تفسیر سورہ بقرہ آیت ۲۲۱۔ وَ لَا تَنْکِحُوا الْمُشْرِکٰتِ حَتّٰی یُؤْمِنَّ وَلَاَمَۃٌ مُّؤْمِنَۃٌ خَیْرٌ مِّنْ مُّشْرِکَۃٍ وَّ لَوْ اَعْجَبَتْکُمْ وَ لَا تُنْکِحُوا الْمُشْرِکِیْنَ حَتّٰی یُؤْمِنُوْا وَلَعَبْدٌ مُّؤْمِنٌ خَیْرٌ مِّنْ مُّشْرِکٍ

یہودونصاری کی خواتین کے ساتھ نکاح کرنے کے دینی ودنیاوی نقصانات

{وَ لَا تَنْکِحُوا الْمُشْرِکٰتِ حَتّٰی یُؤْمِنَّ وَلَاَمَۃٌ مُّؤْمِنَۃٌ خَیْرٌ مِّنْ مُّشْرِکَۃٍ وَّ لَوْ اَعْجَبَتْکُمْ وَ لَا تُنْکِحُوا الْمُشْرِکِیْنَ حَتّٰی یُؤْمِنُوْا وَلَعَبْدٌ مُّؤْمِنٌ خَیْرٌ مِّنْ مُّشْرِکٍ وَّ لَوْ اَعْجَبَکُمْ اُولٰٓئِکَ یَدْعُوْنَ اِلَی النَّارِ وَاللہُ یَدْعُوْٓا اِلَی الْجَنَّۃِ وَالْمَغْفِرَۃِ بِاِذْنِہٖ وَیُبَیِّنُ اٰیٰتِہٖ لِلنَّاسِ لَعَلَّہُمْ یَتَذَکَّرُوْنَ}(۲۲۱)
ترجمہ کنزالایمان :اور شرک والی عورتوں سے نکاح نہ کرو جب تک مسلمان نہ ہوجائیں اور بیشک مسلمان لونڈی مشرکہ سے اچھی اگرچہ وہ تمہیں بھاتی ہو اور مشرکو ں کے نکاح میں نہ دو جب تک وہ ایمان نہ لائیں (اور بیشک مسلمان غلام مشرک سے اچھا ہے اگرچہ وہ تمہیں بھاتاہو وہ دوزخ کی طرف بلاتے ہیں اور اللہ جنت اور بخشش کی طرف بلاتا ہے اپنے حکم سے اور اپنی آیتیں لوگوں کے لئے بیان کرتا ہے کہ کہیں وہ نصیحت مانیں۔
ترجمہ ضیاء الایمان: اورمشرکہ عورتوں کے ساتھ نکاح نہ کروجب تک کہ وہ مسلمان نہ ہوجائیں اوربے شک مسلمان باندی مشرکہ عورت سے اچھی ہے اگرچہ وہ تمھیں اچھی لگتی ہواورمشرک مردوں کے ساتھ بھی تم مسلمان خواتین کانکاح نہ کروجب تک کہ وہ مسلمان نہ ہوجائیں اوربے شک مسلمان غلام مشرک سے اچھاہے اگرچہ وہ تمھیں اچھالگتاہو، کافرومشرک تم کو دوزخ کی طرف بلاتے ہیں اوراللہ تعالی جنت اورمغفرت کی طرف بلاتاہے اپنے حکم سے اوراپنی آیات لوگوں کے لئے بیان کرتاہے تاکہ وہ نصیحت مانیں ۔

مشرکین کے ساتھ نکاح کرنے میں اعتقادی اورعملی خرابیوں کی نشاندہی

اول تو مشرک مرد و عورت سے نکاح کو منع کیا جب تک وہ ایمان قبول نہ کرلیں۔ پھر فوراً ہی فیصلہ کن انداز میں ترجیحی صورت کو بھی بیان کردیا کہ کافر و مشرک جاہ و جلال، حسن و جمال اور حسب و نسب کے اعتبار سے تمہیں کتنا ہی پسند کیوں نہ آئے، اس کے مقابلے میں دنیاوی اعتبار سے کم حیثیت والا مومن ہی تمہارے لیے ہزار درجہ بہتر ہے۔ قرآن نے اپنے بلیغ اسلوب میں اس کو یوں بیان کیا۔ ایک مومن غلام اور باندی مشرک مرد اور عورت سے بہتر ہے۔ اس کی اصل حکمت یہ بیان کی کہ یہ کافر اور مشرک دوزخ اور جہنم میں لے جانے والے ہیں اور اللہ تعالی اپنے ارشاد سے جنت اور مغفرت کی طرف بلاتا ہے۔ اصل ناکامی اور کامیابی ہی یہی ہے۔ اس لیے اخیر میں شفقت بھرے لہجے میں ارشاد فرمایا کہ یہ احکام صاف صاف اس لیے بیان کئے جاتے ہیںتاکہ لوگ نصیحت حاصل کریں۔ اس اسلوب سے اس طرف بھی اشارہ ملتا ہے کہ مخاطب کے فائدے کے پیش نظر ہی مذکورہ حکم دیا گیا ہے۔
اس کی وجہ ظاہرہے کہ ازدواجی تعلقات، آپس کی محبت و مودت اور یگانگت کو چاہتے ہیں، اور بغیر اس کے ان تعلقات کا اصلی مقصد پورا نہیں ہوتا، اور مشرکین کے ساتھ اس قسم کے تعلقات قریبہ محبت و مودت کا لازمی اثر یہ ہے کہ ان کے دل میں بھی کفر و شرک کی طرف میلان پیدا ہو یا کم از کم کفر و شرک سے نفرت ان کے دلوں سے نکل جائے، اور اس کا انجام یہ ہے کہ یہ بھی کفر و شرک میں مبتلا ہوجائیں، اور اس کا نتیجہ جہنم ہے۔ اس لیے فرمایا گیا کہ یہ لوگ جہنم کی طرف دعوت دیتے ہیں اور اللہ تعالی انسان کو جنت اور مغفرت کی طرف دعوت دیتا ہے، اور صاف صاف اپنے احکام بیان فرما دیتا ہے تاکہ لوگ نصیحت پر عمل کریں۔

