اللہ تعالی کی راہ میں مال کے ذریعے جہاد کرنے کاحکم
{مَنْ ذَا الَّذِیْ یُقْرِضُ اللہَ قَرْضًا حَسَنًا فَیُضٰعِفَہ لَہ اَضْعَافًا کَثِیْرَۃً وَاللہُ یَقْبِضُ وَیَبْصُطُ وَ اِلَیْہِ تُرْجَعُوْنَ}(۲۴۵)
ترجمہ کنزالایمان :ہے کوئی جو اللہ کو قرضِ حسن دے تو اللہ اس کے لئے بہت گُنابڑھادے اور اللہ تنگی اور کشائش کرتا ہے اور تمہیں اسی کی طرف پھر جانا ۔
ترجمہ ضیاء الایمان : کون ہے جو اللہ تعالی کوقرض حسنہ دے تواللہ تعالی اس کے لئے بہت زیادہ بڑھادے اوراللہ تعالی ہی تنگی اورآسانی پیدافرماتاہے اورتمھیں اسی کی طرف لوٹناہے۔
اس سے پیشتر کی آیات میں قوم بنی اسرائیل کا واقعہ ذکر فرمایا ہے کہ کس طرح وہ جہاد سے ڈرکر بھاگ کھڑے ہوئے اور کس طرح موت کے چنگل میں گرفتار ہوگئے اور پھرکیوں کر اللہ تعالیٰ نے انھیں دوبارہ زندگی بخشی۔ مقصد یہ ہے کہ جہاد کی اہمیت بتلائی جائے اور یہ بتلایاجاوے کہ موت بہرحال آنے والی چیز ہے۔ اس سے مفر نہیں، اس لیے کوشش کرنی چاہیے کہ موت خدا تعالی کی راہ میں آئے۔اس کے بعد دعوتِ جہاد ہے اور اس کا ذکر ہے کہ خدا کو قرض دو تاکہ قیامت کے دن اسے کئی گنا زیادہ کرکے تمھیں اجر کی صورت میں بدل دے۔
اللہ تعالیٰ بے نیاز ہے۔ اسے ہمارے مال ودولت کی ضرورت نہیں۔ اس کے خزانے بھرے پڑے ہیں البتہ ہمیں توشہ آخرت کی سخت حاجت ہے، اس لیے فرمایا کہ تم اپنے لیے اللہ تعالیٰ کے خزانوں میں اعمال کی دولت کو جمع کرائو۔ وہ اسے بڑھاتا رہے گا اورتمھیں کئی گنا نفع کے ساتھ واپس کرے گا۔جب یہ آیت نازل ہوئی تو حضرت سیدناابوالاجداح انصاری رضی اللہ عنہ نے حضورتاجدارختم نبوت ﷺکی بارگاہ میں عرض کیا: اللہ تعالیٰ نے ہم سے قرض طلب فرمایاہے؟ آپﷺنے فرمایا:ہاں۔ تو انہوں نے اس کے بعد باغ کو اللہ تعالی کی راہ میں دینے کا اعلان کردیا جس میں تقریباً چھ سو درخت کھجور کے تھے۔
مجاہدین کی مددکرنارب تعالی کو قرض دیناہے
قَوْلُہُ تَعَالَی:(مَنْ ذَا الَّذِی یُقْرِضُ اللَّہَ قَرْضاً حَسَناً)لَمَّا أَمَرَ اللَّہُ تَعَالَی بِالْجِہَادِ والقتال علی الحق إذ لیس شی مِنَ الشَّرِیعَۃِ إِلَّا وَیَجُوزُ الْقِتَالُ عَلَیْہِ وَعَنْہُ،وَأَعْظَمُہَا دِینُ الْإِسْلَامِ کَمَا قَالَ مَالِکٌحَرَّضَ عَلَی الْإِنْفَاقِ فِی ذَلِکَ فَدَخَلَ فِی ہَذَا الْخَبَرِ الْمُقَاتِلُ فِی سَبِیلِ اللَّہِ، فَإِنَّہُ یُقْرِضُ بِہِ رَجَاء َ الثَّوَابِ کَمَا فَعَلَ عُثْمَانُ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ فِی جَیْشِ الْعُسْرَۃِ ۔
ترجمہ:حضرت سیدناامام ابوعبداللہ محمدبن احمدالقرطبی المتوفی : ۶۷۱ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ اللہ تعالی نے حق کی راہ میں جہاداورقتال کرنے کاحکم ارشادفرمایاکیونکہ شریعت میں کوئی شئی حکم نہیں ہے مگراس کی حفاظت اوراس کے دفاع میں قتال جائز ہوتاہے اوران میں عظیم تردین اسلام ہے ۔ جیساکہ حضرت سیدناامام مالک رضی اللہ عنہ کافرمان عالی شان ہے ۔ ( پہلے گزرچکاہے) توپھراللہ تعالی نے اس میں اپنامال خرچ کرنے پر برانگیختہ کیا۔ پس اس خبرمیں اللہ تعالی کی راہ میں جہاد کرنے والابھی داخل ہے اورلشکر کی تیاری میں سامان خرچ کرنے والابھی کیونکہ وہ بھی ثواب کی نیت پر یہ مال دیتاہے جیساکہ حضرت سیدناعثمان غنی رضی اللہ عنہ نے جیش العسرہ یعنی غزوہ تبوک میں دیا۔
(تفسیر القرطبی:أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن أبی بکر شمس الدین القرطبی (۳:۲۳۷)
آیت کریمہ سنتے ہی لوگوں کے تین فرقے بن گئے
انْقَسَمَ الْخَلْقُ بِحُکْمِ الْخَالِقِ وَحِکْمَتِہِ وَإِرَادَتِہِ وَمَشِیئَتِہِ وَقَضَائِہِ وَقَدَرِہِ حِینَ سَمِعُوا ہَذِہِ الْآیَۃَ أَقْسَامًا وَتَفَرَّقُوا فِرَقًا ثَلَاثَۃً:الْفِرْقہَ الْأُولَی:الرَّذْلَی، قَالُوا:إنَّ رَبَّ مُحَمَّدٍ فَقِیرٌ مُحْتَاجٌ إلَیْنَا،وَنَحْنُ أَغْنِیَاء ُوَہَذِہِ جَہَالَۃٌ لَا تَخْفَی عَلَی ذِی لُبٍّ،وَقَدْ رَدَّ اللَّہُ تَعَالَی عَلَیْہِمْ بِقَوْلِہِ:(لَقَدْ سَمِعَ اللَّہُ قَوْلَ الَّذِینَ قَالُوا إِنَّ اللَّہَ فَقِیرٌ وَنَحْنُ أَغْنِیَاء ُ سَنَکْتُبُ مَا قَالُوا)(آل عمران:۱۸۱)وَالْعَجَبُ مِنْ مُعَانَدَتِہِمْ مَعَ خِذْلَانِہِمْ وَفِی التَّوْرَاۃِ نَظِیرُ ہَذِہِ الْأَلْفَاظِ الْفِرْقَۃُ الثَّانِیَۃُ:لَمَّا سَمِعَتْ ہَذَا الْقَوْلَ آثَرَتْ الشُّحَّ وَالْبُخْلَ،وَقَدَّمَتْ الرَّغْبَۃَ فِی الْمَالِ فَمَا أَنْفَقَتْ فِی سَبِیلِ اللَّہِ، وَلَا فَکَّتْ أَسِیرًا، وَلَا أَغَاثَتْ أَحَدًا،تَکَاسُلًا عَنْ الطَّاعَۃِ وَرُکُونًا إلَی ہَذِہِ الدَّارِالْفِرْقَۃُ الثَّالِثَۃُ: لَمَّا سَمِعَتْ بَادَرَتْ إلَی امْتِثَالِہِ،وَآثَرَ الْمُجِیبُ مِنْہُمْ بِسُرْعَۃٍ بِمَالِہِ، أَوَّلُہُمْ أَبُو الدَّحْدَاحِ ۔
ترجمہ :امام القاضی محمدبن عبداللہ ابوبکرابن العربی المالکی المتوفی : ۵۴۳ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ جب یہ آیت کریمہ{مَنْ ذَا الَّذِی یُقْرِضُ اللَّہَ قَرْضاً حَسَناً} نازل ہوئی تومخلوق اللہ تعالی کے حکم اوراس کی حکمت ، اس کی قدرت ، اس کی مشیت اوراس کی قضاوقدرکے مطابق تقسیم ہوگئی ۔ جب انہوںنے یہ آیت کریمہ سنی تو وہ تین حصوں میں تقسیم ہوگئے ۔ (۱) پہلاگروہ انتہائی کمینہ ورزیل ہے ۔ انہوںنے کہا بے شک محمدﷺ کارب فقیراورہمارا محتاج ہے اورہم غنی ہیں ، بس یہ ایسی جہالت ہے جو کسی بھی صاحب ِ عقل پر مخفی نہیں ہے ۔ سواللہ تعالی نے اپنے اس فرمان شریف سے ان کاردفرمایا{لَقَدْ سَمِعَ اللہُ قَوْلَ الَّذِیْنَ قَالُوْٓا اِنَّ اللہَ فَقِیْرٌ وَّنَحْنُ اَغْنِیَآء ُ سَنَکْتُبُ مَا قَالُوْا وَقَتْلَہُمُ الْاَنْبِیَآء َ بِغَیْرِ حَقٍّ وَّ نَقُوْلُ ذُوْقُوْا عَذَابَ الْحَرِیْق}(سورۃ آل عمران :۱۸۱)
ترجمہ کنزالایمان :بے شک اللہ نے سُنا جنہوں نے کہا کہ اللہ محتاج ہے اور ہم غنی اب ہم لکھ رکھیں گے ان کا کہااور انبیاء کو ان کا ناحق شہید کرنا اور فرمائیں گے کہ چکھو آگ کا عذاب ۔
ترجمہ ضیاء الایمان : بے شک اللہ تعالی نے سناجنہوںنے کہا اللہ تعالی محتاج ہے اورہم غنی ہیں ۔ اب ہم ان کی کہی ہوئی بات لکھ رکھیں گے اوران انبیاء کرام علیہم السلام کو ناحق شہید کرنااورفرمائیں گے کہ چکھوآگ کاعذاب ۔(۲) دوسراگروہ وہ ہے کہ جب اس نے یہ قول سناتو اس نے بخل اورکنجوسی کو ترجیح دی اورمال میں رغبت کو مقدم سمجھااورانہوںنے اللہ تعالی کی راہ میں کچھ خرچ نہ کیااورنہ انہوںنے کسی قیدی کو چھڑایااورنہ ہی کسی کی معاونت کی ۔ اطاعت وپیروی سے سستی اورکوتاہی کرتے ہوئے اوراس دنیاکی طرف میلان رکھتے ہوئے ۔ (۳) تیسراگروہ وہ ہے جس نے یہ قول سناتواس کی پیروی اورتعمیل میں جلدی کی اوران میں سے ایک قبول کرنے والے نے تواپنے مال کی طرف تیزی سے بڑھنے کو ترجیح دی جیساکہ حضرت سیدناابوالدحداح رضی اللہ عنہ ۔
(أحکام القرآن:القاضی محمد بن عبد اللہ أبو بکر بن العربی المعافری الاشبیلی المالکی (۱:۳۰۷)
دین کی مددونصرت پر برانگیختہ کیاگیاہے
الْمُرَادُ بِالْآیَۃِ الْحَثُّ عَلَی الصَّدَقَۃِ وَإِنْفَاقِ الْمَالِ عَلَی الْفُقَرَاء ِ وَالْمُحْتَاجِینَ وَالتَّوْسِعَۃِ عَلَیْہِمْ، وَفِی سَبِیلِ اللَّہِ بِنُصْرَۃِ الدِّینِ.
ترجمہ:حضرت سیدناامام ابوعبداللہ محمدبن احمدالقرطبی المتوفی : ۶۷۱ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ اس آیت کریمہ میں صدقہ پراورفقراء اورمحتاج لوگوں پر مال خرچ کرنے اوران پر وسعت وخوشحالی لانے اوراللہ تعالی کی راہ میں دین کی مددونصرت کرنے پر ابھارنااوربرانگیختہ کرناہے ۔
(تفسیر القرطبی:أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن أبی بکر شمس الدین القرطبی (۳:۲۳۷)
اس آیت کریمہ کامطلب؟
أَنَّ ہَذِہِ الْآیَۃَ مُتَعَلِّقَۃٌ بِمَا قَبْلَہَا وَالْمُرَادُ مِنْہَا الْقَرْضُ فِی الْجِہَادِ خَاصَّۃً،فَنَدَبَ الْعَاجِزَ عَنِ الْجِہَادِ أَنْ یُنْفِقَ عَلَی الْفَقِیرِ الْقَادِرِ عَلَی الْجِہَادِ، وَأَمَرَ الْقَادِرَ عَلَی الْجِہَادِ أَنْ یُنْفِقَ عَلَی نَفْسِہِ فِی طَرِیقِ الْجِہَادِ۔
ترجمہ :امام ابوعبداللہ محمدبن عمرالرازی المتوفی : ۶۰۶ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ اس آیت کریمہ کاتعلق پچھلی آیت کریمہ کے ساتھ ہے ، یہاں قرض سے مراد خاص جہاد میں مال خرچ کرناہے ۔ پس اس شخص کو جو عملی جہاد سے عاجز ہوتوترغیب دی گئی کہ وہ اپنامال جہاد کی قدرت رکھنے والے فقراء پرخرچ کرے اورجہاد کی طاقت رکھنے والوں کوترغیب دی گئی کہ جہاد میں خود اپناخرچہ اٹھائیں یعنی اپنی جان ومال دونوں سے جہاد کریں۔
(التفسیر الکبیر:ابو عبد اللہ محمد بن عمر بن الحسن بن الحسین التیمی الرازی(۶:۴۹۹)
کریم کے کرم کاکمال
وَرَوَی ابْنُ أَبِی حَاتِمٍ أَیْضًا عَنْ کَعْبِ الْأَحْبَارِ:أَنَّہُ جَاء َہُ رَجُلٌ فَقَالَ:إِنِّی سَمِعْتُ رَجُلًا یَقُولُ:مَنْ قَرَأَ قُلْ ہُوَ اللَّہُ أَحَدٌ مَرَّۃً وَاحِدَۃً،بَنَی اللَّہُ لَہُ عَشَرَۃَ آلَافِ أَلْفِ غُرْفَۃٍ مَنْ دُرٍّ وَیَاقُوتٍ فِی الْجَنَّۃِ،أفأصدق ذلک؟ قال:نعم،أو عجبت مِنْ ذَلِکَ؟قَالَ:نَعَمْ،وَعِشْرِینَ أَلْفَ أَلْفٍ وثلاثین ألف ألف وما لا یُحْصِی ذَلِکَ إِلَّا اللَّہُ، ثُمَّ قَرَأَ مَنْ ذَا الَّذِی یُقْرِضُ اللَّہَ قَرْضاً حَسَناً فَیُضاعِفَہُ لَہُ أَضْعافاً کَثِیرَۃً فَالْکَثِیرُ مِنَ اللَّہِ لَا یحصی وقولہ وَاللَّہُ یَقْبِضُ وَیَبْصُطُ أی أنفقوا ولا تبالوا، فاللہ ہو الرازق یُضَیِّقُ عَلَی مَنْ یَشَاء ُ مِنْ عِبَادِہِ فِی الرِّزْقِ، وَیُوَسِّعُہُ عَلَی آخَرِینَ، لَہُ الْحِکْمَۃُ الْبَالِغَۃُ فِی ذَلِکَ وَإِلَیْہِ تُرْجَعُونَ أَیْ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ.
ترجمہ :حضرت سیدناکعب الاحباررضی اللہ عنہ سے کسی شخص نے سوال کیاکہ میں نے ایک شخص سے یہ سناہے کہ جو شخص سورۃ الاخلاص کو ایک بارپڑھے تواس کے لئے موتی اوریاقوت کے دس لاکھ محل جنت میں تیارکئے جاتے ہیں ۔ کیامیں اسے سچ مان لوں؟ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اس میں تعجب والی کونسی بات ہے ؟ بلکہ بیس لاکھ اوربھی اوراس قدرکہ ان کی گنتی سوائے خداتعالی کے کسی کومعلوم نہیں ۔ پھرآپ رضی اللہ عنہ نے اس آیت کریمہ{ مَنْ ذَا الَّذِی یُقْرِضُ اللَّہَ قَرْضاً حَسَناً فَیُضاعِفَہُ لَہُ أَضْعافاً کَثِیرَۃً} کی تلاوت کی اورفرمایاجب اللہ تعالی {أَضْعافاً کَثِیرَۃً}فرماتاہے توپھرمخلوق اس کی گنتی کی طاقت کیسے رکھے گی؟ پھرفرمایاکہ رزق کی کمی بیشی اللہ تعالی کی طرف سے ہے ۔ اللہ تعالی کی راہ میں خرچ کرتے ہوئے بخل سے کام نہ لے اوروہ جسے دے اس میں بھی حکمت ہے اورنہ دے تواس میں بھی مصلحت ہے ۔ تم سب قیامت کے دن اسی کی طرف لوٹائے جائوگے۔
(تفسیر ابن کثیر:أبو الفداء إسماعیل بن عمر بن کثیر القرشی البصری ثم الدمشقی (ا:۵۰۴)