جنہوںنے کفرکو اسلام پر ترجیح دی وہ اندھے گونگے اوربہرے ہیں / تفسیر سورہ بقرہ

جنہوںنے کفرکو اسلام پر ترجیح دی وہ اندھے گونگے اوربہرے ہیں / تفسیر سورہ بقرہ

{مَثَلُہُمْ کَمَثَلِ الَّذِی اسْتَوْقَدَ نَارًا فَلَمَّآ اَضَآء َتْ مَا حَوْلَہ ذَہَبَ اللہُ بِنُوْرِہِمْ وٍَتَرَکَہُمْ فِیْ ظُلُمٰتٍ لَّا یُبْصِرُوْنَ}(۱۷){صُمٌّ بُکْمٌ عُمْیٌ فَہُمْ لَا یَرْجِعُوْنَ}(۱۸){اَوْ کَصَیِّبٍ مِّنَ السَّمَآء ِ فِیْہِ ظُلُمٰتٌ وَّ رَعْدٌ وَّ بَرْقٌ یَجْعَلُوْنَ اَصٰبِعَہُمْ فِیْٓ اٰذَانِہِمْ مِّنَ الصَّوٰعِقِ حَذَرَالْمَوْتِ وَاللہُ مُحِیْطٌ بِالْکٰفِرِیْنَ}(۱۹){یَکَادُ الْبَرْقُ یَخْطَفُ اَبْصٰرَہُمْ کُلَّمَآ اَضَآء َ لَہُمْ مَّشَوْا فِیْہِ وَ اِذَآ اَظْلَمَ عَلَیْہِمْ قَامُوْا وَلَوْشَآء َ اللہُ لَذَہَبَ بِسَمْعِہِمْ وَاَبْصٰرِہِمْ اِنَّ اللہَ عَلٰی کُلِّ شَیْء ٍ قَدِیْرٌ}(۲۰)
ترجمہ کنزالایمان :ان کی کہاوت اسکی طرح ہے جس نے آگ روشن کی تو جب اس سے آس پاس سب جگمگا اٹھا اللہ ان کا نور لے گیا اور انہیں اندھیریوں میں چھوڑ دیا کہ کچھ نہیں سوجھتا ۔بہرے گونگے اندھے تو وہ پھر آنے والے نہیں ،یا جیسے آسمان سے اترتا پانی کہ اس میں اندھیریاں ہیں اور گرج اور چمک اپنے کانوں میں انگلیاں ٹھونس رہے ہیں کڑک کے سبب موت کے ڈر سے اور اللہ کافروں کو گھیرے ہوئے ہے ۔بجلی یوں معلوم ہوتی ہے کہ ان کی نگاہیں اچک لے جائے گی جب کچھ چمک ہوئی اس میں چلنے لگے اور جب اندھیرا ہوا کھڑے رہ گئے اور اللہ چاہتا تو ان کے کان اور آنکھیں لے جاتابیشک اللہ سب کچھ کرسکتا ہے ۔
ترجمہ ضیاء الایمان:ان لوگوں کی مثال اس شخص کی طرح ہے جس نے آگ روشن کی پھر جب اس آگ نے اس کے آس پاس کو روشن کردیا تواللہ تعالی ان کے نور کولے گیا اور انہیں تاریکیوں میں چھوڑ دیا،انہیں کچھ نظر نہیںآ رہا۔ بہرے، گونگے، اندھے ہیں پس یہ لوٹ کر نہیں آئیں گے۔ یا ان لوگوں کی مثال آسمان سے اترنے والی بارش کی طرح ہے جس میںاندھیرے اور گرج اور چمک ہو ۔ یہ زور دار کڑک کی وجہ سے موت کے ڈر سے اپنے کانوں میں انگلیاں ٹھونس رہے ہیں حالانکہ اللہ تعالی کافروں کو گھیرے ہوئے ہے۔ بجلی یوں معلوم ہوتی ہے کہ ان کی نگاہیں اچک کرلے جائے گی۔ حالانکہ جب کچھ روشنی ہوتی ہے تو اس میں چلنے لگتے ہیں اور جب ان پر اندھیرا چھا جائے تو کھڑے رہ جاتے ہیں اور اگراللہ تعالی چاہتا تو ان کے کان اور آنکھیں سلَب کر لیتا۔ بیشک اللہ تعالی ہر چیز پر قادرہے۔
ا ن منافقوں کی مثال ایسی ہے جیسا کہ کسی شخص نے آگ جلائی اور جب اس کی روشنی چمکی تو فوراً گل ہوگئی اور وہ شخص ہکا بکا حیران و پریشان رہ گیا، اسی طرح ان کا حال ہے کہ ان کا وہ نور فطرت (کہ جو خدا نے ہر انسان میں ودیعت رکھا ہے)ذرا چمکا تھا یعنی ہر خیر و شر کے پہچاننے اور سعادت و شقاوت پر مطلع ہونے کا وقت آیا تھا تو اسی وقت اس کو خدا نے بجھا دیا یعنی ان کے نفاق اور تعصب اور عناد اور حبِّ مال و جاہ کی آندھی ظلمت خیز نے اس چراغ فطرت کو گل کردیا ۔ پس اب یہ بہرے ہیں کسی ہادی کی بات سن نہیں سکتے اور گونگے بھی ہیں کہ اپنے دل کی بیماری حکیم روحانی سے بیان کرکے علاج نہیں کرواسکتے اور خود بھی اندھے ہیں کہ از خود خدا تعالی کے آثارِ قدرت دیکھ کر راہ پر نہیں آسکتے۔ جب بات یہاں تک پہنچی ہوئی ہے تو اب ان کے ہدایت پر آنے کی کیا صورت ؟ یا یوں کہو کہ انہوں نے آگ جلائی اور ارد گرد روشنی ہوئی۔ یعنی دنیا میں کلمہ توحید کو آڑ بنا کر غنائیم اور حفظ ِجان و مال وغیرہ کے فوائد حاصل کئے مگر مرتے ہی یہ چراغ فوائد گل ہوگیا تو افعالِ بد اور جہل مرکب اور قبر کی تاریکیوں میں ہاتھ ملتے رہ گئے۔ اب وہاں نہ اکتساب حسنات کا کوئی ذریعہ ہے نہ وہاں سے رجوع کرکے پھر دنیا میں آسکتے ہیں۔
صدرالافاضل سید نعیم الدین مراد آبادی رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیںکہ یہ ان کی مثال ہے جنہیں اللہ تعالٰی نے کچھ ہدایت دی یا اس پر قدرت بخشی پھر انہوں نے اس کو ضائع کر دیا اور ابدی دولت کو حاصل نہ کیا ان کا مال حسرت و افسوس اور حیرت و خوف ہے ۔ اس میں وہ منافق بھی داخل ہیں جنہوں نے اظہارِ ایمان کیا اور دل میں کُفر رکھ کر اقرار کی روشنی کو ضائع کر دیا اور وہ بھی جو مؤمن ہونے کے بعد مرتد ہو گئے اور وہ بھی جنہیں فِطرتِ سلیمہ عطا ہوئی اور دلائل کی روشنی نے حق کو واضح کیا مگر انہوں نے اس سے فائدہ نہ اٹھایا اور گمراہی اختیار کی اور جب حق سننے ، ماننے ، کہنے ، راہِ حق دیکھنے سے محروم ہوئے تو کان ، زبان ، آنکھ سب بے کار ہیں ۔
(تفسیر خزائن العرفان از سید نعیم الدین مراد آبادی :۹)

رسول اللہ ﷺکی بارگاہ شریفہ سے بھاگنے والے منافقین کاحال

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، وَعَنْ مُرَّۃَ، عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ، وَعَنْ نَاسٍ، مِنْ أَصْحَابِ النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم(أَوْ کَصَیِّبٍ مِنَ السَّمَاء ِ فِیہِ ظُلُمَاتٌ وَرَعْدٌ وَبَرْقٌ إِلَی: (إِنَّ اللَّہَ عَلَی کُلِّ شَیْء ٍ قَدِیرٌ)أَمَّا الصَّیِّبُ وَالْمَطَرُ کَانَ رَجُلَانِ مِنَ الْمُنَافِقِینَ مِنْ أَہْلِ الْمَدِینَۃِ ہَرَبَا مِنْ رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِلَی الْمُشْرِکِینَ، فَأَصَابَہُمَا ہَذَا الْمَطَرُ الَّذِی ذَکَرَ اللَّہُ فِیہِ رَعْدٌ شَدِیدٌ وَصَوَاعِقُ وَبَرْقٌ، فَجَعَلَا کُلَّمَا أَضَاء َ لَہُمَا الصَّوَاعِقُ جَعَلَا أَصَابِعَہُمَا فِی آذَانِہِمَا مِنَ الْفَرَقِ أَنْ تَدْخُلَ الصَّوَاعِقُ فِی مَسَامِعِہِمَا فَتَقْتُلَہُمَا، وَإِذْ لَمَعَ الْبَرْقُ مَشَیَا فِی ضَوْئِہِ، وَإِذَا لَمْ یَلْمَعْ لَمْ یُبْصِرَا وَقَامَا مَکَانَہُمَا لَا یَمْشِیَانِ، فَجَعَلَا یَقُولَانِ:لَیْتَنَا قَدْ أَصْبَحْنَا فَنَأْتِی مُحَمَّدًا فَنَضَعُ أَیْدِیَنَا فِی یَدِہِ. فَأَصْبَحَا فَأَتَیَاہُ فَأَسْلَمَا وَوَضَعَا أَیْدِیَہُمَا فِی یَدِہِ وَحَسُنَ إِسْلَامُہُمَافَضَرَبَ اللَّہُ شَأْنَ ہَذَیْنِ الْمُنَافِقَیْنِ الْخَارِجَیْنِ مَثَلًا لِلْمُنَافِقِینَ الَّذِینَ بِالْمَدِینَۃِ وَکَانَ الْمُنَافِقُونَ إِذَا حَضَرُوا مَجْلِسَ النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، جَعَلُوا أَصَابِعَہُمْ فِی آذَانِہِمْ فَرَقًا مِنْ کَلَامِ النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنْ یَنْزِلَ فِیہِمْ شَیْء ٌ أَوْ یُذْکَرُوا بِشَیْء ٍ فَیُقْتَلُوا، کَمَا کَانَ ذَانِکَ الْمُنَافِقَانِ الْخَارِجَانِ یَجْعَلَانِ أَصَابِعَہُمَا فِی آذَانِہِمَا، وَإِذَا أَضَاء َ لَہُمْ مَشَوْا فِیہِ فَإِذَا کَثُرَتْ أَمْوَالُہُمْ وَوُلِدَ لَہُمُ الْغِلْمَانُ وَأَصَابُوا غَنِیمَۃً أَوْ فَتْحًا مَشَوْا فِیہِ، وَقَالُوا: إِنَّ دِینَ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ دِینُ صِدْقٍ فَاسْتَقَامُوا عَلَیْہِ، کَمَا کَانَ ذَانِکَ الْمُنَافِقَانِ یَمْشِیَانِ إِذَا أَضَاء َ لَہُمُ الْبَرْقُ مَشَوْا فِیہِ، وَإِذَا أَظْلَمَ عَلَیْہِمْ قَامُوافَکَانُوا إِذَا ہَلَکَتْ أَمْوَالُہُمْ، وَوُلِدَ لَہُمُ الْجَوَارِی، وَأَصَابَہُمُ الْبَلَاء ُ قَالُوا ہَذَا مِنْ أَجْلِ دِینِ مُحَمَّدٍ، فَارْتَدُّوا کُفَّارًا کَمَا قَامَ ذَانِکَ الْمُنَافِقَانَ حِینَ أَظْلَمَ الْبَرْقُ عَلَیْہِمَا ۔
ترجمہ :حضرت سیدناعبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیںکہ مدینہ منورہ کے دومنافق رسول اللہ ﷺسے بھاگ کرمشرکین کے پاس پہنچ گئے ، ان کو اس بارش سے واسطہ پڑاتھاجس کااللہ تعالی نے ذکرفرمایاہے ، اس میں سخت گرج اورکڑک تھی اوربجلی تھی ، جب ان کو کڑک سنائی دیتی تووہ ڈرکی وجہ سے اپنی انگلیاں اپنے کانوں میں ٹھونستے کہ کہیں کڑک ان کے کانوں میں داخل ہوکران کو قتل ہی نہ کردے ، جب بجلی چمکتی تووہ اس کی روشنی میں چلتے اورجب وہ نہ چمکتی تو ان کو کچھ بھی دکھائی نہ دیتا، اپنی جگہ رکے رہتے بالکل نہ چل سکتے ، اورکہتے کاش صبح ہوجاتی اورہم رسول اللہ ﷺکے پاس پہنچ جاتے اوراپنے ہاتھ ان کے ہاتھ پر رکھ دیتے (یعنی ان کے ہاتھ پر بیعت ہوجاتے ) جب صبح ہوئی تو وہ دونوںرسول اللہ ﷺکی خدمت میں حاضرہوئے اوراسلام قبول کرلیااوراپنے ہاتھ رسول اللہ ﷺکے ہاتھ مبارک میں رکھ دیئے اوراسلام کے تقاضوں کو خوب نبھایا۔

اللہ تعالی نے ان دونکلنے والے منافقین کی حالت کی مثال بیان کی ہے اوران منافقین کی مثال بیان کی ہے جو مدینہ منورہ میں رہتے ہیں ، وہ منافقین جب رسول اللہ ﷺکی مجلس شریفہ میں حاضرہوتے تواپنے کانوں میں انگلیاں ٹھوس لیتے تھے تاکہ رسول اللہ ﷺکاکلام ان کے ذہنوں میں اترنہ جائے یاکوئی چیز ان کو یاد نہ ہوجائے ، پھروہ مرجائیں جیساکہ وہ دونکلنے والے منافقین اپنے کانوں میں انگلیاں ڈالتے تھے ، جب ان کے مال اوراولاد زیادہ ہوگئے ، مال غنیمت اورفتح ملی تو کہنے لگے رسول اللہ ﷺکادین سچاہے اوراسی پر قائم ہوگئے جیساکہ وہ دومنافق چلتے تھے ، جب بجلی چمکتی تھی اورجب مال ہلاک ہوگئے اوراولاد مرنے لگی اورمصائب سے دوچارہونے لگے توکہاکہ’’ یہ سب مصیبتیں رسول اللہ ﷺکے دین کی وجہ سے ہیں ‘‘۔ پس وہ مرتد ہوگئے جیساکہ وہ وومنافق ہوگئے جب ان پر بجلی نہ چمکتی تھی ۔
(جامع البیان عن تأویل آی القرآن:محمد بن جریر بن یزید بن کثیر بن غالب الآملی، أبو جعفر الطبری (۱:۳۶۸)
منافق دنیادار ہوتاہے اوردنیاکی وجہ سے ۔۔۔۔

وَأخرج عبد بن حمید وَابْن جریر عَن قَتَادَۃ فِی قَوْلہ (مثلہم کَمثل الَّذِی استوقد نَارا) قَالَ: ہَذَا مثل ضربہ اللہ لِلْمُنَافِقین إِن الْمُنَافِق تکلم بِلَا إِلَہ إِلَّا اللہ فناکح بہَا الْمُسلمین ووارث بہَا الْمُسلمین وغازی بہَا الْمُسلمین وحقن بہَا دَمہ وَمَالہ فَلَمَّا کَانَ عِنْد الْمَوْت لم یکن لَہَا أصل فِی قلبہ وَلَا حَقِیقَۃ فِی عملہ فسلبہا الْمُنَافِق عِنْد الْمَوْت فَترک فِی ظلمات وعمی یتسکع فِیہَاکَمَا کَانَ أعمی فِی الدُّنْیَا عَن حق اللہ وطاعتہ صم عَن الْحق فَلَا یبصرونہ (فہم لَا یرجعُونَ)عَن ضلالتہم وَلَا یتوبون وَلَا یتذکرون (أَو کصیب من السَّمَاء فِیہِ ظلمات ورعد وبرق یجْعَلُونَ أَصَابِعہم فِی آذانہم من الصَّوَاعِق حذر الْمَوْت) قَالَ: ہَذَا مثل ضربہ اللہ لِلْمُنَافِقِ لجنبہ لَا یسمع صَوتا إِلَّا ظن أَنہ قد أُتِی وَلَا یسمع صیاحاً إِلَّا ظن أَنہ قد أُتِی وَلَا یسمع صیاحاً إِلَّا ظن أَنہ میت أجبن قوم وأخذلہ للحق وَقَالَ اللہ فِی آیَۃ أُخْرَی (یحسبون کل صَیْحَۃ عَلَیْہِم)(المُنَافِقُونَ الْآیَۃ۴)(یکَاد الْبَرْق یخطف أَبْصَارہم)الْآیَۃقَالَ (الْبَرْق)ہُوَ الإِسلام والظلمَۃ ہُوَ الْبلَاء والفتنۃفَإِذا رأی الْمُنَافِق من الإِسلام طمأنینۃ وعافیۃ ورخاء وسلوۃ من عَیْش (قَالُوا إِنَّا مَعکُمْ)ومنکم وَإِذا رأی من الإِسلام شدَّۃ وبلاء فقحقح عِنْد الشدَّۃ فَلَا یصبر لبلائہا وَلم یحْتَسب أجرہَا وَلم یرج عَاقبَتہَاإِنَّمَا ہُوَ صَاحب دنیا لَہَا یغْضب وَلہا یرضی وو کَمَا ہُوَ نَعتہ اللہ۔

ترجمہ :حضرت سیدناقتادہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اللہ تعالی نے منافق کے لئے یہ مثال بیان کی ہے کہ منافق لاالہ الااللہ پڑھتاہے ، اس بناء پر وہ مسلمان سے نکاح کرتاہے ، اسی کی وجہ سے وہ مسلمانو ں کاوارث ہوتاہے ، اس کی بناء پر وہ مسلمانو ں کے ساتھ جنگوں میں شریک ہوتاہے اوراس کلمہ کی ہی برکت سے وہ اپنے خون اورمال کو محفوظ کرتاہے ، پھرجب موت کافرشتہ پہنچ جاتاہے تواس کلمہ کی اس کے دل میں کوئی اصل نہیں ہوتی اوراس کے عمل کی کوئی وقعت ومنزلت نہیں ہوتی ۔

اللہ تعالی منافق سے یہ ساری حقیقتیں سلب کرلیتاہے اوران کو تاریکی میں چھوڑ دیتاہے اوراندھے شخص کی طرح یہ ان اندھیروں میں بھٹکتارہتاہے ، جس طرح دنیامیں وہ حق کو دیکھنے اور اللہ تعالی کی اطاعت کرنے سے اندھاہوگیااورحق کاپیغام سننے سے بہرہ تھاپس وہ حق کو موت کے وقت نہیں دیکھتے ،اوراپنی گمراہی کی تاریکیوں سے واپس نہیں لوٹتے ، نہ وہ توبہ کرتے ہیں اورنہ ہی نصیحت حاصل کرتے ہیں۔ (اوکصیب) کے متعلق فرماتے ہیں کہ یہ بھی اللہ تعالی منافق کی بزدلی کی مثال بیان کرتاہے ، وہ ڈرپوک کوئی آواز سنتاہے تو یہی سمجھتاہے کہ ابھی مجھ پرگرے گی ، جب بھی کوئی چیخ سنتاہے تو یہ لرزنے لگتاہے اورسمجھتاہے کہ یہ بھی مجھ پر آئی اورجب کبھی کوئی زورسے آواز سنتاہے تویہی کہتاہے کہ میں ابھی مرا، قوم نے اس کو بزدل کردیاہے اورحق کے لئے اس کی مددچھوڑ دی ہے ، اللہ تعالی نے ایک دوسری آیت مبارکہ میں فرمایا: یہ گمان کرتے ہیں کہ ہر گرج ان کے خلاف ہی ہے ۔

فرماتے ہیں کہ البرق سے مراد اسلام ہے اورالظلمۃ سے مراد مصائب اورفتنے ہیں ، جب منافق اس کی وجہ سے طمانیت ، عافیت ،سہولت اورزندگی کی راحتیں دیکھتاہے توکہتاہے کہ ہم بھی تمھارے ساتھ ہیں اورجب کبھی اسلام کی وجہ سے کسی امتحان میں مبتلاء ہوتاہے تواس بیچارے کی آواز گلے میں اٹک جاتی ہے اورامتحان میں صبرنہیں کرتااورنہ ہی اجروثواب کی امید رکھتاہے اورنہ اچھے انجام اورکامیابی کی امید رکھتاہے ۔ منافق دنیاکاغلام ہوتاہے ، دنیاکی خاطرخوش ہوتاہے اوردنیاکی خاطرناراض ہوجاتاہے ۔ جیساکہ اللہ تعالی نے اس کی صفات کاذکرکیاہے ۔
(الدر المنثور:عبد الرحمن بن أبی بکر، جلال الدین السیوطی (ا:۸۱)

منافق کی موت

وَقَالَ الْحَسَنُ الْبَصْرِیُّ:(وَتَرَکَہُمْ فِی ظُلُمَاتٍ لَا یُبْصِرُونَ)فَذَلِک حِینَ یَمُوتُ الْمُنَافِقُ، فَیُظْلِمُ عَلَیْہِ عَمَلُہُ عَمَلُ السُّوء ِ، فَلَا یَجِدُ لَہُ عَمَلًا مِنْ خَیْرِ عَمَلٍ بِہِ یُصَدِّق بِہِ قَوْلَ:لَا إِلَہَ إِلَّا اللَّہُ ۔
ترجمہ :حضرت سیدناامام حسن بصری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیںکہ موت کے وقت منافق کی بداعمالیاں اندھیروں کی طرح چھاجاتی ہیں اورکسی بھی بھلائی کی روشنی اس کے لئے باقی نہیں رہتی ، جس سے اس کی توحید اورکلمہ طیبہ کی تصدیق ہوسکے۔
(تفسیر القرآن العظیم:أبو الفداء إسماعیل بن عمر بن کثیر القرشی البصری ثم الدمشقی (۱:۱۸۹)

دین کے ضیاع سے بڑاکوئی نقصان نہیں ہے

عَنِ السُّدِّیِّ ثُمَّ قَالَ:وَالتَّشْبِیہُ ہَاہُنَا فِی غَایَۃِ الصِّحَّۃِ؛ لِأَنَّہُمْ بِإِیمَانِہِمُ اکْتَسَبُوا أَوَّلًا نُورًا ثُمَّ بِنِفَاقِہِمْ ثَانِیًا أَبْطَلُوا ذَلِکَ النُّورَ فَوَقَعُوا فِی حَیْرَۃٍ عَظِیمَۃٍ فَإِنَّہُ لَا حَیْرَۃَ أَعْظَمُ مِنْ حَیْرَۃِ الدِّینِ.
ترجمہ :امام السدی رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ یہ تشبیہ بہت ہی درست اورصحیح ہے ، اس لئے کہ اولاً تومنافقین کو نور ایمان حاصل ہوا، پھران کے نفاق کی وجہ سے وہ چھن گیااوروہ حیرت میں پڑگئے اوردین کے ہاتھ سے چلے جانے سے بڑی حیرت کیاہوگی؟۔
(تفسیر القرآن العظیم:أبو الفداء إسماعیل بن عمر بن کثیر القرشی البصری ثم الدمشقی (۱:۱۸۹)
زمینی راہ بھولنے والے کم ہیں مگر دین کاراہ بھولنے والے۔۔۔۔۔
لَا حَیْرَۃَ أَعْظَمُ مِنْ حَیْرَۃِ الدِّینِ لِأَنَّ الْمُتَحَیِّرَ فِی طَرِیقِہِ لِأَجْلِ الظُّلْمَۃِ لَا یَخْسَرُ إِلَّا الْقَلِیلَ مِنَ الدُّنْیَا، وَأَمَّا الْمُتَحَیِّرُ فِی الدِّینِ فَإِنَّہُ یَخْسَرُ نَفْسَہُ فِی الْآخِرَۃِ أَبَدَ الْآبِدِینَ۔
ترجمہ :امام ابوعبداللہ محمدبن عمر الرازی المتوفی : ۶۰۶ھ) رحمہ اللہ تعالی بیان کرتے ہیں کہ دین کے معاملے میں گمراہ ہونے سے بڑی کوئی گمراہی نہیں ہے کیونکہ اندھیرے کی وجہ سے راستہ بھول جانابہت کم ہوتاہے اوراگرایساہوبھی جائے تواس کانقصان بہت ہی کم ہوتاہے لیکن دین کے معاملے میں بھٹک جانابہت زیادہ ہے اورزمینی راستہ بھولنے سے کوئی نقصان نہیں ہے لیکن دین میں راستہ بھولنے سے ابدالآبادتک ( یعنی ہمیشہ ہمیشہ ) اس کانقصان اٹھاناپڑے گا۔
(التفسیر الکبیر: أبو عبد اللہ محمد بن عمر بن الحسن بن الحسین التیمی الرازی (۲:۳۱۲)

معار ف ومسائل

(۱)اس سے معلوم ہواکہ منافق کو جب مال ملتارہے تو خوش ہوتاہے اورکہتاہے کہ رسول اللہ ﷺکادین بڑی برکت والاہے ۔
(۲)جب منافقین کو کوئی چیز نہ ملے یاکوئی مصیبت آجائے تو پھریہ کہتاہے کہ مجھ پرمصیبت دین کی وجہ سے آئی ہے اورکفربکناشروع کردیتاہے ۔
(۳)اس سے یہ بھی معلوم ہواکہ کسی طرح کی کوئی مصیبت آئے تو اس کاسبب اہل ایمان کو سمجھنامنافقین کاطریقہ ہے ۔ جیساکہ آجکل کے لبرل لوگ کرتے ہیں یہ بھی یہی کہتے ہیں کہ ہمارے ملک کی ترقی علماء کی وجہ سے رکی ہوئی ہے ۔
(۴) اس سے یہ بھی معلوم ہواکہ منافقین انتہائی بزدل اورڈرپوک ہوتے ہیں ۔
(۵) منافق حق کی خاطر کھڑانہیں ہوسکتا۔
(۶) منافق کوگونگااوربہرہ اوراندھاکہناقرآن کریم کی سنت کریمہ ہے ۔
(۷)منافق اتنااندھاہوجاتاہے کہ اپنے گناہ کی سزاکو بھی دوسروں پر تھوپتاہے جس طرح لبرل لوگ کرتے ہیں سارے ملک کابیڑہ غرق انہوںنے کیاہے اورکہتے ہیں کہ یہ سب کیادھراعلماء کاہے ۔
(۸) اس سے یہ بھی معلوم ہواکہ منافق جہاد سے بھاگتاہے جس طرح آجکل کے لبرل جہاد کے نام سے بھاگتے ہیںا ورجو بھی جہادکانام لے اس کو دہشت گرد کہتے ہیں ۔
(۹) جس طرح وہ دومنافق بھاگ کر مشرکین کے پاس گئے اسی طرح آج کے لبرل بھی یہاں سے بھاگ بھاگ کر یہودونصاری کے پاس جاتے ہیں۔
(۱۰) اس سے یہ بھی معلوم ہواکہ جس طرح ان منافقین کی منافقت صرف اورصرف اس دنیامیں چل سکتی ہے اسی طرح لبرل کی منافقت بھی صرف یہیں چلے گی لیکن جیسے ہی قبرمیں گیاتواس کاحال بھی وہی ہوگاجو اس منافق کاہواتھا۔
(۱ا)مال ودولت کی وجہ سے دین کو چھوڑ دینایہ منافق کاکام ہے جس طرح آجکل کے لبرل لوگ کررہے ہیں۔
(۱۲) جس طرح وہ منافق رسول اللہ ﷺکے کلام سے بچنے کے لئے کانوں میں انگلیاں ٹھونستے تھے اسی طرح آجکل کے بے دین اورلبرل بھی اپنے بچوں کو علماء کرام کی مجالس سے بچابچاکررکھتے ہیں کہ کہیں یہ بھی دین نہ سن لیں اوراس پر عمل کرنانہ شروع کردیں۔
(۱۳) اس سے یہ بھی معلوم ہواکہ کافرہمیشہ اپنی دنیاہی سامنے رکھتاہے اس کو دین سے کوئی سروکارنہیں ہوتاجبکہ اہل ایمان کے ہاںان کاسب کچھ ان کادین ہی ہوتاہے اوردین ہی کی وجہ سے اپنی آخرت کی طرف راغب ہوتے ہیں اورلبرل کو چونکہ آخرت کے ساتھ کوئی سروکارنہیں ہے اسی لئے وہ دنیاہی کو سب کچھ سمجھتے ہیں۔
(۱۴) یہی وجہ ہے کہ اہل ایمان موت سے نہیں ڈرتے جبکہ منافق اورلبرل ہمہ وقت موت سے ڈرتے رہتے ہیں۔

Leave a Reply