تفسیر سورہ بقرہ آیت ۲۰۸۔۲۰۹۔ لبرل کس مذہب کے پیروکارہیں؟

لبرل کس مذہب کے پیروکارہیں؟

{یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا ادْخُلُوْا فِی السِّلْمِ کَآفَّۃً وَّ لَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِ اِنَّہ لَکُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ}(۲۰۸){فَاِنْ زَلَلْتُمْ مِّنْ بَعْدِ مَا جَآء َتْکُمُ الْبَیِّنٰتُ فَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللہَ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ}(۲۰۹)
ترجمہ کنزالایمان :اے ایمان والو اسلام میں پورے داخل ہو اور شیطان کے قدموں پر نہ چلو بیشک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔اور اگر اس کے بعد بھی بچلو کہ تمہارے پاس روشن حکم آچکے تو جان لو کہ اللہ زبردست حکمت والاہے۔
ترجمہ ضیاء الایمان :اے ایمان والو! اسلام میں پورے کے پورے داخل ہوجائواورشیطان کے قدموں کی پیروی نہ کروبے شک وہ تمھاراکھلادشمن ہے ۔ پس اگرتم پھسل گئے بعد اس کے کہ تمھارے پاس واضح باتیں آگئیں ، پس جان لوکہ بے شک !اللہ تعالی زبردست حکمت والاہے ۔
اس آیت کریمہ میں اﷲتعالیٰ نے مومنین کی ایک ایسے ضابطے کی طرف رہنمائی فرمائی ہے۔ جس پر عمل پیرا ہونے کی برکت سے ان کا ایمان ایمانِ کامل اور یقین یقینِ صادق کے مرتبہ پر فائز ہوجائے گا۔ اور وہ یہ ہے کہ پورے کا پورا اسلام میں داخل ہوجانا۔ یعنی ہاتھ،پائوں، آنکھ، کان، دل اور دماغ الغرض از سرتا پا اور از روح تا جسم انسان اسلام کے دائرہ میں داخل ہوجائے اور مکمل طور پر احکامات الٰہیہ کی اطاعت و پیروی کا راستہ اختیار کرلے۔ یہ نہ ہو کہ ہاتھ اور پیر سے تو اسلامی اعمال صادر ہورہے ہوں لیکن دل و دماغ اس پر مطمئن نہ ہوں۔ یا زبان تو ہر وقت اسلام اور احکامات اسلام کی مدح و تعریف میں ہو لیکن ظاہر و باطن اسلامی سانچے میں ڈھلنے کو تیار نظر نہ آئیں۔
چونکہ اسلام نام ہے اس مکمل نظام حیات کا جو قرآن و سنت میں بیان ہوا خواہ اس کا تعلق عقائد و عبادات سے ہو یا معاملات اور معاشرت سے، سیاست و حکومت سے ہو یا صنعت و تجارت سے الغرض احکام اسلام خواہ وہ زندگی کے کسی بھی شعبہ سے متعلق ہوں کامل مسلمان بننے کے لیے ضروری ہے کہ اسے سچے دل سے قبول کرکے اپنی زندگی میں لایا جائے۔
اس میں ان لوگوں کے لیے بڑی تنبیہ ہے جنہوں نے دین کو صرف نمازہ روزہ اور چند مخصوص عبادات تک محدود کررکھا ہے معاملات اور معاشرت یعنی آپس میں رہن سہن کے طور طریقوں میں اپنے آپ کو آزاد تصور کرتے ہیں۔ یہ تصور اسلامی مزاج سے بالکل میل نہیں کھاتا اور اس کے ساتھ اپنے آپ کو سچا مسلمان اور پکا مومن کہنا اور سمجھنا خود کو دھوکہ دینے کے مترادف ہے۔
اﷲتعالیٰ نے اس آیت مبارکہ میں ایمان والوں کی منزل کا تعین ہی نہیں فرمایا بلکہ جس پر چل کر یہ منزل حاصل ہوتی ہے اس کے خطرات سے آگاہ فرمایا ہے کہ کہیں ہم اپنے ازلی دشمن شیطان کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے اپنی منزل کھو ہی نہ بیٹھیں ۔
شان نزول
نَزَلَتْ ہَذِہِ الْآیَۃُ فِی مُؤْمِنِی أَہْلِ الْکِتَابِ،عَبْدِ اللَّہِ بْنِ سَلَامٍ النَّضِیرِیِّ وَأَصْحَابِہِ،وَذَلِکَ أَنَّہُمْ کَانُوا یُعَظِّمُونَ السَّبْتَ ویکرہون لحمات الإبل وألبانہا بعد ما أَسْلَمُوا وَقَالُوا:یَا رَسُولَ اللَّہِ إِنَّ التَّوْرَاۃَ کِتَابُ اللَّہِ فَدَعْنَا فَلْنَقُمْ بِہَا فِی صَلَاتِنَا بِاللَّیْلِ، فَأَنْزَلَ اللَّہُ تَعَالَی:یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا ادْخُلُوا فِی السِّلْمِ کَافَّۃً، أَیْ: فِی الْإِسْلَامِ، قَالَ مُجَاہِدٌ:فِی أَحْکَامِ أَہْلِ الْإِسْلَامِ وَأَعْمَالِہِمْ کَافَّۃً أَیْ جَمِیعًا۔

