تفسیر سورہ بقرہ آیت ۱۷۰ ۔ قرآن وحدیث کوچھوڑ کرباپ داداکے رسم ورواج کو اپنانے والوں کارد

قرآن وحدیث کوچھوڑ کرباپ داداکے رسم ورواج کو اپنانے والوں کارد

{وَ اِذَا قِیْلَ لَہُمُ اتَّبِعُوْا مَآ اَنْزَلَ اللہُ قَالُوْا بَلْ نَتَّبِعُ مَآ اَلْفَیْنَا عَلَیْہِ اٰبَآء َنَا اَوَلَوْ کَانَ اٰبَآؤُہُمْ لَا یَعْقِلُوْنَ شَیْـًا وَّلَا یَہْتَدُوْنَ}(۱۷۰)

ترجمہ کنزالایمان :اور جب ان سے کہا جائے اللہ کے اتارے پر چلو تو کہیں بلکہ ہم تو اسی پر چلیں گے جس پر اپنے باپ دادا کو پایا کیا اگرچہ ان کے باپ دادا نہ کچھ عقل رکھتے ہوں نہ ہدایت ۔
ترجمہ ضیاء الایمان: اورجب ان سے کہاجائے کہ اللہ تعالی کے قرآن کریم پر عمل کروتوکہتے ہیں کہ ہم اسی کی پیروی کریں گے جس پر ہمارے باپ داداتھے توکیااگرچہ ان کے باپ دادانہ عقل رکھتے ہوں اورنہ ہی ہدایت ( پھربھی یہ ان کی پیروی کرتے ہیں)
شان نزول
قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: نَزَلَتْ فِی الْیَہُودِ، وَذَلِکَ حِینَ دَعَاہُمْ رَسُولُ اللَّہِ إِلَی الْإِسْلَامِ، فَقَالُوا: نَتَّبِعُ مَا وَجَدْنَا عَلَیْہِ آبَاء َنَا، فَہُمْ کانوا خیر مِنَّا، وَأَعْلَمَ مِنَّا۔
ترجمہ:حضرت سیدناعبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہمافرماتے ہیں کہ یہ آیت مبارکہ یہودیوں کے بارے میں نازل ہوئی ، جب انہیں حضورتاجدارختم نبوت ﷺنے اسلام کی دعوت دی توانہوںنے کہاکہ ہم اس کی اتباع کریں گے جس پر اپنے آبائواجدادکوپایا، وہ ہم سے بہتراورزیادہ علم والے تھے ۔
(التفسیر الکبیر: أبو عبد اللہ محمد بن عمر بن الحسن بن الحسین التیمی الرازی (۵:۱۸۸)

دنیاکے معاملات کاماہراگردین نہیں جانتاتوخالص جاہل ہے

وَالْمَعْنَی أَیَتَّبِعُونَ آبَاء َہُمْ وَإِنْ کَانُوا جُہَّالًا لَا یَعْقِلُونَ شَیْئًا، لَفْظُہُ عَامٌّ وَمَعْنَاہُ الْخُصُوصُ.أَیْ لَا یَعْقِلُونَ شَیْئًا مِنْ أُمُورِ الدِّینِ لِأَنَّہُمْ کَانُوا یَعْقِلُونَ أَمْرَ الدُّنْیَا۔
ترجمہ:امام محی السنہ ابومحمدالحسین بن مسعود البغوی المتوفی : ۵۱۰ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ آیت کریمہ کامعنی یہ ہے کہ یہ لوگ اپنے آباواجدادکی پیروی کریں گے اگرچہ ان کے آبائواجدادٹھیٹ جاہل اوردینی معاملات کچھ نہ جانتے ہوں ۔{لَا یَعْقِلُونَ شَیْئًا}کالفظ عام ہے اورمعنی مراد خاص ہے یعنی { لَا یَعْقِلُونَ شَیْئًا مِنْ أُمُورِ الدِّینِ}دینی معاملات میں سے کچھ بھی نہ جانتے ہوں ، یہ تخصیص اس لئے کی گئی کیونکہ اموردنیاسے وہ آگاہ تھے ۔
(تفسیر البغوی:محیی السنۃ، أبو محمد الحسین بن مسعود البغوی (۱:۱۸۱)

حق کی خاطرعلماء حق کی قربانیاں

قَالَ ابْنُ الْحَصَّارِ: وَإِنَّمَا ظَہَرَ التَّلَفُّظُ بِہَا فِی زَمَنِ الْمَأْمُونِ بَعْدَ الْمِائَتَیْنِ لَمَّا تُرْجِمَتْ کُتُبُ الْأَوَائِلِ وَظَہَرَ فِیہَا اخْتِلَافُہُمْ فِی قِدَمِ الْعَالَمِ وَحُدُوثِہِ وَاخْتِلَافُہُمْ فِی الْجَوْہَرِ وَثُبُوتِہِ، وَالْعَرَضِ وَمَاہِیَّتِہِ، فَسَارَعَ الْمُبْتَدِعُونَ وَمَنْ فِی قَلْبِہِ زَیْغٌ إِلَی حِفْظِ تِلْکَ الِاصْطِلَاحَاتِ، وَقَصَدُوا بِہَا الْإِغْرَابَ عَلَی أَہْلِ السُّنَّۃِ، وَإِدْخَالَ الشُّبَہِ عَلَی الضُّعَفَاء ِ مِنْ أَہْلِ الْمِلَّۃِ. فَلَمْ یَزَلِ الْأَمْرُ کَذَلِکَ إِلَی أَنْ ظَہَرَتِ الْبِدْعَۃُ، وَصَارَتْ لِلْمُبْتَدِعَۃِ شِیعَۃٌ، وَالْتَبَسَ الْأَمْرُ عَلَی السُّلْطَانِ، حَتَّی قَالَ الْأَمِیرُ بِخَلْقِ الْقُرْآنِ، وَجَبَرَ النَّاسَ عَلَیْہِ، وَضُرِبَ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ علی ذلک.فَانْتُدِبَ رِجَالٌ مِنْ أَہْلِ السُّنَّۃِ کَالشَّیْخِ أَبِی الْحَسَنِ الْأَشْعَرِیِّ وَعَبْدِ اللَّہِ بْنِ کُلَّابٍ وَابْنِ مُجَاہِدٍ وَالْمُحَاسِبِیِّ وَأَضْرَابِہِمْ، فَخَاضُوا مَعَ الْمُبْتَدِعَۃِ فِی اصْطِلَاحَاتِہِمْ، ثُمَّ قَاتَلُوہُمْ وَقَتَلُوہُمْ بِسِلَاحِہِمْ. وَکَانَ مَنْ دَرَجَ مِنَ الْمُسْلِمِینَ مِنْ ہَذِہِ الْأُمَّۃِ مُتَمَسِّکِینَ بِالْکِتَابِ وَالسُّنَّۃِ، مُعْرِضِینَ عَنْ شُبَہِ الْمُلْحِدِینَ، لَمْ یَنْظُرُوا فِی الْجَوْہَرِ وَالْعَرَضِ، عَلَی ذَلِکَ کَانَ السَّلَفُ.

ترجمہ :ابن حصاررحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ ان کے ساتھ تلفظ دوسوسال بعد مامون کے زمانے میں ظاہرہواتھا، جب پہلی کتابوں کے ترجمے کیے گئے اوران میں عالم کے قِدم اورحدوث میں اختلاف ظاہرہوااورجو ہر اوراس کاثبوت عرض اوراس کی ماہیت میں اختلاف ظاہرہوا، پس بدعتیوں اوران لوگوں نے جن کے دلوں میں کجی تھی ، انہوں نے ان اصطلاحات کی حفاظت کی طرف جلدی کی اوران کے ذریعے اہل سنت پر اغراب کاقصدکیا، اوراہل ملت میں سے کمزورلوگوں پر شبہات کو داخل کرنے کاارادہ کیا، معاملہ اسی طرح چلتارہاحتی کہ بدعت غالب آئی اوربدعتی ایک گروہ کی شکل اختیارکرگیااورحاکم بھی اس میں الجھ گیا، حتی کہ حاکم نے خلق قرآن کاقول کیااورلوگوں کو اس پرمجبورکیااورامام احمدبن حنبل رضی اللہ عنہ کو اس پر سزادی ، اہل سنت کے علماء الشیخ ابوالحسن الاشعری رضی اللہ عنہ اورعبداللہ بن کلاب اورابن مجاہداورمحاسبی اوردوسرے ان جیسے علماء نے ان کو جواب دینے کابیڑااٹھایا، بدعتیوں کے ساتھ ان کی اصطلاحات میں غوروخوض کیا، پھران کے ساتھ جنگ کی اوران کے ہتھیاروں کے ساتھ انہیں قتل کیا، جومسلمان کتاب وسنت کو پکڑنے والے تھے اورملحدین کے شبہات سے اعراض کرنے والے تھے ، انہوںنے جوہروعرض میں غورنہ کیااوراسی پر سلف وصالحین تھے ۔
(تفسیر القرطبی:أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن أبی بکر بن فرح الأنصاری الخزرجی شمس الدین القرطبی (۲:۲۱۴)

جوشخص دینی دشمنوں کارد کرے ۔۔۔

قُلْتُ: وَمَنْ نَظَرَ الْآنَ فِی اصْطِلَاحِ الْمُتَکَلِّمِینَ حَتَّی یُنَاضِلَ بِذَلِکَ عَنِ الدِّینِ فَمَنْزِلَتُہُ قَرِیبَۃٌ مِنَ النَّبِیِّینَ. فَأَمَّا مَنْ یُہَجِّنُ مِنْ غُلَاۃِ الْمُتَکَلِّمِینَ طَرِیقَ مَنْ أَخَذَ بِالْأَثَرِ مِنَ الْمُؤْمِنِینَ، وَیَحُضُّ عَلَی دَرْسِ کُتُبِ الْکَلَامِ، وَأَنَّہُ لَا یُعْرَفُ الْحَقَّ إِلَّا مِنْ جِہَتِہَا بِتِلْکَ الِاصْطِلَاحَاتِ فَصَارُوا مَذْمُومِینَ لِنَقْضِہِمْ طَرِیقَ الْمُتَقَدِّمِینَ مِنَ الْأَئِمَّۃِ الْمَاضِینَ، وَاللَّہُ أَعْلَمُ أَمَّا الْمُخَاصَمَۃُ وَالْجِدَالُ بِالدَّلِیلِ وَالْبُرْہَانِ فَذَلِکَ بَیِّنٌ فِی الْقُرْآنِ۔
ترجمہ :امام ابوعبداللہ محمدبن احمدالقرطبی المتوفی : ۶۷۱ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ میں کہتاہوں جس نے اب متکلمین کی اصطلاح میں غوروفکرکیاحتی کہ اس کے ساتھ دین کادفاع کیااس کامرتبہ انبیاء کرام علیہم السلام کے قریب ہے اورجو غالی متکلمین میں سے ان لوگوں کے راستے پر چلاجنہوںنے اثرکو مضبوطی سے پکڑااورعلم کلام کی کتب کے درس پر برانگیختہ کیااوروہ حق کو صرف انہیں اصطلاحات کے واسطے سے جانتاتھاتووہ مذموم ہوگیاکیونکہ انہوںنے سابقہ ائمہ کے راستے کو چھوڑ دیا۔ دلیل وحجت کیساتھ دین دشمنوں کے خلاف لڑنایہ توقرآن کریم میں واضح ہے ۔
(تفسیر القرطبی:أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن أبی بکر بن فرح الأنصاری الخزرجی شمس الدین القرطبی (۲:۲۱۴)

حدیث شریف پر غیرکے کلام کو ترجیح دینے والوں کارد

ترک حدیث شریف کاشیطانی وسوسہ
وَقَالَ الشَّیْخ مُحَمَّد حَیَاۃ ایضا لَو تتبع الانسان من النقول لوجد أَکثر مِمَّا ذکر وَدَلَائِل الْعَمَل علی الْخَیْر اکثر من أَن تذکر وَأشہر من أَن تشہر لَکِن لبس ابلیس علی کثیر من الْبشر فَحسن لَہُم الْأَخْذ بِالرَّأْیِ لَا الْأَثر وأوہمہم أَن ہَذَا ہُوَ الأولی والأخیر فجعلہم بِسَبَب ذَلِک محرومین عَن الْعَمَل بِحَدِیث خیر الْبشر صلی اللہ تَعَالَی عَلَیْہِ وَسلم وَہَذِہ البلیۃ من البلایا الْکبر إِنَّا للہ وَإِنَّا للہ رَاجِعُون۔
ترجمہ :حضرت سیدناالشیخ محمدحیات رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ زندگی میںبہت مرتبہ ایسابھی ہوجاتاہے کہ وہ منقولات میں سے تووہ بہت سی اشیاء پاتاہے جو نقل کی گئی ہوتی ہیں اورخیر پر عمل کے دلائل اکثروہ پاتاہے جو اسے یاد ہوتے ہیں یاوہ جو مشہور ہوتے ہیں یااس نے مشہورکررکھے ہوتے ہیں لیکن ابلیس اس پر بہت سی چیزوں میں التباس پیداکردیتاہے ، پھراس کے لئے حدیث شریف پر عمل کی بجائے اپنی ذاتی رائے پر عمل کرنااس کے نزدیک پسندیدہ بنادیتاہے اور اس پر یہی ظاہر کرتاہے کہ اس پر عمل کرناتیرے لئے زیادہ اہم اوراولی ہے ، اسی وجہ سے وہ شخص رسول اللہ ﷺکی حدیث شریف پر عمل کرنے سے محروم رہ جاتاہے اوریہ بہت بڑی مصیبتوں میں ایک مصیبت ہے ۔
(قواعد التحدیث من فنون مصطلح الحدیث: محمد جمال الدین بن محمد سعید بن قاسم الحلاق القاسمی:۵۴)
میں تیرے کان کھینچتا
وقال الإمام محمد الکوفی رضی اللہ عنہ:رأیت الإمام الشافعی بمکۃ: وہو یفتی الناس، ورأیت الإمام أحمد وإسحاق بن راہویہ حاضرین فقال الشافعی: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہل ترک لنا عقیل من دار؟ فقال إسحاق:روینا عن الحسن!! وإبراہیم أنہما لم یکونا یریانہ وکذلک عطاء ومجاہد” فقال الشافعی لإسحاق:لو کان غیرک موضعک لفرکت أذنہ أقول قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم- وتقول قال عطاء ومجاہد والحسن وہل لأحد مع قول رسول اللہ -صلی اللہ علیہ وسلم- حجۃ بأبی ہو وأمی۔ کذا فی میزان الشعرانی قدس سرہ۔
ترجمہ :امام احمدالکوفی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے امام شافعی رضی اللہ عنہ کو دیکھاکہ وہ لوگوں کو فتوی دے رہے تھے اورمیں نے دیکھاکہ امام احمدبن حنبل اورامام اسحاق بن راہویہ رضی اللہ عنہمابھی موجود تھے ، امام الشافعی رضی اللہ عنہ نے یہ حدیث شریف بیان کی کہ {قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم:ہل ترک لنا عقیل من دار؟}تو امام اسحاق بن راہویہ رضی اللہ عنہ کہنے لگے کہ ہم نے حسن اورابراہیم سے روایت کیاہے کہ وہ اس کو ناپسند کرتے تھے اوراسی طرح مجاہد اورعطابھی ، امام شافعی رضی اللہ عنہ فرمانے لگے اگرتیری جگہ کوئی اورہوتاتو اس کے کان کھینچتا، میں کہہ رہاہوں رسول اللہ ﷺیہ فرماتے ہیں اورتم کہتے ہوکہ عطا،مجاہداورحسن یہ کہتے ہیں ، کیاکوئی شخص ساری دنیامیں ایساہے کہ جس کاقول رسول اللہ ﷺکے فرمان شریف کے مقابلے میں پیش کیاجاسکے ، میرے ماں باپ رسول اللہ ﷺپر قربان ہوں ، حضور ﷺہی حجت ہیں۔ اسی طرح امام عبدالوہاب الشعرانی رضی اللہ عنہ نے اپنی کتاب میزان الکبری میں نقل کیاہے ۔
(قواعد التحدیث من فنون مصطلح الحدیث: محمد جمال الدین بن محمد سعید بن قاسم الحلاق القاسمی:۵۴):