اوراسی طرح مشرک سے نکاح کرنا اسلامی روایت اور تہذیب و تمدن کے اعتبار سے کس قدر سنگین ہے اور اس کے اثرات بد کتنے مہلک اور تباہ کن ہیں۔پھر اس کا فلسفہ بتایا کہ رشتے ناطے کے اثرات زندگی پر سطحی اور سرسری نہیں ہوتے بلکہ بڑے گہرے ہوتے ہیں۔ اگر آدمی ان چیزوں میں عقائد و اعمال کو اہمیت نہ دے اور صرف حسن یا مال، یا خاندان یا مصلحت ہی کو سامنے رکھے تو ہوسکتا ہے کہ وہ اپنے ہی خرچ پر اپنے گھر میں ایسی بلا پال لے جو صرف اسی کے نہیں بلکہ اس کی آئندہ آنے والی نسلوں کے ایمان و اسلام کا بیج بھی مار دے۔ شادی بیاہ کے تعلقات نے مذہب، روایات اور تہذیب و تمدن میں جو عظیم تبدیلیاں کی ہیں، اس کی عملی مثالوں سے تاریخ بھری پڑی ہے۔ بنی اسرائیل کی تاریخ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے اندر بیشمار عقائد کی گمراہیاں ان عورتوں کے ذریعہ سے پھیلیں جو وہ دوسری بت پرست قوموں میں سے بیاہ کر لائے۔ اسی طرح ہمارے یہاں مغل سلاطین نے ہندو راجاؤں کے ہاں سیاسی مصالح کے تحت جو شادیاں کیں تو ان کی لڑکیوں کے ساتھ ساتھ ان کے عقائد، اوہام، رسوم اور عبادت کے طریقے بھی اپنے گھروں میں گھسا لائے، آج بھی جو لوگ قوموں اور مذہبوں کے امتیازی نشانات و نظریات کو ختم کرنے کے درپے ہیں وہ اس کا سب سے زیادہ کارگر نسخہ آپس کی شادیوں ہی کو سمجھتے ہیں۔ اس وجہ سے ایک مسلمان کو اس معاملے میں بے پروا اور سہل انگار نہیں ہونا چاہیے، بلکہ اس معاملے میں اس عظیم حقیقت کو پیش نظر رکھنا چاہیے کہ جس رب تعالی پر وہ ایمان رکھتا ہے اس کی دعوت مغفرت اور جنت کی طرف ہے۔ اور جو لوگ اس ایمان سے محروم ہیں وہ جہنم کی طرف بلانے والے ہیں عام اس سے کہ مرد ہوں یا عورت۔
شان نزول
وَقَالَ مُقَاتِلٌ:نَزَلَتْ ہَذِہِ الْآیَۃُ فِی أَبِی مَرْثَدٍ الْغَنَوِیِّ، وَقِیلَ:فِی مَرْثَدِ بْنِ أَبِی مَرْثَدٍ، وَاسْمُہُ کَنَّازُ بْنُ حُصَیْنٍ الْغَنَوِیُّ،بَعَثَہُ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَکَّۃَ سِرًّا لِیُخْرِجَ رَجُلًا مِنْ أَصْحَابِہِ،وَکَانَتْ لَہُ بِمَکَّۃَ امْرَأَۃٌ یُحِبُّہَا فِی الْجَاہِلِیَّۃِ یُقَالُ لَہَاعَنَاقُ فَجَاء َتْہُ،فَقَالَ لَہَا:إِنَّ الْإِسْلَامَ حَرَّمَ مَا کَانَ فِی الْجَاہِلِیَّۃِ، قَالَتْ: فَتَزَوَّجْنِی، قَالَ:حَتَّی أَسْتَأْذِنَ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ،فَأَتَی النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَاسْتَأْذَنَہُ فَنَہَاہُ عَنِ التَّزَوُّجِ بِہَا،لِأَنَّہُ کَانَ مُسْلِمًا وَہِیَ مُشْرِکَۃٌ۔
ترجمہ:حضرت سیدناامام مقاتل رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ یہ آیت حضرت سیدناابومرثدغنوی رضی اللہ عنہ کے بارے میں نازل ہوئی اوریہ بھی کہاگیاہے کہ یہ حضرت سیدنامرثدبن ابی مرثدرضی اللہ عنہ کے بارے میں نازل ہوئی ، ان کانام کناز بن حصین غنوی تھا۔ ان کو حضورتاجدارختم نبوت ﷺنے خفیہ طور پر مکہ مکرمہ بھیجاتاکہ وہ آپ ﷺکے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے جو لوگ وہاں ہیں انہیں نکال لائیں ، تومکہ مکرمہ میں ایک عورت بھی جو زمانہ جاہلیت میں ان کے ساتھ محبت کرتی تھی ، اسے عناق کہاجاتاتھا۔ وہ آپ رضی اللہ عنہ کے پاس آگئی توآپ رضی اللہ عنہ نے اسے فرمایا: بے شک اسلام نے اسے حرام کردیاہے ۔ جو کچھ عہدجاہلیت میں تھا،تواس نے کہا: پھرتم مجھ سے نکاح کرلوتوآپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:میں تم سے نکاح بھی تب تک نہیں کرسکتاجب تک حضورتاجدارختم نبوت ﷺسے اجازت نہ لے لوں ۔ چنانچہ وہ حضورتاجدارختم نبوت ﷺکی بارگاہ اقدس میں حاضرہوکرعرض گزارہوئے تو حضورتاجدارختم نبوت ﷺنے انہیں اس کے ساتھ نکاح کرنے سے منع فرمادیا، کیونکہ آپ رضی اللہ عنہ مسلمان تھے اوروہ مشرکہ تھی ۔
(الہدایۃ إلی بلوغ النہایۃ:أبو محمد مکی بن أبی طالب حَمّوش القرطبی المالکی (ا:۷۲۸)
یہود ونصاری کی خواتین کے ساتھ نکاح کرنے کی ممانعت کابیان

