تفسیر سورہ بقرہ آیت ۲۴۳۔۲۴۴۔ کیاجہاد سے بھاگنے والے موت سے بچ جائیں گے ؟

کیاجہاد سے بھاگنے والے موت سے بچ جائیں گے ؟

{اَلَمْ تَرَ اِلَی الَّذِیْنَ خَرَجُوْا مِنْ دِیٰرِہِمْ وَہُمْ اُلُوْفٌ حَذَرَ الْمَوْتِ فَقَالَ لَہُمُ اللہُ مُوْتُوْا ثُمَّ اَحْیٰہُمْ اِنَّ اللہَ لَذُوْ فَضْلٍ عَلَی النَّاسِ وَلٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَشْکُرُوْنَ}(۲۴۳){وَ قٰتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللہِ وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللہَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ}(۲۴۴)
ترجمہ کنزلایمان :اے محبوب! کیا تم نے نہ دیکھا تھا انہیں جو اپنے گھروں سے نکلے اور وہ ہزاروں تھے موت کے ڈر سے تو اللہ نے ان سے فرمایا مرجاؤ پھر انہیں زندہ فرمادیابیشک اللہ لوگوں پر فضل کرنے والا ہے مگر اکثر لوگ ناشکرے ہیں ۔اور لڑو اللہ کی راہ میں اور جان لو کہ اللہ سنتا جانتاہے ۔
ترجمہ ضیاء الایمان : اے حبیب کریم ﷺ!کیاآپ نے نہ دیکھاتھاانہیں جو اپنے گھروں سے موت کے ڈرسے نکلے اوروہ ہزاروں تھے تواللہ تعالی نے فرمایا: تم مرجائو، پھرانہیں زندہ فرمادیا، بے شک اللہ تعالی لوگوں پر فضل فرمانے والاہے مگراکثرلوگ ناشکرے ہیں اوراللہ تعالی کی راہ میں لڑو اورجان لو کہ اللہ تعالی سننے والااورجاننے والاہے ۔

جہاد سے بھاگنے والے کون؟

عَن ابْن عَبَّاس فِی قَوْلہ (ألم تَرَ إِلَی الَّذین خَرجُوا من دِیَارہمْ وہم أُلُوف حذر الْمَوْت)یَقُول:عدد کثیر خَرجُوا فِرَارًا من الْجِہَاد فِی سَبِیل اللہ فأماتہم اللہ حَتَّی ذاقوا الْمَوْت الَّذِی فروا مِنْہُ ثمَّ أحیاہم وَأمرہمْ أَن یجاہدوا عدوہم فَذَلِک قَوْلہ (وقاتلوا فِی سَبِیل اللہ وَاعْلَمُوا أَن اللہ سمیع علیم)وہم الَّذین قَالُوا لنبیہم (ابْعَثْ ملکا نُقَاتِل فِی سَبِیل اللہ)۔
ترجمہ :حضرت سیدناعبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہماسے مروی ہے کہ بہت سے لوگ جو اللہ تعالی کی راہ میں جہاد کرنے سے بھاگے تھے ، پس اللہ تعالی نے انہیں موت دے دی، حتی کہ وہ لوگ جس موت سے بھاگے تھے اس کاذائقہ انہوں نے چکھ لیا۔ پھراللہ تعالی نے انہیں زندہ کیااورحکم دیاکہ اپنے دشمن سے جہاد کرو{ وقاتلوا فِی سَبِیل اللہ وَاعْلَمُوا أَن اللہ سمیع علیم}میں اس واقعہ کی طرف اشارہ ہے کہ ان لوگوں نے اپنی نبی علیہ السلام سے کہاتھا{ابْعَثْ ملکا نُقَاتِل فِی سَبِیل اللہ}
(تفسیر الطبری :محمد بن جریر بن یزید بن کثیر بن غالب الآملی، أبو جعفر الطبری (ا۴:۴۱۵)