حدیث شریف کادشمن کون؟

قَالَ الْأَوْزَاعِیُّ: یَا أَبَا یَحْمَد!مَا تَقُولُ فِی قَوْمٍ یَبْغَضُونَ حَدِیثَ نَبِیِّہِمْ؟ قُلْتُ: قَوْمُ سَوْء ٍ قَالَ: لَیْسَ مِنْ صَاحِبِ بِدْعَۃٍ تُحَدِّثُہُ عَنْ رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِخِلَافِ بِدْعَتِہِ بِحَدِیثٍ إِلَّا أَبْغَضَ الْحَدِیثَ۔
ترجمہ:حضرت سیدناامام اوزاعی رحمہ اللہ تعالی نے حضرت سیدناابویحمدرضی اللہ عنہ کی خدمت میں عرض کی : ایسی قوم کے بارے میں آپ کیافرماتے ہیں جو رسول اللہ ﷺکی حدیث شریف کے ساتھ بغض رکھتے ہیں ،آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: وہ انتہائی برے لوگ ہیں اوریہ بھی فرمایا: ہر بدمذہب رسول اللہ ﷺکی حدیث شریف کے ساتھ بغض رکھتاہے ۔
(شرف أصحاب الحدیث:أبو بکر أحمد بن علی بن ثابت بن أحمد بن مہدی الخطیب البغدادی :۷۳)

لبرل حدیث شریف کاسب سے بڑادشمن

أَبَا نَصْرٍ أَحْمَدَ بْنَ سَہْلٍ الْفَقِیہَ بِبُخَارَی یَقُولُ :سَمِعْتُ أَبَا نَصْرِ بْنَ سَلَّامٍ الْفَقِیہَ، یَقُولُ:لَیْسَ شَیْء ٌ أَثْقَلَ عَلَی أَہْلِ الْإِلْحَادِ، وَلَا أَبْغَضُ إِلَیْہِمْ مِنْ سَمَاعِ الْحَدِیثِ وَرِوَایَتِہِ بِإِسْنَادِہِ۔
ترجمہ :حضرت سیدناابونصر احمدرضی اللہ عنہ نے بیان کیاکہ میں نے ابونصر بن سلام الفقیہ رحمہ اللہ تعالی سے سناوہ فرماتے تھے کہ ملحدین پر سب سے زیادہ بھاری کام اورسب سے زیادہ قابل نفرت کام حدیث شریف کوسننااوراس کوسند کے ساتھ روایت کرناہے ۔
(شرف أصحاب الحدیث:أبو بکر أحمد بن علی بن ثابت بن أحمد بن مہدی الخطیب البغدادی :۷۳)

محدثین کادشمن زندیق ہے

أَبَا إِسْمَاعِیلَ مُحَمَّدَ بْنَ إِسْمَاعِیلَ التِّرْمِذِیَّ، قَالَ:کُنْتُ أَنَا وَأَحْمَدُ بْنُ الْحَسَنِ التِّرْمِذِیُّ، عِنْدَ أَبِی عَبْدِ اللَّہِ أَحْمَدَ بْنِ حَنْبَلٍ، فَقَالَ لَہُ أَحْمَدُ بْنُ الْحَسَنِ :یَا أَبَا عَبْدِ اللَّہِ ذَکَرُوا لِابْنِ أَبِی قُتَیْلَۃَ بِمَکَّۃَ أَصْحَابَ الْحَدِیثِ، فَقَالَ: أَصْحَابُ الْحَدِیثِ قَوْمُ سَوْء ٍ. فَقَامَ أَبُو عَبْدِ اللَّہِ، وَہُوَ یَنْفُضُ ثَوْبَہُ، فَقَالَ:زِنْدِیقٌ، زِنْدِیقٌ، زِنْدِیقٌ، وَدَخَلَ بَیْتَہُ۔
ترجمہ :محمدبن اسماعیل الترمذی رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ میں اوراحمدبن الحسن الترمذی رحمہ اللہ تعالی امام احمدبن حنبل رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضرتھے کہ احمدبن الحسن نے عرض کیا: اے ابوعبداللہ ! لوگوں نے ابوقتیلہ کے سامنے محدثین کاذکرکیاہے تو اس نے کہاہے کہ محدثین کی جماعت بہت بری ہے ، توامام احمدبن حنبل رضی اللہ عنہ اپنے کپڑے جھاڑتے ہوئے کھڑے ہوئے اورفرمانے لگے وہ زندیق ہے ، زندیق ہے ، زندیق ہے ، یہاں تک کہ اپنے گھرمیں داخل ہوگئے ۔
(شرف أصحاب الحدیث:أبو بکر أحمد بن علی بن ثابت بن أحمد بن مہدی الخطیب البغدادی :۷۳)

لبرل کی باتوں پر پیشاب

عَنِ ابْنِ أَبْجَرَ، قَالَ: قَالَ لِی الشَّعْبِی: مَا حَدَّثُوکَ عَنْ أَصْحَابِ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَخُذْہُ، وَمَا قَالُوا: بِرَأْیہِمْ فَبُلْ عَلَیْہِ ۔
ترجمہ :حضرت سیدناابن ابجررحمہ اللہ تعالی بیان کرتے ہیں کہ مجھے حضرت سیدناامام الشعبی رضی اللہ عنہ نے بیان کیاکہ جو کوئی تمھیں رسول اللہ ﷺکے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی حدیث شریف بیان کریں وہ لے لیاکرو اورکوئی اپنی طرف سے چونکہ چنانچہ کرے تو اس پر پیشاب کردو۔
(مصنف عبد الرزاق : أبو بکر عبد الرزاق بن ہمام الصنعانی(۱۱:۲۵۶)

روٹی والاعلم کونساہے ؟

مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ السَّامِیُّ، قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّہِ بْنَ أَحْمَدَ بْنِ شَبَوَیْہِ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبِی یَقُولُ: مَنْ أَرَادَ عِلْمَ الْقَبْرِ فَعَلَیْہِ بِالْأَثَرِ، وَمَنْ أَرَادَ عِلْمَ الْخُبْزِ فَعَلَیْہِ بِالرَّأْیِ۔
ترجمہ :حضرت سیدناعبداللہ بن احمدبن شبویہ رحمہ اللہ تعالی اپنے والد ماجد سے روایت کرتے ہیںکہ انہوںنے فرمایا: جو شخص یہ چاہتاہے کہ ایساعلم سیکھے جس سے اس کی آخرت بن جائے تو وہ حدیث شریف کاعلم پڑھے اورجو شخص یہ چاہتاہے کہ روٹی ملے تو چونکہ چنانچہ والاعلم سیکھے۔
(تاریخ الإسلام ووفیات المشاہیر والأعلام:شمس الدین أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن عثمان بن قَایْماز الذہبی (۱۶:۲۷)
ہر طرح کی خیر میں حدیث شریف اور۔۔۔
سَمِعْتُ أَبَا رَجَاء ٍ، یَقُولُ: سَمِعْتُ یُونُسَ بْنَ سُلَیْمَانَ السَّقَطِیَّ، وَکَانَ، ثِقَۃً، قَالَ: نَظَرْتُ فِی الْأَمْرِ، فَإِذَا ہُوَ الْحَدِیثُ وَالرَّأْیُ. فَوَجَدْتُ فِی الْحَدِیثِ ذِکْرَ الرَّبِّ تَعَالَی وَرُبُوبِیَّتَہُ وَجَلَالَہُ وَعَظَمَتَہُ، وَذِکْرَ الْعَرْشِ، وَصِفَۃَ الْجَنَّۃِ وَالنَّارِ، وَذِکْرَ النَّبِیِّینَ وَالْمُرْسَلِینَ، وَالْحَلَالَ وَالْحَرَامَ، وَالْحَثَّ عَلَی صِلَۃِ الْأَرْحَامِ، وَجِمَاعَ الْخَیْرِ فِیہِ. وَنَظَرْتُ فِی الرَّأْیِ، فَإِذَا فِیہِ الْمَکْرُ وَالْغَدْرُ وَالْحِیَلُ، وَقَطِیعَۃُ الْأَرْحَامِ، وَجِمَاعُ الشَّرِّ فِیہِ۔
ترجمہ:حضرت سیدناابوالرجاء رحمہ اللہ تعالی بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت سیدنایونس بن سلیمان السقطی رحمہ اللہ تعالی کو فرماتے ہوئے سناکہ وہ کہتے ہیںکہ میں نے غورکیا تو مجھ پر حدیث شریف اوررائے میں فرق عیاں ہوا، وہ اس طرح کہ حدیث شریف میں اللہ تعالی کاذکراوراس کی ربوبیت اوراس کے جلال وعظمت ،عرش کاذکر، اورجنت ودوزخ کاذکر، اورانبیاء کرام علیہم السلام اوررسل عظام علیہم السلام کاذکرخیر ، اورحلال وحرام کے مسائل اورصلہ رحمی کی ترغیب اورحتی کہ ہر طرح کی خیر اس میں موجود ہے اورجب میں نے رائے میں غورکیاتو اس میں مکر،دھوکہ ،حیلے بہانے ،اورقطع رحمی اورہر طرح کی برائی موجود ہے ۔
(شرف أصحاب الحدیث:أبو بکر أحمد بن علی بن ثابت بن أحمد بن مہدی الخطیب البغدادی :۷۵)

’میراخیال یہ ہے ‘‘کہنے والے کون؟

قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا بَکْرٍ أَحْمَدَ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ النَّسَفِیَّ الْمُقْرِئَ بِسَمَرْقَنْدَ یَقُولُ:کَانَ مَشَایِخُنَا یُسَمُّونَ أَبَا بَکْرِ بْنَ إِسْمَاعِیلَ أَبَا ثَمُودَ، لِأَنَّہُ کَانَ مِنْ أَصْحَابِ الْحَدِیثِ، فَصَارَ مِنْ أَصْحَابِ الرَّأْیِ. یَقُولُ اللَّہُ تَعَالَی: ( وأَمَّا ثَمُودُ فَہَدَیْنَاہُمْ فَاسْتَحَبُّوا الْعَمَی عَلَی الْہُدَی ) (فصلت:۱۷)
ترجمہ :حضرت سیدناابوبکر احمدرحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ ہمارے مشائخ کرام نے ابوبکر بن اسماعیل کانام ابوثمود رکھاہواتھا، اس کی وجہ یہ تھی کہ یہ پہلے اپنے مذہب کی بنیاد حدیث شریف پر رکھتاتھابعد میں یہ اپنے مذہب کی بنیاد اپنی رائے پر رکھنے لگاکیونکہ اللہ تعالی نے قوم ثمود کے متعلق یہ بیان کیاہے کہ ہم نے ان کو ہدایت دی تو انہوںنے ہدایت پر اندھے پن کو اختیارکیا۔
( شرف أصحاب الحدیث:أبو بکر أحمد بن علی بن ثابت بن أحمد بن مہدی الخطیب البغدادی :۷۵)

جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کافرمان شریف آگیا۔۔۔

صَالِحُ بْنُ مُسْلِمٍ، قَالَ: سَأَلْتُ الشَّعْبِیَّ عَنْ مَسْأَلَۃٍ، فَقَالَ:قَالَ فِیہَا عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ کَذَا، وَقَالَ عَلِیُّ بْنُ أَبِی طَالِبٍ فِیہَا کَذَا. فَقُلْتُ لِلشَّعْبِیِّ: مَا تَرَی؟ قَالَ: مَا تَصْنَعُ بِرَأْیِی بَعْدَ قَوْلِہِمَا، إِذَا أَخْبَرْتُکَ بِرَأْیِی فَبُلْ عَلَیْہِ۔
ترجمہ :حضرت سیدناصالح بن مسلم رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیںکہ میں نے حضرت سیدناشعبی رضی اللہ عنہ سے ایک مسئلہ دریافت کیاتوآپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: حضرت سیدناعمر بن خطاب رضی اللہ عنہ یہ فرماتے ہیں اورحضرت سیدنامولاعلی رضی اللہ عنہ یہ فرماتے ہیں ، اس نے کہا: آپ کیافرماتے ہیں ؟ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ان کے فرمان شریفہ کے بعد میں کیاکہوں ؟ اگران اجلہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے فرمان شریف کے بعد بھی میں کچھ کہوں تو میرے قول پر پیشاب کردو۔
(حلیۃ الأولیاء وطبقات الأصفیاء :أبو نعیم أحمد بن عبد اللہ (۴:۳۱۹)

قرآن وحدیث کے علاوہ علم شیطانی ہے

أَنْشَدَنِی أَبُو زَیْدٍ الْفَقِیہُ لِبَعْضِ عُلَمَاء ِ شَاشَ:
(البحر البسیط)
کُلُّ الْکَلَامِ سِوَی الْقُرْآنِ زَنْدَقَۃٌ … إِلَّا الْحَدِیثَ وَإِلَّا الْفِقْہَ فِی الدِّینِ
وَالْعِلْمُ مُتَّبَعٌ مَا کَانَ حَدَّثَنَا … وَمَا سِوَی ذَاکَ وَسْوَاسُ الشَّیَاطِینِ
ترجمہ :ابوزید الفقیہ رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے علماء شاش کاکلام سنایاوہ کہتے ہیںکہ قرآن کریم کے علاوہ ہر طرح کا علم زندقہ ہے سوائے حدیث شریف اورفقہ کے اوروہ علم جو ’’حدثنا‘‘کہہ کربیان کریں اوراس کے علاوہ جو کچھ بھی ہے وہ شیطانی وسوسہ ہے ۔
(شرف أصحاب الحدیث: أبو بکر أحمد بن علی بن ثابت بن أحمد بن مہدی الخطیب البغدادی :۷۵)

دینی معاملات میں تعصب کاشکاربے دینوں کارد

تعصب ایک ایسی خصلت ہے جو آدمی کو ناحق اپنے اہل و عیال اور رشتے داروں کی حمایت کرنے پر ابھارتی ہے خواہ وہ لوگ ظالم ہوں یا مظلوم ۔البتہ یہ تعصب رشتے داروں سے مخصوص نہیں بلکہ کبھی قوم و قبیلہ ، نسل ، علاقہ ، ملک ،کلچر اور زبان و غیرہ کے بارے میں بھی ہوسکتا ہے۔ اس بناء پر آدمی کسی عقلی یا شرعی دلیل کے بغیر ،صرف احساسات اور جذبات کا سہارا لیتے ہوئے ناحق قوم ، خاندان و غیرہ کا دفاع کرتا ہے اگر یہ خصلت قوم اور قبیلہ سے متعلق ہو تو اسے قوم پرستی کہتے ہیں۔
تاریخ میں قوم و قبیلہ اور وطن سے محبت میں زیادہ روی کی وجہ سے خطرناک جنگیں وجود میں آئی ہیں اور اس جیسی جنگیں ، قومی لڑائیاں آج کے دور میں بھی نظر آرہی ہیں کبھی قبائل کے آداب و رسوم کے نام پر بعض خرافات اور برائیاں دوسرے اقوام کی طرف منتقل ہو گئی ہیں اور کبھی قومی اور قبائلی تعصب اتنا زیادہ بڑھ جاتا ہے کہ اپنے قبیلے کا بد ترین فرد اچھا اور دوسرے قبیلے کا بہترین فرد انسان کو برا لگتا ہے۔ البتہ زمانہ جاہلیت (اسلام کے آنے سے پہلے)میں قوم پرستی اتنا زیادہ تھی سالہاسال تک اسی وجہ سے جنگیں لڑتے رہتے تھے۔

آیات اور روایات میں قوم پرستی کی مذمت

یہ فطرت ہر دور میں پائی گئی ہے کہ بعض لوگ اپنے آبا ء و اجداد کی تعلیمات کواللہ تعالی اورحضورتاجدارختم نبوت ﷺکی تعلیمات سے زیادہ اہمیت دیتے تھے اور ان میں اس قدر شعور بھی نہیں ہوتا کہ یہ آباء و اجداد ان کے برابر بھی صاحبان علم و عقل نہیں تھے اور بطور عام یہ ہر دینی ، مذہبی ، سیاسی ، اجتماعی و غیرہ معاملہ میں اپنی عقل کو ان پر مقدم رکھتے تھے ،خصوصا مذہب کے معاملہ میں اپنے علم اور اپنی عقل کو بالائے طاق رکھ کر اپنے باپ دادا کے رسوم کی اتباع کرتے تھے۔قرآن مجید نے اس طریقے کی شدید مذمت کر کے ایسے لوگوں کو بے عقل ، جانور ، اندھا ، بہرا ، گونگا اور دردناک عذاب کا مستحق قرار دیا ہے جیسا کہ فرما رہا ہے:
{وَ اِذَا قِیْلَ لَہُمُ اتَّبِعُوْا مَآ اَنْزَلَ اللہُ قَالُوْا بَلْ نَتَّبِعُ مَآ اَلْفَیْنَا عَلَیْہِ اٰبَآء َنَا اَوَلَوْ کَانَ اٰبَآؤُہُمْ لَا یَعْقِلُوْنَ شَیْـًا وَّلَا یَہْتَدُوْنَ}(۱۷۰)
ترجمہ ضیاء الایمان: اورجب ان سے کہا جائے کہ اللہ تعالی کے قرآن کریم پر عمل کروتوکہتے ہیں کہ ہم اسی کی پیروی کریں گے جس پر ہمارے باپ داداتھے توکیااگرچہ ان کے باپ دادانہ عقل رکھتے ہوں اورنہ ہی ہدایت ( پھربھی یہ ان کی پیروی کرتے ہیں)
{وَ اذَا قِیلَ لَہُمْ تَعَالَوْاْ إِلَی مَا أَنزَلَ اللّہُ وَإِلَی الرَّسُولِ قَالُواْ حَسْبُنَا مَا وَجَدْنَا عَلَیْہِ آبَاء نَا أَوَلَوْ کَانَ آبَاؤُہُمْ لاَ یَعْلَمُونَ شَیْئًا وَلاَ یَہْتَدُونَ}
ترجمہ ضیاء الایمان:جب ان سے کہا جاتا ہے خدا کے نازل کئے ہوئے احکام اور اس کے رسولﷺکی طرف آؤ تو کہتے ہیں کہ ہمارے لئے وہی کافی ہے جس پر ہم نے اپنے آباء و اجداد کو پایا ہے ، چاہے ان کے آباء و اجداد نہ کچھ سمجھتے ہوں اور نہ کسی طرح کی ہدایت رکھتے ہوں ۔
{وَإِذَا فَعَلُواْ فَاحِشَۃً قَالُواْ وَجَدْنَا عَلَیْہَا آبَاء نَا وَاللّہُ أَمَرَنَا بِہَا قُلْ إِنَّ اللّہَ لاَ یَأْمُرُ بِالْفَحْشَاء أَتَقُولُونَ عَلَی اللہِ مَا لاَ تَعْلَمُونَ}
ترجمہ ضیاء الایمان:اور یہ لوگ جب کوئی برا کام کرتے ہیں تو کہتے ہیں ہم نے آباء و اجداد کو اسی طریقہ پر پایا ہے اور اللہ نے یہی حکم دیا ہے ۔آپ فرما دیجیئے کہ خدا بری بات کا حکم دے ہی نہیں سکتا ہے کیا تم خدا کے خلاف وہ کہہ رہے ہو جو جا نتے بھی نہیں ہو۔
{قَالُواْ أَجِئْتَنَا لِتَلْفِتَنَا عَمَّا وَجَدْنَا عَلَیْہِ آبَاء نَا وَتَکُونَ لَکُمَا الْکِبْرِیَاء فِی الأَرْضِ وَمَا نَحْنُ لَکُمَا بِمُؤْمِنِینَ}
ترجمہ ضیاء الایمان:ان لوگوں نے کہا کہ تم یہ پیغام اس لئے لائے ہو کہ ہمیں باپ دادا کے راستے سے منحرف کردو اور تم دونوں کو زمین میں حکومت اور اقتدار مل جائے اور ہم ہرگز بات ماننے والے نہیں ہیں۔
{قَالُوا وَجَدْنَا آبَاء نَا لَہَا عَابِدِینَ}
ترجمہ ضیاء الایمان:ان لوگوں نے جواب دیا کہ ہم نے اپنے باپ دادا کو ایسا ہی کرتے دیکھا ۔
یہ وہی لوگ ہیں جو اللہ کی طرف سے پیغام لائے ہوئے انبیا ء کرام علیہم السلام کی تکذیب کرتے تھے اور اپنے آباء و اجداد کے بنائے گئے قبائلی آداب و رسوم کو بہتر سمجھتے تھے تو ایسے لوگوں کو قرآن مجید نے یوں خطاب کیا :
{وَمَثَلُ الَّذِینَ کَفَرُواْ کَمَثَلِ الَّذِی یَنْعِقُ بِمَا لاَ یَسْمَعُ إِلاَّ دُعَاء وَنِدَاء صُمٌّ بُکْمٌ عُمْیٌ فَہُمْ لاَ یَعْقِلُونَ}
ترجمہ ضیاء الایمان:جو لوگ کافر ہوگئے ہیں ان کو پکارنے والے کی مثال اس شخص کی ہے جو جانوروں کو آواز دے اور جانور پکار اور آواز کے علاوہ کچھ نہ سنیں اور سمجھیں ۔ یہ کفار بہرے ، گونگے اور اندھے ہیں انہیں عقل سے سروکار نہیں ہے ۔
آج کل کے دور میں بھی کچھ ایسے لوگ اور اقوام پائے جاتے ہیں جو قرآن وسنت کی باتیں جو دیندار افراد اور علماء کرام بیان کرتے ہیں ماننے کو تیار نہیں ہوتے تو ایسے لوگ بھی مذکورہ آیات کے مصداق بن سکتے ہیں ۔
روایات میں بھی تعصب اور قوم پرستی کی شدید مذمت ہوئی ہے یہاں تک کہ حضورتاجدارختم نبوت ﷺنے فرمایا :جس کے دل میں ایک رائی کے دانہ کے برابر (ناحق)طرفداری پائی جائے تو اللہ تعالی قیامت کے دن اس کو زمانہ جاہلیت کے عربوں کے ساتھ محشور کرے گا ۔
روایت میں ملتا ہے کہ حضور تاجدارختم نبوت ﷺدن میں مندرجہ ذیل چھے چیزوں سے اللہ کے حضور پناہ مانگتے تھے(۱)شک(۲)شرک(۳)تعصب(۴) غضب (۵)ظلم (۶)حسد

تعصب اور قوم پرستی کا ذمہ دار کون؟

مندرجہ بالا مطالب سے یہ معلوم ہوگیا کہ معاشرے کے بعض لوگ اللہ تعالی اورحضورتاجدارختم نبوت ﷺکے فرامین کے مقابلے میں اپنے آباء و اجداد کے طورطریقوں (اگر چہ دین کے خلاف ہی کیوں نہ ہوں)کو بہتر سمجھتے ہیں بلکہ اسی کو عین دین سمجھتے ہیں تو اس کی اصلی علت کیا ہو سکتی ہے ؟
انسان فطری طور پر توحید پرست اور اللہ تعالی کے احکام پر عمل کرنے کا شوق رکھتا ہے لیکن ولادت کے بعد گھر اور معاشرے کی تربیت کی وجہ سے یا تو سیدھے راستے پر گامزن رہتاہے یا تو غلط راہوں پر چل پڑتا ہے لیکن قوم کی تباہی اور بربادی میں سب سے بڑا ہاتھ ان سرداروں کا ہوتا ہے جن کی حیثیت کچھ نہیں ہوتی ، یہ سردار عموماً دین سے اتنے بے خبر ہوتے ہیں کہ قرآن پاک بھی نہیں پڑھ سکتے جبکہ اپنے آپ کو اس قدر عظیم ظاہر کرتے ہیں جس کا اندازہ کرنا مشکل ہوتاہے ۔ان کے پاس تعصب ، عناد ، غرور اور تکبر کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا اور اپنی رعیت کی بھی اپنی جیسی بے بنیاد تربیت کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور اپنے ماتحت لوگوں کو یہ سمجھانا چاہتے ہیں کہ اللہ تعالی نے ہم کو بلند بنایا ہے اور اسی نے تمہیں پست قرار دیا ہے !لہذا اب تمہارا فرض ہے کہ اس فیصلہ پر راضی رہو اور ہماری اطاعت کی راہ پر چلتے رہو ، بٖغاوت کا ارادہ مت کرو کہ یہ قضاء و قدر الہی سے بغاوت ہے اور یہ شان اسلام کے خلاف ہے۔ تو ہرسردار کی بھر پور کوشش رہتی ہے کہ وہ ان حربوں کے ذریعے سے ہمیشہ اپنی رعیت پر مسلط رہے۔
معارف ومسائل
(۱)شریعت کے مقابلہ میں گمراہ باپ دادا کی پیروی کرنا حرام ہے۔ یونہی گناہ کے کاموں میں باپ دادا کی پیروی ناجائز ہے۔
(۲)ہمارے ہاں شادی مرگ اور دیگر کئی مواقع پر شریعت پر چلنے کا کہا جائے تو لوگ آگے سے یہی باپ دادا، خاندان اور برادری کے رسم و رواج کا عذر پیش کرتے ہیں یہ بھی سراسر غلط و باطل ہے۔خلاصہ کلام یہ ہے کہ بروں کی پیروی بری ہے اور اچھوں کی پیروی اچھی جیسے ہم بزرگانِ دین، صحابہ، تابعین، ائمہ مجتہدین، اولیاء و صالحین کی پیروی کرتے ہیں تو یہ بہت اچھی ہے کہ اس کا حکم خود قرآن نے دیا ہے۔
(۳) کفارکافطری نور اس قدربجھ چکاہے کہ جب ان پرتوحیدکے دلائل پیش کئے جاتے ہیںاورانہیں اتباع حق کی دعوت دی جاتی ہے تویہ بجائے غورکرنے کے جہالت والاجواب دیتے ہیں کہ ہم تواپنے باپ دادائوں کے طریقے پر چلیں گے کیونکہ وہ ہم سے زیادہ عقل مندتھے توکیایہ احمق اپنے باپ دادائوں کو پکڑے رہیں گے اگرچہ وہ کیسے ہی گمراہ اوربے وقوف ہوں ؟ اے حبیب کریم ﷺ! آپ ان کی ضدسے غمگین نہ ہوں ، ان کو ہدایت کی طرف بلانے کی مثال ایسے ہی ہے جیسے چراوہابھیڑبکریوںکو آواز دے اوروہ اس کی آواز سنتی توہیں مگرکچھ سمجھتی نہیں ، یہی حال ان کاہے کہ آپ ﷺکی آواز مبارک سن تولیتے ہیں لیکن اس کامقصود دل میں نہیں اتارتے ۔ کیونکہ رب تعالی کی طرف سے جو انہیں فیض لینے کی باطنی قوتیں عطاہوئیں تھیں انہوں نے انہیں بے کارکردیا، اب گویایہ بہرے ،گونگے اوراندھے ہیں، اسی لئے ہدایت پرنہیں آتے ۔ (تفسیرنعیمی از مفتی احمدیارخان نعیمی ( ۲:۱۴۲)

Leave a Reply