حضرت سیدناعمررضی اللہ عنہ کافیصلہ

وَرُوِیَ عَنْ عُمَرَ أَنَّہُ فَرَّقَ بَیْنَ طلحۃ ابن عُبَیْدِ اللَّہِ وَحُذَیْفَۃَ بْنِ الْیَمَانِ وَبَیْنَ کِتَابِیَّتَیْنِ وَقَالَا:نُطَلِّقُ یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ وَلَا تَغْضَبُ،فَقَالَ:لَوْجَازَ طَلَاقُکُمَا لَجَازَ نِکَاحُکُمَا!وَلَکِنْ أُفَرِّقُ بَیْنَکُمَا صَغْرَۃً قَمْأَۃً۔
ترجمہ :حضرت سیدناعمررضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ نے حضرت سیدناطلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ اورحضرت سیدناحذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ اوردوکتابی عورتوں کے درمیاں تفریق کی تھی ، ان دونوں نے عرض کی: اے امیرالمومنین ! آپ طلاق دلوادیں پرناراض نہ ہوں ، توآپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اگرتم دونوں کی طلاق جائز ہے تو یقیناتمھارانکاح بھی جائز ہے ، لیکن میں تم دونوں کے درمیان انتہائی ذلت وحقارت کی تفریق کررہاہوں۔
(المحرر الوجیز فی تفسیر الکتاب العزیز:أبو محمد عبد الحق بن غالب الأندلسی المحاربی (ا:۲۹۶)

حضرت سیدناعمر رضی اللہ عنہ نے اپنے زمانے کے راسخ العقیدہ مسلمانوں کے لئے عیسائی عورتوں کے نکاح میں خطرہ محسوس کیاتھا، اگرآج حضرت سیدناعمر رضی اللہ عنہ اس ظاہری دنیامیں تشریف فرماہوتے تو عیسائی عورتیں تودورکی بات ہے آج کی عام بدعقیدہ سیکولر اورلبرل عورتوں کے نکاح پر بھی پابندی لگادیتے ۔ ہم نے بہت سے لوگوں کو دیکھاہے کہ شادی سے پہلے باشرع اورداڑھی والے تھے جیسے ہی لبرل وسیکولر لڑکی کے ساتھ شادی رچائی نمازداڑھی وغیرہ سب احکامات چھوٹ گئے اوروہ شخص خود بھی لادینیت کاشکارہوگیا۔

یہودی ونصرانی کے ساتھ نکاح کرنے میں شرعی اوراخلاقی خرابی

عَنْ شَقِیقٍ، قَالَ:تَزَوَّجَ حُذَیْفَۃُ یَہُودِیَّۃً فَکَتَبَ إِلَیْہِ عُمَرُ أَنْ خَلِّ سَبِیلَہَا، فَکَتَبَ إِلَیْہِ:إِنْ کَانَتْ حَرَامًا خَلَّیْتُ سَبِیلَہَا فَکَتَبَ إِلَیْہِ:إِنِّی لَا أَزْعُمُ أَنَّہَا حَرَامٌ، وَلَکِنِّی أَخَافُ أَنْ تَعَاطَوُا الْمُومِسَاتِ مِنْہُنَّ۔
ترجمہ:حضرت سیدناشقیق رحمہ اللہ تعالی سے مروی ہے کہ حضرت سیدناحذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ نے ایک یہودیہ عورت کے ساتھ نکاح کیاتوحضرت سیدناعمر رضی اللہ عنہ نے انہیں خط لکھاکہ اسے چھوڑدو ۔ حضرت سیدناحذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ نے جوابی خط لکھاکہ اگرآپ فرماتے ہیں کہ یہ حرام ہے تومیں اس کو چھوڑدیتاہوں ۔ حضرت سیدناعمر رضی اللہ عنہ نے جواب لکھاکہ میں اسے حرام گمان نہیں کرتالیکن مجھے خوف ہے کہ تم ان میں سے بدکارعورتوں میں مشغول ہوجائوگے۔
(مصنف ابن ابی شیبہ:أبو بکر بن أبی شیبۃ، عبد اللہ بن محمد بن إبراہیم بن عثمان بن خواستی العبسی (۳:۴۷۴)
اسی وجہ سے عام فقہائے کرام اس کی کراہت کے قائل ہیں۔اس واقعے کی روشنی میں ماضی اور حال کا موازنہ کریں تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ حضرت سیدناعمررضی اللہ عنہ کا زمانہ خیرالقرون کا زمانہ ہے۔ جب کہ اس بات کا کوئی احتمال نہ تھا کہ کوئی یہودی، نصرانی عورت کسی مسلمان کی بیوی بن کر اسلام اور مسلمانوں کے خلاف کوئی سازش کرسکی۔ اس وقت تو صرف یہ خطرات سامنے تھے کہ کہیں ان میں بدکاری ہو تو ان کی وجہ سے ہمارے گھرانے گندے نہ ہوجائیں۔ یا ان کے حسن و جمال کی وجہ سے لوگ ان کو ترجیح دینے لگیں۔ جس کا نتیجہ یہ ہو کہ مسلمان عورتیں تکلیف میں پڑ جائیں۔ مگر فاروقی نظر ایسے ہی مفاسد کو سامنے رکھ کر ان حضرات کو طلاق پر مجبور کرتی ہے۔ اگر آج کا نقشہ ان حضرات کے سامنے ہوتا تو اندازہ کیجیے کہ ان کا اس کے متعلق کیا عمل ہوتا۔ اول تو وہ لوگ جو آج اپنے نام کیساتھ مردم شماری کے رجسٹروں میں یہودی یا نصرانی لکھواتے ہیں۔ ان میں سے بہت سے وہ لوگ ہیں جو اپنے عقیدہ کی رو سے یہودیت و نصرانیت کو ایک لعنت سمجھتے ہیں۔ نہ ان کا تورات و انجیل پر عقیدہ ہے نہ حضرت موسیٰ و عیسیٰ علیہما السلام پر۔ وہ عقیدہ کے اعتبار سے بالکل لامذہب اور دہریے ہیں۔ محض قومی یا رسمی طور پر اپنے آپ کو یہودی اور نصرانی کہتے ہیں۔

حضرت سیدناعبداللہ بن عمررضی اللہ عنہماکی رائے

عَنْ نَافِعٍ، أَنَّ ابْنَ عُمَرَ،کَانَ إِذَا سُئِلَ عَنْ نِکَاحِ النَّصْرَانِیَّۃِ وَالیَہُودِیَّۃِ، قَالَ:إِنَّ اللَّہَ حَرَّمَ المُشْرِکَاتِ عَلَی المُؤْمِنِینَ،وَلاَ أَعْلَمُ مِنَ الإِشْرَاکِ شَیْئًا أَکْبَرَ مِنْ أَنْ تَقُولَ المَرْأَۃُ:رَبُّہَا عِیسَی،وَہُوَ عَبْدٌ مِنْ عِبَادِ اللَّہِ ۔
ترجمہ :حضرت سیدنانافع رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت سیدناعبداللہ بن عمررضی اللہ عنہماسے جب کسی آدمی کے یہودی یانصرانی عوت کے ساتھ شادی کرنے کے متعلق سوال کیاگیاتوآپ رضی اللہ عنہ نے فرمایاکہ اللہ تعالی نے اہل ایمان پر مشرکہ عورتیں حرام قراردی ہیں ۔میں اس سے بڑاشرک کوئی نہیں جانتاکہ ایک عورت کہتی ہے کہ اس کارب عیسی علیہ السلام ہیں یااللہ تعالی کے بندوں میں سے کوئی بندہ ؟
(صحیح البخاری:محمد بن إسماعیل أبو عبداللہ البخاری الجعفی(۷:۴۸)

مطلب یہ کہ حضرت سیدناعبداللہ بن عمررضی اللہ عنہمایہودی اورعیسائی عورتوں کو مشرکہ شمارکرتے تھے ۔ ان کے ساتھ نکاح کی اجازت نہ دیتے تھے ۔ یہاں سے یہ مسئلہ بھی واضح ہواکہ جس طرح ابتدائً مشرکہ عورتوں کے ساتھ مسلمان مردوں کو نکاح کی اجازت نہیں اسی طرح مشرک مردوں کو خواہ وہ کتنے اچھے ہی کیوں نہ ہوں مسلمان عورتوں کو ان کے نکاح میں دینابھی حرام اورناجائزہے ۔ اسی طرح موحد میاں بیوی میں سے اگرکسی نے شرک کاارتکاب کیاتوان کانکاح بھی ٹوٹ جائے گا۔

امام ابن حبیب رحمہ اللہ تعالی کانظریہ

ذَکَرَہُ ابْنُ حَبِیبٍ،وَقَالَ:وَنِکَاحُ الْیَہُودِیَّۃِ وَالنَّصْرَانِیَّۃِ وَإِنْ کَانَ قَدْ أَحَلَّہُ اللَّہُ تَعَالَی مُسْتَثْقَلٌ مَذْمُومٌ۔
ترجمہ:حضرت سیدناامام ابن حبیب رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ یہودیہ اورنصرانیہ کے ساتھ نکاح کرنامذموم اورثقیل ہے اگرچہ اللہ تعالی نے اسے حلال قراردیاہے ۔
(المحرر الوجیز فی تفسیر الکتاب العزیز:أبو محمد عبد الحق بن غالب الأندلسی المحاربی (ا:۲۹۶)
عیسائی عورتوں سے نکاح کے بارے میں بھی شریعت میں تفصیلات موجودہیں،اہل کتاب سے نکاح اس وقت جائزہے جب حقیقتاً وہ آسمانی کتاب کے ماننے والے اور اس کے تابعدارہوں۔دھریے نہ ہوں۔فی زمانہ یہودونصاریٰ کی اکثریت آسمانی کتاب سے کوئی تعلق نہیں رکھتی لہذا ان سے نکاح جائزنہیں۔البتہ اگرتحقیق سے کسی عورت کااہل کتاب ہوناثابت ہوجائے توا س سے اگرچہ نکاح جائزہے تاہم چندمفاسد کی وجہ سے مکروہ ہے۔

امام احمدرضاحنفی الماتریدی رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں

تو معلوم ہوا کہ قائلین بنوت(یعنی حضرت سیدناعزیرعلیہ السلام کو اللہ تعالی کا بیٹاکہنے والے اورحضرت سیدناعیسی علیہ السلام کو اللہ تعالی کابیٹاکہنے والے) مشرکین ہیں مگر ظاہرالروایۃ میں ان پر علی الاطلاق حکم کتابیت دیا اور ان کے ذبائح ونساء کو حلال ٹھہرایا۔
وَصَحَّ نِکَاحُ کِتَابِیَّۃٍ)وَإِنْ کُرِہَ تَنْزِیہًا (مُؤْمِنَۃٍ بِنَبِیٍّ)مُرْسَلٍ (مُقِرَّۃٍ بِکِتَابٍ)مُنَزَّلٍ، وَإِنْ اعْتَقَدُوا الْمَسِیحَ إلَہًا، وَکَذَا حِلُّ ذَبِیحَتِہِمْ عَلَی الْمَذْہَبِ ۔
ترجمہ
کتابیہ عورت سے نکاح صحیح ہے اگرچہ مکروہ تنزیہی ہے بشرطیکہ وہ عورت کسی مرسل نبی پر ایمان رکھتی ہو اور کسی منزل من اﷲکتاب کا اقرار کرتی ہواگرچہ عمومی طور پر وہ نصاری عیسٰی علیہ السلام کو الٰہ مانتے ہوں یونہی ان کا ذبیحہ بھی مذہب میں حلال ہے۔
(رد المحتار علی الدر المختار:ابن عابدین، محمد أمین بن عمر بن عبد العزیز عابدین الدمشقی الحنفی (۳:۴۵)
(فتاوی رضویہ لامام احمدرضاحنفی ( ۱۴:۱۱۶)

نصاری کی خواتین کے ساتھ نکاح اوران کے ذبیحہ کاشرعی حکم

امام احمدرضاحنفی الماتریدی رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ مگر تاہم جبکہ علماء کا اختلاف ہے اوراس قول پر فتوٰی بھی منقول ہوچکا تو احتیاط اسی میں ہے کہ نصارٰی کی نساء وذبائح سے احتراز کرے، اور آج کل بعض یہود بھی ایسے پائے جاتے ہے جو عزیر علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ابنیت مانیں تو ان کے زن وذبیحہ سے بھی بچنا لازم جانیں کہ ایسی جگہ اختلاف ائمہ میں پڑنا محتاط آدمی کا کام نہیں، اگر فی الواقع یہ یہود و نصارٰی عنداﷲکتابی ہوئے تاہم ان کی عورتوں سے نکاح اور ان کے ذبیحہ کے تناول میں ہمارے لئے کوئی نفع نہیں، نہ شرعاً ہم پر لازم کیاگیا، نہ بحمد اﷲہمیں اس کی ضرورت بلکہ برتقدیر کتابیت کی بھی علماء تصریح فرماتے ہیں کہ بے ضرورت احتراز چاہئے۔
(فتاوی رضویہ لامام احمدرضاحنفی ( ۱۴:۱۲۲)