ترجمہ :یہ آیت کریمہ ان لوگوں کے متعلق نازل ہوئی جو اہل کتاب میں سے ایمان لائے تھے ، جن میں حضرت سیدناعبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ اوران کے ساتھی تھے کیونکہ یہ لوگ ایمان لانے کے بعد بھی ہفتہ کے دن کی تعظیم کیاکرتے تھے اوراونٹ کے گوشت اوراونٹنی کے دودھ سے کراہت کرتے تھے اورعرض کیا:یارسول اللہ ﷺ! تورات اللہ تعالی کی کتاب ہے ، آپ ْﷺہمیں اجازت دے دیں کہ ہم راتوں کی نمازوں میں اس کی تلاوت کرلیاکریں ۔ پس اللہ تعالی نے یہ آیت کریمہ نازل فرمائی ۔
(تفسیر البغوی :محیی السنۃ ، أبو محمد الحسین بن مسعود بن محمد بن الفراء البغوی الشافعی (ا:۲۶۶)

وہ شخص ذلیل ہوگیاجس کااسلام میں کوئی حصہ نہیں

عَنْ عَلِیٍّ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، قَالَ:الْإِسْلَامُ ثَمَانِیَۃُ أَسْہُمٍ:الْإِسْلَامُ سَہْمٌ، وَالصَّلَاۃُ سَہْمٌ، وَالزَّکَاۃُ سَہْمٌ، وَالْحَجُّ سَہْمٌ،وَالْجِہَادُ سَہْمٌ، وَصَوْمُ رَمَضَانَ سَہْمٌ، وَالْأَمْرُ بِالْمَعْرُوفِ سَہْمٌ،وَالنَّہْیُ عَنِ الْمُنْکَرِ سَہْمٌ، وَخَابَ مَنْ لَا سَہْمَ لَہُ ۔
ترجمہ :حضرت سیدنامولاعلی رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ حضورتاجدارختم نبوتﷺنے فرمایاکہ اسلام کے آٹھ حصے ہیں:(۱)نماز(۲)زکوۃ(۳)روزہ(۴)حج(۵)عمرہ(۶)جہاد(۷)امربالمعروف(۸)نہی عن المنکر۔ تحقیق وہ شخص خائب وخاسرہواجس کااسلام میں کوئی حصہ نہیں ہے۔
(مسند أبی یعلی:أبو یعلی أحمد بن علی بن المثُنی بن یحیی الموصلی (۱:۴۰۰)

اس حدیث شریف کی وضاحت
قلت انما ذکر ما ذکر علی سبیل التمثیل والا فالمراد بالآیۃ الامتثال بکل ما امر اللہ بہ والانتہاء عن کل ما نہی عنہ او یقال ان الأمر بالمعروف والنہی عن المنکر یشتمل الجمیع فان الأمر بالمعروف یقتضی الإتیان بہ والنہی عن المنکر یقتضی الانتہاء عنہ عن ابی ہریرۃ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم الایمان بضع وسبعون شعبۃ فافضلہا قول لا اللہ الا اللہ وأدناہا اماطۃ الأذی عن الطریق والحیاء شعبۃ من الایمان۔
ترجمہ :حضرت قاضی ثناء اللہ پانی پتی حنفی رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ میں کہتاہوں کہ اس حدیث شریف میں جو کچھ ذکرکیاگیاہے وہ بطورمثال ہے ، اس کامطلب یہ نہیں ہے کہ اسلام کے کل اجزایہی ہیں اورآیت میں توہرمامورکاماننااورہرممنوع سے بازرہنامراد ہے یایہ توجیہ کی جائے کہ امربالمعروف اورنہی عن المنکرمیں سب چیزیں آگئیں کیونکہ کسی کو اچھی بات بتانے کاتقاضاہے کہ بتانے والاخود بھی اس کام کوکرتاہواوربری خصلت سے روکنااس امرکوواضح کرتاہے کہ وہ خود اس سے رکتاہو۔کیونکہ حضرت سیدناابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضورتاجدارختم نبوت ﷺنے فرمایا:ایمان کی کچھ اورسترشاخیں ہیں ، افضل ان میں سے لاالہ الااللہ پڑھناہے اورادنی راستہ سے ایذاکی چیز کو ہٹاناہے اورحیاء بھی ایمان کی ایک شاخ ہے ۔
(التفسیر المظہری:المظہری، محمد ثناء اللہ(۱:۲۴۹)

جویہودی وعیسائی حضورتاجدارختم نبوتﷺپر ایمان نہ لائے؟

عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ،عَنْ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہُ قَالَ:وَالَّذِی نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِیَدِہِ، لَا یَسْمَعُ بِی أَحَدٌ مِنْ ہَذِہِ الْأُمَّۃِ یَہُودِیٌّ، وَلَا نَصْرَانِیٌّ،ثُمَّ یَمُوتُ وَلَمْ یُؤْمِنْ بِالَّذِی أُرْسِلْتُ بِہِ،إِلَّا کَانَ مِنْ أَصْحَابِ النَّارِ۔
ترجمہ:حضرت سیدناابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضورتاجدارختم نبوت ﷺنے فرمایا: قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ وقدرت میں مجھ محمدﷺکی جان ہے ، اس امت میں سے کوئی یہودی وعیسائی جو میرے بارے میں سنے اورپھرمجھ پرایمان لائے بغیرہی مرجائے تودوزخ میں جائے گا۔
(صحیح مسلم :مسلم بن الحجاج أبو الحسن القشیری النیسابوری (ا:۱۳۴)
{فَاِنْ زَلَلْتُمْ مِّنْ بَعْدِ مَا جَآء َتْکُمُ الْبَیِّنٰتُ فَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللہَ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ}

رب تعالی نے وعیدنازل فرمائی

یُرْوَی عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ:فَإِنْ زَلَلْتُمْ فِی تَحْرِیمِ السَّبْتِ وَلَحْمِ الْإِبِلِ مِنْ بَعْدِ مَا جاء َتْکُمُ الْبَیِّناتُ مُحَمَّدٌ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَشَرَائِعُہُ فَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّہَ عَزِیزٌ بِالنِّقْمَۃِ حَکِیمٌ فِی کُلِّ أَفْعَالِہِ،فَعِنْدَ ہَذَا قَالُوا لَئِنْ شِئْتَ یَا رَسُولَ اللَّہِ لَنَتْرُکَنَّ کُلَّ کِتَابٍ غَیْرَ کتابک،فأنزل اللہ تعالی یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا آمِنُوا بِاللَّہِ وَرَسُولِہِ ۔
ترجمہ :حضرت سیدناعبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہمافرماتے ہیں کہ اللہ تعالی نے فرمایا: اگرتم نے ہفتہ کے دین کی تعظیم اوراونٹ کے گوشت کھانے کے معاملے میں تجاوزکیا اس کے بعد کہ تمھارے پاس حضورتاجدارختم نبوت ﷺتشریف لاچکے ہیں اوروہ میرے تمام احکامات تم کو بیان کرچکے توجان لواللہ تعالی عذاب دینے میں غالب اوروہ تمام افعال میں حکمت والاہے ، اس موقع پر لوگوں نے عرض کی : یارسول اللہ ﷺ!اگرآپ ﷺچاہیں توہم آپ ﷺکی کتاب کے علاوہ ہرایک کو ترک کردیتے ہیں تواللہ تعالی نے یہ آیت کریمہ نازل فرمائی ۔
(التفسیر الکبیر:أبو عبد اللہ محمد بن عمر بن الحسن بن الحسین التیمی الرازی(۵:۳۵۴)

بینات سے کیامراد ہے؟

مِنْ بَعْدِ مَا جاء َتْکُمُ الْبَیِّناتُ أَیِ الْمُعْجِزَاتُ وَآیَاتُ الْقُرْآنِ۔
ترجمہ :حضرت سیدناامام ابوعبداللہ محمدبن احمدالقرطبی المتوفی :۶۷۱ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ البینات سے مراد حضورتاجدارختم نبوت ﷺکے معجزات شریفہ اورقرآن کریم ہیں۔
(تفسیر القرطبی:أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن أبی بکرشمس الدین القرطبی (۳:۲۳)
اب جس شخص نے اسلام کے علاوہ کسی اورمذہب کی پیروی کی۔۔۔
عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ،عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ،أَنَّ عُمَرَ أَتَاہُ فَقَالَ:إِنَّا نَسْمَعُ أَحَادِیثَ مِنَ الْیَہُودِ تُعْجِبُنَا أَفَتَرَی أَنْ نَکْتُبَ بَعْضَہَا؟ فَقَالَ:أَمُتَہَوِّکُونَ أَنْتُمْ کَمَا تَہَوَّکَتِ الْیَہُودُ والنَّصَارَی؟ لَقَدْ جِئْتُکُمْ بِہَا بَیْضَاء َ نَقِیَّۃً، وَلَوْکَانَ مُوسَی حَیًّا مَا وَسِعَہُ إِلَّا اتِّبَاعِی ۔
ترجمہ :حضرت سیدناجابررضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضرت سیدناعمررضی اللہ عنہ حضورتاجدارختم نبوت ﷺکی بارگاہ ا قدس میں حاضرہوئے اورعرض کی : یارسول اللہ ﷺ!ہم یہودیوں سے ایسی باتیں سنتے ہیں جو ہمیں اچھی لگتی ہیں ، کیاآپ ْﷺاجازت دیتے ہیں کہ ہم ان کی کچھ باتیں لکھ لیاکریں ؟ توحضورتاجدارختم نبوتﷺنے فرمایا: کیاتم دین کے بارے میں حیران وششدرہوجس طرح یہودونصاری سرگرداں ہیں؟ میں تمھارے پاس سفیداورصاف وشفاف ملت لیکرآیاہوں ، اگرحضرت موسی علیہ السلام بھی اس دنیامیں موجودہوتے تو انہیں بھی میری پیروی کے علاوہ کوئی چارہ کارنہ ہوتا۔
(شعب الإیمان:أحمد بن الحسین بن علی بن موسی أبو بکر البیہقی (۱:۳۴۷)

اللہ تعالی نے وقوع امرسے بھی پہلے وعیدجاری فرمادی

قَالَ قَتَادَۃُ:قَدْ عَلِمَ اللَّہُ أَنَّہُ سَیَزِلُّ زَالُّونَ مِنَ النَّاسِ،فَتَقَدَّمَ فِی ذَلِکَ وَأَوْعَدَ فِیہِ لِیَکُونَ (لَہُ بِہِ)الْحُجَّۃُ عَلَیْہِمْ، مِنْ بَعْدِ مَا جاء َتْکُمُ الْبَیِّناتُ، أَیِ:الدَّلَالَاتُ الْوَاضِحَاتُ،فَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّہَ عَزِیزٌ:فِی نِقْمَتِہِ،حَکِیمٌ: فِی أَمْرِہِ، فَالْعَزِیزُ:ہُوَ الْغَالِبُ الَّذِی لَا یَفُوتُہُ شَیْء ٌ،وَالْحَکِیمُ:ذُو الْإِصَابَۃِ فِی الْأَمْرِ.
ترجمہ:حضرت سیدناقتادہ رضی اللہ عنہ نے اس آیت کے تحت فرمایا:اللہ تعالی کو پہلے ہی علم تھا کہ کچھ ہٹنے والے حضورتاجدارختم نبوت ﷺکی راہ سے لازماً ہٹیں گے۔ چنانچہ اس نے پہلے سے ہی اس پر وعید جاری فرما دی تاکہ ان پر حجت اور سند رہے (اور سنبھلنے والے اس کی یہ وعید پڑھ کر سنبھل جائیں اور اپنا دستور حضورتاجدارختم نبوت ﷺوالا ہی رکھیں)۔
(تفسیر البغوی :محیی السنۃ ، أبو محمد الحسین بن مسعود بن محمد بن الفراء البغوی الشافعی (۱:۲۶۸)

