دین میں جبرنہیں کاکیامطلب ہے ؟
{لَآ اِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ قَدْ تَّبَیَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَیِّ فمَنْ یَّکْفُرْ بِالطّٰغُوْتِ وَیُؤْمِنْ بِاللہِ فَقَدِ اسْتَمْسَکَ بِالْعُرْوَۃِ الْوُثْقٰی لَا انْفِصَامَ لَہَا وَاللہُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ}(۲۵۶)
ترجمہ کنزالایمان :کچھ زبردستی نہیں دین میں بے شک خوب جدا ہوگئی ہے نیک راہ گمراہی سے تو جو شیطان کو نہ مانے اور اللہ پر ایمان لائے اس نے بڑی محکم گرہ تھامی جسے کبھی کھلنا نہیں اور اللہ سنتا جانتا ہے ۔
ترجمہ ضیاء الایمان : دین میں کوئی جبر نہیں ،بیشک ہدایت کاراستہ گمراہی سے خوب جدا ہوگیاہے تو جو شیطان کو نہ مانے اور اللہ پر ایمان لائے اس نے بڑا مضبوط سہارا تھام لیا جس سہارے کو کبھی کھلنا نہیں اوراللہ تعالی سننے والا، جاننے والاہے۔
شان نزول
عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ،قَالَ:کَانَتِ الْمَرْأَۃُ تَکُونُ مِقْلَاتًا، فَتَجْعَلُ عَلَی نَفْسِہَا إِنْ عَاشَ لَہَا وَلَدٌ أَنْ تُہَوِّدَہُ، فَلَمَّا أُجْلِیَتْ بَنُو النَّضِیرِ،کَانَ فِیہِمْ مِنْ أَبْنَاء ِ الْأَنْصَارِ، فَقَالُوا:لَا نَدَعُ أَبْنَاء َنَا!فَأَنْزَلَ اللَّہُ عَزَّ وَجَلَّ:(لَا إِکْرَاہَ فِی الدِّینِ قَدْ تَبَیَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَیِّ)(البقرۃ:۲۵۶)قَالَ أبو دَاود:الْمِقْلَاتُ:الَّتِی لَا یَعِیشُ لَہَا وَلَدٌ ۔
ترجمہ :حضرت سیدناسعید بن جبیررضی اللہ عنہ حضرت سیدناعبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہماسے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ جب کوئی عورت ایسی ہوتی کہ اس کے بچے زندہ نہ رہتے تو وہ نذر مان لیا کرتی تھی کہ اگر اس کا بچہ زندہ رہا تو وہ اسے یہودی بنا ڈالے گی ۔ سو جب بنو نضیر کو مدینے سے جلا وطن کیا گیا تو ان میں انصاریوں کے لڑکے بھی تھے ۔ (جو اس قسم کی نذر کے تحت یہودی بنائے گئے تھے ) انہوں نے کہا :ہم اپنے بچوں کو نہیں چھوڑیں گے (ان کے ساتھ نہیں جانے دیں گے )تو اﷲتعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی{ لا إکراہ فی الدین قد تبین الرشد من الغی} دین میں کوئی جبر و اکراہ نہیں ۔ ہدایت گمراہی کے مقابلے میں واضح اور نمایاں ہو چکی ہے ۔حضرت سیدنا امام ابوداؤد رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں( المقلاۃ )وہ عورت ہوتی ہے جس کے بچے زندہ نہ رہتے ہوں ۔
(سنن أبی داود:أبو داود سلیمان بن الأشعث ا لأزدی السَِّجِسْتانی (۳:۵۸)
دوسراقول
قَالَ السُّدِّیُّ:نَزَلَتِ الْآیَۃُ فِی رَجُلٍ مِنَ الْأَنْصَارِیُقَالُ لَہُ أَبُو حُصَیْنٍ کَانَ لَہُ ابْنَانِ،فَقَدِمَ تُجَّارٌ مِنَ الشَّامِ إِلَی الْمَدِینَۃِ یَحْمِلُونَ الزَّیْتَ،فَلَمَّا أَرَادُوا الْخُرُوجَ أَتَاہُمُ ابْنَا الْحُصَیْنِ فَدَعَوْہُمَا إِلَی النَّصْرَانِیَّۃِ فَتَنَصَّرَا وَمَضَیَا مَعَہُمْ إِلَی الشَّامِ، فَأَتَی أَبُوہُمَا رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مُشْتَکِیًا أَمْرَہُمَا،وَرَغِبَ فِی أَنْ یَبْعَثَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَنْ یَرُدُّہُمَا فَنَزَلَتْ{لا إِکْراہَ فِی الدِّینِ}وَلَمْ یُؤْمَرْ یَوْمَئِذٍ بِقِتَالِ أَہْلِ الْکِتَابِ، وَقَالَ:أَبْعَدَہُمَا اللَّہُ ہُمَا أَوَّلُ مَنْ کَفَرَ۔
ترجمہ :امام السدی رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ یہ آیت کریمہ انصار میں سے ایک شخص کے بارے میں نازل ہوئی ، اسے ا بوحصین کہاجاتاتھا، اس کے دوبیٹے تھے ، شام سے کچھ تاجرزیتون کاتیل لے کرمدینہ طیبہ آئے ، جب انہوںنے وہاں سے جانے کاارادہ کیاتواس ابوحصین کے دونوں بیٹے ان کے پاس آئے اورانہوںنے ان کو نصرانیت کی دعوت دی سووہ دونوں عیسائی ہوگئے اوران کے ساتھ شام چلے گئے توان کاباپ حضورتاجدارختم نبوتﷺکی خدمت میں ان دونوں کے معاملے کی شکایت لے کر آیا۔ اس نے یہ خواہش کی کہ حضورتاجدارختم نبوت ﷺکوئی ایساآدمی بھیج دیں جو ان کو واپس لے آئے۔ پس یہ آیت کریمہ نازل ہوئی{لا إِکْراہَ فِی الدِّینِ}اوراس وقت اہل کتاب کے ساتھ جہاد کرنے کاحکم نہیں دیاگیاتھا۔ آپ ﷺنے فرمایاکہ اللہ تعالی نے ان دونوں کو دورکردیاہے وہ وونوں کفرکرنے والوں میں اول ہیں۔
(تفسیر القرطبی:أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن أبی بکر بن فرح الأنصاری الخزرجی شمس الدین القرطبی (۳:۲۷۹)
مفسرین کرام کے اقوال
اخْتَلَفَ الْعُلَمَاء ُ فِی (مَعْنَی ہَذِہِ الْآیَۃِ عَلَی سِتَّۃِ أَقْوَالٍ:(الْأَوَّلُ)قِیلَ إِنَّہَا مَنْسُوخَۃٌ، لِأَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَدْ أَکْرَہَ الْعَرَبَ عَلَی دِینِ الْإِسْلَامِ وَقَاتَلَہُمْ وَلَمْ یَرْضَ مِنْہُمْ إِلَّا بِالْإِسْلَامِ، قَالَہُ سُلَیْمَانُ بْنُ مُوسَی، قَالَ:نَسَخَتْہَایَا أَیُّہَا النَّبِیُّ جاہِدِ الْکُفَّارَ وَالْمُنافِقِینَ وَرُوِیَ ہَذَا عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ وَکَثِیرٍ مِنَ الْمُفَسِّرِینَ(الثَّانِی)لَیْسَتْ بِمَنْسُوخَۃٍ وَإِنَّمَا نَزَلَتْ فِی أَہْلِ الْکِتَابِ خَاصَّۃً، وَأَنَّہُمْ لَا یُکْرَہُونَ عَلَی الْإِسْلَامِ إِذَا أَدَّوُا الْجِزْیَۃَ،وَالَّذِینَ یُکْرَہُونَ أَہْلُ الْأَوْثَانِ فَلَا یُقْبَلُ مِنْہُمْ إِلَّا الْإِسْلَامُ فَہُمُ الَّذِینَ نَزَلَ فِیہِمْ یَا أَیُّہَا النَّبِیُّ جاہِدِ الْکُفَّارَ وَالْمُنافِقِینَ ہَذَا قَوْلُ الشَّعْبِیِّ وَقَتَادَۃَ وَالْحَسَنِ وَالضَّحَّاکِ وَالْحُجَّۃُ لِہَذَا الْقَوْلِ مَا رَوَاہُ زَیْدُ بْنُ أَسْلَمَ عَنْ أَبِیہِ قَالَ:سَمِعْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ یَقُولُ لِعَجُوزٍ نَصْرَانِیَّۃٍ:أَسْلِمِی أَیَّتُہَا الْعَجُوزُ تَسْلَمِی، إِنَّ اللَّہَ بَعَثَ مُحَمَّدًا بِالْحَقِّ قَالَتْ: أَنَا عَجُوزٌ کَبِیرَۃٌ وَالْمَوْتُ إِلَیَّ قَرِیبٌ! فَقَالَ عُمَرُ: اللَّہُمَّ اشْہَدْ، وَتَلَالَا إِکْراہَ فِی الدِّینِ۔
ترجمہ :امام ابوعبداللہ محمدبن احمدالقرطبی المتوفی : ۶۷۱ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ حضرت سیدناعبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اوربہت سے مفسرین کرام سمیت حضرت سیدناسلیمان بن موسی رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں کہ یہ آیت کریمہ منسوخ ہے کیونکہ حضورتاجدارختم نبوت ﷺنے عربوں کو دین اسلام قبول کرنے پر مجبورکیااوران سے جہاد کیا۔ اورآپ ﷺان سے اسلام کے بغیرکسی بات پر راضی نہ ہوئے۔ اس آیت کریمہ کو اللہ تعالی کے ارشاد {یَا أَیُّہَا النَّبِیُّ جاہِدِ الْکُفَّارَ وَالْمُنافِقِینَ }(اے حبیب کریم ﷺ! آ پ کافروں اورمنافقوں کے ساتھ جہاد کیجئے )نے منسوخ فرمایا۔ حضرت سیدناالشعبی ، قتادہ حسن اورالضحاک علیہم الرحمہ کاقول ہے کہ یہ آیت کریمہ منسوخ نہیں ہے ۔ بلاشبہ یہ آیت صرف اہل کتاب کے بارے میں نازل ہوئی کہ انہیں اسلام قبول کرنے پر مجبورنہیں کیاجائے گاکہ جب وہ جزیہ اداکریں ۔ اوروہ لوگ جن پر زبردستی کی جائے گی وہ بت پرست ہیں سوان سے اسلام کے سواکوئی چیز قبول نہیں کی جائے گی ۔ اورانہیں کے بارے میں یہ آیت کریمہ نازل ہوئی کہ {یَا أَیُّہَا النَّبِیُّ جاہِدِ الْکُفَّارَ وَالْمُنافِقِینَ }(اے حبیب کریم ﷺ! آپ کافروں اورمنافقوں کے ساتھ جہاد کیجئے )
ان کی دلیل وہ روایت ہے کہ جو حضرت سیدنازید بن اسلم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت سیدناعمررضی اللہ عنہ ایک بوڑھی نصرانی عورت کوفرمارہے تھے کہ اے بڑھیا! تواسلام قبول کرلے تومحفوظ ہوجائے گی ۔ بلاشبہ اللہ تعالی نے حضورتاجدارختم نبوت ﷺکو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا۔ وہ بڑھیاکہنے لگی کہ میں انتہائی بوڑھی عورت ہوں اورموت میرے بہت قریب ہے ۔ توحضرت سیدناعمررضی اللہ عنہ نے فرمایا: اے اللہ ! گواہ رہنا! پھریہ آیت کریمہ تلاوت کی :{ لَا إِکْراہَ فِی الدِّینِ}۔
(تفسیر القرطبی:أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن أبی بکر بن فرح الأنصاری الخزرجی شمس الدین القرطبی (۳:۲۷۹)
ایک معنی یہ بھی ہے
وَقِیلَ:مَعْنَاہَا لَا تَقُولُوا لِمَنْ أَسْلَمَ تَحْتَ السَّیْفِ مُجْبَرًا مُکْرَہًا۔
ترجمہ :ابوعبداللہ محمدبن احمدالقرطبی المتوفی :۶۷۱ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ اس کامعنی یہ ہے کہ جو تلوارکے خوف سے اسلام لائے تواس کو مجبراورمکرہ نہ کہو۔
(تفسیر القرطبی:أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن أبی بکر بن فرح الأنصاری الخزرجی شمس الدین القرطبی (۳:۲۷۹)
امام الرازی رحمہ اللہ تعالی کاقول
لَا تَقُولُوا لِمَنْ دَخَلَ فِی الدِّینِ بَعْدَ الْحَرْبِ إِنَّہُ دَخَلَ مُکْرَہًا،لِأَنَّہُ إِذَا رَضِیَ بَعْدَ الْحَرْبِ وَصَحَّ إِسْلَامُہُ فَلَیْسَ بِمُکْرَہٍ،وَمَعْنَاہُ لَا تَنْسِبُوہُمْ إِلَی الْإِکْرَاہِ۔
ترجمہ :امام فخرالدین الرازی المتوفی : ۶۰۶ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ حرب وجنگ کے بعد جو شخص دین میں داخل ہواسے یہ نہ کہوکہ یہ شخص مجبوراً دین میں داخل ہواہے ۔ کیونکہ جب حرب کے بعد اس کی رضاپائی جارہی ہے تواس کااسلام درست ہوگااوروہ مکرہ ومجبرقرارنہیں پائے گا۔
(التفسیر الکبیر:أبو عبد اللہ محمد بن عمر بن الحسن بن الحسین التیمی الرازی (۷:۱۵)
لبرل کے اعتراض کاجواب
لبرل اعتراض کرتے ہیں کہ جب دین میں جبرنہیں ہے تومسلمانوں نے جہاد کیوں کئے؟اس کے جواب میں مفتی احمدیارخان نعیمی رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ دنیامیں امن قائم کرنے اورکفرکازورمٹانے اوراسلامی آزادی کے لئے تاکہ نیک لوگوں کو اللہ اللہ کرنے میں رکاوٹ نہ ہو۔ جہاد سے مقصود یہ نہیں ہے کہ جبراًکافروں کو مسلمان کیاجائے ۔
(تفسیرنعیمی از مفتی احمدیارخان نعیمی ( ۲: ۴۷)
لبرل کاایک اوراعتراض اوراس کاجواب
اسی طرح ملحدین کی طرف سے ایک اورسوال یہ بھی کیاجاتاہے کہ جب دوسرے مذاہب کے پیروکار اپنا آبائی مذہب چھوڑ کر مسلمان ہوسکتے ہیں۔ تو ایک مسلمان اپنا مذہب تبدیل کیوں نہیں کرسکتا؟ عام طورپر ارباب الحاد وکفر اس سوال کو اس رنگ آمیزی سے بیان کرتے ہیں کہ ایک سیدھا سادہ مسلمان نہ صرف اس سے متاثر ہوتاہے بلکہ سزائے ارتداد کو نعوذباللہ غیر معقول اور آزادی مذہب کے خلاف سمجھنے لگتاہے اس لیے اس مغالطے کوبھی صاف کرنا ضروری ہے۔
اگر دنیائے یہودیت وعیسائیت اپنے مذہب کے معاملہ میں تنگ نظر نہ ہوتی توآج دنیا بھر کے مسلمان ان کے ظلم وتشدد کا نشانہ کیوں ہوتے؟ اس سے ذرا آگے آئیے،بنی اسرائیل کے انبیاء کرام علیہم السلام کا قتل ناحق ان کی اسی تنگ نظری کا اور تشدد پسندی کامنہ بولتاثبوت ہے کہ ان انبیاء کرام علیہم السلام نے پہلے شریعت کے نسخ اورنئی شریعت کی دعوت دی توان کاپاکیزہ اورمقدس لہو بہایاگیا۔ اس کے علاوہ ہمیں بتائیں کہ ان کاکیا جرم تھا؟ جس جرم کی پاداش میں حضرت سیدنایحیٰ علیہ السلام اورحضرت سیدنا زکریا علیہ السلام کوشہید کردیاگیااور حضرت سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کوقتل اور ان کے سولی پرچڑھائے جانے کے کیوں منصوبے بنائے گئے۔ اس لیے مسلمانوں کوتنگ نظر کہنے والے پہلے ذرا اپنے دامن کو صاف کریں اورپھر مسلمانوں سے بات کریں۔
یہ بات طے شدہ ہے کہ ہدایت کا سلسلہ انبیاء کرام علیہم السلام سے شروع ہوا کہ اس کی ابتداء حضرت سیدنا آدم علیہ السلام سے ہوئی اورانتہاء حضورتاجدارختم نبوتﷺ پرہوئی۔ اب سوال یہ ہے کہ ان تمام انبیاء ورسل علیہم السلام کی شریعتیں ابدی تھیں یاوقتی۔ اگر ابدی تھیں تو پھر یہودیت اورعیسائیت کیسے وجود میں آئیں؟اس سے پہلے تو حضرت سیدناآدم علیہ السلام اور باقی انبیاء ورسل علیہم السلام تھے معلوم ہواکہ ہربعد میں آنے والے نبی ورسول کی شریعت نے پہلے رسول کی شریعت کومنسوخ کردیا، یہ سلسلہ چلتا رہا تاآنکہ تمام شریعتیں منسوخ ہو گئیں جن کی ناسخ حضورتاجدارختم نبوت ﷺکی شریعت ہے اب قیامت تک اورکوئی نبی اور رسول پیدا نہیں ہوگا اوریہ شریعت باقی رہے گی۔ تواب اس کو اس مثال سے سمجھنا آسان ہوگا جس طرح حکومت کے قوانین میں کچھ قوانین پہلے کے ہوتے ہیں کچھ بعد کے۔ پہلے والے ترمیم شدہ (یعنی منسوخ)اور بعدوالے جدید(یعنی ناسخ)اسی طرح پہلی شریعتیں منسوخ ہیں۔ شریعت محمدی ﷺناسخ ہے اب اگر کوئی حکومت کے جدید قانون کی مخالفت کرے تواسے سزادی جاتی ہے۔ اوراگر کوئی ترمیم شدہ کی مخالفت کر ے تو اسے سزانہیں دی جاتی۔ اب اگر کوئی اعتراض کرے کہ اس کی سزا کیوں نہیں تو اس کاسوال فضول سمجھاجاتاہے۔ اسی طرح شریعت محمدیﷺ کی مخالفت پر سزا ہے کیونکہ یہ ناسخ ہے اورباقی مذاہب کی مخالفت پرسزا نہیں کیونکہ وہ منسوخ ہیں، اب اگرکوئی اس پر سوال کرے تواس سوال کوبھی ایسے ہی فضول اور لغو سمجھاجائیگا جیسے حکومت کے ترمیم شدہ قانون کی مخالفت پرسزا نہ ہونے والے سوال کو فضول اورلغو سمجھاجاتاہے۔
کیااسلام تلوار سے پھیلاہے یااخلاق سے ؟
یہ نظریہ لوگوں میں پھیلاکر لوگوں کو دین اسلام کے بہت سے احکامات کامنکربنادیاگیاہے ۔ آج یہی وجہ ہے کہ لوگ اسلام کی کوہان جہاد کو غیراسلامی فعل جاننے لگے ہیں اورمجاہدین اسلام کو دہشت گردجانتے ہیں اورجو بھی شخص یہاں جہاد اسلامی کانام لے اس کو پکڑکرخود امریکہ کے حوالے کردیتے ہیں۔ یہی ان کافروں کی سازش تھی کہ مسلمان ہی اپنے دین کو لادینیت جانناشروع کردیں توپھران کو فتح حاصل ہو، آج وہ کافراپنے اس غلیظ مشن میں کامیاب ہے ۔ آج جتنے بھی انگریزی فیکٹریوں کے پرزے تیارہوئے ہیں ان میں اکثریتی تعدا د اسلام دشمن ہے اورجہاد اسلامی کی دشمن ہے ۔ اب ہم ان کے اس غلیظ نظریے کے پیچھے چھپی منافقت طشت از بام کرتے ہیں ۔
بے شک اسلام اخلاق سے پھیلا ہے لیکن یہ دعویٰ غلط ہے کہ تلوار اخلاق کی ضد ہے۔ یہ شبہ اس وقت پیدا ہوا جب حضرات علمائے کرام سے پوچھا گیا کہ اسلام کی اشاعت کس طرح ہوئی۔ انہوں نے ایک جامع لفظ اخلاق کو استعمال فرمایا اور جواب دیا کہ اسلام اخلاق سے پھیلا ہے۔
لیکن علماء کرام کے اس قول سے یہ ثابت کرنا کہ اسلام کی اشاعت میں تلوار کا کوئی دخل نہیں ہے بلکہ تلوار تو اخلاق کی ضد ہے۔ دین کو بگاڑنے اور مسلمانوں کو نہتا کرکے اپنے دشمن کے لیے ترنوالہ بنانے کی ایک سوچی سمجھی سازش ہے۔
اس مسئلے پر مفصل بحث کرنے سے قبل ایک بات کا ذکر ضروری محسوس ہوتا ہے کہ آخر اس سوال کی کیا ضرورت پیش آئی کہ اسلام اخلاق سے پھیلا ہے یا تلوار سے؟ اور ایک خاص دور میں خاص لوگوں کی طرف سے یہ سوال کیوں اس شد و مد کے ساتھ اٹھایا گیا؟
اصل بات یہ تھی کہ مسلمانوں کی بہادری، جوانمردی، تلوار بازی اور شوق شہادت کے سامنے پوری دنیا کا کفر بے بس ہو چکا تھا اور حالت یہ تھی کہ کافر کے لیے اسلام، موت یا غلامی کے علاوہ چوتھا اورکوئی راستہ باقی نہیں تھا۔ اطراف عالم میں مسلمان فاتحین پہنچ چکے تھے اور لاکھوں انسان جوق درجوق اسلام میں داخل ہو رہے تھے۔ علاقوں کے علاقے ان کے سامنے سرنگوں ہو رہے تھے۔ ایسے وقت میں مسلمانوں کے دشمن منافقین اور یہودیوں نے یہی سوچا کہ مسلمانوں کو میدان میں شکست دینا اور طاقت کے زور پر ان کی یلغارکو روکنا بالکل ناممکن ہے۔ اب کسی طرح سے اس بہادر قوم کو بزدل بنایا جائے۔ تیر و تلوار کے ان شیدائیوں کو اسلحے سے متنفر کیا جائے، عیش و عشرت کی زندگی کو شہادت کی موت کے بھلانے کا ذریعہ بنایا جائے۔ چنانچہ انہوں نے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف پروپیگنڈہ شروع کیا کہ اسلام تو طاقت کے بل بوتے پر دنیا میں مسلط ہوا ہے۔ اس نے تلوار کی نوک گلے پر رکھ کر لوگوں کو کلمہ پڑھایا ہے۔ اس نے جبر و استبداد اور استحصال کے ذریعے ملکوں پر حکمرانی حاصل کی ہے۔ کافروں کے اس خطرناک اورزہریلے پروپیگنڈے کے جواب میں وقت کے علماء نے ان قرآنی احکامات کی وضاحت فرمائی کہ اسلام کسی کو زبردستی مسلمان ہونے کا حکم نہیں دیتا، اسلام کا نظام، نظام جبر نہیں بلکہ نظام اخلاق ہے۔ علماء کرام کی یہ تصریح بالکل درست تھی کہ دین اسلام کے قبول کرنے کے سلسلے میں ہمارے مذہب میں کوئی جبرواکراہ نہیں ہے بلکہ جس کا دل چاہے مسلمان ہو جائے اور جس کا دل چاہے وہ جزیہ دے کر مسلمانوں کی غلامی میں رہے اور مسلمان اس کی جان و مال کا دفاع کریں گے اور اسلام کا نظام، نظام اخلاق ہے کہ اس میں ہر معاملے میں اخلاق کو مدنظر رکھا جاتا ہے (اخلاق کی تشریح آگے آرہی ہے)مگر سازشیوں نے علمائے کرام کی اس تصریح کا غلط مفہوم دنیا کو سمجھایا اور یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ علماء نے فیصلہ سنا دیا ہے کہ اسلام اخلاق سے پھیلا ہے۔ اس میں تلوار کی نہ کوئی گنجائش ہے اور نہ کوئی دخل۔
چنانچہ اس بات کو اتنے زور و شور سے بیان کیا گیا کہ مسلمان واقعی تلوار اور اخلاق کو دو متضاد چیزیں تصور کرنے لگے۔ انہوں نے سمجھا کہ ہمارے مذہب میں اسلحہ تو ایک جرم ہے۔ ہمارامذہب اخلاق کا درس دیتا ہے اوراخلاق کا تقاضہ یہ ہے کہ کچھ بھی ہو جائے، وطن چھن جائے، غلامی کرنی پڑے، جان دینی پڑے، عزت کو برباد کرنا پڑے،دین ہاتھ سے چلاجائے مگر اسلحے کو ہاتھ نہیں لگانا۔ چنانچہ کافروں کے اس پروپیگنڈے کی بناء پر آج کا مسلمان اسلحے کے زیور سے محروم ہو چکا ہے۔ آج کے معاشرے میں علماء ، مشائخ اور دیندار طبقے کے لیے اسلحہ رکھنا اور اسے سیکھنا کسی فحش گناہ کی طرح معیوب بن گیا ہے۔ تیر اندازی کی وہ محفلیں جو دور نبوتﷺ میں سجا کرتی تھی ویران ہو چکی ہیں۔ تلوار بازی کی بناء پر بارگاہ نبوت ﷺسے جو اعزازی کلمات ملتے تھے آج کا مسلمان ان سے محروم ہو چکا ہے۔ چنانچہ مسلمان تو اسلحے سے دور ہو کر فاختہ کی طرح امن پسند، کمزور اور نہتا ہو چکا جب کہ اسے اسلحے کے خلاف اکسانے والی قوموں نے اسے تباہ کرنے اور حرف غلط کی طرح مٹانے کے لیے ایٹم بم اور ہائیڈروجن بم تیار کر لیے ہیں۔ وہ مسلمانوں کے جس خطے کو یا جس فرد کو چاہتے ہیں منٹوں میں مٹا دیتے ہیں۔ انہیں کسی قسم کی مزاحمت یا دفاع کا سامنا تک نہیں کرنا پڑتا۔ یہ نتیجہ ہے اس اخلاق پر عمل پیرا ہونے کا، جس اخلاق کو ہم نے تلوار کی ضد سمجھا اور جس اخلاق کو ہم نے بزدلی سستی، کاہلی اور اپاہجی سمجھا، حالانکہ ایسے اخلاق کی تعلیم نہ قرآن کریم نے دی ہے نہ حدیث شریف نے ، اورنہ ہی فقہا ء کرام علیہم الرحمہ نے یہ سمجھایا ہے اور نہ مشائخ و اسلاف نے۔
اس مختصر تمہید کے بعد اب ہم اصل مسئلے کی طرف لوٹتے ہیں۔(۱) اخلاق کی تشریح(۲) اسلام قبول کرنے اور اس کے نافذ ہونے کا فرق۔پہلا اہم مسئلہ اخلاق کی تشریح کا ہے تو خوب سمجھنا چاہیے کہ اخلاق مسکرانے، ہنسنے، ظلم سہنے کا نام نہیں بلکہ ہر وقت اور ہر حال کے مطابق ایسا کام کرنا جو اس حال اور وقت کے مناسب ہو اور اس کے بگاڑ کا ذریعہ نہ ہو یہ حسن خلق ہے۔ پیار کے وقت نرمی اور سختی کی جگہ پر سختی حسن خلق کہلاتی ہے۔ کوئی آدمی کسی خطرناک سانپ کو دودھ پلا کر پال رہا ہو، تا کہ یہ سانپ انسانوں کو نقصان پہنچائے تو اس کا سانپ کو دودھ پلانا بظاہرحسن خلق ہے، مگر حقیقت میں ظلم ہے۔ اب کوئی مفکر بھی اس آدمی کوحسن خلق کا تاج پہنانے کے لیے تیار نہ ہو گا۔
حسن خلق کے اس معنی کو ایک عام فہم مثال کے ذریعہ سے سمجھا جا سکتا ہے، ایک آدمی نے کسی کتے کو پیاسا مرتے دیکھا اور اس نے اسے پانی پلا دیا اس کا یہ فعل یقیناًحسن خلق ہے۔ لیکن اس نے جیسے ہی اس کتے کو پانی پلایا ،کتا کسی مسلمان عورت کو کاٹنے کے لیے لپکا۔ اب اس نے لاٹھی کے ذریعے سے کتے کا علاج کیا تو اس کا یہ مارنا بھی حسن خلق ہی ہے۔ ایک باپ اپنے بیٹے کو کسی برائی یا مضر چیز سے روکنے کے لیے مارتا ہے، اس کا مارنا یقینا حسن خلق کے زمرے میں شامل ہو گا لیکن ایک باپ اپنے بیٹے کو فحش کاری میں مبتلا دیکھ کر بھی کچھ نہیں کہتا اور اس پر اپنے احسانات کو جاری رکھتا ہے تو یہ باپ حسن خلق کا خوگر نہیں ظلم کا پجاری ہے۔ پھر سب سے بڑی بات یہ ہے کہ حضور تاجدارختم نبوت ﷺکے اعلیٰ اخلاق کی گواہی قرآن مجید نے ان الفاظ میں دی ہے۔
{وَ اِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍ }(سورۃ القلم :۴)
ترجمہ کنزالایمان : اور بے شک تمہاری خوبو بڑی شان کی ہے۔
ترجمہ ضیاء الایمان : اے حبیب کریم ﷺ! آپ حسن خلق کے مالک ہیں۔
اس گواہی کا مطلب یہ ہے کہ حضورتاجدارختم نبوت ﷺمجسم اخلاق تھے، لیکن ہم سیرت حضورتاجدارختم نبوت ﷺکے مطالعے میں جہاں آپﷺ کی رحم دلی، غربا پروری، بیکسوں کی یاوری جیسی عظیم صفات کو دیکھتے ہیں وہاں ہمیں یہ بھی نظر آتا ہے کہ حضورتاجدارختم نبوت ﷺ خود ستائیس مرتبہ تلوار اٹھا کر کفر کے مقابلے میں نکلے اور آپ ﷺنے پچھتّر مرتبہ اپنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو مختلف جنگی مہموں پر روانہ فرمایا۔ آپ ﷺنے اپنے دست مبارک سے ابی بن خلف جیسے خبیث النفس کافر کو قتل فرمایا اور کعب بن اشرف، حی بن اخطب، رافع بن خدیج، عصما، زید بن سفیان جیسے کافروں کے قتل کا حکم دیا اور ان کے قتل کرنے والوں کو بڑی بڑی بشارتوں سے نوازا۔ بنی قریظہ کے سات سو سے زائد یہودیوں کے ذبح کا حکم جاری فرمایا۔ بدر میں ستر کفار کے مرنے کی جگہیں جنگ سے قبل بتلا دیں۔ آپﷺنے صحابہ رضی اللہ عنہم کو تلوار رکھنے کے فضائل بیان فرمائے، اس کے سیکھنے اور تیر اندازی ترک نہ کرنے کے احکامات جاری فرمائے، ظالم کافروں کے قتل کرنے کی فضیلت بیان فرمائی۔ کیا خدا نخواستہ ہم حضورتاجدارختم نبوت ﷺکے ان افعال و اقوال کو نعوذ باللہ ثم نعوذ باللہ بد اخلاقی کہنے کی جرات کر سکتے ہیں؟
کیونکہ اگر اخلاق اور تلوار آپس میں متضاد چیزیں ہیں تو پھر یقینا تلوار اٹھانا بد اخلاقی ہی کہلائے گا۔مگر تاریخ گواہ ہے ہمارے حضورتاجدارختم نبوت ﷺنے تلوار اٹھائی اور اٹھوائی اور کفر کے کینسر کو سرزمین حجاز سے کاٹ پھینکا تو پورا معاشرہ صحت مند ہو گیا اور اسلام اور ایمان کی ہوائیں قیصرو کسری کے کفر کو ہچکولے دینے لگیں۔ ایک اور قابل غور نکتہ یہ ہے کہ حضرت سیدتناعائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے حضورتاجدارختم نبوت ﷺکے اخلاق کے متعلق پوچھا گیا توآپ رضی اللہ عنہمانے ارشاد فرمایا کہ آپﷺ کا اخلاق قرآن مجید تھا۔ اس روایت میں صدیقہ کائنات رضی اللہ تعالی عنہا نے قرآن مجید کو حضورتاجدارختم نبوت ﷺکا اخلاق قرار دیا ہے۔ اب قرآن مجید کو دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن مجید تو مسلمانوں کو نماز، روزہ ،حج اور زکوۃ کے ساتھ جہاد اور قتال کا حکم بھی دے رہا ہے اور قتال کی فرضیت کا اعلان فرما رہا ہے۔
{کُتِبَ عَلَیْکُمُ الْقِتَال} (سورۃ البقرۃ :۲۱۵)
ترجمہ:تم پر قتال فرض کیا گیا۔
بلکہ قرآن مجید کی محکم آیات سے جس طرح جہاد کا حکم، اس کی فرضیت، اس کی فضیلت، اس کی جزئیات کی تشریح، اس کے مقاصد اور اس کی حدود معلوم ہوتی ہیں کسی اور حکم کے متعلق ایسی تشریح قرآن مجید میں موجود نہیں ہے، چالیس سے زائد مقامات پر تو قتال کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ شہداء کی ایسی فضیلتیں قرآن نے بتائی ہیں کہ اگر ان کا تذکرہ کیا جائے تو شوق شہادت سے دل پھٹنے لگ جائے۔
تو سوال یہ ہے کہ کیا قرآن مجید نعوذ باللہ بد اخلاقی کی دعوت دے رہا ہے یا صرف قتال جیسی مجبوری کے وقت کی چیز (جیسا کہ بعض لوگوں کا خیال ہے)پر اس قدر زور لگا رہا ہے اور قتال چھوڑنے پر طرح طرح کی وعیدیں سنا رہا ہے۔
بہرحال یہ بات ہمارے ایمان کا حصہ ہے کہ ہمارے حضورتاجدارختم نبوت ﷺ جیسے اخلاق کسی کے نہیں اور قرآن مجید مکمل طور پر درس اخلاق ہے اور ہمیں ان دونوں میں تلوار، جہاد اور قتال جیسی چیزیں وافر مقدار میں نظر آ رہی ہے۔ چنانچہ ہم دعوے کے ساتھ یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ اسلام اخلاق سے پھیلا ہے اور اخلاق اس وقت تک مکمل نہیں ہوتا جب تک اس میں تلوار نہ ہو۔
