تفسیر سور بقرہ آیت ۲۰۴ تا ۲۰۶ ۔ لبرل بظاہرباتیں عشق والی کرتاہے مگرہوتادینی دشمن ہے

لبرل بظاہرباتیں عشق والی کرتاہے مگرہوتادینی دشمن ہے

{وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یُّعْجِبُکَ قَوْلُہ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَ یُشْہِدُ اللہَ عَلٰی مَا فِیْ قَلْبِہٖ وَہُوَ اَلَدُّ الْخِصَامِ}(۲۰۴){وَ اِذَا تَوَلّٰی سَعٰی فِی الْاَرْضِ لِیُفْسِدَ فِیْہَا وَ یُہْلِکَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ وَ اللہُ لَا یُحِبُّ الْفَسَادَ}(۲۰۵){وَ اِذَا قِیْلَ لَہُ اتَّقِ اللہَ اَخَذَتْہُ الْعِزَّۃُ بِالْاِثْمِ فَحَسْبُہ جَہَنَّمُ وَلَبِئْسَ الْمِہَادُ}(۲۰۶)
ترجمہ کنزالایمان:اور بعض آدمی وہ ہے کہ دنیا کی زندگی میں اس کی بات تجھے بھلی لگے اور اپنے دل کی بات پر اللہ کو گواہ لائے اور وہ سب سے بڑا جھگڑالو ہے اور جب پیٹھ پھیرے تو زمین میں فساد ڈالتا پھرے اور کھیتی اور جانیں تباہ کرے اور اللہ فساد سے راضی نہیںاور جب اس سے کہا جائے کہ اللہ سے ڈر تو اسے اور ضد چڑھے گنا ہ کی ایسے کو دوزخ کافی ہے اور وہ ضرور بہت برا بچھونا ہے ۔
ترجمہ ضیاء الایمان :اور لوگوں میں سے کوئی وہ شخص ہے کہ دنیا کی زندگی میں اس کی بات تمہیں بہت اچھی لگتی ہے اوروہ اپنے دل کی بات پر اللہ تعالی کو گواہ بناتا ہے حالانکہ وہ سب سے زیادہ جھگڑا کرنے والا ہے۔اور جب پیٹھ پھیرکر جاتا ہے توکوشش کرتا ہے کہ زمین میں فساد پھیلائے اور کھیت اور مویشی ہلاک کرے اور اللہ تعالی فساد کو پسند نہیں کرتا۔ اور جب اس سے کہا جائے کہ اللہ تعالی سے ڈرو تو اسے ضد مزید گناہ پر ابھارتی ہے توایسے شخص کو جہنم کافی ہے اور وہ ضرور بہت برا ٹھکاناہے۔
شان نزول
عَن ابْن عَبَّاس قَالَ:لما أُصِیبَت السّریَّۃ الَّتِی فِیہَا عَاصِم ومرثد قَالَ رجال من الْمُنَافِقین:یَا وَیْح ہَؤُلَاء ِ المقتولین الَّذین ہَلَکُوا ہَکَذَا لَا ہم قعدوا فِی أہلہم وَلَا ہم أَدّوا رِسَالَۃ صَاحبہمْ فَأنْزل اللہ (وَمن النَّاس من یُعْجِبک قَوْلہ فِی الْحَیَاۃ الدُّنْیَا)أَی لما یظْہر من الإِسلام بِلِسَانِہِ (وَیشْہد اللہ علی مَا فِی قلبہ)أَنہ مُخَالف لما یَقُولہ بِلِسَانِہِ (وَہُوَ أَلد الْخِصَام)أَی ذُو جِدَال إِذا کلمک راجعک (وَإِذا تولی)خرج من عنْدک (سعی فِی الأَرْض لیفسد فِیہَا وَیہْلک الْحَرْث والنسل وَاللہ لَا یحب الْفساد۔
ترجمہ :حضرت سیدناعبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہمافرماتے ہیں کہ جب جنگ ہوئی جس میں حضرت سیدناعاصم اورحضرت سیدنامرثدرضی اللہ عنہماشہید ہوئے تومنافقین میں سے کچھ لوگوںنے کہا:ہائے افسوس ! ان مقتولوں پرجونہ تواپنے گھروالوں کے پاس بیٹھ سکے اورنہ اپنے ساتھی کاپیغام پہنچاسکے ، اس پر اللہ تعالی نے یہ آیت کریمہ نازل فرمائی کہ اس کی زبان سے جو اسلام کااظہارہورہاہے ، اس کادل اس کامخالف ہے ، یہ جھگڑالوہے ، جب آپ سے کلام کرے گاتوآپ کولوٹادے گااورجب یہ آپ کے پاس سے اٹھ کرجائے گاتوزمین میں فساد برپاکردے گا، کھیتی اورنسل کو ہلاک کرے گااوراللہ تعالی فساد کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتا۔
(الدر المنثور:عبد الرحمن بن أبی بکر، جلال الدین السیوطی (ا:۵۷۱)

شان نزول کے متعلق دوسراقول

وَابْنُ أَبِی حاتم عن السُّدِّیِّ فِی قَوْلِہِ:وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یُعْجِبُکَ الْآیَۃَ، قَالَ:نَزَلَتْ فِی الْأَخْنَسِ بْنِ شَرِیقٍ الثَّقَفِیِّ حَلِیفِ بَنِی زُہْرَۃَ، أَقْبَلَ إِلَی النَّبِیِّ صلّی اللہ علیہ وَسَلَّمَ الْمَدِینَۃَ وَقَالَ:جِئْتُ أُرِیدُ الْإِسْلَامَ،وَیَعْلَمُ اللَّہُ أَنِّی لَصَادِقٌ، فَأَعْجَبَ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ علیہ وَسَلَّمَ ذَلِکَ مِنْہُ،فَذَلِکَ قَوْلُہُ:وَیُشْہِدُ اللَّہَ عَلی مَا فِی قَلْبِہِ ثُمَّ خَرَجَ مِنْ عند النبی صلّی اللہ علیہ وَسَلَّمَ فَمَرَّ بِزَرْعٍ لِقَوْمٍ مِنَ الْمُسْلِمِینَ وَحُمُرٍ،فأحرق الزَّرْعَ،وَعَقَرَ الْحُمُرَ، فَأَنْزَلَ اللَّہُ:وَإِذا تَوَلَّی سَعی فِی الْأَرْضِ الْآیَۃَ.
ترجمہ :حضرت سیدناامام السدی رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ یہ آیت کریمہ الاخنس بن شریق الثقفی کے متعلق نازل ہوئی ، یہ حضورتاجدارختم نبوت ﷺکے پاس مدینہ منورہ آیااورکہنے لگاکہ میں اسلام قبول کرنے کے ارادہ سے آیاہوں اوراللہ تعالی جانتاہے کہ میں سچاہوں ، پس حضورتاجدارختم نبوت ﷺاس کی باتوں سے خوش ہوئے ، پھرجب وہ حبیب کریم ﷺکی بارگاہ سے اٹھ کرگیاتوصحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی کھیتی اوران کے جانوروں کے پاس سے گزراتواس نے کھیتی کو آگ لگادی اورجانوروں کے پائوں کاٹ دیئے ، اللہ تعالی نے یہ آیت کریمہ نازل فرمائی ۔
(جامع البیان:محمد بن جریر بن یزید بن کثیر، أبو جعفر الطبری (۳:۵۷۲)

شان نزول کے متعلق تیسراقول

رُوِیَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ وَالضِّحَاکِ أَنَّ کَفَّارَ قُرَیْشٍ بَعَثُوا إِلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّا قَدْ أَسْلَمْنَا فَابْعَثْ إِلَیْنَا نَفَرًا مِنْ عُلَمَاء ِ أَصْحَابِکَ، فَبَعَثَ إِلَیْہِمْ جَمَاعَۃً فَنَزَلُوا بِبَطْنِ الرَّجِیعِ، وَوَصَلَ الْخَبَرُ إِلَی الْکُفَّارِ، فَرَکِبَ مِنْہُمْ سَبْعُونَ رَاکِبًا وَأَحَاطُوا بِہِمْ وَقَتَلُوہُمْ وَصَلَبُوہُمْ، فَفِیہِمْ نَزَلَتْ ہَذِہِ الْآیَۃُ۔
ترجمہ :حضرت سیدناعبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہماسے مروی ہے کہ قریش کے کفارنے کچھ لوگوں کو حضورتاجدارختم نبوت ﷺکی خدمت میں بھیجاکہ ہم مسلمان ہیں ، کچھ علماء صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو ہماری طرف بھیجیں ، آپ ﷺنے ایک جماعت روانہ فرمادی جب یہ وادی رجیع میں پہنچے توکفارکو اطلاع ملتے ہی وہاں پہنچ گئے ، ان میں سترسوارتھے ، انہوںنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کاگھرائوکرلیااورانہیں شہید کردیاتوان کے بارے میں یہ آیت کریمہ نازل ہوئی ۔
(التفسیر الکبیر:أبو عبد اللہ محمد بن عمر بن الحسن بن الحسین التیمی الرازی(۵:۳۴۳)
اس آیت کریمہ کاحکم عام ہے
وَقَالَ قَتَادَۃُ وَمُجَاہِدٌ وَجَمَاعَۃٌ مِنَ الْعُلَمَاء ِ:نَزَلَتْ فِی کُلِّ مُبْطِنٍ کُفْرًا أَوْ نِفَاقًا أَوْ کَذِبًا أَوْ إِضْرَارًا،وَہُوَ یُظْہِرُ بِلِسَانِہِ خِلَافَ ذَلِکَ، فَہِیَ عَامَّۃٌ۔
ترجمہ :حضرت سیدناقتادہ اورحضرت سیدنامجاہد رضی اللہ عنہمااوردوسرے علماء کرام نے فرمایاہے کہ یہ آیت کریمہ ہر اس بندے کے بارے میں نازل ہوئی ہے جس کے باطن میں کفر، نفاق ، کذب اوراضرار(یعنی کسی کو نقصان پہنچانا) چھپاہواوروہ اپنی زبان سے اس کے خلاف ظاہرکرتاہو۔
(تفسیر القرطبی:أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن أبی بکر بن فرح القرطبی (۳:۱۴)
لبرل منافقین کی وجہ سے امت فتنوں میں مبتلاہوتی ہے
عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ کَعْبٍ قَالَ:جَاء َہُ رَجُلٌ قَالَ:إِنَّمَا فِی بَعْضِ الْکُتُبِ:إِنَّ لِلَّہِ عِبَادًا أَلْسِنَتُہُمْ أَحْلَی مِنَ الْعَسَلِ وَقُلُوبُہُمْ أَمَرُّ مِنَ الصَّبْرِ یَلْبَسُونَ لِلنَّاسِ مُسُوکَ الضَّأْنِ مِنَ اللِّینِ یَحْتَلِبُونَ الدُّنْیَا بِالدِّینِ قَالَ اللہُ تَعَالَی:عَلَیَّ یَجْتَرِئُونَ وَبِی یَغْتَرُّونَ بِعِزَّتِی لَأُتِیحَنَّ لَہُمْ فِتْنَۃً تَدَعُ الْحَلِیمَ فِیہَا حَیْرَانَ فَقَالَ مُحَمَّدُ بْنُ کَعْبٍ:ہَذَا فِی کِتَابِ اللہِ عَزَّ وَجَلَّ:(وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یُعْجِبُکَ قَوْلُہُ فِی الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا وَیُشْہِدُ اللہَ عَلَی مَا فِی قَلْبِہِ وَہُوَ أَلَدُّ الْخِصَامِ)قَالَ الرَّجُلُ:قَدْ عَلِمْنَا فِیمَا أُنْزِلَتْ، فَقَالَ لَہُ مُحَمَّدٌ:إِنَّ الْأَمْرَ یَنْزِلُ فِی رَجُلٍ ثُمَّ یَکُونُ عَامًّا۔
ترجمہ:حضرت سیدناابوسعید المقبری رحمہ اللہ تعالی بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت سیدنامحمدبن کعب القرظی رضی اللہ عنہ سے مذاکرہ کیا، انہوںنے کہاکہ اللہ تعالی کی بعض کتب میں ہے کہ اللہ تعالی کے کچھ بندے ایسے ہوتے ہیں جن کی زبانیں شہدسے زیادہ میٹھی ہوتی ہیںاوران کے دل مصبر(ایک کڑوادرخت) سے بھی زیادہ کڑوے ہوتے ہیں ۔ نرم بھیڑوں کی کھالوں کالباس پہنے ہوتے ہیں ، دین کے ذریعے دنیاکماتے ہیں ، اللہ تعالی نے فرمایا: کیاوہ مجھ پر جرات کرتے ہیں اورمجھے دھوکہ دیتے ہیں ، میری عزت کی قسم !میں ان پر ایسافتنہ نازل فرمائوں گاجوان میں سے حلیم الطبع شخص کو بھی حیران کردے گا، محمدبن کعب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ یہ اللہ تعالی کی کتاب میں موجود ہے کہ {وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یُّعْجِبُکَ قَوْلُہ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَ یُشْہِدُ اللہَ عَلٰی مَا فِیْ قَلْبِہٖ وَہُوَ اَلَدُّ الْخِصَامِ}حضرت سیدناسعیدرحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ میں نے کہاکہ میں اب جان گیاہوں کہ یہ آیت کریمہ کس کے متعلق نازل ہوئی ہے ۔ محمدبن کعب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ یہ آیت کریمہ ایک شخص کے متعلق نازل ہوئی ہے لیکن اب یہ عام ہے ۔
(شعب الإیمان:أحمد بن الحسین بن علی بن موسی، أبو بکر البیہقی (۹:۴۱۵)
لبرل کے ایسے فتنے کہ علماء بھی حیران رہ جائیں
وَأخرج أَحْمد فِی الزّہْد عَن الرّبیع بن أنس قَالَ:أوحی اللہ إِلَی نَبِی من الْأَنْبِیَاء :مَا بَال قَوْمک یلبسُونَ جُلُود الضَّأْن ویتشبہون بالرہبان کَلَامہم أحلی من الْعَسَل وَقُلُوبہمْ أَمر من الصَّبْر أبی یغترون أم لی یخادعون وَعِزَّتِی لأترکنّ الْعَالم مِنْہُم حیراناً لَیْسَ منی من تکہن أَو تکہن لَہُ أَو سحر أَو سحر لَہُ وَمن آمن بِی فَلیَتَوَکَّل علیّ وَمن لم یُؤمن فَلیتبعْ غَیْرِی۔
ترجمہ :حضرت سیدناالربیع بن انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ تعالی نے ایک نبی علیہ السلام کی طرف وحی فرمائی کہ تیری قوم کوکیاہے کہ وہ بھیڑوں کی کھالیں پہنتے ہیں اورراہبوں کے ساتھ مشابہت اختیارکرتے ہیں ، ان کے کلام شہد سے زیادہ میٹھے ہیں اوردل مصبرسے زیادہ کڑوے ہیں ( مصبرایک کڑوے درخت کوکہتے ہیں) کیاوہ میرے ساتھ دھوکہ کرتے ہیں ، مجھے دھوکہ دیناچاہتے ہیں ، میری عزت کی قسم ! میں ان کو ایسے فتنے میں مبتلاء کروں گاکہ ان میں سے جوعالم دین ہوگاوہ بھی حیران وششدرہ جائے گا، کسی کاجادواورکہانت میرے سامنے نہیں چل سکتا ، جومجھ پر ایمان لائے وہ مجھ پر ہی توکل کرے اورجو مجھ پرایمان نہ لائے اسے چاہئے میرے علاوہ کوئی معبود تلاش کرلے۔
(الدر المنثور:عبد الرحمن بن أبی بکر، جلال الدین السیوطی (۱:۵۷۲)

