قرآن کریم کوسائنس کے تابع کرنے والوں کارد بلیغ
{اِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلٰفِ الَّیْلِ وَالنَّہَارِ وَالْفُلْکِ الَّتِیْ تَجْرِیْ فِی الْبَحْرِ بِمَا یَنْفَعُ النَّاسَ وَمَآ اَنْزَلَ اللہُ مِنَ السَّمَآء ِ مِنْ مَّآء ٍ فَاَحْیَا بِہِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِہَا وَبَثَّ فِیْہَا مِنْ کُلِّ دَآبَّۃٍ وَّتَصْرِیْفِ الرِّیٰحِ وَالسَّحَابِ الْمُسَخَّرِ بَیْنَ السَّمَآء ِ وَالْاَرْضِ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّعْقِلُوْنَ}(۱۶۴)
ترجمہ کنزالایمان :بیشک آسمانوں اور زمین کی پیدائش اور رات و دن کا بدلتے آنااور کشتی کہ دریا میں لوگوں کے فائدے لے کر چلتی ہے اور وہ جو اللہ نے آسمان سے پانی اتار کر مردہ زمین کو اس سے جِلادیا اور زمین میں ہر قسم کے جانور پھیلائے اور ہواؤں کی گردش اور وہ بادل کہ آسمان و زمین کے بیچ میں حکم کا باندھا ہے ان سب میں عقلمندوں کے لئے ضرور نشانیاں ہیں ۔
ترجمہ ضیاء الایمان:بیشک آسمانوں اور زمین کی پیدائش اور رات اور دن کی تبدیلی میں اور کشتی میں جو دریا میں لوگوں کے فائدے لے کر چلتی ہے اور اس پانی میں جو اللہ تعالی نے آسمان سے اتارا پھر اس کے ساتھ مردہ زمین کو زندگی بخشی اور زمین میں ہر قسم کے جانور پھیلائے اور ہواؤں کی گردش اور وہ بادل جو آسمان اور زمین کے درمیان حکم کے پابند ہیں ان سب میں یقینا عقل والوں کے لئے نشانیاں ہیں۔
تفسیرخزائن العرفان میں ہے
حضرت سیدی صدرالافاضل سیدنعیم الدین مرادآبادی رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ کعبہ معظمہ کے گرد مشرکین کے تین سو ساٹھ بت تھے جنہیں وہ معبود اعتقاد کرتے تھے انہیں یہ سن کر بڑی حیرت ہوئی کہ معبود صرف ایک ہی ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں اس لئے انہوں نے حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ایسی آیت طلب کی جس سے وحدانیت پر استدلال صحیح ہو اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور انہیں یہ بتایا گیا کہ آسمان اور اس کی بلندی اور اس کا بغیر کسی ستون اور علاقہ کے قائم رہنا اور جو کچھ اس میں نظر آتا ہے آفتاب مہتاب ستارے وغیرہ یہ تمام اور زمین اور اس کی درازی اور پانی پر مفروش ہونا اور پہاڑ دریا چشمے معاون جواہر درخت سبزہ پھل اور شب و روز کا آنا جانا گھٹنا بڑھنا کشتیاں اور ان کا مسخر ہونا باوجود بہت سے وزن اور بوجھ کے روئے آب پر رہنا اور آدمیوں کا ان میں سوار ہو کر دریا کے عجائب دیکھنا اور تجارتو ں میں ان سے باربرداری کا کام لینا اور بارش اور اس سے خشک ومردہ ہو جانے کے بعد زمین کا سر سبزوشاداب کرنا اور تازہ زندگی عطا فرمانا اور زمین کو انواع و اقسام کے جانوروں سے بھر دینا جس میں بیشمار عجائب حکمت و دیعت ہیں اسی طرح ہواؤں کی گردش اور ان کے خواص اور ہوا کے عجا ئبات اور اَبر اور اس کا اتنے کثیر پانی کے ساتھ آسمان و زمین کے درمیان معلق رہنا یہ آٹھ انواع ہیں جو حضرت قادر مختار کے علم و حکمت اور اس کی وحدانیت پر برہان قوی ہیں اور ان کی دلالت وحدانیت پر بے شمار وجوہ سے ہے اجمالی بیان یہ ہے کہ یہ سب امور ممکنہ ہیں اور ان کا وجود بہت سے مختلف طریقوں سے ممکن تھا مگر وہ مخصوص شان سے وجود میں آئے یہ دلالت کرتا ہے کہ ضرور ان کے لئے موجد ہے قادر و حکیم جو بمقتضائے حکمت و مشیت جیسا چاہتا ہے بناتا ہے کسی کو دخل و اعتراض کی مجال نہیں وہ معبود بالیقین واحد ویکتا ہے کیونکہ اگر اس کے ساتھ کوئی دوسرا معبود بھی فرض کیا جائے تو اس کو بھی اس مقدورات پر قادر ماننا پڑے گا اب دو حال سے خالی نہیں یا تو ایجاد و تاثیر میں دونوں متفق الارادہ ہوں گے یا نہ ہوں گے اگر ہوں تو ایک ہی شئے کے وجود میں دو موثروں کا تاثیر کرنا لازم آئے گا اور یہ محال ہے کیونکہ یہ مستلزم ہے معلول کے دونوں سے مستغنی ہونے کو اور دونوں کی طرف مفتقر ہونے کو کیونکہ علت جب مستقلہ ہو تو معلول صرف اسی کی طرف محتاج ہوتا ہے دوسرے کی طرف محتاج نہیں ہوتا اور دونوں کو علت مستقلہ فرض کیا گیا ہے تو لازم آئے گا کہ معلول دونوں میں سے ہر ایک کی طرف محتاج ہو اور ہر ایک سے غنی ہو تو نقیضین مجتمع ہوگئیں اور یہ محال ہے اور اگر یہ فرض کرو کہ تاثیر ان میں سے ایک کی ہے تو ترجیح بلا مرجح لازم آئے گی اور دوسرے کا عجز لازم آئے گا جو اِلٰہ ہونے کے منافی ہے اور اگر یہ فرض کرو کہ دونوں کے ارادے مختلف ہوتے ہیں تو تمانع و تطار دلازم آئے گا کہ ایک کسی شئے کے وجود کا ارادہ کرے اور دوسرا اسی حال میں اس کے عدم کا تو وہ شئے ایک ہی حال میں موجود و معدوم دونوں ہوگی یا دونوں نہ ہوگی یہ دونوں تقدیر یں باطل ہیں ضرور ہے کہ یا موجودگی ہوگی یا معدوم ایک ہی بات ہوگی اگر موجود ہوئی تو عدم کا چاہنے والا عاجز ہوااِلٰہ نہ رہا اور اگر معدوم ہوئی تو وجود کا ارادہ کرنے والا مجبور رہا اِلٰہ نہ رہا لہذا ثابت ہوگیا کہ الہ ایک ہی ہو سکتا ہے اور یہ تمام انواع بے نہایت وجوہ سے اس کی توحید پر دلالت کرتے ہیں۔
(تفسیرخزائن العرفان از سید نعیم الدین مرادا ٓبادی سورۃ البقرہ رقم الآیۃ: ۱۶۴)
شان نزول
وَعَنْ سَعِیدِ بْنِ مَسْرُوقٍ قَالَ: سَأَلَتْ قُرَیْشٌ الْیَہُودَ فَقَالُوا حَدِّثُونَا عَمَّا جَاء َکُمْ بِہِ مُوسَی مِنَ الْآیَاتِ فَحَدَّثُوہُمْ بِالْعَصَا وَبِالْیَدِ الْبَیْضَاء ِ وَسَأَلُوا النَّصَارَی عَنْ ذَلِکَ فَحَدَّثُوہُمْ بِإِبْرَاء ِ الْأَکْمَہِ وَالْأَبْرَصِ وَإِحْیَاء ِ الْمَوْتَی فَقَالَتْ قُرَیْشٌ عِنْدَ ذَلِکَ لِلنَّبِیِّ عَلَیْہِ السَّلَامُ ادْعُ اللَّہَ أَنْ یَجْعَلَ لَنَا الصَّفَا ذَہَبًا فَنَزْدَادَ یَقِینًا وَقُوَّۃً عَلَی عَدُوِّنَا، فَسَأَلَ رَبَّہُ ذَلِکَ فَأَوْحَی اللَّہُ تَعَالَی إِلَیْہِ أَنْ یُعْطِیَہُمْ وَلَکِنْ إِنْ کَذَّبُوا بَعْدَ ذَلِکَ عَذَّبْتُہُمْ عَذَابًا لَا أُعَذِّبُہُ أَحَدًا مِنَ الْعَالَمِینَ فَقَالَ عَلَیْہِ السَّلَامُ: ذَرْنِی وَقَوْمِی أَدْعُوہُمْ یَوْمًا فَیَوْمًا فَأَنْزَلَ اللَّہُ تَعَالَی ہَذِہِ الْآیَۃَ مُبَیِّنًا لَہُمْ أَنَّہُمْ إِنْ کَانُوا یُرِیدُونَ أَنْ أَجْعَلَ لَہُمُ الصَّفَا ذَہَبًا لِیَزْدَادُوا یَقِینًا فَخَلْقُ السموات وَالْأَرْضِ وَسَائِرِ مَا ذَکَرَ أَعْظَمُ.