جہاد سے بھاگنے والے چالیس ہزارلوگ آناًفاناً مرگئے

وَأخرج ابْن جریر وَابْن الْمُنْذر من طَرِیق ابْن جریج عَن ابْن عَبَّاس فِی الْآیَۃقَالَ:کَانُوا أَرْبَعِینَ ألفا وَثَمَانِیۃ آلَاف حظر عَلَیْہِم حظائر وَقد أروحت أَجْسَادہم وأنتنوا فَإِنَّہَا لتوجد الْیَوْم فِی ذَلِک السبط من الْیَہُود تِلْکَ الرّیح خَرجُوا فِرَارًا من الْجِہَاد فِی سَبِیل اللہ فأماتہم ثمَّ أحیاہم فَأَمرہمْ بِالْجِہَادِ فَذَلِک قَوْلہ (وقاتلوا فِی سَبِیل اللہ)
ترجمہ:حضرت سیدناعبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہمافرماتے ہیں کہ ان کی تعداد چالیس ہزارتھی ، اورآٹھ ہزارکو محفوظ رکھاتھااوران کے جسموں میں ہواداخل ہوگئی تھی اوران کے جسموں میں بدبوپیداہوگئی آج بھی یہودیوں کے اس قبیلہ میں وہ بدبوپائی جاتی ہے ۔ وہ لوگ جہاد سے فراراختیارکرگئے تھے ، پس اللہ تعالی نے ان کو مارااورپھران کو زندہ کیا، پھران کو جہاد کرنے کاحکم دیا۔
(الدر المنثور:عبد الرحمن بن أبی بکر، جلال الدین السیوطی (ا:۷۴۴)

رب تعالی کی تقدیرسے بھاگنے والے ؟

قَالَ السُّدِّیُّ:کَانَتْ قَرْیَۃٌ وَقَعَ فِیہَا الطَّاعُونُ وَہَرَبَ عَامَّۃُ أَہْلِہَا،وَالَّذِینَ بَقُوا مَاتَ أَکْثَرُہُمْ،وَبَقِیَ قَوْمٌ مِنْہُمْ فِی الْمَرَضِ وَالْبَلَاء ِ،ثُمَّ بَعْدَ ارْتِفَاعِ الْمَرَضِ وَالطَّاعُونِ رَجَعَ الَّذِینَ ہَرَبُوا سَالِمِینَ،فَقَالَ مَنْ بَقِیَ مِنَ الْمَرْضَی:ہَؤُلَاء ِ أَحْرَصُ مِنَّا، لَوْ صَنَعْنَا مَا صَنَعُوا لَنَجَوْنَا مِنَ الْأَمْرَاضِ وَالْآفَاتِ،وَلَئِنْ وَقَعَ الطَّاعُونُ ثَانِیًا خَرَجْنَا فَوَقَعَ وَہَرَبُوا وَہُمْ بِضْعَۃٌ وَثَلَاثُونَ أَلْفًا، فَلَمَّا خَرَجُوا مِنْ ذَلِکَ الْوَادِی، نَادَاہُمْ مَلَکٌ مِنْ أَسْفَلِ الْوَادِی وَآخَرُ مِنْ أَعْلَاہُ:أَنْ مُوتُوا، فَہَلَکُوا وَبَلِیَتْ أَجْسَامُہُمْ، فَمَرَّ بِہِمْ نَبِیٌّ یقال لہ حزقیل، فلما رآہما وَقَفَ عَلَیْہِمْ وَتَفَکَّرَ فِیہِمْ فَأَوْحَی اللَّہُ تَعَالَی إِلَیْہِ أَتُرِیدُ أَنْ أُرِیَکَ کَیْفَ أُحْیِیہِمْ؟ فَقَالَ نَعَمْ فَقِیلَ لَہُ:نَادِ أَیَّتُہَا الْعِظَامُ إِنَّ اللَّہَ یَأْمُرُکِ أَنْ تَجْتَمِعِی،فَجَعَلَتِ الْعِظَامُ یَطِیرُ بعضہاإِلَی بَعْضٍ حَتَّی تَمَّتِ الْعِظَامُ ثُمَّ أَوْحَی اللَّہُ إِلَیْہِ:نَادِ یَا أَیَّتُہَا الْعِظَامُ إِنَّ اللَّہَ یَأْمُرُکِ أَنْ تَکْتَسِی لَحْمًا وَدَمًا، فَصَارَتْ لَحْمًا وَدَمًا،ثُمَّ قِیلَ:نَادِ إِنَّ اللَّہَ یَأْمُرُکِ أَنْ تَقُومِی فَقَامَتْ، فَلَمَّا صَارُوا أَحْیَاء ً قَامُوا،وَکَانُوا یَقُولُونَ:سُبْحَانَکَ رَبَّنَا وَبِحَمْدِکَ لَا إِلَہَ إِلَّا أَنْتَ ثُمَّ رَجَعُوا إِلَی قَرْیَتِہِمْ بَعْدَ حَیَاتِہِمْ،وَکَانَتْ أَمَارَاتُ أَنَّہُمْ مَاتُوا ظَاہِرَۃً فِی وُجُوہِہِمْ ثُمَّ بَقُوا إِلَی أَنْ مَاتُوا بَعْدَ ذَلِکَ بِحَسَبِ آجَالِہِمْ.
ترجمہ :امام السدی رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ ایک بستی میں ایک بارطاعون کی وباآئی ، کچھ لوگ بھاگ گئے اورکچھ وہیں رہ گئے ، جب وباختم ہوگئی اوربھاگے ہوئے لوگ واپس آگئے توپیچھے رہنے والے مریضوں نے کہاکہ کاش کہ ہم بھی بھاگ جاتے اوربیمارنہ ہوتے ! اگلی بارجب طاعون آیاتواکثربھاگ گئے ، جن کی تعداد تیس ہزارسے زائد تھی ۔ اللہ تعالی نے دوفرشتے بھیجے ، جنہوں نے یہ اعلان کیاکہ تم مرجائو! توسب مرگئے ، ان کے جسم بوسیدہ ہوگئے ۔ اللہ تعالی کے ایک نبی حضرت سیدناحزقیل علیہ السلام ہیں وہاں سے گزرے تو اللہ تعالی نے ان سے فرمایا: کیاآپ یہ چاہتے ہیں کہ میں آپ کودکھائوں کہ میں مردوں کو کس طرح زندہ کرتاہوں؟ توانہوںنے عرض کیا: جی ہاں۔ تم ان کو ندادوکہ اے ہڈیو! تم کو اللہ تعالی حکم دیتاہے کہ تم سب جمع ہوجائو پھرسب ہڈیاں جمع ہوگئیں اس حال میں کہ وہ اڑکرجمع ہورہی تھیں۔اس پر اللہ تعالی نے ان کی ہڈیاں دوبارہ جوڑکر ان کو زندہ فرمادیا۔ پھران لوگوں نے اپنی زندگی کی مدت پوری کی۔ملخصاً۔
(التفسیر الکبیر:أبو عبد اللہ محمد بن عمر بن الحسن بن الحسین التیمی الرازی(۶:۴۹۵)

موت مقررہ وقت پرہی آئے گی

أَنَّ حِزْقِیلَ النَّبِیَّ عَلَیْہِ السَّلَامُ نَدَبَ قَوْمَہُ إِلَی الْجِہَادِ فَکَرِہُوا وَجَبُنُوا،فَأَرْسَلَ اللَّہُ عَلَیْہِمُ الْمَوْتَ، فَلَمَّا کَثُرَ فِیہِمْ خَرَجُوا مِنْ دِیَارِہِمْ فِرَارًامِنَ الْمَوْتِ، فَلَمَّا رَأَی حِزْقِیلُ ذَلِکَ قَالَ:اللَّہُمَّ إِلَہَ یَعْقُوبَ وَإِلَہَ مُوسَی تَرَی مَعْصِیَۃَ عِبَادِکَ فَأَرِہِمْ آیَۃً فِی أَنْفُسِہِمْ تَدُلُّہُمْ عَلَی نَفَاذِ قُدْرَتِکَ وَأَنَّہُمْ لَا یَخْرُجُونَ عَنْ قَبْضَتِکَ، فَأَرْسَلَ اللَّہُ عَلَیْہِمُ الْمَوْتَ، ثُمَّ إِنَّہُ عَلَیْہِ السَّلَامُ ضَاقَ صَدْرُہُ بِسَبَبِ مَوْتِہِمْ، فَدَعَا مَرَّۃً أُخْرَی فَأَحْیَاہُمُ اللَّہُ تَعَالَی.
ترجمہ:حضرت سیدناحزقیل علیہ السلام نے اپنی قوم یعنی بنی اسرائیل کو جہاد کی دعوت دی ، ان لوگوں نے جہاد پر جاناناپسندکیااوربزدلی دکھائی ، اللہ تعالی نے ان پر موت طاری کردی ، جب وہ کثرت سے مرنے لگے تو موت کے ڈرسے اپناعلاقہ ہی چھوڑ کربھاگنے لگے ، جب حضرت سیدناحزقیل علیہ السلام نے یہ صورتحال دیکھی تواللہ تعالی کی بارگاہ اقدس میں یوں دعاکی : اے ہمارے پالنے والے ! اے یعقوب اورموسی علیہماالسلام کے رب ! تونے اپنے ان بندوں کی نافرمانی دیکھ لی ، پس توان کی جانوں میں کوئی ایسی نشانی دکھاجو ان کو سمجھادے کہ تیری قدرت نافذ ہوکررہتی ہے ۔ یہ لوگ تیرے قبضہ قدرت سے بھاگ نہیں سکتے ۔ آپ علیہ السلام کی یہ دعاقبول ہوئی ، اللہ تعالی نے ان پر موت طاری کردی ، پھرحضرت سیدناحزقیل علیہ السلام کو ان کی موت سے صدمہ پہنچا، آپ علیہ السلام نے دوسری بار دعاکی تواللہ تعالی نے ان کو زندہ فرمادیا۔
(غرائب القرآن:نظام الدین الحسن بن محمد بن حسین القمی النیسابوری (۱:۶۶۱)

یہ قصہ بطورمقدمہ ہے
وَإِنَّمَا اللَّازِمُ مِنَ الْآیَۃِ أَنَّ اللَّہَ تَعَالَی أَخْبَرَ نَبِیَّہُ مُحَمَّدًا صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِخْبَارًا فِی عِبَارَۃِ التَّنْبِیہِ وَالتَّوْقِیفِ عَنْ قَوْمٍ مِنَ الْبَشَرِ خَرَجُوا مِنْ دِیَارِہِمْ فِرَارًا مِنَ الْمَوْتِ فَأَمَاتَہُمُ اللَّہُ تَعَالَی ثُمَّ أحیاہم، لیرواہم وَکُلُّ مَنْ خَلَفَ مِنْ بَعْدِہِمْ أَنَّ الْإِمَاتَۃَ إِنَّمَا ہِیَ بِیَدِ اللَّہِ تَعَالَی لَا بِیَدِ غَیْرِہِ، فَلَا مَعْنَی لِخَوْفِ خَائِفٍ وَلَا لِاغْتِرَارِ مغتروجعل اللَّہُ ہَذِہِ الْآیَۃَ مُقَدَّمَۃً بَیْنَ یَدَیْ أَمْرِہِ الْمُؤْمِنِینَ مِنْ أُمَّۃِ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِالْجِہَادِ۔
ترجمہ:حضرت سیدناامام ابوعبداللہ محمدبن احمدالقرطبی المتوفی : ۶۷۱ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ یعنی اس آیت کریمہ میں اصل اورضروری بات یہ ہے کہ اللہ تعالی نے حضورتاجدارختم نبوت ﷺکو ایک ایسی قوم کے افراد کی خبردی جو اپنے گھروں سے موت کے خوف سے نکلے تواللہ تعالی نے ان کو ماردیا، پھران کو زندہ فرمادیاتاکہ وہ اوران کے بعد والے لوگ اس کو جان لیں کہ ہرکسی کو موت دیناصرف اورصرف اللہ تعالی کے ہی ہاتھ میں ہے ۔ اسی لئے کسی خوف دلانے والے کاخوف کسی دھوکے باز کادھوکہ کوئی معنی نہیں رکھتا۔ اللہ تعالی نے اس آیت کو اپنے حبیب کریم ﷺکی امت کو جہاد کاحکم دینے سے پہلے بطورمقدمہ ذکرفرمایا۔
(تفسیر القرطبی:أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن أبی بکر شمس الدین القرطبی (۳:۲۳۰)

نکاح کے ذکرکے بعد جہادکاحکم ؟

لَمَّا بَیَّنَ تَعَالَی حُکْمَ النِّکَاحِ،بَیَّنَ حُکْمَ الْقِتَالِ، لِأَنَّ النِّکَاحَ تَحْصِینٌ لِلدِّینِ،وَالْقِتَالَ تَحْصِینٌ لِلدِّینِ وَالْمَالِ وَالرُّوحِ۔
ترجمہ :امام ابوحیان محمدبن یوسف الاندلسی المتوفی : ۷۴۵ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ اللہ تعالی نے جب نکاح کاحکم فرمایاجس میں دین کی حفاظت ہے تواس کے بعد جہاد کاحکم فرمایاجس میں دین ، مال اورروح سب کی حفاظت ہے ۔
(البحر المحیط فی التفسیر:أبو حیان محمد بن یوسف بن علی الأندلسی (۲:۶۵۰)

حقیقی موت کے بعد زندہ نہیں کیاجاتا

قال ابن العربیّ:أماتہم اللہ عقوبۃ لہم، ثم أحیاہم،ومیتۃ العقوبۃ بعدہا حیاۃٌ،ومیتۃ الأجل لا حیاۃ بعدہا.
ترجمہ :حضرت سیدناامام ابن العربی رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ یہ موت ان کو سزاکے طورپرطاری ہوئی کیونکہ وہ جہاد سے بھاگے تھے اوریہ عام قاعدہ ہے کہ سزاکی موت کے بعد زندہ کیاجاتاہے لیکن حقیقی موت کے بعد زندہ نہیں کیاجاتا۔
(اللباب فی علوم الکتاب:أبو حفص سراج الدین الحنبلی الدمشقی النعمانی (۴:۲۵۰)

شالابزدلاں کدے نیندنہ آوے

وَرُوِّینَا عَنْ أَمِیرِ الْجُیُوشِ، وَمُقَدَّمِ الْعَسَاکِرِ،وَحَامِی حَوْزَۃِ الْإِسْلَامِ،وَسَیْفِ اللَّہِ الْمَسْلُولِ عَلَی أَعْدَائِہِ:أَبِی سُلَیْمَانَ خَالِدِ بْنِ الْوَلِیدِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ، أَنَّہُ قَالَ وَہُوَ فِی سِیَاقِ الْمَوْتِ:لَقَدْ شَہِدْتُ کَذَا وَکَذَا مَوْقِفًاوَمَا مِنْ عُضْوٍ مِنْ أَعْضَائِی إِلَّا وَفِیہِ رَمْیَۃٌ أَوْ طَعْنَۃٌ أَوْ ضَرْبَۃٌ وَہَا أَنَا ذَا أَمُوتُ عَلَی فِرَاشِی کَمَا یَمُوتُ الْعِیرُ،فَلَا نَامَتْ أعین الجبناء یعنی أنہ یتألم لِکَوْنِہِ مَا مَاتَ قَتِیلًا فِی الْحَرْبِ،وَیَتَأَسَّفُ عَلَی ذَلِکَ،وَیَتَأَلَّمُ أَنْ یَمُوتَ عَلَی فِرَاشِہِ.
ترجمہ: اسلامی لشکروں کے امیرمایہ نازسپہ سالاراللہ تعالی کی کھلی تلوارحضرت سیدناخالد بن ولید رضی اللہ عنہ بسترمرگ پر روروکرافسوس کررہے ہیں ، آنسوئوں سے داڑھی مبارک ترہورہی ہے اورفرمارہے ہیں کہ بہت سے محاذوں پر جنگ کی داد شجاعت دی اوردلیری کے ساتھ کفارکے ساتھ جہاد کیا، عظیم لشکروں میں گھس کر تلوارچلائی ، میرے بدن اورجسم کاکوئی عضوایسانہیں جس پر نیزہ اورتلوارکازخم نہ ہو۔ ہائے افسوس ! کہ میں اونٹ کی طرح بسترمرگ پر جان دے رہاہوں۔ تین تین سوکے ہجوم میں گھس کرلڑتارہاکہ شاید شہادت نصیب ہومگرجو چیز مقدرمیں نہ ہواسے کیسے اورکیونکرحاصل کرسکتے ہیںاورفرمایاکہ کہاں ہیں وہ نامردلوگ جو موت سے ڈرتے ہیں، اللہ کرے بزدلوں کو نیندنہ آئے ۔ملتقطاً۔
(تفسیر ابن کثیر:أبو الفداء إسماعیل بن عمر بن کثیر القرشی البصری ثم الدمشقی (۱:۵۰۲)

اس کی سرخی پنجابی زبان میں اس لئے دی ہے کہ جب حضورامیرالمجاہدین حضرت شیخ الحدیث مولاناحافظ خادم حسین رضوی حفظہ اللہ ناموس رسالت ﷺکی خاطرجیل گئے توپاکستانی بہت سارے مولویوں نے حکومت کو لکھ دیاتھاکہ ہماراان کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔ جب آپ رہاہوکرتشریف لائے توآپ نے جو پہلاجمعۃ المبارک میں خطبہ دیاتوحضرت سیدناخالد بن ولید رضی اللہ عنہ کاعربی جملہ پڑھااوراس کاترجمہ پنجابی زبان میں فرمایااوراللہ تعالی کاکرناایساہواکہ یہی جملہ چہاردانگ عالم مشہورہوا۔

جہاد سے بھاگنے کاگناہ

{یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا لَقِیْتُمُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا زَحْفًا فَلَا تُوَلُّوْہُمُ الْاَدْبَارَ }(سورۃ الانفال :۱۵){وَمَنْ یُّوَلِّہِمْ یَوْمَئِذٍ دُبُرَہٓ اِلَّا مُتَحَرِّفًا لِّقِتَالٍ اَوْ مُتَحَیِّزًا اِلٰی فِئَۃٍ فَقَدْ بَآء َ بِغَضَبٍ مِّنَ اللہِ وَمَاْوٰیہُ جَہَنَّمُ وَبِئْسَ الْمَصِیْرُ }(سورۃ الانفال :۱۶)
ترجمہ کنزالایمان : اے ایمان والو !جب کافروں کے لشکر سے تمہارا مقابلہ ہو تو انہیں پیٹھ نہ دو ۔اور جو اس دن انہیں پیٹھ دے گا مگر لڑائی کا ہنر کرنے یا اپنی جماعت میں جا ملنے کو تو وہ اللہ کے غضب میں پلٹا اور اس کا ٹھکانا دوزخ ہے اور کیا بُری جگہ ہے پلٹنے کی۔
ترجمہ ضیاء الایمان :اے ایمان والو:جب تم ان لوگوں سے جنھوں نے کفر کیا، ایک لشکر کی صورت میں ملو تو ان سے پیٹھیں نہ پھیرو۔ اور جو کوئی اس دن ان سے اپنی پیٹھ پھیرے، ماسوائے اس کے جو لڑائی کے لیے ہنرکرنے والاہو، یا کسی جماعت کی طرف جگہ لینے والا ہو تو یقینا وہ اللہ کے

غضب کے ساتھ لوٹا اور اس کا ٹھکانا جہنم ہے اور وہ لوٹنے کی بری جگہ ہے۔
یہاں اس آیت کریمہ میں مذکور لفظ’’زَحْفًا‘‘کا معنی ہے:کافروں سے جنگ اور دشمن کی طرف پیش قدمی کرنا اور ’’اَلتّوَلِّی‘‘کا مطلب ہے کسی چیز سے پھر جانا۔ یعنی پیٹھ موڑ کر مڑنا اور یہاں اس کا معنی ہے:جہاد و قتال فی سبیل اللہ سے راہ فرار اختیار کرنا۔اہل لغت فرماتے ہیں کہ ادبار، دُبر کی جمع ہے اور اس آیت کریمہ میں’’دبر‘‘سے مراد اس فعل شنیع کی فصاحت کو بیان کرنا ہے۔ اس لیے کہ یہ کام ایک بڑے جرم کی مذمت کو بیان کر رہا ہے۔

دشمن کی طرف پیش قدمی کے دن راہِ فرار اختیار کرنا کیا ہے؟

دشمن کی طرف پیش قدمی اور حملے والے دن پیٹھ دکھا کر راہِ فرار اختیار کرنے والا وہ شخص ہوتا ہے جو کافر سپاہ کا سامنا کرنے سے گھبرا کر میدان قتال سے بھاگ اٹھے۔ اس معاملے میں سب سے بڑا جرم اس شخص کا ہوگا جو کافروں کو مسلمانوں کے اموال و اسلحہ اور ان کی عورتوں اور بچوں کے بارے میں خبر دے اور اسے معلوم ہو کہ وہ عورتوں اور بچوں کو قتل کردیں گے یا انہیں قیدی بنالیں گے۔اللہ عزوجل نے مسلمانوں کو دشمن سے آمنا سامنا کے دن اور معرکہ والے دن میدانِ قتال سے کافروں کے سامنے سے فرار ہونے سے منع فرمایا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جب جہاد فی سبیل اللہ اور کافروں سے قتال کو فرض کیا تو اہل ایمان مجاہدین اور مسلم سپاہ پر اس جرم شنیع کو حرام قرار دیا۔ یعنی جب تم کافر دشمنوں کے قریب ہوجاؤ تو پھر انہیں اپنی پشتیں نہ دکھاؤ اور نہ ہی اپنے مسلمان ساتھیوں کو چھوڑ کر ان سے فرار ہوجاؤ۔ جو کوئی شخص ایسا کرے گا وہ اللہ کا غضب لے کر پلٹے گا اور قیامت والے دن اس کا ٹھکانہ جہنم ہوگا، جو کہ سب سے برا ٹھکانا ہے۔ الا یہ کہ بندہ خلوص دل سے معافی مانگ لے اور اللہ عزوجل عفو و درگزر کے ساتھ اس پر اپنا فضل کردے۔

حضورتاجدارختم نبوت ﷺکافرمان عالی شان

عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ،عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ:اجْتَنِبُوا السَّبْعَ المُوبِقَاتِ، قَالُوا:یَا رَسُولَ اللَّہِ وَمَا ہُنَّ؟ قَالَ:الشِّرْکُ بِاللَّہِ،وَالسِّحْرُ،وَقَتْلُ النَّفْسِ الَّتِی حَرَّمَ اللَّہُ إِلَّا بِالحَقِّ،وَأَکْلُ الرِّبَا، وَأَکْلُ مَالِ الیَتِیمِ، وَالتَّوَلِّی یَوْمَ الزَّحْفِ،وَقَذْفُ المُحْصَنَاتِ المُؤْمِنَاتِ الغَافِلاَتِ۔
ترجمہ:حضرت سیدناابوھریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضورتاجدارختم نبوت ﷺنے فرمایا:سات ہلاک کردینے والی چیزوں (کبیرہ گناہوں)سے بچو۔صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے دریافت کیا:یارسول اللہ ﷺ!یہ سات ہلاک کرنے والی چیزیں کیا ہیں؟ فرمایا:(۱)اللہ کے ساتھ شرک کرنا۔ (۲)جادو۔ (۳)حق شرعی کے سوا کسی بھی جان کو قتل کرنا کہ جس کا قتل اللہ تعالیٰ نے حرام کر رکھا ہے۔ (۴)سود کھانا۔ (۵)ناحق یتیم کا مال کھاجانا۔ (۶)معرکہ والے دن پیٹھ پھیر کر بھاگ جانا (۷)غفلت کا شکار (سادہ طبیعت والی بیاہی ہوئی مومن عورتوں پر زنا کی تہمت لگانا۔
(صحیح البخاری:محمد بن إسماعیل أبو عبداللہ البخاری الجعفی(۴:۱۰)

میدانِ قتال سے فرار ایک کبیرہ گناہ اور جرم ہے کہ جس کے ساتھ دوسرے سپاہیوں اور لڑنے والوں کو فرار کا موقع ملتا ہے اور وہ بھی اس مفرور کی تقلید میں راہِ فرار اختیار کرنے لگتے ہیں اور پھر اس کے ساتھ لشکر اسلامی کی صفوں میں خلل واقع ہوکر بھگدڑ مچ جاتی ہے۔ بلکہ بسا اوقات یہ فرار جنگ و قتال میں شریک باقی لوگوں کے حوصلوں کو پست کردیتا ہے اور لوگ لڑنے میں کمزوری دکھانے لگتے ہیں۔ نتیجتاً اس جرم کی وجہ سے اس جنگ میں ناکامی اور شکست کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔جہاں اللہ تبارک و تعالیٰ نے معرکہ اور قتال والے دن میدان جنگ سے پیٹھ دکھا کر راہِ فرار اختیار کرنے سے منع فرمایا ہے وہاں اُس نے کافروں سے لڑائی کے وقت ثابت قدمی اور صبر و استقامت اختیار کرنے کا بھی حکم دیا ہے۔ نہی اور امر دونوں کو برابر بیان کرکے دشمن کے مقابلے میں اہل ایمان مجاہدین کو ڈٹ جانے کی تاکید فرما دی اور پھر اس کے ساتھ ساتھ اللہ کریم نے اپنے مومن مجاہدین کو اپنے کافر دشمنوں پر نصرت اور فتح حاصل کرنے کے لیے انہیں اللہ تعالیٰ کا بہت زیادہ ذکر کرتے رہنے اور اُس سے نصرت و فتح کی بکثرت دعا مانگتے رہنے کا بھی حکم فرمایا ہے۔ تاکہ وہ اثبات و دعا کے ساتھ اپنے دشمنوں پر فتح یاب ہوسکیں اور اللہ رب العالمین ان کی مدد فرمادے۔

حضورتاجدارختم نبوت ﷺکاخطبہ

حَدَّثَنِی سَالِمٌ أَبُو النَّضْرِ، مَوْلَی عُمَرَ بْنِ عُبَیْدِ اللَّہِ،کُنْتُ کَاتِبًا لَہُ،قَالَ:کَتَبَ إِلَیْہِ عَبْدُ اللَّہِ بْنُ أَبِی أَوْفَی،حِینَ خَرَجَ إِلَی الحَرُورِیَّۃِ، فَقَرَأْتُہُ، فَإِذَا فِیہِ:إِنَّ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی بَعْضِ أَیَّامِہِ الَّتِی لَقِیَ فِیہَا العَدُوَّ،انْتَظَرَ حَتَّی مَالَتِ الشَّمْسُ،ثُمَّ قَامَ فِی النَّاسِ فَقَالَ:أَیُّہَا النَّاسُ،لاَ تَمَنَّوْا لِقَاء َ العَدُوِّ، وَسَلُوا اللَّہَ العَافِیَۃَ، فَإِذَا لَقِیتُمُوہُمْ فَاصْبِرُوا،وَاعْلَمُوا أَنَّ الجَنَّۃَ تَحْتَ ظِلاَلِ السُّیُوفِ ثُمَّ قَالَ:اللَّہُمَّ مُنْزِلَ الکِتَابِ، وَمُجْرِیَ السَّحَابِ،وَہَازِمَ الأَحْزَابِ،اہْزِمْہُمْ وَانْصُرْنَا عَلَیْہِمْ۔