منافق کودینی حکم سنایاجائے تواسے غصہ آجاتاہے؟

عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مَسْعُودٍ، قَال:إِنَّ مِنْ أَکْبَرِ الذَّنْبِ أَنْ یَقُولَ الرَّجُلُ لِأَخِیہِ:اتَّقِ اللہَ،فَیَقُولَ:عَلَیْکَ نَفْسَکَ، أَنْتَ تَأْمُرُنِی؟
ترجمہ:حضرت سیدناعبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالی کے نزدیک سب سے بڑاگناہ یہ ہے کہ انسان اپنے بھائی سے کہے :{ اتَّقِ اللہَ}تواللہ تعالی سے ڈر۔ اوروہ کہے کہ تواپنا کام کر۔تومجھے حکم دیتاہے ۔
(شعب الإیمان:أحمد بن الحسین بن علی بن موسی، أبو بکر البیہقی (۱۰:۵۱۰)

حضرت سیدنامالک رضی اللہ عنہ کاعمل

نا سُفْیَانُ، قَالَ:قَالَ رَجُلٌ لِمَالِکِ بْنِ مِغْوَلٍ:اتَّقِ اللہَ، فَوَضَعَ خَدَّہُ عَلَی الْأَرْضِ ۔
ترجمہ :حضرت سیدناسفیان رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے حضرت سیدنامالک بن مغول رضی اللہ عنہ سے کہاکہ توصرف اللہ تعالی سے ڈرتوانہوںنے اپنارخسار اللہ تعالی کی بارگاہ میں اظہارتواضع کے لئے زمین پررکھ دیا۔
(شعب الإیمان:أحمد بن الحسین بن علی بن موسی، أبو بکر البیہقی (۱۰:۵۱۰)

حضرت سیدناعمررضی اللہ عنہ کاعمل شریف

وَأخرج أَحْمد فِی الزّہْد عَن الْحسن أَن رجلا قَالَ لعمر بن الْخطاب رَضِی اللہ عَنہُ:اتَّقِ اللہ فَذہب الرجل فَقَالَ عمر:وَمَا فِینَا خیر إِن لم یقل لنا وَمَا فیہم خیر إِن لم یقولوہا لنا۔
ترجمہ :امام احمدبن حنبل رضی اللہ عنہ نے اپنی کتاب الزہدمیں نقل کیاہے حضرت سیدناامام حسن بصری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے حضرت سیدناعمررضی اللہ عنہ کوکہا: اللہ تعالی سے ڈرو۔ وہ آدمی چلاگیا، توحضرت سیدناعمررضی اللہ عنہ نے فرمایا: ہم میں خیرنہیں ہوگی اگروہ ہمیں یہ نہ کہے اوران میں خیرنہ ہوگی اگروہ ہمیں یہ نہ کہیں ۔
(الدر المنثور:عبد الرحمن بن أبی بکر، جلال الدین السیوطی (۱:۵۷۲)

حضرت سیدناعمررضی اللہ عنہ سجدہ میں گرگئے

وَرُوِیَ أَنَّہُ قِیلَ لِعُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ:اتَّقِ اللَّہَ،فَوَضَعَ خَدَّہُ عَلَی الْأَرْضِ تَوَاضُعًا لِلَّہِ عَزَّ وَجَلَّ.
ترجمہ :حضرت سیدناعمررضی اللہ عنہ سے عرض کیاگیاکہ آپ اللہ تعالی سے ڈریں ، توآپ رضی اللہ عنہ نے فوراً اللہ تعالی کے لئے تواضع کرتے ہوئے اپنارخسارزمین پررکھ دیا۔
(تفسیر البغوی:محیی السنۃ، أبو محمد الحسین بن مسعود البغوی (ا:۲۳۶)

خلیفہ ہارون الرشیدرحمہ اللہ تعالی کاعمل

وَذُکِرَ أَنَّ یَہُودِیًّا کَانَتْ لَہُ حَاجَۃٌ عِنْدَ ہَارُونَ الرَّشِیدِ،فَاخْتَلَفَ إِلَی بَابِہِ سَنَۃً،فَلَمْ یَقْضِ حَاجَتَہُ،فَوَقَفَ یَوْمًا عَلَی الْبَابِ،فَلَمَّا خَرَجَ ہَارُونُ سَعَی حَتَّی وَقَفَ بَیْنَ یَدَیْہِ وَقَالَ:اتَّقِ اللَّہَ یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ!فَنَزَلَ ہَارُونُ عَنْ دَابَّتِہِ وَخَرَّ سَاجِدًا،فَلَمَّا رَفَعَ رَأْسَہُ أَمَرَ بِحَاجَتِہِ فَقُضِیَتْ،فَلَمَّا رَجَعَ قِیلَ لَہُ:یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ،نَزَلْتَ عَنْ دَابَّتِکَ لِقَوْلِ یَہُودِیٍّ!قَالَ:لَا،وَلَکِنْ تَذَکَّرْتُ قَوْلَ اللَّہِ تَعَالَی:وَإِذا قِیلَ لَہُ اتَّقِ اللَّہَ أَخَذَتْہُ الْعِزَّۃُ بِالْإِثْمِ فَحَسْبُہُ جَہَنَّمُ وَلَبِئْسَ الْمِہادُ۔
ترجمہ:بیان کیاگیاہے کہ ایک یہودی ایک سال تک اپنی ضرورت لے کے ہارون الرشید رحمہ اللہ کے دروازہ پر حاضر ہوتا رہا۔ حاجت براری نہ ہوئی۔ ایک دن ہارون رشید محل سے برآمد ہوئے کہیں جا رہے تھے کہ یہودی سامنے آ کر کھڑا ہو گیا اور یہ کہا: اتق اللہ یا امیر المؤمنین۔ اے امیر المؤمنین اللہ سے ڈرو۔ ہارون رشید یہ سنتے ہی فوراً سواری سے اُتر پڑے اور وہیں زمین پر سجدہ کیا۔ سجدہ سے سر اُٹھانے کے بعد حکم دیا کہ اس یہودی کی حاجت پوری کی جائے۔ چنانچہ اسی وقت اس کی حاجت پوری کر دی گئی ۔ جب محل واپس ہوئے تو کسی نے کہا :اے امیر المؤمنین آپ ایک یہودی کے کہنے سے فوراً زمین پر اُتر پڑے؟ فرمایا کہ یہودی کے کہنے کی وجہ سے نہیں اُترا بلکہ حق تعالیٰ شانہ کا یہ ارشاد یاد آیا{وَ إذَا قِیلَ لَہ اتَّقِ اللہ أخَذَتہ العِزۃُ بِالإثمِ فَحَسبہ جہنم ولبئس المِہاد} ۔اس لیے سواری سے اُترا اور سجدہ کیا۔
(تفسیر القرطبی:أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن أبی بکر بن فرح القرطبی (۳:۱۹)

ظالم حکمران بھی عامۃ الناس پر ظلم کرتے ہیں

وذلک کما فعلہ الأخنس بثقیف إذ بیتہم ای أتاہم لیلا وأہلک مواشیہم وزرعہم لانہ کان بینہ وبینہم عداوۃ او کما یفعلہ ولاۃ السوء بالقتل والاتلاف او بالظلم حتی یمنع اللہ بشؤمہ القطر فیہلک الحرث والنسل وفی الحدیث (لما خلق اللہ تعالی اسباب المعیشۃ جعل البرکۃ فی الحرث والنسل)فاہلاکہما غایۃ الإفساد وفی الحدیث (یجاء بالوالی یوم القیامۃ فینبذ بہ علی جسر جہنم فیرتج بہ الجسر ارتجاجۃ لا یبقی منہ مفصل إلا زال عن مکانہ فان کان مطیعا للہ فی عملہ مضی وان کان عاصیا انخرق بہ الجسر فیہوی بہ فی جہنم مقدار خمسین عاما۔
ترجمہ :حضرت سیدناامام اسماعیل حقی الحنفی المتوفی : ۱۱۲۷ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ یہ ایسے ہے جیسے اخنف بن قیس نامی منافق نے مدینہ منورہ میں رات گزاری توصحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے جانوروں کو ہلاک کردیااوران کی کھیتی کو آگ لگادی اوراس لئے اس کے اورثقیف کے درمیان عداوت تھی ، اسی طرح ظالم حکمران کی عادت ہے وہ اپنی رعایاپر ظلم کرتے ہیں ، ان کے بچے مروادیتے ہیں ، اوران کے اموال کوضائع کردیتے ہیں ، یایہ کہ ظالم پر ظلم کی وجہ سے اللہ تعالی بارش بندکردیتاہے توان کی کھیتی اوران کی نسل میں نقصان پڑجاتاہے۔
حدیث شریف میں ہے کہ جب قیامت کے دن حاکم کو جہنم کی سیڑھی پرڈالاجائے گاتوسیڑھی حرکت میں آجائے گی اوراس کی حرکت اس قدرہوگی کہ جہنم کاجوڑ اپنی جگہ سے ہٹ جائے گا، اگروہ حاکم عادل اوراللہ تعالی کافرمانبردارہوگاتواس سیڑھی سے سلامتی کے ساتھ گزرجائے گااوراگروہ نافرمان اورظالم ہواتووہ سیڑھی پھٹ جائے گی تووہ ظالم حاکم جہنم میں گرجائے گااورپچاس سال تک دوزخ میں جلایاجائے گا۔
(روح البیان:إسماعیل حقی بن مصطفی الإستانبولی الحنفی المولی أبو الفداء (۱:۲۳۳)

حکمرانوں کے ظلم کی و جہ سے رب کا عذاب

وقال مجاہد فی قولہ تعالی إِذا تَوَلَّی سَعی فِی الْأَرْضِ انہ إذا ولی عمل بالعدوان والظلم فامسک اللہ المطر وأہلک الحرث والنسل وَاللَّہُ لا یُحِبُّ الْفَسادَ لا یرتضیہ فاحذروا غضبہ علیہ.
ترجمہ :حضرت سیدنامجاہدرضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب کسی ملک کاحاکم اوربادشاہ لوگوں پرظلم وزیادتی کرتاہے توپھراس کے ظلم کااثریہ ہوتاہے کہ اللہ تعالی بارش روک لیتاہے اوران کے کھیت اورمویشی ہلا ک کردیتاہے ۔ چونکہ موجب اورباعث ہلاکت یہی تھا، اس لئے مجازاً اسی کی طرف نسبت کردی ۔
(التفسیر المظہری:المظہری، محمد ثناء اللہ(۱:۲۴۵)

منافقین ولبرل کی چھے علامات

اس آیت مبارکہ میں جو لبرل وبے دین لوگوں کے اوصاف بیان کئے گئے ہیں وہ چھے ہیں (۱)ظاہری طور پر بڑی اچھی باتیں کرنا۔ جیسے ہمارے دورکے ٹی وی اینکرجب پردہ اسکرین پر آتے ہیں تو ایسی ایسی گفتگوکرتے ہیں کہ انسان دنگ رہ جاتاہے مگردرپردہ وہ شیطان کے پیروکارہیںاوربظاہراسلام کے خیرخواہ لگتے ہیں مگردرحقیقت وہ اسلام کے دشمن اورکفارکے خیرخواہ ہیں۔(۲)اپنی غلط باتوں پر اللہ کو گواہ بنانا، جیسے آجکل بے دین لوگ اپنے کفرکو چھپانے کے لئے ایسی باتیں کریں گے کہ اچھے بھلے دیندارلوگ بھی پھسل جاتے ہیں اورانہیں اسلام کاخیر خواہ سمجھناشروع کردیتے ہیں ، مثلاً یہ کہناکہ میں نے اتنے عمرے کئے ہیں اوراتنی بار حج کیاہے ، اورمیرے گھرمیں کربلاء شریف کی مٹی ، مدینہ منورہ کی خاک شفاء اورکعبہ مشرفہ کاغلاف موجود ہے ، بھلابتائومیں دین دشمن کیسے ہوسکتاہوں۔ یعنی ایسے لوگ حضورتاجدارختم نبوت ﷺکے دین پاک اورآپ ﷺکی ختم نبوت پر ہرطرح سے ڈاکہ ڈالنے والے اوراسلام کی نظریاتی اساس کو کھوکھلاکرنے والے ہیں اوران کے دین دشمن ہونے میں کوئی شک نہیں ہے وہ بھی اپنے کفراوراپنی بے دینی کو دینی باتوں کے پردہ میں چھپاتے ہیں۔(۳)جھگڑالو ہونا(۴) فساد پھیلانا۔ یہ بھی ان دین دشمن لوگوں کی ایک خاص صفت ہے ۔ (۵)لوگوں کے اموال برباد کرنا۔ جو منافقین اس دورمیں اہل اسلام یعنی حضورتاجدارختم نبوت ﷺکے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اموال خراب کر دیتے جیساکہ شان نزول میں گزراہے کہ وہ کھیت کو آگ لگادیتے تھے اورجانور کو ماردیاکرتے تھے یہی حال آج کے منافقین لبرل کاہے یہ بھی اہل اسلام کے ساتھ یعنی وہ طبقہ جو آج بھی دین دشمنوںکے خلاف ایک مضبوط دیوارکی حیثیت رکھتاہے کے اموال کو اسی طرح ضائع کردیتے ہیں ، کبھی ان کے مکانات اورہرطرح کی جائیداد منقولہ وغیرمنقولہ بحق سرکارضبط کرلیتے ہیں ۔
(۶)نصیحت کی بات سن کر قبول کرنے کی بجائے تکبر کرنا ۔یہ منافقین کی خاص صفت ہے کہ حق بات سنتے ہی ان کو تکلیف ہوناشروع ہوجاتی ہے ، جب بھی ان کوحق کہاجائے تو یہ لوگ اس حق کہنے والے عالم کے اورحتی کہ خود دین کے ہی دشمن بن جاتے ہیں ۔
یہاں آیت مبارکہ میں اگرچہ ایک خاص منافق کا تذکرہ ہے لیکن یہ آیت بہت سے لوگوں کو سمجھانے کیلئے کافی ہے۔ ہمارے معاشرے میں بھی بہت سے لوگ ایسے ہیں جن کی زبان بڑی میٹھی ہے، گفتگو بڑی نرمی سے کرتے ہیں ،بڑی عاجزی کا اظہار کرتے ہیں لیکن در پردہ دین کے مسائل میں یا لوگوں میں یا خاندانوں میں فساد برپا کرتے ہیں اور ہلاکت و بربادی کا ذریعہ بنتے ہیں۔

