قرآن کریم کے متعلق شک میں مبتلاء لوگوں کو کھلاچیلنج تفسیر آیت ۲۳۔۲۴
{وَ اِنْ کُنْتُمْ فِیْ رَیْبٍ مِّمَّا نَزَّلْنَا عَلٰی عَبْدِنَا فَاْتُوْا بِسُوْرَۃٍ مِّنْ مِّثْلِہٖ وَادْعُوْا شُہَدَآء َکُمْ مِّنْ دُوْنِ اللہِ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ}(۲۳){فَاِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا وَلَنْ تَفْعَلُوْا فَاتَّقُوا النَّارَ الَّتِیْ وَقُوْدُہَا النَّاسُ وَالْحِجَارَۃُ اُعِدَّتْ لِلْکٰفِرِیْنَ}(۲۴)
ترجمہ کنزالایمان :اور اگر تمہیں کچھ شک ہو اس میں جو ہم نے اپنے (اس خاص )بندے پر اتارا تو اس جیسی ایک سورت تو لے آؤ اور اللہ کے سوا اپنے سب حمائتیوں کو بلالو اگر تم سچے ہو،پھر اگر نہ لا سکو اور ہم فرمائے دیتے ہیں کہ ہر گز نہ لا سکو گے تو ڈرو اس آگ سے جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہیں تیار رکھی ہے کافروں کے لئے۔
ترجمہ ضیاء الایمان:اوراگرتم کو کچھ شک ہواس میں جو ہم نے اپنے خاص بندے (مصطفی کریم ﷺ) پر نازل کیاتواس جیسی ایک سورت لے آئواوراللہ تعالی کے سوااپنے سب حمائتی بلالواگرتم سچے ہو۔ پھراگرتم نہ لاسکواورہم یہ بھی فرمادیتے ہیں کہ ہر گزتم نہ لاسکوگے ، توڈرو اس آگ سے جس کاایندھن آدمی اورپتھرہیں ، وہ کافروں کے لئے تیارکررکھی ہے ۔
رسول اللہﷺ کی دشمنی کی وجہ سے قرآن کریم کاانکار
مشرکین عرب رسول اللہ ﷺکے سخت مخالف اوردشمن تھے ، اللہ تعالی نے قرآن کریم کی سورتوں جیسی ایک سورت لانے کاچیلنج دیااوراللہ تعالی نے یہ بھی فرمادیاکہ وہ اس کی مثل کبھی بھی نہیں لاسکتے ، اگروہ اس کی مثل لاسکتے ہوتے تو وہ لے آتے کیونکہ رسول اللہ ﷺکے نبوت کے دعوی کو باطل کرنااوررسول اللہ ﷺکے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو آپ ﷺکی بارگاعالیہ سے برگشتہ کرناان کاانتہائی مقصود تھااورجب وہ اس کی مثل لانے سے عاجز رہے تویہ بات ظاہرہوگئی کہ قرآن کریم اللہ تعالی کاہی کلام ہے اوراس کے ساتھ معارضہ کرناتمام مخلوقات میں سے کسی کے بس کاکام نہیں ہے اوریہ رسول اللہ ﷺکاوہ عظیم معجزہ ہے جو قیامت تک باقی رہے گا۔
بتوں کو آگ میں ڈالنے کی وجہ ؟
آیت مبارکہ میں مذکورپتھرسے مراد بت ہیں ، ان بتوں کو آگ میں اس لئے ڈالاجائے گاتاکہ مشرکین کی زیادہ سے زیادہ ذلت ہواوریہ بھی واضح ہوکہ جن بتوں کو یہ لوگ نجات دلانے والاجانتے تھے آج وہی ان کے لئے وبال جان بنے ہوئے ہیں ۔
قرآن کریم میں شک کرنے والے
وَأخرج ابْن أبی حَاتِم عَن الْحسن فِی قَوْلہ (وَإِن کُنْتُم فِی ریب)الْآیَۃ قَالَ:ہَذَا قَول اللہ لمن شکّ من الْکفَّار فِی مَا جَاء َ بِہِ مُحَمَّد صلی اللہ عَلَیْہِ وَسلم۔
ترجمہ:حضرت سیدناامام ابن ابی حاتم رحمہ اللہ تعالی امام حسن بصری رضی اللہ عنہ سے اس آیت کے بارے نقل فرماتے ہیں کہ اللہ تعالی کایہ قول ان لوگوں کے متعلق ہے جو قرآن مجید کے متعلق شک میں مبتلاء تھے جواللہ تعالی نے رسول اللہ ﷺپر نازل فرمایاتھا۔
(الدر المنثور:عبد الرحمن بن أبی بکر، جلال الدین السیوطی (۱:۱۸۹)
قرآن کریم کی ہر ہر آیت معجزہ ہے
أَنَّ کُلَّ سُورَۃٍ مِنَ الْقُرْآنِ مُعْجِزَۃٌ لَا یَسْتَطِیعُ الْبَشَرُ مُعَارَضَتَہَا طَوِیلَۃً کَانَتْ أَوْ قَصِیرَۃً۔
ترجمہ :حافظ ابن کثیر المتوفی :۷۷۴ھ)رحمہ اللہ تعالی لکھتے ہیں کہ قرآن کریم کی ہر بڑی اورچھوٹی سورت فی الواقع معجزہ ہے اورانسان اس کی مانند لانے سے محض عاجز اوربالکل بے بس ہے ۔
(تفسیر القرآن العظیم: أبو الفداء إسماعیل بن عمر بن کثیر القرشی البصری ثم الدمشقی (۱:۱۹۸)
اگرسورۃ العصر ہی پڑھ لیتے تو۔۔۔
وَعَنِ الشَّافِعِیِّ: لَوْ تَدَبَّرَ النَّاسُ ہَذِہِ السُّورَۃَ لَوَسِعَتْہُمْ. وَفِی رِوَایَۃٍ عَنْہُ: لَوْ لَمْ یَنْزِلْ إِلَی النَّاسِ إِلَّا ہِیَ لَکَفَتْہُمْ.
ترجمہ:حضرت سیدناامام الشافعی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اگروہ لوگ غوروفکر اورعقل وخرد سے کام لیتے ہوئے صرف اورصرف سورۃ العصر ہی پڑھ لیتے توان کے لیے انتہائی کافی ہوجاتا۔اورایک روایت میں یہ بھی ہے کہ اگراللہ تعالی رسول اللہ ﷺپر صرف سورۃ العصر ہی نازل فرماتااورباقی قرآن کریم نازل نہ فرماتاتویہی کافی ہوجاتی ۔
(التحریر والتنویر تحریر :محمد الطاہر بن محمد بن محمد الطاہر بن عاشور التونسی (۳۰:۵۲۸)
مسیلمہ دجال کا جہالت سے بھرپور کلام
وَقَدْ رُوِّینَا عَنْ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ أَنَّہُ وَفَدَ إِلَی مُسَیْلِمَۃَ فِی أَیَّامِ جَاہِلِیَّتِہِ، فَقَالَ لَہُ مُسَیْلِمَۃُ: مَاذَا أُنْزِلَ عَلَی صَاحِبِکُمْ فِی ہَذَا الْحِینِ؟ فَقَالَ لَہُ عَمْرٌو:لَقَدْ أُنْزِلَ عَلَیْہِ سُورَۃٌ وَجِیزَۃٌ بَلِیغَۃٌ، فَقَالَ: وَمَا ہِیَ؟ قَالَ: أُنْزِلَ عَلَیْہِ وَالْعَصْرِ إِنَّ الْإِنْسانَ لَفِی خُسْرٍ إِلَّا الَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ وَتَواصَوْا بِالْحَقِّ وَتَواصَوْا بِالصَّبْرِ ،قَالَ: فَفَکَّرَ مُسَیْلِمَۃُ سَاعَۃً ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَہُ فَقَالَ:وَلَقَدْ أُنْزِلَ عَلَیَّ مِثْلُہَا، فَقَالَ لَہُ عمرو:وما ہی؟ فقال مسیلمۃ: یاوبر یاوبر، إنما أنت إیراد وصدر، وسائرک حفر نَقْرٌثُمَّ قَالَ:کَیْفَ تَرَی یَا عَمْرُو؟ فَقَالَ لَہُ عَمْرُو: وَاللَّہِ إِنَّکَ لَتَعْلَمُ أَنِّی أعلم أنک تکذب۔
ترجمہ :حضرت سیدناعمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت کیاکہ وہ اپنے زمانہ جاہلیت میں مسیلمہ دجال کے پاس گئے ، مسیلمہ دجال نے ان سے سوال کیاکہ اس وقت تمھارے ساتھی ( یعنی رسول اللہ ﷺ) پر کیانازل ہواہے ؟حضرت سیدناعمر و بن العاص رضی اللہ عنہ نے فرمایاکہ ان پر ایک مختصر اوربلیغ صورت نازل ہوئی ہے ، اس نے کہاکہ وہ کیاہے ؟ حضرت سیدناعمر و بن العاص رضی اللہ عنہ نے یہ سور ت مبارکہ پڑھ کرسنائی :
{وَالْعَصْرِ }{اِنَّ الْاِنْسٰنَ لَفِیْ خُسْرٍ }{اِلَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَ تَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَ تَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ }
ترجمہ کنزالایمان :اس زمانہِ محبوب کی قسم ،بے شک آدمی ضرور نقصان میں ہے،مگر جو ایمان لائے اور اچھے کام کئے اور ایک دوسرے کو حق کی تاکید کی اور ایک دوسرے کو صبر کی وصیت کی۔
راوی بیان کرتے ہیں کہ مسیلمہ نے کچھ دیر سوچاپھراس نے اپناسراٹھایااورکہا: مجھ پر بھی اس جیسی سورت نازل ہوئی ہے ۔حضرت سیدناعمروبن العاص رضی اللہ عنہ نے پوچھاکہ وہ کیاہے ؟ تواس نے یہ پڑھ کرسنایا:
یاوبر یاوبر، إنما أنت إیراد وصدر، وسائرک حفر نَقْر۔
ترجمہ :اے جنگلی چوہے ! تیراوجود سوائے دوکانوں اورسینے کے اورکچھ بھی نہیں ہے ، باقی توسراسر بالکل ناچیز ہے ۔ یہ بکواس کرنے کے بعد بطور فخر کے کہنے لگا: اے عمرو ! کہو! میں نے کیسی سورت پڑھی ہے ؟حضرت سیدناعمر و بن العاص رضی اللہ عنہ نے فرمایا: مجھ سے کیاپوچھتے ہو؟ توخود جانتاہے کہ یہ سراسرکذب وبہتان ہے ۔ بھلاکہاں یہ فضول بکواس اورکہاں رسول اللہ ﷺپر نازل ہونے والاحکمتوں سے بھرپورکلام؟۔
(البدایۃ والنہایۃ:أبو الفداء إسماعیل بن عمر بن کثیر القرشی البصری ثم الدمشقی (۶:۳۲۶)
رسول اللہ ﷺکے مقابلے میں آنے والے دجال کی نحوست
وَذَکَرَ عُلَمَاء ُ التَّارِیخِ أَنَّہُ کَانَ یَتَشَبَّہُ بِالنَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، بَلَغَہُ أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بصق فی بئر فغزر ماؤہ، فبصق فی بئر فغاض ماؤہ بالکلیۃ: وفی أخری فصار ماؤہ أُجَاجًا، وَتَوَضَّأَ وَسَقَی بِوَضُوئِہِ نَخْلًا فَیَبِسَتْ وَہَلَکَتْ، وَأُتِیَ بِوِلْدَانٍ یَبَرِّکُ عَلَیْہِمْ فَجَعَلَ یَمْسَحُ رُء ُوسَہُمْ فَمِنْہُمْ مَنْ قُرِعَ رَأْسُہُ، وَمِنْہُمْ مَنْ لُثِغَ لِسَانُہُ، وَیُقَالُ:إِنَّہُ دَعَا لِرَجُلٍ أَصَابَہُ وَجَعٌ فِی عَیْنَیْہِ فَمَسَحَہُمَا فَعَمِیَ ۔
ترجمہ :علمائے تاریخ نے بیان کیاہے کہ مسیلمہ دجال حضورتاجدارختم نبوتﷺکی نقل کیاکرتاتھا، اسے پتہ چلاکہ حضورتاجدارختم نبوتﷺنے ایک کنویں میں لعاب دہن ڈالاتو اس کاپانی زیادہ ہوگیا، پس اس دجال نے بھی ایک کنویں میں تھوکاتوا س کاپانی بالکل خشک ہوگیااورایک کنویں میں تھوکاتو اس کاپانی بالکل کڑواہوگیاجوپینے کے بھی لائق نہ رہا۔
اوراس نے وضوکیااوراپنے وضوکے پانی سے کھجورکے ایک درخت کو سیراب کیاتو وہ خشک اورتباہ ہوگیا۔ اورکچھ لڑکوں کے پاس برکت دینے کے لئے آیااوران کے سروں پر ہاتھ پھیرنے لگااوران میں سے بعض کے سروں کوچھیل دیااوربعض کی زبان ہکلانے لگی ۔
اوریہ بھی بیان کیاگیاہے کہ اس نے ایک شخص کے لئے دعاکی ، جس کی آنکھوں میں تکلیف تھی ، پس اس کی دونوں آنکھوں پر ہاتھ پھیراتووہ اندھاہوگیا۔
(البدایۃ والنہایۃ:أبو الفداء إسماعیل بن عمر بن کثیر القرشی البصری ثم الدمشقی (۶:۳۲۶)
معارف ومسائل
(۱)اس سے معلوم ہواکہ لوگوں کو قرآن کریم کے متعلق ہی شک تھاجن کے شک کو دورکرنے کے لئے اللہ تعالی نے یہ آیت مبارکہ نازل فرمائی ۔
(۲) ان کو رسول اللہ ﷺکے نبی ہونے کے بارے میں بھی شک تھا۔
(۳) آج بھی جوشخص قرآن اورصاحب قرآن ﷺکے متعلق شک میں مبتلاہے وہ مسلمان نہیں ہے ۔
(۴)اورجو شخص قرآن کریم اوررسول اللہ ﷺکے متعلق لوگوں میں ابہام پیداکرتاہے وہ شخص بھی مسلمان نہیں ہے ۔
(۵)ایسے شخص کاقرآن وحدیث شریف کادرس دینابھی منع ہے جس سے درس سننے کے بعد لوگوں کو قرآن کریم کے متعلق شک ہوجائے یارسول اللہ ﷺکی نبوت شریفہ کے متعلق ان کاایمان متزلزل ہوجائے ۔
(۶) اس سے یہ بھی معلوم ہواکہ قرآن کریم رسول اللہ ﷺکاایسامعجزہ ہے جو تاقیامت کائنات عالم کے تمام لوگوں کو عاجز کردینے والاہے ۔
(۷) قرآن کریم رسول اللہ ﷺکی نبوت اورختم نبوت پر بہت ہی شاندار برہان ہے ۔
(۸) اس سے یہ بھی ثابت ہواکہ سارے عالم عرب میں کسی کو بھی قرآن کریم کے ساتھ معارضہ کرنے کی ہمت نہیں ہوئی اوراگرکوئی احمق مسیلمہ دجال کی طرح آیابھی ہے سامنے تو خود ذلیل ہواہے ۔
(۹) اس سے یہ بھی معلوم ہواکہ مشرکین مکہ قرآن کریم کاانکار صر ف رسول اللہ ﷺکے ساتھ دشمنی کی وجہ سے کرتے تھے ۔
(ا۱۰) آج بھی جتنے لوگ رسول اللہ ﷺکی سنت کریمہ یاحدیث شریف کاانکارکرتے ہیں وہ بھی رسول اللہ ﷺکے دشمن ہی کہلائیں گے اورجوحکم ان کاتھاوہی ان کاہوگا۔