امام مالک بن انس رضی اللہ عنہ کانظریہ
وَکَرِہَ مَالِکٌ تَزَوُّجَ الْحَرْبِیَّاتِ، لِعِلَّۃِ تَرْکِ الْوَلَدِ فِی دَارِ الْحَرْبِ،وَلِتَصَرُّفَہَا فِی الْخَمْرِ وَالْخِنْزِیرِ.
ترجمہ:امام مالک بن انس رضی اللہ عنہ نے حربی کتابی عورتوں کے ساتھ نکاح کرنے کو مکروہ قراردیا، کیونکہ اس صورت میں بچے کو دارالحرب میں چھوڑناپڑے گااوراس کی بیوی شراب اورخنزیرمیں تصرف کرے گی۔
(المحرر الوجیز فی تفسیر الکتاب العزیز:أبو محمد عبد الحق بن غالب الأندلسی المحاربی (ا:۲۹۶)

جہاں مسلمان ضعیف اورکمزورہوں وہاں کتابی عورت سے نکاح کاحکم

اذا ضعف الرجال وجب المنع اذا کان اللہ قد حرم علی المسلمۃ ان تنزوج بالکتابی صوناعن التائر بسلطان زوجہا و قوامتہ علیہا فان السلام بری ان المسلم اذ شذ عن مرکز الطبیعی فی الاسرۃ بحکم ضعفہ القومی والقی بمقالید امرہ بین یدی زوجۃ غیر المسلمۃ وجب منعۃ من التزوج بالکتابیۃ و یوجب فی الوقت نفسہ علی الحکومۃ التی تدین بالاسلام و مبادتہ بالذوجۃ و تفار علی قومیتہا و شعائرہا فی ابنائہا ان تضع لہولاء الزین ینسلخون عن مرکزہم الطبیعی فی الاسرۃ حدا یردعہم عن غیہم
ترجمہ:وہ اس عنوان کے تحت جب مرد کمزور ہوں تومکمل ممانعت ہے لکھتے ہیں:اللہ تعالیٰ نے جب مسلمان عورت کے لئے اہل کتاب مرد سے نکاح حرام قراردیا ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ غیر مسلم خاوند اس پر غالب ہوگا اور اس کا اس پر حکم چلے گا تو اس لئے اسلام میں جو مرد اسلامی خاندانی مرکز سے دور ہوگیا کیوں کہ اس کا قومی و ملی جذبہ ماند پڑگیا ہے اور اس نے اپنے معاملات ایک غیر مسلم عورت کے سپر د کر دیئے ہیں تو اس کے لئے کتابی عورت سے نکاح مکمل طور پر منع ہے۔ ایسے حالات میں ایسی حکومت جو اپنے بیٹوں کے سلسلے میں اپنی قومیت اور اپنے شعائر کے ازدواجی اصولوں کی پابندی کرنے والی ہے اس پر فرض ہے کہ وہ ان لوگوں کیلئے غیر مسلموں سے شادی کی کوئی حد مقرر کرے جو اسلامی طبیعی خاندانی مرکز سے نکلنا چاہتے ہیں۔

مسلمان عورت کے ساتھ کافرکے نکاح نہ ہونے کی وجہ ؟

وَلا تَنْکِحُواأَیْ لَا تُزَوِّجُوا الْمُسْلِمَۃَ مِنَ الْمُشْرِکِ وَأَجْمَعَتِ الْأُمَّۃُ عَلَی أَنَّ الْمُشْرِکَ لَا یَطَأُ الْمُؤْمِنَۃَ بِوَجْہٍ، لِمَا فِی ذَلِکَ مِنَ الْغَضَاضَۃِ عَلَی الْإِسْلَامِ۔
ترجمہ :امام ابوعبداللہ محمدبن احمدالقرطبی المتوفی : ۶۷۱ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ {وَلا تَنْکِحُوا}کامعنی یہ ہے کہ تم مسلمان عورت کا کسی بھی مشرک شخص کے ساتھ نکاح نہ کرواورتمام امت کااس بات پر اجماع ہے کہ مشرک کسی بھی وجہ سے مومنہ عورت کے ساتھ صحبت نہیں کرسکتاکیونکہ اس میں اسلام کی ذلت ورسوائی ہے ۔
(تفسیر القرطبی:أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن أبی بکر بن فرح الأنصاری الخزرجی شمس الدین القرطبی (۳:۶۸)

اہل ایمان کو دردبھری نصیحت

ولا ینبغی للمؤمن ان تعجبہ المشرکۃ بمالہا وجمالہا فان من المسلمات من تدفع التعجب وفی المحیط مسلم رأی نصرانیۃ سمینۃ ونمنی ان یکون ہو نصرانیا حتی یتزوجہا یکفر وہذا من حماقتہ فان السمان الحسنۃ کثیرۃ فی الملۃ الحنیفیۃ ولکن علۃ الضم ہی الجنسیۃ۔
ترجمہ :امام اسماعیل حقی الحنفی المتوفی : ۱۱۲۷ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ مومن کے لئے ضروری ہے کہ وہ مشرکہ عورت کے مال وجمال کو دیکھ کر حیران نہ ہو، اس لئے کہ مسلمان عورتوں میں بعض اس جیسی ہوتی ہیں بلکہ اس سے بھی بڑھ کر۔ تومومن خواہ مخواہ کیوں دوزخ خریدتاہے ۔ محیط میں ہے کہ کوئی مسلمان کسی عیسائی عورت کے حسن وجمال کودیکھ کر دل میں آرزوکرے کہ کاش وہ نصرانی ہوتاتاکہ اس کے ساتھ نکاح کرلیتا۔ اس آرزوکی وجہ سے وہ کافرہوجائے گا۔ علاوہ ازیں اس کی حماقت اورپاگل پن بھی ہے ، اس لئے کہ اس جیسی حسین وجمیل مسلمانوں میں بھی بے شمارہیں، یہ آرزواسے دوزخ کی طرف لے گئی۔ کیونکہ اس کے ساتھ نکاح مشکل تھاجب تک ایک جنس نہ بنتا۔
(روح البیان:إسماعیل حقی بن مصطفی الإستانبولی الحنفی الخلوتی(۱:۳۴۶)
مرزائی مرد یاعورت سے نکاح کرنے کاشرعی حکم
مرزا غلام دجال قادیانی ملعون اور اس کے پیروکار جو اپنے آپ کو قادیانی، لاہوری یا مرزائی کہلاتے ہیں زندیق، مرتد اور دائرہ اسلام سے خارج ہیں، ان کے کفر پر امتِ مسلمہ کے تمام مکاتب کا اتفاق ہے۔ کسی بھی مسلمان کا مرتد سے نکاح جائز نہیں۔
مرتدسے نکاح کاشرعی حکم
اعْلَمْ أَنَّ تَصَرُّفَاتِ الْمُرْتَدِّ أَرْبَعَۃُ أَقْسَامٍ:نَافِذٌ بِالِاتِّفَاقِ کَالطَّلَاقِ وَالِاسْتِیلَادِوَبَاطِلٌ بِالِاتِّفَاقِ کَالنِّکَاحِ وَالذَّبِیحَۃِ لِأَنَّہُ یَعْتَمِدُ الْمِلَّۃَ وَلَا مِلَّۃَ لِلْمُرْتَدِّ.
ترجمہ:امام عبداللہ محمودبن مودود الحنفی المتوفی : ۶۸۳ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ جاننا چاہئے کہ مرتد کے تصرفات کی چند قسمیں ہیں:ایک قسم بالاتفاق نافذ ہے، جیسے:استیلاء اور طلاق۔ دُوسری قسم بالاتفاق باطل ہے، جیسے:نکاح اور ذبیحہ، کیونکہ یہ دونوں ملت پر موقوف ہیں اور مرتد کی کوئی ملت نہیں ہوتی۔
(الاختیار لتعلیل المختار:عبد اللہ بن محمود بن مودود مجد الدین أبو الفضل الحنفی (۴:۱۴۶)
امام محمدامین الدمشقی الحنفی المتوفی : ۱۲۵۲ھ) رحمہ اللہ تعالی لکھتے ہیں کہ
(وَلَا) یَصْلُحُ (أَنْ یُنْکِحَ مُرْتَدٌّ أَوْ مُرْتَدَّۃٌ أَحَدًا)مِنْ النَّاسِ مُطْلَقًاوقال الامام الشامی (قَوْلُہُ مُطْلَقًا) َٔیْ مُسْلِمًا أَوْ کَافِرًا أَوْ مُرْتَدًّا۔
ترجمہ :اور مرتد یا مرتدہ کا نکاح کسی انسان سے مطلقاً صحیح نہیں، یعنی نہ مسلمان سے، نہ کافر سے اور نہ مرتد سے۔
(رد المحتار علی الدر المختار:ابن عابدین، محمد أمین بن عمر بن عبد العزیز عابدین الدمشقی الحنفی (۳:۲۰۰)

لبرل وسیکولر طبقہ کے ساتھ نکاح کاشرعی حکم

لبرل ازم وسیکولرازم کے داعی حضرات اعلیٰ الاعلان اس صاف ستھرے اسلام پر تو اعتراض کرنے کی ہمت نہیں رکھتے البتہ انھوں نے اپنا ایک الگ اسلام اختراع کر لیا ہے اور اسے وہ ہم پر زبردستی تھوپنا چاہتے ہیں ،ان کااسلام اس اسلام سے قطعی مختلف ہے ،جو اللہ کی کتاب قرآن پاک میں موجود ہے، جو اسلام قرآن مجید میں محفوظ ہے، یہی حقیقی اسلام ہے۔ حضور تاجدارختم نبوتﷺاسی اسلام کو لے کر معبوث ہوئے تھے اسی جانب آپ ﷺنے لوگوں کو دعوت دی تھی ۔یہی وہ اسلام ہے جسے خلفاء راشدین رضوان اللہ عنہم اجمعین نے عملاً نافذ کیا اور جس کی تو ضیح و تشریح آئمہ محدثین اور مفسرین نے کی ہے، لیکن اسلام سے لادینیت پسندوں کی مراد ایسا اسلام ہے جن پروہ ان غلطیوں کا بوجھ لاد سکیں جو تاریخ میں مسلمانوں سے سرزد ہوئی ہیں وہ اسلام کی وہی تصویر پیش کرتے ہیں جو انھوں نے خود بنائی ہے یا ان کے پیش رو مستشرقین اور مسیحی مشنریوں نے تیار کی ہے ۔ان لبرل اورسیکولر کااسلام وہ نہیں جو حجاز مقدس سے آیااورصحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے توسط سے ہم تک پہنچاہے بلکہ ان کااسلام وہ ہے جو ان کو یورپی یونیورسٹیوں سے ملاہے اوران کے بے دین مستشرقین نے ان کو سمجھایاہے۔
جوعلماء کرام ملک میں دین کی حکومت کامطالبہ کرتے ہیں ان کو لبرل وسیکولرطبقہ اس طرح پھبتیاں کستاہے اوردین اسلام کامذاق اڑاتاہے کہ دین آنے سے ملک کی معیشت تباہ ہو جائے گی۔آپ تو پہلے ہی چاہتے ہیں ملک تباہ ہو جائے۔آپ تو ہمیں پتھر کے دور میں لے جانا چاہتے ہیں۔کچھ خدا کا خوف کریں وہ دن اور تھے۔دور بدل چکے ہیں آپ کو نہیں پتا کہ وقت کے ساتھ ساتھ احکامات بھی بدل جاتے ہیں؟ارے دین میں جبر نہیں۔ کیاتم نے کبھی قرآن نہیں پڑھا ؟جب کہ آپکی تو سزائیں ہی وحشیانہ ہیں۔کوڑے تو کبھی سنگسار۔توبہ توبہ۔پڑھو تیسرے پارے کی آیت کہ دین میں کوئی جبر نہیں۔عورت کو کسی کا ڈر نہ ہو۔مرد کے ساتھ سینہ تان کے چل سکے۔اپنا دین سنبھال کے رکھو۔اور اگر تمہارے دین پہ چلنا ہی سچا مسلمان ہے اور تم خود کو سچا مسلمان کہتے ہو تو میں مسلمان نہیں۔
(۱)سودکے بغیر نظام نہیں چلتا۔(۲)انشورنس کے بغیر کاروبار نہیں۔(۳)عورت کو سڑک پر لائے بغیر مارکیٹنگ اور ترقی نہیں۔ (۴)مسلمانوں کو بھول کر صرف ملکی مفاد کو دیکھنا ہی درست ہے۔(۵)آبادی کم کرنا اشد ضروری ہے۔(۶)مغربی آزادیوں کی پیروی کے بغیر کوئی چارہ نہیں۔(۷)مغربی عدالتوںکے بغیر انصاف نہیں۔(۸)آئین اور جمہوریت مقدس ہے۔(۹) نکاح ترقی میں رکاوٹ ہے ۔(۱۰)زناسے روکنادقیانوسی ہے ۔(۱۱)دین ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے ۔ (۱۲)مساجد ومدارس ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔(۱۳) دینی نظام کو تباہی کاسبب سمجھتاہے ۔
آج پاکستان میں نام نہاد مسلمان جو خود کو لبرل وسیکولر کہتے ہیں وہ نئے نئے عقائد اختیارکرچکے ہیں اورعقائد واعمال میں انگریزوں کے نقش قدم پر چل رہے ہیں ، ان میں ایسے لوگ بھی ہیں جو کہ خاندانی مسلمان ہیں ، اب وہ اتنے روشن خیال ہوچکے ہیں کہ وہ دین اسلام کے عقائدونظریات کے ساتھ تنفرکااظہارکرتے ہیں اورشریعت حقہ کامذا ق اڑاناان کاوطیرہ بن چکاہے اورایسے لوگ خود کو مسلمان کہلانابھی پسند نہیں کرتے ۔ یہ لوگ ضروریات دینی کاانکارکرتے ہیں،یہاں صرف اتنایادرکھیں عقیدے کی خرابی میں یہ لوگ مرزائیوں سے بھی غلیظ ہیں ۔ اوراس سبب سے شرعاً ان پر زندقہ کاحکم لگتاہے جس کی تفصیل ہم آگے چل کر بیان کریں گے ۔ لبرل مردہویاعورت اس کے ساتھ نکاح کرناشرعاً حرام ہے ۔