اس کی عقلی حیثیت بھی مخفی نہیں ہے۔ ایک ڈاکٹر مریض کے جسم کے کینسر والے حصے کوکاٹنے کا حکم دیتا ہے مگر اسے کوئی بھی نہیں کہتا کہ ڈاکٹر صاحب آپ تو پڑھے لکھے آدمی ہے آپ کس طرح کاٹنے کی باتیں کر رہے ہیں۔ آپ کو تو اخلاق کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ بلکہ کینسر کو تیز دھار نشتر کے ذریعے کاٹنے پر ڈاکٹر صاحب کا شکریہ ادا کیا جاتا ہے اور انہیں فیس بھی دی جاتی ہے۔
لیکن اگر معاشرے سے کفر کے کینسر کو کاٹنے کی بات کی جائے تو یہ بد اخلاقی نظر آتی ہے۔ حالانکہ اللہ کے دشمن اور انسانیت کے دشمن کافروں کا وجود اس معاشرے کے لیے کینسر سے بھی زیادہ خطرناک ہے۔ آج اس چیز کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے کہ کفر کے کینسر کے غلیظ اثرات کس طرح سے اہل ایمان کے گھروں اور دلوں تک پہنچ چکے ہیں۔ فحاشی اور عریانی جیسی غلاظتیں اب عیب نہیں رہیں۔
پھر سوچنے کی بات یہ ہے کہ ایک چھوٹی سی مرغی اس وقت تک حلال نہیں ہوتی جب تک چھری کے ذریعہ اس کے ناپاک خون کو اس کے جسم سے نہ نکال دیا جائے اور چھری چلاتے ہوئے اللہ کی عظمت کی تکبیر نہ پڑھی جائے۔ تو اتنا بڑا معاشرہ جس میں بے انتہا گند سرایت کر چکاہے۔اس وقت تک کیسے پاک ہو سکتا ہے جب تک چھری کے ذریعے سے اس گند کو باہر نہ نکال دیا جائے اور جب یہ گند نکل جائے گا اس وقت لوگ فوج در فوج اسلام میں داخل ہوں گے۔
آج کے بعض لوگوں کا یہ کہنا ہے کہ کافر ہمارے اخلاق دیکھ کر خود مسلمان ہو جائیں گے۔ اس دور میں یہ دعوی انتہائی مضحکہ خیز ہے کیونکہ اخلاق اس قوم کے دیکھے جاتے ہیں جس کی اپنی کوئی حیثیت ہو، جس کا اپنا کوئی نظام چل رہا ہو۔ آج تک ایسا نہیں ہوا کہ کوئی آزاد قوم کسی غلام قوم کے اخلاق سے متاثر ہو کر اس کی غلام بن گئی ہو۔ جس زمانے میں مسلمان فاتحین کی شکل میں ملکوں میں داخل ہوتے تھے تو لوگ ان کو دیکھتے تھے اور مسلمان ہوتے تھے مگر اس وقت تو ہم ایک قوم کی حیثیت سے کوئی وقعت ہی نہیں رکھتے۔ ہمارا اسلامی نظام کہیں بھی نافذ نہیں، صرف کتابوں میں موجود ہے اور ہمیں اس کے نافذ کرنے میں دلچسپی بھی نہیں ہے بلکہ ہم تو حکومت و خلافت کے نام سے چڑتے ہیں اور کرسی کو فساق و فجار کی ملکیت سمجھتے ہیںاور جوشخص بھی دین اسلام کے نفاذ کی بات کرے ہم اسے امریکہ کے دشمن سے زیادہ اپنادشمن جانتے ہیں۔ ہم نے چند عبادات کو اسلام سمجھ رکھا ہے اور ایک عالمگیر نظام کو رہبانیت بنا دیا ہے۔ ایسے وقت جبکہ ہمارا قومی، ملی اور دینی وجود ہی پارہ پارہ ہے۔ ہم کس منہ سے کہتے ہیں کہ لوگ ہمارے اخلاق دیکھ کر خود اسلام میں آجائیں گے اور اگر چند افراد کہیں پر اسلام میںداخل ہو بھی گئے یا ہو رہے ہیں تو اس سے اسلام کو وہ غلبہ اور عظمت تو نہیں مل سکتی جس کا ہمارے رب نے ہمیں مکلف بنایا ہے۔
ہاں اس کا الٹ ہو رہا ہے اور ہمارے مسلمان اپنے حاکم کفار کے طور طریقوں سے بری طرح متاثر ہو رہے ہیں اور لاکھوں کی تعداد میں مرتد ہو چکے ہیں۔ معلوم نہیں ہم کب تک اپنے ان اخلاق کے ذریعے سے مسلمانوں کو کفر کی جہنم میں دھکیلتے رہیں گے۔ اگر ہم اسلاف کے نقش قدم پر چل کر اسلام کی عظمت کیلئے اوراقامت دین کے لئے محنت کرتے تو ہمیں آج یہ پستی نہ دیکھنی پڑتی۔
مگر آج ہمیں اپنی عزت و عظمت کا دھیان تو ہے لیکن دین کی ذلت و پستی کا کوئی غم نہیں۔
حضورتاجدارختم نبوت ﷺنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو خود کافروں کی طرف بھیجا اور ان کو اسلام، جزیہ یا قتال کی دعوت دی اور پھر خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کے دور میں بھی یہ طریقہ چلتا رہا کہ اسلامی دعوت کے پیچھے تلوار ضرور ہوا کرتی تھی کہ اس دعوت کو رد کرنے والے حکومت نہ کرتے رہیں بلکہ یا تو انہیں صفحہ ہستی سے مٹا دیا جائے کہ انہوں نے اپنے پالنے اور پیدا کرنے والے رب تعالی کی دعوت کو جھٹلایا ہے یا انہیں ذلیل و رسوا ہو کر جزیہ دینا پڑے گا۔اس کے علاوہ کوئی اور صورت نہیں رکھی گئی کہ اسلامی دعوت کو رد بھی کر دیں اور عزت کے ساتھ حکومتیں بھی کرتے رہیں اور مسلمانوں پر مظالم بھی ڈھاتے رہیں۔بہرحال یہ بات تو ثابت ہو گئی کہ تلوار اخلاق کا ایک اہم ترین جزو ہے اور جو اخلاق تلوار سے عاری ہو گا وہ پستی اور ذلت کا باعث ہو گا۔
ایک اہم بات :
اس وقت تو اسلام کے پھیلنے کا نہیں بلکہ دفاع کا مسئلہ درپیش ہے۔ اخلاق کی غلط تشریح کرنے والے اگر اب بھی مسلمانوں کو تلوار اٹھا کر اپنے جان، مال، عزت و عصمت اور وطن کی حفاظت کرنے کی اجازت دینے کے لیے تیار نہیں ہیں اور اس وقت بھی تلوار اٹھانے کو حسن خلق کے خلاف سمجھتے ہیں۔ تو پھر ہمیں یہ کہنے میں ذرہ برابر عار نہیں ہے کہ یہ لوگ اسلام اور مسلمانوں کے بدترین دشمن ہیں۔ یہ قرآن و سنت میں تحریف کرنے والے ملحدین ہیں، یہ مستشرقین کا وہ ٹولہ ہے جو مسلمانوں کو مٹانے کے لیے ان کی صفوں میں گھسا ہوا ہے۔ ان ظالموں کا بس چلتا تو یہ قرآن مجید سے جہاد اور قتال کی آیات کو کھرچ دیتے مگر اس سے عاجز ہونے کی وجہ سے یہ فضول تاویلوں کا سہارا لے رہے ہیں حالانکہ مسلمان باپ کے سامنے بیٹی کو ننگا کیا جا رہا، بھائی کو باندھ کر اس کے سامنے اس کی بہن کی چادر عصمت تار تار کی جا رہی ہے مگر میر جعفر و میر صادق کے ان زندہ کرداروں کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔ الحمد للہ مسلمانوں کے مقتداء علماء اور مشائخ جہاد کا فتوی دے چکے ہیں اور ان کے فتووں نے ان ملحدوں کے مکر کو خاک میں ملا دیا ہے۔اللہ تعالی کرے اب مسلمان اپنے تحفظ کے لئے ہتھیاراٹھائیں ۔
دوسرا اہم مسئلہ’’ اسلام کے قبول کرنے اور نافذ کرنے کے درمیان فرق‘‘ کا ہے
جہاں تک اسلام کے قبول کرنے کا مسئلہ ہے تو اس پر اہل اسلام کا اجماع ہے کہ کسی سے بھی جبرو اکراہ کا معاملہ نہیں کیا جائے گا۔ یعنی کسی کے گلے پر تلوار کی نوک رکھ کر کلمہ پڑھنے کی تلقین نہیں کی جائے گی اور یہی مفہوم ہے قرآن مجید کی اس آیت {لَآ اِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ} (البقرہ:۲۵۶)مگر جہاں تک اسلام کے نافذ کرنے اور اس کی ترویج و اشاعت کا مسئلہ ہے تو اس سلسلے میں جو بھی رکاوٹ ڈالے گا تو سختی کے ساتھ اس رکاوٹ کو دور کیا جائے گا۔
حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے صرف زکوۃ دینے سے انکار کرنے والوں کے ساتھ قتال فرما کر اس مسئلے کو قیامت تک کے لیے واضح فرما دیا ہے کہ نظام اسلام میں کسی قسم کی رخنہ اندازی اور کتر و بیونیت کو ہر گز برداشت نہیں کیا جائے گا۔ اس لیے ان دونوں مسئلوں کو خلط ملط کرنے کی بجائے مکمل تفصیل کے ساتھ سمجھنا چاہیے کیونکہ اسلام کے مزاج میں کسی تبدیلی کی گنجائش نہیں ہے۔ اگر ہم اس کے پھیلنے میں تلوار کو نظر انداز کر دیں گے تو نعوذ باللہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی قربانیاں فضول قرار دی جائیں گی کہ اسلام کی ترویج و اشاعت میں تو تلوار کی اجازت نہیں تھی جب کہ ان حضرات نے تلوار کو استعمال کیا اور اکثر علاقے تلوار کی نوک پر فتح کئے اور تلوار ہی کے ذریعے سے گندے مواد کو صاف فرمایا۔ جب مطلع صاف ہو جاتا ہے اور مسلمان ایک با عزت حیثیت کے ساتھ کسی ملک میں داخل ہوتے تو اب لوگوں کو ان کے اخلاق دیکھنے کا موقع ملتا اور وہ گروہ در گروہ دین میں داخل ہوتے۔
اور حالات نے واضح کر دیا ہے کہ وہ داعی زیادہ کامیاب رہے جن کی دعوت کے پیچھے تلوار ہوا کرتی تھی۔
جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے۔
{کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ تَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ}(سورۃ آل عمران : ۱۱۰)
ترجمہ ضیاء الایمان:تم بہترین امت ہو جسے لوگوں کے لیے نکالا گیا ہے تم نیکیوں کا حکم کرتے ہو اور برائیوں سے روکتے ہو۔
امت محمدیہ کے خیر امت ہونے کی وجہ یہ ہے کہ ان کی دعوت کوکوئی ٹھکرا نہیں سکے گا کیونکہ ان کی دعوت کے پیچھے جہاد کا عمل موجود ہے جو ان کی دعوت کو نہیں مانے گا۔ جہاد کے ذریعہ اس کا خاتمہ کیا جائے گا جب کہ پہلی امتوں میں دعوت کا عمل تو موجود تھا مگر ان کی دعوت کے پیچھے جہاد کی قوت نہیں تھی۔
آخری گزارش
بہت ساری احادیث کریمہ میں اسلحے کی مختلف فضیلتیں آئی ہیں۔
عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:بُعِثْتُ بِالسَّیْفِ حَتَّی یُعْبَدَ اللَّہُ لَا شَرِیکَ لَہُ،وَجُعِلَ رِزْقِی تَحْتَ ظِلِّ رُمْحِی،وَجُعِلَ الذِّلَّۃُ،وَالصَّغَارُ عَلَی مَنْ خَالَفَ أَمْرِی،وَمَنْ تَشَبَّہَ بِقَوْمٍ فَہُوَ مِنْہُمْ۔
ترجمہ :حضرت سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان فرماتے ہیں کہ حضورتاجدارختم نبوت ﷺنے ارشاد فرمایا :میں قیامت سے پہلے تلوار دے کے بھیجا گیا ہوں تاکہ صرف اکیلے اللہ کی عبادت کی جائے جس کا کوئی شریک نہیں اور میری روزی میرے نیزے کے سائے کے نیچے رکھ دی گئی ہے اور ذلت اور پستی ان لوگوں کا مقدر بنا دی گئی ہے جو میرے لائے ہوئے دین کی مخالفت کریں اور جوکسی قوم کے ساتھ مشابہت اختیار کرتا ہے وہ انہیں میں سے ہے۔
(مسند الإمام أحمد بن حنبل:أبو عبد اللہ أحمد بن محمد بن حنبل بن ہلال بن أسد الشیبانی (۹:۱۲۳)
اسلحہ تیارکرنانفل نماز سے بھی افضل ہے
وَقد نَص الإِمَام أَحْمد علی أَن الْعَمَل بِالرُّمْحِ أفضل من الصَّلَاۃ النَّافِلَۃ فِی الْأَمْکِنَۃ الَّتِی یحْتَاج فِیہَا إِلَی الْجِہَاد۔
ترجمہ :محمدبن ابی بکربن ایوب بن سعد ابن قیم الجوزیہ المتوفی : ۷۵۱ھ) رحمہ اللہ تعالی لکھتے ہیں کہ حضرت سیدنا امام احمد بن حنبل رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا: جس جگہ جہاد کی ضرورت ہو وہاں نیزے بنانا نفل نماز سے افضل ہے ۔
(الفروسیۃ:محمد بن أبی بکر بن أیوب بن سعد شمس الدین ابن قیم الجوزیۃ:۱۵۴)
حضورتاجدارختم نبوت ﷺکی تلوارباعث رحمت ہے
قَالَ الْحَکِیم التِّرْمِذِیّ سُؤال الْقُبُور خَاص بِہَذِہِ الْأمۃ لِأَن الْأُمَم قبلہَا کَانَت الرُّسُل تأتیہم بالرسالۃ فَإِذا أَبَوا کفت الرُّسُل واعتزلوہم وعوجلوا بِالْعَذَابِ فَلَمَّا بعث اللہ مُحَمَّدًا صلی اللہ عَلَیْہِ وَسلم بِالرَّحْمَۃِ أمسک عَنْہُم الْعَذَاب وَأعْطِی السَّیْف حَتَّی یدْخل فِی دین الْإِسْلَام وَمن دخل لمہابۃ السَّیْف ثمَّ یرسخ الْإِیمَان فِی قلبہ فَمن ہُنَا ظہر النِّفَاق فَکَانُوا یسرون الْکفْر ویلعنون الْإِیمَان فَکَانُوا بَین الْمُسلمین فِی ستر فَلَمَّا مَاتُوا قیض اللہ لَہُم فتانی الْقَبْر لیستخرج سرہم بالسؤال ولیمیز اللہ الْخَبیث من الطّیب وَخَالفہُ آخَرُونَ فَقَالُوا السُّؤَال لہَذِہِ الْأمۃ وَغَیرہَا۔
ترجمہ:حضرت سیدناامام حکیم الترمذی رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ قبرمیں سوال وجواب صرف اس امت کے ساتھ خا ص ہیں ، سابق امتوں کے پاس جب رسول تشریف لاتے تو امتی ان کاانکارکرتے توفوراً ان پر عذاب نازل ہوجاتااورانبیاء کرام علیہم السلام کی گستاخی کی سزاپالیتے ، جب حضورتاجدارختم نبوت ﷺکو اللہ تعالی نے رحمۃ للعالمین بناکربھیجاتوآپ ﷺکے صدقے سے اس امت سے عذاب روک دیاگیااورآپ ﷺکو تلوارعطافرمائی گئی اوراس کی ہیبت سے لوگ اسلام میں داخل ہونے لگے ،پھران کے دلوں میں ایمان راسخ ہوجاتا۔ اس وقت سے نفاق کی ابتداہوئی کیونکہ وہ لوگ کفرکو چھپاتے تھے اورایمان کو ظاہرکرتے تھے ، اس طرح وہ اہل اسلام کے درمیان چھپے رہتے تھے ۔ جب وہ مرے تواللہ تعالی نے ان پر دوآزمائش کرنے والے فرشتے مقررکردیئے تاکہ ان کاراز ظاہرہواوراللہ تعالی خبیث لوگوں کو پاک لوگوں سے جداکردیتاہے ۔
(شرح الصدور :عبد الرحمن بن أبی بکر، جلال الدین السیوطی:۱۴۵)
بہرحال اس قسم کی احادیث بہت زیادہ ہیں تو اخلاق کے وہ شارحین جو اخلاق کو تلوار کی ضد بتاتے ہیں۔ ان احادیث کریمہ کے متعلق کیا کہیں گے؟ کیا یہ بد اخلاقی کی دعوت ہے؟ ہر گز نہیں، ہر گز نہیں۔
ہمارے حبیب کریم ﷺخود نبی السیف (تلوار والے نبیﷺ)تھے۔ آپ خود نبی الملاحمﷺ (جنگوں والے نبی)تھے اور آپﷺ مجاہد بھی اورمیدان کارزارکے مجاہدبھی تھے۔
حضورتاجدارختم نبوت ﷺتوجنگوں والے نبی ہیں
جہاد کے لیے خریدے جانے والے اور تیار کئے جانے والے اسلحہ کے فضائل ہم نے پڑھ لئے، اسی طرح ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ حضورتاجدارختم نبوت ﷺنے اپنی میراث میں نہ درہم چھوڑے نہ دینار ۔ اور نہ کوئی اور مال اور دولت ۔ البتہ آپﷺ اپنی میراث میں امت کو علم اور جہاد کے ہتھیار عطاء فرما کر اس دنیا سے تشریف لے گئے ۔ مسلمانوں نے جب تک میراث نبویﷺ کو تھامے رکھا اس وقت تک وہ واقعی مسلمان رہے اور دنیا کی کوئی طاقت ان پر غالب نہ آسکی اور نہ کہیں اسلامی نظام کو چیلنج کیا جاسکا ،لیکن جب مسلمانوں نے علم دین چھوڑ دیا اور اسلحے کو بھی پیٹھ کے پیچھے پھینک دیا تو پھر نہ وہ اپنے اندر اسلام کو محفوظ رکھ سکے اور نہ وہ دنیا میں اسلامی نظام کی حفاظت کر سکے بلکہ اب تو وہ زمانہ بھی آ چکا ہے جب خود بہت سارے نام نہاد با اختیار مسلمان اسلامی نظام حکومت اور اسلام نظام معیشت کا کھلم کھلا انکار کرتے ہیں اور اسلامی سزاؤں کو ( نعوذ باللہ)انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیتے ہیں یہ لوگ بھی اب کافروں کی طرح یہ کہنے لگے ہیں کہ اسلام ایک مذہب ہے اور مذہب ایک ذاتی معاملہ اور مذہب تک محدود چند رسومات کا نام ہوتا ہے۔ حالانکہ اسلام ایک کامل دین ہے جو دنیا کے تمام باطل ادیان اور ظالمانہ نظاموں پر غالب ہونے کے لیے آیا ہے اور لوگوں کو سیدھا راستہ ، امن ، روزی ، اور وسعت والی زندگی عطاء کرنا اسلام کی ذمہ داری ہے جبکہ اسلام کو نافذ کرنے کی ذمہ داری مسلمانوں پر عائد ہوتی ہے اور مسلمان یہ ذمہ داری اسی وقت ادا کرسکتے ہیں جب وہ اپنے حضورتاجدارختم نبوتﷺ کی وراثت کو تھامیں گے ۔حضورتاجدارختم نبوتﷺنے مکہ میں اللہ تعالی کے حکم سے اسلام کی دعوت دی اور یہ اعلان فرمایا کہ اب اللہ تعالی نے اپنے آخری نبی ﷺکو بھیج دیا ہے اور میں قیامت تک تمام انسانیت کے لئے نبی بنا کر بھیجا گیا ہوں اور میرا مشن دنیا میں لا الہ الا اللہ کو غالب کرنا اور باقی سارے ادیان کو مغلوب کرنا ہے آپﷺنے جب یہ دعوت دی تو آپﷺکے مقابلے میں دو چیزیں سینہ تان کر کھڑی ہوئیں ایک جہالت اور دوسری کافروں کی طاقت ۔ آپﷺ نے جہالت کے مقابلے میں قرآن مجید اور حضورتاجدارختم نبوتﷺکی سنت کی صورت میں علم کو پھیلایا اور جب آپ ﷺدنیا سے تشریف لے گئے تو آپ ﷺ نے اپنی میراث میں یہ علم امت کے لئے چھوڑا اور امت نے اس علم کو اپنے سینے سے لگا لیا ۔
دوسری چیز جو اسلام کے مقابلے میں اتری وہ تھی کافروں کی طاقت چنانچہ اس سے مقابلے کے لئے آپﷺپر جہاد فرض کیا گیا اور مسلمانوں کو حکم دیا گیا کہ اس وقت تک لڑتے رہو جب تک دنیا میں کافروں کے پاس کچھ طاقت بھی موجود ہے ۔ کیونکہ کافر ہمیشہ اپنی طاقت اسلام کے خلاف استعمال کرتے رہیں گے اور مسلمانوں کو مٹانے کے لئے طاقت بنانے کی کوشش کرتے رہیں گے چنانچہ مسلمانوں کو حکم دیا گیا کہ اگر تم دنیا میں اسلام اور مسلمانوں کی بقا چاہتے ہو تو پھر اپنے دشمن کافروں کو کبھی بھی طاقتور نہ بننے دینا بلکہ ان کی طاقت کو توڑنے کے لئے ان سے جہاد کرتے رہنا۔ چنانچہ حضورتاجدارختم نبوتﷺکے زمانے میں جزیرۃ العرب سے کافروں کی طاقت کو ختم کر دیا گیا۔ حضرات خلفاء راشدین رضی اللہ عنہم نے بغیر تاخیر کئے روم اور فارس کی دونوں سپر پاوروں پر آگے بڑھ کر وار کیا اور ان کی طاقت کو بھی اکھاڑ پھینکا ۔ بس یہی وجہ ہے کہ حضورتاجدارختم نبوتﷺ اسلحے سے محبت فرماتے تھے اور آپ ﷺنے اپنی وراثت میں اسلحہ چھوڑا کیونکہ اسلحے کے ذریعے جہاد ہوتا ہے اور جہاد کے ذریعے سے اللہ تعالی کا نام اور اس کا نظام دنیا میں قائم اور نافذ ہوتا ہے۔ مگر کافروں نے محنت کر کے مسلمانوں کے دلوں میں اسلحے کی نفرت ڈال دی اور ان کے ذہنوں میں یہ بھر دیا کہ اسلحہ اٹھانا یا تو تنخواہ دار فوجیوں کا کام ہے یا بد معاشوں اور غنڈوں کا جبکہ شرفاء اور علماء اور صلحاء کو زیب نہیں دیتا کہ وہ ہاتھوں میں اسلحہ لے کر پھریں یا اپنے گھروں میں اسلحہ جمع کریں ۔ کافروں کا یہ جادو کام آگیا اور اہل علم اور اہل تقوی نہتے ہو گئے حالانکہ ماضی کے تمام ائمہ تمام اکابر ، تمام محدثین تمام صوفیاء کرام اور تمام اولیا ساری زندگی ہاتھوں میں ہتھیار اٹھا کر جہاد کے راستوں میں شہادت کی لیلی کو ڈھونڈتے رہے اور جب ان کا انتقال ہوتا تھا یا وہ شہید ہوتے تھے تب بھی ہتھیار ان کے ہاتھوں میں ہوتے تھے وہ ان ہتھیاروں سے والہانہ محبت کرتے تھے اور اپنا قیمتی سرمایہ اور وقت انہیں خریدنے ، بنانے اور سیکھنے میں خرچ فرماتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام ان پر فخر کرتا ہے جبکہ آج کے نہتے مسلمانوں پر اسلام خون کے آنسو روتا ہے کیونکہ انہوں نے اپنی بزدلی اور کم فہمی کی وجہ سے اسلام کو اتنا ذلیل و رسوا کیا ہے جتنا وہ ماضی میں کبھی نہ تھا۔ اسلام کے یہ آنسو شرمندگی اور عار بن کر ہمیں ایک ہی بات کی دعوت دے رہے ہیں کہ ہم ان چیزوں کو دوبارہ تھام لیں جو ہمارے محبوب آقا حضورتاجدارختم نبوتﷺہمیں عطاء کر گئے تھے ۔ تب ان شاء اللہ اسلام بھی ہم پر فخر کرے گا اور ہم قیامت کے دن کی شرمندگی سے بھی بچ جائیں گے۔
یا اللہ ہم سب مسلمانوں کو اپنے محبو ب حضوررتاجدارختم نبوتﷺ کی میراث سنبھالنے اور تھامنے کی توفیق عطاء فرما دے اور ماضی کی طرح اب بھی اسلام کو دنیا میں نافذ فرما کر انسانیت پر رحم فرما دے ۔ آمین ثم آمین
جبر و تشدد سے دل جیتنا کیسے ممکن ہے ؟
بہت سے لوگ تلوار کے زور سے قطعات اراضی کے فاتح بنے،بہت سی بادشاہتیں اور آمریتیں جبر کے زور سے قائم ہوتی رہتی ہیں، اور کشاکش مفاد کے لئے بے شمار فیصلے جنگ کے میدانوں میں طے پاتے رہے ہیں،لیکن دنیا کی کوئی بھی انقلابی تحریک ہو اسے اپنی قسمت کا فیصلہ ہمیشہ رائے عامہ کے دائرے میں کرنا ہوتا ہے،انسانی قلوب جب تک اندر سے کسی دعوت کا ساتھ دینے پر تیار نہ ہوں اور اپنے ذہن و کردار کو اس کے سانچے میں ڈھالنے کے لئے راضی نہ ہوجائیں،محض جبر و تشدد سے حاصل کئے گئے علمبردار اس کے لئے مفید نہیں ہوتے بلکہ الٹا وہ اس کی کامل بربادی کا سبب بن جاتے ہیں۔پس ہر اصولی تحریک کا مزاج تعلیمی ہوتا ہے اور اس کے چلانے والو ں میں مربیانہ اور معلمانہ شفقت کی روح کام کر رہی ہوتی ہے۔مخالفین اسلام شروع سے اسلام کے خلاف یہ پراپیگنڈہ کرتے آرہے ہیں کہ یہ تلوار سے پھیلالوگ تلوار کے زور پر مسلمان ہوتے رہے۔ ایک چیز جو باطن سے تعلق رکھتی ہو وہاں جبر کیسے چل سکتا ہے اور کب تک چل سکتا ہے۔
مشہور محقق ڈاکٹر حمید اللہ لکھتے ہیں یہ مملکت (مدینہ کی ریاست)ابتداء میں ایک شہری مملکت تو تھی لیکن کامل شہر میں نہیں تھی بلکہ شہر کے ایک حصے میں قائم کی گئی تھی، لیکن اس کی توسیع بڑی تیزی سے ہوتی ہے۔ اس توسیع کا آپ اس سے اندازہ لگائیے کہ صرف دس سال بعد جب رسول اللہﷺکاوصال شریف ہوا، اس وقت مدینہ ایک شہری مملکت نہیں بلکہ ایک وسیع مملکت کا دارالسلطنت تھا۔ اس وسیع سلطنت کا رقبہ تاریخی شواہد کی رو سے تین ملین یعنی تیس لاکھ مربع کلومیٹر پر مشتمل تھا۔ دوسرے الفاظ میں دس سال تک اوسطاً روزانہ کوئی آٹھ سو پینتالیس مربع کلومیٹر علاقے کا ملک کے رقبے میں اضافہ ہوتا رہا۔تین ملین کلومیٹر رقبہ فتح کرنے کے لیے دشمن کے جتنے لوگ مرے ہیں، ان کی تعداد مہینے میں دو بھی نہیں ہے، دس سال میں ایک سو بیس مہینے ہوتے ہیں تو ایک سو بیس کے دو گنے دو سو چالیس آدمی بھی ان لڑائیوں میں نہیں مرے، دشمن کے مقتولین کی تعداد اس سے کم تھی، مسلمانوں کے شہداء کی تعداد دشمن کے مقتولین سے بھی کم ہے۔ مسلمانوں کا سب سے زیادہ نقصان جنگ احد میں ہوا کہ ستر آدمی شہید ہوئے اور یہ نقصان بھی مسلمانوں کی اپنی بھول کی وجہ سے ہوا۔ بہرحال بحیثیت مجموعی میدان جنگ میں قتل ہونے والے دشمنوں کی تعداد مہینے میں دو سے بھی کم ہے، جس سے ہمیں نظر آتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کس طرح اسوۂ حسنہ بن کر دنیا بھر کے حکمرانوں اور فاتحوں کو بتاتے ہیں کہ دشمن کا مقابلہ اور ان کو شکست دینے کی کوشش ضرور کرو لیکن بیجا خون نہ بہاؤ۔ مقصد یہ کہ دشمن جو آج غیر مسلم ہے ممکن ہے کل وہ مسلمان ہو جائے یا اس کے بیوی بچے اور اس کی آئندہ نسلیں مسلمان ہو جائیں لہذا اس امکان کو زائل کرنے میں اپنی طرح سے کوئی ایسا کام نہ کرو جس سے پچھتانے کی ضرورت پیش آئے۔
( خطبات بہاولپور، ڈاکٹر محمد حمید اللہ:۱۴۳)
احکامات دینیہ پر عمل کروانے کے لئے سختی کرناجائز ہے
آج لبرل وسیکولر لوگ اس آیت کریمہ کو اس کے اصل مفہوم سے ہٹاکرجبرقانونی کی نفی کے معنی میں لیتے ہیںاوراس سے یہ دلیل لاتے ہیں کہ چونکہ اسلام میں کوئی اکراہ نہیں ہے اسی وجہ سے اسلام کے نام سے فلاں اورفلاں باتوں کو جو کہ مستوجب سزاقراردیاجاتاہے یہ محض مولویوں کی من گھڑت باتیں ہیں ، اسلام سے ان کاکوئی تعلق نہیں ہے ، اس گروہ کے اس استدلال کو اگرصحیح مان لیاجائے تواس کامعنی یہ ہوا کہ اسلامی شریعت حدودوتعزیرات سے ایک بالکل خالی شریعت ہے ، اس لحاظ سے جس میں ہرشخص کو سب کرگزرنے کی چھوٹ حاصل ہے ، نہ زنا، نہ تہمت پر کوئی سزاہے ، اورنہ ہی چوری کرنے پر کوئی سزاہے اورنہ ڈکیتی اورراہزنی اورفساد فی الارض پرکوئی سزاہے اورنہ ہی بغاوت پر کوئی تعزیرہے ۔ حالانکہ ہر شخص جانتاہے کہ اسلام میں حدودوتعزیرات کاایک پورانظام ہے ، جس کانفاذ واجبات دین میں سے ہے ۔ اگرایک شخص نماز نہ پڑھے اورروزے نہ رکھے تواسلامی حکومت پرواجب ہے کہ اس کو بھی سزادے ۔ یہ چیز لااکراہ فی الدین کے منافی نہیں ہے ۔ اسی طرح اگرکوئی مسلمان اسلام کے خلاف بغاوت کی روش اختیارکرتاہے تو اس کے لئے بھی اسلامی قانون میں سزاہے ۔ یہ چیز بھی لااکراہ فی الدین کے خلاف نہیں ہے۔
مسلمان پر جبردرست ہے
مفسرشہیر حضرت مفتی احمدیارخان نعیمی رحمہ اللہ تعالی لکھتے ہیں کہ خیال رہے کہ کسی کافرکو جبراً مسلمان بناناجائز نہیں ہے مگرمسلمان سے جبراً دین پر عمل کراناجائز بلکہ ضروری ہے ۔ لھذابے نمازی پر سختی کرنادرست ہے ۔ ماہ رمضا ن المبارک کی بے حرمتی کرنے پر سخت سزادینادرست ہے ۔ زانی کو رجم کرنااورچورکے ہاتھ کاٹناضروری ہے ۔ زکوۃ کے منکرین پر حضرت سیدناصدیق اکبررضی اللہ عنہ نے فوج کشی کی ۔ یہ تمام امور اس آیت کریمہ کے خلاف نہیں ہیں ۔ اس کے لئے وہ آیت کریمہ ہے{ وَالْمُؤْمِنُوْنَ وَالْمُؤْمِنٰتُ بَعْضُہُمْ اَوْلِیَآء ُ بَعْضٍ یَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ وَیُؤْتُوْنَ الزَّکٰوۃَ وَیُطِیْعُوْنَ اللہَ وَرَسُوْلَہ اُولٰٓئِکَ سَیَرْحَمُہُمُ اللہُ اِنَّ اللہَ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ }(سورۃ التوبۃ : ۷۱)
ترجمہ کنزالایمان : اور مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں ایک دوسرے کے رفیق ہیں بھلائی کا حکم دیں اور برائی سے منع کریں اور نماز قائم رکھیں اور زکوٰۃ دیں اور اللہ و رسول کا حکم مانیں یہ ہیں جن پر عنقریب اللہ رحم کرے گا بیشک اللہ غالب حکمت والا ہے ۔
(تفسیرنعیمی از مفتی احمدیارخان نعیمی ( ۲: ۴۷)
بچوں پر سختی کرنا
عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَیْبٍ، عَنْ أَبِیہِ،عَنْ جَدِّہِ، قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:مُرُوا أَوْلَادَکُمْ بِالصَّلَاۃِ وَہُمْ أَبْنَاء ُ سَبْعِ سِنِینَ،وَاضْرِبُوہُمْ عَلَیْہَا،وَہُمْ أَبْنَاء ُ عَشْرٍوَفَرِّقُوا بَیْنَہُمْ فِی الْمَضَاجِعِ۔
ترجمہ:حضرت سیدناعمرو بن شعیب رضی اللہ عنہ اپنے والد وہ اپنے داداسے روایت کرتے ہیں کہ حضورتاجدارختم نبوت ﷺنے فرمایا:جب تمہارے بچے سات سال کے ہو جائیں تو اُنہیں نماز پڑھنے کا حکم دو ، اور جب وہ دس سال کے ہو جائیں تو نماز نہ پڑھنے پر اُن کی پٹائی کرو ، اور اُن کے بستر الگ الگ کر دو ۔
(سنن أبی داود:أبو داود سلیمان بن الأشعث الأزدی السَِّجِسْتانی (۱:۱۳۳)
بچوں کی تربیت کے لیے ماں باپ یا استادکااُنھیں تھوڑابہت، ہلکا پھلکا مارنا نہ صرف یہ کہ جائز ہے؛بلکہ بعض اوقات ضروری ہوجاتا ہے۔اس معاملہ میں افراط وتفریط کا شکار نہیں ہونا چاہیے۔ غصہ میں بے قابو ہوجانا اور حد سے زیادہ مارنایا بچوں کے مارنے ہی کو غلط سمجھنا دونوں باتیں غلط ہیں۔ پہلی صورت میں افراط ہے اور دوسری میں تفریط ہے۔اعتدال کا راستہ وہ ہے جو حضورتاجدارختم نبوتﷺ نے بیان فرمایاجو ہم حدیث شریف نقل کرآئے ہیں۔اس حدیث سے مناسب موقع پر حسبِ ضرورت مارنے کی اجازت معلوم ہوتی ہے۔
مارنے میں اس بات کا بھی خیال رکھا جائے کہ اس حد تک نہ ماراجائے کہ جسم پر مار کا نشان پڑجائے۔ نیز جس وقت غصہ آرہا ہو، اس وقت بھی نہ مارا جائے بلکہ بعد میں جب غصہ ٹھنڈا ہوجائے تو اس وقت مصنوعی غصہ ظاہر کرکے ماراجائے کیونکہ طبعی غصہ کے وقت مارنے میں حد سے تجاوز کرجانے کا خطرہ ہوتا ہے اور مصنوعی غصہ میں یہ خطرہ نہیں ہوتا، مقصد بھی حاصل ہوجاتا ہے اور تجاوز بھی نہیں ہوتا۔
اس حدیث شریف کامطلب
(وَاضْرِبُوہُمْ عَلَیْہَا)أَیْ:عَلَی تَرْکِ الصَّلَاۃِ (وَہُمْ أَبْنَاء ُ عَشْرِ سِنِینَ)لِأَنَّہُمْ بَلَغُوا،أَوْ قَارَبُوا الْبُلُوغَ۔
ترجمہ: شارح مشکوۃ حضرت ملاعلی قاری حنفی المتوفی : ۱۰۱۴ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ حضورتاجدارختم نبوت ﷺکے فرمان شریف کامطلب یہ ہے کہ جب بچے دس سال کے ہوجائیں تو ان کو نماز ترک کرنے پر مارو ، اس لئے کہ وہ بالغ ہوجاتے ہیں یابالغ ہونے کے قریب ہوتے ہیں ۔
(مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح:علی بن محمد، أبو الحسن نور الدین الملا الہروی القاری (۲:۵۱۲)
اپنے گھروالوں سے کوڑانہ اٹھانا
عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ:أَتَی رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ رَجُلٌ فَقَالَ:یَا رَسُولَ اللَّہِ عَلِّمْنِی عَمَلًا إِذَا أَنَا عَمِلْتُہُ دَخَلْتُ الْجَنَّۃَ قَالَ:لَا تُشْرِکْ بِاللَّہِ شَیْئًا وَإِنْ عُذِّبْتَ أَوْ حُرِّقْتَ وَأَطِعْ وَالِدَیْکَ وَإِنْ أَخْرَجَاکَ مِنْ مَالِکَ وَکُلِّ شَیْء ٍ ہُوَ لَکَ،وَلَا تَتْرُکِ الصَّلَاۃَ مُتَعَمِّدًا فَإِنَّہُ مَنْ تَرَکَ الصَّلَاۃَ مُتَعَمِّدًا بَرِئَتْ مِنْہُ ذِمَّۃُ اللَّہِ تَعَالَی ،لَا تَشْرَبِ الْخَمْرَ فَإِنَّہَا مِفْتَاحُ کُلِّ شَرٍّ،لَا تُنَازِعْ ذَا الْأَمْرِ أَمْرَہُ وَإِنْ کَانَ لَکَ، أَنْفِقْ مِنْ طَوْلِکَ عَلَی أَہْلِکَ لَا تَرْفَعْ عَنْہُمْ عَصَاکَ أَخِفْہُمْ فِی اللَّہِ تَعَالَی،لَا تَغْلُلْ، وَلَا تَفِرَّ یَوْمَ الزَّحْفِ ثُمَّ قَالَ لَہُ:قُمْ۔
ترجمہ:حضرت سیدنامعاذبن جبل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک شخص حضورتاجدارختم نبوت ﷺکی بارگاہ اقدس میں حاضرہوااورعرض کی :یارسول اللہ ﷺ! مجھے کوئی ایسی بات ارشادفرمائیں کہ میں جس پر عمل کروں اورجنت چلاجائوں توحضورتاجدارختم نبوت ﷺنے فرمایا:(۱)اللہ تعالی کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا، گو تُو قتل کردیا جائے یا جلا دیا جائے۔ (۲)والدین کی نافرمانی نہ کرنا، گو وہ تجھے حکم کریں کہ بیوی کو چھوڑ دے یا سارا مال خرچ کردے۔ (۳)فرض نماز جان کر نہ چھوڑنا، جو شخص فرض نماز چھوڑ دیتا ہے اللہ تعالی اس سے بری الذمہ ہے۔ (۴)شراب نہ پینا کہ یہ ہر برائی اور فحش کی جڑ ہے۔ (۵)اللہ تعالی کی نافرمانی نہ کرنا کہ اس سے اللہ تعالی کا غضب و قہر نازل ہوتا ہے۔ (۶)جہاد فی سبیل اللہ سے نہ بھاگنا، چاہے سب ساتھی مرجائیں۔ (۷)اگر کسی جگہ وبا پھیل جائے (جیسے طاعون وغیرہ)تو وہاں سے نہ بھاگنا۔ (۸)اپنے گھروالوں پر خرچ کرنا۔ (۹)تنبیہ کے واسطے ان پر سے لکڑی نہ ہٹانا۔ (۱۰)اللہ تعالیٰ سے ان کو ڈرانا۔
(تعظیم قدر الصلاۃ:أبو عبد اللہ محمد بن نصر بن الحجاج المَرْوَزِی (۲:۸۹۰)
تنبیہ کے واسطے لکڑی نہ ہٹانے کا مطلب ہے کہ ان سے بے فکر نہ ہوجائو کہ وہ کچھ بھی کرتے پھریں۔ بلکہ ان کو حدودِ شرعیہ کے ماتحت کبھی کبھی مارتے رہنا چاہیے اگر بات کرنے سے سمجھ میں نہ آئے۔ یعنی پہلا طریقہ پیار و محبت کا ہے، پھر سختی کی جائے، اگر ضرورت پڑے تو کبھی کبھار مارنا بھی ضروری اور جائز ہے۔ والدین کا بچوں کی تربیت سے لا پروا ہونا سخت نقصان دہ ہے۔ دینِ اسلام کے طریقے کے مطابق اعتدال میں رہ کر بچے پر تھوڑی بہت سختی لازمی ہے۔ نہ کرنے کی صورت میں آگے چل کر اس کے برے نتائج سامنے آتے ہیں جو تباہی و ذلت کا موجب بنتے ہیں۔
کوڑاسامنے رکھو!
عَلِیِّ بْنِ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عَبَّاسٍ عَنْ أَبِیہِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:عَلِّقُوا السَّوْطَ حَیْثُ یَرَاہُ أَہْلُ الْبَیْتِ، فَإِنَّہُ لَہُمْ أَدَبٌ۔
ترجمہ :حضرت سیدناعلی بن عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم اپنے والد ماجد حضرت سیدناعبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہماسے روایت کرتے ہیں کہ حضورتاجدارختم نبوت ﷺنے فرمایا: گھرمیں کوڑاایسی جگہ لٹکائوجہاں تمھارے گھروالے دیکھتے رہیں کیونکہ اسی سے انکو ادب ملے گا۔
(المعجم الأوسط:سلیمان بن أحمد بن أیوب بن مطیر اللخمی الشامی، أبو القاسم الطبرانی (۴:۳۴۱)
تعلیم قرآن پر قیدکرنے کابیان
وَقَیَّدَ ابْنُ عَبَّاسٍ عِکْرِمَۃَ عَلَی تَعْلِیمِ القُرْآنِ،وَالسُّنَنِ وَالفَرَائِضِ۔
ترجمہ :حضرت سیدنامحمدبن اسماعیل البخاری رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ حضرت سیدناعبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہماحضرت سیدناعکرمہ رضی اللہ عنہ کو قرآن کریم اورسنت وفرائض سکھانے کے لئے باندھ دیاکرتے تھے۔
(صحیح البخاری:محمد بن إسماعیل أبو عبداللہ البخاری الجعفی(۳:۱۲۳)
پائوں میں بیڑیاں ڈال کر پڑھانا
عَنْ عِکْرِمَۃَ قَالَ:کَانَ ابْنُ عَبَّاسٍ یَجْعَلُ فِی رِجْلَیَّ الْکَبْلَ یُعَلِّمُنِی الْقُرْآنَ وَیُعَلِّمُنِی السُّنَّۃَ ۔
ترجمہ :حضرت سیدناعکرمہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت سیدناعبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہمامیرے پائوں میں بیڑی ڈال دیاکرتے تھے اورمجھے قرآن کریم اورحضورتاجدارختم نبوتﷺ کی سنت کریمہ کی تعلیم دیاکرتے تھے۔( جس وقت حضرت سیدناعبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہماکو عکرمہ رضی اللہ عنہ باندھ کرپڑھایاکرتے تھے تب وہ کم عمر تھے ، اورنوعمری کی وجہ سے پڑھائی سے بھاگ جایاکرتے تھے اسی لئے حضرت سیدناعبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہماان کے پائوں میں بیڑیاں ڈال دیاکرتے تھے۔ اب بھی کوئی بچہ پڑھائی سے بھاگے تو اس کوبھی باندھناجائز ہے ۔ از فقیر)
(الطبقات الکبری:أبو عبد اللہ محمد بن سعد البغدادی المعروف بابن سعد (۵:۲۸۷)
رمضان المبارک کی بے حرمتی کرنے والوںکو سزا
عَنْ عَطَاء ِ بْنِ أَبِی مَرْوَانَ، عَنْ أَبِیہِ، أَنَّ عَلِیًّا ضَرَبَ النَّجَاشِیَّ الْحَارِثِیَّ الشَّاعِرَ ثُمَّ حَبَسَہُ، کَانَ شَرِبَ الْخَمْرَ فِی رَمَضَانَ فَضَرَبَہُ ثَمَانِینَ جَلْدَۃً وَحَبَسَہُ، ثُمَّ أَخْرَجَہُ مِنَ الْغَدِ فَجَلَدَہُ عِشْرِینَ، وَقَالَ: إِنَّمَا جَلَدْتُکَ ہَذِہِ الْعِشْرَینَ لِجُرْأَتِکَ عَلَی اللَّہِ، وَإِفْطَارِکَ فِی رَمَضَانَ۔
ترجمہ :حضرت سیدناعطابن ابی مروان رحمہ اللہ اپنے والدماجد سے نقل فرماتے ہیں کہ حضرت سیدنامولاعلی رضی اللہ عنہ نے نجاشی حارثی شاعرکو مارا، پھراسے قیدکردیا، کیونکہ اس نے رمضان المبارک میں شراب پی لی تھی ، آپ رضی اللہ عنہ نے اسے اسی کوڑے مارے اوراسے قیدکردیا، پھراگلے دن اسے نکالااوراس کو مزید بیس کوڑے مارے اورفرمایاکہ میں نے یہ بیس کوڑے اس لئے مارے کہ تونے اللہ تعالی پر جرات کی ہے اوررمضان المبارک کاروزہ چھوڑاہے۔
(کنز العمال :علاء الدین علی بن حسام الدین ابن قاضی خان القادری(۵:۴۸۴)
شرابی بوڑھے کو ملک بدرکردیا
عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ أَبِی الْہُذَیْلٍ قَالَ:أُتِیَ عُمَرَ بِشَیْخٍ شَرِبَ الْخَمْرَ فِی رَمَضَانَ، فَقَالَ:لِلْمَنْخِرَیْنِ لِلْمَنْخِرَیْنِ، وَوِلْدَانُنَا صِیَامٌ قَالَ:فَضَرَبَہُ ثَمَانِینَ، ثُمَّ سَیَّرَہُ إِلَی الشَّامِ۔
ترجمہ :حضرت سیدناعبداللہ بن الہذیل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت سیدناعمر رضی اللہ عنہ کے پاس ایک بوڑھے کو لایاگیاجس نے رمضان المبارک میں شراب پی لی تھی ، آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایاکہ اوندھے منہ گرنے والوں کے لئے ہلاکت ہے ، حالانکہ رمضان المبارک میں ہمارے توبچے بھی روزے رکھتے ہیں ، پھرآپ رضی اللہ عنہ نے اسے اسی کوڑے مارے اورشام کی طرف ملک بدرکردیا۔
(المصنف:أبو بکر عبد الرزاق بن ہمام بن نافع الحمیری الیمانی الصنعانی (۷:۳۸۲)
جلاوطنی کی سزارمضان المبارک کی توہین کی وجہ سے ہوتی
عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ قَالَ:أَخْبَرَنِی إِسْمَاعِیلُ بْنُ أُمَیَّۃَ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ کَانَ إِذَا وَجَدَ شَارِبًا فِی رَمَضَانَ نَفَاہُ مَعَ الْحَدِّ۔
ترجمہ:حضرت سیدنااسماعیل بن امیہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت سیدناعمررضی اللہ عنہ جب رمضان المبارک میں کسی شرابی کو پاتے توحدلگانے کے ساتھ ساتھ اسے جلاوطن کردیتے تھے۔
(مسند الفاروق:ابو الفداء إسماعیل بن عمر بن کثیر القرشی البصری ثم الدمشقی (۱:۵۷)
تارک صوم وصلوۃ ذلیل کیاجائے
عَنْ مَعْمَرٍ،عَنِ الزُّہْرِیِّ قَالَ:مَنْ شَرِبَ فِی رَمَضَانَ،فَإِنْ کَانَ ابْتَدَعَ دِینًا غَیْرَ الْإِسْلَامِ اسْتُتِیبَ،وَإِنْ کَانَ فَاسِقًا مِنَ الْفُسَّاقِ جُلِدَ وَنُکِّلَ وَطُوِّفَ وَسُمِعَ بِہِ، وَالَّذِی یَتْرُکُ الصَّلَاۃَ مِثْلُ ذَلِکَ۔
ترجمہ:حضرت سیدناامام الزہری رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ جس نے رمضان المبارک میں شراب پی ، اگراس نے اسلام کے علاوہ کوئی دین اختیارکیاتواسے توبہ کروائی جائے، اگروہ فاسق وفاجرآدمی ہے تو اسے کوڑے لگائیں گے اوراس کوسزادی جائے اوراسے لوگوں میں چکرلگوائے جائیں اوراعلان کیاجائے اور جو شخص تارک نماز ہو اس کے ساتھ بھی اسی طرح کیاجائے۔
(المصنف:أبو بکر عبد الرزاق بن ہمام بن نافع الحمیری الیمانی الصنعانی (۷:۳۸۲)
اگرتوشرعی حدسے تجاوزکرتاتو۔۔
عَنْ أَبِی الْعَالِیَۃِ، قَالَ:سَلَّمْتُ عَلَی أَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ ثَلَاثًا، فَلَمْ یُجِبْنِی أَحَدٌ، فَتَنَحَّیْتُ فِی نَاحِیَۃِ الدَّارِ، فَإِذَا رَسُولٌ قَدْ خَرَجَ إِلَیَّ، فَقَالَ:ادْخُلْ،فَلَمَّا دَخَلْتُ،قَالَ لِی أَبُو سَعِیدٍ:أَمَا إِنَّکَ لَوْ زِدْتَ لَمْ آذَنْ لَکَ۔
ترجمہ :حضرت سیدناابوالعالیہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت سیدناابوسعید الخدری رضی اللہ عنہ کو تین مرتبہ سلام کیاتوانہوںنے مجھے ایک باربھی جواب نہ دیا،پھرمیں گھر کے کونے میں بیٹھ گیا، اچانک حضورتاجدارختم نبوت ﷺمیرے پاس تشریف لائے فرمایاکہ داخل ہوجا۔ جب میں اندرچلاگیاتو حضرت سیدناابوسعید رضی اللہ عنہ نے مجھے فرمایا: سن اگرتوتین بار سے زائد باراجازت طلب کرتاتومیں تمھیں اندرآنے کی اجازت نہ دیتا۔
(الجامع :معمر بن أبی عمرو راشد الأزدی مولاہم، أبو عروۃ البصری، نزیل الیمن (۱۰:۳۸۱)
جو لوگ خداتعالی کے دین کو قبول نہ کریں۔۔
عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ،قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:لَا تَبْتَدِئُوا الْیَہُودَ وَالنَّصَارَی بِالسَّلَامِ، فَإِذَا لَقِیتُمُوہُمْ فِی طَرِیقٍ، فَاضْطَرُّوہُمْ إِلَی أَضْیَقِہَا۔
ترجمہ :حضرت سیدناابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضورتاجدارختم نبوت ﷺنے فرمایا: یہودونصاری کو سلام کرنے میں پہل نہ کرواورجب تم کو وہ راستے میں ملیں توانہیں تنگ راستے کی طرف مجبورکردو۔
(مسند الإمام أحمد بن حنبل:أبو عبد اللہ أحمد بن محمد بن حنبل بن ہلال بن أسد الشیبانی (۱۳:۵۶)
ممکن ہے کہ اس وجہ سے یہ حکم دیاگیاہوکہ جب مسلمان ان کے ساتھ اس طرح کریں گے اوروہ اپنے آپ کو حقیرجانتے ہوئے خواہی نخواہی اسلام کی طرف راغب ہوجائیں اوراسلام کوقبول کرلیں۔
یہودی کو سلام کیاہواواپس لے لیا
عَنْ مَعْمَرٍ،عَنْ قَتَادَۃَ، أَنَّ ابْنَ عُمَرَ، سَلَّمَ عَلَی یَہُودِیٍّ لَمْ یَعْرِفْہُ،فَأُخْبِرَ،فَرَجَعَ فَقَالَ:رُدَّ عَلَیَّ سَلَامِی ، فَقَالَ: قَدْ فَعَلْتُ۔
ترجمہ :حضرت سیدناقتادہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت سیدناعبداللہ بن عمررضی اللہ عنہمانے ایک یہودی کو سلام کیا، جس کو آپ رضی اللہ عنہ جانتے نہ تھے ، پھران کوکسی نے بتایااورآپ اس کے پیچھے گئے اورفرمایاکہ میراسلام واپس لوٹائوتواس نے کہاکہ میں نے لوٹادیا۔
(الأدب المفرد:محمد بن إسماعیل البخاری، أبو عبد اللہ :۶۲۶)
جس کو ہمارااسلام پسندنہیں ہمیں اس کا۔۔
عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ کَعْبِ بْنِ مَالِکٍ، عَنْ أَبِیہِ، قَالَ:جَاء َ مُلَاعِبُ الْأَسِنَّۃِ إِلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِہَدِیَّۃٍ، وَعَرَضَ عَلَیْہِ النَّبِیُّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الْإِسْلَامَ،فَأَبَی أَنْ یُسْلِمَ، فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: فَإِنِّی لَا أَقْبَلُ ہَدِیَّۃَ مُشْرِکٍ۔
ترجمہ:حضرت سیدناعبدالرحمن بن کعب بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ملاعب السنۃ حضورتاجدارختم نبوت ﷺکی بارگاہ اقدس میں ہدیہ لے کرآیا،ا ٓپ ْﷺنے اسے اسلام کی دعوت دی ۔ تواس نے اسلام قبول کرنے سے انکارکردیا، حضورتاجدارختم نبوت ﷺنے فرمایا: میں مشرک کاہدیہ قبول نہیں کرتا۔
(المعجم الکبیر:سلیمان بن أحمد بن أیوب بن مطیر اللخمی الشامی، أبو القاسم الطبرانی (۱۹:۷۰)
ہمیں مشرکین کے مکھن کی کوئی ضرورت نہیں ہے
عَنِ الْحَسَنِ،أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ:لَا آخُذُ مِنْ رَجُلٍ أَظُنُّہُ قَالَ:مُشْرِکٍ زَبْدًا یَعْنِی رِفْدًا۔
ترجمہ:حضرت سیدناامام حسن رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضورتاجدارختم نبوت ﷺنے فرمایا: میں نہیں لیتا، راوی بیان کرتے ہیں کہ حضورتاجدارختم نبوت ﷺنے مشرک بھی فرمایا۔ راوی کہتے ہیںکہ حضورتاجدارختم نبوت ﷺنے فرمایا: مشرکین کے مکھن کی مجھے کوئی ضرورت نہیں ہے ۔
(الجامع :معمر بن أبی عمرو راشد الأزدی مولاہم، أبو عروۃ البصری، نزیل الیمن (۱۰:۴۴۷)
جوحضورتاجدارختم نبوت ﷺکی تعلیمات سے تجاوزکرے؟
عَنْ خَالِدِ بْنِ عَرْفَجَۃَ الْأَشْجَعِیِّ،قَالَ:کَانُوا یَسِیرُونَ مَعَ سَالِمِ بْنِ عُبَیْدٍ الْأَشْجَعِیِّ فَعَطَسَ رَجُلٌ فَقَالَ:السَّلَامُ عَلَیْکُمْ فَقَالَ سَالِمٌ:وَعَلَیْکَ وَعَلَی أُمِّکَ،ثُمَّ سَارَ سَاعَۃً ثُمَّ قَالَ لِلرَّجُلِ:لَعَلَّکَ کَرِہْتَ مَا قُلْتُ لَکَ؟ قَالَ: وَدِدْتُ أَنَّکَ لَمْ تَکُنْ ذَکَرْتَ أُمِّی بِخَیْرٍ وَلَا شَرٍّ فَقَالَ:إِنَّمَا أُحَدِّثُکَ مَا شَہِدْتُ مِنْ رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَطَسَ رَجُلٌ عِنْدَہُ فَقَالَ:السَّلَامُ عَلَیْکُمْ فَقَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:وَعَلَیْکَ وَعَلَی أُمِّکَ إِذَا عَطَسَ أَحَدُکُمْ فَلْیَقُلْ:الْحَمْدُ لِلَّہِ رَبِّ الْعَالَمِینَ أَوِ الْحَمْدُ لِلَّہِ عَلَی کُلِّ حَالٍ وَلْیَقُلْ لَہُ أَخُوہُ: یَرْحَمُکَ اللَّہُ وَلْیَقُلْ ہُوَ:یَغْفِرُ اللَّہُ لِی وَلَکُمْ ۔
ترجمہ :حضرت سیدناسالم بن عبیدالاشجعی رضی اللہ عنہ کے ساتھ چل رہے تھے کہ ایک شخص کو چھینک آئی تواس نے کہاکہ السلام علیکم۔ حضرت سیدناسالم رضی اللہ عنہ نے فرمایا:تم پراورتمھاری ماں پربھی سلام ہو۔ پھروہ تھوڑی دیر چلتارہا، پھرحضرت سیدناسالم رضی اللہ عنہ نے اس آدمی سے کہا: ہوسکتاہے کہ تونے اس بات کونا پسند کیاہوجومیں نے تجھے کہا؟فرمایاکہ میں نے چاہاکہ میں تیری ماں کااچھائی کے ساتھ ذکرکروں ۔ پس فرمایاکہ میںتجھے حضورتاجدارختم نبوت ﷺکے حوالے سے ایک حدیث شریف بیان کرتاہوں۔ایک آدمی کو حضورتاجدارختم نبوت ﷺکی بارگاہ اقدس میں چھینک آئی تواس نے کہا: السلام علیکم توحضورتاجدارختم نبوت ﷺنے فرمایا: وعلیک وعلی امک ۔ اگرتم میں سے کسی کو چھینک آئے توکہے {الْحَمْدُ لِلَّہِ رَبِّ الْعَالَمِین}یا{ الْحَمْدُ لِلَّہِ عَلَی کُلِّ حَال}اوراس کابھائی اس کو جواباًکہے {یَرْحَمُکَ اللَّہُ }اوروہ اس کے جواب میں کہے { یَغْفِرُ اللَّہُ لِی وَلَکُمْ }
(مسند أبی داود الطیالسی:أبو داود سلیمان بن داود بن الجارود الطیالسی البصری (۲:۵۲۸)
حضرت سیدناعمررضی اللہ عنہ کاعمل شریف
عَنْ أَبِی الْعَلَاء ِ بْنِ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ شِخِّیرٍ، قَالَ:عَطَسَ رَجُلٌ عِنْدَ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ فَقَالَ:السَّلَامُ عَلَیْکَ،فَقَالَ عُمَرُ:وَعَلَیْکَ وَعَلَی أُمِّکَ،أَمَا یَعْلَمُ أَحَدُکُمْ مَا یَقُولُ إِذَا عَطَسَ ؟إِذَا عَطَسَ أَحَدُکُمْ فَلْیَقُلِ:الْحَمْدُ لِلَّہِ، وَلْیَقُلِ الْقَوْمُ یَرْحَمُکَ اللَّہُ وَلْیَقُلْ ہُوَ:یَغْفِرُ اللَّہُ لَکُمْ۔
ترجمہ:حضرت سیدناابوعلاء بن عبداللہ بن شخیررضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت سیدناعمر رضی اللہ عنہ کے پاس ایک آدمی نے چھینک ماری تواس نے کہاکہ آپ پر سلامتی ہو۔ حضرت سیدناعمررضی اللہ عنہ نے فرمایا: تجھ پراورتیری ماں پربھی سلامتی ہو۔کیاتم میں سے کوئی یہ نہیں جانتاکہ جب چھینک آئے تووہ کیاکہے؟ جب تم میں سے کسی کو چھینک آئے تووہ یہ کہے کہ تمام تعریفیں اللہ تعالی کے لئے ہیںاوردوسرے لوگ کہیں کہ اللہ تعالی آپ پررحم فرمائے ، پھرچھینکنے والاکہے کہ اللہ تعالی تمھاری مغفرت فرمائے۔
(الآحاد والمثانی:أبو بکر بن أبی عاصم وہو أحمد بن عمرو بن الضحاک بن مخلد الشیبانی (۳:۱۶)
غیرشرعی زیوروالی عورت کو اپنے یہاں سے نکال دیا
عَنْ مَعْمَرٍ، قَالَ:سَمِعْتُ رَجُلًا یُحَدِّثُ ہِشَامَ بْنَ عُرْوَۃَ، قَالَ:دَخَلَتْ جَارِیَۃٌ عَلَی عَائِشَۃَ وَفِی رِجْلِہَا جَلَاجِلُ فِی الْخَلْخَالِ،فَقَالَتْ عَائِشَۃُ: أَخْرِجُوا عَنِّی مُفَرِّقَۃَ الْمَلَائِکَۃِ۔
ترجمہ :حضرت سیدنامعمررضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ میں نے ایک ایسے آدمی سے سناجو ہشام بن عروہ رحمہ اللہ تعالی سے روایت کرتاہے کہ ایک باندی حضرت سیدتناعائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہاکے پاس آئی تواس نے پائوں میں بجنے والازیورپہن رکھاتھا، آپ رضی اللہ عنہانے فرمایا: اس کو یہاں سے نکالوجوفرشتوں کو دورکرنے والی ہے ۔
(شرح السنۃ:محیی السنۃ، أبو محمد الحسین البغوی الشافعی (۱۱:۲۶)
خلاف سنت گھرکی تعمیرپردعوت ترک فرمادی
عَنْ رَجُلٍ سَمَّاہُ، أَنَّ مُحَمَّدَ بْنَ عَبَّادِ بْنِ جَعْفَرٍ حَدَّثَہُ،أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ دُعِیَ إِلَی طَعَامٍ، فَإِذَا الْبَیْتُ مُظْلِمٌ مُزَوَّقٌ،فَقَامَ بِالْبَابِ ثُمَّ قَالَ:أَخْضَرُ وَأَحْمَرُ فَعَدَّ أَلْوَانًا،ثُمَّ قَالَ:لَوْ کَانَ لَوْنًا وَاحِدًا ،ثُمَّ انْصَرَفَ وَلَمْ یَدْخُلْ۔
ترجمہ :حضرت سیدناعبادہ بن جعفررضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضورتاجدارختم نبوت ﷺکوایک جگہ کھانے کی دعوت دی گئی ، وہ گھراندھیرااورنیلے رنگ کاتھا، آپ ﷺدروازے پرہی تشریف فرماہوئے اورفرمایاکہ سبزاورسرخ ۔ پھرآپ ﷺنے کئی رنگ شمارکئے پھرفرمایاکہ اگریہ ایک رنگ ہوتاتوکتنااچھاتھا،پھرآپ ﷺوہاں سے واپس تشریف لائے اوران کے گھرمیں داخل نہ ہوئے۔
(شعب الإیمان:أحمد بن الحسین بن علی بن موسی الخُسْرَوْجِردی الخراسانی، أبو بکر البیہقی (ا۸:۵۰۹)
ہمارے لئے حضورتاجدارختم نبوت ﷺکاحکم بڑاہے
عَنْ قَتَادَۃَ، أَنَّ حُذَیْفَۃَ اسْتَسْقَی، فَجَاء َہُ دِہْقَانٌ بِإِنَاء ٍ مِنْ فِضَّۃٍ، فَحَذَفَہُ، ثُمَّ قَالَ:إِنِّی قَدْ کُنْتُ نَہَیْتُہُ قَبْلَ ہَذِہِ الْمَرَّۃِ، ثُمَّ أَتَانِی بِہِ، إِنَّ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَہَانَا عَنْ لِبَاسِ الْحَرِیرِ،وَالدِّیبَاجِ،وَعَنِ الشُّرْبِ فِی آنِیَۃِ الذَّہَبِ وَالْفِضَّۃِ، وَقَالَ:دَعُوہُنَّ لَہُمْ فِی الدُّنْیَا،وَہُنَّ لَکُمْ فِی الْآخِرَۃِ۔
ترجمہ ـ:حضرت سیدناقتادہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت سیدناحذیفہ رضی اللہ عنہ نے پانی مانگاتوایک سردارآپ رضی اللہ عنہ کے پاس چاندی کے برتن میں پانی لایا۔ توآپ رضی اللہ عنہ نے اسے گرادیااورفرمایاکہ میں نے پہلے بھی اسے منع کیاتھاوہ پھراسے لے آیا۔ حضورتاجدارختم نبوت ﷺنے ہمیں ریشم ودیباج پہننے اورسونے وچاندی کے برتنوں میں پینے سے منع فرمایاہے ۔ فرمایاکہ انہیں ان کے لئے دنیامیں ہی چھوڑ دواوروہ آخرت میں تمھارے لئے ہوں گے۔
(الجامع :معمر بن أبی عمرو راشد الأزدی مولاہم، أبو عروۃ البصری، نزیل الیمن (۱۱:۶۷)
مال سے زیادہ قیمتی حضورتاجدارختم نبوت ﷺکافرمان ہے
عَنِ الْحَسَنِ، قَالَ:کَانَ یَکْرَہُ الْمُفَضَّضَ،وَإِنْ سُقِیَ فِیہِ شَرِبَ قَالَ:وَکَانَ ابْنُ عُمَرَ إِذَا سُقِیَ فِیہِ کَسَرَہُ ۔
ترجمہ :حضرت سیدناامام حسن بصری رضی اللہ عنہ چاندی کے برتن استعمال کرنامکروہ جانتے تھے اورحضرت سیدناعبداللہ بن عمررضی اللہ عنہماکو جب چاندی کے برتن میں کچھ پینے کے لئے دیاجاتاتوآپ رضی اللہ عنہ وہ برتن ہی توڑدیاکرتے تھے۔
(الجامع :معمر بن أبی عمرو راشد الأزدی مولاہم، أبو عروۃ البصری، نزیل الیمن (۱۱:۶۷)
قیمتی لباس سے زیادہ قیمتی حضورتاجدارختم نبوت ﷺکافرمان شریف ہے
عَنْ أَیُّوبَ،عَنِ ابْنِ سِیرِینَ،أَنَّ رَجُلًا دَخَلَ عَلَی عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ،وَعَلَیْہِ ثَوْبٌ یَتَلَأْلَأُ،فَأَمَرَ بِہِ عُمَرُ فَمُزِّقَ عَلَیْہِ، فَتَطَایَرَ فِی أَیْدِی النَّاسِ۔
ترجمہ :حضرت سیدناامام محمدبن سیرین رحمہ اللہ تعالی سے منقول ہے کہ ایک شخص حضرت سیدناعمررضی اللہ عنہ کی خدمت میں چمکیلالباس پہن کرآیاتوحضرت سیدناعمررضی اللہ عنہ نے حکم دیاکہ اس کالباس پھاڑ دیاجائے اورلوگوں کے ہاتھوں میں پھینک دو۔
(الجامع :معمر بن أبی عمرو راشد الأزدی مولاہم، أبو عروۃ البصری، نزیل الیمن (۱۱:۸۰)
قطع رحمی کرنے والاہماری مجلس سے چلاجائے
عَنِ الْأَعْمَشِ،قَالَ:کَانَ ابْنُ مَسْعُودٍ جَالِسًا بَعْدَ الصُّبْحِ فِی حَلْقَۃٍ، فَقَالَ:أَنْشُدُ اللہَ قَاطَعَ رَحِمٍ لَمَا قَامَ عَنَّا،فَإِنَّا نُرِیدُ أَنْ نَدْعُوَ رَبَّنَا،وَأَبْوَابُ السَّمَاء ِمُرْتَجَۃٌ دُونَ قَاطَعِ رَحِمٍ۔
ترجمہ:حضرت سیدناامام الاعمش رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ حضرت سیدناعبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ صبح کی نماز کے بعد ایک حلقے میں تشریف فرماتھے کہ فرمانے لگے : میں قطع رحمی کرنے والے کواللہ تعالی کی قسم دیتاہوں کہ وہ یہاں سے اٹھ جائے ،کیونکہ ہم چاہتے ہیں کہ اپنے رب تعالی سے دعاکریں اورآسمان کے دروازے قطع رحمی کرنے والے کے لئے بندکردیئے جاتے ہیں۔
(المعجم الکبیر:سلیمان بن أحمد بن أیوب بن مطیر اللخمی الشامی، أبو القاسم الطبرانی (۹:۱۵۸)
ہیجڑوں کو اپنے گھروں سے نکال دو
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ:َٔانَّ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ:أَخْرِجُوا الْمُخَنَّثِینَ مِنْ بُیُوتِکُمْ قَالَ:وَأَخْرَجَ النَّبِیُّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مُخَنَّثًاوَأَخْرَجَ عُمَرُ مُخَنَّثًا۔
ترجمہ :حضرت سیدناعبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہماسے مروی ہے کہ حضورتاجدارختم نبوت ﷺنے فرمایا: ہیجڑوں کو اپنے گھروں سے نکال دو۔ حضورتاجدارختم نبوت ﷺنے ایک ہیجڑے کو مدینہ منورہ سے نکال دیاتھااورحضرت سیدناعمررضی اللہ عنہ نے بھی ایک ہیجڑے کو مدینہ منورہ سے نکال دیاتھا۔
(السنن الصغیر للبیہقی:أحمد بن الحسین الخراسانی، أبو بکر البیہقی (۳:۲۹۷)
خلاف سنت خط کاجواب نہیں دونگا
عَنْ نَافِعٍ، قَالَ:کَانَ ابْنُ عُمَرَ یَأْمُرُ غِلْمَانَہُ إِذَا کَتَبُوا إِلَیْہِ أَنْ یَبْدَء ُوابِأَنْفُسِہِمْ، وَإِلَّا لَمْ أَرُدَّ إِلَیْکُمْ جَوَابًا۔
ترجمہ :حضرت سیدنانافع رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت سیدناعبداللہ بن عمررضی اللہ عنہمااپنے بیٹوں کو حکم فرماتے تھے کہ جب وہ مجھے خط لکھیں تو اپنے سے ابتداء کریں وگرنہ میں تم کو جواب نہیں دوں گا۔
(مصنف عبدالرزاق لامام عبدالرزاق الصنعانی ( ۱۰:۵۳۶)
جو کتے کی قیمت مانگے اس کے ہاتھ مٹی سے بھردو
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:ثَمَنُ الْکَلْبِ خَبِیثٌوَقَالَ:إِذَا جَاء َکَ یَطْلُبُ ثَمَنَ الْکَلْبِ، فَامْلَأْ کَفَّہُ تُرَابًا۔
ترجمہ:حضرت سیدناعبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہمافرماتے ہیں کہ حضورتاجدارختم نبوت ﷺ نے فرمایا: کتے استعمال کرناحرام ہے۔ اگرکوئی شخص تمھارے پاس کتے کی قیمت مانگنے کے لئے آئے تو اس کی ہتھیلیاں مٹی سے بھردو۔
(مسند أبی یعلی:أبو یعلی أحمد بن علی بن المثُنی بن یحیی بن عیسی بن ہلال التمیمی، الموصلی (۴:۴۶۸)
آج کے بعد یہ میرے پاس نہ آئے
عَنْ وَاقِدِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ زَیْدٍ،أَنَّہُ سَمِعَ نَافِعًا،قَالَ:رَأَی ابْنُ عُمَرَ مِسْکِینًا فَجَعَلَ یَضَعُ بَیْنَ یَدَیْہِ،وَیَضَعُ بَیْنَ یَدَیْہِ،قَالَ:فَجَعَلَ یَأْکُلُ أَکْلًا کَثِیرًا،قَالَ:فَقَالَ:لَا یُدْخَلَنَّ ہَذَا عَلَیَّ، فَإِنِّی سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، یَقُولُ:إِنَّ الْکَافِرَ یَأْکُلُ فِی سَبْعَۃِ أَمْعَاء ٍ۔
ترجمہ:حضرت سیدناواقد بن محمدبن زید فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت سیدنانافع رضی اللہ عنہ کو فرماتے ہوئے سناکہ حضرت سیدناعبداللہ بن عمررضی اللہ عنہمانے ایک مسکین کودیکھااوراس کوقریب لاکر اس کے آگے کھانارکھا، وہ بہت زیادہ کھاناکھاگیاتوحضرت سیدناعبداللہ بن عمررضی اللہ عنہمانے یہ دیکھ کر مجھے فرمایاکہ آج کے بعد یہ میرے پاس نہ آئے ، میں نے حضورتاجدارختم نبوت ﷺکو یہ فرماتے ہوئے سناہے کہ کافرسات آنتوں میں کھاتاہے ۔
(صحیح مسلم :مسلم بن الحجاج أبو الحسن القشیری النیسابوری (۳:۱۶۳۱)
کیاتمھیں حضورتاجدارختم نبوت ﷺکافرمان یادنہیں ؟
عَنْ سَعِیدٍ الْمَقْبُرِیِّ،قَالَ:جَلَسْتُ إِلَی ابْنِ عُمَرَ، وَمَعَہُ رَجُلٌ یُحَدِّثُہُ،فَدَخَلْتُ مَعَہُمَا،فَضَرَبَ بِیَدِہِ صَدْرِی وَقَالَ:أَمَا عَلِمْتَ أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ:إِذَا تَنَاجَی اثْنَانِ فَلَا تَجْلِسْ إِلَیْہِمَا حَتَّی تَسْتَأْذِنَہُمَا۔
ترجمہ :حضرت سیدناسعید المقبری رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت سیدناعبداللہ بن عمررضی اللہ عنہماکسی شخص کے ساتھ باتیں کررہے تھے کہ میں ان کے درمیان میں جاکربیٹھ گیاتوانہوںنے اپناہاتھ میرے سینے پر مارکرفرمایا: کیاتم نہیں جانتے کہ حضورتاجدارختم نبوت ﷺنے فرمایا: جب دوآدمی آپس میں خفیہ بات کررہے ہوں تو ان کی اجازت کے بغیران کے پاس جاکرمت بیٹھو۔
(مسند الإمام أحمد بن حنبل:أبو عبد اللہ أحمد بن محمد بن حنبل بن ہلال بن أسد الشیبانی (۱۰:۱۶۷)
ایک چھوٹے شہزادے پر حکم شرع جاری فرمایا
أَخْبَرَنِی مُحَمَّدُ بْنُ زِیَادٍ، أَنَّہُ سَمِعَ أَبَا ہُرَیْرَۃَ،یَقُولُ:کُنَّا عِنْدَ رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَہُوَ یَقْسِمُ تَمْرًا مِنْ تَمْرِ الصَّدَقَۃِ،وَالْحَسَنُ بْنُ عَلِیٍّ فِی حِجْرِہِ،فَلَمَّا فَرَغَ حَمَلَہُ النَّبِیُّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلَی عَاتِقِہِ، فَسَالَ لُعَابُہُ عَلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ،فَرَفَعَ النَّبِیُّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ رَأْسَہُ،فَإِذَا تَمْرَۃٌ فِی فِیہِ،فَأَدْخَلَ النَّبِیُّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَدَہُ فَانْتَزَعَہَا مِنْہُ،ثُمَّ قَالَ:أَمَا عَلِمْتَ أَنَّ الصَّدَقَۃَ لَا تَحِلُّ لِآلِ مُحَمَّدٍ۔
ترجمہ :حضرت سیدناابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ہم لوگ حضورتاجدارختم نبوت ﷺکی خدمت اقدس میں حاضرتھے ، اس وقت حضورتاجدارختم نبوت ﷺصدقہ کی کھجوریں تقسیم فرمارہے تھے اورحضرت سیدناامام حسن رضی اللہ عنہ حضورتاجدارختم نبوت ﷺکی گودمیں جلوہ گرتھے۔ جب حضورتاجدارختم نبوت ﷺانہیں تقسیم کرکے فارغ ہوئے تو امام حسن رضی اللہ عنہ کو اپنے کندھے پر بٹھالیا، ان کالعاب حضورتاجدارختم نبوت ﷺپر بہنے لگا، حضورتاجدارختم نبوت ﷺنے سرمبارک اٹھاکردیکھاتوان کے منہ میں ایک کجھورنظرآئی ۔حضورتاجدارختم نبوت ﷺنے اپناہاتھ ڈال کر ان کے منہ سے وہ کھجورنکالی اورفرمایاکہ تمھیں پتہ نہیں ہے کہ حضورتاجدارختم نبوت ﷺکی آل پاک کے لئے صدقہ حلال نہیں ہے۔
(المصنف:أبو بکر عبد الرزاق بن ہمام بن نافع الحمیری الیمانی الصنعانی (۴:۵۰)
کمینے اورکمینوں کے بیٹے جب حکمران بن جائیں تو ۔۔
عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ، قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:لَا تَذْہَبُ الدُّنْیَا حَتَّی تَصِیرَ لِلُکَعٍ ،قَالَ إِسْمَاعِیلُ بْنُ عُمَرَ:حَتَّی تَصِیرَ لِلُکَعِ ابْنِ لُکَعٍ ، وقَالَ ابْنُ أَبِی بُکَیْرٍ:لِلَکِیعِ ابْنِ لَکِیعٍ وقَالَ أَسْوَدُ:یَعْنِی اللَّئِیمَ ابْنَ اللَّئِیمِ۔
ترجمہ :حضرت سیدناابوھریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضورتاجدارختم نبوت ﷺنے فرمایاکہ دنیااس وقت تک فنانہیں ہوگی جب تک کہ حکومت کمینہ ابن کمینہ کے ہاتھ میں نہ آجائے۔
(مسند الإمام أحمد بن حنبل:أبو عبد اللہ أحمد بن محمد بن حنبل بن ہلال بن أسد الشیبانی (۱۴:۳۲۱)
جس گھرمیں کتاہو۔۔۔
عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ، قَالَ:کَانَ النَّبِیُّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَأْتِی دَارَ قَوْمٍ مِنَ الْأَنْصَارِوَدُونَہُمْ دَارٌ، قَالَ:فَشَقَّ ذَلِکَ عَلَیْہِمْ، فَقَالُوا:یَا رَسُولَ اللَّہِ،سُبْحَانَ اللَّہِ تَأْتِی دَارَ فُلَانٍ،وَلَا تَأْتِی دَارَنَا،فقَالَ:فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم لِأَنَّ فِی دَارِکُمْ کَلْبًا ،قَالُوا:فَإِنَّ فِی دَارِہِمْ سِنَّوْرًا،فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:إِنَّ السِّنَّوْرَ سَبُعٌ۔
ترجمہ:حضرت سیدناابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضورتاجدارختم نبوت ﷺایک انصاری صحابی رضی اللہ عنہ کے گھرتشریف لے جاتے تھے توان کے پیچھے بھی ایک گھرتھا، ان لوگوں پر یہ بات گراں گزری اوروہ کہنے لگے : یارسول اللہ ﷺ! آپ فلاں کے گھرتشریف لاتے ہیں مگرہمارے گھرتشریف نہیں لاتے ؟ تو حضورتاجدارختم نبوت ﷺنے فرمایااس کی وجہ یہ ہے کہ تمھارے گھرمیں کتاہے۔ انہوںنے عرض کی : یارسول اللہ ﷺ! ان لوگوں کے گھرمیں بھی توبلی ہے ۔ تو حضورتاجدارختم نبوت ﷺنے فرمایاکہ بلی ایسادرندہ ہے جورحمت کے فرشتوں کو آنے سے نہیں روکتا۔
(السنن الکبری:أحمد بن الحسین بن علی أبو بکر البیہقی (ا:۳۷۷)
حضورتاجدارختم نبوت ﷺنے اس بات کی پرواہ نہیں کی کہ میرے ان کے گھرتشریف نہ لے جانے سے ان کی دل آزاری ہوگی بلکہ آپ ﷺنے اپنے رب تعالی کے حکم پر عمل فرمایا۔ اس سے یہ بات معلوم ہوئی کہ باقی سب لوگ بعد میں حکم توحکم ہے وہ سب سے پہلے ہے ۔
حضورتاجدارختم نبوت ﷺنے منع فرمایاہے
عَنْ أَبِی النَّضْرِ، أَنَّ أَبَا سَعِیدٍ الْخُدْرِیَّ،کَانَ یَشْتَکِی رِجْلَہُ،فَدَخَلَ عَلَیْہِ أَخُوہُ وَقَدْ جَعَلَ إِحْدَی رِجْلَیْہِ عَلَی الْأُخْرَی وَہُوَ مُضْطَجِعٌ، فَضَرَبَہُ بِیَدِہِ عَلَی رِجْلِہِ الْوَجِعَۃِ فَأَوْجَعَہُ، فَقَالَ:أَوْجَعْتَنِی،أَوَلَمْ تَعْلَمْ أَنَّ رِجْلِی وَجِعَۃٌ؟ قَالَ:بَلَی،قَالَ:فَمَا حَمَلَکَ عَلَی ذَلِکَ؟ قَالَ:أَوَلَمْ تَسْمَعْ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَدْ نَہَی عَنْ ہَذِہِ ؟۔
ترجمہ :حضرت سیدناابوالنضررضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت سیدناابوسعید الخدری رضی اللہ عنہ کی ٹانگ میں تکلیف تھی توانہوں نے اپنی ایک ٹانگ دوسری پر رکھی ہوئی تھی ، ان کے بھائی صاحب آئے اوران کی تکلیف والی ٹانگ پرماراجس کی وجہ سے انکی تکلیف میں اضافہ ہوگیاتوانہوںنے کہاکہ تمھیں علم نہیں ہے کہ میرے پائوں میں تکلیف ہے ؟ توانہوںنے فرمایاکہ کیوں نہیں؟ حضرت سیدناابوسعید رضی اللہ عنہ نے پوچھاپھرتم نے ایساکیوں کیا؟ توانہوںنے کہاکہ کیاتم نے نہیں سناکہ حضورتاجدارختم نبوت ﷺنے اس طرح لیٹنے سے منع فرمایاہے ۔
(مسند الإمام أحمد بن حنبل:أبو عبد اللہ أحمد بن محمد بن حنبل بن ہلال بن أسد الشیبانی (۱۷:۴۶۸)
اللہ تعالی کے دین کے معاملے میں سخت ہوناچاہئے
عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ کَعْبِ بْنِ عُجْرَۃَ، عَنْ عَمَّتِہِ زَیْنَبَ بِنْتِ کَعْبٍ، وَکَانَتْ عِنْدَ أَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ – عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ قَالَ:اشْتَکَی عَلِیًّا النَّاسُ،قَالَ:فَقَامَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِینَا خَطِیبًا، فَسَمِعْتُہُ یَقُولُ:أَیُّہَا النَّاسُ لَا تَشْکُوا عَلِیًّا، فَوَاللَّہِ إِنَّہُ لَأُخَیْشِنٌ فِی ذَاتِ اللَّہِ، أَوْ فِی سَبِیلِ اللَّہِ۔
ترجمہ:حضرت سیدناابوسعید الخدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ کچھ لوگوں نے حضورتاجدارختم نبوت ﷺکے سامنے حضرت سیدنامولاعلی رضی اللہ عنہ کی شکایت لگائی توحضورتاجدارختم نبوت ﷺہمارے درمیان خطبہ دینے کے لئے کھڑے ہوئے ، میں نے حضورتاجدارختم نبوت ﷺکویہ فرماتے ہوئے سناکہ اے لوگو! علی سے شکوہ نہ کیاکرو، خداتعالی کی قسم ! اللہ تعالی کی ذات کے معاملے میں یااللہ کی راہ میں بڑاسخت آدمی ہے ۔
(مسند الإمام أحمد بن حنبل:أبو عبد اللہ أحمد بن محمد بن حنبل بن ہلال بن أسد الشیبانی (۱۸:۳۳۷)
اس سے معلوم ہواکہ دین کے معاملے میں انسان کاسخت ہوناہی عنداللہ وعندالرسول ﷺاس کے اچھے ہونے کامعیارہے ۔
یہی حسن خلق ہے
عَنْ عِرَاکِ بْنِ مَالِکٍ،أَنَّ حَکِیمَ بْنَ حِزَامٍ،قَالَ:کَانَ مُحَمَّدٌ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَحَبَّ رَجُلٍ فِی النَّاسِ إِلَیَّ فِی الْجَاہِلِیَّۃِ، فَلَمَّا تَنَبَّأَ،وَخَرَجَ إِلَی الْمَدِینَۃِ، شَہِدَ حَکِیمُ بْنُ حِزَامٍ الْمَوْسِمَ وَہُوَکَافِرٌ،فَوَجَدَ حُلَّۃً لِذِی یَزَنَ تُبَاعُ،فَاشْتَرَاہَا بِخَمْسِینَ دِینَارًا،لِیُہْدِیَہَا لِرَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَقَدِمَ بِہَا عَلَیْہِ الْمَدِینَۃَ،فَأَرَادَہُ عَلَی قَبْضِہَا ہَدِیَّۃً فَأَبَی، قَالَ عُبَیْدُ اللَّہِ:حَسِبْتُ أَنَّہُ قَالَ:إِنَّا لَا نَقْبَلُ شَیْئًا مِنَ الْمُشْرِکِینَ،وَلَکِنْ إِنْ شِئْتَ أَخَذْنَاہَا بِالثَّمَن، فَأَعْطَیْتُہُ حِینَ أَبَی عَلَیَّ الْہَدِیَّۃَ۔
ترجمہ:حضرت سیدناحکیم بن حزام رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضورتاجدارختم نبوت ﷺزمانہ جاہلیت میں مجھے سب سے زیادہ محبوب تھے ، جب آپ ﷺنے اعلان نبوت فرمایااورمدینہ منورہ چلے گئے تو ایک مرتبہ حکیم جو ابھی تک ایمان نہیں لائے تھے حج میں شریک ہوئے توانہوںنے دیکھاکہ ذی یزن کاایک قیمتی جوڑافروخت ہورہاہے ۔ توانہوںنے حضورتاجدارختم نبوت ﷺکی خدمت اقدس میںہدیۃً پیش کرنے کے لئے پچاس دینارمیں خریدلیااوروہ لے کرمدینہ منورہ پہنچے تو انہوں نے چاہاکہ حضورتاجدارختم نبوت ﷺاسے ہدیتہ ً اسے قبول فرمالیں ۔ لیکن حضورتاجدارختم نبوت ﷺنے انکارفرمادیااورفرمایاکہ ہم مشرکین کی کوئی چیز قبول نہیں کرتے ۔ اگرتم چاہتے ہوتوہم اسے قیمۃ ً خریدلیتے ہیں؟ جب حضورتاجدارختم نبوت ﷺنے مجھ سے وہ جوڑاہدیۃً لینے سے انکارفرمادیاتومیں نے قیمۃ ً ہی آپ ﷺکو دے دیا۔
(المستدرک علی الصحیحین:أبو عبد اللہ الحاکم محمد بن عبد اللہ النیسابوری المعروف بابن البیع (۳:۴۵۱)
حضورتاجدارختم نبوت ﷺدروازے سے ہی واپس تشریف لے آئے
عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُمْہَانَ، قَالَ:سَمِعْتُ سَفِینَۃَ یُحَدِّثُ أَنَّ رَجُلًا ضَافَ عَلِیَّ بْنَ أَبِی طَالِبٍ فَصَنَعُوا لَہُ طَعَامًا، فَقَالَتْ فَاطِمَۃُ:لَوْ دَعْونَا رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَأَکَلَ مَعَنَا،فَأَرْسَلُوا إِلَیْہِ،فَجَاء َ فَأَخَذَ بِعِضَادَتَیِ الْبَابِ،فَإِذَا قِرَامٌ قَدْ ضُرِبَ بِہِ فِی نَاحِیَۃِ الْبَیْتِ،فَلَمَّا رَآہُ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ رَجَعَ، فَقَالَتْ فَاطِمَۃُ لِعَلِیٍّ:اتْبَعْہُ، فَقُلْ لَہُ:مَا رَجَعَکَ؟فَتَبِعَہُ،فَقَالَ:مَا رَجَعَکَ یَا رَسُولَ اللَّہِ؟قَالَ:إِنَّہُ لَیْسَ لِی،أَوْ لَیْسَ لِنَبِیٍّ،أَنْ یَدْخُلَ بَیْتًا مُزَوَّقًا۔
ترجمہ:حضرت سیدناسفینہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت سیدنامولاعلی رضی اللہ عنہ کے ہاں ایک شخص مہمان بن کرآیا، انہوںنے اس کے لئے کھاناتیارکیاتوحضرت سیدہ کائنات فاطمہ رضی اللہ عنہاکہنے لگیں کہ اگرہم حضورتاجدارختم نبوت ﷺکو بلالیتے توآپ ﷺبھی ہمارے ساتھ کھاناتناول فرماتے ! چنانچہ انہوںنے حضورتاجدارختم نبوت ﷺکو بلابھیجاتو حضورتاجدارختم نبوت ﷺتشریف لے آئے ۔ جب حضورتاجدارختم نبوت ﷺنے دروازے کے کواڑوں کو پکڑاتو دیکھاکہ گھرکے ایک کونے میں پردہ لٹک رہاتھا۔ حضورتاجدارختم نبوت ﷺاسے دیکھتے ہی واپس تشریف لے گئے ۔ حضرت سیدہ کائنات رضی اللہ عنہانے حضرت سیدنامولاعلی رضی اللہ عنہ سے کہا: آپ حضورتاجدارختم نبوت ﷺکے پیچھے جائیں اورواپس تشریف لے جانے کی وجہ پوچھیں !حضرت سیدنامولاعلی رضی اللہ عنہ حضورتاجدارختم نبوت ﷺکے پیچھے حاضرہوئے اورعرض کی : یارسول اللہ ﷺ! آپ ﷺواپس کیوں تشریف لائے ہیں؟ حضورتاجدارختم نبوت ﷺنے فرمایا: میرے لئے یاکسی بھی نبی کے لئے ایسے گھرمیں داخل ہوناجو آراستہ اورمنقش ہومناسب نہیں ہے ۔
(مسند الإمام أحمد بن حنبل:أبو عبد اللہ أحمد بن محمد بن حنبل بن ہلال بن أسد الشیبانی (۳۶:۲۶۱)
سیدہ کائنات رضی اللہ عنہاکے گھرسے واپس تشریف لانا
عَنْ ثَوْبَانَ مَوْلَی رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ:کَانَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِذَا سَافَرَ کَانَ آخِرُ عَہْدِہِ بِإِنْسَانٍ مِنْ أَہْلِہِ فَاطِمَۃُ،وَأَوَّلُ مَنْ یَدْخُلُ عَلَیْہِ إِذَا قَدِمَ فَاطِمَۃُ قَالَ:فَقَدِمَ مِنْ غَزَاۃٍ لَہُ فَأَتَاہَا،فَإِذَا ہُوَ بَمِسْحٍ عَلَی بَابِہَا،وَرَأَی عَلَی الْحَسَنِ وَالْحُسَیْنِ قَلْبَیْنِ مِنْ فِضَّۃٍ،فَرَجَعَ وَلَمْ یَدْخُلْ عَلَیْہَافَلَمَّا رَأَتْ ذَلِکَ فَاطِمَۃُ ظَنَّتْ أَنَّہُ لَمْ یَدْخُلْ عَلَیْہَا مِنْ أَجْلِ مَا رَأَی، فَہَتَکَتْ السِّتْرَ، وَنَزَعَتِ الْقَلْبَیْنِ مِنَ الصَّبِیَّیْنِ فَقَطَعَتْہُمَا،فَبَکَی الصَّبِیَّانِ فَقَسَمَتْہُ بَیْنَہُمَا،فَانْطَلَقَا إِلَی رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَہُمَا یَبْکِیَانِ، فَأَخَذَہُ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْہُمَا فَقَالَ:یَا ثَوْبَانُ،اذْہَبْ بِہَذَا إِلَی بَنِی فُلَانٍ أَہْلُ بَیْتٍ بِالْمَدِینَۃِ، وَاشْتَرِ لِفَاطِمَۃَ قِلَادَۃً مِنْ عَصَبٍ وَسِوَارَیْنِ مِنْ عَاجٍ،فَإِنَّ ہَؤُلَاء ِ أَہْلُ بَیْتِی وَلَا أُحِبُّ أَنْ یَأْکُلُوا طَیِّبَاتِہِمْ فِی حَیَاتِہِمُ الدُّنْیَا۔
ترجمہ:حضرت سیدناثوبان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضورتاجدارختم نبوت ﷺجب کسی سفرپر روانہ ہوتے تو اپنے اہل خانہ میں سب سے آخر میں جس سے ملاقات کرتے وہ حضرت سیدہ کائنات فاطمہ رضی اللہ عنہاہوتیں۔جب سفرسے واپس تشریف لاتے تو سب سے پہلے حضرت سیدہ کائنات رضی اللہ عنہاکے گھرتشریف لے جاتے ۔ ایک مرتبہ حضورتاجدارختم نبوت ﷺکسی غزوہ سے واپس تشریف لائے توحسب معمول حضرت سیدہ کائنات رضی اللہ عنہاکے گھرتشریف لے گئے ۔ وہاں پہنچے تو گھرکے دروازے پرپردہ دکھائی دیااورحضرت سیدناامام حسن اورامام حسین رضی اللہ عنہماکے ہاتھوں میں چاندی کے کنگن نظرآئے، حضورتاجدارختم نبوت ﷺان کے گھرمیں داخل ہوئے بغیرہی واپس تشریف لے گئے۔ حضرت سیدہ کائنات رضی اللہ عنہاجان گئیں کہ حضورتاجدارختم نبوت ﷺانہیں چیزوں کی وجہ سے واپس تشریف لے گئے ہیں۔ چنانچہ آپ رضی اللہ عنہانے پردہ پھاڑ دیااوردونوں بچوں کے ہاتھوں سے کنگن اتارکرتوڑ ڈالے ۔اس پر دونوں بچے رونے لگے اورروتے روتے حضورتاجدارختم نبوت ﷺکی خدمت اقدس میں چلے گئے۔ حضورتاجدارختم نبوت ﷺ نے وہ کنگن جو حضرت سیدہ کائنات رضی اللہ عنہانے توڑدئیے تھے ان سے لے لئے اورحضرت سیدناثوبان رضی اللہ عنہ سے فرمایا:اے ثوبان !اسے فلاں ، اہل مدینہ منورہ کے ایک گھرکے متعلق فرمایاکہ ان کے پاس لے جائو۔ اورمیری فاطمہ رضی اللہ عنہاکے لئے ہاتھی کے دانت کے دوکنگن اوریمنی ہارخرید لائو۔ کیونکہ یہ لوگ میرے اہل بیت ہیں اورمیں یہ نہیں چاہتاکہ یہ اپنی حلال چیزیں بھی دنیامیں کھالیں۔
(کنز العمال:علاء الدین علی بن حسام الدین ابن قاضی خان القادری الشاذلی(۳:۲۰۳)
حکم شرع نہ ماننے والے کو نماز میں ہی مارو
عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِی سَعِیدٍ، عَنْ أَبِیہِ، أَنَّہُ کَانَ یُصَلِّی إِلَی سَارِیَۃٍ،فَذَہَبَ رَجُلٌ مِنْ بَنِی أُمَیَّۃَ یَمُرُّ بَیْنَ یَدَیْہِ، فَمَنَعَہُ،فَذَہَبَ لِیَعُودَ، فَضَرَبَہُ ضَرْبَۃً فِی صَدْرِہِ،وَکَانَ رَجُلٌ مِنْ بَنِی أُمَیَّۃَ، فَذَکَرَ ذَلِکَ لِمَرْوَانَ،فَلَقِیَہُ مَرْوَانُ فَقَالَ:مَا حَمَلَکَ عَلَی أَنْ ضَرَبْتَ ابْنَ أَخِیکَ،فَقَالَ:إِنَّ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ:إِذَا صَلَّی أَحَدُکُمْ إِلَی شَیْء ٍ یَسْتُرُہُ فَذَہَبَ أَحَدٌ یَمُرُّ بَیْنَ یَدَیْہِ فَلْیَمْنَعْہُ،فَإِنْ أَبَی فَلْیُقَاتِلْہُ،فَإِنَّمَا ہُوَ شَیْطَانٌ،فَإِنَّمَا ضَرَبْتَ الشَّیْطَانَ۔
ترجمہ:حضر ت سیدناعبدالرحمن بن ابی سعید اپنے والد ماجد حضرت سیدناابوسعید الخدری رضی اللہ عنہ کے بارے میں نقل کرتے ہیں کہ وہ ایک ستون کی طرف منہ کرکے نماز اداکررہے تھے کہ بنوامیہ سے تعلق رکھنے والاایک شخص ان کے سامنے سے گزرنے لگاتو انہوںنے اسے منع کیا۔ وہ شخص دوبارہ گزرنے لگاتو آپ رضی اللہ عنہ نے اس کے سینے پر ہاتھ دے مارا۔ وہ شخص بنوامیہ سے تعلق رکھتاتھا، اس نے اس بات کاتذکرہ مدینہ منورہ کے گورنرمروان سے کیا۔ مروان کی ملاقات حضرت سیدناابوسعید الخدری رضی اللہ عنہ سے ہوئی تواس نے دریافت کیاکہ آپ نے اپنے بھتیجے کو کیوں ماراتھا؟ حضرت سیدناابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے فرمایاکہ حضورتاجدارختم نبوت ﷺنے فرمایاکہ جب کوئی شخص کسی چیز کو سترہ بناکر نمازاداکررہاہوتوپھرکوئی شخص اس کے آگے سے گزرنے کی کوشش کرے تووہ اسے روکے ۔ اگروہ شخص اس کی بات نہیں مانتاتو اس کے ساتھ جھگڑاکرے کیونکہ وہ شخص شیطان ہوگا۔ تومیں نے شیطان کو ماراہے ۔
(صحیح ابن خزیمۃ:أبو بکر محمد بن إسحاق بن خزیمۃ النیسابوری (۲:۱۵)
آگے چل کر ہم اس پرمزید کلام نقل کریں گے ۔
معارف مسائل
(۱)کسی کو جبراً مسلمان بناناجائز نہیں ہے ، اسلئے جہاد سے پہلے اسلام پیش کیاجاتاہے ، اگرکفارنہ مانے تو جزیہ کی پیشکش ہوتی ہے ، اگراس کابھی انکارکریں تب جہاد کیاجاتاہے ۔ اگراسلام میں جبرہوتاتوجزیہ کی پیشکش ہی نہ ہوتی ۔ مگراس حکم سے مرتدین اورمشرکین عرب مستثنی ہیں ۔ ان کے لئے دوہی صورتیں ہیں اسلام یاتلوار۔ اس آیت کریمہ سے موجودہ کفارکایہ بھی اعتراض اٹھ گیاکہ اسلام تلوار سے پھیلایاگیاہے ، یامسلمانوں نے کفارکوجبراً کلمہ پڑھایا۔ جبراً مسلمان بنانااسلام کاقانون ہی نہیں ہے ۔ اگریہ قانون ہوتاتوآج ہندوستان میں مسلمانوں کی تعداد صرف دس کروڑ اورہندوئوں کی تعداد پچیس کروڑ نہ ہوتی۔(یہ ذہن میں رہے کہ یہ تعداد حضرت مفتی احمدیارخان نعیمی رحمہ اللہ تعالی کے دورکی ہے ، آج تووہاں اسلام کی تعداد بہت زیادہ ہے ) بلکہ یہاں سب مسلمان ہی ہوتے ۔ ملک بجائے ہندوستان کے اسلامستان ہوتاکیونکہ یہاں مسلمانوں کی حکومت تقریباً آٹھ سوسال رہی ہے ۔ پھریہ بھی سوچناچاہئے کہ حضورتاجدارختم نبوت ﷺدنیامیں توحید کے علمبردارتھے ۔ ان کے پاس دنیاوی سازوسامان کچھ نہ تھا۔ تمام عرب ان کامخالف ، اکیلی ذات دنیاپر کیسے تلوار چلاسکتی ہے ؟ وہ کون سی کشش تھی کہ اس بے سروسامانی کی حالت میں لوگ مسلمان ہوتے تھے ۔ اسلام لاکرہزارہامصیبتیں جھیلتے اوردنیاکے مظالم سہتے تھے ۔ دیکھوحضرت سیدنابلال رضی اللہ عنہ ، حضرت سیدناسلمان فارسی رضی اللہ عنہ اورحضرت سیدناابوذرغفاری رضی اللہ عنہ کے حالات ۔ اب ہندوستان میں مسلمانوں کے پاس کونسی تلوار ہے ، اب بھی جب مردم شماری ہوتی ہے تو مسلمانوں کی تناسب آبادی بڑھتاہی ہے ۔ قبیلے کے قبیلے حلقہ بگوش اسلام ہورہے ہیں۔ معلوم ہواکہ بے شک اسلام تلوارسے پھیلاہے مگرلوہے کی تلوار سے نہیں بلکہ حقانیت وصداقت کی تلوار سے ۔ (تفسیرنعیمی (۲: ۴۸)
(۲) ایمانیات کے اقرارسے پہلے کفریات سے بیزاری ضروری ہے ۔ دیکھویہاں ایمان باللہ سے پہلے کفربالطاغوت کاذکرہوا، اسی لئے کلمہ طیبہ میں لاالہ پہلے ہے اورالااللہ بعد میں ۔کفریات سے کامل بیزاری یہ ہے کہ کفارسے نفرت ہو، ان کے کفرسے نفرت ہو، ان کی شکل وصورت سے نفرت ہو۔ ان کے اخلاق ولباس وغیرہ تمام چیزوں سے نفرت ہو۔ اگرکفارکے کفرسے تونفرت ہومگران کی وضع قطع سے محبت ہوتوبیزاری کامل نہیں ہے ۔
(۳) اسلام سے قبل مسیحیت آخری دین حق تھا، اس کے پیروکاروں نے اس کے پھیلانے کے لئے اسلحہ کااستعمال کیا، لوگوں کوزندہ جلایاگیااوریونہی شہنشاہیت روماکے فرمانرواقستنطین نے عیسائیت کو قبول کیا، حکومت نے جبروتشددکے تمام تروسائل استعمال کئے اورلوگوں کو عیسائیت قبول کرنے پر مجبورکیا،حالانکہ اس سے پہلے یہی حکومت ان عیسائیوں کے خلاف جبروتشددکے تمام وسائل بروئے کارلاچکی تھی ، جنہوںنے برضاورغبت عیسائیت کو قبول کیاتھا۔ سلطنت روماکایہ جبروتشددصرف ان لوگوں کے خلاف نہ تھاجو عیسائیت قبول نہ کررہے تھے بلکہ یہ جبروتشددان صحیح العقیدہ عیسائیوں کے خلاف بھی بڑی بے دردی سے جاری رہاجو حضرت سیدناعیسی علیہ السلام کی ذات کے بارے میں حکومت روماکے غلط نظریات تثلیث قبول کرنے پرآمادہ نہ تھے ، جب اسلام اس جہان میں تشریف لایاتو اس کاپہلااصول ہی یہی تھاکہ اسلام کے قبول کرنے میں کسی کو مجبورنہ کیاجائے گا۔ گمراہی سے ہدایت بالکل الگ ہوگئی ہے ، اب یہ لوگوںکااپناکام ہے کہ وہ برضاورغبت اسلام قبول کریں۔
(۴) یہ اسلام ہی ہے کہ جو ببانگ دہل پکاررہاہے کہ اختیاردین میں کوئی جبروتشددنہیں وہ اپنے قبول کرنے والوں کو سب سے پہلے یہی تلقین کرتاہے کہ وہ لوگوں کو دین اسلام قبول کرنے پر مجبورنہیں کرسکتے ۔ جب اسلام جیسا دین فطرت لوگوں کو مسلمان بنانے کے لئے مجبور نہیں کرسکتاتو دوسرے مروجہ ادیان باطلہ کو کیسے یہ اجازت دی جاسکتی ہے کہ محض حکومت کے بل بوتے پر ان ادیان کے نہ ماننے والوں پر عرصہ حیات تنگ کردیں۔