معارف ومسائل

(۱)اسلام کے لغوی معنی ہے، اطاعت، فرمانبرداری ، گردن جھکانا۔ انتہائی قابل غور نکتہ ہے کہ کیا محض شلوار قمیص پہن کر، داڑھی رکھ کر اور پنجگانہ نماز کی پابندی سے اللہ رب العزت کے اس حکم{ اُدْخُلُوْ فِی اَلْسِّلْمِ کَآفَّۃ} کی تعمیل ہو جاتی ہے؟ جبکہ میرے باقی کے معاملات جوں کے توں رہیں۔ یعنی میں اپنے معاشی معاملات، شادی بیاہ کے معاملات، لین دین کے معاملات وغیرہ وغیرہ میں سرسری تعوذ و تسمیہ کا سرنامہ جوڑ کر اس کو دین کا نام دوں توکافی ہوگا؟ کیا اپنے اس رویّے میں رہ کر چند گنی چنی معمولات کے عوض پروردگار کے اس حکم {اُدْخُلُوْ فِی اَلْسِّلْمِ کَآفَّۃ }کے مصداق ثابت ہو سکوں گا؟
یا پھر ہمارا اپنے اعمال میں ادھورا ہونا اس وجہ سے ہے کہ اللہ کا پیغام معاذ اللہ ثم معاذاللہ ادھورا ہے یا کہ پیغام لانے والے حضورتاجدارختم نبوتﷺاوردوسرے انبیاء کرام علیہم السلام میں سے کسی نے اپنا پیغام ادھورا چھوڑ اہو؟ یقیناً ایسا ہر گز نہیں ہے۔ بلکہ یہ ہمارے اپنے ذہن کا فتور ہے۔ہم اپنی ذات میں اپنی شخصیت میں اور نفسیاتی وجود میں ادھورے اور معذور ہیں، جسکی وجہ سے ہمیں دکھنے والی ہر چیز ادھوری اور معذور لگتی ہے۔ تبھی تو ہمارے اعمال اور اقوال میں بہت بڑا اور کھلا تضاد پایا جاتا ہے۔
(۲)شروعات شادی بیاہ کے تقریبات سے کرو، تو اس میں واحد اسلامی عنصر نکاح کے پڑھانے کے لیے مولوی صاحب کی حاضری ہوتی ہے باقی پورے نظام میں اپنے دیندارہونے کا جنازہ برات کی صورت میں باقاعدہ ڈھول باجوں کے ساتھ شیطان کی سرپرستی میں ناچ گانے کے سر میں، آتش بازی، گولہ بارود کے چھوٹے پٹاخوں کے شور میں مشترکہ طور پر کندھادے کے نکالاجاتا ہے۔ اور پھر بھی ہمیں یہ وہم لاحق ہے کہ ہم{ اُدْخُلُوْ فِی اَلْسِّلْمِ کَآفَّۃ} کے پورے پورے مصداق ہیں۔
اب اسی سے ہی جڑی متضاد چیز انتقال پرملال کے زمرے میں غم کی داستان بذات خود اک دردناک المیہ ہے ہمارے معاشرے کا، جس میں ہم اپنے ساتھ اس مردہ کے عالم برزخ کی حالت کو بھی مشکل بنا دیتے ہیں۔ سنا ہے کہ دکھ درد میں انسان کو خدا یاد آجاتا ہے جبکہ خوشی میں اللہ تعالی سے دور ہو کر اپنی حدود پار کر لیتا ہے۔ مگر ہمارے ہاں یہاں بھی معاملہ الٹا ہی چلتا ہے۔ سمجھ سے بالاتر یہ بات ہے کہ یہ کیسا غم ہے اور کیسی خدا کی یاد دہانی ہے جو کہ غم کی حالت میں بھی ہم اپنی حدود پار کر جاتے ہیں؟ ہم غم اور دکھ کے موقع پر اپنے مردہ کو دفنانے سے بہت پہلے اپنے ایمان و اسلام کو دفنا دیتے ہیں پھر اس کے اوپر اپنا غم (مردہ)دکھ درد کو مٹی کے حوالے کر دیتے ہیں۔ اس قسم کا رویہ اپنا کر کیا ہم پروردگار کے اس{ اُدْخُلُوْ فِی اَلْسِّلْمِ کَآفَّۃَ } حکم کے پاس سے بھی گزر رہے ہیں؟ میرے خیال سے یقینا نہیں۔
(۳)اب مساجد کا حال دیکھیں، اس ضمن میں بھی ہمارا رویّہ اور برتاؤ قابل رحم ہے۔ ہم باجماعت نماز ادا کرکے اس ہی جگہ پیٹھ پھیر کر اک گروہ میں بیٹھ جاتے ہیں اور مسجد کے اندر مقدس زمین پر باوضو ہوکے اور انتہائی نیک نیتی سے غیبت گوئی یا پھر عبث گفتگو کا سلسلہ شروع کر دیتے ہیں اور تب بھی ہمیں یہ گمان ہے کہ پکے مومن اور پکے نمازی ہیں۔اورمساجد شریفہ میں دین بیان کرنے پر پابندی ہم نے ہی لگا رکھی ہے ، علماء کرام کی تذلیل اوران کو انتہائی نازیباالفاظ سے یادکرناہماراشیوہ بن چکاہے ۔
ابھی ہم صرف بمشکل سے مطیع ہوئے ہیں، ایمان تو ابھی ہمارے دلوں میں داخل نہیں ہوا۔ اگر داخل ہوا ہوتا تو آج بظاہر متحد نظر آنے والے جو کے آٹے کے ذرات سے بھی کہیں زیادہ الگ اور منتشر نہ ہوتے۔ آج پکے مسلمان ہوکربے اطمینانی کے گھٹا ٹھوپ اندھیرے میں گھرے نہ ہوئے ہوتے۔ آج ماتھے محرابوں سے سجے لیکن بے نور اور بے اثر نہ ہوتے۔
(۴)محض دائرہ اسلام میں داخل ہونے کے لئے کلمۂ طیبہ کا اقرار شرط ہے اور پورے کے پورے اسلام میں داخل ہونے سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایمان اور کفر کی جو حدود متعین کر دی ہیں، ان کے اندر رہتے ہوئے پوری زندگی میں ایمان و اسلام کا ایسا مظاہرہ کیا جائے کہ کوئی لمحہ ایسا نہ گزرے جس پر کفر اور منافقت کی چھاپ ہو۔
(۵)دین کے جملہ شرائع و احکام میں آ جاؤ۔ یہ نہیں کہ تمہارا اپنا خیال اور خواہش ہی تمہارا الٰہ ہو، شریعت خیال کے مطابق ہوتو شریعت کی اتباع اور اگر نامطابق ہو تو شریعت مبارکہ کو ترک کردیاجائے ۔اصل واجب تو یہ ہے کہ تمہارا یہ خیال اور خواہش ہی شریعت کے تابع کرایا جائے اور مقدور بھر اسی آسمان سے اترے ہوئے امر کی پابندی ہو۔ جہاں آدمی کی استطاعت نہ ہو وہاں بھی آدمی کی نیت یہی ہو کہ وہ پابندی اور پیروی اسی خدائی دستور ہی کی کرے گا۔ پس جہاں عمل میں بے بسی ہو وہاں نیت میں پورا اترے اور پورے دین کا اتباع کرے۔ اس میں سے کوئی ایک چیزبھی ترک نہ ہو۔
(۶)اس آیت کریمہ میں شدید وعید اور تخویف ہے۔ یعنی ڈرا دینے کی بات۔پھر خدا تعالی کے ساتھ معاملہ کیلئے تیار رہو۔ وہ کوئی بے بس ہستی نہیں ہے۔ وہ محض سفارشات نہیں کرتاحکم کرتا ہے۔ دستور دیتا ہے لوگوں کے چلنے کیلئے نہ کہ سنی ان سنی کر دینے کیلئے۔ عزت اور غلبہ کا مالک ہے اور اپنے نافرمانوں سے نمٹنا جانتا ہے اور جوکہ اُس کی حکمت اور دانائی کا مظہر ہے۔
(۷) اس سے یہ بھی معلوم ہواکہ جو شریعت منسوخ ہوگئی اب اس کی پیروی کرناشیطان کی پیروی کرنے کی مثل ہے کیونکہ اللہ تعالی نے ہفتہ کے دن کی تعظیم کرنے کے متعلق فرمایاکہ یہ شیطان کی پیروی ہے تم اس سے بچو۔ توجو شخص منسوخ شریعت پرعمل کرے وہ شیطان کی پیروی کرنے والاکہلائے گاتواب کوئی خالصتاً یہودونصاری کی پیروی یاہندئوں کی پیروی کرے وہ کیاکہلائے گا؟ کھانے پینے میں، اٹھنے بیٹھنے میں ، شادی بیاہ میں ، خوشی غمی میں اسی طرح عقائدونظریات میں یہودوہنود کی پیروی کرنے والاشیطان کاپیروکارکہلائے گا۔
(۸) جب کفارکے منزل من اللہ دین کی پیروی منع توپھران کفارکی رسومات اورنظریات میں ان کی پیروی کرناکیونکرجائز ہوسکتاہے ؟
(۹) اس سے یہ بھی معلوم ہواکہ کفارکی کسی بھی چیزمیں رعایت کرناحرام ہے ۔
(۱۰) ظاہر ہے حضرت سیدناعبد اللہ بن سلام رضی اللہ عنہ سمیت سب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم حضورتاجدارختم نبوت ﷺسے دین سیکھ رہے تھے اور اس دوران اگر انہوں نے حضورتاجدارختم نبوت ﷺکے سامنے کوئی سوال یا تقاضا رکھا تو وہ سیکھنے سکھانے کا ہی ایک عمل تھا۔ کوئی صحابی رضی اللہ عنہ ایسا نہیں جسے ایک بات حضورتاجدارختم نبوت ﷺکی طرف سے سکھائی گئی اور وہ اسے قبول کرنے سے انکاری ہوا ہو۔ ہاں سیکھنے اور سمجھائے جانے سے پہلے بھول کاواقع ہوجاناکوئی بڑی بات نہیں ہے۔
ان میں سے ایک حضرت سیدناعبد اللہ بن سلام رضی اللہ عنہ کا اونٹوں کے گوشت یا دودھ کو اسلام لانے کے بعد بھی ناگوار جاننا۔ اس لیے کہ پچھلے بعض شرائع میں وہ ایسا پاتے اور کرتے رہے ہیںاور اس میں بھی دراصل وہ اللہ تعالی ہی کی عبادت کرتے رہے تھے۔ یہاں تنبیہ ہوئی کہ اسلام میں پورے داخل ہو جاؤ۔ یعنی پہلی سب چیزیں اب موقوف۔ اب صرف دستورِ اسلام ہی چلے گا۔
تو پھر ان لوگوں کے بارے کیا خیال ہے جو اسلام میں آتے ہوئے آدھا ہندومت ساتھ اٹھا لائے ہیں؟ انگریز کے خوب و ناخوب کو اپنی زندگی میں محکَّم ومستند مانتے ہیں؟ زندگی کے پیمانے اور معیارات سابقہ انبیاء کرام علیہم السلام کے شرائع سے تو کیا خداتعالی کے دشمنوں اور انبیاء کرام علیہم السلام کے منکروں سے لیتے ہیں اور اس پر ڈھیروں فخر بھی اور اس سے ہٹنے والے کو حقارت کی نظر سے دیکھنا بھی؟ اشیاء کی تحسین و تقبیح وہ حضورتاجدارختم نبوت ﷺسے نہیں لیتے بلکہ اس کیلئے بیشمار معاملات میں وہ کوئی اور ہی سرچشمہ رکھتے ہیں؟
مسلمانی کی اِس نئی قسم کی بابت آپ کا کیاخیال ہے؟ اور قرآن سے ایسی مسلمانی پر کیسی وعید ملتی ہے؟
(۱۱)آج جب ملتوں کے مابین گھمسان کا رن ہے، ہمارا زیادہ تر مذہبی خطاب اعمال سے متعلق ہی رہ گیا ہے۔ جبکہ اعتقاد اور ملت ہمارے اس (مذہبی)خطاب سے تقریباً غائب۔ چنانچہ{ یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا ادْخُلُوا فِی السِّلْمِ کَافَّۃً }والی اِس آیت کا زیادہ تر حوالہ ہمارے ان خطبوں اور وعظوں میں بعض عملی کوتاہیاں ختم کروانے تک محدود رہتا ہے!اس سے آگے ان حضرات کی نظر ہی نہیں جاپاتی۔ بیشک عملی کوتاہیاں بھی شریعت میں مذموم ہیں۔ ان کا تدارک ہونا چاہئے۔ اور اس پر زور بھی دینا چاہئے۔ لیکن اِس آیت کا اصل پس منظر ہے تحلیل اور تحریم۔ خوب و ناخوب کے پیمانے۔ غلط اور صحیح کے معیارات کسی اور سرچشمے سے نہیں بلکہ صرف اور صرف حضورتاجدارختم نبوت ﷺکی شریعت مبارکہ سے لینا۔ دینِ اسلام کے سوا ہر شریعت، ہر دستور اور ہر تہذیب سے شعوری طور پر بیزار ہو جانا۔ اپنی نظریاتی وشعوری ساخت حضورتاجدارختم نبوت ﷺ سے کروانا۔ ملتوں کے فرق کو یہاں نمایاں سے نمایاں تر رکھنا۔

Leave a Reply