معارف ومسائل

(۱)حضرت مفتی احمدیارخان حنفی نعیمی رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ اس زمانے میں عام انگریز عورتیں جودہریئے ہوکر اللہ تعالی کی ذات ، انجیل شریف اورحضرت سیدناعیسی علیہ السلام کے منکرہوچکے ، ان سے نکاح جائز نہیں ، کیونکہ یہ عیسائی نہیں بلکہ دہریئے ہیں ، مسلمان سخت غلطی کرتے ہیں کہ بے تحقیق ولایت ( یورپ ) کی میموں ( انگریز خواتین ) کے ساتھ نکاح کرلیتے ہیں، مجھ سے ایک عیسائی پادری نے جس کانام پادری ایم سکاٹ تھانے بیان کیاکہ عام انگریز قومی عیسائی رہ گئے ہیں ، دینی عیسائی نہیں ۔ حضرت سیدناعیسی علیہ السلام اورانجیل بلکہ خود رب تعالی کے منکرہوچکے ہیں ۔
جومرد بظاہرمسلمان ہومگراس کے عقائدکفرتک پہنچ گئے ہوں اس سے مسلمان عورت کا نکاح کرنادرست نہیں ہے ، اگرنکاح ہونے کے بعد ایسے عقائد ہوجائیں تونکاح ٹوٹ جائے گا، پیغام وسلام کے وقت لڑکے کے عقائد کااطمینان کرکے زبان دی جائے اورعورتوںکو چاہئے کہ اگربعد نکاح شوہر کے ایسے عقائد ظاہرہوں تواس سے الگ ہوجائیں ، جس طرح ممکن ہواسے اپنے ساتھ صحبت نہ کرنے دیں اورسرپرستوں کو بھی اس میں عورت کی امدادکرناواجب ہے ۔ ہم مسلمانوں کو اس پر عمل کرنے کی پرزوررغبت دیتے ہیں کہ اگرشوہر نیچیری ( لبرل وسیکولر) قادیانی اورحضورتاجدارختم نبوتﷺکی گستاخی کرنے والاہویامنکرحدیث چکڑالوی مرتدہوتواس کے ساتھ کسی بھی مسلمان لڑکی کانکاح کرناہرگزہرگزجائز نہیں ہے ، اگربعد میں خاوندایساہوجائے تونکاح ٹوٹ جائے گا۔( تفسیرنعیمی ( ۲: ۳۷۹)
(۲)’’اور مشرکوں کے نکاح میں نہ دو جب تک وہ ایمان نہ لے آئیں‘‘۔یہ عورت کے سرپرستوں سے خطاب ہے کہ اپنی مسلمان عورتوں کو مشرکوں کے نکاح میں نہ دو۔ مسلمان عورت کا نکاح مشرک و کافر کے ساتھ باطل و حرام ہے۔مشرک و کافر لوگ تو تمہیں جہنم کی آگ کی طرف بلاتے ہیں جبکہ اللہ تعالیٰ تمہیں اپنی مغفرت کی طرف بلاتا ہے اور تمہیں نصیحت فرمانے کیلئے تم پر اپنے احکام نازل فرماتا ہے۔ اس آیت میں آج کل کے مسلمانوں کے لئے بہت واضح حکم موجود ہے۔انتہائی افسوس ہے کہ قرآن میں اتنی صراحت و وضاحت سے حکم آنے کے باوجود مسلمان لڑکوں میں مشرکہ لڑکیوں کے ساتھ اور یونہی کافر لڑکوں اور مسلمان لڑکیوں میں باہم شادیوں کا رجحان بڑھتا جارہا ہے ، خاص طور پر ان علاقوں میں جہاں کفارو مسلم اکٹھے رہتے ہیں۔ مغربی طرزِزندگی نیز لڑکوں اور لڑکیوں کی مخلوط تعلیم سے جہاں اور تباہیاں مچی ہوئی ہیں اور بے حیائی کا طوفان امڈ آیا ہے وہیں باہم ایسی حرام شادیوں کے ذریعے زندگی بھر کی بدکاری کے سلسلے بھی جاری و ساری ہیں۔ اس تمام صورتحال کا وبال اُن لڑکوں لڑکیوں پر بھی ہے جو اس میں مُلَوَّث ہیں اور ان والدین پربھی جو راضی خوشی اولاد کو اس جہنم میں جھونکتے ہیں اور ان حکمرانوں اور صاحب ِ اختیار پر بھی ہے جو ایسی تعلیم کو رواج دیتے ہیں یا باوجودِ قدرت اس کا اِنسِداد کرنے کی کوشش نہیں کرتے اور یونہی اس کا وبال اُن نام نہاد جاہل دانشوروں ، لبرل اِزم کے مریضوں اور دین دشمن قلمکاروں پر بھی ہے جو اس کی تائید و حمایت میں ورق سیاہ کرتے ہیں۔ تفسیرصراط الجنان ( ۱: ۳۴۱)
