ملحدین اورمنکرین ِوجود باری تعالی کازبردست رد تفسیر سورہ بقرہ آیت ۲۱ اور ۲۲
{یٰٓاَیُّہَا النَّاسُ اعْبُدُوْا رَبَّکُمُ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ وَالَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ}(۲۱){الَّذِیْ جَعَلَ لَکُمُ الْاَرْضَ فِرٰشًا وَّالسَّمَآء َ بِنَآء ً وَّاَنْزَلَ مِنَ السَّمَآء ِ مَآء ً فَاَخْرَجَ بِہٖ مِنَ الثَّمَرٰتِ رِزْقًا لَّکُمْ فَلَا تَجْعَلُوْا لِلہِ اَنْدَادًا وَّ اَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ}(۲۲)
ترجمہ کنزالایمان:اے لوگو اپنے رب کو پوجو جس نے تمہیں اور تم سے اگلوں کو پیدا کیا یہ امید کرتے ہوئے کہ تمہیں پرہیزگاری ملے،جس نے تمہارے لئے زمین کو بچھونا اور آسمان کو عمارت بنایا اور آسمان سے پانی اتارا تو اس سے کچھ پھل نکالے تمہارے کھانے کو تو اللہ کے لئے جان بوجھ کر برابر والے نہ ٹہراؤ ۔
ترجمہ ضیاء الایمان: اے لوگو! تم اپنے رب تعالی کی عبادت کرو، جس نے تم کو اورتم سے پہلے لوگوں کو پیدافرمایا، یہ امیدکرتے ہوئے کہ تم پرہیزگاربن جائو، جس نے تمھارے لئے زمین کو بچھونااورآسمان کو عمارت بنایااورآسمان سے پانی اتاراتواس سے کچھ پھل تمھارے کھانے کے لئے نکالے ، تم جان بوجھ کر اللہ تعالی کے ساتھ کسی کو شریک نہ بنائو۔
صدرالافاضل سید نعیم الدین مراد آبادی رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ اوّل سورہ میں کچھ بتایا گیا کہ یہ کتاب متَّقین کی ہدایت کے لئے نازل ہوئی پھر متَّقین کے اوصاف کا ذکر فرمایا ، اس کے بعد اس سے منحرف ہونے والے فرقوں کا اور ان کے ا حوال کا ذکر فرمایا کہ سعادت مند انسان ہدایت و تقوٰی کی طرف راغب ہو اور نافرمانی و بغاوت سے بچے ، اب طریقِ تحصیلِ تقوٰی تعلیم فرمایا جاتا ہے ۔
{یٰاَ یُّھَاالنَّاسُ}کا خِطاب اکثر اہلِ مکّہ کو اور {یٰاَ یُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا }کا اہلِ مدینہ کو ہوتا ہے مگر یہاں یہ خِطاب مومن کافِر سب کو عام ہے ، اس میں اشارہ ہے کہ انسانی شرافت اسی میں ہے کہ آدمی تقوٰی حاصل کرے اور مصروفِ عبادت رہے ۔ عبادت و ہ غایت تعظیم ہے جو بندہ اپنی عبدیت اور معبودکی اُلُوہیت کے اعتقاد و اعتراف کے ساتھ بجا لائے ۔ یہاں عبادت عام ہے اپنے تمام انواع و اقسام و اصول و فروع کو شامل ہے ۔ مسئلہ :کُفّار عبادت کے مامور ہیں جس طرح بے وضو ہونا نماز کے فرض ہونے کا مانع نہیں اسی طرح کافِر ہونا وجوبِ عبادت کو منع نہیں کرتا اور جیسے بے وضو شخص پر نماز کی فرضیت رفعِ حدث لازم کرتی ہے ایسے ہی کافِرپر کہ وجوبِ عبادت سے ترکِ کُفر لازم آتا ہے ۔
(تفسیرخزائن العرفان از سید نعیم الدین مراد آبادی :۱۰)
رسول اللہ ﷺکاحضرت عمران بن حصین سے سوال
فِی کِتَابِ دِیَانَاتِ الْعَرَبِ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ لِعِمْرَانَ بْنِ حُصَیْنٍ کَمْ لَکَ مِنْ إِلَہٍ قَالَ عَشْرَۃٌ، قَالَ فَمَنْ لِغَمِّکَ وَکَرْبِکَ وَدَفْعِ الْأَمْرِ الْعَظِیمِ إِذَا نَزَلَ بِکَ مِنْ جُمْلَتِہِمْ؟ قَالَ اللَّہُ، قَالَ عَلَیْہِ السَّلَامُ: مالک مِنْ إِلَہٍ إِلَّا اللَّہُ ۔
ترجمہ:امام محمدبن عمر الرازی رحمہ اللہ تعالی کتاب ’’دیانات العرب ‘‘ سے نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے حضرت سیدناعمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے پوچھاتمھارے کتنے خداہیں ؟ توانہوںنے عرض کی : دس ۔ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: جب تم پر کوئی غم یامصیبت آجائے تو ان میں سے مددکون کرتاہے ؟ عرض کی : اللہ تعالی میری مددفرماتاہے ۔ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: تمھاراکوئی الہ نہیں ہے سوااللہ تعالی کے ۔
(التفسیر الکبیر:أبو عبد اللہ محمد بن عمر بن الحسن بن الحسین التیمی الرازی(۲:۳۱۹)
ایک لبرل کو امام جعفرصادق رضی اللہ عنہ کاجواب
یُرْوَی أَنَّ بَعْضَ الزَّنَادِقَۃِ أَنْکَرَ الصَّانِعَ عِنْدَ جَعْفَرٍ الصَّادِقِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ فَقَالَ جَعْفَرٌ:ہَلْ رَکِبْتَ الْبَحْرَ؟ قَالَ نَعَمْ.قَالَ ہَلْ رَأَیْتَ أَہْوَالَہُ؟ قَالَ بَلَی، ہَاجَتْ یَوْمًا رِیَاحٌ ہَائِلَۃٌ فَکَسَّرَتِ السُّفُنَ وَغَرَّقَتِ الْمَلَّاحِینَ، فَتَعَلَّقْتُ أَنَا بِبَعْضِ أَلْوَاحِہَا ثُمَّ ذَہَبَ عَنِّی ذَلِکَ اللَّوْحُ فَإِذَا أَنَا مَدْفُوعٌ فِی تَلَاطُمِ الْأَمْوَاجِ حَتَّی دُفِعْتُ إِلَی السَّاحِلِ، فَقَالَ جَعْفَرٌ قَدْ کَانَ اعْتِمَادُکَ مِنْ قَبْلُ عَلَی السَّفِینَۃِ وَالْمَلَّاحِ ثُمَّ عَلَی اللَّوْحِ حَتَّی تُنْجِیَکَ، فَلَمَّا ذَہَبَتْ ہَذِہِ الْأَشْیَاء ُ عَنْکَ ہَلْ أَسْلَمْتَ نَفْسَکَ لِلْہَلَاکِ أَمْ کُنْتَ تَرْجُو السَّلَامَۃَ بَعْدُ؟ قَالَ بَلْ رَجَوْتُ السَّلَامَۃَ، قَالَ مِمَّنْ کُنْتَ تَرْجُوہَا فَسَکَتَ الرَّجُلُ فَقَالَ جَعْفَرٌ: إِنَّ الصَّانِعَ ہُوَ الَّذِی کُنْتَ تَرْجُوہُ فِی ذَلِکَ الْوَقْتِ، وَہُوَ الَّذِی أَنْجَاکَ مِنَ الْغَرَقِ فَأَسْلَمَ الرَّجُلُ عَلَی یَدِہِ۔
