریمہ ہے ۔
(۳) کفارکی خوشی میں غم کارنگ ڈالنااورجب وہ غم میں ہوں تواس دن ان کے غم میں اضافہ کرنابھی رب تعالی کے اس پاک بندے کی سنت ہے جو خلیل اللہ علیہ السلام کہلاتے ہیں۔
(۴) اس سے معلوم ہواکہ جب شیطان تاثیرملعون گستاخ کی برسی پر لبرل وسیکولر اوردین دشمن طبقہ موم بتیاں جلاکر اس کاغم غلط کررہے تھے تو کچھ اہل ایمان کاان کی موم بتیاں بجھاناحضرت سیدناابراہیم علیہ السلام کی اتباع میں ہی تھااوران اہل ایمان کو پکڑکرجیل ڈالنانمرود کی پیروی میں ہوا۔
(۵) اس سے یہ بھی معلوم ہواکہ حق کی خاطر اپنی جان کی پرواہ کئے بغیرحکومت وقت سے ٹکرلے لینااللہ تعالی کے برگزیدہ بندوں کی سنت کریمہ ہے ۔
(۶) اس سے ان اہل ایمان کو سبق حاصل کرناچاہئے جو کہتے ہیں کہ کفارکے ساتھ لڑنابہت مشکل ہے کیونکہ ان کے پاس افواج ہیں اوراسلحہ ہے تووہ اس واقعہ میں غورکریں کہ حضرت سیدناابراہیم علیہ السلام اکیلے ساری نمرودی حکومت کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے اورہواکیاکہ وہ سب کے سب ذلیل ورسواہوگئے۔
(۷) آج جب اتنے فتنے سراٹھائے کھڑے ہیں توبہت سے نام نہاد علماء اپنے حجروں میں بیٹھے ہیں اوروہ بھی بے فکرہوکرتوان کے لئے اس میں درس ہے کہ فتنہ جس طرح کابھی ہوفتنہ فتنہ ہی ہوتاہے تواہل ایمان پرلازم ہے کہ وہ اس فتنہ کی سرکوبی کے لئے کھڑے ہوجائیں اوراس کے سدباب میں سست روی کامظاہرہ نہ کریں۔
(۸)نمرود الوہیت اوربادشاہت کی وجہ سے اپنے آپ کو سجدہ کرواتاتھا، دراصل سجدہ لغیراللہ کااس زمانہ میں بڑاعروج رہا، بڑے صدمے کی بات ہے کہ سلطنت کے گھمنڈ کی وجہ سے مغل بادشاہ جلال الدین اکبراورجہانگیربھی اسی غلط فہمی کاشکاررہے ۔ مگرحضرت سیدناامام حریت حضورمجددالف ثانی رحمہ اللہ تعالی کی قبرمبارک پرکروڑوںرحمتوں کانزول فرمائے۔ جنہوںنے تکلیف اورسزااورقیدوبندبرداشت کرتے ہوئے باپ اوربیٹے کے غرورکو خاک میں ملادیا۔ اورمجددالف ثانی کے شرف ومقام پر فائز ہوئے ۔ انہیں یہ مقام درس وتدریس اوراذکارونوافل ، طاعات وعبادات کی وجہ سے نہیں ملابلکہ جہاد کی برکت سے ملاہے ۔ انہوں نے یہ مقام حاصل کیاکہ اصحاب باطن کے نزدیک اس دورکے بڑے بڑے اجلہ بزرگ یہ مقام نہیں پاسکے ۔
نبوت کے منصب کی توریث ووراثت کاعالم مقام یہی ہے کہ{ افضل الجہاد من قال کلمۃ الحق عندسلطان جائر}ملحد بادشاہوں کے ساتھ ٹکرلیناآسان ہے ؟ اورہرمردودرویش کاکام ہے ؟ ہرگزنہیں ۔ ابھی بھی یہ بات واضح ہے کہ جو علماء کرام مذہب وشریعت کی تبلیغ واحیائے دین کی بناء پر معتوب ہیں اورجیلوں میں آئے دن قیدکردئیے جاتے ہیں اوردیگرہر طرح کے مصائب سے دوچارہیں ،جیسے ہمارے امیرالمجاہدین حضورشیخ الحدیث حافظ خادم حسین رضوی حفظہ اللہ تعالی ان کامقام بہت ہی اونچااوربلندہے ، بادشاہوں اورحکمرانوں ، امراء وغیرہ کے ہزاروں غیرشرعی امور اورمذہب کی تحقیرکو دیکھتے ہوئے خاموش رہنے والے علماء منصب نبوت کی اصلی وراثت کے حقدارنہیں ہیں ۔ اورجوعلماء ان کاساتھ دیتے ہیں وہ نہایت ہی خبیث ہیں۔
پس حضرت سیدنامجددالف ثانی رحمہ اللہ تعالی کے مساعی اورجہادی معرکے کارآمداوربارآورثابت ہوئے وہی جہانگیرآپ کے ہاتھ پر بیعت ہوئے ، شرط یہ لگائی کہ حضرت آپ مجھے ساتھ لیکر جنت میں جائیں گے اورآپ رحمہ اللہ تعالی نے فرمایا: جہانگیرسنو! میں بھی آپ کے بغیرجنت میں نہیں جائوں گا۔
اوراسی طرح اصحاب عزیمت میں مولانافضل حق خیرآبادی رحمہ اللہ تعالی اورسید کفایت علی کافی شہید رحمہ اللہ تعالی ، حضرت سیدنامولانارضاعلی بریلوی رحمہ اللہ تعالی یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے ہمیشہ کفارکے ایوانوں میں زلزلہ برپاکئے رکھا۔ اللہ تعالی ان کے مزارات عالیہ پر کروڑوں رحمتیں نازل فرمائے۔