ترجمہ :حضرت سیدناسعید بن مسروق رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ قریش نے یہودیوں سے سوال کیاکہ ہمیں بتائوکہ حضرت موسی علیہ السلام تمھارے پاس کونسی نشانیاں لائے؟ انہوںنے بتایاکہ وہ عصااوریدبیضالائے تھے ۔ انہوںنے نصاری سے سوال کیاکہ تمھارے پاس حضرت سیدناعیسی علیہ السلام کیالائے ؟ توانہوںنے جواب دیاکہ کوڑھی اوربرص والے مریض کو شفادیتے اورمردے زندہ کردیتے تھے ، قریش نے آکرحضورتاجدارختم نبوت ﷺسے کہا: آپ اللہ تعالی سے دعاکریں کہ یہ صفاپہاڑ سونابن جائے توہمارے یقین میں اضافہ ہوجائے گاتواورہم دشمن پرقوی ہوجائیں گے ۔ حضورتاجدارختم نبوت ﷺنے اللہ تعالی کی بارگاہ میں عرض کیا: تواللہ تعالی نے فرمایاکہ انہیں یہ عطاکردیاجاتاہے لیکن انہوںنے اس کے بعد تسلیم نہ کیاتوانہیں ایساعذاب دوں گاجو کائنات میں کسی کونہیں دیا۔ توحضورتاجدارختم نبوت ﷺنے عرض کیا: مجھے اورمیری قوم کو رہنے دے ، میں روزبروزانہیں دعوت دیتارہوں گاتواللہ تعالی نے یہ آیت کریمہ نازل فرمائی اوران پر آشکارکیااگرتم یہ چاہتے ہوکہ میں ان کے لئے صفاکوسونابنادوںتاکہ ان کے یقین میں اضافہ ہوجائے توآسمانوں اورزمینوں اوردیگرکی تخلیق تواس سے بھی عظیم اوربڑی ہے ۔
(التفسیر الکبیر:أبو عبد اللہ محمد بن عمر بن الحسن بن الحسین التیمی الرازی(۴:۱۵۴)
حضرت سیدناشیخ مجددالف ثانی رحمہ اللہ تعالی لکھتے ہیں
بشیخ عبداللہ درمنع تفسیروتاویل آیات قرآن برطبق مذاق فلاسفہ ،سلمکم اللہ تعالی وعافاکم عن البلیات کتاب تبصیرالرحمن راکہ مرسل داشتہ بودندبعضے از مواضع آن رامطالعہ نمودہ واپس فرستاد مکرمامصنف ایں کتاب خیلے میل بمذہب فلاسفہ دارد وتردیک است کہ حکماراعدیل انبیاء کرام سازد علیہم الصلوۃ والتسلیمات آیہ درسورہ ہود بنظردرآمد کہ بیان ِ آنرابطرزحکماء کہ خلاف طور ِ انبیاء است علیہم الصلوۃ والتسلیمات کردہ است وتسویہ درمیان قول انبیاء وحکماء دادہ وگفتہ است دربیان کریم اولائک الذین لیس لھم فی الآخرۃ باتفاق الانبیاء والحکماء الاالنار الحسی والعقلی باوجود بااجماع انبیاء علیہم الصلوۃ والتسلیمات اتفاق حکماء چہ گنجائش داردودرعذاب اخروی قول ِ شان راچہ اعتباراست علی الخصوص کہ مخالف قول انبیاء بود علیہم الصلوۃ والتسلیمات فلاسفہ کہ عذاب عقلی اثبات می نمایندمقصود ِ شان ِ رفع عذاب حسی است کہ اجماع انبیاء برثبوت آں واقع شدہ است ودرمواضع دیگرآیتہائے قرآنی راموافق مذاق حکماء بیان مے کندہرچندمخالف مذہب ملیین بود مطالعہ این کتاب بے ضررہائے خفیہ بلکہ جلیہ نیست اظہارایں معنی لازم دانسہ بچند کلمہ مصدع گشت والسلام۔
ترجمہ :فلاسفہ کے ذوق کے موافق آیات قرآنی کی تاویل وتفسیرکرنے سے منع کرنے کے بیان میں ۔ شیخ عبداللہ رحمہ اللہ تعالی کی طرف صادرفرمایا۔اللہ تعالی آپ کو آفات وبلیات سے سلامتی اورعافیت بخشے ۔ کتاب’’تبصیرالرحمن‘ جو آپ نے بھیجی تھی ، اس کو بعض مقامات سے مطالعہ کرکے واپس بھیج دیاہے ، اس کتاب کامصنف فلاسفہ کے مذہب کی طرف بہت زیادہ میلان رکھتاہے اورقریب ہے کہ یہ حکماء کوانبیاء کرام علیہم السلام کے برابرکردے ۔ سورہ ہود کی آیت نظرآئی جس کابیان اس نے فلاسفہ کے طرز پر کیاہے ، جو سراسرانبیاء کرام علیہم السلام کے طرز کے خلاف ہے ۔ حکماء وانبیاء کرام علیہم السلام کے اقوال کوبرابرکیاہے اوراس آیت کریمہ میں اس طرح کہا{اولائک الذین لیس لھم فی الآخرۃ باتفاق الانبیاء والحکماء الاالنار الحسی}ترجمہ : یہ وہ لوگ ہیں جن کاآخرت میں سوائے آگ کے کوئی حصہ نہیں ، انبیاء کرام علیہم السلام کے نزدیک آگ سے مراد آگ حسی ہے ۔ اورحکماء کے اتفاق سے آگ عقلی ہے ۔ انبیاء کرام علیہم السلام کے اجماع کے باوجود حکماء کے اجماع کی کیاگنجائش ہے اورعذاب آخرت میں ان حکماء کے قول کاکیااعتبار ہے ۔ خاص کرجب انبیاء کرام علیہم السلام کے قول شریف کے مخالف فلاسفہ جو عذاب عقلی ثابت کرتے ہیں اس سے عذاب حسی کارفع کرنامقصود ہے ۔ جس کے ثبوت میں انبیاء کرام علیہم السلام کااجماع ہے ۔ اسی طرح اوربھی کئی مقامات پر آیات قرآنی کو حکماء وفلاسفہ کے مذہب کے مطابق بیان کرتاہے ۔اگرچہ مذہب ملیین یعنی اہل سنت کے مذہب کے مخالف ہی ہو، یادرہے کہ اس کتاب کامطالعہ پوشیدہ اورظاہری ضررسے خالی نہیں ، چونکہ اس امرکااظہارضروری تھااس لئے چندکلمات لکھ کر آپ کو تکلیف دی گئی ۔
(مکتوبا ت امام ربانی حصہ نہم دفترسوم (۲:۹۹)
ا س سے آپ اندازہ لگاسکتے ہیں کہ ہمارے ائمہ کرام رحمہ اللہ تعالی کیسے ان کے غلیظ فنون کی تحقیرکرتے تھے کہ فرمایاکہ کتاب ہی ہم اپنے پاس نہیں رکھتے ، بس چندایک مقامات دیکھے ہیں اس سے ہی معلوم ہوگیاکہ یہ شخص بے دین ہے لھذابے دین کی کتاب بھی اپنے پاس نہیں رکھی۔ اوراس سے یہ بھی معلوم ہواکہ حضرت سیدنامجددالف ثانی رضی اللہ عنہ نے اس بات پر جلال کااظہارفرمایاکہ اس نے جب انبیاء کرام علیہم السلام کاقول شریف پیش کیاتو پھرکیاوقعت ہے فلاسفہ جیسے بے دین لوگوں کی کہ ان کاقول حضرات انبیاء کرام علیہم السلام کے کلام کے مقابل پیش کیاجائے۔
امام احمدرضاحنفی الماتریدی المتوفی : ۱۳۴۰ھ) رحمہ اللہ تعالی کاقول
اقول:لاحاجۃ بنا الی تطبیق الشرع باصول الطب الفلسی بل نؤمن بالشرع ونجری نصوصہ علی ظواھرھا فان وافقھا الطب وغیرہ فذاک والارمینا المخالف بالجدار کائنا ماکان والحمدﷲرب العٰلمین۔
ترجمہ:امام احمدرضاحنفی الماترید ی رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ میں کہتاہوں:شریعت اور طب فلسفی کے اصول وقواعد میں ہمیں مطابقت کرنے کی کوئی ضرورت نہیں بلکہ ہم شریعت پرایمان رکھتے ہیں اور اس کے نصوص کوظاہر پرجاری کرتے ہیں پس اگر طب وغیرہ شرعی اصولوں کی موافقت کرے توٹھیک ہے ورنہ مخالف چیزخواہ کوئی بھی ہو اسے پھینک دیں گے، اور تمام خوبیاں خداکے لئے ہیں جو تمام جہانوں کاپروردگار ہے ۔
(فتاوی رضویہ لامام احمدرضاخان ( ۲۴: ۲۷۶)
آج کے لبرل وبے دین طبقہ کو دیکھیں تونعوذباللہ من ذلک یہ ہروہ چیز چھوڑ رہے ہیں جو ان کی سائنس کے موافق نہیں ہوتی ۔ چاہے وہ رب تعالی کاقرآن کریم ہی کیوں نہ ہویاوہ حضورتاجدارختم نبوت ﷺکافرمان شریف ہی ہو۔ مگرہمارے امام احمدرضاحنفی الماتریدی رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ ہم ہر وہ بات اٹھاکردیوار سے ماردیں گے جو بھی بات ہمارے حبیب کریم ﷺکی شریعت کے خلاف ہوگی اوراس کوکسی صورت نہیں مانیں گے ۔ کاش آج ہمارے اہل اسلام کو اس طرح کاایمان نصیب ہوجائے۔
معارف ومسائل
(ا) اس آیت مبارکہ میں یہ بیان کیاگیاہے کہ اس میں روشن دلائل ان لوگوں کے لئے کارآمدہیں جن کی عقل کی آنکھ بیناہے ، جس کے پاس چشم بینانہ ہواوراس کاقلب وباطن تاریک ہووہ اندھاہے اوراس سے وہ فائدہ حاصل نہیں کرسکتا۔
(۲) معجزہ شق القمرسے مکرمہ مکرمہ سے دس ہزارکلومیٹردور مالیمار کاراجہ اسلام قبول کرلیتاہے مگرجو لوگ مکہ مکرمہ میں ہی رہتے تھے وہ محروم رہتے ہیں اوران کو یہ سعادت نصیب نہیں ہوتی۔
(۳)ایک عام اور بڑی دلیل تو یہی ہے کہ قرآن کوئی سائنس کی کتاب نہیں ہے۔قرآنِ مجیدکو طب، فلکیات، جیومیٹری، کیمیا یا جادُو ٹوٹکوں کی گائیڈ بک کے طور پر نہیں بھیجا گیا، بلکہ کتابِ الہدیٰ کے طور پر نازل کیا گیاہے تاکہ انسانیت کو اندھیروں سے نکال کر، نور کی طرف رہنمائی کرے۔{ یُخْرِجُھُمْ مِنَ الظُّلَمَاتِ اِلی النور }سائنسی تفسیر کے حق میں سورہ انعام کی آیت کا اکثر حوالہ دیا جاتا ہے:{مَا فَرَّطْنَا فِی الْکِتٰبِ مِنْ شَیْئٍ}ہم سے کوئی ایک بھی چیز الکتاب میں نہیں چھوٹی۔
شیخ حامدکمال الدین لکھتے ہیں کہ سائنسی تفسیر کا تصور اس وجہ سے بھی قابل عمل نہیں ہے کہ سائنس تغیر پذیر ہے جبکہ قرآن اٹل اور ناقابل تغیر ہے۔ لہٰذا قرآن کی تفسیر سائنس کی روشنی میں کرنا انتہائی غلط بات ہے کیونکہ وقت کے ساتھ ساتھ صرف سائنسی اکتشافات ہی نہیں، سائنسی اُصول و نظریے بھی بدلتے رہتے ہیں۔ آج کا مسلمہ نظریہ کل متروک ہوجاتا ہے۔ سائنسی تفسیر کے حق میں شائع ہونے والے لٹریچرکا تجزیہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ بعض آیات کی تشریح میں سو سال پہلے جن سائنسی نظریوں کا حوالہ دیا جاتا تھا اب اُن حوالے سے احتراز کیا جاتا ہے کیونکہ وہ متروک ہوچکے ہیں۔ سو تعجب کی بات نہیں کہ سو سال کے بعد قرآن کی جو سائنسی تفسیریں لکھی جائیں گی اُن میں آج کے سائنسی نظریوں کے حوالے نہیں دیے جائیں گے۔
اس لیے کہ وحی اور سائنس میں مطابقت دکھانے کی کوشش دوسرے مذاہب بالخصوص عیسائیت کے دانشور بھی کرتے رہے ہیں۔ عیسائی مصنفین نے ایسی بے شمار کتابیں لکھی ہیں جن میں یہ بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ جدید سائنس بائبل کے ایک ایک حرف کو ثابت کرتی ہے اور توقع کے مطابق عیسائی مصنفین نے مسلم مصنفین کی قرآن اور سائنس میں ہم آہنگی ثابت کرنے کی کوشش پر تنقید کی ہے۔ مثال کے طور پر ولیم کیمبل نے اپنی تصنیف تاریخ اور سائنس کی روشنی میں قرآن اور بائبل میں مورس بکائے کے پیش کردہ حقائق و معلومات کو سراسر مختلف زاویہ نظر سے دیکھا پرکھا ہے اور وہ ایسے نتائج پر پہنچا ہے جو بائبل کی حمایت و تائید کرتے ہیں اور قرآنِ مجید کی حقانیت پر شبہ ڈالتے ہیں۔ سائینٹفک حقائق و معلومات کو کھینچ تان کر اپنے اپنے مذہب کے مطابق ثابت کرنے کے لیے عیسائی اور مسلمان مصنفین جو جو طریقے اختیار کرتے ہیں اُن کا تقابلی مطالعہ کیا جائے تو بہت دلچسپ لگے گا۔ کم از کم ایک ہی مواد کی مختلف تعبیر و تفسیر سے وحی اور سائنس کو ہم آہنگ کرنے کی مشق کے جواز کے بارے میں کئی سوال پیدا ہوں گے۔
(۴)سائنسی تفسیر کے ضمن میں ایک اور اہم حقیقت یہ ہے کہ اس کے اکثر و بیشتر حامیوں کو مفسر کی حیثیت سے مناسب اعتبار و استناد حاصل نہیں۔ اور لطف کی بات یہ ہے کہ وہ اپنی اس کمزوری کے لیے اظہارِ معذرت بھی نہیں کرتے، بلکہ اپنی اس سوچ پر فخر کرتے ہیں کہ سائنسی تفسیر پیش کرنے والے کے پاس دو انتہائی اہم قابلیتوں کا ہونا کافی ہے۔ ایک تو سائنسی اکتشافات کی کچھ نہ کچھ معلومات رکھنے کی قابلیت اور دوسرے سائنسی اکتشافات کو آیاتِ قرآنی سے ہم آہنگ کرنے بلکہ اُن سے اخذ کرنے کی قابلیت۔ سائنسی تفسیر کے ضمن میں ایک اور قابل ذکر حقیقت یہ ہے کہ اس کے لکھنے کی حوصلہ افزائی عموماً سرکاری سرپرستی میں کی جاتی ہے۔ ان دونوں حقیقتوں کا امتزاج دنیائے اسلام میں حکومتوں کے زیراہتمام منعقد ہونے والی کانفرنسوں اور سیمیناروں میں دیکھنے میں آتا ہے۔ ان سرکاری تقریبات میں جن کی صدارت کے فرائض عموماً صدرِ مملکت یا وزیر مذہبی اُمور انجام دیتے ہیں فاضلانہ اور محققانہ مقالات بڑے بڑے بیوروکریٹ اور افسرانِ بالا پیش کرنے کا اعزاز حاصل کرتے ہیں جن کی اپنی زندگی فضل و تحقیق سے یکسر محروم ہوتی ہے۔ مذکورہ حقائق کی مثال ایسی ہے، جیسے صحرا میں سیلاب۔ یہ نہ تو کسی ٹھوس روایت سے پیدا ہوتے ہیں اور نہ کوئی نئی روایت قائم کرتے ہیں۔
جیسا کہ اوپر ذکر ہوا، متعدد آیاتِ قرآنی میں ایسے مظاہر کے حوالے موجود ہیں جو سائنسی تفسیر و تعبیر کے لیے کافی امکانات رکھتے ہیں۔ جس طرح ایک قانون دان جب قرآن کا مطالعہ کرتا ہے تو قدرتی طور پر ایسی آیات پر زیادہ توجہ دیتا ہے جو قانون سازی سے متعلق ہیں اور پھر اُن کے مضمرات پر غور و فکر کرتا ہے۔ اسی طرح جب ایک ماہرِ حیاتیات قرآن مجید کا مطالعہ کرتا ہے تو وہ مسائل حیات مثلاً رحم میں پلنے والے جنین کے ارتقائی مراحل سے متعلق آیات پر زیادہ دلچسپی اور سنجیدگی سے توجہ دے گا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ قانون دان کی دلچسپی اپنی جگہ، حیاتیات دان کی دلچسپی اپنی جگہ۔ ایک کی دلچسپی کو دوسرے کی دلچسپی پر تفوق حاصل نہیں ہے۔ لسانی نقطہ نظر سے یہ عین ممکن ہے کہ ایک لفظ یا جملے یا بیان کے معنی کی کئی کئی تہیں ہوں۔ ایک تہ ایک خاص عہد میں لوگوں کے لیے بامعنی ہو جب کہ آنے والے کسی اور عہد میں پہلی تہ کی نفی کیے بغیر لوگوں کے لیے کوئی اور تہ بامعنی اور بامقصد ہو۔
ممکن ہے کہ سائنسی تفسیر کے ممکن العمل نہ ہونے کی وجہ سے اس منصوبے کی قدرتی تحدیدات ہوں لیکن درحقیقت بڑی وجہ یہ ہے کہ اب تک قرآن مجید کی کوئی قابل اعتماد سائنسی تفسیر نہیں لکھی گئی۔
(۵)سائنسی تفسیر کی تائید و حمایت میں دو محرکات پوشیدہ ہیں۔ پہلا محرک جو نوعیت کے لحاظ سے منفی ہے یہ ظاہر و ثابت کرنے کی خواہش ہے کہ قرآن اور سائنس میں کوئی باہمی کش مکش نہیں ہے۔ دوسرا محرک جو نوعیت کے لحاظ سے مثبت ہے اعجاز القرآن کو ظاہر و ثابت کرنے کی خواہش ہے یعنی یہ ثابت کرنے کی خواہش کہ بالآخر قرآن میں قابل تصدیق سائنسی معلومات کی موجودگی قرآن کو منزل من اللہ قرار دے گی کیونکہ ایسی کتاب وحی الٰہی سے ہی ظہور میں آسکتی ہے۔ یہ دونوں محرکات اپنے آخری نتیجے میں ایک ہی سکے کے دو رُخ ہیں۔ یہاں میں ہر رُخ کی الگ الگ جھلک دکھانا چاہوں گا۔
کلامِ الٰہی اور سائنسی اکتشافات کے درمیان موافقت و مطابقت پیدا کرنے کا منصوبہ از روئے تعریف دفاعی نوعیت کا منصوبہ ہے۔ وحی اور عقل میں موافقت پیدا کرنے کی ایسی ہی ذہنی ورزش پہلی مرتبہ مسلمان مفکروں نے عباسیوں کے عہد میں اختیار کی تھی جب وہ یونانی فلسفے کو اسلامی عقائد سے ہم آہنگ کرنے پر مجبور ہوگئے تھے۔ اُس زمانے میں بحث مباحثے کا میدان الٰہیات تھا آج سائنس ہے لیکن ذہنی ورزش کی نوعیت بالکل ویسی ہی ہے۔ جدید سائنس نے جو چیلنج بنیادی طور پر عیسائیت کو دیا تھا آج وہ تمام مذاہب کو بلکہ رُوح مذہب کو دیا جارہا ہے۔ مسلمان اس چیلنج کی نوعیت و ماہیت کو سمجھیں یا نہ سمجھیں، لیکن اس کی قوت و طاقت کو پوری شدت سے محسوس کرتے ہیں۔ بعض مسلمانوں کا خیال یہ ہے کہ اسلام کا مناسب دفاع یہ ثابت کرنے میں ہے کہ قرآن اور سائنس میں کوئی کش مکش نہیں ہے بلکہ ایک قدم بڑھ کر یہ ثابت کرنے میں کہ قرآن پہلے ہے اور جدید سائنس بعد میں۔
(۶)جہاں تک اعجاز القرآن کا تعلق ہے میرے خیال میں اسے برحق ثابت کرنے کی کوششیں اصولاً غلط فہمی پر مبنی ہیں۔ اعجاز القرآن کے تصور نے مسلمان دانشوروں کو نسلاً بعد نسلٍ مسحور کیے رکھا ہے جس کے نتیجے میں بے شمار کتب اعجاز القرآن کے اثبات میں وجود میں آئی ہیں۔ میرا خیال ہے کہ خود قرآن نے بالکل ابتدا میں منکرین عرب کو جو چیلنج دیا تھا کہ اگر وہ اس کتاب کو کلامِ الٰہی ماننے کے لیے تیار نہیں تو وہ اس جیسا کلام بنا کر دکھائیں اور جب منکرین قرآن جیسا کلام پیش کرنے سے قاصر رہے تو اعجاز القرآن ثابت کرنے کا باب ہمیشہ کے لیے بند ہوگیا اور ہر نئے دور میں یہ باب از سرِ نو کھولنے کی ضرورت نہ رہی۔ یہ نظریہ کہ وقت کے ساتھ ساتھ علم میں ہونے والی ترقیاں قرآن کو سچا اور برحق ثابت کردیں گی اس مقالے میں پیش کردہ رائے کے خلاف نہیں ہے یعنی یہ کہ قرآن کو تغیر پذیر سائنس کا یرغمال نہیں بنایا جاسکتا۔
(۷) یہ ایک عجیب و غریب حقیقت ہے کہ قرونِ اُولیٰ میں، جب مسلمانوں نے زبردست سائنسی سرگرمی کا مظاہرہ کیا اُس وقت جو تفاسیرِ قرآن لکھی گئیں اُن میں بالعموم سائنس کے حوالے موجود نہیں ہیں۔ اس کے برعکس آج جب کہ مسلمانوں کی سائنسی سرگرمیاں زوال پذیر ہیں بہت سے مسلم مفکروں نے اسلامی عقائد کے تحفظ اور ہمدردی کا ذمہ دار سائنس کی ذات میں ڈھونڈ لیا ہے۔ آج سائنسی تفسیر کا سب سے بڑا سہارا جدید سائنس بن گئی ہے، جو اپنی اصلیت اور ترقی کی تاریخ کے باوجود مغربی تہذیب کی پیداوار ہے۔ اہم اور بنیادی سوال یہ ہے کہ آیا سائنس اخلاقی اقدار کی حامل ہے یا اخلاقی اقدار سے بے نیاز ہے اس امر پر یقین کرلینے کے مضبوط وجوہ اور دلائل موجود ہیں کہ سائنسی کلچر اپنے تصورات میں اور اپنے نفاذ میں بھی اُس تہذیب کے تانے بانے سے جڑا ہوا ہے جس کی یہ پیداوار ہے۔ سائنس کوئی مجرد یا بے چہرہ چیز نہیں ہے۔ اس کی بنیاد معاشرتی و تہذیبی نظام سے اخذ کردہ چند پیشگی مفروضات پر مبنی ہے۔ سائنس کا ایک کردار، ایک مزاج، ایک تشخص ہے۔ میرا خیال ہے اپنی موجودہ شکل میں سائنسی تفسیر اسلام کے نام پر مغربی سائنس کے رنگ میں رنگی جائے گی۔ بالفاظِ دیگر یہ اپنی اصلیت کی توثیق سے محروم ہوجائے گی۔ اصلیت کی توثیق سے ہماری مراد ہے تحریک کی اپنی اصلیت، اپنا تناظر، اپنی تنظیم، اپنی تعمیر۔ قرآن کی سائنسی تفسیر کا معتدبہ حصہ اس تعریف کی میزان پر پورا اُترنے سے قاصر رہے گا۔
(۸)مذکورہ بالا اُصول کی روشنی میں (یعنی یہ اُصول کہ قرآن میں مذکور سائنسی علم کے بارے میں جو بھی نظریہ اختیار کیا جائے اُس کا قرآن میں مذکور دوسری نوعیت کے علم سے ہم آہنگ ہونا ضروری ہے)بجا طور پر یہ بات سامنے آتی ہے کہ قرآن قدرت کے سائنسی مطالعے کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ قرآن تاریخ کی کتاب نہیں ہے لیکن مطالعہ تاریخ کی ترغیب ضرور دیتا ہے یہ بات قانون پر بھی صادق آتی ہے اور دوسرے علوم پر بھی۔ قرآن نہ صرف یہ کہ قانون وضع کرتا ہے یا تاریخی واقعات کی طرف اشارہ کرتا ہے بلکہ ان کی طرف تحریک دیتا ہے۔ قرآن نے اسلام کی ابتدائی نسلوں کو تحریک دی بصیرت اور جوش کے ساتھ جس کی بنیاد پر مسلمانوں نے اپنی ایک مابہ الامتیاز فکری و عقلی روایت قائم کی۔ اپنی روایت قائم کرتے وقت مسلمانوں نے اپنے زمانے کے ماحول سے بھی اثرات قبول کیے اُس زمانے کے غالب افکار اور فکری تحریکوں سے استفادہ کیا۔ میں اس میں کوئی حرج یا عار محسوس نہیں کرتا کہ آج بھی مسلمان اپنے موجودہ فکری ماحول سے جس کا غالب عنصر سائنس ہے استفادہ کریں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنیواضح نشانیوں پر تفکر و تدبر کا جو حکم دیا ہے وہ آج بھی اپنی پوری قوت و شان کے ساتھ موجود ہے۔