تفسیر سورہ بقرہ آیت ۱۹۰ ۔ دنیامیں دہشت گردی پھیلانے والامذہب اسلام یایہودیت ونصرانیت؟

دنیامیں دہشت گردی پھیلانے والامذہب اسلام یایہودیت ونصرانیت؟

{وَقٰتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللہِ الَّذِیْنَ یُقٰتِلُوْنَکُمْ وَلَا تَعْتَدُوْا اِنَّ اللہَ لَا یُحِبُّ الْمُعْتَدِیْنَ}(۱۹۰)

ترجمہ کنزالایمان :اور اللہ کی راہ میں لڑوان سے جو تم سے لڑتے ہیں اور حد سے نہ بڑھو اللہ پسند نہیں رکھتاحد سے بڑھنے والوں کو ۔
ترجمہ ضیاء الایمان : اوراللہ تعالی کی راہ میں جہاد کروان سے جو تمھارے ساتھ لڑتے ہیں اورحدسے تجاوزنہ کرو ، اللہ تعالی حدسے بڑھنے والوں کو پسندنہیں فرماتا۔
شان نزول
قال ابن عباس:لما صد المشرکون رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلّم عام الحدیبیۃ وصالحوہ علی أن یرجع من قابل فیخلوا لہ مکۃ ثلاثۃ أیام یطوف بالبیت، فلما تجہز رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلّم وأصحابہ لعمرۃ القضاء خافوا أن لا تفی قریش بما قالوا ویصدّوہم عن البیت وکرہ المسلمون قتالہم فی الشہر الحرام وفی الحرم، فأنزل اللہ:وَقاتِلُوا فِی سَبِیلِ اللَّہِ الَّذِینَ یُقاتِلُونَکُمْ فأطلق لہم قتال الذین یقاتلونہم فی الشہر الحرام وفی الحرم ورفع عنہم الحرج والجناح فی ذلک وقال ولا تعتدوا بابتداء القتال إِنَّ اللَّہَ لا یُحِبُّ الْمُعْتَدِین۔
ترجمہ :حضر ت سیدناعبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہمافرماتے ہیں کہ ۶ہجری میں حدیبیہ کا واقعہ پیش آیا ،اس سال حضور تاجدارختم نبوت ﷺ مدینہ طیبہ سے عمرے کے ارادے سے مکہ مکرمہ روانہ ہوئے، مشرکین نے حضور تاجدارختم نبوت ﷺ کو مکہ مکرمہ میں داخل ہونے سے روکا اور اس پر صلح ہوئی کہ آپﷺآئندہ سال تشریف لائیں تو آپﷺ کے لیے تین روز کیلئے مکہ مکرمہ خالی کردیا جائے گا، چنانچہ اگلے سال۷ہجری میں حضور تاجدارختم نبوت ﷺعمرے کی قضاء کے لیے تشریف لائے ۔اب حضور تاجدارختم نبوت ﷺکے ساتھ ایک ہزار چار سوصحابہ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم تھے ۔مسلمانوں کو یہ اندیشہ ہوا کہ کفار نے اگر وعدہ پورا نہ کیا اور حرم مکہ میں حرمت والے مہینے ذی القعدہ میں جنگ کی تو مسلمان چونکہ حالت ِ احرام میں ہوں گے اس لئے اس حالت میں جنگ کرنا ان کیلئے بڑا مشکل تھا کیونکہ زمانہ جاہلیت سے ابتدائے اسلام تک نہ حرم میں جنگ جائز تھی اورنہ حرمت والے مہینوں میں ، لہٰذا انہیں تَرَدُّد ہوا کہ اس وقت جنگ کی اجازت ملتی ہے یا نہیں اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔
(تفسیرالخازن:علاء الدین علی بن محمد بن إبراہیم بن عمر الشیحی أبو الحسن، المعروف بالخازن (ا:۱۲۱)
ـآیت میں اجازت کا معنی یا تو یہ ہے کہ جو کفار تم سے لڑیں یا جنگ کی ابتداء کریں تم ان سے دین کی حمایت اور اعزاز کے لیے لڑو یہ حکم ابتداء اسلام میں تھاپھر منسوخ کیا گیا اور کفار سے قتال کرنا واجب ہوا خواہ وہ ابتداء کریں یا نہ کریں یا یہ معنی ہے کہ ان سے لڑو جو تم سے لڑنے کا ارادہ رکھتے ہیں یہ بات سارے کفار کے لئے ہے کیونکہ وہ سب دین کے مخالف اور مسلمانوں کے دشمن ہیں خواہ انہوں نے کسی وجہ سے جنگ نہ کی ہو لیکن موقع پانے پرچُوکنے والے نہیں۔ یہ معنی بھی ہوسکتے ہیں کہ جو کافر میدان جنگ میں تمہارے مقابلے پر آئیں اور وہ تم سے لڑنے کی قدرت اور اہلیت رکھتے ہوں تو ان سے لڑو۔ اس صورت میں ضعیف ، بوڑھے، بچے، مجنون، اپاہج، اندھے، بیمار اور عورتیں وغیرہ جو جنگ کرنے کی قدرت نہیں رکھتے(اور وہ جنگ میں نہ تو شریک ہیں اور نہ ہی جنگ کرنے والوں کی کسی قسم کی مدد کر رہے ہیں تو یہ افراد)اس حکم میں داخل نہ ہوں گے اور انہیں قتل کرنا جائز نہیں۔ جیساکہ ہم آگے چل کر اس مسئلہ پرسیرحاصل کلام نقل کریں گے ۔ ان شاء اللہ تعالی ۔

 

دہشت گردی کی روک تھام کے لئے حضورتاجدارختم نبوت ﷺکی تعلیمات

خطبہ حجۃ الوداع
عَنْ أَبِی بَکْرَۃَ، قَالَ: خَطَبَنَا رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَوْمَ النَّحْرِ، فَقَالَ: إِنَّ دِمَاء َکُمْ وَأَمْوَالَکُمْ بَیْنَکُمْ حَرَامٌ کَحُرْمَۃِ یَوْمِکُمْ ہَذَا فِی شَہْرِکُمْ ہَذَا فِی بَلَدِکُمْ ہَذَا إِلَی یَوْمِ تَلْقَوْنَ رَبِّکُمْ، أَلَا ہَلْ بَلَّغْتُ؟ قَالُوا: نَعَمْ، قَالَ: اللہُمَّ اشْہَدْ یُبَلِّغُ الشَّاہِدُ مِنْکُمُ الْغَائِبَ، فَرُبَّ مُبَلَّغٍ أَوْعَی مِنْ سَامِعٍ، أَلَا لَا تَرْجِعُنَّ بَعْدِی کُفَّارًا یَضْرِبُ بَعْضُکُمْ رِقَابَ بَعْضٍ ۔
ترجمہ:حضرت سیدناابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضورتاجدارختم نبوت ﷺنے یوم النحر کو خطبہ ارشادفرمایا:بے شک تمہارے خون اور تمہارے مال اور تمہاری عزتیں تم پر اِسی طرح حرام ہیں جیسے تمہارے لئے اِس دن کی حرمت تمہارے اِس مہینے میں اور تمہارے اِس شہر میں مقرر کی گئی ہے اُس دن تک جب تم اپنے رب سے ملو گے۔ سنو!کیا میں نے تم تک اپنے رب کا پیغام پہنچا دیا؟ لوگ عرض گزار ہوئے:جی ہاں۔ آپ ﷺنے فرمایا:اے اللہ!گواہ رہنا۔ اب چاہیے کہ تم میں سے ہر موجود شخص اِسے غائب تک پہنچا دے کیونکہ کتنے ہی لوگ ایسے ہیں کہ جن تک بات پہنچائی جائے تو وہ سننے والے سے زیادہ یاد رکھتے ہیں اور سنو!میرے بعد ایک دوسرے کو قتل کر کے کافر نہ ہو جانا.
(السنن الکبری:أبو عبد الرحمن أحمد بن شعیب بن علی الخراسانی، النسائی (۴:۱۹۰)

غیبی خبرجو حضورتاجدارختم نبوت ﷺنے عطافرمائی

أَخْبَرَنِی حُمَیْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَنَّ أَبَا ہُرَیْرَۃَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: یَتَقَارَبُ الزَّمَانُ، وَیَنْقُصُ العَمَلُ، وَیُلْقَی الشُّحُّ، وَیَکْثُرُ الہَرْجُ قَالُوا: وَمَا الہَرْجُ؟ قَالَ: القَتْلُ القَتْلُ۔
ترجمہ:حضرت سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضورتاجدارختم نبوت ﷺنے فتنہ و فساد کے ظہور، خون خرابہ اور کثرت سے قتل و غارت گری سے لوگوں کو خبردار کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:زمانہ قریب ہوتا جائے گا، عمل گھٹتا جائے گا، بخل پیدا ہو جائے گا، فتنے ظاہر ہوں گے اور ہرج کی کثرت ہو جائے گی۔ لوگ عرض گزار ہوئے کہ یا رسول اللہﷺ!ہرج کیا ہے؟ فرمایا کہ قتل یعنی ہرج سے مراد ہے:کثرت سے قتلِ عام۔
(صحیح البخاری:محمد بن إسماعیل أبو عبداللہ البخاری الجعفی(۸:۱۴)

ان احادیث کا اگر بغور جائزہ لیا جائے تو اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اسلام ایک پرامن مذہب ہے اور اسلام قتل و غارت گری یا کسی کو ناحق قتل کرنے جو ایک کھلی دہشت گردی ہے کو سختی سے روکتا ہے۔ ایک دوسرے کے مال کو ناجائز طور پر ہتھیانے جو خوف اور دہشت گردی کے ذریعے ہی ہتھیایا جاتا ہے کو لوگوں پر حرام قرار دیتا ہے، اسی طرح اسلام فتنوں کے ظاہر ہونے اور فتنے پیدا کرنے کے سخت خلاف ہے کیونکہ جہاں فتنہ اور فساد پیدا ہوتا ہے وہاں دہشت گردی بھی ضرور ہوتی ہے یا یوں کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا کہ فتنہ و فساد دہشت گردی کی جڑ ہیں اور فتنہ و فساد کی وجہ سے ہی دہشت گردی جنم لیتی ہے۔

معاہدکو قتل کرنے سے منع فرمایا

عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عَمْرٍو رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ:مَنْ قَتَلَ مُعَاہَدًا لَمْ یَرِحْ رَائِحَۃَ الجَنَّۃِ، وَإِنَّ رِیحَہَا تُوجَدُ مِنْ مَسِیرَۃِ أَرْبَعِینَ عَامًا۔
ترجمہ :حضرت سیدنا عبد اﷲبن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ حضور تاجدارختم نبوت ﷺنے فرمایا:جس نے کسی معاہد(غیر مسلم شہری)کو قتل کیا تو وہ جنت کی خوشبو بھی نہیں سونگھے گا حالانکہ جنت کی خوشبو چالیس برس کی مسافت تک محسوس ہوتی ہے۔
(صحیح البخاری:محمد بن إسماعیل أبو عبداللہ البخاری الجعفی(۴:۹۹)

معاہدکو قتل کرنے والے پر جنت حرام ہے

عَنْ أَبِی بَکَرَۃَ، قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:مَنْ قَتَلَ نَفْسًا مُعَاہَدَۃً بِغَیْرِ حِلِّہَا، حَرَّمَ اللہُ عَلَیْہِ الْجَنَّۃَ أَنْ یَجِدَ رِیحَہَا ۔
ترجمہ:حضرت سیدناابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضورتاجدارختم نبوت ﷺنے فرمایا: جس نے کسی غیرمسلم شہری کو ناجائز طور پر (اور ایک روایت میں ہے کہ ناحق)قتل کیا اﷲتعالیٰ نے اس پرجنت کی خوشبو بھی حرام فرما دی ہے۔
(مسند الإمام أحمد بن حنبل:أبو عبد اللہ أحمد بن محمد بن حنبل بن ہلال بن أسد الشیبانی (۳۴:۲۰)

حضورتاجدارختم نبوت ﷺکی زبانی مومن کی تعریف

عَنْ عَمْرِو بْنِ مَالِکٍ الْجَنْبِیِّ، أَنَّ فَضَالَۃَ بْنَ عُبَیْدٍ حَدَّثَہُ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ،قَالَ:الْمُؤْمِنُ مَنْ أَمِنَہُ النَّاسُ عَلَی أَمْوَالِہِمْ وَأَنْفُسِہِمْ، وَالْمُہَاجِرُ مَنْ ہَجَرَ الْخَطَایَا وَالذُّنُوبَ۔
ترجمہ :حضرت سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور تاجدارختم نبوت ﷺنے مومن کی تعریف کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:مومن وہ ہے کہ جس کے پاس لوگ اپنے خون (یعنی جان)اور مال کو محفوظ سمجھیںاورمہاجروہ جو گناہ اوررب تعالی کی نافرمانی ترک کردے۔
(سنن ابن ماجہ:ابن ماجۃ أبو عبد اللہ محمد بن یزید القزوینی، وماجۃ اسم أبیہ یزید (۲:۱۲۹۸)

مسلمان کون؟

عَنْ جَابِرٍ، قَالَ:جَاء َ رَجُلٌ إِلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:یَا رَسُولَ اللَّہِ أَیُّ الْمُسْلِمِینَ أَفْضَلُ؟، قَالَ:مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُونَ مِنْ لِسَانِہِ وَیَدِہِ۔
ترجمہ :حضرت سیدناجابررضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک شخص نے حضور تاجدارختم نبوت ﷺکی بارگاہ میں عرض کیا:یا رسول اﷲ!ﷺکون سا اِسلام اَفضل ہے؟ آپ ﷺنے فرمایا:اُس شخص کا اِسلام سب سے بہتر ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے تمام مسلمان محفوظ رہیں۔
(الأدب لابن أبی شیبۃ:أبو بکر بن أبی شیبۃ، عبد اللہ العبسی:۲۴۲) دار البشائر الإسلامیۃ لبنان

حضرت سیدناابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کی نصیحتیں

عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیِّبِ، أَنَّ أَبَا بَکْرٍ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ لَمَّا بَعَثَ الْجُنُودَ نَحْوَ الشَّامِ یَزِیدَ بْنَ أَبِی سُفْیَانَ، وَعَمْرَو بْنَ الْعَاصِ، وَشُرَحْبِیلَ ابْنَ حَسَنَۃَ، قَالَ:لَمَّا رَکِبُوا مَشَی أَبُو بَکْرٍ مَعَ أُمَرَاء ِ جُنُودِہِ یُوَدِّعُہُمْ حَتَّی بَلَغَ ثَنِیَّۃَ الْوَدَاعِ، فَقَالُوا: یَا خَلِیفَۃَ رَسُولِ اللہِ، أَتَمْشِی وَنَحْنُ رُکْبَانٌ؟ فَقَالَ: إِنِّی أَحْتَسِبُ خُطَایَ ہَذِہِ فِی سَبِیلِ اللہِ ثُمَّ جَعَلَ یُوصِیہِمْ، فَقَالَ: أُوصِیکُمْ بِتَقْوَی اللہِ، اغْزُوا فِی سَبِیلِ اللہِ فَقَاتِلُوا مَنْ کَفَرَ بِاللہِ، فَإِنَّ اللہَ نَاصِرٌ دِینَہُ، وَلَا تَغُلُّوا، وَلَا تَغْدِرُوا، وَلَا تَجْبُنُوا، وَلَا تُفْسِدُوا فِی الْأَرْضِ، وَلَا تَعْصُوا مَا تُؤْمَرُونَ، فَإِذَا لَقِیتُمُ الْعَدُوَّ مِنَ الْمُشْرِکِینَ إِنْ شَاء َ اللہُ فَادْعُوہُمْ إِلَی ثَلَاثِ خِصَالٍ، فَإِنْ ہُمْ أَجَابُوکَ فَاقْبَلُوا مِنْہُمْ وَکُفُّوا عَنْہُمْ، ادْعُوہُمْ إِلَی الْإِسْلَامِ، فَإِنْ ہُمْ أَجَابُوکَ فَاقْبَلُوا مِنْہُمْ وَکُفُّوا عَنْہُمْ، ثُمَّ ادْعُوہُمْ إِلَی التَّحَوُّلِ مِنْ دَارِہِمْ إِلَی دَارِ الْمُہَاجِرِینَ، فَإِنْ ہُمْ فَعَلُوا فَأَخْبِرُوہُمْ َٔنَّ لَہُمْ مِثْلَ مَا لِلْمُہَاجِرِینَ وَعَلَیْہِمْ مَا عَلَی الْمُہَاجِرِینَ، وَإِنْ ہُمْ دَخَلُوا فِی الْإِسْلَامِ وَاخْتَارُوا دَارَہُمْ عَلَی دَارِ الْمُہَاجِرِینَ فَأَخْبِرُوہُمْ أَنَّہُمْ کَأَعْرَابِ الْمُسْلِمِینَ، یَجْرِی عَلَیْہِمْ حُکْمُ اللہِ الَّذِی فَرَضَ عَلَی الْمُؤْمِنِینَ، وَلَیْسَ لَہُمْ فِی الْفَیْء ِ وَالْغَنَائِمِ شَیْء ٌ حَتَّی یُجَاہِدُوا مَعَ الْمُسْلِمِینَ، فَإِنْ ہُمْ أَبَوْا أَنْ یَدْخُلُوا فِی الْإِسْلَامِ فَادْعُوہُمْ إِلَی الْجِزْیَۃِ، فَإِنْ ہُمْ فَعَلُوا فَاقْبَلُوا مِنْہُمْ وَکُفُّوا عَنْہُمْ، وَإِنْ ہُمْ أَبَوْا فَاسْتَعِینُوا بِاللہِ عَلَیْہِمْ فَقَاتِلُوہُمْ إِنْ شَاء َ اللہُ، وَلَا تُغْرِقُنَّ نَخْلًا وَلَا تَحْرِقُنَّہَا، وَلَا تَعْقِرُوا بَہِیمَۃً، وَلَا شَجَرَۃً تُثْمِرُ، وَلَا تَہْدِمُوا بَیْعَۃً، وَلَا تَقْتُلُوا الْوِلْدَانَ وَلَا الشُّیُوخَ وَلَا النِّسَاء َ، وَسَتَجِدُونَ أَقْوَامًا حَبَسُوا أَنْفُسَہُمْ فِی الصَّوَامِعِ فَدَعُوہُمْ وَمَا حَبَسُوا أَنْفُسَہُمْ لَہُ، وَسَتَجِدُونَ آخَرِینَ اتَّخَذَ الشَّیْطَانُ فِی رُء ُوسِہِمْ أَفْحَاصًا، فَإِذَا وَجَدْتُمْ أُولَئِکَ فَاضْرِبُوا أَعْنَاقَہُمْ إِنْ شَاء َ اللہُ۔
ترجمہ :حضرت سیدناسعید بن مسیب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب حضرت سیدناابوبکرالصدیق رضی اللہ عنہ نے شام کی جانب لشکرروانہ فرمائے ، یزیدبن ابی سفیان رضی اللہ عنہ ، حضرت سیدناعمروبن العاص ، حضرت سیدناشرحبیل رضی اللہ عنہم فرماتے ہیں کہ حضرت سیدناابوبکررضی اللہ عنہ لشکرکو الوداع کہنے کے لئے ثنیۃ الوداع تک پیدل ان کے ساتھ جاتے تھے ۔
انہوںنے کہا: اے خلیفۃ المسلمین ! ہم سواراورآپ پیدل چل رہے ہیں؟ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں اپنے ان قدموں کو اللہ تعالی کے راستے میں ثواب کی نیت سے اٹھاتاہوں ، پھرامراء کو وصیت فرماتے ۔ میں تمھیں اللہ تعالی کے تقوی کی نصیحت کرتاہوں ، اللہ تعالی کے راستے میں غزوہ کروجو اللہ تعالی کے ساتھ کفرکرے ان سے جہاد کرو۔ اللہ تعالی اپنے دین کی مددکرنے والاہے ، خیانت نہ کرو، دھوکہ نہ دو، بزدلی نہ دکھائو، زمین پر فساد نہ پھیلائو۔ جواحکام تم کو دیئے جائیں ان کی نافرمانی نہ کرو،اگراللہ تعالی چاہے تمھاری ملاقات دشمن سے ہوجائے توان کو تین چیزوں کی طرف بلائو، اگروہ ان کوقبول کرلیں تو ان سے ہاتھ روک لو، (۱) انہیں اسلام کی دعوت دواگراسلام قبول کرلیں تواپنے ہاتھ ان سے روک لو ، پھرانہیں اپنے گھروں سے مہاجرین کے گھروں میں منتقل کرنے کاکہاجائے ، اگروہ یہ کام کرلیں توانہیں بتادیں ، ان کے لئے وہی ہے جو مہاجرین کے لئے ہے یاان کے ذمہ بھی وہی ہے جو مہاجرین کے ذمہ ہے ، اگروہ اسلام میں داخل ہونے کے بعد مہاجرین کے گھروں پر اپنے گھروں کو ترجیح دیں توان کو بتادیناوہ عام دیہاتی مسلمانوں کی مانندہیں ، جو اہل ایمان پراحکام جاری ہوتے ہیں وہی احکام تمھارے اوپرجاری ہوں گے اورمال فے اورمال غنیمت میں سے اس وقت تک حصہ نہیں ملے گاجب تک اہل اسلام کے ساتھ مل کرجہاد نہ کریں گے۔ (۲) اگراسلام میں داخل ہونے سے انکارکردیں توجزیہ کی دعوت دو ، اگریہ کام کریں توجزیہ قبول کرلواوراپنے ہاتھ روک دو۔ (۳) اگروہ اس سے انکارکریں توان کے خلاف اللہ تعالی سے مددطلب کرواوراگراللہ تعالی چاہے تو ان سے قتال کرواورتم کھجورکے درخت مت کاٹواورنہ ہی انہیں جلائو، چوپائے اورپھل داردرخت نہ کاٹواورگرجاگھرمت گرائو، بچوں ،بوڑھوں اورعورتوں کو مت قتل کرنا، عنقریب تم ایسے لوگوں کو پائوگے جنہوں نے اپنے آپ کوچرچوں کے اندرروک رکھاہوگا، ان کو بھی چھوڑ دواوربعض نے اپنے آپ کواندربند رکھاہوگااورعنقریب تم ایسے لوگ پائوگے کہ شیطان نے ان کے سروں کے درمیان گھونسلا بنارکھاہوگا، جب تم ایسے افراد سے ملو توان کی گردنیں اتاردواگراللہ تعالی چاہے تو۔
(السنن الکبری:أحمد بن الحسین بن علی بن موسی الخُسْرَوْجِردی الخراسانی، أبو بکر البیہقی (۹:۱۴۵)

