تفسیر سورہ بقرہ آیت ۲۵۱ ۔ فَہَزَمُوْہُمْ بِاِذْنِ اللہِ وَقَتَلَ دَاودُ جَالُوْتَ وَاٰتٰیہُ اللہُ الْمُلْکَ وَالْحِکْمَۃَ وَعَلَّمَہ مِمَّا یَشَآء

مجاہدین اسلام کامیدان کارزارمیں اللہ تعالی کی بارگاہ اقدس میں فتح وکامرانی کے لئے دعاکرنا

{وَلَمَّا بَرَزُوْا لِجَالُوْتَ وَجُنُوْدِہٖ قَالُوْا رَبَّنَآ اَفْرِغْ عَلَیْنَا صَبْرًا وَّثَبِّتْ اَقْدَامَنَا وَانْصُرْنَا عَلَی الْقَوْمِ الْکٰفِرِیْنَ}(۲۵۰){فَہَزَمُوْہُمْ بِاِذْنِ اللہِ وَقَتَلَ دَاودُ جَالُوْتَ وَاٰتٰیہُ اللہُ الْمُلْکَ وَالْحِکْمَۃَ وَعَلَّمَہ مِمَّا یَشَآء ُ وَلَوْلَا دَفْعُ اللہِ النَّاسَ بَعْضَہُمْ بِبَعْضٍ لَّفَسَدَتِ الْاَرْضُ وَلٰکِنَّ اللہَ ذُوْ فَضْلٍ عَلَی الْعٰلَمِیْن}(۲۵۱)
ترجمہ کنزالایمان:پھر جب سامنے آئے جالوت اور اس کے لشکروں کے عرض کی اے رب ہمارے ہم پر صبر انڈیل اور ہمارے پاؤں جمے رکھ کافر لوگوں پرہماری مدد کرتو انہوں نے ان کو بھگادیا اللہ کے حکم سے اور قتل کیا داؤد نے جالوت کو اور اللہ نے اسے سلطنت اور حکمت عطا فرمائی اور اسے جو چاہا سکھایا اور اگر اللہ لوگوں میں بعض سے بعض کو دفع نہ کرے تو ضرور زمین تباہ ہوجائے مگر اللہ سارے جہان پر فضل کرنے والا ہے ۔
ترجمہ ضیاء الایمان:پھر جب سامنے آئے جالوت اور اس کے لشکروں کے عرض کی اے رب ہمارے ہم پر صبر انڈیل اور ہمارے پاؤں جمے رکھ کافر لوگوں پرہماری مدد کرتو انہوں نے ان کو بھگادیا اللہ کے حکم سے اور قتل کیا داؤد نے جالوت کو اور اللہ نے اسے سلطنت اور حکمت عطا فرمائی اور اسے جو چاہا سکھایا اور اگر اللہ لوگوں میں بعض سے بعض کو دفع نہ کرے تو ضرور زمین تباہ ہوجائے مگر اللہ سارے جہان پر فضل کرنے والا ہے ۔

آ یت کریمہ کامعنی ؟

الْمَعْنَی:أَنَّ اللَّہَ تَعَالَی اسْتَجَابَ دُعَاء َہُمْ، وَأَفْرَغَ الصَّبْرَ عَلَیْہِمْ، وَثَبَّتَ أَقْدَامَہُمْ،وَنَصَرَہُمْ عَلَی الْقَوْمِ الْکَافِرِینَ:جَالُوتَ وَجُنُودِہِ وَحَقَّقَ بِفَضْلِہِ وَرَحْمَتِہِ ظَنَّ مَنْ قَالَ:کَمْ مِنْ فِئَۃٍ قَلِیلَۃٍ غَلَبَتْ فِئَۃً کَثِیرَۃً بِإِذْنِ اللَّہِ۔
ترجمہ:امام فخرالدین الرازی المتوفی : ۶۰۶ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ اس آیت کریمہ کامعنی یہ ہے کہ اللہ تعالی نے ان اہل ایمان کی دعاقبول فرمالی اوران پر صبرواستقامت کی فراوانی فرمائی اوران کو بہادری اورمضبوطی عطافرمائی اورانہیں جالوت اوراس کے عساکر کافروں پر غلبہ عطافرمایااوراس نے اپنے فضل ورحمت سے ان لوگوں کے گمان کو سچافرمادیاجنہوںنے کہاتھاکہ {کَمْ مِنْ فِئَۃٍ قَلِیلَۃٍ غَلَبَتْ فِئَۃً کَثِیرَۃً بِإِذْنِ اللَّہِ}
(التفسیر الکبیر:أبو عبد اللہ محمد بن عمر بن الحسن بن الحسین التیمی الرازی(۶:۵۱۵)

جالوت کاقتل اوراہل اسلام کو فتح

(وَقَتَلَ داوُدُ جالُوتَ)وَذَلِکَ أَنَّ طَالُوتَ الْمَلِکَ اخْتَارَہُ مِنْ بَیْنِ قَوْمِہِ لِقِتَالِ جَالُوتَ،وَکَانَ رَجُلًا قَصِیرًا مِسْقَامًا مِصْفَارًا أَصْغَرَ أَزْرَقَ،وَکَانَ جَالُوتُ مِنْ أَشَدِّ النَّاسِ وَأَقْوَاہُمْ وَکَانَ یَہْزِمُ الْجُیُوشَ وَحْدَہُ، وَکَانَ قَتْلُ جَالُوتَ وَہُوَ رَأْسُ الْعَمَالِقَۃِ عَلَی یَدِہِ وَہُوَ داودابن إِیشَی بِکَسْرِ الْہَمْزَۃِ،وَیُقَالُ:دَاوُدُ بْنُ زَکَرِیَّا بْنِ رَشْوَی، وَکَانَ مِنْ سِبْطِ یَہُوذَا بْنِ یَعْقُوبُ بْنُ إِسْحَاقَ بْنِ إِبْرَاہِیمَ عَلَیْہِمُ السَّلَامُ،وَکَانَ مِنْ أَہْلِ بَیْتِ الْمَقْدِسِ جُمِعَ لَہُ بَیْنَ النُّبُوَّۃِ وَالْمُلْکِ بَعْدَ أَنْ کَانَ رَاعِیًا وَکَانَ أَصْغَرَ إِخْوَتِہِ وَکَانَ یَرْعَی غَنَمًا،وَکَانَ لَہُ سَبْعَۃُ إِخْوَۃٍ فِی أَصْحَابِ طَالُوتَ، فَلَمَّا حَضَرَتِ الْحَرْبُ قَالَ فِی نَفْسِہِ:لَأَذْہَبَنَّ إِلَی رُؤْیَۃِ ہَذِہِ الْحَرْبِ،فَلَمَّا نَہَضَ فِی طَرِیقِہِ مَرَّ بِحَجَرٍ فَنَادَاہُ:یَا دَاوُدُ خُذْنِی فَبِی تَقْتُلُ جَالُوتَ،ثُمَّ نَادَاہُ حَجَرٌ آخَرُ ثُمَّ آخَرُ فَأَخَذَہَاوَجَعَلَہَا فِی مِخْلَاتِہِ وَسَارَ، فَخَرَجَ جَالُوتُ یَطْلُبُ مُبَارِزًا فَکَعَّ النَّاسُ عَنْہُ حَتَّی قَالَ طَالُوتُ:مَنْ یَبْرُزُ إِلَیْہِ وَیَقْتُلُہُ فَأَنَا أُزَوِّجُہُ ابْنَتِی وَأُحَکِّمُہُ فِی مَالِیَ،فَجَاء َ دَاوُدُ عَلَیْہِ السَّلَامُ فَقَالَ:أَنَا أَبْرُزُ إِلَیْہِ وَأَقْتُلُہُ،فَازْدَرَاہُ طَالُوتُ حِینَ رَآہُ لِصِغَرِ سِنِّہِ وَقِصَرِہِ فَرَدَّہُ، وَکَانَ دَاوُدُ أَزْرَقَ قَصِیرًا،ثُمَّ نَادَی ثَانِیَۃً وَثَالِثَۃً فَخَرَجَ دَاوُدُ،فَقَالَ طَالُوتُ لَہُ:ہَلْ جَرَّبْتَ نَفْسَکَ بِشَیْء ٍ؟ قَالَ نَعَمْ،قَالَ بماذا؟قَالَ:وَقَعَ ذِئْبٌ فِی غَنَمِی فَضَرَبْتُہُ ثُمَّ أَخَذْتُ رَأْسَہُ فَقَطَعْتُہُ مِنْ جَسَدِہِ قَالَ طَالُوتُ:الذِّئْبُ ضَعِیفٌ،ہَلْ جَرَّبْتَ نَفْسَکَ فِی غَیْرِہِ؟قَالَ:نَعَمْ، دَخَلَ الْأَسَدُ فِی غَنَمِی فَضَرَبْتُہُ ثُمَّ أَخَذْتُ بِلَحْیَیْہِ فَشَقَقْتُہُمَا،أَفَتَرَی ہَذَا أَشَدَّ مِنَ الْأَسَدِ؟قَالَ لَا،وَکَانَ عِنْدَ طَالُوتَ دِرْعٌ لَا تَسْتَوِی إِلَّا عَلَی مَنْ یَقْتُلُ جَالُوتَ،فَأَخْبَرَہُ بِہَا وَأَلْقَاہَا عَلَیْہِ فَاسْتَوَتْ،فَقَالَ طَالُوتُ:فَارْکَبْ فَرَسِی وَخُذْ سِلَاحِی فَفَعَلَ، فَلَمَّا مَشَی قَلِیلًا رَجَعَ فَقَالَ النَّاسُ:جَبُنَ الْفَتَی!