ترجمہ :حضرت سیدناامام جعفرصادق رضی اللہ عنہ کی خدمت میں ایک زندیق (لبرل ) موجود تھااس نے اللہ تعالی کے وجود کاانکارکیا، آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: کیاتم نے کبھی سمندرکاسفرکیاہے ؟ کہنے لگاکہ ہاں ! آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: کیاکبھی ایساہواہو کہ تم اس کے طوفان میں پھنس گئے ہو؟ اس نے کہا: جی ہاں ۔ ایک دن ایسی شدت سے ہواچلی کہ اس نے کشتیاں توڑ دیں اورملاحوں کو غرق کردیا، میں کشتی کے تخت کے ساتھ لٹک گیا، پھروہ بھی میرے ہاتھ سے چھوٹ گیاتومیں تلاتم امواج میں چلاگیا، انہوں نے مجھے ساحل ِ سمندرپرپھینک دیا، آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: پہلے تیرااعتماد کشتی اورملاح پر تھا، اس کے بعد تختے پر تھاکہ وہ تجھے نجات دے گا۔ جب یہ تمام اشیاء غرق ہوگئیں توکیااس کے بعد تونے اپنے آپ کو ہلاکت کے سپردکردیایاسلامتی کاامیدواررہا؟ تواس نے کہاکہ میں سلامتی کاامیدواررہا۔آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اس کے بعد تونے کس سے امید وابستہ کی تھی؟ توجواب میں خاموش ہوگیاتوآپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: بے شک صانع وہی ذات ہے جس سے تونے اس وقت امید باندھی تھی اوراسی نے غرق ہونے سے تجھے بچالیا، تویہ سنتے ہی اس نے آپ رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر کلمہ پڑھااورمسلمان ہوگیا۔
(التفسیر الکبیر:أبو عبد اللہ محمد بن عمر بن الحسن بن الحسین التیمی الرازی(۲:۳۱۹)
امام اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ کاملحدین کو زبردست جواب
کَانَ أَبُو حَنِیفَۃَ رَحِمَہُ اللَّہُ سَیْفًا عَلَی الدَّہْرِیَّۃِ، وَکَانُوا یَنْتَہِزُونَ الْفُرْصَۃَ لِیَقْتُلُوہُ فَبَیْنَمَا ہُوَ یَوْمًا فِی مَسْجِدِہِ قَاعِدٌ إِذْ ہَجَمَ عَلَیْہِ جَمَاعَۃٌ بِسُیُوفٍ مَسْلُولَۃٍ وَہَمُّوا بِقَتْلِہِ فَقَالَ لَہُمْ: أَجِیبُونِی عَنْ مَسْأَلَۃٍ ثُمَّ افْعَلُوا مَا شِئْتُمْ فَقَالُوا لَہُ ہَاتِ، فَقَالَ: مَا تَقُولُونَ فِی رَجُلٍ یَقُولُ لکم إنی رأیت سفینۃ تَجْرِی مُسْتَوِیَۃً لَیْسَ لَہَا مَلَّاحٌ یُجْرِیہَا وَلَا مُتَعَہِّدٌ یَدْفَعُہَا ہَلْ یَجُوزُ ذَلِکَ فِی الْعَقْلِ؟ قَالُوا: لَا، ہَذَا شَیْء ٌ لَا یَقْبَلُہُ الْعَقْلُ؟ فَقَالَ أَبُو حَنِیفَۃَ: یَا سُبْحَانَ اللَّہِ إِذَا لَمْ یَجُزْ فِی الْعَقْلِ سَفِینَۃٌ تَجْرِی فِی البحر مستویۃ من غیر متعہد ولا مجری فَکَیْفَ یَجُوزُ قِیَامُ ہَذِہِ الدُّنْیَا عَلَی اخْتِلَافِ أَحْوَالِہَا وَتَغَیُّرِ أَعْمَالِہَا وَسِعَۃِ أَطْرَافِہَا وَتَبَایُنِ أَکْنَافِہَا مِنْ غَیْرِ صَانِعٍ وَحَافِظٍ؟ فَبَکَوْا جَمِیعًا وَقَالُوا: صَدَقْتَ وَأَغْمَدُوا سُیُوفَہُمْ وَتَابُوا.
ترجمہ :امام محمدبن عمر الرازی رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ امام اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ لبرل وزندیق جو لوگ اللہ تعالی کے منکرہیں ان کے خلاف ننگی تلوارتھے ، اسی لئے ملحدین اورلبرل ہمیشہ ان کو شہید کرنے کی کوشش کرتے رہتے تھے ، ایک دن آپ رضی اللہ عنہ مسجد شریف میں بیٹھے تھے تومسلح جماعت جو ملحدین پر مشتمل تھی ان پر حملہ آورہونے لگی ، تاکہ ان کو شہید کردیاجائے ، آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: مجھے ایک مسئلہ کاجواب دو، اس کے بعد تم جو چاہوکرو، کہنے لگے : پوچھو۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: تم اس شخص کے بارے میں کیاکہتے ہو؟ جو یہ کہے کہ میں نے کشتی دیکھی جس پر لوگ سوارتھے اوربوجھ سے مالامال اورسمندرکی موجیں اورہوائیں بھی مخالف چل رہی تھیں لیکن وہ صحیح راستے پر چل رہی ہے ، حالانکہ اسے چلانے والانہ کوئی ملاح ہے اورنہ ہی کوئی محافظ ، کیاعقل اس کو ممکن مانتی ہے ؟ توانہوںنے کہا: عقل اس کو ہر گز قبول نہیں کرتی ۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: جب عقل ایسی کشتی کو تسلیم نہیں کرتی کہ وہ سمندر میں بغیر محافظ وملاح کے چلتی ہوتووہ اس ساری دنیاکانظام باوجود یکہ اس کے احوال میں اختلاف ، اس کے اعمال میں تغیر ، اس کے اطراف میں وسعت اوراس کے کناروں میں تخالف ہے عقل بغیر کسی صانع اورمحافظ کے کیسے مان لے گی ؟ اس پر تمام لوگ رونے لگ گئے اورکہنے لگے کہ اے ابوحنیفہ تم سچ کہتے ہو، اس پر سب نے اپنی تلواریں نیام میں کرلی اوروہیں کھڑے کھڑے سب توبہ کرگئے ۔
(التفسیر الکبیر:أبو عبد اللہ محمد بن عمر بن الحسن بن الحسین التیمی الرازی(۲:۳۱۹)