قدیم وجدیدمنافقین اورلبرل کی ۳۵ علامات

(۱)دعویٰ ایمان صرف زبانی حد تک کرنا اور باطن کا اس کی تصدیق سے خالی ہونا۔(۲)محض توحید و آخرت پر ایمان کو کافی سمجھنا اور رسالت محمدی ﷺپر ایمان کو اس قدر ضروری نہ سمجھنا۔(۳)دھوکہ دہی اور مکر و فریب کی نفسیات کا پایا جانا۔(۴)یہ سمجھنا کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے حبیب کریمﷺ ہماری حالتِ نفاق سے بے خبر ہیں۔(۵)یہ سمجھنا کہ ہم اپنی مکاریوں، حیلہ سازیوں اور چالاکیوں سے دوسروں کو فریب دینے میں کامیاب ہو رہے ہیں۔(۶)قلب و باطن کا بیمار ہونا(۷)جھوٹ بولنا۔(۸) نام نہاد اصلاح کے پردے میں مفسدانہ طرز عمل اپنانے کے باوجود خود کو صالح سمجھنا۔(۹)دوسروں کو بیوقوف اور صرف خود کو اہل عقل و دانش سمجھنا۔(۱۰)امت مسلمہ کی اکثریت کو گمراہ تصور کرنا۔(۱۱)اجماع امت یا سوادِ اعظم کی پیروی نہ کرنا۔(۱۲)کردار میں دوغلاپن اور ظاہر و باطن کا تضاد ہونا۔(۱۳)اہل حق کے خلاف خفیہ سازشیں اور تخریبی منصوبے تیار کرنا۔(۱۴)مسلمانوں پر طنز، طعنہ زنی اور حقیر سمجھتے ہوئے ان کا مذاق اڑانا۔(۱۵)- باطل کو حق پر ترجیح دینا۔(۱۶)سچائی کی روشن دلیل دیکھتے ہوئے بھی اس کی طرف سے آنکھیں بند کر لینا۔(۱۷)تنگ نظری اور دشمنی میں اس حد تک چلے جانا کہ کان حق بات نہ سن سکیں، زبان حق بات نہ کہہ سکے اور آنکھیں حق نہ دیکھ سکیں۔(۱۸)اسلام کی راہ میں پیش آنے والی مشکلات سے گھبرانا اور ان سے بچاؤ کی تدابیر اختیار کرنا۔(۱۹)اہل حق کی کامیابیوں پر حیران رہ جانا اور ان پر حسد کرنا۔(۲۰)اپنے مفادات کے حصول کے لئے اہل حق کا ساتھ دینا اور خطرات و مصائب میں قربانی سے گریز کرتے ہوئے ان سے علیحدہ ہو جانا۔(۲۱)حق کے معاملے میں نیم دلی اور ہچکچاہٹ کی کیفیت میں مبتلا رہنا۔(۲۲) اسلامی احکامات پر طعن وتشنیع کرنا(۲۳)قرآن کریم کی آیات اوراحادیث شریفہ کاکھلے عام مذاق اڑانا۔(۲۴) اہل اسلام سے زیادہ کفارکاخیرخواہ ہونا۔(۲۵) اہل اسلام سے زیادہ کفارکو اپنابہی خواہ جاننا۔(۲۶) اہل اسلام پر خود بھی طنزکرنااورکفارکے طنزکوکھلے دل کے ساتھ سننا۔(۲۷) اسلامی شخصیات سے زیادہ انگریزوں کو ترجیح دینا۔(۲۸) اسلامی شعائرکی بے حرمتی پر خاموشی اورجولوگ اسلامی شعائر کے دفاع میں بولیں ان کے خلاف زبان درازی کرنا۔(۲۹)خود کو مسلمان کہلانے سے گھبرانا۔(۳۰) حضورتاجدارختم نبوت ﷺکی سنت سے تنفراورانگریزی تہذیب سے قلبی محبت رکھنا۔ (۳۱) ہر غیرت کی بات پرغصہ کرنااوربے غیرتی کے معاملات پر خوش ہونا۔( ۳۲) اسلامی قانون سے زیادہ کفرکے قانون کو پسندکرنا۔(۳۳) اسلامی قانون کو حیوانوں کاقانون کہنانعوذباللہ من ذلک۔ (۳۴) داڑھی والے کو دیکھتے ہی دل میں پریشانی آجانااورداڑھی منڈے کو دیکھ کرمطئمن نظرآنا۔(۳۵) حضورتاجدارختم نبوت ﷺکے دشمنوں اورگستاخوں کے ساتھ قلبی لگائورکھناجبکہ ناموس رسالت ﷺکے پہرہ داروں کے ساتھ رنجش رکھنا۔
کیاحضورتاجدارختم نبوت ﷺکو منافقین دھوکہ دینے میں کامیاب ہوجاتے تھے؟
{مَا کَانَ اللہُ لِیَذَرَ الْمُؤْمِنِیْنَ عَلٰی مَآ اَنْتُمْ عَلَیْہِ حَتّٰی یَمِیْزَ الْخَبِیْثَ مِنَ الطَّیِّبِ وَمَا کَانَ اللہُ لِیُطْلِعَکُمْ عَلَی الْغَیْبِ وَلٰکِنَّ اللہَ یَجْتَبِیْ مِنْ رُّسُلِہٖ مَنْ یَّشَآء ُ فَاٰمِنُوْا بِاللہِ وَرُسُلِہٖ وَ اِنْ تُؤْمِنُوْا وَتَتَّقُوْا فَلَکُمْ اَجْرٌ عَظِیْمٌ }(۱۷۹)
ترجمہ کنزالایمان:اللہ مسلمانوں کو اسی حال پر چھوڑنے کا نہیں جس پر تم ہو جب تک جدا نہ کردے گندے کو ستھرے سے اور اللہ کی شان یہ نہیں کہ اے عام لوگوتمہیں غیب کا علم دے دے ہاں اللہ چن لیتا ہے اپنے رسولوں سے جسے چاہے تو ایمان لاؤ اللہ اور اس کے رسولوں پر اور اگر ایمان لاؤ اور پرہیزگاری کرو تو تمہارے لئے بڑا ثواب ہے۔
ترجمہ ضیاء الایمان:اللہ تعالی کی یہ شان نہیں کہ اہل اسلام کو اس حال پر چھوڑے جس پرتم ہو جب تک وہ ناپاک کو پاک سے جدا نہ کردے اور اے عام لوگو!اللہ تعالی تم کو غیب پر مطلع نہیں کرتا البتہ اللہ تعالی اپنے رسل کرام علیہم السلام کو مُنتخب فرمالیتا ہے جنہیں پسند فرماتا ہے تو تم اللہ تعالی اور اس کے رسل کرام علیہم السلام پرایمان لاؤ اور اگر تم ایمان لاؤ اور متقی بنو تو تمہارے لئے بہت بڑا اجر ہے۔
اخنس نامی منافق یادوسرے منافقین حضورتاجدارختم نبوت ﷺکی بارگاہ میں آکرجو باتیں کرتے اوراپنی دانست میں یہ خیال کرتے کہ حضورتاجدارختم نبوت ﷺاورآپ ﷺکے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو ہماری اس غلط بیانی کاعلم نہیں ہے اورہم ان کے ساتھ دھوکہ کررہے ہیں ، اس سے بعض لوگوں کو بھی وہم ہوسکتاہے کہ ایسے کیسے ہوگیاکہ منافقین حضورتاجدارختم نبوت ﷺکے ساتھ دھوکہ کرجائیں تو اس کے جواب میں ہم ایک آیت کریمہ اورایک حدیث شریف نقل کرتے ہیں تاکہ مسئلہ کی نوعیت واضح ہوجائے اوروہم میں مبتلاء لوگوں کاوہم دورہوجائے۔
حدیث شریف یہ ہے
وَقَالَ السُّدِّیُّ:قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:عُرِضَتْ عَلَیَّ أُمَّتِی فِی صُوَرِہَا فِی الطِّینِ کَمَا عُرِضَتْ عَلَی آدَمَ وَأُعْلِمْتُ مَنْ یُؤْمِنُ بِی وَمَنْ یَکْفُرُ بِی فَبَلَغَ ذَلِکَ الْمُنَافِقِینَ فَقَالُوا اسْتِہْزَاء ً:زَعَمَ مُحَمَّدٌ أَنَّہُ یَعْلَمُ مَنْ یُؤْمِنُ بِہِ وَمَنْ یَکْفُرُ مِمَّنْ لَمْ یُخْلَقْ بَعْدُ، وَنَحْنُ مَعَہُ وَمَا یَعْرِفُنَا، فَبَلَغَ ذَلِکَ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَامَ عَلَی الْمِنْبَرِ فَحَمِدَ اللَّہَ وَأَثْنَی عَلَیْہِ ثُمَّ قَالَ:مَا بَالُ أَقْوَامٍ طَعَنُوا فِی عِلْمِی لا تسألونی ب عَنْ شَیْء ٍ فِیمَا بَیْنَکُمْ وَبَیْن السَّاعَۃِ إِلَّا أَنْبَأْتُکُمْ بِہِ فَقَامَ عَبْدُ اللَّہِ بْنُ حُذَافَۃَ السَّہْمِیُّ:فَقَالَ:مَنْ أَبِی یَا رَسُولَ اللَّہِ؟ قَالَ:حُذَافَۃُ فَقَامَ عُمَرُ فَقَالَ:یَا رَسُولَ اللَّہِ رَضِینَا بِاللَّہِ رَبًّا وَبِالْإِسْلَامِ دِینًا وَبِالْقُرْآنِ إِمَامًا وَبِکَ نَبِیًّا فَاعْفُ عَنَّا عَفَا اللَّہُ عَنْکَ فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:فَہَلْ أَنْتُمْ مُنْتَہُونَ؟ ثُمَّ نَزَلَ عَنِ الْمِنْبَرِ فَأَنْزَلَ اللَّہُ تَعَالَی ہَذِہِ الْآیۃ۔
ترجمہ:حضرت سیدناامام السدی رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ حضورتاجدارختم نبوت ﷺنے فرمایا:مجھ پر میری تمام اُمت اپنی حالت خمیر میں پیش کر دی گئی ہے۔ جیسا کہ حضرت سیدنا آدم علیہ السلام پر اشیاء پیش کی گئی تھیں۔ چنانچہ میں نے ہر ایک کو جان لیا ہے کہ کون مجھ پر ایمان لائے گا اور کون نہیں۔ حضور تاجدارختم نبوت ﷺ کا یہ ارشاد منافقین تک پہنچا تو انہوں نے مذاق کرتے ہوئے کہا کہ محمدﷺ یہ گمان کرتے ہیں کہ جو لوگ ابھی پیدا نہیں ہوئے میں ان سے بھی مومن و کافر کو پہچانتا ہوں۔ حالانکہ ہم ہر وقت ان کے ساتھ رہتے ہیں اور وہ ہماری منافقت سے باخبر نہیں ہے۔ منافقین کا یہ طعنہ حضور تاجدارختم نبوت ﷺکے علم میں آ گیا۔ آپﷺاسی وقت منبر پر تشریف فرما ہوئے اور باری تعالیٰ کی حمد و ثنا کے بعد فرمانے لگے۔ ان لوگوں کی تباہی کا کیا عالم ہو گا جو میرے علم کی وسعت پر طعنہ زنی کرتے ہیں۔ تم اس وقت سے لے کر قیامت تک جو بات چاہو مجھ سے پوچھ لو۔ میں تمہیں اس کی خبر دیتاہوں۔
اس موقعہ پر حضور تاجدارختم نبوت ﷺسے بعض مخفی نوعیت کے سوالات بھی ہوئے جن کا آپﷺنے برجستہ جواب دیا۔ بالآخر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی درخواست پر آپﷺیہ فرماتے ہوئے خاموش ہو گئے:{فَہَلْ اَنْتُمْ مُّنْتَہُوْن}کیا تم (ان شر انگیز باتوں سے)باز آؤ گے۔
(تفسیر البغوی:محیی السنۃ، أبو محمد الحسین بن مسعود البغوی (۲:۱۴۰)

مذکورہ بالا حدیث سے یہ امر واضح ہو گیا کہ منافقین حضور تاجدارختم نبوتﷺ کو اپنی حالتِ نفاق سے بے خبر سمجھ کر دھوکہ دینا چاہتے تھے اور ان کا یہی خیال اہل ایمان کی نسبت بھی تھا۔ جس حقیقت کو قرآن نے یوں واشگاف طور پر بیان کیا کہ رسول کریم ﷺسے مخادعت، حقیقت میں خدا سے مخادعت ہے جس طرح خود قرآن مجید نے کئی اور مقامات پر یہ اعلان کیا تھا کہ حضور تاجدارختم نبوت ﷺکو اذیت دینا خدا کو اذیت دینا ہے۔ حضور تاجدارختم نبوتﷺ کی نافرمانی خدا کی نافرمانی ہے اورحضور تاجدارختم نبوتﷺ کی اطاعت و غلامی خدا کی اطاعت و غلامی ہے۔
حضورتاجدارختم نبوت ﷺکی شان اقدس میں معمولی سا سوء ظن اور ادنیٰ سی گستاخی یا بے ادبی بھی خود شان اُلوہیت میں بے ادبی و گستاخی ہے منافقین کی اس نفسیات کو بیان کرتے ہوئے انہیں بتایا گیا کہ تم خدا اور رسولﷺ اور اہل ایمان کو کسی قسم کے دھوکے میں مبتلا نہیں کر سکتے۔ بلکہ تم اس غلط خیال سے خود کو دھوکے میں رکھے ہوئے ہو اور تمہاری نا سمجھی و نادانی کا یہ عالم ہے کہ تم اپنی اس خود فریبی سے بھی آگاہ نہیں۔ اس آیت کریمہ نے یہ عمومی اصول بھی واضح کر دیا ہے کہ دوسروں سے دھوکہ دہی کی نفسیات حقیقت میں منافقت بھی ہے اور نادانی بھی جو لوگ چرب زبانی اور چالاکی و عیاری سے اپنے ظاہر و باطن کے تضاد پر پردہ ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ انہوں نے دوسروں کو بے وقوف بنا لیا ہے وہ منافق تو ہیں ہی لیکن ساتھ ساتھ خود ناسمجھ اور نادان بھی ہیں۔ کیونکہ ملمع پرستی، تصنع، بناوٹ اور منافقت کچھ عرصہ کے لئے تو مخفی رہ سکتی ہے، ہمیشہ کے لئے نہیں یہ حقیقت بالآخر بے نقاب ہو کر رہتی ہے۔ اسلئے ان مصنوعی طریقوں سے دوسروں کو دھوکہ نہیں دیا جا سکتا۔ اس اصول کی روشنی میں ہمیں اپنے کردار کا بھی دیا نتدارانہ جائزہ لینا چاہیے کہ اس نوعیت کی عملی منافقت کس حد تک ہماری زندگی کا جزو لا ینفک بن چکی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہماری زندگی اور تعلقات کا بیشتر حصہ اسی قسم کی عملی منافقت سے عبارت ہے۔ ہر شخص دوسرے کو دھوکہ دینے میں مگن ہے اور وہ یہ نہیں سمجھتا کہ اس عمل کے نتیجے میں فی الواقع وہ خود دھوکہ کھا رہا ہے۔

معارف ومسائل

(۱)اس سے معلوم ہواکہ منافق آدمی میں ایک علامت یہ ہوتی ہے کہ اگر اسے سمجھایاجائے تو اپنی بات پراڑ جاتا ہے، دوسرے کی بات ماننا اپنے لئے توہین سمجھتا ہے، نصیحت کئے جانے کو اپنی عزت کا مسئلہ بنالیتا ہے۔ افسوس کہ ہمارے ہاں ایسے لوگوں کی بھرمار ہے، گھروں میں دیکھ لیں تو لڑکی والے لڑکے یا اس کے گھر والوں کو نہیں سمجھا سکتے،چھوٹے خاندان والے بڑے خاندان والوں کو نہیں سمجھا سکتے، عام آدمی کسی چودھری کو نہیں سمجھاسکتا، عوام کسی دنیوی منصب والے کو نہیں سمجھا سکتے، مسجدوں میں کوئی نوجوان عالم یا دینی مُبلغ کسی پرانے بوڑھے کو نہیں سمجھا سکتا، جسے سمجھایا وہی گلے پڑ جاتا ہے۔
(۲) اس سے معلوم ہواکہ گناہوں کی شامت کی وجہ سے بارش بندہوجاتی ہے ۔
(۳) اوراس سے یہ بھی معلوم ہواکہ حاکم ظالم ہوتو بھی بارش اوراللہ تعالی کی رحمت موقوف ہوجاتی ہے ۔
(۴) اس سے یہ بھی معلوم ہواکہ حکومت کامقصد دین کی عظمت ، خلق خداکی ہمدردی ، زمین کی آبادی اورشادابی ہے نہ کہ اپنی بڑائی اورخلق خداکی تباہی ہے ۔
(۵) اس سے یہ بھی معلوم ہواکہ جو حضورتاجدارختم نبوت ﷺکاسچاغلام ہوتاہے وہ کسی بھی مسلمان کانقصان نہیں کرتا، جب سچاغلام کسی بھی مومن کامالی نقصان نہیں کرتاتو خود کو مومن کہنے والاحضورتاجدارختم نبوت ﷺکی ختم نبوت پرڈاکہ کیسے ڈال سکتاہے؟اورحضورتاجدارختم نبوت ﷺکے وارثین علماء کرام کو جیلوں میں کیسے بندکرسکتاہے اوران کو قتل کیسے کرسکتاہے ؟
(۶) جب حضورتاجدارختم نبوت ﷺکاغلام کسی بھی شخص کانقصان نہیں کرسکتاتو خود کو عاشق رسول کہنے والاشخص گستاخ کو کیسے چھوڑ سکتاہے اورگستاخوں کی پشت پناہی کیسے کرسکتاہے ؟

Leave a Reply