فَقَالَ دَاوُدُ:إِنَّ اللَّہَ إِنْ لَمْ یَقْتُلْہُ لِی وَیُعِنِّی عَلَیْہِ لَمْ یَنْفَعْنِی ہَذَا الْفَرَسُ وَلَا ہَذَا السِّلَاحُ، وَلَکِنِّی أُحِبُّ أَنْ أُقَاتِلَہُ عَلَی عَادَتِی قَالَ:وَکَانَ دَاوُدُ مِنْ أَرْمَی النَّاسِ بِالْمِقْلَاعِ، فَنَزَلَ وَأَخَذَ مِخْلَاتَہُ فَتَقَلَّدَہَا وَأَخَذَ مِقْلَاعَہُ وَخَرَجَ إِلَی جَالُوتَ،وَہُوَ شَاکٍ فِی سِلَاحِہِ عَلَی رَأْسِہِ بَیْضَۃٌ فِیہَا ثَلَاثُمِائَۃِ رِطْلٍ،فِیمَا ذَکَرَ الْمَاوَرْدِیُّ وَغَیْرُہُ،فَقَالَ لَہُ جَالُوتُ:أَنْتَ یَا فَتَی تَخْرُجُ إِلَیَّ!قَالَ نَعَمْ،قَالَ: ہَکَذَا کَمَا تَخْرُجُ إِلَی الْکَلْبِ!قَالَ نَعَمْ،وَأَنْتَ أَہْوَنُ قَالَ:لَأُطْعِمَنَّ لَحْمَکَ الْیَوْمَ لِلطَّیْرِ وَالسِّبَاعِ، ثُمَّ تَدَانَیَا وَقَصَدَ جَالُوتُ أَنْ یَأْخُذَ دَاوُدَ بِیَدِہِ اسْتِخْفَافًا بِہِ،فَأَدْخَلَ دَاوُدُ یَدَہُ إِلَی الْحِجَارَۃِ،فَرُوِیَ أَنَّہَا الْتَأَمَتْ فَصَارَتْ حَجَرًا وَاحِدًا، فَأَخَذَہُ فَوَضَعَہُ فِی الْمِقْلَاعِ وَسَمَّی اللہ وَأَدَارَہُ وَرَمَاہُ فَأَصَابَ بِہِ رَأْسَ جَالُوتَ فَقَتَلَہُ، وَحَزَّ رَأْسَہُ وَجَعَلَہُ فِی مِخْلَاتِہِ، وَاخْتَلَطَ النَّاسُ وحملہ أَصْحَابُ طَالُوتَ فَکَانَتِ الْہَزِیمَۃُ وَقَدْ قِیلَ:إِنَّمَا أَصَابَ بِالْحَجَرِ مِنَ الْبَیْضَۃِ مَوْضِعَ أَنْفِہِ وَقِیلَ:عَیْنَہُ وَخَرَجَ مِنْ قَفَاہُ،وَأَصَابَ جَمَاعَۃً مِنْ عَسْکَرِہِ فَقَتَلَہُمْ وَقِیلَ:إِنَّ الْحَجَرَ تَفَتَّتَ حَتَّی أصاب کل من فی العسکر شی مِنْہُ،وَکَانَ کَالْقَبْضَۃِ الَّتِی رَمَی بِہَا النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ہَوَازِنَ یَوْمَ حُنَیْنٍ،وَاللَّہُ أَعْلَمُ۔
ترجمہ:حضرت سیدنادائودعلیہ السلام نے جالوت کو قتل کیا، کیونکہ حضرت سیدنادائودعلیہ السلام دراز قدنہ تھے اوررہتے بھی بیمارتھے اورجالوت لوگوں میں سے انتہائی مضبوط اورقوی تھا، یہ اکیلالشکروں کو شکست دے سکتاتھااورجالوت کو قتل کردیاحالانکہ وہ عمالقہ کاامیراورسردارتھا۔ اسے قتل کرنے والے حضرت سیدنادائودبن ایشی تھے ۔یہ ایشی ہمزہ کے کسرہ کے ساتھ ہے ۔ اورکہاجاتاہے کہ وہ دائودبن ذکریابن رشوی تھے ۔ یہ یہوذابن یعقوب بن اسحاق بن ابراہیم علیہم السلام کی اولاد میں سے تھے اوربیت المقدس کے رہنے والے تھے ۔ ان کو نبوت اوربادشاہت دونوں چیزیں اکٹھی عطافرمائی گئیں ۔ اس سے پہلے آپ علیہ السلام بکریاں چرایاں کرتے تھے ۔ یہ اپنے بھائیوں میں سے چھوٹے تھے ۔ اوران کے سات بھائی اصحاب طالوت میں سے تھے۔ بس جب جنگ شروع ہوئی توانہوں نے اپنے دل میں کہا: کہ میں ضروربالضروراس جنگ کو دیکھنے کے لئے جائوں گا۔ جب اس راستے پر چلے توایک پتھرکے پاس سے گزرے تواس نے آپ علیہ السلام کو آواز دی اے دائود! مجھے اٹھالیں اورمیرے ساتھ آپ جالوت کو قتل کرنا۔ پھرایک دوسرے پتھرنے آواز دی اوراس کے بعد پھرایک اورپتھرنے آواز دی ۔ پس آپ علیہ السلام نے انہیں اٹھالیااوراپنے تھیلے میں رکھ لیااورچل پڑے ۔ پس جالوت اپنے لشکرکی صفوں سے باہرنکلااوردعوت مبارزت دینے لگا۔ تولوگوں نے اس کے ساتھ مقابلہ کرنے کی ہمت نہ کی ،کمزوری دکھائی ۔ یہاں تک کہ حضرت طالوت نے کہاکہ جو شخص اس کامقابلہ کرے اوراس کو قتل کردے تومیں اس کانکاح اپنی بیٹی کے ساتھ کروں گااوراپنے مال میں سے اسے حکم بنائوں گا۔ چنانچہ حضرت سیدنادائودعلیہ السلام آئے اورفرمایاکہ میں اس کے ساتھ مقابلہ کروں گااوراسے قتل کردوں گا، لیکن طالوت نے جب ان کی صغرسنی اوران کے چھوٹے قدکودیکھاتوانہیں کمزورقراردے کرواپس لوٹادیا۔ حضرت سیدنادائودعلیہ السلام کاقدمبارک اتنابڑانہ تھا۔ پھرحضرت طالوت نے دوبارہ سہ بارہ اعلان کیا، پھربھی حضرت سیدنادائودعلیہ السلام ہی باہر نکلے ۔ تب حضرت طالوت نے ان سے کہا: کیاآپ اپنی ذات میں کسی چیز کاتجربہ رکھتے ہیں؟ توانہوںنے فرمایا: ہاں ۔ انہوں نے پوچھاکہ وہ کیسے ؟ توحضرت سیدنادائودعلیہ السلام نے فرمایا: ایک دفعہ ایک بھیڑیامیرے ریوڑ میں داخل ہوگیاتومیں نے اسے مارااورپھراس کے سرکو پکڑلیااورمیں نے اسے اس کے جسم سے الگ کردیا۔ طالوت نے کہاکہ بھیڑیاتوکمزورہے ، کیااس کے علاوہ کوئی اورتجربہ ہو؟ آپ علیہ السلام نے فرمایا: ایک بار ایک شیر میرے ریوڑ میں آگیاتومیں نے اسے ماراپھرمیں نے اسے جبڑوں سے پکڑلیا، میں نے ان دونوں کو چیر ڈالا۔ کیاآپ جالوت کو شیر سے بھی زیادہ طاقتورجانتے ہیں؟ حضرت طالوت نے عرض کی : نہیں۔ حضرت طالوت کے پاس ایک زرہ تھی اوروہ اسی پر پوری آسکتی تھی جس نے جالوت کو قتل کرناتھا۔ پس اس نے اس کے بارے میں آپ علیہ السلام کو آگاہ کیااوروہ زرہ آپ علیہ السلام کو پہنائی تووہ بالکل آپ علیہ السلام کو پوری آگئی ۔ پھرطالوت نے کہاکہ میرے گھوڑے پر سوارہوجائیں ، میراہتھیارپکڑلیں اوراس کے مقابلے میں جائیں ۔ چنانچہ آپ علیہ السلام نے ایساکرلیالیکن جب تھوڑاساچلے توواپس لوٹ آئے اورلوگوں نے کہاکہ یہ نوجوان توگھبراگیاہے ۔ حضرت سیدنادائودعلیہ السلام نے فرمایاکہ بے شک اللہ تعالی نے اسے میرے سبب قتل نہ کیااوراس کے خلاف میری مددنہ فرمائی توپھریہ گھوڑاوریہ ہتھیارمیرے لئے نفع مند نہیں ہیں ۔ البتہ میں یہ بات پسندکرتاہوں کہ میں اس کے ساتھ اپنی عادت کے موافق ہی لڑوں ۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ حضرت سیدنادائودعلیہ السلام مقلاع(یعنی پتھرپھینکنے والاایک آلہ) کے ساتھ پتھرپھینکنے کے سب لوگوں سے زیادہ ماہرتھے ۔ پس آپ علیہ السلام گھوڑے سے اترے اوراپنے تھیلے کواٹھایااوراسے لٹکالیااوراپناگوپیااٹھایااورجالوت کی طرف چل پڑے ۔ وہ مکمل اپنے ہتھیارپہنے ہوئے تھا، اس کے سرپر خود تھااوراس میں سورطل تھے ۔ جیساکہ الماوروی رحمہ اللہ تعالی نے نقل کیاہے ۔ توجالوت نے حضرت سیدنادائودعلیہ السلام سے کہا: اے نوجوان!تومیری طرف آیاہے ؟ آپ علیہ السلام نے فرمایا: ہاں ۔ اس نے کہاکہ تم تومیری طرف ایسے نکلے ہوجیسے کسی کتے پر حملہ کرنے کے لئے نکلے ہویعنی بغیرہتھیاروغیرہ کے ۔ توآپ علیہ السلام نے فرمایا: ہاں ایساہی ہے لیکن تجھے مارنامیرے لئے کتامارنے سے بھی زیادہ آسان ہے ۔ آپ علیہ السلام نے فرمایاکہ آ ج یقینامیں تیراگوشت درندوں اورپرندوں کو کھلائوں گا۔ پھروہ دونوں ایک دوسرے کے قریب ہوئے اورجالوت نے حضرت سیدنادائودعلیہ السلام کو حقیرجانتے ہوئے انہیں اپنے ہاتھ سے پکڑنے کی کوشش کی ، توحضرت سیدنادائودعلیہ السلام نے اپناہاتھ پتھرکی طرف بڑھایااورروایت ہے کہ وہ سب پتھرجڑچکے تھے اورایک پتھربن گیاتھا۔سوآپ علیہ السلام نے اسے پکڑااوراپنے گوپیامیں رکھا۔ اللہ تعالی کانام لیکر اسے گھمایااوراسے پھینک دیا۔ پس وہ جالوت کے سرمیں جالگااوراسے قتل کردیا۔ اوراس کے سرکو کاٹ کر اپنے تھیلے میں رکھ لیااورلوگوں میں مل گئے اورحضرت طالوت کی فوج نے ان پر یکبارگی حملہ کردیااوریہی ہزیمت تھی اوریہ بھی بیان کیاگیاکہ پتھراس کی ناک کی جگہ جالگااوربعض نے کہاکہ اس کی آنکھ پر جالگااوراس کی گدی کی جانب سے نکل گیااوراس کے لشکرکی ایک جماعت کو جاکرلگااورانہیں قتل کردیا۔ یہ قول بھی ہے کہ پتھرٹوٹ کر بکھرگیا، یہاں تک کہ لشکرکے ہر ہر فردکو اس کاکچھ کچھ حصہ جاکرلگااوریہ سنگریزوں کی اس مشت کی طرح تھاجو حضورتاجدارختم نبوت ﷺنے غزوہ حنین کے دن بنی ہوازن پر پھینکے تھے ۔
(تفسیر القرطبی:أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن أبی بکر شمس الدین القرطبی (۳:۲۵۶)

کیاآج مسلمان فوجیں نہیں رہیں؟

وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ:وَلَوْلَا دَفْعُ اللَّہِ الْعَدُوَّ بِجُنُودِ الْمُسْلِمِینَ لَغَلَبَ الْمُشْرِکُونَ فَقَتَلُوا الْمُؤْمِنِینَ وَخَرَّبُوا الْبِلَادَ وَالْمَسَاجِدَ.
ترجمہ:حضرت سیدناعبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہماارشادفرماتے ہیں کہ اگراللہ تعالی اہل اسلام کی فوجوں کے سبب دشمنوں کو دفع نہ کرتاتو مشرکین غالب آجاتے اوروہ اہل ایمان کو قتل کرتے اورشہروں اورمساجد کو بربادکردیتے تھے ۔
(الوجیز :أبو الحسن علی بن أحمد بن محمد بن علی الواحدی، النیسابوری، الشافعی (۱:۱۸۱)

نیک لوگوں کے سبب فساق وفجارسے بھی عذاب دورہوتے ہیں

قَالَ الثَّعْلَبِیُّ وَقَالَ سَائِرُ الْمُفَسِّرِینَ:وَلَوْلَا دِفَاعُ اللَّہِ الْمُؤْمِنِینَ الْأَبْرَارَ عَنِ الْفُجَّارِ وَالْکُفَّارِ لَفَسَدَتِ الْأَرْضُ، أَیْ ہَلَکَتْ وَذَکَرَ حَدِیثًا أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ:إِنَّ اللَّہَ یَدْفَعُ الْعَذَابَ بِمَنْ یُصَلِّی مِنْ أُمَّتِی عَمَّنْ لَا یُصَلِّی وَبِمَنْ یُزَکِّی عَمَّنْ لَا یُزَکِّی وَبِمَنْ یَصُومُ عَمَّنْ لَا یَصُومُ وَبِمَنْ یَحُجُّ عَمَّنْ لَا یَحُجُّ وَبِمَنْ یُجَاہِدُ عَمَّنْ لَا یُجَاہِدُ،وَلَوِ اجْتَمَعُوا عَلَی تَرْکِ ہَذِہِ الْأَشْیَاء ِمَا أَنْظَرَہُمُ اللَّہُ طَرْفَۃَ عَیْنٍ ثُمَّ تَلَا رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَلَوْلَا دَفْعُ اللَّہِ النَّاسَ بَعْضَہُمْ بِبَعْضٍ لَفَسَدَتِ الْأَرْضُ۔

ترجمہ:امام الثعلبی رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیںکہ تمام مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ اگراللہ تعالی نیکوکارمومنین کو فجاراورکفارسے نہ بچائے تو زمین برباداورفاسدہوجائے ۔ اورایک حدیث شریف میں کہ حضورتاجدارختم نبوت ﷺنے فرمایا: بے شک اللہ تعالی میری امت کے نمازیوں کے سبب نماز نہ پڑھنے والوں سے اورتزکیہ اختیارکرنے والوں کے سبب تزکیہ اختیارنہ کرنے والوں سے ، روزہ رکھنے والوں کے سبب روزہ نہ رکھنے والوں سے ، حج کرنے والوں کے سبب حج نہ کرنے والوں سے اورجہاد کرنے والوں کے سبب جہادنہ کرنے والوں سے عذاب دورفرماتارہے گا۔ اگروہ ان اعمال کے ترک کرنے پر جمع ہوگئے تو اللہ تعالی انہیں آنکھ جھپکنے کی بھی مہلت نہ دے گا۔ پھرحضورتاجدارختم نبوت ﷺنے یہ آیت کریمہ تلاوت فرمائی ۔
(تفسیر القرطبی:أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن أبی بکر شمس الدین القرطبی (۳:۲۵۶)

دنیامیں امن حضورتاجدارختم نبوت ﷺکی شریعت سے ہی ہوگا

وَقِیلَ:ہَذَا الدَّفْعُ بِمَا شَرَعَ عَلَی أَلْسِنَۃِ الرُّسُلِ مِنَ الشَّرَائِعِ،وَلَوْلَا ذَلِکَ لَتَسَالَبَ النَّاسُ وَتَنَاہَبُوا وَہَلَکُوا، وَہَذَا قَوْلٌ حَسَنٌ فَإِنَّہُ عُمُومٌ فِی الْکَفِّ وَالدَّفْعِ وَغَیْرِ ذَلِکَ فَتَأَمَّلْہ۔
ترجمہ :پوری کائنات عالم کادفاع اوربچائواس شریعت کے سبب ہے جو اللہ تعالی نے انبیاء کرام علیہم السلام کی زبان مبارک سے جاری ہوئی ، اگرایسانہ ہوتاتو لوگ ایک دوسرے سے زبردستی اشیاء چھینتے ۔ ایک دوسرے کاسامان لوٹتے اورہلاک ہوجاتے ۔
(تفسیر القرطبی:أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن أبی بکر شمس الدین القرطبی (۳:۲۵۶)

معارف ومسائل

(۱) اس سے یہ بھی معلوم ہواکہ لشکرنہیں لڑتے بلکہ توکل علی اللہ کی دولت ہی بڑے بڑے لشکروں پربھاری ہے۔
(۲)اوریہ بھی معلوم ہواکہ جس طرح حضرت سیدنادائودعلیہ السلام نے جالوت کو کتے کی طرح حقیروذلیل جانااسی طرح ہمیں چاہئے کہ ہم اللہ تعالی کے دشمن کے ساتھ ایسے ہی نفرت رکھیں ۔ اورجب انسان کاتوکل اللہ تعالی کی ذات پرہو تو پھراس کے سامنے کوئی بھی بڑے سے بڑاسورماکتے سے بھی کم حیثیت رکھے گا۔
(۳) اس سے یہ بھی معلوم ہواکہ جہاد کرناانبیاء کرام علیہم السلام کاطریقہ ہے اورہمیشہ سے رہاہے ، آج جو جاہل لوگ یہ کہتے ہوئے سنائی دیتے ہیں کہ جہادکرناانبیاء کرام علیہم السلام کاطریقہ نہیں ہے وہ یہ حدیث شریف اورآیت مبارکہ کی تفسیرپڑھیں اورساتھ ساتھ وہ لوگ جن کو تصوف کادورہ پڑاہواہے اوروہ بھی یہی بات کہتے ہوئے سنائی دیتے ہیں کہ صوفیہ کرام پرامن ہوتے ہیں یعنی وہ جہاد نہیں کرتے ۔ ان جہال سے یہ سوال کیاجائے کہ کیاانبیاء کرام علیہم السلام سے بڑھ کربھی کوئی صوفی اوراللہ والاہے ؟ ۔
(۴) اس سے یہ بھی معلوم ہواکہ جہاد نہ ہونے کے سبب دنیامیں فسادپھیل جائے اورمساجد شہیدکردی جائیں ۔ آج ہم دیکھیں جہاد نہ ہونے کے سبب کفارکیسے آسانی کے ساتھ مساجد شہید کررہے ہیں اورہمارے اہل اسلام کو آئے دن قتل کررہے ہیں۔ اللہ تعالی کی بارگاہ میں التجاء ہے کہ مولاتعالی ہمارے اہل اسلام کو جہاد کرنے کی توفیق عطافرمائے اوران کے دلوں سے کفارکارعب اوروہن دورفرمائے۔
(۵) یہ بھی ذہن میں رہے کہ غزوہ بدرمیں جہاد طالوت جیسے واقعات کچھ ہی عرصہ بعد پیش آگئے ۔ کم تعداد اوربے سروسامان مسلمانوں نے مشرکین کے مسلح لشکروں کو شکست دے دی اورابوجہل جیساجنگجوبہادربچوں کے ہاتھوں قتل ہوا۔
(۶) جنگ کے وقت فتح ونصرت کی دعاکرناانبیاء کرام علیہم السلام کی سنت ہے ۔ حضورتاجدارختم نبوت ﷺبھی اس وقت دعائیں کیاکرتے تھے ۔ جہاد یاتیاری جہاد کے وقت مسلمان کھیل وتماشہ ،ناچ رنگ میں مشغول نہ ہوں بلکہ عبادات میں زیادتی کریں اوردعائوں میں مشغول ہوجائیں ، اگرشہادت کی موت آئے تو اس حال میں آئے کہ غازی کے ہاتھ میں تلوارہواورزبان پر ذکریارہو۔ یہ دعامانگنابے صبری نہیں ہے ۔ افسوس کہ آج مسلمان یہ سبق بھول گئے ، اب اسلامی فوجوں کے دل بہلانے کے لئے سینمااورگانے باجے ہیں ۔ جب رب تعالی کاکرم ہوجاتاہے تونوعمربچوں سے بھی اللہ تعالی بڑے بڑے بہادروں کو ہلاک کروادیتاہے ۔ دیکھوحضرت سیدنادائودعلیہ السلام کے ہاتھ سے جالوت کو قتل کروادیااورگیارہ برس کے نوعمربچے معاذ بن عفراء رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں ابوجہل جیسے سرکش لعین کو قتل کروادیا۔ غرضیکہ اللہ تعالی ابابیل سے ہاتھی تک مرادیتاہے ۔
(۷) اگرکسی نیکی کے ذریعے دنیاوی مال بھی مل جائے تواس سے ثواب میں کوئی کمی نہیں آتی ، دیکھوحضرت سیدنادائودعلیہ السلام کو اس جہاد کے ذریعے بڑی سلطنت ہاتھ آئی ، مگرآپ علیہ السلام کے ثواب میں کوئی کمی نہیں آئی۔ لھذااگرتنخواہ پر امامت اوردینی مدارس ،جہاد اوراذان وغیرہ پرمقررکئے جائیں تو ان شاء اللہ ثواب بھی پوراملے گابشرطیکہ نیت درست ہو۔ تفسیرنعیمی ( ۲: ۵۲۲)
(۸)طالوت و جالوت اور حضرت دائود عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے پورے واقعہ میں بہت سے درس ہیں :ثابت قدمی کم لوگوں ہی کو نصیب ہوتی ہے کیونکہ یہ بہت عظیم خوبی ہے۔ جہاد سے پہلے آزمائش کرلینا بہتر ہوتا ہے۔ عین وقت پر کوئی بزدلی دکھائے تو اس کا نتیجہ اچھا نہیں ہوتا۔ حالت ِ امن میں فوج کی تربیت اور محنت و مشقت اسی مقصد کیلئے ہوتی ہے۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ کسی بڑے امتحان سے پہلے چھوٹے امتحان میں سے گزر لینا چاہیے اس سے دل میں قوت پیدا ہوتی ہے۔ گرمیوں میں روزے رکھنا تکلیف دہ ہے تو ہلکے گرم موسم میں روزے رکھتے رہنا چاہیے تاکہ مشق ہوجائے۔ بڑی چیزوں پر صبر کرنا مشکل ہے تو چھوٹی چھوٹی چیزوں پر صبر کا خود کو عادی بنائیں ، سخاوت کرنے سے دل رُکتا ہو تو روزانہ تھوڑا تھوڑا مال صدقہ کرتے رہیں۔ الغرض یہ قرآن کا ایک اصول ہے جو علمِ نفسیات میں بھر پور طریقے سے استعمال ہوتا ہے، اس کے ذریعے اپنے سینکڑوں معمولات پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ مومن کو اسباب مہیا کرنے چاہئیں لیکن بھروسہ اپنے رب تعالیٰ پرہی ہونا چاہیے۔ {لَفَسَدَتِ الْاَرْض}تو ضرور زمین تباہ ہوجائے )یہاں جہاد کی حکمت کا بیان ہے کہ جہاد میں ہزار وں مصلحتیں ہیں ، اگر گھاس نہ کاٹی جائے تو کھیت برباد ہو جائے، اگر آپریشن کے ذریعے فاسد مواد نہ نکالا جائے تو بدن بگڑ جائے، اگر چور ڈاکو نہ پکڑے جائیں تو امن بر باد ہو جائے ۔ ایسے ہی جہاد کے ذریعے مغروروں ، باغیوں اور سرکشوں کو دبایا نہ جائے تو اچھے لوگ جی نہ سکیں۔ کائنات میں اللہ تعالیٰ کی تکوینی حکمتیں جاری و ساری ہیں ، ان کو سمجھنا ہر ایک کے بس میں نہیں۔ تفسیرصراط الجنان(۱:۳۷۸)

بنی اسرائیل کے اس واقعے سے حاصل ہونے والے فوائد
٭…موت وحیات اللہ تعالیٰ کے قبضہ قدرت میں ہے ،موت کے خوف سے طاعون زدہ مقام چھوڑنا یا میدان جہاد سے فرار ہونا حماقت ہے۔
٭…قتال فی سبیل اللہ او رانفاق فی سبیل اللہ اسلام اور اہل اسلام کی عزت ، جان ومال کی بقا کے لیے بنیادی حیثیت رکھتے ہیں ۔
٭…قتال فی سبیل اللہ ظالموں سے نجات کا فطری راستہ ہے ، عزت ووقار کے حصول کے لیے اقتصادی ترقی کو محور بنانا اہل ایمان کا شیوہ نہیں۔
٭…جہاد جب امیر کی اطاعت میں ہو تو منظم ہوتا ہے او رکامیابی کی راہیں کھلتی ہیں۔
٭…امیرکے انتخاب میں خاندان ، مال ودولت ، قوم قبیلے کا لحاظ نہ رکھاجائے، بلکہ تقوی اور اہلیت پیش نظر رکھی جائے ۔
٭…جہاد کے لیے عملی یعنی فنون حرب سے واقفیت او رجسمانی صلاحیت کے حصول میں لگے رہنا چاہیے۔
٭…مادی اسباب پر بھروسے کے بجائے ہمیشہ اللہ تعالیٰ پر اعتماد اوراسی سے فتح ونصرت طلب کی جائے ۔
٭…خواہش پرستی قتال فی سبیل اللہ کے لیے سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔
٭…فتح قلت تعداد او رکثرت تعداد سے نہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ کی مدد سے ملتی ہے۔
٭…لقائے الہی کاجذبہ مجاہد کو سراپا عزم وہمت بنا دیتا ہے ۔
٭…کمزور دل لوگوں کو لڑائی چھڑنے سے پہلے ہی الگ کر دیا جائے، تاکہ عین قتال میں ان کے فرار ہونے سے مجاہدین کے جذبے میں کوئی فرق نہ پڑے۔
٭… دشمن کی مادی طاقت او رعسکری مشقیں دیکھ کر مرعوب ہونے کے بجائے اللہ تعالیٰ کی قدرت کا استحضار رکھنا چاہیے۔
٭… دشمن پر جلد قابو پانے کے لیے ان کے سرداروں کو زیادہ سے زیادہ نشانہ بنایا جائے۔
٭…جہاد کی مشروعیت فضل الہٰی ہے، اسے مصیبت سمجھنا فساد سے تعبیر کرنا بدبختی کی علامت ہے۔

Leave a Reply

%d bloggers like this: