تفسیر سورہ بقرہ آیت ۱۷۵۔۱۷۶ ۔ حضورتاجدارختم نبوتﷺکے دین کااولین دشمن یہودی ہے

حضورتاجدارختم نبوتﷺکے دین کااولین دشمن یہودی ہے

{اِنَّ الَّذِیْنَ یَکْتُمُوْنَ مَآ اَنْزَلَ اللہُ مِنَ الْکِتٰبِ وَیَشْتَرُوْنَ بِہٖ ثَمَنًا قَلِیْلًا اُولٰٓئِکَ مَا یَاْکُلُوْنَ فِیْ بُطُوْنِہِمْ اِلَّا النَّارَ وَلَا یُکَلِّمُہُمُ اللہُ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ وَلَا یُزَکِّیْہِمْ وَلَہُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ}(۱۷۴){اُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ اشْتَرَوُا الضَّلٰلَۃَ بِالْہُدٰی وَالْعَذَابَ بِالْمَغْفِرَۃِ فَمَآ اَصْبَرَہُمْ عَلَی النَّارِ}(۱۷۵){ذٰلِکَ بِاَنَّ اللہَ نَزَّلَ الْکِتٰبَ بِالْحَقِّ وَ اِنَّ الَّذِیْنَ اخْتَلَفُوْا فِی الْکِتٰبِ لَفِیْ شِقَاقٍ بَعِیْدٍ}(۱۷۶)
ترجمہ کنزالایمان:وہ جو چھپاتے ہیں اللہ کی اتاری ہوئی کتاب اور اس کے بدلے ذلیل قیمت لے لیتے ہیں وہ اپنے پیٹ میں آگ ہی بھرتے ہیں اور اللہ قیامت کے دن ان سے بات نہ کرے گا اور نہ انہیں ستھرا کرے اور ان کے لئے دردناک عذاب ہے۔وہ لوگ ہیں جنہوں نے ہدایت کے بدلے گمراہی مول لی اور بخشش کے بدلے عذاب تو کس درجہ انہیں آگ کی سہار ہے ،یہ اس لئے کہ اللہ نے کتاب حق کے ساتھ اتاری اور بے شک جو لوگ کتاب میں اختلاف ڈالنے لگے وہ ضرور پرلے سرے کے جھگڑالو ہیں۔
ترجمہ ضیاء الایمان:بے شک وہ لوگ جو اللہ تعالی کی نازل کردہ کتاب کوچھپاتے ہیں اوراس کے بدلے ذلیل قیمت وصول کرتے ہیں ، وہ اپنے پیٹوں میں آگ بھرتے ہیں اوراللہ تعالی قیامت کے دن ان کے ساتھ نہ کلام فرمائے گااورنہ ہی پاک فرمائے گااوران کے لئے دردناک عذاب ہے ۔یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے ہدایت کے بدلے گمراہی اور مغفرت کے بدلے عذاب خرید لیا تویہ کتنا آگ کو برداشت کرنے والے ہیں؟۔

شان نزول
قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ:نَزَلَتْ ہَذِہِ الْآیَۃُ فِی رُؤَسَاء ِ الْیَہُودِ کَعْبِ بْنِ الْأَشْرَفِ، وَکَعْبِ بْنِ أَسَدٍ، وَمَالِکِ بْنِ الصَّیْفِ، وَحُیَیِّ بْنِ أَخْطَبَ، وَأَبِی یَاسِرِ بْنِ أَخْطَبَ، کَانُوا یَأْخُذُونَ مِنْ أَتْبَاعِہِمُ الْہَدَایَا، فَلَمَّا بُعِثَ مُحَمَّدٌ عَلَیْہِ السَّلَامُ خَافُوا انْقِطَاعَ تِلْکَ الْمَنَافِعِ، فَکَتَمُوا أَمْرَ مُحَمَّدٍ عَلَیْہِ السَّلَامُ وَأَمْرَ شَرَائِعِہِ فَنَزَلَتْ ہَذِہِ الْآیَۃُ.
ترجمہ ـحضرت سیدناعبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہمافرماتے ہیں کہ یہ آیت کریمہ یہودیوں کے سرداروں کے بارے میں نازل ہوئی ، کعب بن اشرف ( مشہورگستاخ رسول ) کعب بن اسد ، مالک بن صیف ، حی بن اخطب ،ابویاسربن اخطب یہ اپنے متبعین سے ہدیہ لیاکرتے جب حضورتاجدارختم نبوت ﷺکی تشریف آوری ہوئی توانہیں ان کومنافع کے انقطاع کاخطرہ لاحق ہواتوانہوںنے حضورتاجدارختم نبوت ﷺکی تعلیمات شریفہ کے معاملہ کو چھپاناشروع کیاتواللہ تعالی نے یہ آیت کریمہ نازل فرمائی۔
ّالدر المنثور:عبد الرحمن بن أبی بکر، جلال الدین السیوطی (ا:۴۰۹)

یہودیوں نے حضورتاجدارختم نبوت ﷺکے اوصاف جمیلہ کو چھپاکرخسارے کاسوداکیا

اِعْلَمْ أَنَّہُ تَعَالَی لَمَّا وَصَفَ عُلَمَاء َ الْیَہُودِ بِکِتْمَانِ الْحَقِّ وَعَظَّمَ فِی الْوَعِیدِ عَلَیْہِ، وَصَفَ ذَلِکَ الْجُرْمِ لِیُعْلِمَ أَنَّ ذَلِکَ الْعِقَابَ إِنَّمَا عَظُمَ لِہَذَا الْجُرْمِ الْعَظِیمِ، وَاعْلَمْ أَنَّ الْفِعْلَ إِمَّا أَنْ یُعْتَبَرَ حَالُہُ فِی الدُّنْیَا أَوْ فِی الْآخِرَۃِ، أَمَّا فِی الدُّنْیَا فَأَحْسَنُ الْأَشْیَاء ِ الِاہْتِدَاء ُ وَالْعِلْمُ وَأَقْبَحُ الْأَشْیَاء ِ الضَّلَالُ وَالْجَہْلُ فَلَمَّا تَرَکُوا الْہُدَی وَالْعِلْمَ فِی الدُّنْیَا، وَرَضُوا بِالضَّلَالِ وَالْجَہْلِ، فَلَا شَکَّ أنہم فی نہایۃ الخیانۃ فِی الدُّنْیَا، وَأَمَّا فِی الْآخِرَۃِ فَأَحْسَنُ الْأَشْیَاء ِ الْمَغْفِرَۃُ، وَأَخْسَرُہَا الْعَذَابُ، فَلَمَّا تَرَکُوا الْمَغْفِرَۃَ وَرَضُوا بِالْعَذَابِ، فَلَا شَکَّ أَنَّہُمْ فِی نِہَایَۃِ الْخَسَارَۃِ فِی الْآخِرَۃِ وَإِذَا کَانَتْ صِفَتُہُمْ عَلَی مَا ذَکَرْنَاہُ، کَانُوا لَا مَحَالَۃَ أَعْظَمَ النَّاسِ خَسَارًا فِی الدُّنْیَا وَفِی الْآخِرَۃِ، وَإِنَّمَا حَکَمَ تَعَالَی عَلَیْہِمْ بِأَنَّہُمُ اشْتَرَوُا الْعَذَابَ بِالْمَغْفِرَۃِ، لِأَنَّہُمْ لَمَّا کَانُوا عَالِمِینَ بِمَا ہُوَ الْحَقُّ، وَکَانُوا عَالِمِینَ بِأَنَّ فِی إِظْہَارِہِ وَإِزَالَۃِ الشُّبْہَۃِ عَنْہُ أَعْظَمَ الثواب، وفی إخفائہ وإلقائہ الشُّبْہَۃِ فِیہِ أَعْظَمَ الْعِقَابِ، فَلَمَّا أَقْدَمُوا عَلَی إِخْفَاء ِ ذَلِکَ الْحَقِّ کَانُوا بَائِعِینَ لِلْمَغْفِرَۃِ بِالْعَذَابِ لَا مَحَالَۃَ.

ترجمہ :امام فخر الدین محمدبن عمرالرازی المتوفی :۶۰۶ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیںکہ دنیا میں سب سے بہترین چیز ہدایت اور علم ہے اور سب سے بری چیز گمراہی اور جہالت ہے تو جب یہودی علماء نے دنیا میں ہدایت اور علم کو چھوڑ دیا اور گمراہی و جہالت پر راضی ہو گئے تو اس بات میں کوئی شک نہ رہاکہ وہ دنیا میں (اپنی جانوں کے ساتھ)انتہائی خیانت کر رہے ہیں۔نیز آخرت میں سب سے بہترین چیز مغفرت ہے اور سب سے زیادہ نقصان دہ چیز عذاب ہے تو جب انہوں نے مغفرت کو چھوڑ دیا اور عذاب پر راضی ہو گئے تو بلا شبہ وہ آخرت میں انتہائی نقصان اٹھانے والے ہیں اور جب ان کاحال یہ ہے تو لامحالہ دنیا و آخرت میں سب سے بڑے خسارے میں یہ لوگ ہیں۔اس آیت میں یہودی علماء کے بارے میں فرمایا گیا کہ انہوں نے مغفرت کے بدلے عذاب خریدلیا، کیونکہ وہ حق بات کو جانتے تھے اور انہیں یہ بھی علم تھا کہ حضورتاجدارختم نبوت ﷺکے اوصاف ظاہر کرنے میں اور ان کے بارے میں شبہات زائل کرنے میں عظیم ثواب ہے اورحضورتاجدارختم نبوت ﷺکی عظمت و شان چھپانے میں اور ان سے متعلق لوگوں کے دلوں میں شبہات ڈالنے کی صورت میں بڑا عذاب ہے ،اس کے باوجود جب انہوں نے حق کو چھپایا تو لا محالہ انہوں نے مغفرت کے بدلے عذاب خریدلیا۔
(التفسیر الکبیر:أبو عبد اللہ محمد بن عمر بن الحسن بن الحسین التیمی الرازی(۵:۲۰۶)

حافظ ابن کثیررحمہ اللہ تعالی لکھتے ہیں

ہَذَا وَعِیدٌ شَدِیدٌ لِمَنْ کَتَمَ مَا جَاء َتْ بِہِ الرسلُ مِنَ الدَّلَالَاتِ الْبَیِّنَۃِ عَلَی الْمَقَاصِدِ الصَّحِیحَۃِ وَالْہُدَی النَّافِعِ لِلْقُلُوبِ،مِنْ بَعْدِ مَا بَیَّنَہُ اللَّہُ -تَعَالَی -لِعِبَادِہِ فِی کُتُبِہِ، التِی أَنْزَلَہَا عَلَی رُسُلِہِ.
ترجمہ:اس میں زبردست دھمکی ہے ان لوگوں کو جو انبیاء کرام علیہم السلام کی لائی ہوئی شریعت کے صحیح مقاصد پرواضح دلالت کرنے والی باتوں کو جو دلوں کیلئے نفع بخش ھدایت ہیں چھپاتے ہیں ،علم کو چھپانا جہنمی لگام پہننے کے مترادف ہے ۔
(تفسیر القرآن العظیم:أبو الفداء إسماعیل بن عمر بن کثیر القرشی البصری ثم الدمشقی (ا:۴۷۲)

ان کے پیٹ میں آگ

وَأخرج ابْن جریر عَن أبی الْعَالِیَۃ فِی قَوْلہ (إِن الَّذین یکتمون مَا أنزل اللہ من الْکتاب) قَالَ: أہل الْکتاب کتموا مَا أنزل اللہ عَلَیْہِم فِی کِتَابہمْ من الْحق وَالْہدی والإِسلام وشأن مُحَمَّد ونعتہ (أُولَئِکَ مَا یَأْکُلُون فِی بطونہم إِلَّا النَّار) یَقُول: مَا أخذُوا عَلَیْہِ من الْأجر فَہُوَ نَار فِی بطونہم۔
ترجمہ :حضرت سیدناامام ابوالعالیہ رحمہ اللہ تعالی سے راویت ہے کہ یہودیوں نے حق ، ہدایت ، اسلام اورحضورتاجدارختم نبوت ﷺکی عظمت وشان کو چھپایاجو ان کی کتاب میں موجود تھی ، ان کی اس حرکت کاذکراللہ تعالی نے قرآن کریم کی اس آیت کریمہ میں فرمایاہے {اُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ اشْتَرَوُا الضَّلٰلَۃَ بِالْہُدٰی وَالْعَذَابَ بِالْمَغْفِرَۃِ فَمَآ اَصْبَرَہُمْ عَلَی النَّارِ}فرمایاجو میرے حبیب کریم ﷺکی عظت وشان کو چھپاکراجرت لیتے ہیں وہ ان کے پیٹوں میں آگ ہے۔
(الدر المنثور:عبد الرحمن بن أبی بکر، جلال الدین السیوطی (ا:۴۰۹)

کیامسلمان بھی دین حق کو چھپاتاہے؟

قُلْتُ: وَہَذِہِ الْآیَۃُ وَإِنْ کَانَتْ فِی الْأَخْبَارِ فَإِنَّہَا تَتَنَاوَلُ مِنَ الْمُسْلِمِینَ مَنْ کَتَمَ الْحَقَّ مُخْتَارًا لِذَلِکَ بِسَبَبِ دُنْیَا یُصِیبُہَا۔
ترجمہ :حضرت سیدناامام ابوعبداللہ محمدبن احمدالقرطبی المتوفی : ۶۷۱ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ میں کہتاہوں کہ یہ آیت کریمہ اگرچہ علماء یہودکے متعلق نازل ہوئی مگراس میں مسلمان بھی شامل ہیں جوکہ دنیاکے حصول کی خاطرحق کو چھپاتے ہیں ۔
تفسیر القرطبی:أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن أبی بکر بن فرح الأنصاری الخزرجی شمس الدین القرطبی (۲:۳۳۵)

حقیقۃً کھانے کو آگ دی جائے گی

وَمَعْنَی’’إِلَّا النَّارَ‘‘أَیْ إِنَّہُ حَرَامٌ یُعَذِّبُہُمُ اللَّہُ عَلَیْہِ بِالنَّارِ، فَسُمِّیَ مَا أَکَلُوہُ مِنَ الرِّشَاء ِ نَارًا لِأَنَّہُ یُؤَدِّیہِمْ إِلَی النَّارِ، ہَکَذَا قَالَ أَکْثَرُ الْمُفَسِّرِینَ وَقِیلَ:أَیْ إِنَّہُ یُعَاقِبُہُمْ عَلَی کِتْمَانِہِمْ بِأَکْلِ النَّارِ فِی جَہَنَّمَ حَقِیقَۃً. فَأَخْبَرَ عَنِ الْمَآلِ بِالْحَالِ۔
ترجمہ :’’إِلَّا النَّارَ‘‘کامعنی یہ ہے کہ وہ حرام ہے ، اللہ تعالی اس پر انہیں آگ کاعذاب دے گا، جوانہوںنے رشوت کھائی اسے آگ فرمایاکیونکہ وہ انہیں آگ تک پہنچانے والاتھا۔ اکثرمفسرین کرام فرماتے ہیں کہ اللہ تعالی انہیں حق کو چھپانے کی وجہ سے جہنم میں حقیقۃ ً آگ کھانے کے ساتھ عذاب دے گا۔ اس نے مآل کے مطابق حال کے ساتھ خبردی ۔
(تفسیر القرطبی:أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن أبی بکر بن فرح الأنصاری الخزرجی شمس الدین القرطبی (۲:۳۳۵)

احکام شرعیہ چھپانے کی تین صورتیں

حضرت مفتی احمدیارخان نعیمی رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ یہ آیت کریمہ اگرچہ خاص علماء یہودکے بارے میں نازل ہوئی مگرالذین میں ایسی حرکت کرنے والے سارے لوگ داخل ہیں خواہ عیسائی ویہودی ہوں یامسلمان کہلانے والے علماء۔ چونکہ آئندہ زمانے میں ایسے لوگ پیداہونے والے تھے ،جو حضورتاجدارختم نبوت ﷺکے اوصاف کریمہ کو چھپانے بلکہ انکارکرنے کوبڑی دینی خدمت سمجھیں گے ۔
(۱) کسی مسئلہ شرعی کی ضرورت درپیش ہواورعالم اس کے بتانے سے انکارکرے۔(۲) علماء دین دنیوی لالچ سے امیروں کی صحبت اختیارکرے اوران کے عیوب اورگناہوں کوباطل تاویلوں سے صحیح کرنے کی کوشش کرے تاکہ اس ذریعہ سے روپیہ ہاتھ آئے ۔(۳) قرآن وحدیث کی وہ تاویل کرے جو عقائداسلامی کے خلاف ہواورجو سلف وصالحین وصحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے مسلک کے مخالف ہو، ان تینوں کاایک ہی حکم ہے مگریہ تیسری زیاہ سخت ہے ، اس کو تحریف بھی کہتے ہیں ۔
(تفسیرنعیمی از مفتی احمدیارخان نعیمی ( ۲: ۱۵۶)

علم چھپانے والے کوآگ کی لگام ڈالی جائے گی

حَدَّثَنَا یُوسُفُ بْنُ إِبْرَاہِیمَ، قَالَ:سَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِکٍ، یَقُولُ:سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ: مَنْ سُئِلَ عَنْ عِلْمٍ فَکَتَمَہُ أُلْجِمَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ بِلِجَامٍ مِنْ نَارٍ۔
ترجمہ :حضرت سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے حضورتاجدارختم نبوتﷺکو فرماتے ہوئے سنا: جس شخص سے دین کے کسی مسئلہ کے متعلق پوچھا گیا، اور باوجود علم کے اس نے اسے چھپایا، توقیامت کے دن اسے آگ کی لگام پہنائی جائے گی۔
(سنن ابن ماجہ:ابن ماجۃ أبو عبد اللہ محمد بن یزید القزوینی، وماجۃ اسم أبیہ یزید (ا:۹۷)
علم یادہونے کے باوجود نہ بتائے؟
عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: مَا مِنْ رَجُلٍ یَحْفَظُ عِلْمًا فَیَکْتُمُہُ، إِلَّا أُتِیَ بِہِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ مُلْجَمًا بِلِجَامٍ مِنَ النَّارِ۔
ترجمہ:حضرت سیدناابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضورتاجدارختم نبوتﷺنے فرمایا:جو شخص بھی علم دین یاد رکھتے ہوئے اسے چھپائے، تو اسے قیامت کے دن آگ کی لگام پہنا کر لایا جائے گا۔
(سنن ابن ماجہ:ابن ماجۃ أبو عبد اللہ محمد بن یزید القزوینی، وماجۃ اسم أبیہ یزید (ا:۹۶)
معارف ومسائل
(۱)یعنی بخل جو مال کا ہوتا ہے۔ یا پھر علم کا ہوتا ہے۔ کسی کو اس کی ہوا نہ لگنے دینا۔ مغضوب علیہم کی خصلت بیان ہوئی: علم کو چھپاناکہیں بخل کا باعث تو کہیں اس لیے کہ حق سے خاموش رہ کر کچھ دنیا کمائی جا سکے۔ اور کبھی اس وجہ سے کہ مخالف کو اپنے خلاف دلیل ہاتھ نہ آنے دی جائے۔
اسی سے ملتاجلتا معاملہ ہماری امت کے بعض مدعیانِ علم کا ہوا۔ یہ بھی علم کو چھپاتے ہیں۔ اور وہی بخل کہ کہیں کوئی دوسرا شخص بھی ان جیسا مرتبہ اور مقام حاصل نہ کر لے۔ یا اس لیے کہ اس حق سے خاموش رہ کر دنیا کا کوئی مفاد یا منصب ان کے ہاتھ آیا رہے۔ اور کبھی اس لیے کہ اگر یہ لوگ ایک حق بول دیں تو مخالف کا حق پر ہونا لوگوں پر واضح ہو جائے گا۔
(۲)کتمان علم کا یہ عمل لعنت وملامت کا مستحق کیوں نہ ہوکیونکہ جب اللہ تعالی اورحضورتاجدارختم نبوت ﷺکی سچی اور کھری تعلیمات کو عام نہیں کیا جائے گا تو ابلیس لعین کو اپنی جھوٹی اور کھوٹی،فریب کاری پر مبنی باتوں کو اولاد آدم میں عام کرنے کا سنہری موقع ہاتھ آجائے گا، اس لئے ضروری ہے کہ ترغیب وترہیب اور انذار وتبشیرکے لئے قرآن وحدیث کی باتوں کو لوگوں میں عام کیا جائے۔نیز دعوت دین اور تبلیغ اسلام میں یہ امر بھی بے حد ضروری ہے کہ اللہ یا اس کے حبیب کریم ﷺ کی جانب قطعا کوئی جھوٹی بات منسوب نہ کی جائے۔ قرآن مجید میں جہاں ایک طرف کتمان علم کی مذمت کی گئی وہیں دوسری طرف ان لوگوں کے عمل کی بھی تردید کی گئی جو دوسرے لوگوں کی باتوں کو اسی طرح پیش کرتے ہیں کہ دوسرے لوگ ان کو کتاب الہی ہی میں سے سمجھیں، اور اللہ کے حبیب کریمﷺنے بھی آپﷺ کی طرف سے جھوٹی باتیں لوگوں میں عام کرنے والوں کو جہنم کے ٹھکانے کی وعید سنائی اور آپﷺ کی طرف ایسی بات کی نسبت کو جو آپﷺ نے فرمائی ہی نہ ہو کذب عظیم اور بہتان قرار دیا ہے۔
اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ قرآن وحدیث کے احکام وفرامین اور ان کی سچی تعلیمات کو عام لوگوں کے سامنے مکمل طور پر واضح کیا جائے نیز لوگوں کی فلاح وبہبود، کامیابی وکامرانی اور انذار وتبشیر کے لئے قرآن وحدیث کو کافی سمجھاجائے اور قطعا ایسی من گھڑت اور بے بنیاد باتوں کا سہارا نہ لیا جائے جن کا فرامین الہی، اقوال وافعال رسول اور حضورتاجدارختم نبوت ﷺکی حیات طیبہ اور آپﷺ کے اسوہ حسنہ سے دور کا بھی تعلق نہ ہو۔
(۳)ان آیات کریمہ سے معلوم ہواکہ جو شخص مال کے لالچ میں حکم شرعی کو بدل کر حرام کھاتاہے گویااپنے پیٹ میں جہنم کے انگارے بھررہاہے ، کیونکہ اس کے عمل کاانجام یہی ہے اوربعض محققین علماء کرام نے فرمایاکہ مال حرام درحقیقت جہنم کی آگ ہی ہے اگرچہ اس کاآگ ہونادنیامیں محسوس نہیں ہوتامگرمرنے کے بعد اس کایہ عمل آگ کی شکل اختیارکرجائے گا۔
(۴) یہ لوگ توایسے ہیں جنہوں نے گمراہی کوہدایت کے بدلہ میں اورعذاب کو مغفرت کے بدلہ میں ہزارہارضاورغبت خریدلیاہے ، یہ اس قابل نہیں کہ ان کو پاک کیاجائے اوراللہ تعالی کے کلام سے ان کو عزت بخشی جائے یاکم از کم ان کو دردناک عذاب سے نجات ہی دی جائے ، ان لوگوں نے خودہی اپنے لیے آگ کو پسندکیاہے ، پس شاباش ہوان کی ہمت پر، یہ لوگ آگ پر راضی ہوئے ،بڑے صبرکرنے والے ہیں اورتمام سزائیں اس لئے ہیں کہ اللہ تعالی نے کتاب کو حق کے ساتھ نازل فرمایاتاکہ لوگوں پرحق واضح ہواورتحقیق جن لوگوں نے ایسی کتاب میں بے راہی اختیارکی اس کے مقصود ہی کو بدل دیا، اظہارحق کی بجائے کتمان ِحق کرنے لگے ، حق کو بیان کرنے کے بجائے اخفائے حق کرنے لگے توبلاشبہ ایسے لوگ اللہ تعالی کی کھلی مخالفت میں ہیں کہ جس کتاب کو ہدایت کے لئے نازل فرمایاگیااسکو گمراہی کاذریعہ بنالیاہے اورظاہرہے جو منشاء خداوندی کی کھلم کھلامخالفت کرے وہ ایسی ہی سزائوں کامستحق ہوگا۔
(۴)آجکل جعلی پیروفقیر، ملنگوں پراورگنڈے وتعویذات پرپورامعاشرہ فدائی اورقربان ہے ، ایک ایک تعویذ کاہدیہ لاکھوں تک ہے ، حق وتوحیدورسالت اورمسئلہ ناموس رسالت اوردین متین کو چھپانے والے وہ عجیب وغریب بدعات جاری کئے ہوئے ہیں جنہیں دیکھ اورسن کرابلیس پردل کادورہ پڑتاہوگاکہ یہ ہنرمجھے یادکیوں نہیں آیا؟لوگوں نے شکرانے لے کر ایسے غلط اوربے سروپافتوے جاری کئے جنہیں ائمہ اربعہ رضی اللہ عنہم تودورکی بات ہے ساری امت ماضیہ میں سے کسی نے بھی نہیں سناہوگااورنہ ہی کسی کے خیال میں آیاہوگا، اوربات ایسی بھی نہیں کہ یہ کاروبارکرنے والے کوئی جاہل اوراجڈہیں بلکہ خود کو بڑے بڑے مشائخ کہلانے والے اوربڑے جبے قبے والے لوگ اس مرض میں مبتلاء ہیں۔
اس قسم کے پیر،گدی نشین اورعلماء سوء قرآن کریم میں تحریف لفظی کرنے سے قاصرہیں ، البتہ معنوی تحریف کے ذریعے قرآن کریم اور حدیث شریف سے غلط مسائل اخد کئے اورمحض دنیوی مقاصد کی خاطراورامراء وسلاطین کوخوش کرنے کے لئے طرح طرح کے غلط فتوی جاری کرتے ہیں، ہر شخص دیکھتااورستناہے کہ کوئی وزیروحاکم ، سرمایہ داراس قماش کے لوگوں سے کبھی بھی متنفرنہیں ہوتابلکہ پکاعقیدت مندہی ہوتاہے ، حلانکہ حکمران اورسرمایہ دار طبقہ ہمیشہ علماء حق کامخالف رہاہے ، کبھی بھی علماء حق کے فتاوی اوران کے فیصلوں سے راضی نہیں ہوامگریہ سارے طبقے گدی نشینوں کو اپنارہنماتسلیم کرتے ہیں ، ان کی درگاہوں پرحاضری دیتے ہیں ، نذرونیاز پیش کرتے ہیں اوروہ لوگ بھی شاہی درباروں میں حاضریاں دیتے ہیں اوران ظالم حکمرانوں کی حوصلہ افزائیاں کرتے ہیں اوراپنے اعزہ واقرباء کے لئے عہدے اورملازمتیں حاصل کرتے ہیں ۔یادرکھیں ایسے لوگوں کاحشرقیامت کے دن یہودونصاری کے احباراوررہبانوں کے ساتھ ہوگااوریہ حزب الشیطان کہلائیں گے ۔

Leave a Reply