حضرت سیدناطالوت کے جہاد کرنے کاقصہ
{فَلَمَّا فَصَلَ طَالُوْتُ بِالْجُنُوْدِ قَالَ اِنَّ اللہَ مُبْتَلِیْکُمْ بِنَہَرٍ فَمَنْ شَرِبَ مِنْہُ فَلَیْسَ مِنِّیْ وَمَنْ لَّمْ یَطْعَمْہُ فَاِنَّہ مِنِّیْٓ اِلَّا مَنِ اغْتَرَفَ غُرْفَۃً بِیَدِہٖ فَشَرِبُوْا مِنْہُ اِلَّا قَلِیْلًا مِّنْہُمْ فَلَمَّا جَاوَزَہ ہُوَ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَہ قَالُوْا لَا طَاقَۃَ لَنَا الْیَوْمَ بِجَالُوْتَ وَجُنُوْدِہٖ قَالَ الَّذِیْنَ یَظُنُّوْنَ اَنَّہُمْ مُّلٰقُوا اللہِ کَمْ مِّنْ فِئَۃٍ قَلِیْلَۃٍ غَلَبَتْ فِئَۃً کَثِیْرَۃً بِاِذْنِ اللہِ وَاللہُ مَعَ الصّٰبِرِیْنَ}(۲۵۰){وَلَمَّا بَرَزُوْا لِجَالُوْتَ وَجُنُوْدِہٖ قَالُوْا رَبَّنَآ اَفْرِغْ عَلَیْنَا صَبْرًا وَّثَبِّتْ اَقْدَامَنَا وَانْصُرْنَا عَلَی الْقَوْمِ الْکٰفِرِیْنَ}(۲۵۱){فَہَزَمُوْہُمْ بِاِذْنِ اللہِ وَقَتَلَ دَاودُ جَالُوْتَ وَاٰتٰیہُ اللہُ الْمُلْکَ وَالْحِکْمَۃَ وَعَلَّمَہ مِمَّا یَشَآء ُ وَلَوْلَا دَفْعُ اللہِ النَّاسَ بَعْضَہُمْ بِبَعْضٍ لَّفَسَدَتِ الْاَرْضُ وَلٰکِنَّ اللہَ ذُوْ فَضْلٍ عَلَی الْعٰلَمِیْنَ}(۲۵۲)
ترجمہ کنزالایمان :پھر جب طالوت لشکروں کو لے کر شہر سے جدا ہوابولا بیشک اللہ تمہیں ایک نہر سے آزمانے والا ہے تو جو اس کا پانی پیے وہ میرا نہیں اور جو نہ پئے وہ میرا ہے مگر وہ جو ایک چُلّو اپنے ہاتھ سے لے لے تو سب نے اس سے پیا مگر تھوڑوں نے پھر جب طالوت اور اس کے ساتھ کے مسلمان نہر کے پار گئے بولے ہم میں آج طاقت نہیں جالوت اور اس کے لشکروں کی بولے وہ جنہیں اللہ سے ملنے کا یقین تھا کہ بارہا کم جماعت غالب آئی ہے زیادہ گروہ پر اللہ کے حکم سے اور اللہ صابروں کے ساتھ ہے ۔پھر جب سامنے آئے جالوت اور اس کے لشکروں نے عرض کی اے رب ہمارے ہم پر صبر انڈیل اور ہمارے پاؤں جمائے رکھ کافر لوگوں پرہماری مدد کر۔تو انہوں نے ان کو بھگادیا اللہ کے حکم سے اور قتل کیا داؤد نے جالوت کو اور اللہ نے اسے سلطنت اور حکمت عطا فرمائی اور اسے جو چاہا سکھایا اور اگر اللہ لوگوں میں بعض سے بعض کو دفع نہ کرے تو ضرور زمین
تباہ ہوجائے مگر اللہ سارے جہان پر فضل کرنے والا ہے۔
ترجمہ ضیاء الایمان :پھر جب طالوت لشکروں کو لے کر شہر سے جدا ہوئے تو انہوں نے کہا:بیشک اللہ تعالی تمہیں ایک نہر کے ذریعے آزمانے والا ہے تو جو اس نہر سے پانی پئے گاوہ میرا نہیں ہے اور جو نہ پئے گا وہ میرا ہے سوائے اس کے جو ایک چلو اپنے ہاتھ سے بھرلے تو ان میں سے تھوڑے سے لوگوں کے علاوہ سب نے اس نہر سے پانی پی لیا پھر جب طالوت اور اس کے ساتھ والے مسلمان نہر سے پار ہوگئے توانہوں نے کہا:ہم میں آج جالوت اور اس کے لشکروں کے ساتھ مقابلے کی طاقت نہیں ہے ۔(لیکن)جواللہ تعالی سے ملنے کا یقین رکھتے تھے انہوں نے کہا:بہت دفعہ چھوٹی جماعت اللہ تعالی کے حکم سے بڑی جماعت پر غالب آئی ہے اور اللہ تعالی صبرکرنے والوں کے ساتھ ہے۔پھر جب وہ جالوت اور اس کے لشکروں کے سامنے آئے تو انہوں نے عرض کی:اے ہمارے رب!ہمیں صبرکی توفیق دے اور ہمیں ثابت قدمی عطا فرما اورکافر وں کے مقابلے میں ہماری مددفرما۔تو انہوں نے اللہ تعالی کے حکم سے دشمنوں کو بھگا دیا اورحضرت داؤدعلیہ السلام نے جالوت کو قتل کردیااور اللہ تعالی نے اسے سلطنت اورحکمت عطا فرمائی اور اسے جو چاہا سکھادیا اور اگر اللہ تعا لی لوگوں میں ایک کے ذریعے دوسرے کو دفع نہ کرے تو ضرور زمین تباہ ہوجائے مگر اللہ تعالی سارے جہان پر فضل فرمانے والاہے۔
طالوت کی فوج کی تعداد
قَالَ وَہْبُ بْنُ مُنَبِّہٍ:فَلَمَّا فَصَلَ طَالُوتُ قَالُوا لَہُ إِنَّ الْمِیَاہَ لَا تَحْمِلُنَا فَادْعُ اللَّہَ أَنْ یُجْرِیَ لَنَا نَہَرًا،فَقَالَ لَہُمْ طَالُوتُ:إِنَّ اللَّہَ مُبْتَلِیکُمْ بِنَہَرٍوَکَانَ عَدَدُ الْجُنُودِفِی قَوْلِ السُّدِّیِّ ثَمَانِینَ أَلْفًا۔
ترجمہ :حضرت سیدناوہب بن منبہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب حضرت طالوت جہاد کے لئے روانہ ہوئے تو ان کی فوج نے ان کو کہا: بے شک ہمارے پاس پانی تھوڑاہے ہمیں یہ کفایت نہیں کرے گا لھذاتم اللہ تعالی سے دعاکروکہ وہ ہمارے لئے نہرجاری فرمائے توطالوت نے ان کو فرمایا: بے شک اللہ تعالی تمھیں ایک نہرسے آزمانے والاہے اورالامام السدی رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ ان کی تعداد اسی ہزارتھی ۔
(تفسیر القرآن العظیم لابن أبی حاتم:أبو محمد عبد الرحمن بن محمد بن إدریس بن المنذر التمیمی(۱۱:۱۵۷)
اسی ہزارمیں سے چھہترہزارنے پانی پینے میں نافرمانی کی
وعن ابن عباس:أن القومَ شربوا علی قدر یقینہم:فالکفار شربوا شُربَ الہیم،وشَرِب العاصی دون ذلک، وانصرف من القوم ستۃٌ وسبعون ألفاً،وبقی بعضُ المؤمنین لم یشرب شیئاً،وأخذ بعضہم الغَرفۃ، فأما من شرب فاشتد بہ العطشُ وسقط،وأما من ترک الماء َ فحسن حالُہ،وکان أجلَد ممن أخذ الغرفۃ۔
ترجمہ:حضرت سیدناعبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہماارشادفرماتے ہیں کہ انہوںنے اپنے یقین کی مقدارپرپانی پیااورکفارنے شدت پیاس کی بیماری والے کی طرح پانی پیا۔ گناہ گاروں اورنافرمانوں نے ان سے تھوڑاکم پیااورقوم سے چھہترہزالوگ واپس لو ٹ آئے اوربعض مومنین باقی رہ گئے جنہوںنے کچھ نہیں پیااوربعض نے ایک چلوپانی لیا۔ پس جنہوں نے پانی پیاوہ سیراب نہ ہوئے بلکہ ان کی پیاس مسلسل باقی رہی اورجنہوںنے پانی چھوڑ دیاان کی حالت اچھی رہی اوروہ ان کی نسبت زیادہ مضبوط رہے جنہوںنے چلوبھرپانی لیاتھا۔
(البحر المدید :أبو العباس أحمد بن محمد بن المہدی الفاسی الصوفی (۱:۲۷۷)
چارہزامیں سے بھی تین سوتیرہ نے جہاد کیا
قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ وَالسُّدِّیُّ:جَازَ مَعَہُ فِی النَّہَرِ أَرْبَعَۃُ آلَافِ رَجُلٍ فِیہِمْ مَنْ شَرِبَ،فَلَمَّا نَظَرُوا إِلَی جَالُوتَ وَجُنُودِہِ وَکَانُوا مِائَۃَ أَلْفٍ کُلُّہُمْ شَاکُونَ فِی السِّلَاحِ رَجَعَ مِنْہُمْ ثَلَاثَۃُ آلَافٍ وَسِتُّمِائَۃٍ وَبِضْعَۃٌ وَثَمَانُونَ، فَعَلَی ہَذَا الْقَوْلِ قَالَ الْمُؤْمِنُونَ الْمُوقِنُونَ بِالْبَعْثِ وَالرُّجُوعِ إِلَی اللَّہِ تَعَالَی عِنْدَ ذَلِکَ وَہُمْ عدۃ أہل بَدْرٍ ۔
ترجمہ :حضرت سیدناعبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہمااورامام السدی رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ حضرت طالوت کے ساتھ نہرکوچارہزارلوگوں نے عبورکیا، ان میں وہ لوگ بھی تھے جنہوںنے پانی پیا، جب انہوںنے جالوت اوراس کے لشکرکی طرف دیکھاان کی تعدادایک لاکھ تھی ، تمام کے تمام ہتھیاروں کی شکایت کرنے لگے ، ان میں سے تین ہزارچھے سواسی سے کچھ زائد واپس لوٹ گئے ، پس اس قول کی بناء پرکہاکہ وہ مومنین جنہیں اس وقت دوبارہ اٹھائے جانے اوراللہ تعالی کی طرف لوٹنے کایقین حاصل تھاان کی تعداداہل بدرکے برابرتھی۔
(تفسیر القرطبی:أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن أبی بکر شمس الدین القرطبی (۳:۲۵۴)
پانی پی کرنافرمانی کرنے والوں کاحال
کما أخرجہ ابن أبی حاتم عن ابن عباس رضی اللہ عنہما،وأخرج عنہ أیضا أن من شرب لم یزدد إلا عطشا،وفی روایۃ إن الذین شربوا اسودت شفاہہم وغلبہم العطش۔
ترجمہ :حضرت سیدناعبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہمافرماتے ہیں کہ جو بھی شخص پانی پیتاتھااس کی پیاس بڑھتی جاتی تھی اورایک روایت میں ہے کہ جنہوںنے حکم کی نافرمانی کرتے ہوئے پانی پی لیاتوان کے ہونٹ سیاہ ہوگئے اورپیاس نے ان کو بے حال ومغلوب کردیا۔
(روح المعانی:شہاب الدین محمود بن عبد اللہ الحسینی الألوسی (ا:۵۶۱)
اہل اسلام کے مغلوب ہونے کی وجہ ؟
قُلْتُ:ہَکَذَا یَجِبُ عَلَیْنَا نَحْنُ أَنْ نَفْعَلَ؟ لَکِنِ الْأَعْمَالُ الْقَبِیحَۃُ وَالنِّیَّاتُ الْفَاسِدَۃُ مَنَعَتْ مِنْ ذَلِکَ حَتَّی یَنْکَسِرَ الْعَدَدُ الْکَبِیرُ مِنَّا قُدَّامَ الْیَسِیرِ مِنَ الْعَدُوِّ کَمَا شَاہَدْنَاہُ غَیْرَ مَرَّۃٍ،وَذَلِکَ بما کسبت أیدینافَہَذِہِ أَسْبَابُ النَّصْرِ وَشُرُوطُہُ وَہِیَ مَعْدُومَۃٌ عِنْدَنَا غَیْرُ مَوْجُودَۃٍ فِینَا، فَإِنَّا لِلَّہِ وَإِنَّا إِلَیْہِ رَاجِعُونَ عَلَی مَا أَصَابَنَا وَحَلَّ بِنَا!بَلْ لَمْ یَبْقَ مِنَ الْإِسْلَامِ إِلَّا ذِکْرُہُ،وَلَا مِنَ الدِّینِ إِلَّا رَسْمُہُ لِظُہُورِ الْفَسَادِ وَلِکَثْرَۃِ الطُّغْیَانِ وَقِلَّۃِ الرَّشَادِ حَتَّی اسْتَوْلَی الْعَدُوُّ شَرْقًا وَغَرْبًا بَرًّا وَبَحْرًا،وَعَمَّتِ الْفِتَنُ وَعَظُمَتِ الْمِحَنُ وَلَا عَاصِمَ إِلَّا مَنْ رَحِمَ۔ملتقطاً۔
ترجمہ :امام ابوعبداللہ محمدبن احمدالقرطبی المتوفی : ۶۷۱ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ میں یہ کہتاہوں کہ اسی طرح ہم پر بھی واجب ہے جس طرح وہ لوگ ایک لاکھ لوگوں کے سامنے کھڑے ہوگئے اوروہ خود تین سوتیرہ تھے ۔ لیکن ہمارے اعمال قبیحہ اورنیات فاسدہ اس سے مانع ہیں ، یہاں تک کہ ہم میں سے بڑی تعداد دشمن کی قلیل تعداد کے سامنے شکست خوردہ ہوجاتی ہے ۔ جیساکہ ہم نے کئی بار اس کامشاہدہ کیاہے اورایساہمارے اپنے اعمال کی وجہ سے ہے ۔ کچھ آیات نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں کہ بس یہی نصرت کے اسباب ہیں اوراس کی شرائط ہیں اوریہ ہمارے پاس معدوم ہیں اورہم میں موجود نہیں ہیں ۔ پس {فَإِنَّا لِلَّہِ وَإِنَّا إِلَیْہِ رَاجِعُونَ}اس پر جو مصیبت اورآفت ہم پرآئے اورہم میں اترے بلکہ اسلام میں سے سوائے اس کے ذکرکے کچھ بھی باقی نہیں رہا، اورنہ ہی دین میں سے سوائے اس کی رسم میں سے کچھ باقی رہاہے ۔ یہ فساد کے ظہور، رعونت اورسرکشی کی کثرت اورہدایت ورہنمائی کی قلت کے سبب ہے ۔ یہاں تک کہ دشمن مشرق ومغرب اوربحروبرمیں غالب آچکاہے فتنے عام ہوگئے ہیں ، آزمائشیں بڑھ گئیں ہیں اورکوئی بچانے والانہیں ہے مگروہی جو رحم فرمانے والاہے۔
(تفسیر القرطبی:أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن أبی بکر شمس الدین القرطبی (۳:۲۵۴)
امتحان کیوں لیاگیا؟
فِی حِکْمَۃِ ہَذَا الِابْتِلَاء ِ وَجْہَانِ الْأَوَّلُ:قَالَ الْقَاضِی:کَانَ مَشْہُورًا مِنْ بَنِی إِسْرَائِیلَ أَنَّہُمْ یُخَالِفُونَ الْأَنْبِیَاء َ وَالْمُلُوکَ مَعَ ظُہُورِ الْآیَاتِ الْبَاہِرَۃِ فَأَرَادَ اللَّہُ تَعَالَی إِظْہَارَ عَلَامَۃٍ قَبْلَ لِقَاء ِ الْعَدُوِّ یَتَمَیَّزُ بِہَا مَنْ یَصْبِرُ عَلَی الْحَرْبِ مِمَّنْ لَا یَصْبِرُ لِأَنَّ الرُّجُوعَ قَبْلَ لِقَاء ِ الْعَدُوِّ لَا یُؤَثِّرُ کَتَأْثِیرِہِ حَالَ لِقَاء ِ الْعَدُوِّ، فَلَمَّا کَانَ ہَذَا ہُوَ الصَّلَاحَ قَبْلَ مُقَاتَلَۃِ الْعَدُوِّ لَا جَرَمَ قَالَ:إِنَّ اللَّہَ مُبْتَلِیکُمْ بِنَہَرٍ الثَّانِی:أَنَّہُ تَعَالَی ابْتَلَاہُمْ لِیَتَعَوَّدُوا الصَّبْرَ عَلَی الشَّدَائِدِ.
ترجمہ :امام فخرالدین الرازی المتوفی : ۶۰۶ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ ان کے امتحان کی حکمت میں دوقول ہیں: پہلاقول یہ ہے کہ بنی اسرائیل ہمیشہ سے انبیاء کرام علیہم السلام اوراپنے امراء کی نافرمانی کرنے کے عادی تھے اوربڑی بڑی علامات دیکھ کر بھی اس سے باز نہیں آتے تھے ، اس لئے اس عظیم جہاد ی معرکے سے پہلے انہیں آزماناضروری تھاتاکہ اطاعت کرنے والوں اوربھاگ جانے والوں میں جنگ سے پہلے پہلے علیحدگی ہوجائے ۔ دوسراقول یہ ہے کہ یہ امتحان بطورتربیت کے تھاکہ مشکلات پر صبرکرنے کی صلاحیت ان میں پیداہوجائے۔
(التفسیر الکبیر:أبو عبد اللہ محمد بن عمر بن الحسن بن الحسین التیمی الرازی (۶:۵۰۹)
دشمن کی تعداد؟
بَرَزُوا،صَارُوا فِی الْبَرَازِ وَہُوَ الْأَفْیَحُ مِنَ الْأَرْضِ الْمُتَّسِعُ وَکَانَ جَالُوتُ أَمِیرَ الْعَمَالِقَۃِ وَمَلِکَہُمْ ظِلُّہُ مِیلٌوَیُقَالُ:إِنَّ الْبَرْبَرَ مِنْ مِنْ نَسْلِہِ،وَکَانَ فِیمَا رُوِیَ فِی ثَلَاثِمِائَۃِ أَلْفِ فَارِس وَقَالَ عِکْرِمَۃُ:فِی تِسْعِینَ أَلْفًا، وَلَمَّا رَأَی الْمُؤْمِنُونَ کَثْرَۃَ عَدُوِّہِمْ تَضَرَّعُوا إِلَی رَبِّہِمْ۔
ترجمہ :امام أبو محمد عبد الحق بن غالب بن عبد الرحمن بن تمام بن عطیۃ الأندلسی المحاربی رحمہ اللہ تعالی لکھتے ہیںکہ اوروہ جب براز میں آگئے اوربراز سے مراد وسیع زمین میں سے کشادہ اورکھلامیدان ہے ۔ جالوت عمالقہ کاامیرتھااوران کابادشاہ تھا، اس کاسایہ ایک میل تک پڑتاتھا، کہاجاتاہے قوم بربراس کی نسل سے ہے ۔ اس کے بارے میں روایت ہے کہ اس کی فوج میں تین لاکھ گھڑسوارتھے ۔ حضرت سیدناعکرمہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نوے ہزارتھے ، جب اہل ایمان نے اپنے دشمن کی کثرت کو دیکھاتوانہوںنے اپنے رب تعالی کی بارگاہ میں عجز وانکساری کی۔
(المحرر الوجیز :أبو محمد عبد الحق بن غالب بن عبد الرحمن بن تمام بن عطیۃ الأندلسی المحاربی (۱:۳۳۶)
حضورتاجدارختم نبوت ﷺمیدان جہاد میں کیادعاکرتے تھے؟
وَکَانَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِذَا لَقِیَ الْعَدُوَّ یَقُولُ فِی الْقِتَالِ:اللَّہُمَّ بِکَ أَصُولُ وَأَجُولُ وَکَانَ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ إِذَا لَقِیَ الْعَدُوَّ:اللَّہُمَّ إِنِّی أَعُوَذُ بِکَ مِنْ شُرُورِہِمْ وَأَجْعَلُکَ فِی نُحُورِہِمْ وَدَعَا یَوْمَ بَدْرٍ حَتَّی سَقَطَ رِدَاؤُہُ عَنْ مَنْکِبَیْہِ یَسْتَنْجِزُ اللَّہَ وَعْدَہُ۔
ترجمہ:امام ابوعبداللہ محمدبن احمدالقرطبی المتوفی : ۶۷۱ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ اورحضورتاجدارختم نبوت ﷺکادشمن سے جب آمناسامناہوتاتو آپ ﷺمیدان جنگ میں اس طرح دعاکرتے تھے {اللَّہُمَّ بِکَ أَصُولُ وَأَجُولُ}اے اللہ ! میں تیریی مددونصرت کے ساتھ ہی تیرے دشمنوں پرحملہ کرتاہوں اورپلٹ کرآتاہوں۔ اورآپ ﷺجب دشمن کے سامنے ہوتے تواس طرح اللہ تعالی کی بارگاہ میں عرض کرتے {اللَّہُمَّ إِنِّی أَعُوَذُ بِکَ مِنْ شُرُورِہِمْ وَأَجْعَلُکَ فِی نُحُورِہِمْ }اے اللہ ! میں ان کے شرسے تیری پناہ مانگتاہوں اورتجھے ہی ان کے مقابلے میں دیکھتاہوں اورآپ ﷺنے بدرکے دن دعامانگی حتی کہ آپ ﷺکے مبارک کندھوں سے آپ ﷺکی چادرمبارک نیچے تشریف لے آئی۔اورآپ ﷺاللہ تعالی سے اپناوعدہ پوراکرنے کی التجاء کرتے رہے ۔
(تفسیر القرطبی:أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن أبی بکر شمس الدین القرطبی (۳:۲۵۶)
معارف ومسائل
جہاد کے لئے تربیت اورتیاری ضروری ہے ، حب دنیااورنفس پرستی جہاد کے لئے زہرقاتل ہے ۔ نفسانی خواہشات کو دباکرمقصدکی خاطرتکلیف برداشت کرنے والے مجاہدین کامیاب ہوتے ہیں۔ فتح قلت وکثرت سے نہیں محض اللہ تعالی کے فضل وکرم سے حاصل ہوتی ہے۔ اللہ تعالی سے ملاقات کاشوق یعنی جان قربان کرنے کاجذبہ اورشوق شہادت مجاہدین کو بہت زیادہ طاقتوربنادیتاہے ۔ امیرالمجاہدین کو چاہئے کہ جہاد سے پہلے چھانٹی کرے اوران لوگوں کو نکال دے جو عین جنگ کے وقت بددلی پھیلاسکتے ہوں اورکچھ ایسے لوگ مقررکرے جو سفرجنگ کے دوران اورعین جنگ کے وقت لشکرکاحوصلہ اورہمت اورشوق شہادت بڑھاتے رہیں ۔ جب اہل ایمان جہا دکے لئے نکلتے ہیں توراستے میں بہت سے پرکشش فتنے آتے ہیں ، مجاہدین کو چاہئے کہ راستے میں آنے والے میٹھے دریائوں میں منہ نہ ماریں اورمنزل کی طرف بڑھتے رہیں ۔