سترہ ملحدین ایک مجلس میں مسلمان ہوگئے
سَأَلُوا الشَّافِعِیَّ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ مَا الدَّلِیلُ عَلَی وُجُودِ الصَّانِعِ؟ فَقَالَ:وَرَقَۃُ الْفِرْصَادِ طَعْمُہَا وَلَوْنُہَا وَرِیحُہَا وَطَبْعُہَا وَاحِدٌ عِنْدَکُمْ؟ قَالُوا: نَعَمْ، قَالَ:فَتَأْکُلُہَا دُودَۃُ الْقَزِّ فَیَخْرُجُ مِنْہَا الْإِبْرَیسَمُ، وَالنَّحْلُ فَیَخْرُجُ مِنْہَا الْعَسَلُ. وَالشَّاۃُ فَیَخْرُجُ مِنْہَا الْبَعْرُ، وَیَأْکُلُہَا الظِّبَاء ُ فَیَنْعَقِدُ فِی نَوَافِجِہَا الْمِسْکُ فَمَنِ الَّذِی جَعَلَ ہَذِہِ الْأَشْیَاء َ کَذَلِکَ مَعَ أَنَّ الطَّبْعَ وَاحِدٌ؟ فَاسْتَحْسَنُوا مِنْہُ ذَلِکَ وَأَسْلَمُوا عَلَی یَدِہِ وَکَانَ عَدَدُہُمْ سَبْعَۃَ عَشَرَ۔
ترجمہ :حضرت سیدناامام الشافعی رضی اللہ عنہ سے سوال کیاگیاکہ اللہ تعالی کے وجود پر کیادلیل ہے ؟ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایاکہ شہتوت کاپتاہے۔ کیامانتے ہواس کاذائقہ ، رنگ ، خوشبواورطبع ایک ہی ہے ؟ کہنے لگا: ہاں ۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اسے ریشمی کیڑاکھائے توریشم بنتاہے ، شہد کی مکھی کھائے تو شہد بنتاہے ، بکری کھائے تو مینگنی بنتی ہے ، ہرن کھائے اس کی ناف میں کستوری بنتی ہے ، یہ اشیاء بنانے والاکون ہے ؟ حالانکہ طبع واحد ہے ، انہوںنے دلیل کی خوب تعریف کی اوران کے ہاتھ پر مسلمان ہوگئے اوران کی تعداد سترہ تھی ۔
(التفسیر الکبیر:أبو عبد اللہ محمد بن عمر بن الحسن بن الحسین التیمی الرازی(۲:۳۱۹)
امام اعظم رضی اللہ عنہ کاوجود باری تعالی پر کمال استدلال
سُئِلَ أَبُو حَنِیفَۃَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ مَرَّۃً أُخْرَی فَتَمَسَّکَ بِأَنَّ الْوَالِدَ یُرِیدُالذَّکَرَ فَیَکُونُ أُنْثَی، وَبِالْعَکْسِ فَدَلَّ عَلَی الصَّانِعِ۔
ترجمہ :حضرت سیدناامام اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ سے ایک بار وجود باری تعالی کے بارے میں سوال ہواتوآپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: والد بیٹاچاہتاہے مگربیٹی پیداہوجاتی ہے یاپھربیٹی چاہتاہے تواس کے برعکس ہوجاتاہے یعنی بیٹاپیداہوجاتاہے ۔ یہی دلیل ہے وجود باری تعالی پر۔
(التفسیر الکبیر:أبو عبد اللہ محمد بن عمر بن الحسن بن الحسین التیمی الرازی(۲:۳۳۳)
مرغی کے انڈے سے استدلال پر لبرل خاموش
تَمَسَّکَ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ بِقَلْعَۃٍ حَصِینَۃٍ مَلْسَاء َ لَا فُرْجَۃَ فِیہَا ظَاہِرُہَا کَالْفِضَّۃِ الْمُذَابَۃِ وَبَاطِنُہَا کَالذَّہَبِ الْإِبْرِیزِ، ثُمَّ انْشَقَّتِ الْجُدْرَانُ وَخَرَجَ مِنَ الْقَلْعَۃِ حَیَوَانٌ سُمَیْعٌ بَصِیرٌ فَلَا بُدَّ مِنَ الْفَاعِلِ، عَنَی بِالْقَلْعَۃِ الْبَیْضَۃَ وَبِالْحَیَوَانِ الْفَرْخَ۔
ترجمہ :حضرت سیدناامام احمدبن حنبل رضی اللہ عنہ نے ایسے محفوظ قلعے سے استدلال کیاجو ہرطرف سے بندہواوراس میں سراخ نہ ہواوراس کاظاہرپگھلی ہوئی چاندی اوراس کاباطن خالص سونے کی طرح ہولیکن اس کی دیوار پھٹے تواس میں سے حیوان سننے،دیکھنے والاسامنے آجائے توفاعل کاہوناضروری ہے ۔ یہاں قلعہ سے مراد انڈہ ہے اورحیوان سے مراد مرغی کابچہ مراد ہے ۔
(التفسیر الکبیر:أبو عبد اللہ محمد بن عمر بن الحسن بن الحسین التیمی الرازی(۲:۳۳۳)
امام دارالہجرۃ رضی اللہ عنہ کاجواب
سَأَلَ ہَارُونُ الرَّشِیدُ مَالِکًا عَنْ ذَلِکَ فَاسْتَدَلَّ بِاخْتِلَافِ الْأَصْوَاتِ وَتَرَدُّدِ النَّغَمَاتِ وَتَفَاوُتِ اللُّغَاتِ۔
ترجمہ :حضرت ہارون الرشید رحمہ اللہ تعالی نے امام مالک رضی اللہ عنہ سے اللہ تعالی کے وجود کے بارے میں سوال کیا: آپ رضی اللہ عنہ نے اختلاف اصوات ، مترنم نغمات اورتفاوتِ لغات ولسان سے استدلال کیا۔
(التفسیر الکبیر:أبو عبد اللہ محمد بن عمر بن الحسن بن الحسین التیمی الرازی(۲:۳۳۳)
ایک دیہاتی کازبردست جواب
سُئِلَ أَعْرَابِیٌّ عَنِ الدَّلِیلِ فَقَالَ: الْبَعْرَۃُ تَدُلُّ عَلَی الْبَعِیرِ.وَالرَّوْثُ عَلَی الْحَمِیرِ، وَآثَارُ الْأَقْدَامِ عَلَی الْمَسِیرِ، فَسَمَاء ٌ ذَاتُ أَبْرَاجٍ، وَأَرْضٌ ذَاتُ فِجَاجٍ. وَبِحَارٌ ذَاتُ أَمْوَاجٍ، أَمَا تَدُلُّ عَلَی الصَّانِعِ الْحَلِیمِ الْعَلِیمِ الْقَدِیرِ؟
ترجمہ :ایک دیہاتی سے سوال کیاگیاکہ اللہ تعالی کے وجود پر کیادلیل ہے ؟ توا س نے جواب دیاکہ مینگنی اونٹ پر ، لید گدھے پر ، قدموں کے نشانات چلنے والے پر دلالت کرتے ہیںتوبرجوں والاآسمان ، گہرے راستوں والی زمین اورموجوں والے سمندرکیایہ تمام علیم وقدیرصانع عزوجل پر دلیل نہیں ہیں؟
(التفسیر الکبیر:أبو عبد اللہ محمد بن عمر بن الحسن بن الحسین التیمی الرازی(۲:۳۳۳)
دوطبیبوں کااستدلال
قِیلَ لِطَبِیبٍ:بِمَ عَرَفْتَ رَبَّکَ؟ قَالَ بِإِہْلِیلِجٍ مُجَفَّفٍ أُطْلِقُ، وَلُعَابٍ مُلَیِّنٍ أُمْسِکُ! وَقَالَ آخَرُ: عَرَفْتُہُ بِنَحْلَۃٍ بِأَحَدِ طَرَفَیْہَا تَعْسِلُ، وَالْآخَرِ تَلْسَعُ! والعسل مقلوب اللسع۔
ترجمہ :ایک طبیب سے کسی نے سوال کیاکہ تم نے اپنے رب تعالی کو کیسے پہچانا؟ تواس نے جواب دیاکہ سخت نزلہ بہتاہے اورنرم تھوک رکارہتاہے ۔کسی دوسرے طبیب نے کہا: میں نے اللہ تعالی کو شہد کی مکھی سے پہچاناہے ، اس کے ایک طرف شہدجبکہ دوسری طرف زہرہے جو کہ شہد کے برعکس ہے ۔
(التفسیر الکبیر:أبو عبد اللہ محمد بن عمر بن الحسن بن الحسین التیمی الرازی(۲:۳۳۳)
علم دین کے تمام علوم سے افضل ہونے پر زبردست دلائل
آیت نمبر ۲۱میں اللہ تعالی نے اپنی صفت ربوبیت کاذکرفرمایااورساتھ ہی اپنی صفت خلق کاذکرفرمایا، تواس مناسبت سے امام الرازی رحمہ اللہ تعالی اللہ تعالی کی ذات وصفات کے متعلق حصول ِ علم پر کلام فرماتے ہیں اس علم کی افضلیت کو زبردست دلائل سے مبرہن فرمایا، اس میں کچھ ہم یہاں بطورتبرک نقل کرتے ہیں ۔
دلیل اول
الْمَقَامُ الْأَوَّلُ:فِی بَیَانِ فَضْلِ ہَذَا الْعِلْمِ وَہُوَ مِنْ وُجُوہٍ: أَحَدُہَا: أَنَّ شَرَفَ الْعِلْمِ بِشَرَفِ الْمَعْلُومِ فَمَہْمَا کَانَ الْمَعْلُومُ أَشْرَفَ کَانَ الْعِلْمُ الْحَاصِلُ بِہِ أَشْرَفَ فَلَمَّا کَانَ أَشْرَفَ الْمَعْلُومَاتِ ذَاتُ اللَّہِ تَعَالَی وَصِفَاتُہُ وَجَبَ أَنْ یَکُونَ الْعِلْمُ الْمُتَعَلِّقُ بِہِ أَشْرَفَ الْعُلُومِ۔
ترجمہ :امام محمدبن عمر الرازی المتوفی : ۶۰۶ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ علم کاشرف معلوم کے شرف کی بناء پرہوتاہے ، جیسے جیسے معلوم اعلی ہوگاتواس کاعلم بھی اس قدراعلی قرارپائے گا، جب اللہ تعالی کی ذات وصفات تمام صفات سے اشرف ہیں تولازم ہے اس کے متعلق علم بھی سب علوم سے افضل ہو۔
(التفسیر الکبیر:أبو عبد اللہ محمد بن عمر بن الحسن بن الحسین التیمی الرازی(۲:۳۱۹)
دوسری دلیل
وَثَانِیہَا: أَنَّ الْعِلْمَ إِمَّا أَنْ یَکُونَ دِینِیًّا أَوْ غَیْرَ دِینِیٍّ، وَلَا شَکَّ أَنَّ الْعِلْمَ الدِّینِیَّ أَشْرَفُ مِنْ غَیْرِ الدِّینِیِّ، وَأَمَّا الْعِلْمُ الدِّینِیُّ فَإِمَّا أَنْ یَکُونَ ہُوَ عِلْمَ الْأُصُولِ، أَوْ مَا عَدَاہُ، أَمَّا مَا عَدَاہُ فَإِنَّہُ تَتَوَقَّفُ صِحَّتُہُ عَلَی عِلْمِ الْأُصُولِ، لِأَنَّ الْمُفَسِّرَ إِنَّمَا یَبْحَثُ عَنْ مَعَانِی کَلَامِ اللَّہِ تَعَالَی، وَذَلِکَ فَرْعٌ عَلَی وُجُودِالصَّانِعِ الْمُخْتَارِ الْمُتَکَلِّمِ، وَأَمَّا الْمُحَدِّثُ فَإِنَّمَا یَبْحَثُ عَنْ کَلَامِ رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَذَلِکَ فَرْعٌ عَلَی ثُبُوتِ نُبُوَّتِہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَالْفَقِیہُ إِنَّمَا یَبْحَثُ عَنْ أَحْکَامِ اللَّہِ، وَذَلِکَ فَرْعٌ عَلَی التَّوْحِیدِ وَالنُّبُوَّۃِ، فَثَبَتَ أَنَّ ہَذِہِ الْعُلُومَ مُفْتَقِرَۃٌ إِلَی عِلْمِ الْأُصُولِ، وَالظَّاہِرُ أَنَّ عِلْمَ الْأُصُولِ غَنِیٌّ عَنْہَا فَوَجَبَ أَنْ یَکُونَ عِلْمُ الْأُصُولِ أَشْرَفَ الْعُلُومِ۔
ترجمہ :امام محمدبن عمر الرازی المتوفی : ۶۰۶ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ علم دینی ہوتاہے یاغیردینی ، بلاشبہ دین کاعلم دوسرے تمام علوم سے افضل واعلی ہے ، علم دینی ، علم اصول ہے یااس کے علاوہ، جو اس کی صحت علم اصول پر موقوف ہوگی کیونکہ مفسر:کلام اللہ تعالی کے معانی سے بحث کرتاہے اوریہ صانع مختار ومتکلم کے وجود کی فرع ہے ، محدث :رسول اللہ ﷺکے کلام سے بحث کرتاہے یہ ثبوت نبوت محمدی ﷺکی فرع ہے ، مجتہد:اللہ تعالی کے احکامات سے بحث کرتاہے اوریہ ثبوت توحید ونبوت کی فرع ہے لھذا ثابت ہوایہ تمام علوم علم الاصول کے محتاج ہیں ، ظاہرہے علم الاصول ان سے مستغنی ہے لھذاعلم الاصول کااشرف ہوناضروری ہے ۔
(التفسیر الکبیر:أبو عبد اللہ محمد بن عمر بن الحسن بن الحسین التیمی الرازی(۲:۳۱۹)
حضرت صدرالشریعہ مولانامفتی امجدعلی اعظمی رحمہ اللہ تعالی اپنے علاقہ میں اپناذاتی مطب چلاتے تھے اورانتہائی زیرک طبیب تھے ، ایک دن امام احمدرضاحنفی الماتریدی رحمہ اللہ تعالی کی زیارت کے لئے بریلی شریف آئے توامام احمدرضاحنفی رحمہ اللہ تعالی نے سوال کیاکہ آپ کیاکرتے ہیں ؟ مولاناامجد علی اعظمی رحمہ اللہ تعالی نے عرض کیا: حضور ! مطب چلاتاہوں ۔ امام اہل سنت رحمہ اللہ تعالی نے فرمایا: حضرت یہ ارشاد فرمایئے کہ صبح ہی صبح قرآن وحدیث سے مسائل بیان کرنابہترہے یاصبح ہی صبح مطب پربیٹھ کر لوگوں کے پیشاب دیکھنا؟ بس اتناسنتے ہی حضرت مولاناامجد علی اعظمی رحمہ اللہ تعالی نے اپنے مطب کو ترک کردیااورساری زندگی قرآن وحدیث کی خدمت میں صرف کردی ۔ آج بہارشریعت جو کہ فقہ حنفی پر ایک شاندار کام ہے وہ آپ کے ہی ہاتھ سے لکھی ہوئی کتاب ہے ۔
آج بھی کتنے لوگ ہیں جن کو قرآن کریم اورحدیث شریف کی تمام علوم پرافضلیت سمجھ نہیں آتی ، کتنے لوگ ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ فلاں شخص نے قرآن کریم اورحدیث شریف کی تعلیم اپنے ملک میں پائی اوراعلی تعلیم کے لئے امریکہ چلاگیا۔ نعوذ باللہ من ذلک ! تمام احباب اس پرغورفرمائیں کہ یہ شخص کیاکہہ رہاہے کہ قرآن وحدیث سے اعلی تعلیم کونسی ہے ؟ یہ ذہن میں رہے ایساشخص جو قرآن وحدیث سے کسی انگریز ی فن کو اعلی کہے اس کااسلام کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے ۔
ملحدین ، سیکولر ولبرل اورمنکرین وجود باری تعالی سے کچھ سوالات
شیخ حامدکمال الدین لکھتے ہیں کہ مملکت خداداد پاکستان میں بڑھتی ہوئی لادینیت اورسیکولرازم کے نتیجہ میں بہت سے لوگ وجود باری تعالی کے منکرہوچکے ہیں اوراسی طرح بہت سے لوگوں کاایمان متزلزل کردیاگیاہے یعنی ان کو شک میں مبتلاکرکے رب تعالی کے متعلق متشکک کردیاگیاہے اوراسی طرح بہت سے وہ ہیں جو سرے سے ہی دین سے بیزارہوگئے ہیں۔ہم ان نظریاتی ملحدین سے مخاطب ہیں اور خصوصی طور پہ پاکستانی معاشرے میں واقعاتی طور پہ بڑھتے ہوئے انگریزی تربیت یافتہ طبقے کے الحاد سے بھی۔ ہم وطن ِ عزیز کے متشککین سے بھی عرض گزار ہیں اور مخلصین سے بھی۔ کیا نفس پرستی، مفاد پرستی، تعصب و عناد اس قابل ہیں کہ وہ انسان کو اس کی سب سے بڑی ضرورت سے دور رکھ سکیں؟نظریاتی ملحدین مندرجہ ذیل سوالات کی تحقیق کی سچائی سے جواب تلاش کریں، واقعاتی بنیادوں پہ ملحد ہونے والے سچائی اور جھوٹ کی معیاری کسوٹی حاصل کریں،متشککین شک سے نکلیں اور مخلصین کچھ کر گزرنے کا عزم باندھیں ۔ وگرنہ طوفان تو طوفان ہے اجاڑ کے رکھ دیتا ہے، سیلاب تو سیلاب ہے تباہی مقدر کردیتا ہے، زلزلہ تو زلزلہ ہے مضبوطی اس کے سامنے بودی ثابت ہوتی ہے، لاوا تو لاوا ہے کون رکاوٹ بن سکتاہے؟ہم سمجھتے ہیں کہ خدا کا وصل انسان کو لذت، ترقی ، سکون اور ابدی کامیابی نصیب کرتا ہے اور خدا کا انکار بد ذوقی، اضطراب،گھْن اور ہمیشہ کی ناکامی۔ انکار گھٹن اور اقرار آزاد فضا کے صحت مند سانس کی ضمانت دیتا ہے۔ ہم ذیل میں کچھ سوالات نقل کرتے ہیں انگریزی زدہ طبقہ سے جو الحاد کاشکارہوکر کفرکی وادیوں میں جاگراہے اور ان سے ان کے جوابات کے طالب ہیں:
٭…اللہ تعالی کا ہونا زیادہ سائنسی ہے یا نہ ہونا؟
٭…اللہ تعالی کاہونا زیادہ تاریخی ہے یا نہ ہونا؟
٭…اللہ تعالی کاہونا انسان اور معاشرہ کے لیے زیادہ ضروری ہے یا نہ ہونا؟
٭…اللہ تعالی کے ساتھ کائنات کا تصور کامل ہے یا اللہ تعالی کے بغیر؟
٭…نفسیاتی طور پہ اللہ تعالی کا انکار فائدہ مند ہے یا اقرار؟
٭…خدائی سہا رے کا ہونا دگرگوں حالات میں مایوسی سے حوصلے کی جانب سفر ہے یا نہ ہونا؟
٭…فزکس کے اس اصول کاکیا کیا جائے کہ ہم دس لاکھ میں سے صرف پانچ چیزوں کو جانتے ہیں۔ گویا باقی سب کچھ غیب میں ہے یعنی عظیم ترین حقائق غیب میں ہیں؟
٭…عقلی طور پہ منکرینِ خدا کا موقف زیادہ وزنی معلوم ہوتا ہے یا اللہ تعالی پر ایمان رکھنے والوں کا؟
٭…پسند ناپسند، تعصبا ت،محدود سوچ اور رجحانات رکھنے والے انسان کا اصولی ضابطہ بنانا زیادہ ممکن نظر آیا ہے یا انسانی تناقضات سے پاک اصول کسی برتر طاقت کا تقاضا کرتے ہیں؟
٭…ان منکرین کا کیاکیا جائے جو کہتے ہیں کہ اگر چہ خدا نہیں ہے تب بھی یہ انسانی معاشرے کے لئے ضرورت ہے؟
٭…جو کہتے ہیں کہ زندگی یک خلوی جاندار سے شروع ہوئی تو یہ جان دار کیسے تخلیق ہوا؟
٭…مخلوقات کا ایک آغاز متجسس ذہن کے لیے آسودگی کا زیادہ سامان رکھتا ہے یا کوئی شروعات نہ ہونا؟
٭ …خدا کا تصور زیادہ قدیم ہے یا انکار؟
٭…اللہ تعالی پر ایمان رکھنے والوں کے دعوئوں اور پیغامات میں زیادہ یکسانیت رہی ہے یا خدا بیزاروں کے؟
٭… اللہ تعالی کے انبیاء کرام علیہم السلام کے مثالی سیرت و کردار کے مقابلے میں ملحدین کے کس قدر نمونے لائے جاسکتے ہیں؟اور سچائی کے مجسموں کے دعوے مانے جانے کے زیادہ لائق ہیں یا نہیں؟
٭…کائنات کی ابتدا و انتہا پہ فیصلہ کن کلام الحاد پیش کرتا ہے یااللہ تعالی کی نازل کردہ کتاب (یعنی قرآن کریم )؟
٭…تاریخ میں ہر حوالے سے خدائی دعوئوں کوپیچھے ہٹنے کی ضرورت محسوس ہوئی ہے یا الحادی دعاوی کو؟
٭…تجرباتی طور پہ ہمہ نوع اضطراب دور کرنے کی طاقت خدا تعالی کے پاس ثابت ہوئی ہے یا منکرین وجودباری تعالی کے پاس؟
٭…بارہا مطمئن الہامی معاشروں کے مقابلے میں کتنے مطمئن الحادی معاشرے پیش کیے جاسکتے ہیں؟
٭…آپ کہتے ہیں کہ خدا کے اثبات کا کیا ثبوت پیش کریں گے۔ ہم کہتے ہیں کہ خدا کی نفی کا کیا ثبوت پیش ہو سکا ہے ؟
٭… جدید ترین تحقیقات الوہیت کی قبولیت کی طرف جھکائو رکھتی ہیں یا رَد کی طرف؟
٭…سب سہاروں کے گِر جانے کے باوجود ایک سہارا قائم رہنے کا تصور پلٹ کر جھپٹنے کے لیے معاون ہے یا بے سہارا رہ جانے کا تصور؟
٭…دنیا کے عظیم ترین دماغوں کی غالب ترین اکثریت عقیدہ وجود باری تعالی کے حق میں اکٹھی ہے یا مخالفت میں؟
٭…معاشرے کی ترقی کے لیے متشککین ،ملحدین اورلبرل زیادہ کارآمد ہیں یا اللہ تعالی کی ذات پر ایمان رکھنے والے ؟
٭…انسانی دماغ یقین کو پانا چاہتا ہے یا مستقل شکّی پن کے نفسیاتی مرض کو؟
٭…انسانی تجسس جواب چاہتا ہے یا سوال در سوال در سوال؟ اور اس با شعور مخلوق کے مشکل ترین سوالات کو حتمی جوابات لا ریب فیہ کے انمٹ دعوے کے ساتھ الحاد پیش کرتا آیا ہے یااللہ تعالی کی ذات پر ایمان رکھنے والے؟۔
قرآن کریم کو سائنس کے تابع کرنے والوں کے لئے تازیانہ عبرت
سورۃ البقرہ کی آیت نمبر۲۲ میں اللہ تعالی نے کائنات کی تخلیق اوراس میں موجود نباتات کاذکرفرمایا، اس سے بعض سائنس زدہ بے دین طبقہ قرآن وحدیث کو سائنس کے تابع کرناچاہتاہے اوربعض ذہنی طور پر مفلوج مولوی بھی یہی کہتے ہوئے سنائی دیتے ہیں کہ قران کریم کی اب سائنسی تفسیر کرنی چاہئے تاکہ ہم کفارکو یہ باورکراسکیں کہ ہماراقرآن کریم بھی سائنسی علوم سے بھراہواہے ۔لھذاایسے لوگوں کارد کرناانتہائی ضروری ہے کہ تم ساری دنیاکو قرآن کریم کے تابع کرو نہ کہ قرآن کریم کو تم کفارکی سوچ اوران کے بنائے ہوئے کلیے کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرو۔
قرآن کی سائنسی تفسیر ات کے ضمن میں ایک عام گمراہی الفاظ قرآنی کی دوراز کار تاویلات کرکے فی زمانہ مروج سائنس کے ہر مشہور نظرئیے کو قرآن سے ثابت کرنے کی کوشش کرنا بھی شامل ہے ۔ اس سعی کے پیچھے یہ مفروضہ کارفرما ہے کہ قرآن مجید سے کسی سائنسی نظرئیے کا ثابت نہ ہوسکنا گویا قرآن کے لیے ایک قسم کا عیب ہے۔لہذا ڈارون کے حیات انسانی کے نظریہ ارتقاء ، کائنات کی ابتداء کی بگ بینگ تھیوری ، نیززمین کی حرکت وسورج کی مرکزیت سے لیکر ایٹم بم تک کے نظریات قرآن سے نکالے جارہے ہیں اور ایسا کرنے میں ہی اسلام کا بھلا سمجھا جارہا ہے۔اس قسم کے تفسیری شاہکار خصوصاً مصر کے علامہ طنطاوی کی تفسیرا لجواہر میں دیکھے جاسکتے ہیں، جس کے بارے میں علماء کی رائے یہ ہے کہ اس کتاب میں سوائے قرآن کی تفسیر کے اور سب کچھ ہے۔
اس طرز تفسیر کے مضمرات و نقصانات کا اندازہ اس تاریخی حقیقت سے لگایا جاسکتاہے کہ جس وقت دنیا میں یہ نظریہ عام تھا کہ زمین ساکن ہے اور سورج اس کے گرد گھومتا ہے تو چرچ نے اس عقیدے کو عیسائی ایمانیات کا لازمی حصہ بنا کر اسے بائبل کے ساتھ منسوب کردیا۔اس عقیدے کو اپنانے کی وجہ یہ نہ تھی کہ بائبل میں اس کے بارے میں کوئی واضح تعلیم دی گئی تھی ،بلکہ اس کی وجہ یہ تھی کہ یہ عقیدہ چرچ کے اس تصور کے ساتھ مناسبت رکھتا تھا کہ چونکہ خدا کا بیٹا اس زمین پر تشریف لایا، لہذا زمین ہی کائنات کامرکز بھی ہونی چاہئے۔ البتہ جب سائنس کی دنیا میں کو پرنیکس کے اس نظرئیے کو مقبولیت حاصل ہوئی کہ کائنا ت کا مرکز زمین نہیں بلکہ سورج ہے اور زمین اس کے گرد چکر لگاتی ہے تو عیسائی دنیا کا ایمان بائبل سے جاتا رہا۔اس ناقابل تلافی نقصان کی اصل ذمہ دار بائبل نہیں بلکہ چرچ کا ناعاقبت اندیشانہ رویہ تھا جس نے ایک ایسی بات کو بائبل کی طرف منسوب کیا جس کی اس میں کوئی تعلیم نہیں دی گئی تھی اور اس رویے کا نقصان سائنس کو نہیں بلکہ عیسائیت کو ہوا۔جلتی پر تیل ڈالنے کا کام چرچ کے ان مظالم نے کیا جو بعض ملحد قسم کے سائنس دانواں پر توڑے گئے ۔اس رد عمل کے بجائے اگر چرچ اپنی علمی غلطی کا اعتراف کرکے یہ اعلان کردیتا کہ بائبل کے ساتھ مرکزیت زمین کے نظرئیے کومنسوب کرنا غلط ہے تو شاید عیسائی مذہب کو ناقابل تلافی نقصان نہ پہنچتا اور نہ چرچ اور پوپ کے کردار کو تاریخ میں محض ایک برائی کے طور پر رقم کرکے مسخ کیا جاتا۔
جیسا کہ اوپر بتایا گیا کہ قرآن کی سائنسی تفسیر کے پیچھے یہ غلط مفروضہ کار فرما ہے کہ کسی سائنسی نظرئیے کا قرآن سے ثابت نہ ہونا قرآن کے لیے ایک عیب ہے۔ درحقیقت یہ مفروضہ قرآن کے اصل موضوع کو نہ سمجھنے کی وجہ سے پیدا ہوا ہے ۔قرآن کوئی سائنس کی کتاب نہیں کہ جس میں فزکس، کیمسٹری، حیاتیات وغیرہ کی تفصیلات بیان کی گئی ہوں بلکہ قرآن کا اصل موضوع نوع انسانیت کی اس راستے کی طرف ہدایت کرنا ہے جس پر عمل پیرا ہوکر وہ اپنے رب کے حضور سر خرو ہوسکے۔چنانچہ کسی سائنسی نظرئیے کا قرآن میں نا ہونا کوئی عیب نہیں کیونکہ یہ قرآن کا موضوع ہی نہیں۔اگر کوئی شخص قانون کی کسی کتاب میں کسی سائنسی ایجاد کی وجہ سے پیدا ہونے والی قانونی پیچیدگیوں کی تفصیلات دیکھ کر یہ طے کرلے کہ وہ سائنس کا ہر نظریہ اس کتاب سے نکالے گا تو ایسے شخص کی عقل پر ہر شخص ماتم کرے گااور اس سے یہی کہے گا کہ بھائی یہ قانون کی کتاب ہے نا کہ سائنس کی نیز اس میں اگر کوئی سائنسی بات زیر بحث لائی بھی گئی ہے تواسے قانون ہی کے موضوع کے تحت سمجھنا چاہئے۔جس طرح قانون کی کتاب میں طب،فزکس ،کیمسٹری کی تفصیلات کا نہ ہونا کوئی عیب نہیں ایسے ہی قرآن میں سائنسی بیانات کا نہ ہونا کوئی عیب نہیں۔نیز جس طرح کسی قانون کی کتا ب میں کسی سائنسی ایجاد یا تاریخی واقعے کے درج ہونے سے وہ سائنس یا تاریخ کی کتاب نہیں بن جاتی ،بالکل اسی طرح قرآن میں کسی سائنسی حقیقت کی طرف ضمناًاشارہ آجانے سے قرآن سائنس کی کتاب نہیں بن جاتی بلکہ اس بیان کی صحیح تفہیم کے لیے ضروری ہے کہ اسے قرآن کے عمومی موضوع کے تحت ہی سمجھا جائے۔یہ بالکل ایسا ہی ہے کہ جیسے قرآن میں ماضی کی کئی امتوں کے حالات پر تفصیلی روشنی ڈالی گئی ہے ،اب اگر کوئی شخص قرآن کو تاریخ کی کتاب سمجھ لے اور اس میں ساری انسانیت کے تاریخی واقعات تلاش کرنا شروع کردے تو وہ سخت غلطی کا مرتکب ہوگاکیونکہ قرآن جب کسی ماضی کے واقعے کی طرف اشارہ کرتا ہے تو بطور تاریخی حوالے کے نہیں بلکہ بطورہدایت (نصیحت،عبرت،ہمت و صبر پیدا کرنا وغیرہم) کرتا ہے اور اسی پس منظر میں رہ کر ہی ان واقعات کی درست تفہیم ممکن ہے۔مثلاًحضرت یوسف علیہ السلام کا طویل قصہ بیان کرنے کے بعد سورہ یوسف کی آخری آیت میں قرآن کہتا ہے :
{لقد کا ن فی قصصہم عبرۃ لاولی الباب} (اگلے لوگوں کے ان واقعات میں ہوش مندوں کے لیے عبرت ہے)
ایسے ہی کسی سائنسی بیان کے بعد قرآن کہتا ہے کہ اس میں عقل اور ایمان والوں کے لیے اللہ تعالی کی نشانیاں ہیں یا اس میں عقل والوں کے لیے عبرت کا سامان ہے وغیرہ۔ دوسرے لفظوں میں قرآن کا کسی سائنسی حقیقت کوبیان کرنے کا مقصد ہرگزکسی سائنسی نظرئیے کی داغ بیل ڈالنا ، لوگوں کو سائنس سکھانا یا انسانوں کو تسخیر کائنات پر ابھارنا نہیں ہوتا، بلکہ ہدایت انسانی کی خاطر اسے ایک ایسی حقیقت کی طرف اشارہ کرنا ہوتا ہے جس پر غور کرکے وہ اصل حقیقت تک پہنچ کر خود کو اپنے رب کے حضور جھکا دے۔
یہ چند باتیں اختصار کے ساتھ اہل علم کی خدمت میں عرض کی گئی ہیں۔کوئی ہرگز اس احساس کمتری میں مبتلا نہ ہو کہ سائنس کو قرآن سے علیحدہ کرنے سے خدا نخواستہ معجز نما قرآن کی شان کم ہوجائے گی، بلکہ اصل حقیقت یہ ہے کہ سائنسی علم کی حقیقت سے ناواقفیت کی بنا پر ہمارے مفکرین نے سائنس کو اسلام سے ملانے کی خاطر جودعوے تراش رکھے ہیں وہ مغربی سائنس کی تاریخ سے تو میل کھاتے ہیں، مگر تاریخ انبیاء علیہم السلام اور قرآن کی بنیادی تعلیمات سے ہرگزمطابقت نہیں رکھتے ۔ نیز سائنسی علم کو قرآنی علوم میں جگہ دینا گویا ایساہی ہے جیسے کوئی شخص کسی پاک ،صاف اور شفاف پانی کی نہر میں کہیں دور دراز سے ایک گدلے پانی کا پرنالہ گرانا شروع کردے۔ ہمیں اس بات میں کوئی شک وشبہ نہیں کہ ہمارے مفکرین کی ایسی تمام سعی اورکوششیں خلوص نیت پر ہی مبنی ہیں، لیکن صرف خلوص نیت کسی بات کے صحیح ہونے کا معیار نہیں بن سکتا ، جیسے کسی ماں کا کتنے ہی خلوص اور محبت کے ساتھ اپنے بچے کو زہر پلادینا بچے کے لیے تریاق نہیں بن سکتا۔
سائنسی علمیت کو قرآن پر منطبق کرنے کے بھیانک نتائج
(۱)عقل وحی پر حاکم ہے
سائنس کا تصور حقیقت قبول کرلینے کا دوسرا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ ہم یہ مان لیں کہ علم کا اصل منبع وحی نہیں بلکہ عقل انسانی ہے، نیز یہ کہ وحی تب ہی معتبر ہوگی کہ جب وہ سائنس کے اصولوں کے مطابق ہو۔ دوسرے لفظوں میں وحی عقل پر نہیں، بلکہ عقل وحی پر حاکم ہے۔یہ دعوی کہ سائنس کے ذریعے حق تک پہنچنا ممکن ہے اس بات کا اقرار ہے کہ عقل کے ذریعے خیر اور شر، حق اور باطل کا ادراک کرلینا ممکن ہے۔اور اگر عقل کے ذریعے ایسا کرنا ممکن ہے تو پھر وحی، نبوت اور شریعت بے کار باتیں ہیں جنکی کوئی ضرورت ہی نہیں۔(نعوذ باللہ من ذلک )یہی وہ رجحانات ہیں جو قرون اولی میں معتزلہ فرقے کے ہاں پائے جاتے تھے جب انھوں نے عقل کو وحی سے بالاتر گردانا تو خود کو شریعت، نبوت اور وحی سے بے نیاز سمجھنے لگے۔
یہ کوئی قصہ پارینہ ہی نہیں، بلکہ اگر کوئی شخص اس رجحان کا عملی نظارہ کرنا چاہتا ہے تو وہ مغربی فلاسفہ اور ان کے الحادی خیالات پر بننے والے معاشروں کو دیکھ لے کہ جہاں عقل اور سائنس کی غیر منطقی بالا دستی کے نتیجے میں فکر آخرت ، خوف خدا، للہیت، عشق رسولﷺ، تقوی،عفت، حیا، زہد، فقر، قناعت وغیرہ جیسے مذہبی حقائق اور اعلی صفات کس طرح مہمل اور بے معنی ہوکر رہ گئے ہیں۔ اور بدقسمتی یہ ہے کہ اب مسلمان معاشروں میں بھی جدید سائنسی علوم کی اعلی سطح پر بالادستی کی وجہ سے اخروی نجات کے بجائے دنیاوی عیش و آرام، اصلاح و تسخیر قلب نیز علم باطن کے حصول کے بجائے سائنسی ایجادات اور تسخیر کائنات کرنے کی فکر اور رجحانات عام ہوتے جارہے ہیں جو ایک نہایت خطرناک امرہے۔
(۲)اسلامی تعلیمات قابل رد ہیں:
اب ہم یہ بتاتے ہیں کہ سائنسی علمیت کو اسلام پر منطبق کرنے کے نتائج کیا نکلتے ہیں۔ اس کوشش کا ایک لازمی نتیجہ یہ ہے کہ ہم یہ مان لیں کہ اسلام کی تمام تعلیمات،بشمول اس کے عقائد،احکامات ،اخلاقیات ،وغیرہم، اصولی طور پر قابل ردہیں۔یہ اسلئے ضروری ہے کیونکہ فی زمانہ مروج سائنسی معیار علم کے مطابق صرف وہی باتیں اور مفروضات علم کہلانے کے مستحق ہیں جنہیں تجربے اور مشاہدے میں لاکر رد کرنا ممکن ہو۔ جو مفروضات تجربے کی روشنی میں ناقابل رد ہوں وہ قطعاً سائنسی علم نہیں ہوسکتے۔چنانچہ سائنس اور غیر سائنس میں تمیز کرنے والی شے کا امکان تردید ہی ہے ۔
اب دیکھئے کہ اس بات کی زد کہاں کہاں پڑتی ہے ۔قرآن مجید سورہ بقرہ کے بالکل ابتدائی کلمات میں اپنا تعارف ہی ان الفاظ سے کراتا ہے کہ{ ذالک الکتاب لاریب فیہ} یعنی اس میں بیان کردہ حقائق کے غلط ہونے یا ان میں شک کرنے کا کوئی امکان ہے ہی نہیں ۔ایک شخص کا ایمان اس وقت تک معتبر ہی نہیں ہوتا جب تک وہ اس بات پر کامل ایمان نہ رکھتا ہو کہ اسلام کے بیان کردہ حقائق نا قابل رد ہیں۔اب علماء خود پڑتال کرسکتے ہیں کہ کیاایسے شخص کا ایمان کوئی حیثیت رکھتا ہے جو اس بات کے امکان کو بھی مانتا ہو کہ قرآن و سنت میں بیان کردہ حقائق تجربے وغیرہ کی روشنی میں غلط ثابت کیے جاسکتے ہیں؟ لہذایہ کہنا کہ اسلام ایک سائنسی مذہب ہے ایک مومن کے ایمان پر نقب لگانے کے مترادف ہے۔
(۳)اسلامی تعلیمات حتمی اور دائمی نہیں:
دوسری اہم بات جس کی طرف توجہ کرنا لازم ہے وہ یہ کہ کسی علم کے سائنس کہلانے کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ کبھی حتمی اورقطعی نہ ہو۔ سائنسی علم وہی ہوتا ہے کہ جس میں ارتقاء کا عمل اور امکان ہمیشہ جاری رہے۔سائنس میں کوئی بھی حقیقت حتمی نہیں ہوتی۔اس کے تمام تر حقائق عارضی نوعیت کے ہوتے ہیں یعنی جسے تجربے کی روشنی میں آج حقیقت سمجھ کر مان لیا گیا ہے،ہو سکتا ہے کل کوئی نیا تجربہ اس کی تردید کردے اور وہ بات جسے اب تک حقیقت سمجھا جاتا تھا بدل کر ماضی کی حکایت اور آج کی گمراہی بن جائے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ سائنس میں دریافت شدہ حقائق اس وقت تک کی میسر آنے والی معلومات اور مشاہدات کی روشنی میں ہوتے ہیں اور چونکہ مشاہدات و مدرکات میں تنوع اور وسعت کا امکان ہر لمحہ موجود رہتا ہے، اس لئے سائنس کے ہر اصول وقاعدے میں تبدیلی و تغیر کا امکان ہر وقت موجود رہتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ سائنس کی دریافت کردہ کسی بھی حقیقت کو حتمی اور قطعی قرا رنہیں دیا جاتا۔ چنانچہ وہ علم جو اس بات کا دعوی کرے کہ اس میں جو بات کہہ دی گئی ہے وہ حتمی ،قطعی اور زمان ومکان کی قیود سے آزاد ہے ہرگز سائنس نہیں ہوسکتی۔
لہٰذایہ کہنا کہ اسلام ایک سائنسی مذہب ہے اس بات کے اعتراف کے مترادف ہے کہ اس میں بیان کردہ تمام حقائق آفاقی اور ابدی نہیں بلکہ عارضی ہیں ۔نیز وقت اور حالات کے تبدیل ہونے سے انکی حقانیت بھی بدل سکتی ہے۔ اب علما ء کرام اس بات سے خوب واقف ہیں کہ جو شخص ایسا ایمان رکھتا ہو اس کے ایمان کی حیثیت کیا ہے۔اس قسم کے عقیدے کے بعد ان دعووں میں آخر کیا معنویت رہ جاتی ہے کہ اسلام ایک آفاقی دین ہے اور رسول اللہ ﷺساری نوع انسانی کے ہر ہر فرد ،وقت اور مقام کے لیے راہ ہدایت متعین کرنے والے رسول بنا کر بھیجے گئے ہیں؟
اسلام کو سائنسی علم کی کسوٹی پرپرکھنے کا منطقی نتیجہ یہ ہے کہ ہر سو دو سو سال کے بعد بنیادی عقائداور احکامات میں تبدیلی لائی جائے اور ہر صدی کے بعد احکام و قوانین از سر نو مرتب کیے جائیں۔ اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے متجددین حضرات آئے دن اجتہاد کے نام پردین اسلام کی نئی تعبیروتشریحات پیش کرتے رہتے ہیں اور انہیں علما ء کرام سے بھی یہ شکایت رہتی ہے کہ انھوں نے اجتہاد کا دروازہ بند کیوں کردیا ہے۔ان متجددین کو دراصل یہی غم کھا ئے جاتا ہے کہ کسی طرح اسلام کو سائنسی علوم (چاہے وہ نیچرل ہوں یا سوشل سائنسز) کے عین مطابق ثابت کردکھائیں ۔لیکن شاید وہ یہ نہیں جانتے کہ وہ اسلام کو جس معیار علم پر منطبق کرنا چاہتے ہیں اس علم میں بذات خودکسی بات کے حق اورباطل پر ہونے کی جانچ کرنے کا کوئی قطعی معیار موجودنہیں۔یہی وجہ ہے کہ گزشتہ سوا سو سال کے عرصے میں بلامبالغہ اسلام کی درجنوں تعبیرات پیش کی جا چکی ہیں اور ہر نئی تعبیر پیش کرنے والے مفکر کا یہی دعوی ہے کہ اصل اسلام توبس یہی ہے۔ پس سائنس کی اتنی حقیقت جان لینا ہی ایک ہوش مند شخص کی آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی ہے ، مگر چونکہ ذہن سائنس کے سحر اور کفر سے مغلوب ہوچکے ہیں تو اس غلبے کو رفع کرنے کی خاطر ان دلائل کا جائزہ لینا بھی ضروری ہوجاتا ہے جس کے سہارے جدید سائنس کواسلام کے مساوی یا متبادل حقیقت کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