مال کی محبت جہاد کیوں نہیں کرنے دیتی ؟
{اَلَمْ تَرَ اِلَی الْمَلَاِ مِنْ بَنِیْٓ اِسْرٰٓء ِیْلَ مِنْ بَعْدِ مُوْسٰی اِذْ قَالُوْا لِنَبِیٍّ لَّہُمُ ابْعَثْ لَنَا مَلِکًا نُّقٰتِلْ فِیْ سَبِیْلِ اللہِ قَالَ ہَلْ عَسَیْتُمْ اِنْ کُتِبَ عَلَیْکُمُ الْقِتَالُ اَلَّا تُقٰتِلُوْا قَالُوْا وَمَا لَنَآ اَلَّا نُقٰتِلَ فِیْ سَبِیْلِ اللہِ وَقَدْ اُخْرِجْنَا مِنْ دِیٰرِنَا وَاَبْنَآئِنَا فَلَمَّا کُتِبَ عَلَیْہِمُ الْقِتَالُ تَوَلَّوْا اِلَّا قَلِیْلًا مِّنْہُمْ وَاللہُ عَلِیْمٌ بِالظّٰلِمِیْنَ}(۲۴۶)
ترجمہ کنزالایمان :اے محبوب کیا تم نے نہ دیکھا بنی اسرائیل کے ایک گروہ کو جو موسٰی کے بعد ہوا جب اپنے ایک پیغمبر سے بولے ہمارے لئے کھڑا کردو ایک بادشاہ کہ ہم خدا کی راہ میں لڑیں ،نبی نے فرمایا :کیا تمہارے انداز ایسے ہیں کہ تم پر جہاد فرض کیا جائے تو پھر نہ کروبولے ہمیں کیا ہوا کہ ہم اللہ کی راہ میں نہ لڑیں حالانکہ ہم نکالے گئے ہیں اپنے وطن اور اپنی اولاد سے تو پھر جب ان پر جہاد فرض کیا گیا منہ پھیر گئے مگر ان میں سے تھوڑے اور اللہ خوب جانتا ہے ظالموں کو۔
ترجمہ ضیاء الایمان : اے حبیب کریم ﷺ! کیاآپ نے نہ دیکھابنی اسرائیل کے ایک گروہ کو جو موسی علیہ السلام کے بعد ہوا، جب اپنے ایک نبی ( علیہ السلام ) سے بولے ہمارے لئے ایک بادشاہ مقررفرمادیں تاکہ ہم اللہ تعالی کی راہ میں جہاد کریں ۔ ان نبی علیہ السلام نے فرمایا:کہیں ایسانہ ہوکہ تم پر جہاد فرض کیاجائے اورتم جہادنہ کرو؟ توانہوںنے کہا:کوئی وجہ نہیں ہے ہمارے لئے کہ ہم پر جہاد فرض ہواور ہم نہ کریں، حالانکہ ہم نکالے گئے اپنے گھروں سے اوراپنی اولاد سے ، مگرجب ان پر جہاد فرض کردیاگیاتو ان میں سے سب نے منہ پھیرلیاسوائے چندلوگوں کے اوراللہ تعالی خوب جانتاہے ظالموں کو۔
بنی اسرائیل کی اعتقادی اورعملی حالت خراب ہونے کاذکر
ثم خلف من بعدہ خلوف وعظمت فیہم الخطایا وظہر لہم عدو یقال لہ البلثاثا وہم قوم جالوت وکانوا یسکنون ساحل بحر الروم بین مصر وفلسطین وہم العمالقۃ فظہروا علی بنی إسرائیل وغلبوا علی کثیر من أرضہم وسبوا کثیرا من ذراریہم وأسروا من أبناء ملوکہم أربعمائۃ وأربعین غلاما، فضربوا علیہم الجزیۃ وأخذوا توراتہم ولقی بنو إسرائیل منہم بلاء وشدۃ ولم یکن لہم نبی یدبر أمرہم وکان سبط النبوۃ قد ہلکوا کلہم إلا امرأۃ حبلی فحبسوہا فی بیت رہبۃ أن تلد جاریۃ فتبدلہا بغلام لما تری من رغبۃ بنی إسرائیل فی ولدہا وجعلت المرأۃ تدعو اللہ أن یرزقہا غلاما فولدت غلاما فسمتہ أشمویل ومعناہ بالعربیۃ إسماعیل تقول:سمع اللہ دعائی فلما کبر الغلام أسلمتہ لتعلیم التوراۃ فی بیت المقدس وکفلہ شیخ من علمائہم وتبناہ فلما بلغ الغلام أتاہ جبریل علیہ السلام وہو نائم إلی جانب الشیخ وکان الشیخ لا یأمن علیہ أحدا فدعاہ جبریل بلحن الشیخ یا أشمویل!فقام الغلام فزعا إلی الشیخ وقال: یا أبتاہ رأیتک تدعونی فکرہ الشیخ أن یقول لا فیفزع الغلام فقال یا بنی ارجع فنم فنام ثم دعاہ الثانیۃ فقال الغلام: دعوتنی فقال:نم فإن دعوتک فلا تجبنی فلما کانت الثالثۃ ظہر لہ:جبریل علیہ السلام وقال لہ اذہب إلی قومک فبلغہم رسالۃ ربک فإن اللہ قد بعثک فیہم نبیا فلما أتاہم کذبوہ وقالوا لہ استعجلت بالنبوۃ ولم تنلک وقالوا لہ إن کنت صادقا فابعث لنا ملکا نقاتل فی سبیل اللہ آیۃ علی نبوتک ۔
ترجمہ :امام علاء الدین علی بن محمدبن ابراہیم بن عمرالشیحی الخازن المتوفی : ۷۴۱ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ حضرت سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے بعد جب بنی اسرائیل کی اعتقادی اور عملی حالت نہایت خراب ہوگئی اور انہوں نے عہد ِا لٰہی کو فراموش کردیا، بت پرستی میں مبتلا ہوگئے اور سرکشی اور بد افعالی انتہا کو پہنچ گئی تو ان پر قومِ جالوت مسلّط کردی گئی جس کو عَمالِقہ کہتے ہیں۔جالوت ایک نہایت جابر بادشاہ تھا، اس کی قوم کے لوگ مصراور فلسطین کے درمیان بحر روم کے ساحل پر رہتے تھے ،انہوں نے بنی اسرائیل کے شہر چھین لیے ، ان کے لوگ گرفتار کرلئے اوران پر طرح طرح کی سختیاں کیں۔
اس زمانہ میں بنی اسرائیل میں کوئی نبی موجود نہ تھے، خاندانِ نبوت میں صرف ایک بی بی باقی رہی تھیں جو حاملہ تھیں ،ان کے ہاں بیٹے کی ولادت ہوئی جن کا نام شمویل رکھاگیا، جب وہ بڑے ہوئے تو انہیں توریت کا علم حاصل کرنے کیلئے بیت المقدس میں ایک بزرگ عالم کے سپرد کیا گیا۔ وہ آپ علیہ السلام کے ساتھ بڑی شفقت کرتے اور آپ کواپنا بیٹا کہتے۔ جب حضرت شمویل علیہ السلام بلوغت کی عمر کو پہنچے تو ایک رات آپ اُس عالم کے قریب آرام فرما رہے تھے کہ حضرت سیدنا جبریل علیہ السلام نے اُسی عالم کی آواز میں یا شمویل کہہ کر پکارا ، آپ عالم کے پاس گئے اور فرمایا کہ آپ نے مجھے پکارا ہے۔ عالم نے اس خیال سے کہ انکار کرنے سے کہیں آپ ڈر نہ جائیں یہ کہہ دیا کہ بیٹا! تم سوجاو ،پھر دوبارہ حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام نے اسی طرح پکارا اور حضرت شمویل علیہ السلام عالم کے پاس گئے۔ عالم نے کہا کہ بیٹا! اب اگر میں تمہیں پھر پکاروں تو تم جواب نہ دینا۔ چنانچہ تیسری مرتبہ میں حضرت جبرئیل علیہ السلام ظاہر ہوگئے اور انہوں نے بشارت دی کہ اللہ تعالیٰ نے آپ علیہ السلام کو نبوت کا منصب عطا فرمایا ہے، لہٰذا آپ اپنی قوم کی طرف جائیے اور اپنے رب تعالیٰ کے احکام پہنچائیے۔ جب آپ علیہ السلام قوم کی طرف تشریف لائے توانہوں نے آپ علیہ السلام کو نبی ماننے سے انکار کردیا اور کہا کہ آپ علیہ السلام اتنی جلدی کیسے نبی بن گئے ،اچھا اگر آپ علیہ السلام نبی ہیں تو ہمارے لیے ایک بادشاہ مقرر کریں۔
(تفسیرالخازن:علاء الدین علی بن محمد بن إبراہیم بن عمر الشیحی أبو الحسن، المعروف بالخازن (۱:۱۷۴)
اس واقعے سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جب قوم کی اعتقادی اور عملی حالت خراب ہوجاتی ہے تو ان پر ظالم و جابر قوموں کو مسلط کردیا جاتا ہے۔ اس آیت کو سامنے رکھ کر پوری دنیا کے مسلم ممالک کی اعتقادی و عملی حالت کو دیکھا جائے تو اوپر کا نقشہ بڑا واضح طور پر نظر آئے گا۔قرآن کے اس طرح کے واقعات بیان کرنے کا مقصد صرف تاریخی واقعات بتانا نہیں بلکہ عبرت و نصیحت حاصل کرنے کی طرف لانا ہے۔( تفسیرصراط الجنان ( ۱: ۳۷۰)
اہل ایمان کو برانگیختہ کرنے کے لئے دوسراقصہ جہاد کابیان فرمایا
ذَکَرَ فِی التَّحْرِیضِ عَلَی الْقِتَالِ قِصَّۃً أُخْرَی۔
ترجمہ :امام ابوعبداللہ محمدبن احمدالقرطبی المتوفی : ۶۷۱ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ قتال اورجہاد پر برانگیختہ کرنے کے لئے اللہ تعالی نے بنی اسرائیل کادوسراقصہ بیان فرمایا۔
(تفسیر القرطبی:أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن أبی بکر شمس الدین القرطبی (۳:۲۳۷)
الملاء کامعنی ؟
وَالْمَلَأُ:الْأَشْرَافُ مِنَ النَّاسِ،کَأَنَّہُمْ مُمْتَلِئُونَ شَرَفًاوَقَالَ الزَّجَّاجُ:سُمُّوا بِذَلِکَ لِأَنَّہُمْ مُمْتَلِئُونَ مِمَّا یَحْتَاجُونَ إِلَیْہِ مِنْہُم۔ْ
ترجمہ :اس آیت کریمہ میں’’الملاء ‘‘کامعنی اشراف لوگ ، گویاکہ وہ شرف وعزت سے بھرے ہوئے ہیں ۔ امام الزجاج رحمہ اللہ تعالی نے فرمایاکہ انہیں یہ نام اس لئے دیاگیاہے کہ وہ ان چیزوں سے مالامال تھے جن کی ان کو ضرورت تھی اوردنیاکی ہر وہ چیز ان کے پاس تھی جس جس کی ان کو حاجت تھی ۔
(تفسیر القرطبی:أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن أبی بکر شمس الدین القرطبی (۳:۲۳۷)
کتنے لوگوں نے جہاد میں حصہ لیا؟
کَانَ عَدَدُ ہَذَا الْقَلِیلِ ثَلَاثَمِائَۃٍ وَثَلَاثَۃَ عَشَرَ عَلَی عَدَدِ أَہْلِ بَدْرٍ۔
ترجمہ :امام فخرالدین الرازی المتوفی : ۶۰۶ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ جن لوگوں نے جہاد کیاان کی تعداد حضورتاجدارختم نبوت ﷺکے ساتھ بدرشریف میں شرکت کرنے والے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی تعدادکی طرح تین سوتیرہ تھی ۔
(التفسیر الکبیر:أبو عبد اللہ محمد بن عمر بن الحسن بن الحسین التیمی الرازی(۶:۵۰۳)
جہادکے معاملے میں ان کی نیتیں خراب ہوگئیں
وَہَذِہِ الْآیَۃُ ہِیَ خَبَرٌ عَنْ قَوْمٍ مِنْ بَنِی إِسْرَائِیلَ نَالَتْہُمْ ذِلَّۃٌ وَغَلَبَۃُ عَدُوٍّ فَطَلَبُوا الْإِذْنَ فِی الْجِہَادِ وَأَنْ یُؤْمَرُوا بِہِ، فَلَمَّا أُمِرُوا کَعَّ أَکْثَرُہُمْ وَصَبَرَ الْأَقَلُّ فَنَصَرَہُمُ اللَّہُ وَفِی الْخَبَرِ أَنَّ ہَؤُلَاء ِ الْمَذْکُورِینَ ہُمُ الَّذِینَ أُمِیتُوا ثُمَّ أُحْیُواأَخْبَرَ تَعَالَی أَنَّہُ لَمَّا فَرَضَ عَلَیْہِمُ الْقِتَالَ وَرَأَوُا الْحَقِیقَۃَ وَرَجَعَتْ أَفْکَارُہُمْ إِلَی مباشرۃ الحرب وأن نفوسہم رُبَّمَا قَدْ تَذْہَبُ تَوَلَّوْاأَیِ اضْطَرَبَتْ نِیَّاتُہُمْ وَفَتَرَتْ عَزَائِمُہُمْ، وَہَذَا شَأْنُ الْأُمَمِ الْمُتَنَعِّمَۃِ الْمَائِلَۃِ إِلَی الدَّعَۃِ تَتَمَنَّی الْحَرْبَ أَوْقَاتَ الْأَنَفَۃِ فَإِذَا حَضَرَتِ الْحَرْبُ کَعَّتْ وَانْقَادَتْ لِطَبْعِہَاوَعَنْ ہَذَا الْمَعْنَی نَہَی النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِقَوْلِہِ:لَا تَتَمَنَّوْا لِقَاء َ الْعَدُوِّ وَسَلُوا اللَّہَ الْعَافِیَۃَ فَإِذَا لَقِیتُمُوہُمْ فَاثْبُتُوا ۔رَوَاہُ الْأَئِمَّۃ۔
ترجمہ :امام ابوعبداللہ محمدبن احمدالقرطبی المتوفی : ۶۷۱ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ اوراس آیت کریمہ میں بنی اسرائیل کی اس قوم کے بارے میں خبرہے جن پر دشمن نے غلبہ پالیاتوانہوںنے جہاد کے بارے میں اجازت طلب کی کہ ان کو جہاد کی اجازت دی جائے۔ جب ان کو اجازت دی گئی توان میں سے اکثرنے بزدلی کامظاہرہ کیااورتھوڑے لوگ ڈٹے رہے تواللہ تعالی نے انہیں اپنی نصرت سے نوازا۔ حدیث شریف میں ہے کہ یہ لوگ وہی ہیں جن کو موت دی گئی اورپھرزندہ کردئیے گئے۔
اللہ تعالی نے خبردی کہ جب اس نے ان پر جہاد فرض کیااورانہوںنے حقیقت کو دیکھاتوجنگ لڑنے کے بارے میں ان کے افکارتبدیل ہوگئے اوران کی جانیں نکلنے لگیں ۔{ تولوا }کامعنی یہ ہے کہ ان کی نیتیں بدل گئیں ۔ اوران کے عزائم ڈھیلے پڑگئے ۔ یہ حال ہے ان امتوں کاجو بڑی خوشحال اورمتنعم تھیں اورانہوںنے خوشحالی کے اوقات میں جہاد کی تمناکرتے ہوئے دعاکی درخواست کی اورجب جہاد کی اجازت مل گئی اورجہاد شروع بھی ہوگیاتو انہوںنے بزدلی دکھائی اوراپنی طبع کی پیروی کی ۔ اسی وجہ سے حضورتاجدارختم نبوت ﷺنے ایسی دعاسے منع فرمایاہے کہ تم دشمن سے ملاقات کی تمنانہ کرواوراللہ تعالی سے عافیت کی التجاء کرواورجب تمھاراان سے آمناسامناہوجائے توپھرتم ثابت قدم رہو۔
(تفسیر القرطبی:أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن أبی بکر شمس الدین القرطبی (۳:۲۳۷)
اس آیت کریمہ میں اہل ایمان کے لئے وعیدشدیدہے
وَہَذَا ہُوَ الَّذِی یَدُلُّ عَلَی تَعَلُّقِ ہَذِہِ الْآیَۃِ بِقَوْلِہِ قَبْلَ ذَلِکَ:وَقاتِلُوا فِی سَبِیلِ اللَّہِ فَکَأَنَّہُ تَعَالَی أَکَّدَ وُجُوبَ ذَلِکَ بِأَنْ ذَکَرَ قِصَّۃَ بَنِی إِسْرَائِیلَ فِی الْجِہَادِ وَعَقَّبَ ذَلِکَ بِأَنَّ مَنْ تَقَدَّمَ عَلَی مِثْلِہِ فَہُوَ ظَالِمٌ وَاللَّہُ أَعْلَمُ بِمَا یَسْتَحِقُّہُ الظَّالِمُ وَہَذَا بَیِّنٌ فِی کَوْنِہِ زَجْرًا عَنْ مِثْلِ ذَلِکَ فِی الْمُسْتَقْبَلِ وَفِی کَوْنِہِ بَعْثًا عَلَی الْجِہَادِ، وَأَنْ یَسْتَمِرَّ کُلُّ مُسْلِمٍ عَلَی الْقِیَامِ بِذَلِکَ واللہ أعلم.
ترجمہ :اس آیت کریمہ کاپچھلی آیت کریمہ کے ساتھ تعلق ہے اوریہ دلالت کرتاہے کہ اللہ تعالی نے جہاد کی فرضیت کو مزیدتاکیدکے ساتھ سمجھانے کے لئے بنی اسرائیل کے جہاد کاقصہ ذکرفرمایااوراس کے آخرمیں جہاد ترک کرنے والوں کو ظالم قراردیااوریہ بات واضح ہے کہ جو شخص آئندہ بھی جہاد چھوڑے گاوہ اس وعیدکامستحق ہوگا، پس اس آیت کریمہ میں جہاد کی ترغیب بھی ہوگئی اوریہ بات بھی واضح ہوگئی کہ مسلمان ہمیشہ ہمیشہ جہاد کو قائم رکھیں ۔
(التفسیر الکبیر:أبو عبد اللہ محمد بن عمر بن الحسن بن الحسین التیمی الرازی(۶:۵۰۳)
مال دار فوج کی غیرت کیوں مرجاتی ہے؟
ہَذَا شَأْنُ الْمُتْرَفِ الْمُنَعَّمِ،مَتَی کَانَ مُتَلَبِّسًا بِالنِّعْمَۃِ قَوِیَ عَزْمُہُ وَأَنِفَ،فَإِذَا ابْتُلِیَ بشیء من الخطوب رکع وَذُلُّ.
ترجمہ :امام ابوحیان محمدبن یوسف الاندلسی المتوفی : ۷۴۵ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ مال داراورعیش پرست لوگوں کایہی طریقہ ہوتاہے کہ جب تک نعمتیں ملتی رہیں توان کے عزائم اوران کی غیرت کامعیاربہت بلندرہتاہے اورجیسے ہی کچھ تکالیف سے ان کی آزمائش ہوتی ہے تو کمزوری اورپسپائی اختیارکرلیتے ہیں۔
(البحر المحیط فی التفسیر:أبو حیان محمد بن یوسف بن علی بن یوسف بن حیان أثیر الدین الأندلسی(۲:۵۷۲)
معارف ومسائل
(۱) مسلمان پہلی امتوں سے افضل ہیں کہ وہ لوگ انبیاء کرام علیہم السلام کوبہت جلدبھول جاتے تھے اوریہ الحمدللہ نبوت کے ختم ہوجانے کے بعداب تک دین حق پر قائم ہیں ، سب گمراہ نہیں ہوئے ۔ اس امت کے علماء کرام بنی اسرائیل کے انبیاء کرام علیہم السلام کی طرح ہیں کہ دین حق سے فساد دورکرتے ہیں اوراحکام شرع کی تبلیغ فرماتے ہیں ، جہاد کے لئے امام وسلطان کاہوناشرط ہے ۔ دیکھوبنی اسرائیل نے بادشاہ پر جہاد موقوف رکھا۔ جہاد میں انتقام ، بدلہ اوراپنے سے دنیاوی تکلیف دورکرنے کی نیت نہ چاہئے بلکہ اشاعت دین کاارادہ کیاجائے ، دیکھوچونکہ یہ لوگ بدلہ کی نیت سے اٹھے تھے توبزدل ہوگئے ۔ ( تفسیرنعیمی ( ۲: ۴۹۶)
(۲) اس آیت کریم میں جہاد سے فراراختیارکرنے والوں کو ظالم فرمایاگیا۔ اوریہ جہاد سے بھاگنے والوںکے لئے وعیدشدیدہے ۔
(۳) اس سے یہ بھی معلوم ہواکہ جو لوگ مال کی محبت میں مبتلاء ہوجائیں اوردنیو ی عیش ومستی میں پڑجائیں وہ لوگ جہاد نہیں کرسکتے کیونکہ جہاد ہوتاہے غیرت ایمانی سے اورجس شخص میں غیرت ایمانی ہی نہ رہے وہ جہاد کیسے کرے گا؟
(۴) آج مسلمانوں کی افواج جو جہاد سے گریزاں ہیں ان کی وجہ بھی یہی ہے کہ یہ لوگ مال ودولت کی حرص میں مبتلاہوچکے ہیں اس لئے اللہ تعالی نے ان سے غیرت ایمانی کانورسلب فرمالیاہے۔
(۵) اس سے یہ بھی معلوم ہواکہ ظالموں کے ظلم سے نجات کافطری طریقہ صرف اورصرف جہاد ہی ہے ، جیساکہ ہمارے مسلمان بھائی کشمیراورفلسطین میں مظلوم ہیں مگرہمارے بے دین حکمران ہمہ وقت یہی کہتے ہوئے سنائی دیتے ہیں کہ مذاکرات سے یہ مسئلہ حل ہوگااورجنگ کبھی مسئلہ کاحل نہیں ہے ۔ نعوذ باللہ من ذلک ۔
(۶)اہل اسلام کے حاکم کایہ اہم ترین فریضہ ہے کہ جب کفاراہل اسلام پر یلغارکریں توراہ حق میں جہاد کرنے کے لئے نکلے تاکہ اہل اسلام کی زندگیاں اوران کی مائوں بہنوں کی عزتیں کفارومشرکین کی چیرہ دستیوں سے محفوظ رہ سکیں جیساکہ بنی اسرائیل پر طالوت کے بطورحاکم تقررکایہی مقصدتھا۔ افسوس ! آج ہمارے نام نہاد مسلمان حکمران جہاد کالفظ زبان پرلانے والے مسلمانوں کو پکڑپکڑکراپنے مغربی آقائوں اورطواغیت کے حوالے کردیتے ہیں تاکہ ان کی ناپاک حکومتوں کودنیائے کفرکی پشت پناہی حاصل رہے۔ آہ میرے حضورتاجدارختم نبوت ﷺکی امت پر بڑاکٹھن وقت آن پڑاہے ۔
(۷) آج فلسطین ، کشمیر، عراق ، یمن وشام ، افغانستان ، برمااورپاکستان میں امریکہ ، بھارت اوراسرائیل سارے کفارمل کراہل اسلام کاخون بہارہے ہیں ، یہ اسی طرح ہے کہ جیسا کہ کفاربنی اسرائیل کاخون بہارہے تھے تواللہ تعالی نے بنی اسرائیل کو جہاد کاحکم دیا، آج بھی اہل اسلام کی پریشانیوں کاحل جہاد میں ہی ہے جب اہل اسلام باہم جمع ہوکر جہاد کااعلان کریں گے تو آسمان سے فتح کے اسباب بارش کی طرح برسیں گے ۔ حضورامیرالمجاہدین شیخ الحدیث مولاناحافظ خادم حسین رضوی حفظہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ تمھاراکام صرف میدان لگاناہے پھراللہ تعالی بدرشریف کی طرح تمھاری مددکے لئے فرشتے بھیج دے گا۔ کم ہمت اورفرنگی کے غلام صرف بہانے ظاہرکرنے کے لئے کہتے ہیں کہ ہمارے پاس جہاد کے وسائل نہیں ہیں ، ہم کہتے ہیں کہ اہل بدررضی اللہ عنہم کے پاس کتنے وسائل تھے ۔ اہل ایمان کااصل ہتھیارجذبہ جہاد ، اللہ تعالی کی ذات پر بھروسہ اورباہمی اتحاد ہے ۔
(۸) اس آیت مبارکہ سے یہ بھی معلوم ہواکہ’’ بنی اسرائیل نے اپنے وقت کے نبی علیہ السلام سے عرض کی کہ ہمارے لئے کوئی حاکم مقررفرمادیں تاکہ ہم ان کی معیت میں جہاد کریں ‘‘ سیاست دین کے تابع ہے ، اگرایسانہ ہوتاتو وہ لوگ اپناسیاسی حاکم خود مقررکرتے اوران نبی علیہ السلام سے کبھی بھی عرض نہ کرتے ۔ اورہمیشہ سیاست وہی کامیاب رہتی ہے جو دین کے تابع ہو۔اوراس سے یہ بھی معلوم ہواکہ سیاسی حاکم پر دین حاکم ہے نہ کہ سیاسی حاکم دین پرحاکم ہے ۔