ترجمہ :حضرت سیّدنا عبد اللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضورتاجدارختم نبوت ﷺ لوگوں کے درمیان خطاب کرنے کے لیے کھڑے ہوئے اور فرمایا:لوگو!دشمن سے مڈبھیڑ کی خواہش نہ کیا کرو۔ بلکہ اللہ تعالیٰ سے عافیت کا سوال کیا کرو اور جب تمہارا اُن سے آمنا سامنا ہوجائے تو پھر صبر سے کام لیا کرو۔ جان لو کہ جنت (کا حصول)تلواروں کے سائے تلے ہے۔پھرحضورتاجدارختم نبوت ﷺ اللہ تبارک و تعالیٰ سے عرض گزار ہوئے:اے کتاب عظیم کو اتارنے والے اللہ!بادلوں کو چلانے والے خالق کائنات!فوجوں کو شکست سے دو چار کرنے والے اللہ!ان کو شکست سے دو چار کر اور ہمیں ان پر فتح عطا فرما۔
(صحیح البخاری:محمد بن إسماعیل أبو عبداللہ البخاری الجعفی(۴:۶۳)

مومن آدمی پر اللہ رب العالمین کی اطاعت و فرمانبرداری، دشمنوں سے لڑائی اور ان سے جنگ کے وقت صبر و استقامت واجب ہے۔ پس نہ ہی تو مسلمان مجاہد راہِ فرار اختیار کرے اور نہ ہی بزدلی، کمزوری سے کام لے۔مسلمان آدمی پر یہ بھی واجب ہے کہ وہ حالت جنگ میں اللہ کے ذکر کا دامن مضبوطی سے تھامے رکھے، اس سے یہ کبھی غافل نہ ہو۔ بلکہ اس کے ذریعے اللہ کی مدد طلب کرے اور رب کریم پر توکل کرے۔ اپنے دشمنوں پر اللہ عزوجل سے اس کے ذکر (نماز، روزے، قرآن کی تلاوت اور صبح و شام کے اذکار) کے ذریعے مدد طلب کرے۔ اپنے اور اہل ایمان مجاہدین کے ذریعے کسی تنازعہ کو کھڑا نہ کرے کہ اس سے کہیں ان میں پھوٹ نہ پڑجائے اور اس حالت میں کہیں ان کی اجتماعی قوت، جرات و شجاعت اور کافروں پر اُن کا رعب ختم نہ ہوجائے۔

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا غزوات میں شجاعت و بہادری، اللہ تعالی اور اس کے حبیب کریم ﷺکے احکام و اوامر کی تعمیل اور جس عظیم تر ہدف و مقصد کی طرف حضورتاجدارختم نبوت ﷺنے ان کی راہنمائی کی تھی اسے بجالانے میں جو کردار و عمل تھا وہ سابقہ امتوں میں سے کسی کے اندر بھی کسی بھی زمانے میںدکھائی نہیں دیتا۔ بلاشبہ ان لوگوں نے حضورتاجدارختم نبوت ﷺ کی ذاتِ اطہر اور آپﷺ کی اطاعت کی برکت سے دلوں کو بھی فتح کیا اور ایک نہایت مختصر عرصہ میں مشرق و مغرب کے تمام ملکوں کو بھی فتح کرلیا تھا۔ حالانکہ دنیا کی تمام اقالیم کے لشکروں کی نسبت ان کی تعداد بہت ہی کم تھی۔ اللہ تعالی کے مومن، متقی اور مجاہد بندوں نے تمام اعداء اللہ پر غلبہ حاصل کرکے اللہ کے کلمہ کو بلند کردیا اور یوں اللہ تبارک و تعالیٰ کا دین دنیا جہان کے سارے ادیان پر غالب آگیا۔ تیس سالوں کی قلیل مدت میں اسلامی سلطنت کی سرحدیں زمین کے مشارق و مغارب تک پھیل گئیں۔ یوں اللہ عزوجل ان سے راضی ہوگیا اور وہ اپنے رب سے راضی ہوگئے۔

Leave a Reply