(۳)کتابیہ لڑکی (خواہ عیسائی ہو یا یہودی)سے نکاح جائز ہے، اور شادی کے بعد وہ اپنے مذہب پر قائم رہ سکتی ہے؛ لیکن کتابیہ لڑکی سے نکاح کرنے میں مفاسد او رخرابیاں ہیں اس لیے اس سے نکاح کرنے سے احتراز لازم ہے مفتی شفیع عثمانی دیوبندی کی تفسیرمعارف القرآن میں ہے :جمہور صحابہ و تابعین کے نزدیک اگرچہ از روئے قرآن، اہل کتاب کی عورتوں سے فی نفسہ نکاح حلال ہے لیکن ان سے نکاح کرنے پر جو دوسرے مفاسد اور خرابیاں اپنے لئے او راپنی اولاد کے لیے بلکہ پوری امت اسلامیہ کے لیے از روئے تجربہ لازمی طور پر پیدا ہوں گی ان کی بنیاد پر اہل کتاب کی عورتوں سے نکاح کو بھی مکروہ سمجھتے تھے بالغرض اگر وہ اپنے مذہب کے پابند بھی ہوں تو ان کو کسی مسلمان گھرانہ میں جگہ دینا اپنے پورے خاندان کے لیے دینی او ردنیوی تباہی کو دعوت دینا ہے، اسلام او رمسلمانوں کے خلاف جو شازشیں اس راہ سے اس آخری دور میں ہوئیں اور ہوتی رہتی ہیں جن کے عبر ت نامے روز آنکھوں کے سامنے آتے ہیں کہ ایک لڑکی نے پوری مسلم قوم او رسلطنت کو تباہ کردیا یہ ایسی چیزیں ہیں کہ حلال و حرام سے قطع نظر بھی کوئی ذی ہوش انسان اس کے قریب جانے کے لیے تیار نہیں ہوسکتا ۔معارف القرآن (۳: ۶۲ ،۶۳)
(۴) اس سے معلوم ہواکہ گرچہ اسلام اس بات کی حوصلہ افزائی نہیں کرتا کہ اہل کتاب کی عورتوں سے شادی کی جائے تاہم مطلقاً اجازت سے انکار نہیں کیا جا سکتا یا موجودہ دور کے یہود و نصاریٰ کے متعلق یہ بات قابل غور ہے کہ وہ اہل کتاب کی تعریف میں داخل ہیں یا نہیں، اور ظاہر بات یہ ہے کہ آج کل کے اکثر یہود و نصاریٰ فقط نام کے یہود و نصاریٰ ہیں جن کا اپنی کتاب اور اس کی تعلیمات پر سرے سے ایمان نہیں ہے، بلکہ یہ دھریہ قسم کے لوگ ہیں جو صرف تعداد بڑھانے کے لیے یا اپنی قومی نسبت کو پیش نظر رکھتے ہوئے اپنے یہودی یا عیسائی ہونے کا ذکر کرتے ہیں اس جیسی صورتحال میں ان کی عورتوں کے مسلمان ہوئے بغیر ان سے نکاح جائز نہیں کیونکہ اس صورت میں یہ اہل کتاب میں سے نہیں ہوں گے۔ فتوی جامعہ اشرفیہ )
(۵) جیساکہ آجکل ہمارے ہاں انگریزی تعلیم یافتہ لوگ یاوہ لوگ جو عرصہ دراز سے یورپ میں رہتے بستے ہیں اوروہاں مقیم ہیں ، اپنے دین دین اسلام کے ساتھ وابستہ ہیں اوروہاں اس بنیاد پر یورپی عورتوں کے ساتھ شادیاں کرتے ہیں کہ وہ لوگ اہل کتاب ہیں ، حالانکہ وہ لوگ نہ ہی عیسائی ہیں اورنہ ہی یہودی ۔ انہیں کسی دین کاپتہ ہی نہیں ، لامذہبیت والحاد اتناعام ہے کہ لوگ اپنے کسی بھی عقیدہ سے واقف نہیں ہیں ۔ لھذاایسے مسلمانوںپر لازم ہے کہ وہ ایسی خواتین کے ساتھ نکاح کرنے سے گریز کریں کیونکہ ان کے ساتھ نکاح شرعاً درست نہیں ہے ۔
(۶) اس سے یہ بھی معلوم ہواکہ کفرکااثرکتناہی ضعیف اورکمزورہی کیوں نہ ہولیکن پھربھی کتابیہ کے اختلاط سے جوخطرات ہیں ان کو نظرانداز نہیں کیاسکتا۔ خاص کر ہمارے اس موجودہ زمانے میں کہ اکثروبیشترمردلوگ اپنے دین وشریعت کی اتباع میں کمزورہیں ۔ صحیح عقائدحقہ سے مکمل ناواقف ہیںاورتجربہ شاہد ہے کہ وہ زمانہ گزرگیاجہاں حکمرانی مردکے ہاتھ میں ہوتی تھی ۔ آج مشرق سے لیکر مغرب تک عورت کی حکمرانی ہے ۔ مردبیچارا برائے نام مرد ہے ، بس حالات کایہی تقاضہ ہے کہ بدعقیدہ یہودی وعیسائی اورلبرل وسیکولر عورتوں سے مکمل اجتناب کیاجائے کیونکہ ہمارے اپنے مشاہدے کی بات ہے کہ کئی مسلمان مردوں نے جنت کااستحاق ضائع کیااورکافرہ بیوی کی دوزخ کی نذرہوگئے ۔

Leave a Reply