پادری کو قتل کرنے سے منع فرمایا

ثنا ثَابِتُ بْنُ الْحَجَّاجِ الْکِلَابِیُّ، قَالَ:قَامَ أَبُو بَکْرٍ فِی النَّاسِ فَحَمِدَ اللَّہَ وَأَثْنَی عَلَیْہِ، ثُمَّ قَالَ: أَلَا لَا یُقْتَلُ الرَّاہِبُ فِی الصَّوْمَعَۃِ۔
ترجمہ:حضرت سیدنا ثابت بن الحجاج الکلابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ خطبہ دینے کے لئے کھڑے ہوئے اوراللہ تعالی کی حمدوثناکی پھر ارشاد فرمایا:خبر دار!کسی گرجا گھر کے پادری کو قتل نہ کیا جائے۔
(الکتاب المصنف فی الأحادیث والآثار:أبو بکر بن أبی شیبۃ، عبد اللہ بن محمد العبسی (۶:۴۸۳)
ایک ذمی کے خون کی قدر
عن أبی الجَنوبِ الأسَدِیِّ قال:أُتِیَ علیُّ بنُ أبی طالِبٍ برَجُلٍ مِنَ المُسلِمینَ قَتَلَ رَجُلًا مِن أہلِ الذِّمَّۃِ. قال:فقامَت عَلَیہ البَیِّنَۃُ فأمَرَ بقَتلِہ، فجاء َ أخوہ فقالَ:إنِّی قَد عَفَوتُ قال:فلَعَلَّہُم ہَدَّدوکَ وفَرَّقوکَ وفَرَّعوکَ؟ قال: لا، ولَکِنَّ قَتلَہ لا یَرُدُ علیَّ أخِی، وعَوَّضونِی فرَضِیتُ قال: أنتَ أعلمُ، مَن کان لہ ذِمَّتُنا فدَمُہ کَدَمِنا ودیَتُہ کَدیَتِنا ۔
ترجمہ :حضرت سیدناابوالجنوب الاسدی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے حضرت سیدنامولاعلی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں ایک مسلمان لایاگیاجس نے ایک ذمی ( کافرشہری ) کو قتل کیاتھا، آپ رضی اللہ عنہ نے اس کے قتل کاحکم دیا، اتنے میں اس مقتول کابھائی آگیا، اس نے کہاکہ میں نے اس قاتل کو معاف کردیاہے آپ بھی اس کو چھوڑ دیں ۔ حضرت سیدنامولاعلی رضی اللہ عنہ نے فرمایا:ہوسکتاہے اس قاتل کے ورثاء نے تمھیں ڈرایادھمکایاہو، اس نے کہانہیں ایسی کوئی بات نہیں ہے ، لیکن اس نے میرے بھائی کو قتل کردیا، اب تووہ واپس نہیں آئے گا
اورانہوں نے مجھے عوض یعنی مال دیاہے تومیں ان سے راضی ہوگیاہوں ۔ حضرت سیدنامولاعلی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: توبھی یہ بات بخوبی جانتاہے کہ جس شخص کو ہم اپنے ذمہ میں لیتے ہیں پھراس کاخون ہمارے خون کی طرح اوراس کی دیت بھی ہماری دیت کی طرح ہوتی ہے ۔
(السنن الکبری:أحمد بن الحسین بن علی بن موسی الخُسْرَوْجِردی الخراسانی، أبو بکر البیہقی (۹:۱۴۵)

کافروں کی خواتین کے قتل سے منع فرمایا

عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا، قَالَ:وُجِدَتِ امْرَأَۃٌ مَقْتُولَۃً فِی بَعْضِ مَغَازِی رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَنَہَی رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنْ قَتْلِ النِّسَاء ِ وَالصِّبْیَانِ۔
ترجمہ :حضرت سیدناعبد اﷲابن عمر رضی اﷲعنہما سے مروی ہے کہ حضورتاجدارختم نبوت ﷺنے کسی غزوہ میں ایک عورت کو دیکھا جسے قتل کردیا گیا تھا۔ اس پر حبیب کریم ﷺنے عورتوں اور بچوں کو قتل کرنے کی ممانعت فرمادی۔
(صحیح البخاری:محمد بن إسماعیل أبو عبداللہ البخاری الجعفی(۴:۶۱)

بنوقریظہ کی خواتین اوربچوں کو چھوڑدیاگیا

عَنْ عَائِشَۃ رضی اﷲ عنہا قَالَتْ اُصِیبَ سَعْدٌ یَوْمَ الْخَنْدَقِ رَمَاہ رَجُلٌ مِنْ قُرَیْشٍ یُقَالُ لَہ حِبَّانُ بْنُ الْعَرِقَۃ وَہوَ حِبَّانُ بْنُ قَیْسٍ مِنْ بَنِی مَعِیصِ بْنِ عَامِرِ بْنِ لُوَیٍّ رَمَاہ فِی الْاَکْحَلِ فَضَرَبَ النَّبِیُّ خَیْمَۃ فِی الْمَسْجِدِ لِیَعُودَہ مِنْ قَرِیبٍ فَلَمَّا رَجَعَ رَسُولُ اﷲِ مِنَ الْخَنْدَقِ وَضَعَ السِّلَاحَ وَاغْتَسَلَ فَاَتَاہ جِبْرِیلُ وَہوَ یَنْفُضُ رَأْسَہ مِنْ الْغُبَارِ فَقَالَ قَدْ وَضَعْتَ السِّلَاحَ وَاﷲِ مَا وَضَعْتُہ اخْرُجْ إِلَیْہمْ قَالَ النَّبِیُّ فَاَیْنَ فَاَشَارَ إِلَی بَنِی قُرَیْظَۃ فَاَتَاہمْ رَسُولُ اﷲِ فَنَزَلُوا عَلَی حُکْمِہ فَرَدَّ الْحُکْمَ إِلَی سَعْدٍ قَالَ فَإِنِّی اَحْکُمُ فِیہمْ اَنْ تُقْتَلَ الْمُقَاتِلَۃ وَاَنْ تُسْبَی النِّسَاء ُ وَالذُّرِّیَۃ وَاَنْ تُقْسَمَ اَمْوَالُہمْ قَالَ ہشَامٌ فَاَخْبَرَنِی اَبِی عَنْ عَائِشَۃ اَنَّ سَعْدًا قَالَ اَللَّہمَّ إِنَّکَ تَعْلَمُ اَنَّہ لَیْسَ اَحَدٌ اَحَبَّ إِلَیَّ اَنْ اُجَاہدَہمْ فِیکَ مِنْ قَوْمٍ کَذَّبُوا رَسُولَکَ وَاَخْرَجُوہ اَللَّہمَّ فَإِنِّی اَظُنُّ اَنَّکَ قَدْ وَضَعْتَ الْحَرْبَ بَیْنَنَا وَبَیْنَہمْ فَإِنْ کَانَ بَقِیَ مِنْ حَرْبِ قُرَیْشٍ شَیْئٌ فَاَبْقِنِی لَہ حَتَّی اُجَاہدَہمْ فِیکَ وَإِنْ کُنْتَ وَضَعْتَ الْحَرْبَ فَافْجُرْہا وَاجْعَلْ مَوْتَتِی فِیہا فَانْفَجَرَتْ مِنْ لَبَّتِہ فَلَمْ یَرُعْہمْ وَفِی الْمَسْجِدِ خَیْمَۃ مِنْ بَنِی غِفَارٍ إِلَّا الدَّمُ یَسِیلُ إِلَیْہمْ فَقَالُوا یَا اَہلَ الْخَیْمَۃ مَا ہذَا الَّذِی یَأْتِینَا مِنْ قِبَلِکُمْ فَإِذَا سَعْدٌ یَغْذُو جُرْحُہ دَمًا فَمَاتَ مِنْہا.
ترجمہ :حضرت سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی اﷲعنہا فرماتی ہیں کہ جنگ خندق کے اندر حضرت سیدناسعد بن معاذرضی اللہ عنہ کو قریش کے ایک آدمی حبان بن عرقہ (جس کا نام حبان بن قیس تھا، یہ قبیلہ بنی عامر بن لویّ کی شاخ بنی معیص سے تعلق رکھتا تھا)کا تیر لگ گیا تھا جو ان کے بازو کی رگ میں لگا تھا۔ توحضورتاجدارختم نبوت ﷺنے ان کے لئے مسجد نبوی میں خیمہ نصب کروا دیا تاکہ قریب سے ان کی بیمار پرسی کرسکیں۔ جب حضورتاجدارختم نبوت ﷺجنگ خندق سے فارغ ہوکر واپس تشریف لائے تو ہتھیار اتار کر غسل فرمانے لگے۔ اس وقت حضرت جبرئیل امین علیہ السلام حاضر خدمت ہوئے اورحضورتاجدارختم نبوت ﷺسر مبارک سے گرد جھاڑ رہے تھے۔ عرض گزار ہوئے کہ آپ ﷺنے تو ہتھیار اتار دیئے، خدا کی قسم !میں نے ابھی نہیں اتارے ان کی جانب تشریف لے چلئے۔ حضورتاجدارختم نبوت ﷺ نے دریافت فرمایا کہ کن کی جانب؟ انہوں نے بنی قریظہ کی جانب اشارہ کیا۔ پھرحضورتاجدارختم نبوت ﷺان کے پاس تشریف لے گئے۔ تو وہ آپﷺ کے حکم پر قلعے میں اتر آئے پھر آپ ﷺنے یہ فیصلہ حضرت سعد کی طرف لوٹا دیا۔ انہوں (حضرت سعد)نے فرمایا کہ ان کا یہ فیصلہ کرتا ہوں کہ ان کے جو مرد لڑنے کے قابل ہیں انہیں قتل کردیا جائے، ان کی عورتوں اور بچوں کو لونڈی اور غلام بنالیا جائے اور ان کے مال کو مسلمانوں پر تقسیم کردیا جائے۔ حضرت سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حضرت سیدنا سعدرضی اللہ عنہ نے بارگاہِ خداوندی میں یوں دعا کی تھی۔ اے اللہ!تو جانتا ہے کہ مجھے اس سے پیاری کوئی چیز نہیں کہ اس قوم سے جہاد کرتا رہوں جس نے تیرے رسول ﷺکو جھٹلایا اور انہیں وطن سے نکالا۔ میرے خیال میں تو نے ہمارے اور کفار قریش کے درمیان لڑائی ختم کردی ہے۔ اگر قریش سے لڑنا ابھی باقی ہے تو مجھے زندگی عطا فرما تاکہ میں تیری راہ میں ان کے ساتھ جہاد کروں اور اگر تو نے ان کے ساتھ ہماری لڑائی ختم فرمادی ہے تو میرے اسی زخم کو جاری کر کے شہادت کی موت عطا فرمادے۔ پھر خیمہ سے بنی غفار کی طرف بہنے والے خون نے ہی انہیں گھبراہٹ میں ڈالا تو انہوں نے کہا:خیمہ والو!تمہاری طرف سے، ہماری جانب کیا آ رہا ہے؟ تو دیکھا حضرت سیدناسعد رضی اللہ عنہ کے زخم سے تیزی کے ساتھ خون بہہ رہا ہے، جس کے نتیجہ میں ان کی موت واقع ہو گئی۔
(صحیح البخاری:محمد بن إسماعیل أبو عبداللہ البخاری الجعفی(۵:۱۱۲)

اس سے معلوم ہواکہ بنی قریظہ جو ایک عہد شکن قبیلہ تھا جس نے غزوہ خندق میں مسلمانوں سے غداری کرنے کی کوشش کی لیکن اﷲتعالی کے فضل سے ناکام ہو گئی۔ غزوہ خندق کے فوراً بعد ان کا محاصرہ کیا گیا تو وہ قلعہ میںبند ہو گئے۔ چونکہ ان کا محاصرہ نماز عصر کے بعد کیا گیا تھا اس لیے خدشہ تھا کہ رات کو لڑائی ہونے کی صورت میں عورتیں اور بچے بھی مارے جائیں گے۔ جیسا کہ احادیث صحیحہ سے ثابت ہے کہ بنی قریظہ کا محاصرہ کیا اور ان کے جنگجو مردوں کو قتل کر دیا گیا جبکہ عورتوں اور بچوں کو قتل نہیں کیا گیا تھا۔

کفارکامال تک ان کو دے دیا

عَنْ اَبِی ہرَیْرَۃ قَالَ بَیْنَا نَحْنُ فِی الْمَسْجِدِ خَرَجَ رَسُولُ اﷲِ فَقَالَ انْطَلِقُوا إِلَی یَہودَ فَخَرَجْنَا مَعَہ حَتَّی جِئْنَا بَیْتَ الْمِدْرَاسِ فَقَامَ النَّبِیُّ فَنَادَاہمْ فَقَالَ یَا مَعْشَرَ یَہودَ اَسْلِمُوا تَسْلَمُوا فَقَالُوا قَدْ بَلَّغْتَ یَا اَبَا الْقَاسِمِ قَالَ فَقَالَ لَہمْ رَسُولُ اﷲِ ذَلِکَ اُرِیدُ اَسْلِمُوا تَسْلَمُوا فَقَالُوا قَدْ بَلَّغْتَ یَا اَبَا الْقَاسِمِ فَقَالَ لَہمْ رَسُولُ اﷲذَلِکَ اُرِیدُ ثُمَّ قَالَہا الثَّالِثَۃ فَقَالَ اعْلَمُوا اَنَّمَا الْاَرْضُ لِلّٰہ وَرَسُولِہ وَاَنِّی اُرِیدُ اَنْ اُجْلِیَکُمْ مِنْ ہذِہ الْاَرْضِ فَمَنْ وَجَدَ مِنْکُمْ بِمَالِہ شَیْئًا فَلْیَبِعْہ وَإِلَّا فَاعْلَمُوا اَنَّمَا الْاَرْضُ لِلّٰہ وَرَسُولِہ.
ترجمہ:حضرت سیدناابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ ہم مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے کہ حضورتاجدارختم نبوت ﷺ باہر تشریف لائے اور فرمایا کہ یہودیوں کی طرف چلو۔ تو ہم آپ ﷺکے ساتھ چل دیئے یہاں تک کہ ہم بیت المدراس جا پہنچے۔ چنانچہ حضورتاجدارختم نبوت ﷺنے کھڑے ہو کر انہیں آواز دی:اے یہودیوں!اسلام لے آئو، محفوظ ہو جائو گے۔ انہوں نے کہا اے ابو القاسمﷺ!آپﷺ نے پیغام پہنچا دیا۔ راوی کا بیان ہے کہ پھر حضورتاجدارختم نبوت ﷺنے ان سے فرمایا: میری مراد یہی ہے کہ تم اسلام لے آئو، محفوظ ہو جائو گے۔ انہوں نے کہا کہ اے ابو القاسمﷺ!آپﷺ نے پیغام پہنچا دیا۔ حضورتاجدارختم نبوت ﷺنے پھر اُن سے تیسری مرتبہ فرمایا کہ میرا مقصد یہ ہے کہ تم اچھی طرح جان جاؤ کہ زمین اللہ تعالی اور اس کے رسولﷺ کی ہے، اور میں تمہیں اس زمین سے جلا وطن کرنا چاہتا ہوں۔ تو جس کو اپنے مال کی کوئی قیمت ملتی ہے تو فروخت کر لے ورنہ سن لو کہ زمین اللہ تعالی اور اس کے رسولﷺ کی ہے۔
(صحیح البخاری:محمد بن إسماعیل أبو عبداللہ البخاری الجعفی(۴:۹۹)

اتنے بڑے غداروں کے ساتھ بھی حسن سلوک

عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اﷲُ عَنْہمَا قَالَ حَارَبَتِ النَّضِیرُ وَقُرَیْظَۃ فَاَجْلَی بَنِی النَّضِیرِ وَاَقَرَّ قُرَیْظَۃ وَمَنَّ عَلَیْہمْ حَتَّی حَارَبَتْ قُرَیْظَۃ فَقَتَلَ رِجَالَہمْ وَقَسَّمَ نِسَائَ ہمْ وَاَوْلَادَہمْ وَاَمْوَالَہمْ بَیْنَ الْمُسْلِمِینَ إِلَّا بَعْضَہمْ لَحِقُوا بِالنَّبِیِّ فَآمَنَہمْ وَاَسْلَمُوا وَاَجْلَی یَہودَ الْمَدِینَۃ کُلَّہمْ بَنِی قَیْنُقَاعَ وَہمْ رَہطُ عَبْدِ اﷲِ بْنِ سَلَامٍ وَیَہودَ بَنِی حَارِثَۃ وَکُلَّ یَہودِ الْمَدِینَۃ.
ترجمہ :حضرت سیدناعبداللہ ابن عمر رَضِیَ اﷲُ عَنْہُمَا فرماتے ہیں کہ بنی نضیر اور بنی قریظہ نے لڑائی کی تو بنی نضیر کو جلاوطن کردیا گیا اور بنی قریظہ پر احسان کرکے انہیں رہنے دیا گیا۔ جب انہوں نے دوبارہ لڑائی کی تو ان کے مردوں کو قتل کردیا اور ان کی عورتوں اور بچوں کو نیز مال اسباب کو مسلمانوں میں بانٹ دیا گیا۔ ماسوائے ان لوگوں کے جو حضورتاجدارختم نبوت ﷺسے مل گئے یعنی ایمان لاکر مسلمان ہوگئے۔ چنانچہ مدینہ منورہ کے سارے یہودی بنی قینقاع جو حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ کے ہم قوم تھے، بنی حارثہ کے یہود اور مدینہ طیبہ کے دوسرے تمام یہودی جلاوطن کردیئے گئے۔
(صحیح البخاری:محمد بن إسماعیل أبو عبداللہ البخاری الجعفی(۵:۸۸)

مشرکین کے بچے قتل ہونے پر حضورتاجدارختم نبوت ﷺکاجلال

عن الأسوَدِ بنِ سَریعٍ قال: أتَیتُ رسولَ اللہِ صلی اللہ علیہ وسلم ۔۔۔۔کُنَّا فِی غَزَاۃٍ فَاَصَبْنَا ظَفَرًا وَقَتَلْنَا مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ، حَتَّی بَلَغَ بِہِمُ الْقَتْلُ إِلَی اَنْ قَتَلُوا الذُّرِّیَۃَ، فَبَلَغَ ذَالِکَ النَّبِیَّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، فَقَالَ: مَا بَالُ اَقْوَامٍ بَلَغَ بِہِمُ الْقَتْلُ إِلَی اَنْ قَتَلُوا الذُّرِّیَۃَ؟ اَ لَا!لَا تَقْتُلُنَّ ذُرِّیَۃً. اَ لَا! لَا تَقْتُلُنَّ ذُرِّیَۃً. قِیْلَ: لِمَ یَا رَسُوْلَ اﷲِ، اَلَیْسَ ہُمْ اَوْلَادُ الْمُشْرِکِیْنَ؟ قَالَ: اَوَلَیْسَ خِیَارُکُمْ اَوْلَادَ الْمُشْرِکِیْنَ؟ثُمَّ قال:لا تَقتُلوا الذُّرّیَّۃَ۔قالَہا ثَلاثًا، وقالَ:کُلُّ نَسَمَۃٍ تولَدُ علی الفِطرَۃِ حَتَّی یُعرِبَ عَنہا لِسانُہا، فأَبَواہایُہَوِّدانِہا ویُنَصِّرانِہا۔
ترجمہ :حضرت سیدناالاسودبن سریع رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں حضورتاجدارختم نبوت ﷺکی بارگاہ میں حاضرہواجب ہم ایک غزوہ میں شریک تھے ۔ (ہم لڑتے رہے یہاں تک)کہ ہمیں غلبہ حاصل ہو گیا اور ہم نے مشرکوں سے قتال کیا اور نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ لوگوں نے بعض بچوں کو بھی قتل کر ڈالا یہ بات حضورتاجدارختم نبوت ﷺ تک پہنچی تو حضورتاجدارختم نبوت ﷺنے فرمایا:ان لوگوں کو کیا ہوگیا ہے جن کے قتل کی نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ انہوں نے بچوں تک کو قتل کر ڈالا؟ خبردار!بچوں کو ہرگز قتل نہ کرو، خبردار!بچوں کو ہرگز قتل نہ کروعرض کیا گیا: یا رسول اللہﷺ!کیوں، کیا وہ مشرکوں کے بچے نہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا:کیا تمہارے بہترین لوگ بھی مشرکوں کے بچے نہیں تھے؟ حضورتاجدارختم نبوت ﷺنے فرمایا: ہر بچہ فطرت اسلام پر پیداہوتاہے پھراس کے ماں با پ اسے یہودی یانصرانی بنادیتے ہیں۔
(السنن الکبری:أحمد بن الحسین بن علی بن موسی الخُسْرَوْجِردی الخراسانی، أبو بکر البیہقی (۱۸:۳۰)

کفارکے بوڑھے لوگوں کو قتل نہ کرو

عَنْ خَالِدِ بْنِ الْفِزْرِ، حَدَّثَنِی أَنَسُ بْنُ مَالِکٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ:انْطَلِقُوا بِاسْمِ اللَّہِ وَبِاللَّہِ وَعَلَی مِلَّۃِ رَسُولِ اللَّہِ، وَلَا تَقْتُلُوا شَیْخًا فَانِیًا وَلَا طِفْلًا وَلَا صَغِیرًا وَلَا امْرَأَۃً، وَلَا تَغُلُّوا، وَضُمُّوا غَنَائِمَکُمْ، وَأَصْلِحُوا وَأَحْسِنُوا إِنَّ اللَّہَ یُحِبُّ الْمُحْسِنِینَ۔
ترجمہ : حضرت خالد بن فذر حضرت سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیںکہ حضورتاجدارختم نبوت ﷺنے فرمایا:اللہ تعالی کانام لیکراوراس کی مددکے ساتھ چلواوراللہ تعالی اوررسول کریم ﷺکی ملت پر چلونہ کسی بوڑھے کو قتل کرو، نہ شیر خوار بچے کو، نہ نابالغ کو اور نہ عورت کواورتم غلونہ کرو، اورتم صلح کرواورنیکی کروبے شک اللہ تعالی نیکی کرنے والوں کو پسندفرماتاہے ۔
(سنن أبی داود:أبو داود سلیمان بن الأشعث بن إسحاق بن بشیر بن شداد بن عمرو الأزدی السَِّجِسْتانی (۳:۳۷)

بے حس وحرکت بوڑھے قتل نہ کئے جائیں

عَنْ رَاشِدِ بْنِ سَعْدٍ قَالَ: نَہَی رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنْ قَتْلِ النِّسَاء ِ وَالذُّرِّیَّۃِ، وَالشَّیْخِ الْکَبِیرِ الَّذِی لَا حَرَاکَ بِہِ۔
ترجمہ :حضرت سیدناراشدبن سعدرضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضورتاجدارختم نبوت ﷺنے عورتوں، بچوں اور عمر رسیدہ افراد جن میں کوئی سکت نہ ہو کو قتل کرنے سے منع فرمایا۔
(مصنف ابن ابی شیبہ:أبو بکر بن أبی شیبۃ، عبد اللہ بن محمد العبسی (۶:۴۸۴)

مشرکین کے درخت نہ کاٹنا

عن علیِّ ابنِ أبی طالِبٍ قال:کان نَبِیُّ اللَّہِ صلی اللہ علیہ وسلم إذا بَعَثَ جَیشًا مِنَ المُسلِمینَ إلَی المُشرِکینَ قال:انطَلِقوا باسمِ اللَّہِ فذَکَرَ الحدیثَ، وفیہ:ولا تَقتُلوا ولیدًاطِفلًا، ولا امرأۃً، ولا شَیخًا کَبیرًا، ولا تُعَوِّرُنَّ عَینًا، ولا تَعقِرُنَّ شَجَرًا إلَّا شَجَرًایَمنَعُکُم قِتالًا أو یَحجِزُ بَینَکُم وبَینَ المُشرِکینَ، ولا تُمَثِّلوا بآدَمِیٍّ ولا بَہیمَۃٍ، ولاتَغدِروا، ولا تَغُلّوا۔
ترجمہ :حضرت سیدنامولاعلی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضورتاجدارختم نبوت ﷺجب بھی مشرکین کی طرف کوئی لشکرروانہ فرماتے توانہیں یہ نصیحت فرماتے تھے کسی بچے کو قتل نہ کرنا، کسی عورت کو قتل نہ کرنا، کسی بوڑھے کو قتل نہ کرنا، چشموں کو خشک و ویران نہ کرنا، جنگ میںحائل درختوں کے سوا کسی دوسرے درخت کو نہ کاٹنا، کسی انسان کا مثلہ نہ کرنا، کسی جانور کا مُثلہ نہ کرنا، بدعہدی نہ کرنا اورچوری و خیانت نہ کرنا.
(السنن الکبری:أحمد بن الحسین بن علی بن موسی الخُسْرَوْجِردی الخراسانی، أبو بکر البیہقی (۱۸:۲۳)

مشرکین کے تاجروں کے قتل سے منع فرمایا

عن أبی الزُّبَیرِ، عن جابِرٍقال:کانوا لا یَقتُلونَ تُجّارَ المُشرِکینَ ۔
ترجمہ :حضرت سیدنا زبیررضی اللہ عنہ جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں:مسلمان کبھی بھی مشرک تاجروں کو قتل نہیں کرتے تھے.
(السنن الکبری:أحمد بن الحسین بن علی بن موسی الخُسْرَوْجِردی الخراسانی، أبو بکر البیہقی (۱۸:۳۰۴)

مشرکین کے کسانوں کوقتل کرنے سے منع فرمایا

عن زَیدِ بنِ وہبٍ، عن عُمَرَ بنِ الخطابِ رضی اللہ عنہ أنَّہ قال:اتَّقوا اللَّہَ فی الفَلَّاحینَ فلا تَقتُلوہُم، إلَّا أن یَنصبوا لکم الحَربَ ۔
ترجمہ :حضرت سیدنازید بن وہب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت سیدناعمررضی اللہ عنہ فرمایاکرتے تھے کہ کسانوں کے معاملہ میں اللہ تعالیٰ سے ڈرو، سو انہیں قتل نہ کرو.اوران کے خلاف جنگی سامان نصب نہ کرو۔
(السنن الکبری:أحمد بن الحسین بن علی بن موسی الخُسْرَوْجِردی الخراسانی، أبو بکر البیہقی (۱۸:۳۰۳)

راہبوں کو قتل کرنے سے منع فرمایا

وَأَمَّا قَوْلُ عُمَرَ، فَإِنَّ أَصْحَابَ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَمْ یَقْتُلُوہُمْ حِینَ فَتَحُوا الْبِلَادَ ;وَلِأَنَّہُمْ لَا یُقَاتِلُونَ فَأَشْبَہُوا الشُّیُوخَ وَالرُّہْبَانَ۔
ترجمہ :حضرت سیدناعمررضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضورتاجدارختم نبوت ﷺکے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا یہ معمول تھا کہ وہ کسی علاقے کو فتح کرلینے کے بعد ان لوگوں (زراعت پیشہ افراد)کو قتل نہ کرتے کیونکہ وہ براہ ِراست جنگ میں شریک نہ ہوتے تھے، پس وہ بوڑھوں اور مذہبی پیشوائوں کے حکم میں ہوتے تھے.
(أحکام أہل الذمۃ:محمد بن أبی بکر بن أیوب بن سعد شمس الدین ابن قیم الجوزیۃ (ا:۱۶۵)

کفارکے خدمت گاروں کے قتل سے منع فرمایا

حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ الْمُرَقَّعِ بْنِ صَیْفِیِّ بْنِ رَبَاحٍ، قَالَ: حَدَّثَنِی أَبِی، عَنْ جَدِّہِ رَبَاحِ بْنِ رَبِیعٍ، قَالَ:کُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی غَزْوَۃٍ فَرَأَی النَّاسَ مُجْتَمِعِینَ عَلَی شَیْء ٍ فَبَعَثَ رَجُلًا، فَقَالَ:انْظُرْ عَلَامَ اجْتَمَعَ ہَؤُلَاء ِ؟ فَجَاء َ فَقَالَ: عَلَی امْرَأَۃٍ قَتِیلٍ فَقَالَ: مَا کَانَتْ ہَذِہِ لِتُقَاتِلَ قَالَ:وَعَلَی الْمُقَدِّمَۃِ خَالِدُ بْنُ الْوَلِیدِ فَبَعَثَ رَجُلًافَقَالَ:قُلْ لِخَالِدٍ لَا یَقْتُلَنَّ امْرَأَۃً وَلَا عَسِیفًا۔
ترجمہ :حضرت سیدنارباح بن ربیع رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک غزوہ میں ہم حضور تاجدارختم نبوت ﷺ کے ساتھ تھے کہ آپﷺ نے دیکھا کہ بہت سے لوگ کسی چیز کے پاس جمع ہیں،آپﷺنے ایک آدمی کو یہ دیکھنے کے لئے بھیجا کہ لوگ کس چیز کے پاس جمع ہوئے ہیںاُس نے آ کر بتایا:ایک مقتول عورت کے پاس فرمایا:یہ عورت تو جنگ نہیں کرتی تھی حضرت رباح رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اگلے دستے کے کمانڈر حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ تھے لہٰذا آپ ﷺ نے ایک آدمی کو بھیجا اور فرمایا:خالد سے کہنا: (مشرکین کی)عورتوں اور لوگوں کی خدمت کرنے والوں کو ہرگز قتل مت کرناایک روایت میں ہے:بچوں اور خدمت گاروں کو ہرگز قتل مت کرنا.
(سنن أبی داود:أبو داود سلیمان بن الأشعث بن إسحاق بن بشیر (۳:۵۳)

زخمی کافرکے قتل کرنے سے منع فرمایا

قَالَ عَلِیُّ بْنُ أَبِی طَالِبٍ:لَا یُذَفَّفُ عَلَی جَرِیحٍ وَلَا یُقْتَلُ أَسِیرٌ وَلَا یُتَّبَعُ مُدْبِرٌ ۔
ترجمہ :حضرت سیدنامولاعلی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ زخمی کو فوراً قتل نہ کیاجائے، نہ قیدی کو قتل کیا جائے اور نہ بھاگنے والے کا تعاقب کیا جائے۔
(المصنف:أبو بکر عبد الرزاق بن ہمام بن نافع الحمیری الیمانی الصنعانی (۱۰:۱۲۳)
کفارپرشب خون نہ مارتے
عَنْ أَنَسٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَتَی خَیْبَرَ لَیْلًا، وَکَانَ إِذَا أَتَی قَوْمًا بِلَیْلٍ لَمْ یُغِرْ بِہِمْ حَتَّی یُصْبِحَ۔
ترجمہ :حضر ت سیدناانس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضورتاجدارختم نبوت ﷺرات کے وقت خیبر کے مقام پر پہنچے چنانچہ آپ ﷺ کا معمول تھا کہ جب کسی جگہ رات کو پہنچتے تو صبح ہونے تک ان لوگوں پر حملہ نہیں کیا کرتے تھے.
(صحیح البخاری:محمد بن إسماعیل أبو عبداللہ البخاری الجعفی(۵:۱۳۱)

حضورتاجدارختم نبوتﷺ کے اس ضابطہ جنگ کو سامنے رکھ کر امریکی دہشت گردوںکی ان کارروائیوں کا تصور کریں جو رات کے اندھیرے میں اچانک ہنستی بستی آبادیوں کو کھنڈرات میںبدل دیتے ہیں اور بیٹھے بٹھائے ہزاروں لوگ موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں.

جواسلام چڑیاکو تکلیف دینے سے منع کرے۔۔

عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِ اللَّہِ، عَنْ أَبِیہِ، قَالَ: کُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی سَفَرٍ، فَانْطَلَقَ لِحَاجَتِہِ فَرَأَیْنَا حُمَرَۃً مَعَہَا فَرْخَانِ فَأَخَذْنَا فَرْخَیْہَا، فَجَاء َتِ الْحُمَرَۃُ فَجَعَلَتْ تَفْرِشُ، فَجَاء َ النَّبِیُّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ:مَنْ فَجَعَ ہَذِہِ بِوَلَدِہَا؟ رُدُّوا وَلَدَہَا إِلَیْہَاوَرَأَی قَرْیَۃَ نَمْلٍ قَدْ حَرَّقْنَاہَا فَقَالَ: مَنْ حَرَّقَ ہَذِہِ؟ قُلْنَا: نَحْن قَالَ:إِنَّہُ لَا یَنْبَغِی أَنْ یُعَذِّبَ بِالنَّارِ إِلَّا رَبُّ النَّارِ۔

ترجمہ:حضرت عبد الرحمن بن عبد اﷲرضی اللہ عنہمانے اپنے والد سے روایت کیا ہے کہ ایک سفر میں وہ حضورتاجدارختم نبوت ﷺکے ساتھ تھے آپ ﷺقضاے حاجت کے لئے تشریف لے گئے تو انہوں نے ایک چڑیا دیکھی جس کے ساتھ دو بچے تھے انہوں نے اس کے بچے پکڑ لیے تو چڑیا اضطراب اور پریشانی میں پَر بچھانے لگی جب حضورتاجدارختم نبوت ﷺواپس تشریف لائے تو فرمایا:اسے اس کے بچوں کی وجہ سے کس نے تڑپایا ہے؟ اس کے بچے اسے لوٹا دو.پھر آپ ﷺنے چیونٹیوں کا ایک بل دیکھا جسے جلایا گیا تھاتو آپ ْﷺنے اِس کی ممانعت بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:آگ کے ساتھ عذاب دینا آگ کے رب تعالی کے علاوہ کسی کے لئے جائز نہیں ہے.
( سنن أبی داود:أبو داود سلیمان بن الأشعث بن إسحاق بن بشیر (۳:۵۵)

عہد جاہلیت میں لڑائی کے دوران اس قدر وحشیانہ افعال سرزد ہوتے تھے کہ شدتِ انتقام میں دشمن کو زندہ جلا دیا جاتا تھاچنانچہ حضورتاجدارختم نبوت ﷺ نے جنگی قوانین میں بے شمار اصلاحات کے ساتھ ساتھ آگ میں جلانے جیسی وحشیانہ حرکت سے بھی منع فرما دیااسلام نے جہاں چیونٹی جیسی مخلوق کو آگ میں جلانے سے منع کیا ہے تو وہاں انسانوں کو جلانے کی اجازت کس طرح دی جاسکتی ہے؟ اسی طرح حضورتاجدارختم نبوت ﷺ نے جہادی مہمات پر روانہ کرتے ہوئے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو تاکید فرمائی کہ دشمن کو آگ میں جلا کر ہلاک نہ کرنا۔

کفارکے گھروں میں داخل ہونے سے منع فرمایا

عَنِ الْعِرْبَاضِ بْنِ سَارِیَۃَ السُّلَمِیِّ، قَالَ: نَزَلْنَا مَعَ النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ خَیْبَرَ وَمَعَہُ مَنْ مَعَہُ مِنْ أَصْحَابِہِ، وَکَانَ صَاحِبُ خَیْبَرَ رَجُلًا مَارِدًا مُنْکَرًا، فَأَقْبَلَ إِلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: یَا مُحَمَّدُ، أَلَکُمْ أَنْ تَذْبَحُوا حُمُرَنَا، وَتَأْکُلُوا ثَمَرَنَا، وَتَضْرِبُوا نِسَاء َنَا، فَغَضِبَ یَعْنِی النَّبِیَّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَقَالَ:یَا ابْنَ عَوْفٍ ارْکَبْ فَرَسَکَ ثُمَّ نَادِ: أَلَا إِنَّ الْجَنَّۃَ لَا تَحِلُّ إِلَّا لِمُؤْمِنٍ، وَأَنِ اجْتَمِعُوا لِلصَّلَاۃِ قَالَ:فَاجْتَمَعُوا، ثُمَّ صَلَّی بِہِمُ النَّبِیُّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ قَامَ، فَقَالَ: أَیَحْسَبُ أَحَدُکُمْ مُتَّکِئًا عَلَی أَرِیکَتِہِ، قَدْ یَظُنُّ أَنَّ اللَّہَ لَمْ یُحَرِّمْ شَیْئًا إِلَّا مَا فِی ہَذَا الْقُرْآنِ، أَلَا وَإِنِّی وَاللَّہِ قَدْ وَعَظْتُ، وَأَمَرْتُ، وَنَہَیْتُ، عَنْ أَشْیَاء َ إِنَّہَا لَمِثْلُ الْقُرْآنِ، أَوْ أَکْثَرُ، وَإِنَّ اللَّہَ عَزَّ وَجَلَّ لَمْ یُحِلَّ لَکُمْ أَنْ تَدْخُلُوا بُیُوتَ أَہْلِ الْکِتَابِ إِلَّا بِإِذْنٍ، وَلَا ضَرْبَ نِسَائِہِمْ، وَلَا أَکْلَ ثِمَارِہِمْ، إِذَا أَعْطَوْکُمُ الَّذِی عَلَیْہِمْ۔
ترجمہ :حضرت سیدنا عرباض بن ساریہ سلمی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:ہم حضورتاجدارختم نبوت ﷺکے ساتھ خیبر کے مقام پر اترے اور کتنے ہی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم آپ ﷺکے ساتھ تھے خیبر کا سردار ایک مغرور اور سرکش آدمی تھا۔اس نے حضورتاجدارختم نبوت ﷺکی بارگاہ میں حاضر ہوکر کہا:کیا آپﷺ کے لیے مناسب ہے کہ آپﷺ ہمارے گدھوں کو ذبح کریں، ہمارے پھلوں کو کھائیں اور ہماری عورتوں کو پیٹیں؟ حضورتاجدارختم نبوت ﷺ ناراض ہوئے اور فرمایا:اے ابن عوف!اپنے گھوڑے پر سوار ہو کر یہ منادی کردو کہ جنت حلال نہیں ہے مگر ایمان والے کے لیے اور نماز کے لیے جمع ہوجاؤ۔راوی کا بیان ہے کہ لوگ جمع ہوگئے تو آپ ﷺ نے انہیں نماز پڑھائی پھر آپ ﷺکھڑے ہوئے اور فرمایا:کیا تم میں سے کوئی اپنی مسند پر ٹیک لگا کر یہ سمجھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کوئی چیز حرام قرار نہیں دی مگر وہی جس کا ذکر قرآن مجید میں ہے ،آگاہ ہوجاؤ، خدا کی قسم! میں نے نصیحت کرتے ہوئے، حکم دیتے ہوئے اور بعض چیزوں سے منع کرتے ہوئے جو کچھ بھی کہا ہے وہ قرآن کی طرح ہے بلکہ ان کی تعداد قرآنی امور سے زیادہ ہے ،اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے یہ جائز نہیں رکھا ہے کہ اہلِ کتاب کی اجازت کے بغیر ان کے گھروں میں داخل ہو، نیز ان کی عورتوں کو پیٹنا اور ان کے پھلوں کو کھانا بھی حلال نہیں ہے.۔
(سنن أبی داود:أبو داود سلیمان بن الأشعث بن إسحاق بن بشیر (۳:۱۷۰)

عصرحاضرمیں نصرانیت ہی دہشت گردی کادوسرانام ہے

دہشت گردی کی تعریف
اپنے مکروہ مقاصد کے لیے خواہ وہ اغوابرائے تاوان کی صورت میں ہو،بیٹیوں، مائوں، بہنوں، بیویوں اور خواتین پر ظلم اور ہراس کی صورت میں ہو، قتل کی صورت میں ہو،دہشت پھیلا کر ناجائز طور پر مال کے حصول کی صورت میں ہو،بھتہ خوری کی صورت میں ہو، دہشت اور خوف وہراس پیدا کرکے کسی کی جائیداد ہتھیانے کی صورت میں ہو، ریاست کا اپنے شہریوں پر ظلم کرنے اور انہیں قتل کرنے کی صورت میں ہو،ایک طاقت ور ریاست کا دوسری کمزور ریاست کے کمزور لوگوں پر ظلم و ستم کرنے اور انہیں قتل کرنے کی صورت میں ہو، سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے لوگوں کو قتل کرنے کی صورت میں ہو، پولیس کاماورائے عدالت جعلی پولیس مقابلے میں لوگوں کو مارنے کی صورت میں ہو،ایسا عمل جس سے کسی بھی معاشرے میں فساد پھیلے یا ایسا عمل جس سے کسی بھی معاشرے کے بے گناہ بے قصور اور پرامن لوگوں میں خوف و ہراس پھیلے دہشت گردی کہلاتا ہے۔ مختصر طور پر دہشت گردی کی تعریف اس طرح کی جاسکتی ہے کہ وہ عمل جس سے کسی بھی معاشرے، ملک، شہر، گائوں، قصبہ، گلی، محلہ، خاندان کے لوگوں اور کسی فرد میں خوف و ہراس اوردہشت پھیلے دہشت گردی کہلاتا ہے۔

آج کی مسیحت جس بنیاد پر کھڑی ہے وہ انجیل (بائبل)ہے جس میں تحریف یعنی بہت ساری تبدیلیاں اپنے مقاصد کے حصول کے لیے کر دی گئیں ہیں جبکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اللہ تعالی کے سچے پیغمبر ہیں اور اللہ تعالیٰ نے ان پر جو انجیل نازل کی وہ بھی سچی اور مقدس ہے اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تعلیمات بھی پر امن معاشرے کے لیے تھیں اور پرامن تھیں لیکن افسوس کچھ لوگوں نے اپنے ذاتی مقاصد کے لیے اس مقدس انجیل (بائبل)میں بے شمار تبدیلیاں کر دیں جس کی وجہ سے آہستہ آہستہ پورا مسیحی معاشرہ تبدیل ہوتا چلا گیا اور حضرت سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی اصل انجیل اور اصل تعلیمات مسیحی معاشرہ سے عنقا ہوگئیں ورنہ ہر نبی علیہ السلام نے امن کی بات کی محبت کی بات کی، بھائی چارے کی بات کی ہے۔ اگر موجودہ انجیل (بائبل) جو اب تبدیل ہوچکی ہے مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ تبدیل شدہ انجیل(بائبل)کیا تعلیم دیتی ہے تو افسوس ہوتا ہے یہ تبدیل شدہ انجیل (بائبل)امن کے متعلق کیا کہتی ہے؟۔
پہلی عبارت
یہ نہ سمجھو کہ میں زمین پر صلح کرانے آیا ہوں، صلح کرانے نہیں بلکہ تلوار چلوانے آیا ہوں کیونکہ میں اس لیے آیا ہوں کہ آدمی کو اس کے باپ سے اور بیٹی کو اس کی ماں سے اور بہو کو اس کی ساس سے جدا کردوں اور آدمی کے دشمن اس کے گھر ہی کے لوگ ہوں گے۔
(متی(باب ۱۰آیت ۳۴تا۳۶)
اب اس تبدیل شدہ انجیل کے الفاظ پر ذرا غور کریں تو معلوم ہو گا کہ یہ الفاظ کھلی دہشت گردی کی تعلیم نہیں دیتے تو اور کیا کرتے ہیں؟ ان الفاظ پر غور کریں کہـــــــــــ میں صلح کرانے نہیں بلکہ تلوار چلوانے آیا ہوں کیا یہ الفاظ دہشت گردی کی تعلیم نہیں دیتے؟ یا آپ آیات کے ان الفاظ پر غور کریں کیونکہ میں اس لیے آیا ہوں کہ آدمی کو اس کے باپ سے اور بیٹی کو اس کی ماں سے اور بہو کو اس کی ساس سے جدا کردوں اور آدمی کے دشمن اس کے گھر ہی کے لوگ ہوں گے۔ کیا آدمی کو باپ سے جدا کرنا اور بیٹی کو ماں سے جدا کرنا یا بہو کو ساس سے جدا کرنا لوگوں میں خوف و ہراس اور دہشت گردی اور خوف پیدا نہیں کرتا۔ یہی وجہ ہے کہ آج کا مسیحی اور یورپی معاشرہ تبدیل شدہ انجیل (بائبل)کی ان آیات کا مظہر نظر آتا ہے۔ کہ والدین اپنی اولاد کو جوان ہوتے ہی گھروں سے نکال دیتے ہیں، ان کی بیٹیاں رزق کی تلاش میں در در کے دھکے کھاتی ہیں، جسم فروشی کرنے پر مجبور ہوتی ہیں اور عزت و وقار سے محروم زندگی گزارنے پر مجبور ہوتی ہیں۔ بیٹے اسلحہ اٹھاتے ہیں اور ڈکیت بنتے ہیں اور جرائم پیشہ افراد کے ہاتھوں میں کھیلتے ہیں اور منشیات کا کاروبار کرتے ہیں اور خود بھی منشیات کے عادی بنتے ہیں اور لوگوں کے اندر بھی منشیات کا زہر اتارتے ہیں۔ یہ دہشت گردی نہیں تو اور کیا ہے؟ پورا مسیحی معاشرہ اور یورپ اس خوف اور دہشت کی فضا میں اپنی زندگی بسر کررہا ہے کہ ان کی نئی نسل کو منشیات کی لت نہ لگ جائے۔اسی طرح والدین کو اولاد اولڈ ہائوسز کی نذر کردیتی ہے جہاں والدین بے کیف زندگی گزارنے پر مجبور ہوتے ہیں اور اولاد کبھی والدین کو اولڈ ہائوسز میں پوچھنے بھی نہیں آتی والدین ان اولڈ ہائوسز میں عالم خوف اور دہشت میں اپنی زندگی کا آخری سفر تمام کرتے ہیں۔
دوسری عبارت
جب تو کسی شہر سے جنگ کرنے کو اس کے نزدیک پہنچے تو پہلے اسے صلح کا پیغام دینا اگر وہ تجھ کو صلح کا جواب دے اور اپنے پھاٹک تیرے لیے کھول دے تو وہاں کے سب باشندے تیرے باجگزار بن کر تیری خدمت کریں ا ور اگر وہ تجھ سے صلح نہ کرے بلکہ تجھ سے لڑنا چاہے تو اس کا محاصرہ کرنا اور جب خداوند تیرا خدا اسے تیرے قبضہ میں کر دے تو وہاں کے ہر مرد کو تلوار سے قتل کرڈالنا لیکن عورتوں اور بچوں اور چوپائے اور اس شہر کا سب مال لوٹ کر اپنے لیے رکھ لینا اور تو اپنے دشمنوں کی اس لوٹ کو جو تیرے خدا نے تجھ کو دی ہو کھانا اور ان سب شہروں کا یہی حال کرنا جو تجھ سے بہت دور ہیں اور ان قوموں کے شہر نہیں ہیں۔ ان قوموں کے شہروں جن کو خداوند تیرا خدا میراث کے طو رپر تجھے دیتا ہے کسی ذی نفس کو زندہ نہ بچا رکھنابلکہ بالکل نیست و نابودکردینا۔
(بائبل کی کتاب استثناء ( باب ۲۰: آیت نمبر ۱۰)
تیسری عبارت
تو تُو اس شہر کے باشندوں کو تلوار سے ضرور قتل کر ڈالنا اور وہاں کا سب کچھ اور چوپائے وغیرہ تلوار ہی سے نیست و نابود کردینا اور وہاں کی ساری لوٹ کو چوک کے بیچ جمع کرکے اس شہر کو اور وہاں کی لوٹ کے تنکا تنکا کو اپنے خدا کے حضور آگ سے جلا دینا اور وہ ہمیشہ کو ایک ڈھیر سا پڑا رہے او رپھر کبھی نہ ہٹایا جائے۔
(بائبل کی کتاب استثناء ( باب ۱۳: آیت نمبر۱۶)
اگر اس تبدیل اور تحریف شدہ انجیل کا بغور مطالعہ کریں تو محسوس ہوتا ہے کہ کتنے سخت اور دہشت گردانہ سوچ کے احکامات دیئے گئے ہیں جیسا کہ مردوں کو قتل کردینا،عورتوں، بچوں، چوپائوں اور سب مال کو لوٹ کر اپنے لیے رکھ لینا، تلوار سے ضرور قتل کرنا، چوپائوں کو تلوار ہی سے نیست و نابود کردینا، لوٹ کے مال کا تنکا تنکا جلا دینا، صلح کی صورت میں شہر کے لوگوں کو اپنا باجگزار یعنی غلام اور خدمت گزار بنا لینا۔ سوچیے کیا یہ سب باتیں لوگوں میں خوف اور دہشت پیدا کرنے کا سبب نہیں بنتیں۔ کیا حضرت سیدنا عیسیٰ علیہ السلام اس قسم کی تعلیم دے سکتے تھے یا اللہ تعالیٰ کی پاک ذات اس قسم کے احکامات دے سکتی ہے؟ کسی بھی درد دل رکھنے والے انسان سے پوچھیں گے تو اس کا جواب نفی میں ہو گا کیونکہ اللہ تعالی کے تمام نبیوں، رسولوں اور پیغمبروں علیہم السلام نے ہمیشہ لوگوں کو امن، محبت اور بھائی چارے کی تعلیم دی۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ بہت ہی رحیم (رحم کرنے والا )اور بہت ہی کریم (کرم کرنے والا)ہے وہ کیسے اپنے بندوں کے جب تک ان کے گناہ بہت ہی حد سے نہ بڑھ جائیں ایسے احکامات دے سکتا ہے، کچھ مفاد پرست لوگوں نے اپنے برے مقاصد حاصل کرنے کے لیے انجیل(بائبل)کو تبدیل کیا اور اسی سوچ کا نتیجہ پہلی جنگ عظیم اور دوسری جنگ عظیم کی صورت میں نکلا جس میں لاکھوں بے گناہ لوگ مارے گئے، لاکھوں عورتیں بیوہ ہوئیں، لاکھوں بچے یتیم ہوئے، لاکھوں افراد زخمی ،اپاہج اور معذور ہوئے اور کھربوں ڈالر کی املاک کا نقصان ہوا۔ صرف جاپان کے دو شہروں ہیروشیما اور ناگاساکی پر گرنے والے دو ایٹم بمبوں نے اتنی تباہی مچائی جس کی شاید ہی کوئی مثال اس دنیا میں پائی جائے۔ایک لاکھ کے قریب بے گناہ افراد مارے گئے کئی لاکھ افراد زخمی ہوئے اور ان ایٹم بمبوں کے اثرات یہ ہوئے کہ آج بھی ان شہروں میں معذور بچے پیدا ہوتے ہیں۔ لیکن آج بھی لوگوں نے سبق نہیں سیکھا کبھی ویتنام کو جنگ کی بھٹی میں جھونکا جاتا ہے تو کبھی بوسنیا میں مسلمانوں کو ظلم، بربریت اور دہشت گردی سے قتل کیا جاتا ہے، کبھی عراق میں تیل پر قبضہ کے لیے کیمیکل ہتھیاروں (یہ کیمیکل ہتھیار آج تک نہیں ملے)کا بہانہ بنا کر حملہ کیا جاتا ہے اور ہزاروں افراد کا قتل عام کیا جاتا ہے۔ تو کبھی افغانستان پر حملہ کر کے موت کا بازار گرم کیا جاتا ہے تو کبھی داعش جیسی دہشت گرد تنظیمیں خود ہی پیدا کی جاتی ہیں اورکبھی پاکستان میں بے حیائی کابازارگرم کرنے کے لئے بے حیااورفاحشہ عورتوں کو کرایہ پرلیکر اسلام کے خلاف بکواس کرائی جاتی ہے پھراس طرح دہشت گرد اورکمینے لوگ پیداکیے جاتے ہیں اور جب یہ تنظیمیں خود کے گلے پڑتی ہیں تو تمام مسلمانوں کو مورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے کہ سب مسلمان دہشت گرد ہیں۔ کبھی فلسطین میں بے گناہ لوگوں، بچوں اور عورتوں کا قتل عام کیا جاتا ہے تو کبھی کشمیر میں انڈیا بے گناہ مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلتا ہے اور عورتوں کی عزتوں کو تار تار کرتا ہے تو کبھی برما میں مسلمانوں کو خون میں نہلایا جاتا ہے یہ سب دہشت گردی نہیں تو اور کیا ہے؟ یہ انسان کے لیے سوچنے کامقام ہے۔ کاش کوئی سوچے اور سمجھے۔

دہشت گردی کا مذہب کیاہے؟

لوگوں کا خیال ہے کہ دہشت گردی کا کوئی مذہب نہیں ہوتا تو بادی النظر میں یہ بات درست نظر آتی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ ہر مذہب، قوم، ملک، شہر، قصبہ، گائوں اور محلہ، میں اچھے برے لوگ ہوتے ہیں اور ان کے اعمال بھی اچھے برے ہوتے ہیں۔ دنیا میں دہشت گردی ایک برائی اور بہت بڑا گناہ تسلیم کی جاتی ہے اور یہ کسی بھی مذہب، قوم، ملک، شہر، قصبہ، گائوں اور محلہ کا کوئی فرد یا لوگ انفرادی یا اجتماعی طور پر کرسکتے ہیں بلکہ کرتے نظر آتے ہیں اس لیے یہ کہا جاسکتا ہے کہ دہشت گردی کا کوئی مذہب نہیں ہوتا اس لیے اسے کسی مذہب، قوم، ملک، شہر، قصبہ، گائوں،اور محلہ پر لاگو کرنا درست عمل نہیں ہے یا کہنا کہ اس مذہب، قوم، ملک، شہر، قصبہ، گائوں، محلہ، کے تمام افراد دہشت گردی کرتے ہیں کو بالکل بھی درست نہیں کہا جاسکتا جیساکہ یورپی ممالک اور امریکا اسلام کو ایک دہشت گرد مذہب اور تمام مسلمانوں کو دہشت گرد کہتے ہیں۔ دنیا میں اللہ تعالیٰ نے ایک لاکھ کم وبیش چوبیس ہزار انبیا ء کرام علیہم السلام لوگوں کی ہدایت اور انہیں سیدھا راستہ دکھانے کے لیے بھیجے اور ان سب انبیا ء کرام علیہم السلام نے لوگوں کو امن، محبت اور بھائی چارے کی تعلیم دی۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے ان انبیا ء کرام علیہم السلام پر جو صحیفے اور چار آسمانی کتابیں توریت، زبور اور انجیل اور قرآن مجید نازل کیں ان سب میں دہشت گردی کا نہیں بلکہ امن، محبت اور بھائی چارے کا پیغام دیا گیااور انبیا ء کرام علیہم السلام کے ذریعے جو مذاہب اس دنیا میں پھیلے ان میں بھی امن، محبت اور بھائی چارے کا پیغام دیا گیا تاکہ لوگ سچائی، امن، محبت اور بھائی چارے اور ہدایت کا راستہ اپنائیں نہ کہ دہشت گردی، ظلم اور بربریت اور نفرت کا راستہ اپنائیں بھلا اللہ تعالی کیوں چاہے گا کہ لوگ ایک دوسرے کو قتل کریں، ایک دوسرے پر ظلم کریں دنیا میں فساد پیدا کریں، دہشت گردی کریں اور اس دنیا کو جہنم بنا دیں ہاں یہ ضرور ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو عمل کا اختیار دیا ہے اور اس میں انسان کو آزادی دی ہے کہ انسان چاہے تو اچھا عمل کرے جس کاصلہ اسے آخرت میں جنت کی صورت میں ملے گا اور چاہے تو برا عمل دہشت گردی، ظلم، قتل و غارت گری کرے جس کا صلہ اسے آخرت میں جہنم کی صورت میں ملے گا اور یہی انسان کا امتحان ہے جو انسان کو دینا ہے۔ اس کے علاوہ اور دیگر مذاہب میں بھی ان کے بانیان نے امن، محبت اور بھائی چارے کا ہی پیغام دیا ہے لیکن افسوس لوگوں نے توریت،زبور اور انجیل میں اپنے مفادات اور برے مقاصد کی خاطر بے شمار تبدیلیاں کیں اور اپنے مذاہب کو تبدیل کر کے رکھ دیا جس کی وجہ سے دہشت گردی، ظلم، قتل و غارت گری کا وہ بازار گرم ہوا جس نے پوری دنیا کو جہنم بنا دیا۔ لوگوں نے اللہ تعالی کے چنے ہوئے بندوں کو چھوڑ کر اپنے جیسے بندے چننے شروع کردیے جس سے دنیا میں دہشت گردی، ظلم، بربریت، مفاد پرستی، جھوٹ، فساد، نفرت، منافقت جیسی برائیاں بہت تیزی سے پھیلیں یہی وجہ ہے کہ اس وقت دنیا میں ایک نفسا نفسی کا عالم ہے۔ دہشت گردی، قتل و غارت گری، جھوٹ، ظلم، نفرت عام ہے۔ آج اسلام میں جو دہشت گردی نظر آتی ہے اگر غیر جانبدارانہ تحقیقات کی جائیں تو معلوم ہوتا ہے دہشت گردی اسی نسل کے لوگ پھیلا رہے ہیں جوحضورتاجدارختم نبوت ﷺکے سخت ترین مخالف تھے۔ جنھوں نے حضورتاجدارختم نبوت ﷺکی گستاخیاں کیں اورکوئی لمحہ ایسانہ گزرنے دیاکہ جس میں وہ حضورتاجدارختم نبوت ﷺکو ایذانہ دیتے ہوں ۔
اسی نسل کے لوگ اسلام کا لبادہ اوڑھے ہوئے ہیں اور دین اسلام کو اپنی مکروہ کاروائیوں سے بدنام کرنے کی سازش میں مصروف عمل ہیں۔ ہاں مذہب اسلام ایک پرامن مذہب ہے اسی لیے اللہ تعالیٰ نے حضورتاجدارختم نبوت ﷺکورحمتہ اللعالمین یعنی تمام جہانوں کے لیے رحمت کہا ہے۔ یہ اللہ کے پاک نبی ﷺہی کی تعلیمات ہیں کہ اسلام دنیا کا وہ واحد مذہب ہے جس کے ماننے والے مسلمان تمام انبیا علیہم السلام کا احترام کرتے ہیں اور اللہ کی طرف سے نازل کی گئی تمام آسمانی کتابوں توریت، زبور، انجیل اور قرآن مجید پر ایمان رکھتے ہیں۔ قرآن مجید ہی وہ واحد آسمانی کتاب ہے جس کی حفاظت کا ذمہ اللہ تعالیٰ نے خود لیا ہے اور اس میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی ہے۔ باقی جو کتابیں ہیں ان میں بے شمار تبدیلیاں کر دی گئیں ہیں۔ یہودیت، عیسائیت، ہندو مذہب، سکھ مذہب، بدھ مت اور دیگر مذاہب کے لوگوں میں بھی دہشت گردی عام ہے اور ان کی دہشت گردی نے بھی مذہب کا لبادہ اوڑھ رکھا ہے لیکن اسلام سے خوف زدہ مغربی میڈیا اور اس کے حواری اسرائیل اور انڈیا صرف اسلام اور تمام مسلمانوں کو دہشت گرد کہتے نہیں تھکتے۔ جبکہ دہشت گردی کا کوئی مذہب اور کوئی علاقہ نہیں ہوتا وہ ہر مذہب، ملت، قوم اور قبیلے میں پائی جاتی ہے۔ بوسنیا میں مسلمانوں کا قتل عام ہو یا فلسطین میں عورتوں، بچوں اور بے گناہ انسانوں کو ظلم و بے دردی سے قتل کیا جائے۔ یا عراق میں مسلمان قتل ہوں یا افغانستان میں مسلمان خون میں نہلائے جائیں یا کشمیر میں مسلمانوں کو قتل کیا جائے یا برما میں مسلمان قتل ہوں یا اسلامی لبادے میں چھپے ہوئے دہشت گرد مسلمانوں کے خون ناحق سے ہاتھ رنگین کریں، قتل تو ہر طرف مسلمان ہی ہو رہے ہیں اور الزام بھی مسلمانوں پر ہی لگایا جارہا ہے کہ وہ دہشت گرد ہیں۔ ابھی حالیہ میںنیوزی لینڈ میں کرائس چرچ کی مسجد میں ۵۰مسلمانوں کی شہادت اسلام فوبیا دہشت گردی کی بہت بڑی مثال ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دہشت گردی کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔ شاید ظلم، انتقام، نفرت اور بربریت ہی دہشت گردی کا مذہب ہے۔

دہشت گردی پھیلنے کی اصل وجہ انگریزی قانون

دہشت گردی پھیلنے کی وجوہات میں سے ایک وجہ دنیا کا اندھا یعنی انگریزی قانون بھی ہے۔ دنیا کا قانون جرم پر تو سزا دیتا ہے لیکن وہ یہ بالکل نہیں دیکھتا کہ جرم کیوں ہوا ہے ذرا سوچیے کہ اگر کسی کی ماں، بیٹی یا بہن کی عزت لٹ رہی ہو تو وہ کیا کرے گا؟ کیا وہ بے شرمی، بے حیائی اور بے غیرتی کا راستہ اپناتے ہوئے خاموشی اختیار کرے گا یا پھر اس عزت لوٹنے والے کا مقابلہ کرے گااور اسے موت کے گھاٹ اتار دے گا۔ لیکن افسوس اس دنیا کا اندھا قانون یہ بالکل نہیں دیکھتا کہ قتل کرنے والے شخص نے اپنی ماں، بیٹی یا بہن کی عزت بچاتے ہوئے قتل کیا ہے۔ دنیا کے اس اندھے قانون کی نظر میں تو قتل ہوا ہے جس کی سزا اسے قتل کے جرم میں دے دی جاتی ہے۔ اس بے انصافی کا یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ معاشرے میں بغاوت کے جراثیم پھیلتے ہیں اور انسانوں کو انجام کار دہشت گردی کی طرف لے جاتے ہیں، دہشت گردی کروانے والے اندھے قانون کے ستائے ہوئے لوگوں کو با آسانی اپنے غلط راستے پر ڈالتے ہوئے اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
اسی طرح اگر کوئی شخص کئی دن سے بھوکا ہو اور وہ بھوک سے تنگ آکر اپنے پیٹ کی دوزخ کو بھرنے کے لیے کسی پھل والے کی دکان سے پھل چوری کرلے یا کسی تندور پر سے روٹی چوری کرلے تو ہماری دنیا کا اندھا قانون اسے چوری کے جرم میں سزا سنا دیتا ہے۔ وہ بالکل یہ نہیں دیکھتا کہ اس شخص نے چوری کیوں کی ہے؟، قانون کو اس سے کوئی غرض نہیں ہوتی کہ چوری عالم مجبوری میں بھوک کے ہاتھوں مجبور ہو کر کی گئی ہے۔ دنیا کا اندھا قانون صرف یہ دیکھتا ہے کہ چوری کا جرم ہوا ہے اور وہ چوری کے جرم کی سزا سنا دیتا ہے۔ اندھے قانون کو کسی شخص کی مجبوری، بے بسی اور بھوک سے کوئی غرض نہیں ہوتی اب سوچیں کہ کیا اس قسم کے واقعات بغاوت کو جنم نہیں دیتے۔ اور کیا لوگ انجام کار دہشت گردی کرنے پر مجبور نہیں ہوجاتے کیونکہ ریاست ایسے مجبور لوگوں کو بالکل بھی سہارا نہیں دیتی۔
اسی طرح کوئی شخص اپنے ہاتھ میں حصول علم کی سندلے کر ایک دفتر سے دوسرے دفتر کا چکر کاٹے۔ یا ایک کارخانے سے دوسرے کارخانے میں نوکری کے لیے جائے یا ایک ادارے سے دوسرے ادارے میں نوکری کی بھیک مانگے لیکن کوئی اسے نوکری نہ دے اور اس کے گھر میں فاقوں کی نوبت آجائے تو پھر وہ کیا کرے؟ کیا وہ کسی دریا یا سمندر میں چھلانگ لگا کر ڈوب مرے یا کیا وہ کسی پہاڑ یا کسی اونچے مینار سے چھلانگ لگا کر اپنی جان دے دے؟ یا پھر دہشت گردی کروانے والوں کے ہاتھوں کا کھلونا بن کر دہشت گردی کرے اور کسی اندھی گولی کا نشانہ بن کر موت کی آغوش میں چلا جائے اور دنیا کے غموں سے نجات پا جائے یا پھر وہ گرفتار ہو اور دنیا کے اندھے قانون کے ذریعے اپنے جرم کی سزا پائے کیونکہ اندھا قانون تو یہ نہیں دیکھتا کہ وہ دہشت گرد کیوں بنا۔ اسے کس مجبوری نے دہشت گرد بننے پر مجبور کیا۔ کاش دنیا کا قانون اندھا نہ ہو اور وہ جرم پر نہیں جرم کی وجہ پر سزا دے تو مجرم اور دہشت گرد پیدا نہیں ہوں گے۔
بالکل اسی طرح پوری دنیامیں حضورتاجدارختم نبوت ﷺکی گستاخیاں عالمی پیمانہ پرکروائی جاتی ہیں اوران گستاخوں کی سرپرستی دنیابھرکے کفارکے ساتھ ساتھ ہمارے ملک پاکستان کے حکمران تک کرتے ہیں اورگستاخوں کو ان کی پوری پوری حمایت حاصل ہوتی ہے ۔ اوریہاں حضورتاجدارختم نبوت ﷺکی جتنی گستاخیاں ہوتی رہیں اورگستاخ سرعام گستاخیاں کرتے رہیں نہ تویہاں انگریزی کوٹ کے جج بولتے ہیں اورنہ ہی حکمران ۔ ان کی غیرت تب بیدارہوتی ہے جب کوئی غازی اسلام ملک ممتاز حسین قادری شہیدرحمہ اللہ تعالی جیسا بندہ اٹھ کراپنے ایمان کاثبوت دے اورگستاخ کو ٹھکانے لگادے ۔ پھرعدالتیں ، میڈیااورحکمران اپنے بازوسرپررکھ کر رونادھوناشروع کردیتے ہیں اورقانون قانون کی رٹ لگاناشروع کردیتے ہیں ۔ جب اس گستاخ کو قتل کردیاجائے تو پھراس قتل کرنے والے کو دہشت گرد کہتے ہیں اوراسے سزاسنادیتے ہیں ۔ ان کومعلوم ہوناچاہئے جس چیز کو تم سارے مل کر دہشت گردی کہہ رہے ہواس کاسبب کیاہے ، کیاوہ دہشت گردی نہیں ہے ؟ بہرحال یہ ذہن میں رہے کہ حضورتاجدارختم نبوتﷺ کی گستاخی دنیاکی سب سے بڑی دہشت گری ہے اورجو بھی شخص اس گستاخ کو قتل کردے وہ غازی اسلام اوراس کایہ عمل کوئی دہشت گردی نہیں بلکہ گستاخی دہشت گردی اوراس پر خاموش ہونادہشت گردی اوران گستاخوں کی حمایت کرنادہشت گردی اورغازی اسلام کے خلاف فیصلہ دینادہشت گردی اورغازی اسلام کے خلاف فیصلہ دینے والادہشت گردہے۔

دہشت گردی کاایک سبب فلمیں ڈرامیں

دنیا میں اس قسم کی فلمیں بنائی جاتی ہیں جن کی وجہ سے دہشت گردی کو دنیا میں فروغ ملتا ہے ان فلموں کے مناظر اتنے خوفناک ہوتے ہیں کہ عام انسان پر خوف اور دہشت طاری ہو جاتی ہے۔ قتل و غارت گری اور تباہی اور بربادی کے مناظر ان فلموں میں اتنے تسلسل سے دکھائے جاتے ہیں کہ انسانی جسم میں سنسنی دوڑتی رہتی ہے، جرائم، منشیات، دہشت گردی، جنگ و جدل، جہازوں، ہیلی کاپٹروں، گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کی تباہی، اسلحہ کے بے دریغ استعمال کو فلموں میں بہت ہی خوفناک اور دل دہلا دینے والے انداز میں پیش کیا جاتا ہے جس کا اثر نہ صرف بڑی عمر کے لوگوں پر بہت زیادہ ہوتا ہے بلکہ چھوٹی عمر کے کچے ذہن فلموں کے ان موضوعات اور مناظر کا انتہائی منفی اثر لیتے ہیں اور خود بھی ان فلموں کے کرداروں کی طرح دنیا میں اسلحہ اٹھا کر دہشت گردی کرتے ہیں۔ بات موبائل اور اسلحہ کے زور پر چھیننے،سے شروع ہوتی ہے اور بڑھتے بڑھتے موٹر سائیکل چوری کرنے، بینک ڈکیتی کرنے سے ہوتی ہوئی منشیات فروشی کی طرف بڑھتی ہے اور پھر بم دھماکا کرنے، بس اغوا کرنے، اغوا برائے تاوان، جہاز اغوا کرنے اور خود کش حملہ کرنے پر ختم ہوتی ہے۔ اب سوچیے کیا ان سب اعمال سے خوف و ہراس اور دہشت پیدا نہیں ہوتی؟ کیا یہ سب اعمال دہشت گردی کے اعمال نہیں ہیں؟ کیا یہ سب جرائم اور دہشت گردی کے اعمال دنیا میں بننے والی فلموں میں نظر نہیں آتے؟ کیا لوگ دہشت گردی کے ان اعمال کو ان فلموں سے نہیں سیکھتے؟ ہے کسی کے پاس اس سوال کا جواب۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ کسی کے پاس اس سوال کا جواب نہیں ہے۔ پیسہ کمانے کی ہوس انسانوں کو ایسی فلمیں بنانے پر مجبور کرتی ہے جس میں صرف نفرت اور دہشت گردی دکھائی جاتی ہے ان فلموں کو دیکھ کرلوگ مذہب اسلام سے نفرت، اسلامی تہذیب سے نفرت اور اسلامی روایات سے نفرت کرنا سیکھتے ہیں۔ ان فلموں کو دیکھ کر انسان میں صبر اور ایک دوسرے کو برداشت کرنے کی قوت ختم ہو جاتی ہے اور دنیا کا معاشرہ عدم برداشت کا شکار ہوجاتا ہے اور انسان ان فلموں کو دیکھ کر دہشت گردی کرتا ہے۔ جو کچھ ہم دنیا کو فلموں کے ذریعے دکھا رہے ہیں وہی کچھ آج کے نوجوان ہمیں واپس کر رہے ہیں۔ وہ ڈکیت بن رہے ہیں، منشیات کے عادی بن رہے ہیں، موبائل وہ چھینتے ہیں، کاریں وہ چوری کرتے ہیں۔ اغوا وہ کرتے ہیں، جہاز وہ اغوا کرتے ہیِں، بم دھماکے وہ کرتے ہیں، خود کش حملے وہ کرتے ہیں، ہر قسم کی دہشت گردی کا عمل وہ کرتے ہیں پھر شکوہ کس بات کا کہ دہشت گردی دنیا میں پھیل رہی ہے۔ بناتے رہیں نفرت اور دہشت گردی پر مبنیٰ فلمیں اور دھکیلتے رہیں اس دنیا کو دہشت گردی اور نفرت کے جہنم میں۔ کوئی ہے جو سوچے اور سمجھے کیونکہ سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت تو ہم نے ختم ہی کر رکھی ہے۔

معارف ومسائل

(۱)حضورتاجدارختم نبوت ﷺکی احادیث شریفہ میں اتنی کثرت سے ایسے مضامین ہیں جو ایک عام ذہن والے کو بھی یہ بآسانی باور کروا دیتے ہیں کہ دین اسلام کی تعلیمات و ہدایات میں انسانی زندگی کے لئے بہترین رہنمائی ہے جو نہایت خوش گوار اور خوش حال، پُرامن اور پُرمسرت زندگی کی ضمانت ہے، راستی و آشتی، سلامتی و عافیت، راحت و رحمت اور ہر طرح فوز و فلاح کی ضمانت ہے۔ وہ دین جو نماز کے لئے وضو میں مسواک پر زیادہ اَجر سناتا ہے کہ منہ سے بدبو تک نہ آئے تاکہ مسجد میں ساتھ کھڑے ہونے والے دوسرے نمازی کو کراہت محسوس نہ ہو، وہ دین جو حلال جانور کو بھوکا پیاسا ذبح کرنے سے منع کرتا ہے، وہ دین جو رہ گزر سے کانٹے دور کرنے پر ثواب بتاتا ہے تا کہ راہ چلنے والوں کو دشواری نہ ہو، وہ دین جو جانور کی جان محض تلف کرنے کے لئے شکار کو پسند نہیں کرتا اور کسی جان کا بھی مُثلہ کرنے (صورت و حلیہ بگاڑنے)کی سختی سے ممانعت کرتا ہے، وہ دین جو کسی کی عزت، جان، مال کے ناحق معمولی سے نقصان کو گناہ بتاتا ہے، وہ دین جو غیبت کو زنا جیسی برائی سے زیادہ سخت بتاتا ہے ، وہ دین جو انسانی زندگی کی اتنی واضح اہمیت بیان کرتا ہے کہ جس نے ایک جان بچائی گویا اس نے تمام لوگوں کو بچا لیا اور جس نے ناحق ایک جان کو مارا گویا اس نے سب کو مارا، اس پاکیزہ اور سلامتی والے دین سے دہشت گردی کا تصور ہرگز ہرگز وابستہ نہیں کیا جا سکتا۔ اسلام میں فی سبیل اللہ جہاد بہت اہم ہے لیکن اسلام میں فتنہ و فساد نہیں ہے، بلکہ فتنے کو قتل سے زیادہ سنگین قرار دیا گیا ہے۔
اسلام وہ معاشرہ تعمیر کرتا ہے جس میں ایک انسان دوسرے کا خیر خواہ اور معاون ہے، تعصبات اور عناد سے ہر فرد کو دور رکھتا ہے۔ کسی سے محبت ہو تو اللہ تعالیٰ اور اس کے حضورتاجدارختم نبوت ﷺکے لئے ہو اور بغض ہو تو وہ بھی اللہ اور اس کے حبیب کریم ﷺکے لئے ہو۔ فکر و عمل میں رضائے الٰہی و رضائے حضورتاجدارختم نبوت ﷺہی بنیاد ہو۔

Leave a Reply