تفسیر سورہ بقرہ آیت ۱۸۹ ۔ اسلام مقاصدکی تعلیم دیتاہے اورغیرمقاصد میں عمربربادکرنے سے منع کرتاہے

اسلام مقاصدکی تعلیم دیتاہے اورغیرمقاصد میں عمربربادکرنے سے منع کرتاہے

{یَسْـَلُوْنَکَ عَنِ الْاَہِلَّۃِ قُلْ ہِیَ مَوٰقِیْتُ لِلنَّاسِ وَالْحَجِّ وَلَیْسَ الْبِرُّ بِاَنْ تَاْتُوا الْبُیُوْتَ مِنْ ظُہُوْرِہَا وَلٰـکِنَّ الْبِرَّ مَنِ اتَّقٰی وَاْتُوا الْبُیُوْتَ مِنْ اَبْوٰبِہَا وَاتَّقُوا اللہَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ}(۱۸۹)

ترجمہ کنزالایمان:تم سے نئے چاند کو پوچھتے ہیں تم فرمادو وہ وقت کی علامتیں ہیں لوگوں اور حج کے لئے اور یہ کچھ بھلائی نہیں کہ گھروں میں پچھیت توڑ کرآؤ ہاں بھلائی تو پرہیزگاری ہے اور گھروں میں دروازوں سے آؤ اور اللہ سے ڈرتے رہو اس امید پر کہ فلاح پاؤ۔
ترجمہ ضیاء الایمان:اے حبیب کریم ﷺآپ سے نئے چاندکے بارے میں سوال کرتے ہیں ، آپ فرمائوکہ وہ وقت کی علامتیں ہیں اورحج کے لئے اوریہ کوئی نیکی نہیں کہ تم داخل ہوگھروں میں ان کے پچھواڑے سے ، ہاں نیکی تویہ ہے کہ انسان تقوی اختیارکرے اورتم اپنے گھروں میں ان کے دروازوں کی طرف سے آیاکرواللہ تعالی سے ڈرتے ہوئے اس امیدپرکہ تم کامیاب ہوجائو۔
یہودکااعتراض
قَوْلُہُ تَعَالَی’’یَسْئَلُونَکَ عَنِ الْأَہِلَّۃِ‘‘ہَذَا مِمَّا سَأَلَ عَنْہُ الْیَہُودُ وَاعْتَرَضُوا بِہِ عَلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ مُعَاذٌ: یَا رَسُولَ اللَّہِ، إِنَّ الْیَہُودَ تَغْشَانَا وَیُکْثِرُونَ مَسْأَلَتَنَا عَنِ الْأَہِلَّۃِ، فَمَا بَالُ الْہِلَالِ یَبْدُو دَقِیقًا ثُمَّ یَزِیدُ حَتَّی یَسْتَوِیَ وَیَسْتَدِیرَ، ثُمَّ یُنْتَقَصُ حَتَّی یَعُودَ کَمَا کَانَ؟ فَأَنْزَلَ اللَّہُ ہَذِہِ الْآیَۃَ.
ترجمہ :حضرت سیدناامام ابوعبداللہ محمدبن احمدالقرطبی المتوفی : ۶۷۱ھ) رحمہ اللہ تعالی نقل فرماتے ہیں کہ یہ ان سوالوں میں سے ہے جویہودیوں سے پوچھے تھے اورانہوںنے اس پر حضورتاجدارختم نبوت ﷺپر اعتراض کیاتھا۔ حضرت سیدنامعاذ رضی اللہ عنہ نے عرض کی : یارسول اللہ ﷺ! یہودی توہم پر غالب آگئے وہ ہم سے چاند کے متعلق پوچھتے ہیں ، چاندکوکیاہے کہ یہ باریک ساظاہرہوتاہے پھربڑھتاجاتاہے حتی کے برابراورگول ہوجاتاہے ، پھرگھٹناشروع ہوجاتاہے حتی کہ پہلی حالت پر ہوجاتاہے ۔ پس اللہ تعالی نے یہ آیت کریمہ نازل فرمائی ۔
(تفسیر القرطبی:أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن أبی بکر بن فرح الأنصاری الخزرجی شمس الدین القرطبی (۲:۳۴۱)
آیت کے دوسرے حصے کاشان نزول

وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ فِی رِوَایَۃِ أَبِی صَالِحٍ: کَانَ النَّاسُ فِی الْجَاہِلِیَّۃِ وَفِی أَوَّلِ الْإِسْلَامِ إِذَا أَحْرَمَ رَجُلٌ مِنْہُمْ بِالْحَجِّ فَإِنْ کَانَ مِنْ أَہْلِ الْمَدَرِ یَعْنِی مِنْ أَہْلِ الْبُیُوتِ نَقَّبَ فِی ظَہْرِ بَیْتِہِ فَمِنْہُ یَدْخُلُ وَمِنْہُ یَخْرُجُ، أَوْ یَضَعُ سُلَّمًا فَیَصْعَدُ مِنْہُ وَیَنْحَدِرُ عَلَیْہِ. وَإِنْ کَانَ مِنْ أَہْلِ الْوَبَرِیَعْنِی أَہْلَ الْخِیَامِ یَدْخُلُ مِنْ خَلْفِ الْخِیَامِ الْخَیْمَۃَ، إِلَّا مَنْ کَانَ مِنَ الْحُمْسِ وَرَوَی الزُّہْرِیُّ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَہَلَّ زَمَنَ الْحُدَیْبِیَۃِ بِالْعُمْرَۃِ فَدَخَلَ حُجْرَتَہُ وَدَخَلَ خَلْفَہُ رَجُلٌ أَنْصَارِیٌّ مِنْ بَنِی سَلَمَۃَ، فَدَخَلَ وَخَرَقَ عَادَۃَ قَوْمِہِ، فَقَالَ لَہُ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: (لِمَ دَخَلْتَ وَأَنْتَ قَدْ أَحْرَمْتَ فَقَالَ:دَخَلْتَ أَنْتَ فَدَخَلْتُ بِدُخُولِکَ فَقَالَ لَہُ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: (إِنِّی أَحْمَسُ أَیْ مِنْ قَوْمٍ لَا یَدِینُونَ بِذَلِکَ فَقَالَ لَہُ الرَّجُلُ:وأنا دینی دینک، فنزلت الآیۃ۔
ترجمہ :حضرت سیدناعبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہمااورحضرت سیدناابوصالح رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ زمانہ جاہلیت میں اوراسلام کے ابتدائی زمانہ میں لوگ اس طرح کرتے تھے کہ جب کوئی حج کااحرام باندھتاتھااگروہ کچے مکان والوں میں سے ہوتاتووہ اپنے گھرکے پیچھے سے سوراخ کرتاتھااوراس سے داخل ہوتاتھااوراسی سے خارج ہوتاتھا، یاوہ سیڑھی رکھتاتھا، اس سے چڑھتاتھااوراس سے اترتاتھااوراگروہ خیمہ والوں میں سے ہوتاتو وہ خیمہ کے پیچھے سے آتاتھامگرجوا حمس (قریش) سے ہوتاتھاوہ ایسانہیں کرتاتھا۔

امام الزہری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضورتاجدارختم نبوت ﷺنے حدیبیہ کے زمانہ میں عمرہ شریف کااحرام باندھااورآپ ﷺاپنے حجرہ شریف میں تشریف لے گئے اوربنی سلمہ میں سے ایک انصاری صحابی رضی اللہ عنہ بھی آپ ﷺکے پیچھے داخل ہوگئے ، اس نے اپنی قوم کی عادت کو توڑدیا۔ حضورتاجدارختم نبوت ﷺنے اس سے پوچھاتوکیوں دروازے سے داخل ہواہے ؟ تواس نے عرض کی : یارسول اللہ ﷺ! آپ ﷺداخل ہوئے ہیں میں بھی داخل ہوگیاہوں۔حضورتاجدارختم نبوت ﷺنے فرمایاکہ میں تواحمس ہوںیعنی ایسی قوم سے ہوں جو اس کو دین نہیں سمجھتے ۔ اس شخص نے عرض کی : یارسول اللہﷺ!میں بھی توآپ ﷺکے ہی دین پر ہوں تواللہ تعالی نے یہ آیت کریمہ نازل فرمائی ۔
( تفسیر القرطبی:أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن أبی بکر بن فرح الأنصاری الخزرجی شمس الدین القرطبی (۲:۳۴۱)

حضورتاجدارختم نبوت ﷺکے صحابہ کرام نے کل چودہ سوالات کئے

نُقِلَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّہُ قَالَ:مَا کَانَ قَوْمٌ أَقَلَّ سُؤَالًا مِنْ أُمَّۃِ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سَأَلُوا عَنْ أَرْبَعَۃَ عَشَرَ حَرْفًا فَأُجِیبُوا.
ترجمہ :حضرت سیدناعبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہمافرماتے ہیں کہ سب سے کم سوالات حضورتاجدارختم نبوت ﷺکی امت نے کئے ہیں ، انہوں نے کل چودہ سوالات کئے ہیں ۔
(التفسیر الکبیر: أبو عبد اللہ محمد بن عمر بن الحسن بن الحسین التیمی الرازی (۵:۲۸۱)
اس سے معلوم ہواکہ اللہ تعالی نے حضورتاجدارختم نبوت ﷺکے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو عجب شان عطافرمائی کہ انہوںنے بوجہ عظمت وہیبت کے اپنے حبیب کریم ﷺسے سوالات بہت کم کئے بخلاف پچھلی امتوں کے کہ جنہوںنے کثرت کے ساتھ سوالات کئے اورانبیاء کرام علیہم السلام کے ادب کو ملحوظ خاطرنہ رکھا۔آٹھ سوالات توسورۃ البقرہ میں ہیں اورباقی چھے سوالات دوسری سورتوں میں ہیں۔
اس آیت کریمہ سے اہل اسلام کے لئے درس
إِنَّ الْآیَۃَ خَرَجَتْ مَخْرَجَ التَّنْبِیہِ مِنَ اللَّہِ تَعَالَی عَلَی أَنْ یَأْتُوا الْبِرَّ مِنْ وَجْہِہِ، وَہُوَ الْوَجْہُ الَّذِی أَمَرَ اللَّہُ تَعَالَی بِہِ، فَذَکَرَ إِتْیَانَ الْبُیُوتِ مِنْ أَبْوَابِہَا مَثَلًا لِیُشِیرَ بِہِ إِلَی أَنْ نَأْتِیَ الْأُمُورَ مِنْ مَأْتَاہَا الَّذِی نَدَبَنَا اللَّہُ تَعَالَی إِلَیْہِ.
ترجمہ: علماء کرام فرماتے ہیں کہ یہ آیت کریمہ اللہ تعالی کی طرف سے تنبیہ کے طورپرذکرکی گئی ہے کہ نیکی کو اس کے تقاضاکے مطابق کرواورتقاضایہ ہے کہ اللہ تعالی نے جو حکم دیاہے اس کے مطابق کرو، گھروں کے دروازوں سے آنے کاذکربطورمثال ہے تاکہ اشارہ ہوجائے کہ ہم امورکو اس طریقہ سے اداکریں جس طرح سے اللہ تعالی نے ہمیں اداکرنے کاحکم دیاہے ۔
( تفسیر القرطبی:أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن أبی بکر بن فرح الأنصاری الخزرجی شمس الدین القرطبی (۲:۳۴۱)

امام ابن خویزمندادرحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں

فِی ہَذِہِ الْآیَۃِ بَیَانٌ أَنَّ مَا لَمْ یَشْرَعْہُ اللَّہُ قُرْبَۃً وَلَا نَدَبَ إِلَیْہِ لَا یَصِیرُ قُرْبَۃً بِأَنْ یَتَقَرَّبَ بِہِ مُتَقَرِّبٌ. قَالَ ابْنُ خُوَیْزِ مَنْدَادُ:إِذَا أَشْکَلَ مَا ہُوَ بِرٌّ وَقُرْبَۃٌ بِمَا لَیْسَ ہُوَ بِرٌّ وَقُرْبَۃٌ أَنْ یُنْظَرَ فِی ذَلِکَ الْعَمَلِ، فَإِنْ کَانَ لَہُ نَظِیرٌ فِی الْفَرَائِضِ وَالسُّنَنِ فَیَجُوزُ أَنْ یَکُونَ، وَإِنْ لَمْ یَکُنْ فَلَیْسَ بِبِرٍّ وَلَا قُرْبَۃٍ.
ترجمہ :اس آیت کریمہ میں بیان کیاگیا ہے جس کام کو اللہ تعالی نے قربت نہیں بنا یااوراس کی طرف دعوت نہیں دی تووہ قربت نہیں ہوتاکہ اس کے ساتھ کوئی قربت حاصل کرنے والاقربت حاصل کرے ۔ امام ابن خویزمندادرحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ جب کسی کام کے لئے قربت ہونے یانہ ہونے میں اشکال واقع ہوجائے تواس عمل کو دیکھاجائے گااگرتواس کی فرائض وسنن میں کوئی مثال ہے تووہ جائز ہوگااورمثال نہ ہوتووہ نیکی ہوگااورنہ ہی قربت ۔
( تفسیر القرطبی:أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن أبی بکر بن فرح الأنصاری الخزرجی شمس الدین القرطبی (۲:۳۴۱)

سوال توسائنسی ہے جواب سائنسی کیوں نہیں؟

ان کان السؤال عن الحکمۃ فی اختلاف حال القمر وتبدل امرہ فقد طابق الجواب السؤال حیث امر اللہ سبحانہ بان یجیب بان الحکمۃ الظاہرۃ فی ذلک ان یکون معالم للناس یوقتون بہا أمورہم ومعالم للعبادات الموقتۃ کالحج والصوم وغیر ذلک یعرف بہا أوقاتہا- وان کان السؤال عن علۃ تبدل احوال القمر وہو الظاہر فہو جواب علی اسلوب الحکیم تنبیہا بان اللائق بحال السائل ان یسئل بالفائدۃ دون العلۃ إذ لا فائدۃ فی ذلک السّؤال إذ حینئذ یلزمہ الاشتغال بما لا یعنیہ وہذا یدل علی ان الاشتغال بالعلوم الغریبۃ کالہیئۃ والنجوم وغیر ذلک مما لیس فیہ فائدۃ دینیۃ معتدۃ بہا لا یجوز والمواقیت جمع میقات اسم فمعز الدولۃ من الوقت والمراد بہ ما یعرف بہ اوقات الحج والصوم وآجال الدیون وانقضاء العدۃ وغیر ذلک۔
ترجمہ :حضرت سیدناامام قاضی ثناء اللہ پانی پتی حنفی رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ اگرچاندکے مختلف ہونے اورتغیروتبدیل کی حکمت کاسوال ہوتویہ جواب مطابق سوال ہوگیا، حاصل جواب یہ ہواکہ حکمت اس تغیروتبدل میں یہ ہے کہ لوگوں کے لئے ان کے معاملات دینی ودنیوی میں علامت ہوجائے کہ اس سے اپنے کاروبارکاوقت مقررکرلیں ۔ مثلاً حج کاوقت روزہ کاوقت اس سے معلوم ہوتاہے اوراگرچاندکی حالت بدلنے کی علت کاسوال ہوتواس وقت بظاہرجواب مطابق سوال نہیں بنتالیکن نظرتحقیق سے دیکھاجائے تونہایت عمدہ اورحکیمانہ جواب ہے گویاحاصل جواب یہ ہے سائل کے حال کے لائق یہ ہے کہ چاند کے اختلاف حال کافائدہ اورنفع دریافت کرنے کی علت کی تحقیق سے کچھ نفع نہیں ، اس میں مشغول ہونابے فائدہ ہے ، اس لئے لازم ہے کہ اس سے بچے ، اس سے یہ بھی معلوم ہواکہ علوم غریبہ یعنی جن علوم سے دین کاکوئی فائدہ خاص نہیں ہے جیسے ہئیت ونجوم وغیرہ میں عمربربادکرناجائز نہیں ہے ۔
(التفسیر المظہری:المظہری، محمد ثناء اللہ(۱:۲۱۰)

اسلام نفع مندعلوم کی طرف متوجہ کرتاہے

ووجہ العطف وعدم الفصل اما انہم سالوا الامرین معا فی حادثۃ واحدۃاو انہ لما سالوہ عما لا یعنونہ ولا یتعلق بعلم النبوۃ وترکوا السؤال عما یعنونہ ویختص بعلم النبوۃ عقب بذکرہ کانّہ قال اللائق ان یسئلوا أمثال ذلک ویمکن ان یقال السؤال عن حقائق الممکنات علی وجہ لا یفید یشبہ دخول البیت من ظہرہا فان الخوض فی العلوم بمنزلۃ الدخول فی البیت فکما ان الموضوع لاجل الدخول فی البیت انما ہو الباب لیستمتع بمنافع البیت کذلک الموضوع للخوض والتفکر فی الحقائق وجوہ منافعہا والاستدلال علی صانعہا دون افعال النفس فیما لا یجد بہ من مسائل الہیئۃ ۔
ترجمہ :حضرت قاضی ثناء اللہ پانی پتی رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ ان دونوں قصوں میں ربط کی وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ لوگوں نے شایددونوں باتیں ایک وقت میں ہی دریافت کی ہوں یایوں کہوکہ جب اول انہوںنے چاندکاحال کہ جوان کوکچھ نفع مند نہ تھااورنہ علم نبوی کے مناسب تھادریافت کیااورجو بات ان کے لئے نفع منداورمفیدتھی اورعلم نبوت کے متعلق تھی اس کے متعلق سوال نہ کیااس لئے مناسب ہواکہ اس کو بطورعطف کے ذکرکردیاجائے گویایہ فرمادیاکہ لائق یہ ہے کہ ایسے ایسے بے سود سوال کرناایساہی ہے جیسے گھرکے پچھلے حصے سے آنااوردروازہ کو چھوڑ دیناکیونکہ علوم کے اندرمشغول ہوناایساہی ہے جیسے گھرمیں داخل ہونااورظاہرہے کہ گھرمیں داخل ہونے اورگھرمیں نفع اٹھانے کے لئے دروازہ ہی موضوع ہے ،اس طرح حقائق میںمتفکررہنے اورمشغول ہونے کاموضوع ان حقائق کے منافع اورپھران سے صانع عزوجل کی معرفت حاصل کرناہے نہ مباحث ہئیت وغیرہ کو حاصل کرنے کی تکلیف اٹھاناان سے توکوئی دینی فائدہ وابستہ نہیں ہے ۔
(التفسیر المظہری:المظہری، محمد ثناء اللہ(۱:۲۱۰)
اس سے معلوم ہواکہ اسلام مقاصدکی تعلیم دیتاہے ، غیرمقاصد کی تعلیم نہیں دیتا، طبیب جوتانہیں بناتااورنہ ہی اس کے طریقے سکھاتاہے ہاں یہ بتاتاہے کہ جوتااس طرح کانہ خریدناکہ جس کی وجہ سے پائوں کوتکلیف ہو، اسی طرح اسلام ایجادات نہیں سکھاتا، ہاں یہ سکھاتاہے کہ ایجاد ایسی نہ ہوکہ جس سے تمھارے دین میں خلل آجائے ، یاجان کو خطرہ لاحق ہوجائے ۔

معارف ومسائل

(۱)اس سے معلوم ہواکہ اللہ تعالی نے اس آیت کریمہ میں چاند کے گھٹنے بڑھنے کے فوائد بیان فرمائے کہ وہ وقت کی علامتیں ہیں اور آدمیوں کے ہزار ہا دینی و دنیوی کام اس سے متعلق ہیں زراعت ، تجارت ،لین دین کے معاملات، روزے اور عید کے اوقات عورتوں کی عدتیں حیض کے ایّام حمل اور دودھ پلانے کی مدتیں اور دودھ چھڑانے کے وقت اور حج کے اوقات اس سے معلوم ہوتے ہیں کیونکہ اول میں جب چاند باریک ہوتا ہے تو دیکھنے والا جان لیتا ہے کہ ابتدائی تاریخیں ہیں اور جب چاند پورا روشن ہوتا ہے تو معلوم ہوجاتا ہے کہ یہ مہینے کی درمیانی تاریخ ہے اور جب چاند چھپ جاتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ مہینہ ختم ہونے پر ہے اسی طرح ان کے مابین ایّام میں چاند کی حالتیں دلالت کیا کرتی ہیں پھر مہینوں سے سال کا حساب ہوتا ہے یہ وہ قدرتی جنتری ہے جو آسمان کے صفحہ پر ہمیشہ کھلی رہتی ہے اور ہر ملک اور ہر زبان کے لوگ پڑھے بھی اور بے پڑھے بھی سب اس سے اپنا حساب معلوم کرلیتے ہیں۔
(۲) اسلام نے چاندکے حساب کو اس لئے اختیارفرمایاکہ اس کوہر آنکھ والاشخص دیکھ سکتاہے ، عالم وجاہل اوردیہاتی ،جزیروں میں رہنے والا، جنگل کاباسی سب کے سب اس کو آسانی کے ساتھ دیکھ سکتے ہیں بخلاف شمسی حساب کے کہ وہ آلات رصدیہ اورقواعدریاضیہ پرموقوف ہے ، جس کوہرشخص آسانی کے ساتھ معلوم نہیں کرسکتا۔ پھرعبادات کے معاملے میں توقمری حساب کوبطورفرض متعین فرمادیا۔
(۳) اس سے یہ بھی معلوم ہواکہ مسلمان نماز وروزہ کو ترک کرکے بھنگ چرس پینے یاآگ جلانے ، اس پردھونی دھنکانے یاآجکل کے حرام گانے بجانے کوقوالی کہہ کرانہیں اصل عبادت سمجھ بیٹھے ۔
(۴) اس سے یہ بھی معلوم ہواکہ اللہ تعالی کی بارگاہ عالیہ میں حضورتاجدارختم نبوت ﷺکابڑامقام ومرتبہ ہے کہ لوگ اعتراض توحضورتاجدارختم نبوت ﷺپرکریں مگرجواب اللہ تعالی دیتاہے اوراسی طرح لوگ سوال حضورتاجدارختم نبوت ﷺسے کریں توان کو جواب اللہ تعالی دیتاہے ۔
(۵) بہت سے احکام کامدارقمری حساب پرہے اورخیرالقرون اوراس کے بعد صدیوں تک عالم اسلام اپنے تمام امور مملکت اوردیگرتمام ترمعاملات میں اسی قمری حساب پر کاربندرہا، بلکہ یہ کہناحق بجانب ہے کہ ایک ہزارہجری تک تمام مملکتی اورعوامی امور کے بارے میں شمسی حساب سے لوگ واقف تک نہیں تھے ، عالم اسلام کی تمام ریاستوں میں سارانظام قمری حساب پر تھاتواسی نکتہ کی بناء پر کہاجاسکتاہے کہ قمری حساب کاانضباط اوراسے محفوظ رکھنافرض کفایہ ہے ۔ حتی کہ ہم تاریخی ، علمی ، ادبی اورمذہبی کتابوں کامطالعہ کرتے ہیں تو وہاں یہ لکھاہوانہیں ہوتاکہ یہ کام شمسی حساب کے تحت ہوا، بلکہ یہ لکھاہواہوتاہے کہ اسلامی مہینوں کے تحت ہوا، گویاکہ قمری حساب اسلامی حساب کادوسرانام ہے ۔ آج ہمارے ملکوں میں بھی عموماً یہ بات نہایت مشہورہے کہ جنتریوں ، کلینڈروں وغیرہ کے متعلق یہی کہتے رہتے ہیں انگریزی سال ، انگریزی مہینے ، انگریزی سنہ اورانگر یزی حساب ، اسی طرح اسلامی سنہ ، اسلامی مہینے اوراسلامی سال وغیرہ ۔ یہ تواتروالی شہرت اسی بات کی غمازہے کہ قمری حساب اسلامی ہی ہے ، پس مسلمانوں کی قومی اورملی غیرت کاتقاضہ یہ ہے کہ وہ اپنے مخصوص قومی اورمذہبی شعارکو مضبوطی سے اپنائیں اوراپناملی شعارترک کرکے اگردوسروں کی اقتداء اورتقلیدپر زندگی گزاریں تویہ ایک صدمے سے کم نہیں ہوگا۔ اس سلسلے میں ہمارے برصغیرکے ممالک اسلامیہ کاکردارقابل گرفت اورتباہ کن ہے ۔
ہمارے حکمران توویسے بھی اللہ تعالی کے نظام پر راضی نہیں ہیں اوروہ ہرقیمت پر مغربی نظام کے دلدادہ ، داعی اوراسلامی نظام سے متنفراورباغی ہیں ، اچھے خاصے پڑھے لکھے مدعیان علم وشرافت بھی غیراسلامی اطوارکے داعی اوراس پر فداہیں ۔
(۶) اس سے یہ بھی معلوم ہواکہ جب ادنی غیرشرعی عمل کی اسلام میں گنجائش نہیں توپورے معاشرے کوغیراسلامی بنانے کی کیاگنجائش ہوگی ؟ پس جو لوگ اسلام کے زرین اصولوں سے منحرف ہوکر یہودونصاری کی نقالی پر فخرمحسوس کرتے ہیں وہ بہرصورت خداتعالی اورحضورتاجدارختم نبوت ﷺکے باغی ہیں۔

Leave a Reply

%d bloggers like this: